Author: رفیع اللہ میاں

  • ستّر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

    جمی نے فیونا کو بہلانے کی کامیاب کوشش کی، اور کہا کہ وہ اینگس کے ساتھ مل کر اُس چیز کو پکڑنے کے لیے ایک پھندا لگائیں گے، بس اتنی سی بات ہے اس لیے اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ پھر وہ تینوں جیزے کے ساتھ نکل گئے۔ بچوں کے جانے کے بعد اینگس نے جمی سے پوچھا: ’’کیا وہ بھاگ گیا ہے؟‘‘ جمی نے جواب دیا: ’’ہاں، میں نے اسے اپنی طاقت کی ایک جھلک دکھا دی ہے۔‘‘

    وہ دونوں اندر چلے گئے تو جمی نے کہا: ’’جیسا کہ تم اب جادوئی گولے اور اس کے تمام رازوں سے آشنا ہو گئے ہو، اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں آپ کو اپنی اصلیت کے بارے میں بتا ہی دوں۔‘‘

    اینگس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے بتاؤ، تمھارے پاس کیا راز ہے؟‘‘

    جمی بھی ایک کونے میں پڑے صوفے پر دھم سے بیٹھ گیا: ’’جونی کا نام آپ نے سنا ہوگا، وہ دراصل آلرائے کیتھمور ہے۔‘‘ جمی نے بتانا شروع کر دیا۔ اینگس کو حیرت کا اتنا زور دار جھٹکا لگا کہ وہ کرسی سے گرتے گرتے بچے۔ ’’آلرائے کیتھمور … یعنی تاریخ نویس … یہ کک … کیسے ممکن ہے … میرے پاس تو اس کی قدیم کتاب ہے۔‘‘

    ’’ہاں میں جانتا ہوں کہ تمھارے ہی پاس ہے وہ اور جادوئی گولا بھی تمھارے قبضے میں ہے۔‘‘ جمی کہنے لگا: ’’قصہ یہ ہے کہ کنگ کیگان کا جادوگر زرومنا جادوگروں کی سرزمین زیلیا لوٹ رہا تھا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ مجھے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں منتقل ہونے کا طریقہ بتا دے۔ جب بھی یہ کتاب کھولی جاتی ہے آلرائے اپنے زمانے سے مستقبل میں چلا جاتا ہے۔ یہ کسی کو نہیں پتا لیکن یہ کتاب خود جادوئی ہے۔ فلسطین میں جب کنگ کیگان کہیں بھی دکھائی نہیں دیے تو ہم برسوں تک وہاں حیران و پریشاں گھومتے رہے۔ وہ جونی یونی آلرائے کیتھمور ہی تھا جس نے ان بارہ آدمیوں کو ڈھونڈ نکالا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کے بعد ہم سب مختلف راہوں پر نکل گئے۔ ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں منتقل ہونے کا جو راز ہے، اس کا مستقبل والا حصہ اس وقت قلعہ آذر ہی میں ہے۔ اسی کے ذریعے ہم آج یہاں موجود ہیں۔ پہلی مرتبہ جب بچوں نے وہ کتاب ڈھونڈ نکالی اور اسے کھولا تو جونی وہاں پہنچ گیا، لیکن وہ خاموشی کے ساتھ وہیں قلعہ آذر ہی میں ٹھہرا رہا اور دیکھتا رہا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ جب اگلے دن بچے پھر قلعے میں آئے اور انھوں نے جادوئی گولا بھی ڈھونڈ لیا تو جونی پھر بھی وہیں رہا۔ تب اس نے فیونا کے بارے میں جانا۔ پھر جب جادوئی گولے میں پہلا قیمتی پتھر رکھا گیا تو میری واپسی ہوئی۔‘‘

    جمی ایک لمحے کے لیے ٹھہرا اور پھر بولنے لگا: ’’میرا نام کووان ہے، میں ہی وہ شخص ہوں جس نے سیاہ آبسیڈین ہائیڈرا میں چھپایا تھا۔ جونی یعنی آلرائے نے ایک بس میں چڑھ کر فیونا کی ماں مائری کے ساتھ ایک اتفاقی ملاقات کا ڈراما رچایا اور پھر یہیں سے کہانی شروع ہو گئی۔ اسے معلوم تھا کہ جلد ہی میں بھی اب نمودار ہو جاؤں گا۔ پتھر حاصل کرنے کے لیے فیونا نے بلاشبہ بہت بہادری دکھائی۔ جس طرح اس نے پھندوں پر قابو پایا وہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ میرے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ کوئی اس اینٹ سے قیمتی پتھر نکال بھی سکتا ہے۔ وہ پھندے تیار کرنے کے لیے میں نے اور جادوگر زرومنا نے بہت سخت محنت کی تھی۔ ان سے بچ نکلنا بلاشبہ فیونا اور اس کے دوستوں کا ایک کارنامہ ہے، یقین جانو، مجھے فیونا اور اس کے دوستوں پر فخر محسوس ہوا۔ پھر جب آئس لینڈ میں بچوں نے دوسرے پتھر مرجان کو بھی حاصل کر لیا تو پونڈ، میرا مطلب ہے کہ جیزے بھی اس زمانے میں پہنچ گیا۔ جیسے جیسے فیونا اور اس کے ساتھی باقی ہیروں کو ڈھونڈ نکالتے جائیں گے، ہم بارہ ایک ایک کر کے نمودار ہوتے جائیں گے۔ لیکن میں آپ کو تنبیہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو پھندے تخلیق کیے ہیں وہ نہایت ہی خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘

