Author: رفیع اللہ میاں

  • سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے
    ڈریٹن کی آنکھیں کھلیں تو اسے شدید تکلیف کا احساس ہونے لگا۔ اس نے زندگی میں کبھی غسل آفتابی نہیں کیا تھا، سر سے پیر تک اس کی جلد میں جلن اور دکھن ہو رہی تھی۔ وہ رو پڑا: ’’اوہ … بہت تکلیف ہو رہی ہے!‘‘
    قریب سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص چھتری تھامے گزرا، اس نے ڈریٹن کو تکلیف میں دیکھ کر مشورہ دیا: ’’بیٹا، تم نے سورج کی کرنوں سے خود کو نادانی میں بری طرح جلا دیا ہے، جاؤ اور ایلوویرا نامی پودے کا عرق اپنے جسم پر ملو، اس سے تمھیں درد سے نجات مل جائے گی۔‘‘
    ڈریٹن بجائے شکریہ ادا کرنے کے، اس ادھیڑ عمر شخص سے بدتمیزی کرنے لگا۔ ’’اوئے بڈھے، کیا میں نے تم سے مشورہ مانگا ہے، اپنا کام کرو، چل نکل یہاں سے۔ میں کوئی بے وقوف ہوں، پتا ہے مجھے کہ خود کو سورج کی تیز روشنی سے جلا چکا ہوں۔‘‘ ادھیڑ عمر شخص نے برا سا منھ بنا کر کہا: ’’آج رات تمھیں اس کا اصل مزا آئے گا، اور میں اس کا سوچ کر ہی ابھی سے لطف لے رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا اور ڈریٹن نے غصے سے اپنا تولیہ جھٹکے سے اٹھا لیا، جس کے ساتھ ریت بھی اڑی، جو آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں پر جا گری۔ ایک بچہ روتے ہوئے بولا: ’’ممی، اس احمق آدمی نے میرے سینڈوچ پر ریت جھاڑ دی ہے۔‘‘
    ڈریٹن نے نہایت بدتمیزی سے قریب آ کر بچے کا خالی ٹفن باکس اٹھا کر اس میں ریت بھری اور اسے بچے کے بالوں میں الٹ دیا۔ خالی باکس دوبارہ بھر کر پکنک پر آئی ہوئی فیملی کے کھانے پینے کے سامان سے بھری ٹوکری میں الٹ دیا اور بچے کی ممی سے بولا: ’’اپنے اس چوزے کو سمجھاؤ کہ چوں چوں بند کرے، نہیں تو ابھی اس کا کچومر نکال دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹفن سمندر میں اچھال دیا، اور پھر ہوٹل کی طرف چل دیا۔
    کچھ ہی فاصلے پر کاسمیٹک کی ایک دکان نظر آئی تو اس میں داخل ہوا، اس پر لکھا تھا ’’سن اینڈ فن۔‘‘اس کے بدن پر اب بھی ریت چپکی ہوئی تھی جو دکان کے اندر بھی گر رہی تھی۔ سیلز مین کو یہ دیکھ کر بہت برا لگا، اس نے آگے بڑھ کر نہایت مؤدب لہجے میں کہا: ’’سر، براہ مہربانی آپ باہر جا کر اپنے جسم سے ریت جھاڑ کر آئیں، ہم آپ کو خوش آمدید کہیں گے۔‘‘
    ڈریٹن نے چونک کر اس کی طرف دیکھا: ’’ارے تم اتنے مزاحیہ لہجے میں کیوں بول رہے ہو، کیا تم احمق ہو؟‘‘
    سیلز مین نے دیگر کسٹمرز کی موجودگی میں اپنی بے عزتی محسوس کی اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا: ’’آپ کو میرے لہجے میں کیا سروکار ہے؟ آپ باہر جائیں اس سے پہلے کہ میں پولیس کو طلب کروں۔‘‘
    ڈریٹن نے مسکرا کر زبردست جھرجھری لی اور تمام ریت دکان کے اندر ہی جھاڑ دی، اور پھر اطمینان سے دکان سے نکل کر ایک بار پھر سمندر کی طرف چل پڑا۔ اس نے دیکھا کہ بچے نے اپنا ٹفن اٹھا لیا تھا۔ ڈریٹن نے اس کے ہاتھ سے ٹفن چھینا اور اس میں پھر ریت بھر دی۔ بچے کی ماں نے جلدی سے بچے کو ایک طرف اپنی آڑ میں چھپا لیا۔ ڈریٹن مڑا اور دکان کے اندر چلا گیا۔ اس نے ہاتھ پیچھے رکھے تھے، سیلز مین اسے دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور بولا: ’’آپ پھر آ گئے اندر، فوراً باہر نکل جائیں۔‘‘
    دیگر کسٹمرز اسے دیکھ کر تیزی سے باہر نکلے۔ انھیں ڈر لگا تھا کہ کہیں یہ بد مست بھینسا انھیں نشانہ نہ بنا دے۔ ڈریٹن نے سیلز مین سے کہا: ’’ٹھیک ہے چلا جاتا ہوں لیکن پہلے آپ یہ بتا دیں کہ آپ کا لہجہ کس قسم کا ہے؟‘‘
    سیلز مین نے ایک لمحہ ٹھہر کر نرمی سے جواب دیا: ’’یہ کرول لہجہ ہے، میرے ورثے کا ایک حصّہ!‘‘
    ’’اوہ…‘‘ ڈریٹن نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا اور اسے دھکا دیتے ہوئے اسی کے لہجے میں نقل اتاری: ’’تو ورثے کی زبان میں بات ہو رہی ہے۔‘‘
    سیلز مین اس کے دھکے سے لڑکھڑا گیا تھا، اور سنبھلنے سے پہلے ہی ڈریٹن نے اس کے سَر پر ریت ڈال دی۔ جس سے اس کے بال، کپڑے اور فرش گندا ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے دروازہ کھول کر باہر چلا گیا۔ ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے اس دوسری دکان نظر آ گئی، وہ اندر داخل ہوا اور ریک سے ایلوویرا جل، لوشن اور سن اسکرین اٹھا کر تولیے میں لپیٹ لیے۔ سیلز مین کسی دوسرے کسٹمر کے ساتھ مصروف تھا اس لیے وہ اطمینان کے ساتھ باہر نکل گیا، اس کے بعد وہ ہوٹل پہنچ کر نہایا۔ نہانے کے بعد اس نے سوچا کہ شاید ان چالاک بچّوں نے اب تک موتی حاصل کر لیا ہو گا، لیکن کیا میں ان کو کہیں ڈھونڈوں یا واپس گیل ٹے چلا جاؤں۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے جانا چاہیے، وہ خاصا دولت مند ہو کر لوٹ رہا تھا۔ جانے کا فیصلہ کر کے اس نے ہوٹل کے کمرے میں موجود ہر قیمتی شے کو پکڑا اور واپسی کا منتر پڑھنے لگا۔
    جب گھومنا بند ہو گیا تو اس نے خود کو اینگس کے گھر کے باہر پایا، بارش ہو رہی تھی، ذرا ہی دیر میں وہ بھیگ گیا۔ سورج کی تیز روشنی سے اس کی جلد دکھ رہی تھی اور بارش کے پانی سے اس کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔ اس نے اپنے کپڑے سیچلز ہی میں چھوڑے تھے اور شارٹس، جوتوں اور ایک ٹی شرٹ میں چلا آیا تھا، اس لیے وہ تیز رفتاری کے ساتھ بی اینڈ بی کی طرف دوڑنے لگا۔ وہ آندھی اور طوفان کی طرح دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور ایلسے اس کے ساتھ ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ وہ اس کی پروا نہ کرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں داخل ہوا اور ایک دھماکے سے درازہ بند کر دیا۔ ایلسے نے حیرت سے کہا تھا: ’’ارے ڈریٹن، تم تو جلے ہوئے پورے!‘‘
