Author: رفیع اللہ میاں

  • اَسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ڈریٹن کافی دیر سے ایلسے کے چھوٹے سے سرائے خانے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کے غسل خانے میں گھسا ہوا تھا۔ وہ پینٹ سے لتھڑے ہاتھ دھو رہا تھا اور سارے غسل خانے کو گندا کر رہا تھا، ساتھ ساتھ بڑبڑاتا جا رہا تھا۔

    ’’مائری کو دیواریں اور ساری چیزیں صارف کرتے ہوئے یقیناً خوب مزا آیا ہوگا، اور اب ایلسے کو بھی آئے گا۔ ویسے بھی لوگ اسے رقم دیتے ہیں تو یہ اسے صاف کرنا ہی ہوگا، ہاں بے چاری کو مجھ سے کچھ نہیں ملے گا۔ امید ہے کہ آج رات کے کھانے کے لیے اس نے کوئی زبردست قسم کی ڈش تیار کی ہوگی۔ اگر کوئی بے مزا چیز پکی ہو گی تو میں اس سرائے خانے کو نیا رنگ دے دوں گا۔‘‘

    ہاتھ دھو کر جب وہ نیچے اترا تو ایلسے کو کنٹربری سے آئے ہوئے ایک جوڑے کے ساتھ محو گفتگو پایا۔ ایلسے کی نظر اس پر پڑی تو فوراً بول اٹھی: ’’ہیلو ڈریٹن… میں ذرا ان براؤنز صاحبان کو بتا رہی تھی کہ آج جو میں ٹی پارٹی میں گئی تھی، وہ کیسی رہی۔‘‘ ڈریٹن نے اس کی بات نظر انداز کر کے پوچھا: ’’رات کے کھانے میں کیا ہے؟‘‘

    ایلسے نے گردن گھما کر بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورا اور جواب دینے کی بجائے اپنی بات جاری رکھی: ’’میں براؤنز صاحبان کو یہ بتا رہی تھی کہ شاہانہ نے ایک شان دار پارٹی دی تھی مائری مک ایلسٹر کے اعزاز میں، لیکن کوئی شیطان اس کے گھر میں گھس گیا تھا اور بہت گندگی پھیلائی۔‘‘

    ڈریٹن نے چونکنے کے اداکاری کی: ’’اوہ، یہ تو بہت شرم کی بات ہے، میں ضرور مائری کے گھر جاؤں گا۔‘‘

    ایلسے نے بات جاری رکھی: ’’میں کیا بتاؤں، شاہانہ نے کتنی خوب صورت پارٹی دی تھی۔ میز پوش اتنے حسین تھے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، شاید وہ پاکستان سے لائی ہیں۔ فنگر سینڈوچ، ڈبل روٹیاں، بسکٹ، کیک، چائے اور جانے کیا کچھ تھا، بہت مزا آیا۔‘‘

    ڈریٹن دل ہی دل میں تلملا رہا تھا، غصّے کو دباتے ہوئے بولا: ’’اگر آپ کہہ رہی ہیں تو واقعی بہت اچھی پارٹی رہی ہو گی، لیکن رات کے لیے یہاں کھانے میں کیا ہے؟‘‘

    ایک بار پھر وہ مطلب کی بات پر آ گیا تھا لیکن ایلسے نے اسے پھر گھورا اور لمبی سانس لے کر کہا: ’’تم بہت اکھڑ مزاج ہو … بہرحال رات کے کھانے میں پودینے کی چٹنی کے ساتھ بھنی ہوئی بھیڑ، آلو کا بھرتا، مٹر اور ڈبل روٹی اور اس کے بعد پنیر کا کیک ہوگا۔ تمھیں تو یہ پسند ہوں گے نا ڈریٹن؟‘‘ کہتے کہتے آخر میں ایلسے نے برا سا منھ بنا لیا۔

    ڈریٹن خوش ہو کر بولا: ’’اوہو … زبردست … میرے خیال میں پہلے میں باہر کا ایک چکر ضرور لگا آؤں تاکہ بھوک خوب بڑھ جائے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے براؤنز فیملی کی جانب دیکھا اور مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا: ’’آپ دونوں سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘ اس کے بعد اس نے برطانوی جوڑے کا جواب سننے کا انتظار بھی گوارا نہیں کیا اور چلا گیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے دانت کچکچائے: ’’ہونہہ … احمق انگریز … دیکھ لوں گا رات کو ان سے بھی۔ ابھی پہلے تو مجھے قلعہ آذر جانا ہے تاکہ وہ زیلیا کا عظیم جادوگر، عزت مآب پہلان مجھ پر پھر خفا نہ ہو۔‘‘ ڈریٹن نے قہقہہ لگایا اور قلعہ آذر کی طرف چل پڑا۔ درختوں کے جھنڈ سے ہوتے ہوئے جب وہ جھیل پہنچا تو اسے مخصوص مقام پر کشتی نظر نہیں آئی۔ وہ چونک اٹھا۔ اس نے آس پاس تلاش کیا لیکن کشتی نہیں ملی۔ وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب قلعے سے کیسے پہنچے۔ پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ اس میں تیر کر جانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک پتھر اٹھایا اور غصے سے جھیل میں پھینک دیا۔ اسی عالم میں وہ حسب عادت بڑبڑانے لگا: ’’پہلان سوچے گا کہ میں کہاں مر گیا ہوں۔ ٹھیک ہے، تو پھر میں اس اینگس کے بچے کی گردن ناپوں گا۔‘‘

    وہ غصے سے پھنکارتا ہوا اینگس کے گھر کی جانب چل پڑا۔

    (جاری ہے…)

  • اناسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    فیونا اور مائری باتیں کرتے کرتے گھر کے قریب پہنچ گئے، فیونا بولی: ’’ممی، مجھے تو بہت مزا آیا پارٹی میں۔‘‘

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    مائری نے تالے میں چابی گھماتے ہوئے کہا: ’’میں نے تو تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ بہت مزا آئے گا۔ کتنے دنوں بعد جینی، فلورا اور ایلسے سے میری بات چیت ہوئی۔ ہم سب کام میں اتنا مصروف رہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘

    دروازہ کھول کر انھوں نے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا، ان کے منھ سے خوف زدہ چیخ نکل گئی۔