    جمی پوری کہانی سنا کر خاموش ہو گیا تو اینگس نے اپنے سینے میں کافی دیر سے قید سانس کو ایک دم سے آزاد کر دیا۔ اینگس نے کافی طویل سانس کھینچی اور کہا: ’’تو یہ ہے تمھاری داستان … ہووں … کافی دل چسپ اور حیرت انگیز ہے۔ لیکن تم سب یہاں پہنچے کیسے؟ اور اُس وقت کیا ہوگا جب بارہ کے بارہ ہیرے جادوئی گولے میں نصب کر دیے جائیں گے؟‘‘

    اینگس نے یہ کہہ کر ایک چاکلیٹ اٹھا کر اسے توڑا، آدھا جمی کو دیا اور آدھا خود کھانے لگا۔ جمی نے چاکلیٹ منھ میں رکھتے ہوئے جواب دیا: ’’ہم بھی جونی کی طرح اسی ٹائم پورٹل کے ذریعے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں سفر کرتے ہیں۔ جب ہم ہیرے چھپانے جا رہے تھے تو جادوگر زرومنا نے ہمیں ٹائم پورٹل کو استعمال کرنے کا طریقہ بتا دیا تھا۔ ہاں جب سارے ہیرے جمع ہو جائیں گے تو آلرائے اور ہم بارہ اسے لے کر فلسطین جائیں گے، جیسا کہ صدیوں پہلے کنگ کیگان نے ہمیں حکم دیا تھا۔ جب جادوئی گولا مکمل ہو جائے گا اور کنگ کیگان اسے اپنے قبضے میں لے لیں گے تو ان کا خاندان ایک بار پھر ان سے آن ملے گا۔ اگرچہ وہ مر چکے ہیں لیکن ان کی موت سے چند ہی دن قبل جادوگر زرومنا نے انھیں ٹائم پورٹل دے دیا تھا۔ زرومنا نے کچھ ایسا انتظام کیا تھا کہ جیسے ہی آخری پتھر جادوئی گولے میں نصب ہوگا، وقت کنگ کیگان اور اس کے خاندان کے لیے پیچھے چلا جائے گا، اور وہ واپس اسی زمانے میں پہنچ جائیں گے جب انھیں قتل کیا جا رہا تھا۔ یہ دراصل انھیں قتل ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔ زرومنا بھی ایک بار پھر جادوئی سرزمین زیلیا سے نکل کر اپنے آقا کی خدمت میں پہنچ جائے گا، اور اس کے بعد جادوئی گولا اس کی اصل سرزمین پہنچا دیا جائے گا۔‘‘

    جمی نے بات مکمل کر دی تو اینگس نے حیرت سے پوچھا: ’’تمھارا مطلب ہے کہ گولا یمن پہنچایا جائے گا؟‘‘

    (جاری ہے)

  • انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    دروازے پر دستک کی آواز سن کر اینگس کے ماتھے پر ناگواری کا تاثر پھیل گیا۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے، دروازے کی طرف بڑھے۔ ’’کون ہو سکتا ہے اس وقت، یہ تو رات کے کھانے کا وقت ہے؟‘‘ اینگس نے دروازہ کھول کر دیکھا، دو اجنبی کھڑے تھے۔ جب فیونا کی نظر جمی پر پڑی تو وہ چہک کر بولی: ’’ٹھیک ہے انکل، یہ جمی ہیں اور جبران کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘‘

    یہ سن کر اینگس کے چہرے کا تناؤ کم ہو گیا اور انھوں نے خوش دلی سے مہمانوں کو اندر بلا لیا۔ جمی نے اندر بیٹھ کر تعارف کرایا: ’’میں جمی تھامسن ہوں اور یہ میرا بھائی جیزے ہے، یہ ابھی ابھی شہر پہنچا ہے۔‘‘

    جیزے کی نظر وہاں فرش پر پڑیں چوکور بلاکس پر گئی تو اس نے جھک کر اسے اٹھا لیا اور بہ غور دیکھنے لگا۔ ’’یہ کس کے ہیں؟‘‘ اس کے منھ سے بے اختیار نکلا۔ فیونا نے کہا کہ یہ انکل اینگس نے بڑی مہارت سے بنائے ہیں اور پینٹ بھی خود ہی کیا ہے۔ اسی لمحے جمی اینگس کو لے کر ایک کونے کی طرف چلا گیا اور سرگوشی کرنے لگا، پھر دونوں پچھلے دروازے سے باہر نکل گئے۔ جیزے نے بچوں کی توجہ ان کی طرف سے ہٹانے کے لیے وہیں فرش پر بیٹھ کر کہا: ’’فیونا مجھے ان بلاکس کے بارے میں مزید کچھ بتاؤ۔ یہ بہت شان دار ہیں، ان کی بناوٹ قدیم سیلٹک ڈیزائن کی ہے۔‘‘

    جبران نے کہا: ’’یہ انکل اینگس نے خود بنائے ہیں، لیکن میں ایک بات نہیں سمجھا، آپ اس وقت یہاں کیوں آ گئے ہیں۔‘‘ جبران کے استفسار پر فیونا چونک اٹھی اور اسے ٹوکا کہ اس طرح نہیں پوچھتے۔ لیکن جیزے نے جواب دیا کہ وہ جبران کے والد سے مل کر آ رہے ہیں اور انھیں گھر لے کر جائیں گے، نہ صرف انھیں بلکہ فیونا کو بھی۔ جیزے نے بتایا کہ فیونا کے گھر پر کسی نے گھس کر زبردست توڑ پھوڑ کی ہے۔