    (جاری ہے…)
  • ننانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ننانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    فیونا چیخ کر بولی: ’’اندر غوطہ لگاؤ، لہر کی واپسی تک پانی کے اندر ہی رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے غوطہ لگا لیا۔ ذرا دیر بعد وہ سطح پر ابھرے اور سانس لینے لگے۔
    دانیال بولا: ’’مجھے غار کا دہانہ اب نظر نہیں آ رہا ہے۔ غار پانی سے مکمل طور پر بھر چکا ہے، اب تو ہمیں پانی کے اندر ہی اندر تیر کر باہر نکلنا ہے۔‘‘ جبران نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’اور اس صدفے کا کیا کروں، میں تو اس کے ساتھ تیر نہیں سکتا۔‘‘
    ’’یہ مجھے دے دو۔‘‘ فیونا نے کہا۔ ’’میں خود کو پھر بڑا کرنے والی ہوں، تم دونوں میری شرٹ مضبوطی سے پکڑ لینا۔ وہ دیکھو ایک اور لہر آ رہی ہے، جب یہ واپس ہونے لگے تو ہمیں بھی اس کے ساتھ ہی باہر نکلنا ہے … سنبھل جاؤ اب!‘‘
    فیونا نے جیسے ہی جملہ پورا کیا، لہر نے انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں نے لمبی سانس لی اور فیونا کی شرٹ پکڑ لی۔ انھیں محسوس ہوا کہ فیونا کا قد تیزی کے ساتھ بڑا ہونے لگا ہے۔ لہر واپس ہونے لگی تو فیونا بھی ان دونوں کو ساتھ لے کر دہانے کی طرف تیرنے لگی۔ دہانے پر پہنچ کر دونوں کو اچانک ایسا لگا کہ انھیں پھر کسی عظیم الجثہ آکٹوپس نے گھیر لیا ہے۔ جبران چیخا: ’’فیونا، لہر آ رہی ہے اور یہ تو بہت ہی بڑی ہے۔‘‘
    ’’گھبراؤ نہیں۔‘‘ فیونا نے اطمینان سے کہا: ’’اب ہم غار سے نکل آئے ہیں اور میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں۔‘‘ دونوں نے دیکھا کہ فیونا کی ٹانگ آکٹوپس کی ٹانگ سے بھی بڑی ہو گئی ہے۔ اس نے اطمینان سے چند ہی قدم اٹھائے اور وہ ساحل پر پہنچ گئے۔ جب وہ لہروں کی پہنچ سے دور ہو گئے تو فیونا نے دونوں کو نیچے اتارا اور اپنی عام جسامت میں آ گئی۔
    ’’اوہ فیونا، تم تو کسی وھیل جتنی بڑی ہو گئی تھی۔‘‘ جبران نے ریت پر اترتے ہی حیرت کا اظہار کیا۔ انھوں نے مڑ کر غار کی طرف دیکھا لیکن اب وہاں پانی ہی پانی تھا، غار پانی کے اندر مکمل طور پر ڈوب چکا تھا۔
    ’’ٹھیک ہے فیونا۔‘‘ جبران کہنے لگا: ’’اب اس صدفے کو توڑو اور اس میں سے موتی نکال لو، تاکہ ہم یہاں سے جلد از جلد روانہ ہو سکیں، ہمیں جیکس کو بھی ڈھونڈنا ہے۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں
    تھوڑی دیر بعد وہ آکٹوپس، جو اس کی تلاش میں تھا، کے سر پر نمودار ہو گئی۔ اس نے سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی آنکھ میں گھسیڑ دیا۔ آکٹوپس نے درد سے مچل کر ایک ٹانگ اسے پکڑنے کے لیے لہرائی لیکن وہ پھرتی کے ساتھ اچھل کر دوسری آنکھ کے قریب پہنچی اور سیپی کا سرا دوسری آنکھ میں بھی گھونپ دیا۔ آکٹوپس نے تکلیف کے مارے چیخ ماری اور آٹھوں ٹانگیں سر کی طرف لے گیا۔
    جبران خوشی سے چلایا: ’’واؤ، فیونا نے اسے اندھا کر دیا ہے، ارے وہ دیکھو، ابھی وہ ایک بار پھر بڑی ہو رہی ہے۔‘‘ دانیال بھی خوشی سے چلانے لگا۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے ساتھ ساتھ سیپی بھی بڑی ہونے لگی اور ایک خطرناک ہتھیار کا روپ دھار گئی۔ فیونا نے بڑے ہونے کے بعد سیپی کا نوکیلا سرا آکٹوپس کی کھوپڑی میں دے مارا۔ سر پر یہ وار مہلک ثابت ہوا اور آکٹوپس کی اٹھی ہوئی ٹانگیں یک لخت گر کر پانی میں ڈوب گئیں۔ ذرا دیر بعد آکٹوپس ایک ڈھیر کی طرح پانی کی سطح پر دو پتھروں کے درمیان ادھر ادھر ڈول رہا تھا۔ فیونا اپنے نارمل قد میں آئی اور پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ ’’تم نے اسے بہادری سے مار دیا ہے فیونا۔‘‘ جبران نے اس کی تعریف کی۔
    ’’اگر میں نہ مارتی تو یہ ہم تینوں کو مار دیتا، اور کوئی چارہ نہ تھا۔‘‘ فیونا نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ زندگی میں پہلی بار اس کے ہاتھوں کسی جان دار کا اس طرح قتل ہوا تھا، اس لیے وہ نہ خوشی محسوس کر رہی تھی نہ دکھ۔ دانیال نے توجہ دلائی کہ اس کے کپڑوں پر بے تحاشا گندگی پھیل گئی ہے۔ فیونا کے کپڑوں پر سے سرخ رنگ کا لیس دار مادہ پھسل پھسل کر گر رہا تھا، جس سے عجیب سی سڑاند اٹھ رہی تھی۔ دانیال نے اچانک کہا ’’دیکھو پانی کتنا اونچا ہو چکا ہے، غار آدھا بھر گیا ہے۔ ہمیں جلد از جلد صدفہ اٹھا کر لانا ہے اور اسے باہر نکل کر ہی توڑیں گے۔‘‘
    فیونا بھی چونک اٹھی، اس نے جبران سے کہا کہ اب اسے مزید گہرائی میں جانا ہوگا، لہریں اونچی ہوتی جا رہی تھیں۔ جبران پانی میں کود گیا اور وہ دونوں اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ ذرا ہی دیر بعد وہ نمودار ہوا، اس کے ہاتھ میں وہی صدفہ تھا۔ دونوں کے چہروں پر خوشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ فیونا بولی: ’’واؤ، یہ تو خاصا بڑا ہے، میرے خیال میں دو مونہے صدفے میں موتی کی جسامت بڑھتی رہتی ہے۔‘‘
    دانیال نے مدد کر کے جبران کو پتھر پر چڑھایا، اور اسی لمحے ایک بہت بڑی لہر غار کے اندر داخل ہوئی اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے، تینوں اس کی زد میں آ گئے۔ وہ پتھر سے پانی میں گر گئے لیکن گرتے گرتے فیونا چلائی: ’’جبران تم اس صدفے کو گرنے مت دینا۔‘‘
    لہر غار سے ٹکرا کر واپس چلی گئی تو تینوں پھر پتھر پر چڑھے۔ جبران نے صدفہ مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا، اسے دیکھ کر فیونا اور دانیال کی آنکھوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ دانیال بولا: ’’ہمیں جلد از جلد اس غار سے نکلنا ہوگا، ورنہ اگر اسی طرح لہریں آتی رہیں گی تو ہم یہیں مر جائیں گے۔‘‘