    ’’کک … کیا ہوا ممی … ؟‘‘ ان کے پیچھے کھڑی فیونا گھبرا کر بولی اور تیزی سے اندر داخل ہو گئی۔ دیواروں پر عجیب قسم کے نشان بنے ہوئے تھے۔ ایک بار پھر گھر کا بیڑا غرق کر دیا گیا تھا۔ ’’یہ … یہ آخر کون شیطان کر رہا ہے!‘‘ فیونا کے منھ سے اتنا ہی نکل سکا۔
    انھوں نے گھر بھر میں گھوم پھر کر دیکھا، کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں دیواروں، الماریوں اور دوسری چیزوں پر اسپرے پینٹ نہیں مارا گیا ہو۔ مائری نے روتے ہوئے کہا: ’’یہ دیکھو، میرے جوتوں کو بھی نہیں چھوڑا، اس کے اندر بھی اسپرے کر دیا۔‘‘

    وہ پلنگ پر بیٹھ کر بے اختیار رونے لگیں۔ فیونا گھبرا گئی، اور جلدی سے ان کے گرد اپنے بازو حمائل کرتے ہوئے کہا: ’’مت رو ممی، ہم انھیں صاف کر سکتے ہیں، ابھی یہ زیادہ خشک نہیں ہوئے، چلو میں آپ کی مدد کرتی ہوں۔‘‘

    مائری نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا: ’’لیکن پہلے اپنے کپڑے تبدیل کرتے ہیں۔‘‘ دونوں نے کپڑے بدلے تو فیونا نے باورچی خانے کا رخ کر لیا، ایک بالٹی میں گرم پانی بھرا اور اس میں ڈٹرجنٹ ملا کر اسے جھاگ دار بنایا۔ ایسے میں دروازے پر گھنٹی بج اٹھی۔ فیونا نے جا کر دروازہ کھولا، وہاں جونی کھڑا تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ کوئی پھر سے آ کر تباہی مچا گیا ہے تو وہ بہت فکرمند ہو گیا۔ مائری نے اس سے دیواروں پر بنے نشانات کے بابت پوچھا، جونی نے کہا کہ یہ قدیم سیلٹک علامتیں ہیں اور کچھ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھتی ہیں۔

    مائری نے اس دوران خود کو بہت تیزی سے سنبھال لیا تھا، ان کا خوف بھی کم ہو گیا تھا۔ وہ بولیں: ’’لیکن میرے گھر میں کوئی گھس کر افریقی علامات کیوں بنائے گا؟‘‘ جونی نے انھیں جواب دینے کی بجائے فیونا سے کہا کہ اس کے دوست اینگس کے ہاں اس کے منتظر ہیں۔ وہ ممی سے اجازت لے کر وہاں چلی گئی۔ جونی نے کہا کہ صبح دروازوں اور کھڑکیوں میں نئے تالے لگوانے ہوں گے، اور اب وہ یہاں مستقل رہے گا۔ مائری نے پریشان ہو کر کہا: ’’میں اب بھی کچھ نہیں سمجھی ہوں، آخر یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کوئی شخص میرے گھر میں گھس کر عجیب و غریب نشانات بنا کر چلا جاتا ہے … آخر کیوں؟ ایسا لگ رہا ہے جونی کہ آپ اسے پہچانتے ہیں، تو کیا آپ اس کی وضاحت کر سکتے ہیں؟‘‘

    جونی نے طویل سانس لی اور دیواروں پر بنے نشانات پر نگاہیں جما کر بولا: ’’نہیں …‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے ٹھہرا اور پھر فیونا کی ممی کو مطمیئن کرنے کے لیے کہنے لگا: ’’ایسا لگتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی زندگی سے بے زار ہو کر بے وجہ کسی کو پریشان کر رہا ہے۔‘‘

    مائری نے سر ہلا کر جونی کا شکریہ ادا کیا اور کہا: ’’آپ نے ہماری بہت مدد کی ہے، خیر، آپ نے کھانا نہیں کھایا ہوگا، کیا آپ کری پسند کرتے ہیں؟‘‘

    جونی چونک اٹھا: ’’آپ کا مطلب چٹ پٹے کھانے سے ہے جو انڈیا سے تعلق رکھتا ہے؟ کیا وہ یہاں اسکاٹ لینڈ میں دستیاب ہے؟‘‘

    مائری کو حیرت ہوئی: ’’یہ اکیسویں صدی ہے، یہاں ہر قسم اور ہر ملک کے کھانے مل جاتے ہیں اب، اور ویسے بھی میں نے جبران کی امی شاہانہ نے مجھے لذیذ قورما بنانے کا راز بھی بتا دیا ہے۔ کیا آپ پسند کریں گے؟‘‘

    جونی سرکھجاتے ہوئے بولا: ’’میں نے کبھی اس کا ذائقہ تک نہیں چکھا، بہرحال میں اسے چکھنا پسند کروں گا۔‘‘

    ’’تو ٹھیک ہے، میں آپ کے لیے اسپیشل چکن قورما بناتی ہوں، اور سیاہ کشمش کا جوس بھی، مجھے یقین ہے آپ نے یہ بھی نہیں پیا ہوگا کبھی۔ ویسے آپ اور آپ کے بھائی کہیں پہاڑوں پر رہتے ہیں کیا؟‘‘

    جونی نے حیرت سے پوچھا: ’’نہیں … آپ نے کیوں پوچھا؟‘‘ مائری نے کچن کا رخ کرتے ہوئے کہا: ’’ایسا لگتا ہے جیسے آپ اور آپ کے بھائی کسی اور صدی کے آدمی ہوں، آپ نے اکثر جدید چیزوں کے نام بھی نہیں سنے ہیں۔‘‘

    جونی یہ سن کر پریشان ہو گیا، لیکن پھر جلدی سے بات بنا کر بولا: ’’آپ کہہ سکتی ہیں کہ ہم ذرا پرانے فیشن کے لوگ ہیں۔‘‘

  • اٹھتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ڈریٹن کیشائر روڈ پر مائری کے گھر کی طرف رواں دواں تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اچھا ہے سب لوگ کام پر چلے گئے ہیں۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ذرا دیر بعد وہ مائری کے گھر کے پچھواڑے پہنچ گیا۔ نہ صرف دروازہ بلکہ تمام کھڑکیاں بھی بند تھیں۔ وہ ذرا بھی پریشان نہ ہوا، کیوں کہ اس طرح کے بند دروازے اس کے لیے کھولنا ذرا بھی مشکل نہ تھا، لہٰذا کچھ ہی دیر میں اس نے دروازہ کھول لیا۔ اندر داخل ہونے کے بعد اس نے احتیاطاً بلند آواز سے کہا: ’’کوئی ہے گھر میں؟‘‘

    اس کا خیال تھا کہ اگر کسی نے جواب دیا تو وہ فوراً بھاگ جائے گا لیکن گھر میں کوئی نہیں تھا۔ اس نے گھوم پھر کر دیکھا، سارے گھر کو پھر سے درست کر دیا گیا تھا، ہر چیز اپنی جگہ سلیقے سے سجا دی گئی تھی۔ وہ زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بڑبڑایا: ’’میرے لیے تو بہت شرم کی بات ہے کہ میں اسے دوبارہ برباد کر دوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باورچی خانے میں گیا اور اطمینان سے الماری کے برتن اٹھا کر فرش پر پھینک دیے۔ وہاں ایک سیاہ رنگ کا اسپرے پینٹ اس کے ہاتھ آ گیا۔ ’’یہ ہوئی نا بات!‘‘ وہ ہنسا اور پھر سارے گھر کی دیواروں، الماریوں، دروازوں اور ہر چیز پر وہ قدیم نشانات بنا دیے جو اس نے قدیم کتاب میں دیکھے تھے، حتیٰ کہ مائری کے جوتوں کے اندر بھی۔ اس کے بعد اس نے اسپرے صحن میں پھینک دیا اور گھر سے نکل گیا۔
    ۔۔۔۔

    فیونا اور مائری کے اعزاز میں دی گئی پارٹی بہت شان دار رہی۔ تمام مہمانوں نے اس کا خوب لطف لیا۔ بلاشبہ شاہانہ نے بہت محنت کی تھی، انھوں نے کئی قسم کی نہایت لذیذ ڈشیں تیار کی تھیں۔ پارٹی ختم ہوئی تو سب اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ جبران اور اس کے والد بھی مچھلی کے شکار سے واپس پہنچ گئے۔ وہ مچھلی صاف کرنے میں لگے تھے کہ اچانک جبران کی نظر گھڑی پر پڑی تو چونک اٹھا: ’’اوہ بہت دیر ہو گئی۔‘‘

    اس نے اپنے والدین کو مخاطب کیا: ’’ممی پاپا، میں انکل اینگس کے ہاں جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ دانیال باغیچے میں کھڑا تھا، وہ بھی ساتھ ہو لیا اور دونوں اینگس کے ہاں پہنچ گئے۔ فیونا وہاں نہیں تھی۔ اینگس نے جونی سے کہا کہ وہ فیونا کے گھر ذرا ان کی خیریت معلوم کرے۔ یہ سن کر جونی اچھل پڑا: ’’اوہ، میں تو بھول ہی گیا تھا، مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ اتنا وقت گزر گیا ہے۔‘‘ جونی نے کتاب بند کر کے رکھ دی اور چل پڑا۔

    (جاری ہے)

  • ستتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

    ’’ارے فیونا، یہ دیکھو، دروازے میں یہ دعوت نامہ پڑا ملا۔‘‘ مائری بولیں، فیونا اس وقت ناشتہ کر رہی تھی، اس نے پوچھ لیا کہ کیسا دعوت نامہ۔ مائری نے کہا: ’’یہ تو جبران کی امی شاہانہ کی طرف سے ہے، انھوں نے ہمارے اعزاز میں ٹی پارٹی دی ہے دوپہر کو۔‘‘ وہ ایک لمحہ کو ٹھہریں اور پھر بولنے لگیں: ’’اسکول میں ویسے بھی ہاف ڈے ہے، واپسی پر دیر مت کرنا، میں تمھارے بہترین کپڑے نکال کر رکھ دوں گی، میں بھی کام سے جلدی آ جاؤں گی۔‘‘
    فیونا نے ناشتہ مکمل کر لیا تو کتابیں بیگ میں ڈال کر اسکول کے لیے چل دی۔
    ۔۔۔۔

    دوسری طرف جب جونی جبران کے گھر پہنچا تو وہ اور اس کے والد بلال گھر سے نکل چکے تھے، شاہانہ نے کہا کہ آج جونی برادرز کو تھوڑا سا وقت کہیں اور بِتانا پڑے گا کیوں کہ یہ خواتین کی پارٹی ہے۔

    جونی وہاں سے اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، جب کہ شاہانہ کافی دیر تک کھانے کی چیزیں تیار کرتی رہیں۔ گوٹا کناری والے میز پوش نکال کر گول میزوں پر بچھائے اور باغیچے سے تازہ پھول توڑ کر گل دانوں میں سجائے اور پھر باقی انتظامات کرنے لگ گئیں۔
    ۔۔۔۔

    اسکول سے واپسی پر فیونا نے اپنا پسندیدہ، سفید رنگ کا لباس پہنا، جس پر بینگنی رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول کاڑھے گئے تھے، اور گلے اور کناروں پر زیتون کے سبز پتے بنے ہوئے تھے۔ فیونا کو بستر پر سفید دستانے اور ایک ٹوپی بھی دکھائی دی، وہ فوراً بولی: ’’اوہ ممی، میں ہیٹ نہیں پہنوں گی۔‘‘

    مائری نے آنکھیں گھما کر کہا: ’’فیونا… سمجھا کرو… یہ ٹی پارٹی ہے۔ دستانے اور ہیٹ پہن لو، میں بھی تو پہن رہی ہوں۔‘‘

    فیونا نے ہیٹ اٹھا کر سر پر رکھا اور آئینے میں خود کو دیکھا، پھر منھ بنا کر بولی: ’’دیکھو کتنا برا لگ رہا ہے، احمق لگ رہی ہوں۔‘‘
    ۔۔۔۔