    فیونا یہ سن کر اچھل پڑی، اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار چھا گئے تھے۔ اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’کک … کیا ہوا میرے گھر میں … اور ممی کیسی ہیں، وہ ٹھیک تو ہیں نا؟ … مم … میں فوراً گھر جاؤں گی۔‘‘

    جیزے نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی کہ اس کی ممی ٹھیک ٹھاک ہے لیکن فیونا کی پریشانی کم نہ ہوئی۔ اس نے پوچھا: ’’یہ انکل اینگس اور جمی کہاں چلے گئے ہیں اچانک؟‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑ کر دروازے کے پاس گئی اور پٹ کھول کر انکل کو آواز دی۔ ذرا دیر بعد اینگس درختوں کی اوٹ سے نمودار ہوئے: ’’میں ٹھیک ہوں فیونا، ہم ذرا پچھلی کھڑکی کے پاس جا کر دیکھ رہے تھے، دراصل جمی کا خیال تھا کہ اس نے یہاں کسی جنگلی جانور کو دیکھا تھا۔‘‘

    ’’لیکن یہاں تو عجیب قسم کی آوازیں آ رہی تھیں ابھی۔‘‘ فیونا نے سوال کیا: ’’کیا جمی ٹھیک ہیں۔‘‘ وہ دوڑ کر دیکھنے لگی، لیکن اینگس نے کہا: ’’رک جاؤ فیونا، وہ ٹھیک ہے، ابھی آ جائے گا۔‘‘

    چند لمحوں بعد جمی بھی نظر آ گیا، وہ اپنی سانسوں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’کوئی جانور تھا، میں نے تعاقب کر کے اسے بھگا دیا، اینگس میرے خیال میں آج رات وہ دوبارہ آپ کو تنگ نہیں کرے گا۔‘‘

    جمی نے یہ کہہ کر جیزے کو مخاطب کیا: ’’جیزے، تم بچوں کو لے کر جاؤ، میں کچھ دیر تک اینگس کے پاس ٹھہروں گا، ہاں بلال سے کہنا کہ ہم چند گھنٹے بعد لوٹیں گے۔ بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچا کر تم یہاں واپس آ جانا۔‘‘

    جیزے نے اثبات میں سر ہلا دیا لیکن فیونا نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر کہا: ’’یہاں آخر ہو کیا رہا ہے؟ کیا سب کچھ ٹھیک ہے؟ مجھے تو کچھ عجیب لگ رہا ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • اڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    جمی ایک لحظے کے لیے رکا اور پھر بولا: ’’لیکن میرا ابھی تک ان سے رابطہ نہیں ہوا ہے۔ خیر، اب تو میں پہلا کام یہ کروں گا کہ تمھیں بلال کی فیملی میں متعارف کراؤں گا اور تمھارا نام ہو گا جیزے، اور تم ہمارے بھائی ہو۔ سچ یہ ہے کہ ہم بھائی ہی ہوں گے پونڈ، کیوں کہ یہ دنیا ہمارے لیے اجنبی ہے۔ آلروئے کیتھ مور فیونا کی ماں کا مہمان بنا ہوا ہے، کسی نے ان کے گھر میں گھس کر چوری کی ہے، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہو گی اگر یہ حرکت دوگان کے کسی وارث کا کارنامہ ہو۔ اب آؤ میرے ساتھ، میں تمھیں اپنے میزبانوں سے ملاتا ہوں۔‘‘

    جمی اسے اندر کی طرف لے جانے لگا تو مڑ کر بولا: ’’یاد رکھنا …. میں جمی ہوں۔‘‘

    جمی نے دروازہ کھولا اور گلا کھنکار کر کہا: ’’بلال صاحب، آپ حیران ہوں گے لیکن میں آپ کی ملاقات اپنے ایک اور بھائی سے کراؤں گا۔ یہ ہیں میرے بھائی جیزے۔ جب اس نے سنا کہ ہم یہاں پر ہیں تو اس نے بھی مچھلیوں کے شکار کے لیے ہم سے ملنے کا فیصلہ کر لیا، کیا آپ کے ہاں ہمارے لیے کمرا ہوگا؟‘‘

    بلال نے خوش دلی سے جواب دیا: ’’ہیلو جیزے، کیوں نہیں۔ میں بلال ہوں پاکستان نژاد، وہ جو آپ کو جام کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں میری بیوی شاہانہ ہے۔ آپ بے فکر رہیں، ہمارے گھر میں کئی اضافی کمرے ہیں، بس شاہانہ کو کچھ زیادہ پکانا پڑے گا لیکن وہ اس پر برا نہیں مناتیں۔‘‘

    جمی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’آپ کا بیٹا جبران کہاں ہے؟ وہ کافی دیر سے نظر نہیں آیا ہے۔‘‘