    وہ تینوں غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے، فیونا نے انھیں خبردار کیا کہ لہریں بے حد خطرناک معلوم ہوتی ہیں، اور پتھروں سے پٹک پٹک کر انھیں جان سے مار سکتی ہیں۔ تینوں پانی میں اتر کر تیر رہے تھے، ابھی وہ دہانے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ایک اور بڑی لہر آئی اور انھیں اپنے ساتھ اندر دھکیل گئی۔ انھیں لگا جیسے پتھروں پر دھوبی کی طرح لہروں نے انھیں پٹکا ہو۔ لہر واپس چلی گئی تو تینوں پانی سے سر نکال کر سانس لینے لگے، انھیں لگا کہ یہاں سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ دانیال نے کہا: ’’مجھے یقین ہو گیا ہے کہ یہی دوسرا پھندا ہے۔ دیکھو پانی اور غار کی چھت میں محض دو تین فٹ کا فاصلہ ہی رہ گیا ہے، اور ہم ڈوب کر مر جائیں گے۔‘‘
    اسے لمحے ایک اور بڑی لہر اندر داخل ہو گئی۔
    (جاری ہے….)
  • ستانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ستانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    فیونا پانی میں گری تو اس کا سر ایک پتھر سے ٹکرا گیا اور وہ پانی میں بے اختیار ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔ جبران اور دانیال چیخ چیخ کر اسے خود کو بچانے کے لیے کہتے رہے۔ فیونا کو محسوس ہوا کہ آکٹوپس کا ایک کوڑا اس کی دوسری ٹانگ سے بھی لپٹ چکا ہے، اور اگلے ہی لمحے اسے احساس ہوا کہ آکٹوپس کی خون چوسنے والی کنڈلی بھی اس کی ٹانگ کے ساتھ لگ گئی ہے، یہ محسوس کرتے ہوئے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔ اسی لمحے اس کے بازو سے بھی ایک ٹانگ لپٹی۔ فیونا نے تیزی سے آکٹوپس کی ٹانگوں پر اپنے آزاد ہاتھ سے مکے برسائے لیکن اس سے آکٹوپس مزید غصے میں آ گیا۔ اس کی چھ لہراتی اور لچکتی ٹانگیں بری طرح کھلبلانے لگیں اور فیونا کے جسم پر جہاں خالی جگہ دیکھی، وہاں سے لپٹ گئیں اور اسے پانی کے اندر کھینچنے لگیں۔ دانیال بے اختیار چیخا: ’’جبران وہ ڈوب رہی ہے، ہمیں اس کو بچانا ہے۔‘‘
    یہ کہہ کر دانیال پانی میں کود گیا اور تیرتا ہوا سیدھا آکٹوپس کے منھ کے قریب جا پہنچا اور اس کے منھ پر مکے برسانے لگا۔ جبران ایک لمحے کے لیے ششدر رہ گیا تھا، اس نے سوچا تک نہ تھا کہ دانیال اس طرح کی جی داری کا مظاہرہ بھی کر سکتا ہے۔ یہ تو خود کو موت کے منھ میں دھکیلنے والی بات تھی۔ وہ پریشانی کے عالم میں پتھر پر بیٹھ گیا تھا اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ اچانک دانیال نے پانی سے سر ابھارا اور سانس لے کر بولا: ’’جبران … ہماری مدد کرو!‘‘
    دانیال دوبارہ ڈبکی لگا کر پانی میں چلا گیا، لیکن اس کے اس جملے سے جبران کو جھٹکا لگا اور جیسے وہ نیند سے یک لخت بیدار ہو گیا ہو۔ وہ اچھل کر پانی میں کود گیا اور فیونا کی ٹانگ آکٹوپس کی ٹانگ سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ اندر ہی اندر شدید خوف زدہ بھی تھا لیکن وہ سمجھ گیا تھا کہ بچنے کا اب ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ کہ آکٹوپس کا مل کر مقابلہ کیا جائے۔ اچانک آکٹوپس نے عجیب حرکت کر ڈالی۔ اس نے سیاہی کی پچکاری ماری اور پانی کا رنگ کالا ہو گیا۔
    کالے پانی میں ان تینوں کے لیے کچھ دیکھنا ناممکن ہو گیا۔ اسی لمحے آکٹوپس کی ساتویں ٹانگ جبران کے ٹخنے اور آٹھویں دانیال کے گھٹنے سے لپٹ گئی۔ اس کے بعد اس نے ٹانگیں پھیلا کر اوپر اٹھا لیں۔ تینوں نے پانی سے باہر نکل کر لمبی لمبی سانسیں لیں، لیکن اب وہ ہوا میں بلند تھے اور ہاتھ پاؤں مار رہے تھے تاکہ آکٹوپس کی مضبوط گرفت سے آزاد ہو سکیں۔ اچانک ایک اور حیرت انگیز بات واقع ہو گئی۔ فیونا اچانک غائب ہو گئی تھی۔ ان دونوں کو تو حیرت ہونی ہی تھی تاہم آکٹوپس بھی حیرت کا شکار ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے یکایک جبران اور دانیال کو بھی اپنی گرفت سے آزاد کر دیا تھا، جس پر وہ دونوں تیزی سے تیرتے ہوئے پتھر پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔
    جبران نے پریشان ہو کر کہا کہ فیونا کہاں غائب ہو گئی ہے، اس کے لہجے میں خوف اور سخت تشویش کا تاثر جھلک رہا تھا۔ دانیال نے ہکلا کر کہا: ’’تت … تمھارا … مطلب ہے کہ اسے آکٹوپس نے نگل لیا!‘‘ دانیال کی صورت یوں ہو گئی تھی جیسے وہ ابھی رو دے گا۔
    ’’میں یہاں ہوں … میں یہاں ہوں!‘‘ یکایک انھیں آواز سنائی دی۔ یہ باریک آواز تھی، وہ دونوں اچھل پڑے اور پانی میں ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ’’ارے وہ رہی فیونا۔‘‘ دانیال خوشی سے چلایا۔ جبران نے مڑ کر دیکھا تو پتھر کے پیچھے اسے بھی بالشت بھر فیونا نظر آ گئی۔ ’’اوہ نو …‘‘ جبران سر پکڑ کر بولا: ’’فیونا تم کتنی ننھی منھی ہو گئی ہو… اوہ مائی گاڈ … یہ کیسا جادو ہے!‘‘
    ’’ہاہاہا …‘‘ فیونا ہنسی تو انھیں ایک باریک ہنسی سنائی دی۔ اس نے کہا: ’’مجھے ایک نوکیلی سیپی ملی ہے اور میں اس سے اس منحوس آکٹوپس کا تیاپانچہ کرنے والی ہوں۔‘‘
    یہ کہہ کر اس نے غوطہ کھایا اور پانی میں غائب ہو گئی۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    جبران کی خوف سے سرسراتی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’یہ ایک بہت بڑا آکٹوپس ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بے اختیار اتنا پیچھے ہٹا کہ اس کی کمر غار کی دیوار سے لگ گئی۔ دانیال نے دہشت زدہ ہو کر کہا: ’’تمھارے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم یہاں ایک بہت بڑے ہشت پا کے ساتھ پھنس چکے ہیں، اب ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے؟‘‘ دانیال کے چہرے پر خوف واضح دکھائی دے رہا تھا، وہ بولنے لگا: ’’دیکھو لہریں اونچی ہوتی جا رہی ہیں اور پانی کی سطح بھی۔ مجھے لگتا ہے یا تو ہم ڈوب جائیں گے یا کسی سمندری بلا کی خوراک بن جائیں گے۔‘‘