    جونی اینگس کے گھر پہنچا تو وہاں جمی اور جیزے پہلے ہی سے موجود تھے۔ اینگس بولے: ’’آپ کے بھائیوں نے مجھے آپ کی جنم بھومی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘ جونی چونکا: ’’اوہ، تو آپ سب جان گئے ہیں، اچھی بات ہے، لیکن میں یہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتا، مائری کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنی ہے۔‘‘ اینگس نے کہا کیا آپ قدیم کتاب دیکھنا چاہیں گے اور یہ کہہ کر انھوں نے دراز سے کتاب نکال لی۔ ’’یہ رہی وہ کتاب جو صدیوں پہلے آپ ہی نے لکھی تھی۔ اسے دیکھ کر آپ کو پرانی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔‘‘

    جونی نے کتاب ہاتھوں میں جیسے ہی لی، اس کے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا۔ اس کا چہرہ جوش اور مسرت سے تمتمانے لگا تھا، اور بولتے وقت آواز بھی جذبات سے لرزنے لگی: ’’یہ … یہ … میری کتاب … اوہ … یہ آج بھی سلامت ہے … اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی… حیرت انگیز!‘‘

    وہ کتاب لے کر جلدی سے بیٹھ گیا اور ایک ایک ورق الٹ کر دیکھنے لگا۔ ’’مجھے اب بھی یاد ہے جب میں اسے لکھ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے یہ کل کی بات ہو۔‘‘ وہ صدیوں پرانی یادوں میں کھو گیا تھا کہ اچانک اسے اینگس کی آواز نے چونکایا۔

    ’’آپ نے مجھے تذبذب میں ڈال دیا ہے۔ کتاب کا ایک حصہ آپ نے فونیزی اور عربی زبانوں میں لکھا ہے اور پھر اسکاٹ لینڈ آمد کے بعد گیلک میں لکھنے لگے، یہ ایک ملغوبا بن گیا ہے۔‘‘

    جونی یعنی آلرائے کیتھمور مسکرا دیا اور بولا: ’’میں دراصل بہت تیزی سے زبانیں سیکھنے لگتا ہوں۔ ہمارا ایک ملازم ایک مقامی دیہاتی تھا جس کا نام بروس تھا۔ جب وہ اپنا کام ختم کرتا تھا تو میں اسے لے کر اپنے کمرے میں آ جاتا اور پھر اس سے میں گیلک زبان سیکھتا۔ وہ بہت شان دار آدمی تھا، مجھے آج بھی یاد آتا ہے۔‘‘

    باقی لوگوں نے اسے قدیم کتاب اور اس سے وابستہ یادوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا اور اینگس کے ساتھ باہر نکل کر ایک قدیم شاہ بلوط کی شاخوں کے نیچے کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے۔

    (جاری ہے…)

  • چیہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    منگل کی صبح گیل ٹے کے لوگوں نے سورج کی روشنی کو، اور بادلوں سے بالکل صاف آسمان دیکھا تو ایک دوسرے سے خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ شاہانہ نے بلال کو مخاطب کیا: ’’میں آج مائری اور اس کی بیٹی کے لیے ایک ٹی پارٹی دینا چاہتی ہوں، گھر میں توڑ پھوڑ کی وجہ سے وہ بہت رنجیدہ ہے، کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

    ’’بڑا نیک خیال ہے۔‘‘ بلال نے خوش دلی سے جواب دیا: ’’جب آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو بھلا میں رنگ میں بھنگ کیسے ڈال سکتا ہوں۔ تو میرے لیے کیا حکم ہے، میں کہاں جاؤں؟‘‘
    شاہانہ مسکرائیں: ’’آپ مچھلیوں کے شکار پر خوشی خوشی جا سکتے ہیں، ویسے بھی ہمیں ٹراؤٹ کھائے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔‘‘ ایک لمحہ ٹھہر کر انھوں نے پوچھا: ’’یہ جبران کہاں ہے؟‘‘

    بلال کچن ٹیبل کے سامنے بیٹھے کافی پیتے ہوئے بولے: ’’وہ تو ابھی سو رہا ہے۔ ارے ہاں، کیا وہ اسکول نہیں جائے گا؟‘‘

    ’’آج چھٹی کر لے گا تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی، ویسے بھی آج ہاف ڈے ہے۔‘‘ شاہانہ نے کہا۔ ’’میں بدھ کو اس کی ٹیچر سے بات کر لوں گی اور جو کام رہ گیا ہے اسے پورا کرنے میں اس کی مدد بھی کردوں گی۔ آپ جا کر اسے جگا دیں، میں چند دعوت نامے تیار کروں گی۔‘‘

    ناشتہ کرنے کے بعد جبران دعوت نامے لے کر گھر سے نکل گیا۔ جانے سے پہلے شاہانہ نے اسے ایک بار پھر تاکید کی؛ ’’ایک مائری اور فیونا کو دینا، اور فلورا، ایلسے کی بی اینڈ بی جانا بھی مت بھولنا، ہاں نیلی کرافورڈ اور جینی مک ڈونلڈز کے گھر بھی جانا۔‘‘

    جبران نے اس پر برا سا منھ بنا لیا تھا لیکن چار و ناچار اسے تمام دعوت نامے پہنچانے کے لیے جانا ہی پڑا۔ اس کے جاتے ہی شاہانہ نے پھر بلال کو مخاطب کیا: ’’سنیے جی، جبران آ جائے تو پھر آپ بھی جا سکتے ہیں، مجھے ابھی بہت سارے کام کرن ہیں، ذرا جانے سے پہلے گول میزیں تو نکال کر باغیچے میں رکھ دیں۔ ارے میں تو بھول گئی، باغیچے میں تو اتنی گندگی پڑی ہے، پلیز جاتے جاتے وہ بھی صاف کر دیں اور اسپرے بھی کر دیجیے۔‘‘ بلال خاموشی سے سنتے رہے۔ جب وہ چپ ہو گئیں تو بول اٹھے: ’’میں تھوڑی دیر اور رک جاتا ہوں، آپ یاد کرلیں شاید کوئی اور کام بھی یاد آ جائے۔‘‘

    ’’نہیں… نہیں…‘‘ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئیں، اور پھر ہنس پڑیں: ’’بے فکر رہیں، بس اتنا ہی کام ہے، اور کسی کام کے لیے نہیں بولوں گی۔‘‘
    ۔۔۔۔۔۔

    ادھر جبران نے بی اینڈ بی کے دروازے پر دستک دی تو ذرا دیر بعد ایلسے نے دروازہ کھول دیا۔ ’’ہیلو جبران، سویرے سویرے یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘

    جبران بولا: ’’امی نے مائری اور فیونا کے لیے دوپہر میں ایک ٹی پارٹی کا انتظام کیا ہے۔ کیا آپ نے کچھ سنا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔‘‘

    اس وقت ڈریٹن اٹھ کر باتھ روم جا رہا تھا کہ اس کو ایلسے اور جبران کی گفتگو سنائی دی۔ وہ سیڑھیوں پر ٹھہر کر ان کی باتیں سننے لگا۔

    ’’ایلسے چونک کر بولی: ’’کیا ہوا ان کے ساتھ؟ وہ خیریت سے تو ہیں؟‘‘

    جبران نے جواب دیا: ’’ہاں لیکن کوئی ان کے گھر میں گھس گیا تھا اور شدید توڑ پھوڑ کی وہاں۔ اس نے کھانے کی ساری چیزیں دیواروں پر پھینک ماری تھیں۔ اسے صاف کرتے ہوئے پوری رات گزر گئی۔ مائری بہت رنجیدہ ہیں، اس لیے امی انھیں ٹی پارٹی دے رہی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ بھی آ سکیں گی۔‘‘

    جبران دعوت نامہ دے کر واپس چلا گیا۔ ایلسے نے دعوت نامہ رکھا اور مہمانوں کے لیے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ ڈریٹن دبے قدموں نیچے آیا اور دعوت نامہ کھول کر دیکھا، پھر بڑبڑایا: ’’تو مائری اور اس کی چہیتی دوپہر کو جا رہی ہیں، یہی وقت ہے کہ میں اس کے گھر دوبارہ جاؤں اور اسے یاد دلاؤں کہ ابھی میں یہیں پر ہوں۔‘‘

    اس نے دعوت نامہ رکھا اور اوپر جا کر نہا دھو کر کپڑے تبدیل کر لیے۔

    (جاری ہے)

  • پچھتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں‌

    اس کے بعد جادوگر پہلان نے اسے دونوں طاقتیں استعمال کرنے کا طریقہ بتا دیا اور ڈریٹن آدھی رات تک قلعے میں ٹھہر کر اس کی مشق کرتا رہا۔ جب وہ اس میں ماہر ہو گیا تو پہلان کی آواز آئی: ’’اب جاؤ، اور اس وقت آنا جب اندھیرا پھر سے چھا جائے۔ تب تک خود کو ہنگاموں سے دور رکھو اور اس لڑکی فیونا کے بارے میں جو بھی معلوم کر سکتے ہو معلوم کرو۔‘‘

    ڈریٹن نے جواب دیا: ’’میں صرف اتنا ہی جانتا ہوں کہ وہ اپنی ماں مائری کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، تم جاؤ اور محتاط رہو۔‘‘ یہ کہہ کر پہلان جادوگر کا سایہ دروازے سے باہر نکلا اور جھیل کی طرف جا کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ڈریٹن بھی بی اینڈ بی کی طرف لوٹ گیا لیکن دروازہ بند تھا۔

    اس نے دیوار پر نظر دوڑائی اور اس پر چڑھ کر کھڑکی کے ذریعے اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔ سونے سے قبل اس نے اپنا ای میل دیکھا کہ کتاب کا ترجمہ ہو کر آ گیا ہے یا نہیں۔ کولن کی طرف سے ای میل آ گیا تھا کہ وہ اس کا ترجمہ نہیں کر سکا، کیوں کہ زبان اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ پڑھ کر ڈریٹن کا دماغ غصے سے ابلنے لگا۔ اس نے نہایت غصے سے جواب ٹائپ کیا: ’’یہ کیا بکواس ہے کولن؟ احمق آدمی … کیا مطلب ہے کہ تم اسے ترجمہ نہیں کر سکے۔ ٹھیک ہے بھول جاؤ اسے اب، مجھے اس کی ضرورت ویسے بھی نہیں رہی۔‘‘ یہ لکھ کر اس نے پیغام بھیج دیا اور لیٹ گیا، لیکن غصے کی وجہ سے نیند تب تک نہیں آئی جب تک کہ صبح نہ ہوئی۔

    (جاری ہے…)

  • چوہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    ڈریٹن زندگی میں پہلی بار اتنی رفتار سے بھاگا تھا۔ وہ اتنا دوڑا، اتنا دوڑا کہ اس کی سانس اکھڑنے لگی اور سینے میں درد ہو گیا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سینہ ایک دم پھٹ جائے گا۔ اس کا رخ بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کی بجائے اس جھیل کی طرف تھا جہاں سے کشتی میں بیٹھ کر وہ سیدھا قلعے میں دوڑتا گھس گیا۔ وہ دیوار میں بنے محرابی دروازے سے اندر چلا گیا۔ چاند آسمان میں عین درمیان چمک رہا تھا، جس کی چاندنی قلعے کی مرمریں دیواروں کی دراڑوں سے اندر چھن چھن کر آ رہی تھی۔ اندر گھپ اندھیرا تھا۔ وہ پتھروں پر ٹھوکریں کھاتا ہوا اُسی کمرے میں پہنچ گیا، جہاں اس نے بے قابو سانسوں کے درمیان پکارا: ’’پہلان …. یا جو بھی تمھارا نام ہے اے جادوگر … میرے سامنے آؤ … جلدی کرو!‘‘

    یکایک عجیب سی سرسراہٹ کی آواز سے ڈریٹن کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔ وہ دروازے کی طرف کھسکنے لگا۔ اندھیرے سے ایک سیاہ سایہ ابھرا۔ سائے کی کوئی شکل نہیں تھی، لیکن جو بھی اسے دیکھتا، دہشت زدہ ہو جاتا۔ سایہ ڈریٹن کی طرف بڑھا تو وہ مزید پیچھے ہٹ گیا۔ اگلے لمحے سائے نے جادوگر کا روپ دھار لیا، اور وہ فرش سے دو فٹ اوپر معلق ہو گیا۔

    ’’تم بہت جلدی واپس آ گئے ہو ڈریٹن!‘‘ جادوگر کی آواز قلعے میں گونج کر رہ گئی۔
    ڈریٹن جلدی جلدی بولنے لگا: ’’معاملہ پے چیدہ ہو گیا ہے۔ گولا اینگس کے قبضے میں ہے، میں نے خود دیکھ لیا ہے۔ اس میں دو پتھر بھی نصب ہیں لیکن مجھے چند اور لوگ بھی نظر آئے۔ ایک نے میرا تعاقب بھی کیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آنکھیں ملنے لگا۔