    بلال نے مسکرا کر کہا کہ وہ فیونا اور دانیال کے ساتھ اینگس کے گھر گیا ہے۔ اس پر جمی نے کہا کہ وہ بھی جیزے کو ساتھ کر کے اینگس کے ہاں جانا چاہ رہا ہے۔ اس کے بعد دونوں اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ جمی اسے یہاں کے بارے میں تفصیلات بتانے لگا، جو اسے خود بھی زیادہ پتا نہیں تھیں۔ جب وہ اینگس کے گھر کے قریب پہنچے تو جمی نے کہا یہ ہے گھر، لیکن اچانک جیزے نے جمی کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا اور کہا: ’’وہ دیکھو جمی، اینگس کے گھر کے باہر کوئی درختوں میں چھپا ہوا ہے، اور کھڑکی سے جھانک رہا ہے۔‘‘ جمی نے ایک کالا سایہ دیکھا اور بولا: ’’یہ ضرور ہمارے لیے پریشانی کھڑی کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دوگان ہی کا کوئی وارث ہے۔ چلو، بچوں کو حفاظت سے گھر پہنچائیں۔‘‘

    (جاری ہے…)

  • ماں کے سامنے  بیٹے کا قتل اور 2022 کے دیگر دل دہلا دینے والے واقعات

    ماں کے سامنے بیٹے کا قتل اور 2022 کے دیگر دل دہلا دینے والے واقعات

    سال 2022 ایک طرف اگر سیاسی میدان میں گرماگرمی کا سال رہا، تو دوسری طرف جرائم کے میدان میں بھی کئی ایسے دل خراش سانحات کا شاہد رہا، جس نے لوگوں کے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔

    ہم یہاں سال بھر کے ان واقعات کو درج کر رہے ہیں جو قتل پر مبنی ہیں، اور خاص طور سے وہ واقعات جن میں ایک سے زیادہ افراد کو قیمتی جانوں سے محروم کیا گیا، اور جو میڈیا میں بھی ’بریکنگ نیوز‘ کی حیثیت اختیار کر گئے۔

    29 نومبر 2022

    کراچی میں ملیر شمسی سوسائٹی سے تین بیٹیوں اور ماں کی لاش برآمد

    ابھی گزشتہ ماہ کراچی کے علاقے ملیر میں شمسی سوسائٹی میں ایک گھر سے 4 افراد کی لاشیں ملی تھیں، اس واقعے نے علاقے میں ایک ہلچل مچا دی تھی، ایس ایس پی کورنگی ساجد سدوزئی نے بتایا کہ لاشیں 2 بچیوں اور 2 خواتین کی تھیں، جاں بحق بچیوں میں 10 سال کی ثمرہ، 12 سال کی فاطمہ، 16 سال کی نیہا اور ایک شادی شدہ خاتون ہما شامل تھیں، جب کہ فواد نامی شخص کو شدید زخمی حالت میں وہاں پایا گیا تھا۔

    پولیس نے بتایا کہ بچیوں کا والد فواد نجی کمپنی میں سیلز منیجر تھا، تفتیش سے معلوم ہوا کہ پہلی منزل پر گھر کا دروازہ اندر سے لاک تھا، جب کہ گراؤنڈ فلور پر موجود بھائی اور والدہ نے کوئی شور نہیں سنا، معلوم ہوا کہ فواد نے نشہ آور چیز کھلا کر بیٹیوں اور بیوی کی جان لی تھی۔ ملزم فواد نے ابتدائی بیان میں بتایا کہ نوکری کے ساتھ پارٹ ٹائم ٹریڈنگ بھی کرتا ہے، اور انویسٹرز نے پیسہ لگایا ہوا تھا اور ٹریڈنگ میں نقصان ہو گیا، قرض واپس کرنا تھا، مالی پریشانی کی وجہ سے بیوی سے بھی جھگڑا رہتا تھا۔

    فواد نے بتایا میں پیسوں کی وجہ سے سخت ڈپریشن میں تھا، آخر میں نے فیصلہ کیا کہ سب کو ختم کر کے خود کشی کرلوں گا، جب بیوی واش روم گئی تو میں نے بڑی بیٹی کے گلے پر چھری پھیری، پھر دونوں بیٹیاں جو سو رہی تھیں ان کے گلے پر چھری پھیری، پھر بیوی کو بولا باہر آ جاؤ، اس کے باہر آتے ہی اس کے گلے پر بھی چھری پھیر دی۔ اپنی بیٹیوں کی تصاویر میں نے انویسٹرز کو بھیجیں، انویسٹرز کو لکھا میں نے اپنی فیملی کو ختم کر دیا ہے اور میں اب اپنی جان لینے لگا ہوں، پھر میں نے اپنے گلے پر بھی چھری پھیر دی۔

    ڈاکٹروں نے بتایا کہ چھری پھرنے کی وجہ سے فواد کا ووکل کارڈ متاثر ہوا ہے اور اب شاید وہ پھر کبھی نہ بول سکے۔ اس لیے پولیس کے سوالات کا جواب بھی اس نے لکھ کر دیا۔ پولیس نے سرکار کی مدعیت میں اس کے خلاف چار قتل کا مقدمہ درج کیا۔

    7 اکتوبر 2022

    پشاور: گھر سے ماں اور بیٹیوں کی لاشیں برآمد

    پشاور کے علاقے حیات آباد میں گھر سے تین خواتین کی لاشیں برآمد ہوئیں، جو گھر کے ایک بند کمرے میں پڑی تھیں، ان میں سے ایک ماں تھیں اور باقی ان کی نوجوان بیٹیاں‌ تھیں۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق 44 سالہ والدہ عنبر ناصر نے پہلے دونوں بیٹیوں 18 سالہ مائرہ اور 14 سالہ عیشال کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کی تھی۔ پولیس کے مطابق خاتون نے دو سال قبل اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کی تھی۔