    سچائی یہ تھی کہ وہ تینوں انتہائی دہشت زدہ ہو گئے تھے۔ آنکھیں خوف کے مارے ابل رہی تھیں۔ فیونا کا رنگ سفید پڑ چکا تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن ہونٹ کانپ کر رہ جاتے تھے۔ جبران نے تھوک نگلتے ہوئے کہا: ’’یہ ضرور تین پھندوں میں سے ایک پھندا ہے۔‘‘

    اچانک تینوں خوف کے مارے چیخ پڑے۔ ان کے سامنے پانی سے سبز مائل کتھئ رنگ کا کوڑے کی طرح بہت موٹا سرا برآمد ہوا۔ جبران خوف سے لرزتے ہوئے بولا: ’’اس پر تو چوسنے والی کنڈلی بھی ہے، اگر یہ ہم میں سے کسی سے چھو گیا تو جسم کا سارا خون چوس لے گا۔‘‘

    لمبا نوکیلا تڑپتا کوڑا ان سے کئی گز کے فاصلے پر فضا میں گھوما۔ دانیال کانپ رہا تھا، اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ … ابھی ہمارا خون چوس لے گا۔‘‘
    فیونا ایسے میں بھی جھلا گئی، اور کہا: ’’بے وقوف مت بنو، آکٹوپس خون نہیں چوستا، ہاں اگر خوں آشام ہو تو پھر ضرور خطرہ ہے۔ یہاں اتنا اندھیرا ہے کہ میں اپنا جادو بھی استعمال نہیں کر سکتی، ادھر پانی کی سطح بھی بلند ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    جبران نے کہا: ’’لیکن تم خود کو چھوٹا اور بڑا تو کر سکتی ہو نا، خود کو اتنا بڑا کردو کہ اس خوں آشام آکٹوپس کو ختم کر سکو۔‘‘

    ’’لیکن یہ غار تو اتنا بڑا نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے غار کی چھت کی طرف سر اٹھا کر دیکھا۔ ’’میں خود کو زیادہ سے زیادہ بارہ فٹ تک بڑا کر دوں گی جو کہ ایک بہت بڑے آکٹوپس کو ختم کرنے کے لیے ناکافی جسامت ہے۔ ویسے میرے خیال میں خوں آشام آکٹوپس کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘

    جبران چلایا: ’’وہ دیکھو، دوسرا کوڑے نما سرا بھی پانی سے نکلا ہے۔ اگر تم خود کو بارہ فٹ تک بڑا کر دو گی تو کم از کم اس کے ساتھ مقابلہ تو کر سکوگی نا۔‘‘
    دانیال کی روہانسی آواز سنائی دی: ’’ابھی دو ہی سرے باہر نکلے ہیں اور کُل آٹھ ہیں۔ فیونا ہم موت کے منھ میں جانے ہی والے ہیں۔‘‘

    ’’چپ کرو دانی۔‘‘ فیونا پریشان ہو کر بولی: ’’مجھے سوچنے دو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کر لیں اور چند ہی لمحوں بعد کچھ کہے بغیر اس نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ دانیال بے ساختہ چیخ اٹھا: ’’یہ تم نے کیا کیا… آکٹوپس تمھیں ایک لمحے میں کھا جائے گا اب۔‘‘

    دانیال نے خوف کے مارے آنکھیں ہی بند کر لیں۔ جبران حیرت سے اچھل پڑا تھا۔ اس نے کہا: ’’دانی، آنکھیں کھول کر دیکھو۔ فیونا جا جسم بڑا ہو رہا ہے۔ اف میرے خدا!‘‘

    جبران کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، اس کی آنکھوں کے سامنے فیونا کا بدن تیزی سے اپنی جسامت سے بڑا ہوتا گیا اور اتنا بڑا اور لمبا ہو گیا کہ اس کا سر غار کی چھت سے ٹکرانے لگا۔ وہ ایک دیو کی طرح لگ رہی تھی اب۔ دانیال نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور ششدر رہ گیا، اس کی آنکھیں حیرت سے باہر نکل آئیں۔ وہ آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگا لیکن اس کے سامنے کا منظر خواب نہیں حقیقت تھا۔ انھیں اپنے سروں کے اوپر فیونا کی باریک آواز سنائی دی: ’’مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے، میں کتنی لمبی ہو گئی ہوں۔‘‘ فیونا انھیں سر جھکا کر دیکھ رہی تھی، دانیال کے منھ سے حیرت زدہ آواز نکلی: ’’بیس فٹ لمبی ہو گئی ہو فیونا، لیکن ہوشیار ہو جاؤ، پانی سے آکٹوپس کی چھ ٹانگیں نکل چکی ہیں!‘‘ اور پھر وہی ہوا جس کا انھیں ڈر لگا تھا۔ آکٹوپس کی کوڑوں کی مانند لہراتی، دہشت ناک ٹانگیں فیونا کی طرف بڑھیں۔ ایک ٹانگ فیونا کی بائیں ٹانگ سے لپٹی اور اسے پانی میں نیچے گرا دیا۔