    ’’تو اینگس نے تمھارے ساتھ ایسا کیا…؟‘‘ جادوگر کی آواز گونجی۔

    ڈریٹن تلملایا: ’’میں اس کا گلا کاٹ ڈالوں گا۔ اس سے گولا حاصل کرنا مشکل نہیں تھا لیکن میں نے چاہا کہ وہ لڑکی خود کو خطرے میں ڈال کر تمام ہیرے حاصل کر لے، میں بھلا اینگس بوڑھے سے کیوں ڈروں گا۔‘‘

    ’’ہاں ضرور… تم اس کا گلا کاٹ سکتے ہو لیکن اس وقت جب تمام ہیرے جمع ہو جائیں، فی الحال تم محتاط رہو اور اس لڑکی اور اینگس پر نظر رکھو۔ اور تم نے دیگر آدمیوں کا ذکر کیا، مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ ان کا تعلق ماضی سے ہے، جو ایک خاص مقصد کے تحت یہاں آئے ہیں، یاد رکھنا کہ وہ تمھیں روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔‘‘ جادوگر پہلان کا سایہ بولا۔

    ڈریٹن غرایا: ’’میں انھیں بھی قتل کر دوں گا۔ آخر تم مجھے کب منتر سکھاؤ گے۔ وہ لڑکی اب دو چیزیں جانتی ہے۔ ہر مرتبہ جب وہ کوئی پتھر حاصل کرتی ہے اس کے پاس ایک نئی طاقت آ جاتی ہے۔ میں اس سے بھی زیادہ طاقت چاہتا ہوں، اس لیے مجھے منتر سکھاؤ۔‘‘

    جادوگر کی آواز گونجنے لگی: ’’ایک تو تم مطالبے بہت کرتے ہو ڈریٹن… مجھے خدشہ ہے کہ اس طرح تم ایک دن منھ کے بل گر جاؤ گے۔ تم بہت مغرور اور بد مزاج ہو۔ ٹھیک ہے، جب تک ہمیں گولا نہیں مل جاتا، میں تمھیں وہی طاقتیں دے سکتا ہوں جو اس لڑکی کے پاس ہیں۔ اگر ابھی صرف دو پتھر ملے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ لڑکی کے پاس آگ لگانے اور خود کو چھوٹا بڑا کرنے کی طاقتیں موجود ہیں۔‘‘

    اچانک ڈریٹن خوشی سے اچھل پڑا۔ ’’تمھارا مطلب ہے کہ میں اینگس کے گھر کو آگ لگا کر بھسم کر سکتا ہوں، اوہ یہ تو زبردست ہوگا۔‘‘

    ’’عقل سے کام لو احمق لڑکے۔‘‘ جادوگر کی تیز آواز گونجی۔ ’’اس وقت تم سب کو سکون سے رہنے دو، کوئی پنگا مت کرنا۔ تم خود کہہ رہے ہو کہ گولا اینگس کے پاس ہے اس لیے جب تک وہ ساری چیزیں ہمارے قبضے میں نہیں آتیں، تم کوئی گڑ بڑ مت کرنا۔ جب یہ ہو جائے تو پھر اپنی خواہش کے مطابق جو کرنا چاہو کرلینا۔ ایک بات یاد رکھنا، یہ طاقتیں تمھیں صرف اسی صورت میں ملیں گی جب ہیرے ایک ایک کر کے گولے میں نصب ہوں گے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • تہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جمی نے جواب دیا: ’’شہزادی ازابیلا نے رابرٹ کے بھائی کولن سے شادی کی تھی۔‘‘
    چوں کہ ساری کہانی اب واضح ہو گئی تھی اس لیے اینگس نے کہا: ’’اب باقی ہیروں کا کیا بنے گا؟ اب تو آپ یہیں پر ہیں تو خود جا کر انھیں کیوں حاصل نہیں کر لیتے۔ بچوں پر سے اتنی بھاری اور خطرناک ذمہ داری کا بار ہٹ جائے گا۔‘‘

    ’’بات دراصل یہ ہے۔‘‘ جمی کہنے لگا: ’’صرف فیونا ہی یہ ہیرے جمع کر سکتی ہے۔ مائری بھی اگر ضرورت پڑی تو مدد کر سکتی ہیں اور یہ بھی بچوں پر ہے۔ فیونا ہماری واحد امید ہے۔ جب تک جادوئی گولا مکمل نہیں ہوتا تب تک ہم خود کو پہلان اور دوگان کے حملوں سے نہیں بچا سکتے۔ وقت آئے گا تو آلرائے کو ایک منتر آتا ہے، اس کے ذریعے وہ انھیں علاقے سے دور رکھ سکتا ہے۔ بس اسی لیے فیونا ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ وہ جتنی جلدی یہ ہیرے حاصل کرتی ہے، ہم اتنا ہی زیادہ محفوظ ہوتے جائیں گے۔‘‘

    اینگس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ جمی نے جیزے کو مخاطب کیا: ’’پونڈ! میں بلال کے ہاں جا رہا ہوں، تم یہاں ہوشیار رہنا۔ مجھے یقین تو نہیں ہے کہ وہ آج رات دوبارہ یہاں آنے کی کوشش کرے گا، لیکن کسی بھی غیر معمولی واقعے کے لیے تیار رہنا۔‘‘
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    دوسری طرف مائری، فیونا اور جونی مل کر گھر کی صفائی کر رہے تھے۔ فیونا نے کچن کی دیوار رگڑتے ہوئے کہا: ’’ممی، کیا آپ جانتی ہیں کہ جونی کے بہت سارے بھائی ہیں؟‘‘
    ’’ہاں، جیزے کی آمد سے پہلے معلوم نہیں تھا، اس کے آنے کے بعد جونی نے بتایا کہ اس کے بارہ بھائی ہیں۔‘‘

    ’’ممی، کیا آپ نے غور کیا، ان کے نام ’ج‘ سے شروع ہوتے ہیں۔‘‘ فیونا مڑ کر بولی: ’’کتنا عجیب ہے نا!‘‘