    عنبر ناصر کے چچا ارشد علاؤالدین نے پولیس کو بیان دیا کہ ’میری بھتیجی نے دو سال قبل اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کی تھی، وہ بار بار مجھ سے وراثت میں حصہ مانگتی تھی، میرے گھر آ کر مجھ سے جھگڑا کیا، میری آنکھوں میں مرچیں بھی ڈالیں، ارشد علاؤالدین نے مزید کہا کہ ان کی بھتیجی نے اپنی بیٹیوں اور خود پر فائرنگ کر کے زندگی کا خاتمہ کیا ہے۔

    6 دسمبر 2022

    راولپنڈی میں ایک گھر میں بہن کے مرنے کے بعد معذور بھائی کا انجام

    یہ واقعہ اگرچہ قتل کا نہیں تھا لیکن راولپنڈی کے علاقہ صادق آباد میں پیش آنے والا یہ واقعہ ایک نہایت افسوس ناک پہلو کا حامل تھا، ایک گھر سے بہن اور بھائی کی لاشیں برآمد ہوئیں تھیں، تھانہ صادق آباد پولیس نے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ آفندی کالونی میں واقع گھر سے ملنے والی لاشوں میں سے ایک بہن کی لاش تھی، جو 25 دن پرانی تھی، جب کہ بھائی کی لاش 4 روز پرانی تھی۔

    پولیس کے مطابق بہن اپنے معذور بھائی کی واحد کفیل تھی، لیکن بہن کے مرنے کے بعد معذور بھائی کچھ نہ کر سکا، اور وہ بھی سسک سسک کر گھر میں زندگی کی بازی ہار گیا اور قریبی گھروں میں رہنے والوں کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔

    1 جنوری 2022

    جہلم: ماں کے ہاتھوں تین بچیوں کا بے دردی سے قتل

    سال کے پہلے ہی دن یہ دل خراش واقعہ پیش آیا، جہلم کے نواحی گاؤں ہرن پور میں حالات سے دلبرداشتہ ایک ماں نے اپنی تین بچیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بچیوں کی عمریں 2، 3 اور 5 سال تھیں، انھیں قتل کرنے کے بعد ماں نے بھی خودکشی کی کوشش کی، لیکن شدید زخمی ہو گئیں۔ اس دل خراش واقعے کی خبر جب بچیوں کے والد کو دی گئی تو وہ صدمے سے بے ہوش ہو گئے۔

    ڈی ایس پی سلیم خٹک نے واقعے سے متعلق بتایا کہ خاتون کا اپنے شوہر سے رات گئے جھگڑا ہوا تھا، جس کے بعد وہ گھر سے نکل جانا چاہتی تھیں، لیکن رشتے داروں نے صلح کراتے ہوئے معاملہ رفع دفع کرا دیا۔ ڈی ایس پی کے مطابق خاتون کا شوہر صبح 6 بجے اپنی والدہ کے گھر گیا اور وہیں سے کام پر چلا گیا، شوہر کے جانے کے بعد کمرے کا دروازہ بند کر کے ماں نے بچیوں کو تیز دھار آلے سے قتل کر دیا، خاتون نے اپنے آپ کو زخمی کرنے کے بعد آگ بھی لگائی، تاہم خاتون کے دیور کو پتا چلا تو اس نے دروازہ توڑ کر ریسکیو 1122 کو اطلاع دے دی۔

    6 جنوری 2022

    چونیاں: سنگ دل باپ نے 3 بیٹیوں کو نہر میں پھینک دیا

    پنجاب کے شہر چونیاں میں ایک سنگ دل باپ نے 3 بیٹیوں کو نہر میں پھینک دیا تھا، جسے پولیس نے گرفتار کر لیا، باپ کے حوالے سے پولیس کا کہنا تھا کہ اس نے چند دن پہلے آلہ آباد کےعلاقے بگھیانہ میں فائرنگ کر کے ایک شخص کو قتل اور کئی افراد کو زخمی کیا تھا۔ ڈی پی او چونیاں کے مطابق ملزم نے بیٹیوں کے قتل کا اعتراف بھی کیا۔ ایک دن بعد ریسکیو کو صرف ایک بچی کی لاش نہر سے ملی۔

    19 جنوری 2022

    کاہنہ میں گھر سے خاتون ڈاکٹر کی 3 بچوں سمیت لاشیں برآمد

    لاہور کے علاقے کاہنہ میں قتل کی ایک ایسی لرزہ خیز واردات ہوئی جس نے ہر کسی کے دل دہلا دیے۔ ایک خاتون ڈاکٹر کو ان کے 3 بچوں سمیت قتل کر دیا گیا تھا، ابتدائی طور پر جب گجومتہ میں ایک مکان سے خاتون ڈاکٹر اور 3 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں تو ہر طرف سنسنی پھیل گئی تھی، واقعے کے وقت مقتولہ کا ایک 14 سالہ بیٹا علی زین دوسرے کمرے میں ہونے کے باعث بچ گیا تھا۔ تین بچوں میں 8 سالہ فاطمہ لے پالک تھی۔