    (جاری ہے…)

  • پچانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    دانیال نے سرد آہ بھر کر کہا: ’’مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی، کاش کسی آسان سی جگہ پر ہوتا موتی، لیکن ہر بار ایک بہت ہی مشکل جگہ میں قیمتی پتھر چھپا ہوتا ہے۔‘‘

    اچانک فیونا نے تشویش بھرے لہجے میں دونوں کو خبردار کیا: ’’اگر لہریں اندر جا رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ غار پانی سے بھرا ہو گا، اور اتنا گہرا ہوگا کہ ہم ڈوب سکتے ہیں، اس لیے ہمیں جلدی کرنا ہوگا۔ دانی تم کتنی دیر تک سانس روک سکتے ہو؟‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے ایک لمبی سانس کھینچی اور جھک کر پانی میں سر ڈال دیا۔ جب اس نے سر باہر نکالا تو زور زور سے سانس لینے لگی۔ دانیال نے بتایا کہ وہ صرف تیس سیکنڈ سانس روک سکی ہے۔ اس کے بعد دانیال نے سانس کھینچ کر پانی میں سر ڈال دیا لیکن صرف پچیس سیکنڈ بعد ہی سر نکال واپس نکال لیا۔ جبران سب سے زیادہ ایک منٹ تک سانس روکنے میں کامیاب ہوا۔ فیونا نے کہا: ’’سنو، وہ سخت خول عین میرے پیروں کے نیچے ہے، دیکھو پانی بالکل شفاف ہے اور خول کو دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘

    جبران نے بھی کہا کہ اسے بھی نظر آ رہا ہے، اسے یہ زیادہ بڑا نہیں لگا۔ اس نے کہا: ’’میں پانی میں غوطہ لگا کر اسے کھولنے کی کوشش کرتا ہوں، ہو سکتا ہے کہ صدف کے دونوں پرت ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئی ہوں۔‘‘

    دانیال نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو خول کو اٹھا کر باہر نکالنا بہتر ہوگا، باہر اسے پتھر پر مار کر توڑا جا سکتا ہے۔ جبران غوطہ لگا کر خول کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن کائی جمنے کی وجہ سے خول پھسلواں ہو چکا تھا۔ اس نے صدفے کو کھولنے کی کوشش کی لیکن اس کی سانس جواب دے گئی تھی، اس لیے اس نے سر باہر نکال لیا۔

    ’’خول پر کائی جم گئی ہے اس لیے اسے پکڑنے میں دشواری ہو رہی ہے۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا نے کچھ سوچ کر اپنا سینڈل اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خول توڑنے کی کوشش کر لے، ہو سکتا ہے کام بن جائے۔‘‘

    جبران نے سینڈل لے کر گہری سانس لی اور پھر غوطہ لگا لیا۔ ایسے میں دانیال ہنس کر بولا کہ پانی کے اندر وہ سینڈل استعمال نہیں کر سکے گا، کیوں کہ پانی کے اندر اس کا وزن بہت کم ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’ہاں… تم نے ٹھیک کہا۔‘‘ وہ مسکرا دی، اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ جبران نے جوتے کی مدد سے خول پر سے کائی ہٹانے کی کوشش کی۔ ایسے میں اس نے کن اکھیوں سے کسی چیز کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا، جس پر وہ خوف زدہ ہو گیا۔ اسے لگا کہ کہیں شارک نہ ہو، اس لیے فوراً اٹھا اور ایک پتھر پر چڑھ کر بولا: ’’نیچے کچھ ہے!‘‘

    ’’تم نے کیا دیکھا؟‘‘ فیونا نے پوچھا: ’’اور میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘

    ’’کوئی بڑی اور سیاہ چیز تھی، سینڈل سے خول نہیں کھل سکے گا، ہمیں کوئی اور طریقہ استعمال کرنا پڑے گا۔‘‘

    فیونا نے نیچے دیکھا لیکن اسے کچھ نظر نہیں آیا۔ ایسے میں دانیال نے ان دونوں کے پیچھے دیکھا اور چلایا: ’’وہ دیکھو، کوئی چیز ہے وہاں۔‘‘

    جبران بھی چیخا: ’’تم دونوں بھی پتھر پر چڑھ جاؤ۔‘‘ دونوں جلدی سے پتھر پر چڑھے اور ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر پوچھا: ’’میرا سینڈل کہاں ہے؟‘‘

    جبران کی توجہ سینڈل پر جا ہی نہیں سکی، کیوں کہ اس کے بعد سب کی آنکھوں میں خوف کے سائے تیرنے لگے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ کوئی چیز تیرتی ہوئی ان کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سانپ ہو، یا کوئی ٹانگ یا بازو۔

    (جاری ہے…)

  • چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چورانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں

    ڈریٹن نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا لیکن وہ ان تینوں کو پہچان گیا تھا۔ یہ اتفاق کی بات تھی کہ جبران اس سے ٹکرا گیا تھا۔ جب وہ تینوں آگے چلے گئے تو ڈریٹن ان سے فاصلہ رکھ کر پیچھا کرنے لگا۔ تینوں ایک کیفے میں گئے، کھانا کھایا اور پھر سمندر کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ وہ دور سے انھیں جاتے دیکھتا رہا، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ان کے پیچھے ہرگز نہیں جائے گا بلکہ یہیں پر ان کی واپسی کا انتظار کرے گا۔ یہی سوچ کر وہ ایک دکان کی طرف بڑھا اور وہاں سے ایک بڑے سائز کا تولیہ خریدا، پھر ریت پر آ کر شمسی غسل کے لیے لیٹ گیا، اور آنکھیں موند کر سو گیا۔
    ۔۔۔۔۔۔

    تھوڑی دور آگے جا کر وہ ٹھہر گئے۔ وہاں دور تک قطاروں میں مختلف اقسام کے تاڑ کے درخت اُگے ہوئے تھے۔ ناریل کے درختوں کی بھی ایک قطار تھی۔ جبران نے کہا کہ ناریل توڑنے چاہیئں، لیکن فیونا کا خیال تھا کہ ناریل ابھی کچے ہیں۔ جبران اور دانیال پتھر لے کر ناریل گرانے کی کوشش کرنے لگے، اور فیونا ایک طرف بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے قیمتی پتھر موتی کے اصل مقام کے بارے میں معلوم کرنے لگی۔ ناریل اتنی اونچائی پر تھے کہ ان کے پھینکے پتھر وہاں تک بہ مشکل پہنچ رہے تھے۔ دانیال نے درخت کو ہلانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ دوسری طرف فیونا نے اچانک آنکھیں کھولیں اور خوشی سے چلائی: ’’چھوڑو ناریل ۔۔۔ یہاں آؤ، مجھے پتا چل گیا ہے کہ موتی کہاں چھپا ہے؟‘‘