    مائری نے باورچی خانے سے نکل کر کمرے کا جائزہ لیا اور لمبی سانس لی: ’’اس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ کسی نے ہمارے گھر میں گھس کر سب کچھ الٹ پلٹ دیا ہے۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’ہاں یہ تو ہے، اور پتا ہے ممی، جس شخص نے ہمارے گھر کے ساتھ یہ کیا، وہ آج رات انکل اینگس کے گھر میں بھی گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘

    مائری چونک اٹھیں: ’’کیا… لیکن تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ وہی تھا۔‘‘

    فیونا نے جلدی سے کہا: ’’دراصل انکل اینگس، جمی اور جیزے کا رویہ عجیب تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہاں کوئی جنگلی جانور ہے لیکن مجھے یقین ہے یہ وہی برا آدمی تھا، جس کا ارادہ تھا کہ وہاں سے …..‘‘

    فیونا کہتے کہتے ایک دم رک گئی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اس کی ممی کو ابھی تک جادوئی گولے اور اس سے جڑے واقعات کا کوئی علم نہیں ہے۔‘‘

    مائری نے پوچھا: ’’کیا ارادہ تھا، کیوں چپ ہو گئی ہو؟‘‘

    ’’کچھ نہیں ممی، چھوڑیں اس بات کو، میں بہت تھک گئی ہوں اب، جا کر لیٹتی ہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

    (جاری ہے)

  • بہتّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    جمی نے کہا: ’’وہ اس قابل ہو جائے گا کہ جادوگر پہلان کو آزاد کر سکے، جو ایک شیطان ہے۔ وہ اس وقت موت کی قید میں ہے، اور وہ صرف اپنی روح کے ذریعے اُس سے رابطہ کر سکتا ہے۔ گولا حاصل کرنے کے بعد وہ مل کر خوف و دہشت اور خون خرابے کے ساتھ دنیا پر حکومت کرنے لگیں گے۔ کوئی بھی ان کو روک نہیں پائے گا۔ پہلان اسے تمام شیطانی کام کرنے پر اکسائے گا، حتیٰ کہ قتل کرنے پر بھی آمادہ کرے گا۔ اس طرح وہ روح کی قید سے آزاد ہو کر جسمانی صورت میں پھر نمودار ہو جائے گا اور اس کے پاس اپنی ساری طاقتیں واپس آ جائیں گی۔ وہ بات جو اس نوجوان کو معلوم نہیں ہے وہ یہ ہے کہ پہلان کی خواہش کے مطابق کام ہو جائے گا تو وہ اس نوجوان کو مار دے گا کیوں کہ وہ اس کے کسی کام کا نہیں ہے۔‘‘

    یہ سن کر اینگس نے کہا: ’’میرے خیال میں یہ ٹھیک رہے گا کہ آپ یا آپ کا بھائی جیزے یہاں رہے۔‘‘ اینگس کہتے کہتے مسکرائے۔ ’’ٹھیک ہے اس کا نام پونڈ ہے لیکن میں اسے جیزے ہی کہوں گا۔‘‘

    جمی نے کہا کہ ٹھیک ہے، اس طرح بات دوسروں پر نہیں کھلے گی، کیوں کہ رازداری ضروری ہے، ورنہ یہ معلومات غلط لوگوں کے ہاتھ لگی تو ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں دیر تک باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ جیزے پہنچ گیا، اس نے آتے ہی کہا: ’’بچّے بہ حفاظت گھر پہنچ گئے۔ آلرائے مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے اسے فیونا کی ماں کے گھر رہنے کی ضرورت سے آگاہ کیا، کیوں کہ یہاں اب سبھی متعلقہ لوگوں خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔‘‘

    جمی نے کہا: ’’ہم یہ بات جانتے ہیں کہ فیونا اپنی ماں کی طرف سے اصل وارث ہے لیکن یہاں جو شخص جھانک رہا تھا وہ بھی معمولی نہیں ہے۔ اس کی رگوں میں بھی کیگان اور دوگان کا خون دوڑ رہا ہے۔‘‘

    اچانک اینگس نے پوچھا کہ جمی فیونا اور مائری سے متعلق کیا جانتا ہے۔ جمی نے کہا: ’’جب دوگان نے شہزادی آنا اور ازابیلا کو اغوا کیا تو اس نے دونوں سے زبردستی شادی رچائی۔ ازابیلا کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام ہیگر رکھا گیا۔ دوگان نے بچہ اس سے لے لیا اور پھر دونوں شہزادیوں کو در بہ در ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا۔ بدقسمتی سے ہیگر اپنے باپ کی طرح ظالم اور بد کردار نکلا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نسل کا ہر وارث ایسا ہی ظالم اور بد کردار تھا۔ اگرچہ شہزادی ازابیلا نے انتقام کی قسم کھا لی تھی لیکن وہ کبھی انتقام نہ لے سکی۔ ہیگر نے اس بات کو یقینی بنا لیا تھا کہ اس کی ماں کسی بھی صورت سلطنتِ زناد میں قدم ہی نہ رکھ سکے۔ لیکن دوگان کو ایک بات کا علم نہیں تھا، وہ یہ کہ شہزادی آنا بھی اس کے ایک بچے کی ماں بننے والی تھی۔ جب دونوں شہزادیوں کو زناد سے نکالا گیا تو دوران سفر وہ بھی بیٹے کی ماں بنی۔ جب وہ قلعہ آذر پہنچیں تو اس وقت بچے کی عمر دو سال تھی۔ دونوں شہزادیوں نے دو مقامی بھائیوں کے ساتھ شادی کر لی۔ انھوں نے اپنے اس بچے کی حقیقت کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ آنا کا شوہر رابرٹ فرگوسن ایک بہت اچھا انسان تھا، اس نے آنا کے بچے کو اپنے بیٹے کی طرح پالا، اور بچّے کا نام انھوں نے جوربی رکھ لیا۔ اس کو کبھی یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کا اصل باپ کون تھا۔ چناں چہ اس ساری کہانی کا نچوڑ یہ ہے کہ مائری اور فیونا بھی دونوں بادشاہوں کیگان اور دوگان کی مشترکہ وارث ہیں۔ انھیں خود اس رشتے کا علم نہیں ہے اور بہتر بھی یہی ہوگا کہ انھیں اس حقیقت کا پتا نہ چلے۔‘‘