    ڈاکٹر ناہید گائناکالوجسٹ تھیں اور گھر کے نیچے ہی کلینک تھا، معلوم ہوا تھا کہ مقتولہ کے سابق شوہر سبطین نے انھیں طلاق دے کر ایک لیڈی ٹریفک وارڈن سے دوسری شادی کر رکھی تھی اور وہ ڈیفنس میں رہائش پذیر تھے۔ قتل کے واقعے کا مقدمہ بچ جانے والے بیٹے علی زین کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

    تاہم چند دن بعد پولیس نے آخر کار اس قتل کیس کا ڈراپ سین کر دیا، جب انھوں نے ثابت کر دیا کہ قاتل کوئی اور نہیں بلکہ خاتون کا اپنا بچ جانے والا بیٹا زین تھا، جس نے پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر ان سب کو فائرنگ کر کے قتل کیا تھا، زین سے آلہ قتل بھی برآمد کیا گیا۔ اس کیس نے یہ بھی بتایا کہ پب جی جیسے آن لائن گیموں کے اثرات ناپختہ ذہنوں پر کس گہرائی سے ثبت ہوتے ہیں۔

    12 جنوری 2022

    کراچی: ماں کے سامنے  بیٹے کا قتل

    اگرچہ اس کیس میں صرف ایک فرد کا قتل ہوا لیکن میڈیا پر یہ خبر کئی ہفتوں تک چھائی رہی۔ کراچی کے علاقے کشمیر روڈ پر ڈکیتی کی مزاحمت پر ماں کے سامنے اس کا بیٹا شاہ رخ قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظرعام پر آئی، مقتول کی والدہ نے گھر کی بیل بجائی، تو اسی وقت لٹیرے لوٹنے آ گئے، شاہ رخ نے گیٹ کھولتے ہی ڈاکو پر کو پکڑنے کی کوشش کی جس پر اس نے فائرنگ کر دی۔ قاتل فائرنگ کرنے کے بعد زیورات لوٹ کر موٹر سائیکل پر بہ آسانی فرار ہو گیا۔

    شاہ رخ کی صرف ایک ہفتے قبل ہی شادی ہوئی تھی، وہ ایک ہفتے قبل دلہا بنا اور ڈاکو نے اسے کفن پہنا دیا، اہل خانہ نے بتایا کہ شاہ رخ 7 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور گھر والوں کا لاڈلہ تھا، کزن نے بتایا کہ وہ دوستوں کا دوست اور ملنسار تھا۔

    27 جنوری 2022

    کراچی: صدر میں ہوٹل کے کمرے سے لاش برآمد

    کراچی کے علاقے صدر میں ہوٹل میں چھری کے وار سے قتل ہونے والے ایک شخص کی لاش ملنے کے واقعے نے بھی میڈیا پر بریکنگ نیوز کی حیثیت سے جگہ بنائی، پولیس نے چوبیس گھنٹوں کے اندر معلوم کیا کہ یاجد نامی شخص کو اس کے دوست اسامہ نے قتل کیا ہے۔ قاتل نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ وہ یاجد کے ساتھ ہوٹل پہنچا، ساتھ ناشتہ کیا پھر اسے قتل کر دیا، اس نے مقتول سے کئی سال تک بلیک میل کر کے بدفعلی کرنے کا بدلہ لیا۔

    معلوم ہوا کہ یاجد کا تعلق خیبر پختون خوا کے شہر بونیر سے تھا، دونوں ایک ہی مدرسے میں پڑھتے تھے، اسامہ نے بتایا کہ وہ اسے غلط کام پر مجبور کرتا تھا، اور شکایت پر یاجد کو مدرسے سے نکال دیا گیا تھا۔ واقعے والے دن بھی یاجد نے غلط نیت سے بلایا۔ جھگڑا ہوا اور اس دوران اسامہ نے اسے چھری کے وار کر کے قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق اسامہ کو بونیر فرار ہوتے وقت بس اسٹاپ سے گرفتار کیا گیا، اور اس سے یاجد کا فون بھی برآمد ہوا۔

    3 فروری 2022

    کراچی میں قتل کی لرزہ خیز واردات، گھر سے میاں بیوی کی لاشیں برآمد

    کراچی کے علاقے منظور کالونی میں ایک گھر سے میاں بیوی کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں، پولیس نے تفتیش کی تو انکشاف ہوا کہ شوہر نے بیوی کو ذبح کر کے خود کشی کی ہے۔ پولیس کے مطابق شوہر سیف اللہ نے بیوی آمنہ کو تیز دھار آلے سے وار کر کے قتل کیا اور بعد میں پنکھے سے پھندا لگا کر خود کشی کر لی۔

    مقامی پولیس کا کہنا تھا کہ کثیرالمنزلہ عمارت میں میاں بیوی کے ساتھ بچے بھی تھے، لیکن کوئی بھی بچہ عینی شاہد نہیں تھا۔ 7 بہن بھائیوں میں کچھ بالائی اور کچھ نچلی منزلوں پر تھے لیکن کوئی بھی وقوعہ کے وقت والدین کے پاس نہیں تھا۔

    12 فروری 2022

    سوات: گھر سے 3 افراد کی لاشیں برآمد، علاقے میں کہرام مچ گیا

    یہ واقعہ سوات کی تحصیل مٹہ، وینئی میں پیش آیا، جہاں ایک گھر سے 3 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں تھیں، پوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوا کہ خواتین اور بچی کو تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا ہے۔ پولیس نے مقتولہ کے بیٹے کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا، ابتدائی طور پر جنگلی جانور کے حملے میں تینوں افراد کی موت کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