    دونوں دوڑ کر اس کے قریب چلے آئے۔ دانیال نے بے تابی سے احمقانہ سوال کر دیا: ’’کہاں چھپا ہے، کیا ان بڑے ناریل میں سے کسی ایک میں ہے؟‘‘ یہی نہیں بلکہ وہ مڑ کر قریبی درخت کی طرف منھ اٹھا کر دیکھنے بھی لگا۔

    فیونا نے منھ بنا کر کہا کہ وہ ایک غار میں چھپایا گیا ہے۔ ’’اوہ نو …‘‘ جبران سر پکڑ کر ریت پر بیٹھ گیا۔ ’’ایک بار پھر ہمیں غار میں جانا پڑے گا اور وہاں زلزلے آئیں گے اور ٹرال جیسی بھیانک مخلوق سے واسطہ پڑے گا۔‘‘

    فیونا جھلا کر بولی: ’’اٹھ جاؤ جبران، بہت ڈرپوک ہو تم۔ موتی ایک غار ہی میں ہے لیکن یہ غار زیر آب ہے۔‘‘

    ’’پانی کے اندر۔‘‘ دانیال اچھل پڑا۔ اس نے آنکھیں نکال کر کہا: ’’ہم پانی کے اندر کوئی غار کیسے تلاش کر سکتے ہیں؟ کیا ہمارے پاس مطلوبہ سامان ہے؟ اور یہ بات بھی ہے کہ میں ایک بار پھر بھیگنا ہرگز نہیں چاہتا۔‘‘

    فیونا نے کہا کہ اس کے بارے میں تو تبھی پریشان ہوں گے جب ہم یہ کرنے جائیں گے، وہ قریب ہی ہے، جہاں پتھروں کے ڈھیر پڑ ہیں، بس وہیں پر۔ جبران کہنے لگا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ بحری ڈاکوؤں کا جہاز ایک خزانہ لے کر ساحل پر آتا ہے اور وہ یہاں کسی غار میں اسے دفن کر دیتے ہیں۔ ویسے مزا آئے گا نا جب ہم خزانہ بھی ڈھونڈ نکالیں گے، جس کے بارے میں جیکس نے بتایا تھا۔‘‘

    فیونا نے کہا کہ اس کے خیال میں جیکس نے جھوٹ بولا تھا۔ دانیال سمندر کی بڑی بڑی لہروں کو دیکھ رہا تھا، اسے سونامی کا خیال آ گیا، جس کا اس نے باقی دونوں کے سامنے اظہار بھی کر دیا، لیکن انھوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ فیونا نے کہا: ’’ان پتھروں پر ذرا احتیاط سے چلو، یہ پھسلواں بھی ہیں اور ان کے کنارے بھی تیز ہیں، ویسے مجھے نہیں لگتا کہ ہمارا سامنا کسی سونامی سے ہوگا۔‘‘

    آخر کار وہ پتھروں کے پاس پہنچ گئے، وہاں سے انھیں کیکڑے نکلتے دکھائی دیے، ذرا دیر میں وہ ایک غار کے سامنے پہنچ گئے۔ غار کا دہانہ اس انداز میں ان کے سامنے نمودار ہوا تھا جیسے گہرائی سے اوپر کی طرف ابھرا ہو۔ وہ محتاط ہو کر اندر داخل ہوئے۔ لہریں غار کے اندر جا رہی تھیں تاہم یہ لہریں بہت چھوٹی تھیں۔ فیونا نے کہا: ’’موتی زیر آب ہے اور ایک بڑے دو مونہے سیپی میں پڑا ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • ترانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ترانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    جب تینوں کنارے کی طرف چل پڑے تو انھیں پیچھے جیکس کی بلند آواز سنائی دی، وہ کہہ رہا تھا کہ یہاں شارکس بھی ہیں اس لیے بچ کر رہنا۔ شارک مچھلی کنارے تک بھی آ جاتی ہے، اس لیے جب بھی پانی میں کٹار دیکھ لو تو فوراً دوڑ لگاؤ۔ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا تھا، جب کہ جبران نے بے ساختہ اپنے قدموں کی طرف دیکھا اور کہا: ’’کیا اس نے شارک کی بات کی ہے؟‘‘ فیونا نے سنجیدگی سے اثبات میں سر ہلایا۔ تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر بغیر کچھ کہے کنارے کی طرف دوڑ لگا دی، پانی گرتے پڑتے وہ ریتیلے ساحل پر پہنچ کر رک گئے، اس بھاگم بھاگی میں تینوں خوب بھیگ گئے تھے۔

    دانیال نے منھ بنا کر کہا: ’’مجھے تو یہ شخص بہت نا معقول لگا۔‘‘ تینوں آس پاس نگاہیں دوڑانے لگے، دانیال نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’وہ تین چوٹیاں تمھارے خواب والی تو نہیں ہیں!‘‘

    فیونا نے دیکھا اور مسکرا کر کہا کہ بالکل یہی ہیں، ہم درست مقام پر ہیں۔ ’’تو موتی کہاں ملے گا؟‘‘ جبران شرٹ اتار کر اس سے پانی نچوڑنے لگا اور پھر اپنی کمر پر اسے پھیلا دیا تاکہ دھوپ میں سوکھ جائے۔ فیونا بولی کہ اسے چند منٹ کے لیے کہیں ٹھہر کر سوچنا ہوگا۔ ایک جگہ خود رو گھاس دیکھ کر وہ بیٹھ گئی، جب کہ دانیال اور جبران سمندری خول ڈھونڈنے چلے گئے۔ فیونا نے آنکھیں بند کر لیں، اور چند منٹ بعد اس نے دانیال کی آواز پر آنکھیں کھول دیں۔ ’’کیا تم نے کچھ دیکھا؟‘‘ دانیال نے ایک خوب صورت سمندری خول اس کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ انھیں مزید آگے جانا ہوگا، وہ جگہ جتنی زیادہ قریب ہوگی، اتنا زیادہ اس کے بارے میں خیال واضح ہوگا۔ فیونا نے دانیال کے ہاتھ سے خول لے کر کہا یہ بہت پیارا ہے۔ وہ گیلے جوتوں کے ساتھ ریت پر بڑی مشکل سے چل رہے تھے۔ جبران نے کہا: ’’علاقے کے اندر چلتے ہیں، وہاں درخت ہیں، سایہ ہے اور زمین بھی سخت دکھائی دے رہی ہے، وہاں چلنا آسان ہوگا۔‘‘

    فیونا بولی: ’’اچھا خیال ہے، مجھے انگور کی بیلیں دکھائی دے رہی ہیں جو درختوں کی شاخوں سے لپٹی ہیں۔ اور وہ دیکھو، پتے کتنے بڑے ہیں، ہاتھی کے کان جتنے، اتنے بڑے پتے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔‘‘