    ’’تو شہزادی ازابیلا نے کس سے شادی کی؟‘‘ اینگس نے اگلا سوال کیا۔

    (جاری ہے)

  • اکھتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھیں

    جمی چونک اٹھا: ’’اوہ، تو تم نے اندازہ لگا لیا ہے۔ آج اس جگہ کو یمن کہتے ہیں لیکن اُس وقت وہ یمن نہیں تھا، وہ کارتھز کہلاتا تھا، یا اس کے کہیں آس پاس۔‘‘ جمی ایک لمحے کے لیے ٹھہرا اور پھر بولنے لگا: ’’اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ ساری کہانی جانتے ہیں، کیوں کہ آپ نے کتاب پڑھ لی ہے۔ دراصل بارتولف اور اس کا بھائی رالفن کارتھز کے قریب ہیڈرومیٹم میں رہتے تھے۔ اس وقت کوئی بھی ان میں بادشاہ نہیں تھا۔ وہ دولت مند سوداگر تھے اور جہاز رانی کرتے تھے۔ بارتولف کے پاس بے پناہ دولت اور قوت تھی۔ وہ ایک شیطان صفت آدمی تھا اور اپنے نرم دل بھائی رالفن کو بہت پریشان کرتا تھا۔ یہ عین وہ دور تھا جب پونیزی لڑائیوں کی ابتدا ہو رہی تھی۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے رالفن نے بھیس بدل کر اپنے خاندان، دوستوں اور پیروکاروں کے ساتھ ہیڈرومیٹم کو خیرباد کہہ دیا اور صحرائے عرب کے مشرقی حصے کی طرف ہجرت کر لی۔ یہی وہ جگہ ہے جس کو اب آپ یمن کہتے ہیں۔ رالفن نے وہاں جا کر ایک نئی سلطنت آباد کی اور اسے بورل کا نام دیا۔ وہ وہاں کا بادشاہ بن گیا اور اپنی موت تک امن و سکون اور انصاف کے ساتھ حکومت کرتا رہا۔ دوسری طرف بارتولف کو اپنی غلط حرکتوں کے سبب ایک دن کارتھز سے نکل کر بھاگنا پڑ گیا۔ وہ شمالی افریقہ پہنچا اور وہاں اپنی الگ سلطنت آباد کر لی، جسے اس نے زناد کا نام دیا۔ اس کی حکمرانی کے دور میں خون، ظلم اور شیطانی حرکات کا عروج رہا۔‘‘

    جمی سانس لینے کو رکا تو اینگس جلدی سے بولنے لگے: ’’ہنی بال کا تختہ الٹ دیا گیا تو اس نے خود کشی کر لی۔ رومیوں نے کارتھز کو برباد کر کے رکھ دیا۔ وہاں کی ساری زمین جلا دی گئی اور زمین میں نمک بویا گیا تاکہ پھر کبھی اس میں کوئی چیز نہ اگ سکے۔ اب اس جگہ کو تیونس کہتے ہیں جہاں پانچ صحرائیں پائی جاتی ہیں۔‘‘

    جمی اینگس کی بات سن کر افسردہ ہو گیا۔ ’’مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا، ظاہر ہے کہ ہیڈرومیٹم بھی تباہ ہوا ہوگا۔ لیکن خیر، ایک بار جب جادوئی گولا اپنی اصل سرزمین تک پہنچ جائے گا، تو ہیڈرومیٹم پھر سے دودھ اور شہد سے بھر جائے گا۔ اب چوں کہ دوگان نہیں رہا ہے اس لیے ہم پرامن زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘ اینگس کو ایک بات یاد آ گئی: ’’اور بورل کا کیا ہوا؟ وہاں رالفن کی سلطنت اور اس کے قلعے کے ساتھ کیا ہوا؟‘‘

    جمی نے جواب دیا: ’’وہاں کئی نسلوں نے زندگی گزاری۔ جب آخری بادشاہ کیگان نے بورل کو خیرباد کہا تو اس نے اکثر دولت اپنے لوگوں ہی کے لیے چھوڑ دی۔ تمھارے سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ بورل کا کیا بنا۔ اتنے عرصے بعد میں اب سوچتا ہوں کہ وہاں دھول اور کھنڈرات کے سوا کچھ بچا بھی ہو گا یا نہیں۔ وہ ایک ایسی سرزمین تھی جو سرسبز تھی، اور ہیروں سے بھری ہوئی تھی۔ ساحل پر ہیرے سمندر سیپیوں کی طرح پڑے ہوتے تھے۔ مچھلیاں بے تحاشا تھیں۔ شہد کی مکھیاں ہمیں نہایت میٹھا عنبریں شہد دیا کرتی تھیں۔ ناریل کے درخت جا بجا اُگے ہوئے تھے اور خوراک کی اتنی کثرت تھی کہ ہرن اور دوسرے جنگلی جانوروں کا شکار کرنے کے لیے ہمیں تیر کمان اٹھانے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی تھی۔‘‘
    اینگس نے کرسی پر آگے کی طرف جھکتے ہوئے کہا: ’’بہت دل چسپ کہانی ہے، جاری رکھو اسے۔‘‘

    جمی مسکرایا اور بتانے لگا: ’’جو شخص شام کو کھڑکی سے جھانکنے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ کنگ دوگان کا وارث ہے۔ جس طرح تاریخ نویس آلرائے کیتھمور نے یہ کتاب لکھی تھی، اسی طرح دوگان کے مؤرخ طالون نے بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ وہ کتاب ضرور اس شخص کے قبضے میں ہے اور وہ یقیناً جادوئی گولے کے بارے میں جانتا ہے اور یہ بھی کہ گولا آپ کے پاس ہے۔ لہٰذا آپ کو ایک محافظ کی ضرورت ہے۔ جیزے آج رات آپ کے پاس یہیں رہے گا، اور جیسے جیسے دوسرے پہنچتے رہیں گے وہ بھی یہیں رہ کر آپ کی، اس کتاب اور گولے کی حفاظت کرتے رہیں گے۔‘‘

    جمی چند لمحے ٹھہرا اور پھر گھمبیر لہجے میں بولا: ’’پتا ہے، اگر یہ گولا اس شخص کے ہاتھوں لگا تو وہ کیا کچھ کر سکے گا؟‘‘

    (جاری ہے)