    اچانک جبران چلایا: ’’یہ دیکھو زمین کی طرف، اف، اتنے حشرات ہیں یہاں، اس سے تو بہتر ریت پر چلنا ہے۔‘‘

    دانیال اور فیونا نے نیچے دیکھا، فیونا نے لاپرواہی سے کہا: ’’بچھوؤں کے درمیان سے گزرنے کے بعد مجھے ان چھوٹے حشرات سے ڈر نہیں لگ رہا۔‘‘

    ’’نہیں، سارے چھوٹے نہیں ہیں۔‘‘ جبران نے کہا اور ایک باریک چھڑی اٹھا کر فیونا کو دکھانے لگا۔

    ’’ارے یہ تو بہت بڑے ہیں۔‘‘ دانیال حیران ہو گیا۔ ’’یہ ہے کیا، کیا یہ کاٹتے ہیں؟ میرے خیال میں جبران ٹھیک کہتا ہے، میں بھی ریت پر چلنے کو ترجیح دوں گا۔‘‘
    فیونا نے کچھ دیر غور سے دیکھنے کے بعد کہا: ’’یہ گینڈوں کے بھنورے ہیں، میں نے ٹی وی پر ان کے بارے میں دیکھا تھا، یہ بڑے تو ہیں لیکن کاٹتے نہیں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لیے ٹھہری اور پھر بولی: ’’ہمیں جنگل میں اس سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘

    چلتے چلتے دانیال کی نظریں ایک سیاہ رنگ کے توتے پر پڑ گئیں، اس نے دونوں کو متوجہ کیا، تینوں کو بڑی حیرت ہوئی۔ دانیال نے کہا: ’’میں نے کبھی سیاہ رنگ کا توتا نہیں دیکھا، عموماً سرخ، سبز، نیلے، پیلے اور شوخ رنگوں کے دیکھے ہیں، مجھے لگتا ہے درخت پر کوئی اور چیز ہے۔‘‘

    فیونا نے کہا کہ یہ سیاہ توتے نہیں، پھل کھانے والے چمگادڑ ہیں۔‘‘

    عین اس لمحے درختوں سے یہ لٹکنے والی مخلوق بڑی تعداد میں اڑ کر آئی اور ان کے سروں پر منڈلانے لگی۔ جنگل ان کی چیخوں سے گونج اٹھا، تینوں نے گھبرا کر ساحل کی طرف دوڑ لگا دی۔ دانیال ہانپتے ہوئے بولا: ’’مجھے چمگادڑوں سے سخت چڑ ہے، مجھے یہ اور گینڈوں کے بھنورے ایک آنکھ نہیں بھائے۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے، ہمیں کچھ دور تک ریت ہی پر چلنا ہوگا، ہم قریب پہنچ گئے ہیں، وہ جو ابھری ہوئی چٹانیں نظر آ رہی ہیں، میرے خیال میں موتی وہیں کہیں ہے۔‘‘

    (جاری ہے…)

  • بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    ’’جبران، پیسوں کو چھپاؤ۔‘‘ دانیال نے اسے کہنی مار کر سرگوشی کی۔ فیونا نے بھی اس کی نظروں کو تاڑ لیا تھا اس لیے اس نے کہا: ’’یہ کوئی زیادہ بڑی رقم نہیں ہے، اس میں سے کچھ تو آپ کا کرایہ ہے، ہاں اگر آپ زیادہ ٹپ چاہتے ہیں تو ہمیں خیریت سے لے جا کر صحیح سلامت واپس پہنچا دیں۔‘‘

    یہ سن کر جیکس اچانک سیدھا کھڑا ہو گیا اور تیز لہجے میں بولا: ’’اپنے لائف جیکٹس پہن لیں، یہ اصول ہے یہاں کا۔ ہو سکتا ہے یہ آپ لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو لیکن انھیں پہننا ضروری ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کشتی اسٹارٹ کر دی اور وہ ذرا دیر میں کھلے سمندر میں پہنچ گئے۔ وہ ان تینوں کو جزائر کے گرد پھرنے والے سمندری ڈاکوؤں کے بارے میں بتانے لگا، اس نے بتایا کہ یہاں ایسی کھاڑیوں کی بے شمار کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں جہاں خزانہ دفن ہے اور وہ آسیب زدہ ہیں۔ جیکس نے انھیں بڑے بڑے گھونگوں اور کن کھجوروں سے بھی خبردار کیا اور کہا کہ ناریل کے کسی درخت کے نیچے بھی کھڑے مت ہونا، لیکن اس کی وجہ کوئی آسیب نہیں تھا بلکہ اس نے بتایا کہ دراصل یہاں دنیا کے سب سے اونچے ناریل درخت ہیں، اگر ایک ناریل آپ کے سر پر گرا تو آپ کی کھوپڑی پل بھر میں چٹخ جائے گی۔

    یہ سن کر جبران کو پسینہ آ گیا، اس نے کہا: ’’جی ہم ناریل کے درختوں سے بچ کر رہیں گے لیکن یہ بڑے گھونگوں اور کن کھجورے کیسے ہیں؟ کتنے بڑے ہیں یہ؟ اور آسیب زدہ کھاڑیوں کے بارے میں مزید کچھ بتائیں۔‘‘

    ’’سلہوٹ آئس لینڈ پر آپ کو بہت ساری عجیب و غریب مخلوقات دکھائی دیں گی۔‘‘ جیکس ہنس کر بولا: ’’لیکن جب تک آپ انھیں نہیں چھیڑیں گے، یہ آپ کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ دل چسپی سے تینوں کو دیکھنے لگا، تینوں اس کی باتیں سن کر دل ہی دل میں ڈر گئے تھے۔ وہ بتانے لگا: ’’جزیرے کے غاروں میں سے کسی ایک غار میں بہت بڑا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ کسی زمانے میں یہاں سے ایک تجارتی جہاز گزر رہا تھا جس پر بہت بڑا خزانہ لدا تھا لیکن بحری جہاز کو سمندری ڈاکوؤں نے حملہ کر کے تباہ کر دیا اور سارا خزانہ لوٹ کر انھی غاروں میں سے کسی ایک میں چھپا دیا، لیکن آج تک کسی کو اس خزانے کا سراغ نہیں ملا ہے۔‘‘

    جیکس نے انھیں بتایا کہ بہت سارے لوگ خزانے کی تلاش میں آئے لیکن موت کے منھ میں چلے گئے۔ یہ باتیں سن کر وہ ساکت بیٹھے سنتے رہے۔ پھر ان کی کشتی ساحل پر پہنچ گئی۔ جیکس نے کہا: ’’اب آپ کشتی سے اتر کر کنارے تک جائیں کیوں کہ آگے کشتی نہیں جا سکتی۔ چوں کہ آپ نے مجھے اچھا کرایہ دیا ہے اس لیے میں چھ گھنٹوں تک آپ کی واپسی کا انتظار کروں گا اور اس دوران مچھلیاں پکڑوں گا۔ لیکن آپ لوگ دیر مت کرنا، ہمیں چھ گھنٹوں میں واپس جانا ہے، کیوں کہ میں اندھیرے میں کھلے سمندر میں کشتی نہیں نکالنا چاہتا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ جبران کے منھ سے بے ساختہ نکلا، وہ ایک دم گھبرا گیا تھا۔

    ’’بحری ڈاکوؤں کے بھوت…‘‘ جیکس نے سنسنی خیز لہجے میں کہا: ’’میں نے خود بھی دیکھے ہیں۔ ان کا بھوت جہاز بھی رات کو جزیروں کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اگر آپ انھیں قریب سے دیکھ لیں گے تو پھر واپس کبھی ساحل پر نہیں آ پائیں گے۔‘‘

    تینوں پھٹی آنکھوں سے جیکس کی طرف دیکھ رہے تھے، انھیں ریڑھ کی ہڈیوں میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔ تینوں اسی عالم میں کشتی سے پانی میں اتر گئے اور ساحل کی طرف بڑھنے لگے۔ ایک قدم اٹھانے کے بعد جبران نے مڑ کر دیکھا اور بولا: ’’مجھے آپ کی باتوں پر بالکل یقین نہی ہے مسٹر جیکس، آپ ہمیں محض ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

    جیکس نے اس کی بات سن کر کوئی جواب نہیں دیا، بس زیر لب مسکرانے لگا۔

    (جاری ہے)

  • اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    دونوں اس کی طرف متوجہ ہو گئے، دانیال نے کہا: ’’جلدی بتاؤ!‘‘
    ’’یہ گھنٹہ گزارنے کے لیے چلو کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ جبران نے مسکراتے ہوئے اپنا آئیڈیا پیش کر دیا۔ دانیال کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’دھت تیرے کی!‘‘ فیونا نے ہنس کر جبران کے آئیڈے کی تائید کی۔

    قریب ہی ایک چھوٹا سا کیفے تھا، تینوں اس میں گھس گئے کیوں کہ کوئی اور کیفے تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انھوں نے کیفے میں بیٹھ کر ایک بڑے سائز کی شرمپ مچھلی منگوائی، جس کے ساتھ ایک بہت سیپی میں درجن بھر مختلف چٹنیاں بھی تھیں۔ وہ مزے لے لے کر کھانے لگے۔ تینوں اتنی بڑی سیپی دیکھ کر حیران ہو گئے تھے، دانیال نے خیال ظاہر کیا کہ یہ اصلی نہیں ہے، لیکن جبران کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے یہ اصلی ہو، کیوں کہ وہ سیچلز میں تھے اور ممکن ہے سیچلز میں اتنی بڑی سیپیاں ہوں۔ وہ دونوں کھانا کم کھا رہے تھے اور تبصرے زیادہ کر رہے تھے، جب کہ فیونا انھیں خاموشی سے دیکھ کر مسلسل کھانے میں مصروف تھی۔ آخر میں فیونا نے ٹشو سے ہاتھ اور منھ صاف کرتے ہوئے کہا: ’’واہ، بہت مزا آیا، بہت مزے دار کھانا تھا۔‘‘

    ’’ارے تم نے کھا بھی لیا!‘‘ جبران چونک اٹھا۔ فیونا نے کہا کہ تم دونوں باتوں میں لگے ہوئے تھے اور میں کھا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد ان دونوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ فیونا بولی: ’’اب ہمیں بندرگاہ جانا ہے اور وہ کشتی تلاش کرنی ہے جس کا نام لاپلیگ ہے۔‘‘

    ایک چھوٹی سی موٹر بوٹ کا ناخدا ان کا منتظر تھا، تینوں کو دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور بولا: ’’میڈم فیونا، مجھے جیکس مونٹ کہتے ہیں، میں آپ کے اور آپ کو جزیرہ سلہوٹ تک لے جانے کی خدمت انجام دوں گا، آپ کشتی پر آئیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر انھیں کشتی پر آنے کے لیے سہارا دیا۔ کشتی کی تہہ میں لکڑی کے تختوں پر آدھ انچ تک پانی کھڑا تھا۔ دانیال نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی کہ بروشر میں یہ کشتی اتنی بری حالت میں نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ اچانک جبران نے منھ بنا کر سوال کیا: ’’کشتی میں اتنا پانی کیوں ہے؟‘‘
    جیکس مونٹ نے جلدی سے کہا: ’’گبھرائیں مت، کشتی میں کوئی سوراخ نہیں ہے۔ دراصل اس قسم کی چھوٹی کشتیوں میں ایسا ہوتا ہے، جب بھی میں کشتی کے موٹر کو اسٹارٹ کرتا ہوں تو لہروں کی وجہ سے تھوڑا سا پانی اندر آ جاتا ہے۔‘‘
    فیونا نے جیکس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’آپ انگریزی بہت اچھی بولتے ہیں۔‘‘ وہ مسکرا دیا۔ دانیال نے ایک پاؤں اٹھا کر کشتی کے کنارے پر رکھ دیا تو اس کے جوتے سے پانی سمندر میں گرنے لگا۔ جیکس بولا: ’’میں بہت چھوٹا تھا جب انگریزی سیکھی تھی۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ جیکس مونٹ نے بھورے بالوں کو چمک دار نیلے رنگ کی ٹوپی سے چھپایا ہوا تھا۔ اس نے ٹوپی کو ذرا سا ترچھا کر کے کہا: ’’آپ اپنے مہمانوں کا بھی تعارف کرائیں گی؟‘‘

    فیونا بولی: ’’ضرور …. یہ دانیال ہے اور یہ جبران۔ ہم بہت اچھے دوست ہیں اور اسکاٹ لینڈ میں رہتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن آپ لوگوں کے والدین کہاں ہیں؟ یقیناً آپ ان کے بغیر تو اس جزیرے پر نہیں آئے ہوں گے۔‘‘ کشتی کے مَلّاح نے پوچھا۔ فیونا نے جلدی سے جواب دیا: ’’جی ہاں، وہ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں ہیں، ہمارے ساتھ نہیں آنا چاہتے تھے، اور ہمارے جانے پر انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔‘‘

    ’’کس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں آپ لوگ؟‘‘ جیکس نے اگلا سوال داغ دیا۔ اس بار دانیال نے جواب دیا لیکن اس کے لہجے میں واضح طور پر بے زاری جھلک رہی تھی: ’’سی سائیڈ فینٹیسی ہوٹل میں!‘‘

    ’’اچھا وہ تو بڑا شان دار ہوٹل ہے۔‘‘ جیکس نے چونک کر کہا، اس کی باچھیں کھل گئی تھیں۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ آپ کے والدین بہت مال دار ہوں گے جو اس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یقیناً انھوں نے آپ کو بھی اچھی خاصی رقم دی ہوگی اکیلے جانے کے لیے۔‘‘ اس کی گول آنکھیں جبران کی چھوٹی پتلون کی جیب سے باہر جھانکتے ہوئے نوٹوں پر مرکوز ہو گئی تھیں۔

    (جاری ہے)