    بعد ازاں، مینگورہ میں ڈی پی او سوات زاہد نواز مروت نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ یہ قتل کی واردات تھی، اور اس کی وجہ پسند کی شادی تھی، انھوں نے بتایا چار باغ میں پسند کی شادی کرنے والے کوہستانی جوڑے کے قاتل کو گرفتار کر لیا گیا ہے، قاتلوں میں مقتولین کے بھائی اور مقتولہ کا چچا شامل تھا۔

    ڈی پی او سوات نے کہا کہ مقتول مجیب اور لاہوری بی بی نے محض 4 ماہ قبل پسند کی شادی کی تھی

    16 فروری 2022

    لاہور شاہدری میں ماں بیٹی کا لرزہ خیز قتل

    پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ماں بیٹی کا لرزہ خیز قتل ہوا، شاہدرہ میں ایک گھر سے ماں بیٹی کی لاشیں ملیں، جن کی شناخت 45 سالہ بشریٰ اور 20 سالہ ثنا کے ناموں سے کی گئی، دونوں کو تیز دھارآلے سے قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے ابتدائی رپورٹ ہی میں کہا کہ مبارک نامی شخص نے رشتے کے تنازع پر ماں بیٹی کا قتل کیا اور فرار ہو گیا۔

    ایس ایس پی نے میڈیا کو بتایا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق ملزم مبارک نے اپنے بھائی کی بیوی، اور ساس کو قتل کیا اور فرار ہو گیا۔

    28 فروری 2022

    کراچی میں مالک مکان نے بیوہ خاتون کے 2 بچوں کو آگ لگا دی

    صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک بیوہ خاتون کے مکان خالی نہ کرنے پر مالک مکان نے ان کے 2 بچوں کو آگ لگا دی، جس سے دونوں بچے جاں بحق ہو گئے۔ یہ اندوہناک واقعہ سہراب گوٹھ کے علاقے جنت گل ٹاؤن میں پیش آیا تھا، خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے بچے بسوں میں پانی فروخت کرتے تھے، مالک مکان نے پچھلے مہینے گھر خالی کرنے کا کہا تھا۔

    خاتون نے دعویٰ کیا کہ مالک مکان نے ایک دن قبل انھیں بہانے سے ایک گھر دیکھنے کے لیے بھیجا، وہ جیسے ہی گئی، پیچھے سے بچوں کو پیٹرول چھڑک کر اس نے آگ لگا دی۔ خاتون کے مطابق وہ بچوں کو سول اسپتال لے گئیں جہاں دونوں دم توڑ گئے، خاتون نے ایک بچے کی لاش ایدھی سرد خانے میں رکھوائی اور دوسرے کی لاش کے ساتھ پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے لگیں۔

    دوسری جانب ایس ایس پی ایسٹ نے میڈیا کو بتایا کہ آتش زدگی کا یہ واقعہ ایک دن قبل رونما ہوا تھا، کسی کے جاں بحق ہونے کی اطلاع نہیں ملی تھی تاہم تحقیقات جاری ہیں۔

    27 فروری 2022

    سفاک قاتل نے بھائی، بھابی، بھتیجی کو قتل کر دیا

    لاہور کے علاقے چوہنگ میں ایک سفاک قاتل نے میاں بیوی اور ان کی بیٹی کو قتل کیا، پولیس نے واردات کے چند گھنٹوں بعد ہی قاتل کو گرفتار کر لیا۔ معلوم ہوا کہ کہ قاتل مقتول امانت علی کا بھائی امین ہے۔ پولیس کے مطابق امین دو نامعلوم افراد کے ساتھ صبح 8 بجے مقتول امانت کے گھر مٹھائی دینے کے بہانے گیا، اور پھر ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے بھائی، بھابی اور بھتیجی کے ہاتھ باندھے اور انھیں بے دردی سے قتل کر کے فرار ہو گیا۔

    پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق مقتول امانت کا اپنے بھائی امین سے جائیداد کا تنازع تھا۔ ایس پی صدر نے بتایا کہ امین نے 2014 میں والد کو بھی قتل کیا تھا اور چند روز قبل ہی والد کے قتل کے الزام میں جیل سے قید کاٹ کر آیا تھا۔

    27 فروری 2022

    لاہور: نواب ٹاؤن میں تہرے قتل کی لرزہ خیز واردات

    صوبائی دارالحکومت لاہور میں میاں بیوی اور ان کی بیٹی کا سفاکانہ قتل ہوا، یہ واقعہ چوہنگ، نواب ٹاؤن میں پیش آیا، تہرے قتل کی اس لرزہ خیز واردات میں تینوں افراد کو ہاتھ پاؤں باندھ کر قتل کیا گیا تھا، مقتولین کی شناخت امانت علی، شبانہ اور ازل کے نام سے ہوئی۔ دل خراش واقعے کی اطلاع ملنے پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی تو گھر میں دل دہلا دینے والے مناظر تھے، کمرے میں ہر طرف خون ہی خون پھیلا ہوا تھا، مقتولین کی لاشیں کپڑے میں لپیٹی گئی تھیں۔

    پولیس نے بتایا کہ مقتول امانت علی کا والد بھی کچھ عرصہ قبل دشمنی کی وجہ سے قتل ہوا تھا، نواب ٹاؤن میں قتل ہونے والے امانت علی کے بھائی سلیم نے بتایا کہ بھائی، بھابھی اور بھتیجی کو دشمنی پر قتل کیا گیا ہے، 2014 میں بھی میرے والد کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔

    31 مارچ 2022

    گھریلو جھگڑے کا خوفناک انجام، ماں نے اپنے 3 بچوں ذبح کر ڈالا

    اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاؤن میں دل خراش واقعہ رونما ہوا، جہاں ایک ماں نے تین بچوں کو چھری کے وار سے بے دردی سے ذبح کر کے قتل کیا، ابتدائی تفتیش کے مطابق اندوہناک واقعہ شوہر اور بیوی کے درمیان گھریلو لڑائی جھگڑے پر پیش آیا، جس پر خاتون نے عاجز آ کر اپنے لخت جگر پر چھریاں چلا دیں، خاتون نے بھی خود کشی کی کوشش کی۔

    جاں بحق ہونے والوں میں سات سالہ ایان، چار سالہ مسکان اور تین سالہ نور شامل تھے، علاقے میں قتل کی اس لرزہ خیز واردات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور لوگوں کی بڑی تعداد متاثرہ مقام پر پہنچی۔

    7 مارچ 2022

    7 دن کی بیٹی کو گولیاں مار کر بے دردی سے قتل کرنے والا باپ

    اس واقعے میں پنجاب کے ضلع میانوالی میں سفاک باپ نے نومولود کو فائرنگ کر قتل کیا اور پھر فرار ہو گیا، پولیس نے تین دن بعد قاتل کو بھکر سے گرفتار کیا، اس کیس میں وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب نے ملزم کی جلد گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ ڈی پی او نے بتایا کہ ملزم کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بھکر سے گرفتار کیا گیا، گرفتاری کے لیے 3 ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔

    سوشل میڈیا پر زیرِ گردش خبروں کے مطابق میانوالی میں شاہ زیب نامی شخص نے اپنی 7 روز کی بیٹی کو محض اس لیے گولیاں مار دی تھیں کہ اس کی پہلی اولاد بیٹے کی بجائے بیٹی تھی۔ صارفین نے ننھی پری کی تصاویر شیئر کیں تھیں، جس میں معصوم جان کو بے دردی سے 5 گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا تھا۔

    7 مارچ 2022

    کراچی: ماں بیٹی کا لرزہ خیز قتل، وجہ کیا تھی؟

    شہر قائد کے علاقے ناظم آباد نمبر چار میں ایک گھر سے ماں اور بیٹی کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں، معلوم ہوا کہ نامعلوم قاتلوں نے گھر میں گھس کر ماں اور بیٹی کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ پولیس کو واقعے سے متعلق 15 پر کال موصول ہوئی تھی۔ پولیس نے تحقیقات کے آغاز میں بتایا کہ ماں بیٹی گھر میں اکیلے تھے، ایک بجے کے قریب گھریلو ملازمہ آئی تو لاشوں کا علم ہوا، ایک لاش صوفے پر ملی تھی دوسری بیڈ پر تھی، اور جائے واردات سے نائن ایم ایم کا ایک خول اور ایک سکہ ملا۔

    پولیس کے مطابق مقتولہ روبینہ کے شوہر نے دو شادیاں کی تھیں، مقتولہ کے شوہر کا دوسرا گھر گلشن میں ہے۔ قتل سے متعلق پولیس نے بتایا کہ دونوں خواتین کو سر میں گولی ماری گئی ہے، واقعہ ذاتی دشمنی لگتا ہے، ممکنہ طورپر مقتولین قاتل کو جانتے تھے۔

    1 مئی 2022

    کوئٹہ: ماں اور 4 بچوں کا سفاکانہ قتل

    صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے کچلاک ناصران میں ایک خاتون کو ان کے 4 بچوں سمیت بے دردی سے قتل کر دیا تھا، مقتولین کو تیز دھار آلے سے قتل کیا گیا، پولیس کا کہنا تھا کہ ماں اور 3 بچوں کے گلے تیز دھار آلے سے کاٹے گئے، ایک بچے کو گلا دبا کر قتل کیا گیا۔

    مقتولین میں 13 سالہ سلمان، 11 سالہ صائمہ، 9 سالہ عنایت اللہ اور 7 سالہ شاہدہ شامل تھی، تحصیل دار جنید باروزئی نے میڈیا کو بتایا کہ بچوں کے باپ کو کچلاک پولیس نے چار افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ باپ نے 2 شادیاں کر رکھی تھیں۔

  • سڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    جبران کی ماں شاہانہ کچن میں صفائی میں مصروف تھیں کہ دروازے پر دستک سنائی دی۔ شاہانہ نے بلال کو آواز دی۔ ’’آپ ذرا باہر جا کر دیکھیں، کون ہے؟‘‘
    انھیں تقریب سے آئے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی، آتے ہی وہ دونوں مختلف کاموں میں لگ گئے تھے۔ جبران کے والد بلال اس وقت آتش دان بھڑکا رہے تھے۔ عرفان اور سوسن پانی کے ٹب میں چھپا کے مار مار کر ہنس رہے تھے۔ وہاں سے مہمان خانہ نظر آرہا تھا جہاں اس وقت جمی صوفے پر ٹانگیں پھیلائے اونگھ رہا تھا۔ بلال نے جمی کو مخاطب کیا تو اس نے آنکھیں کھول لیں۔ ’’جمی، اگر برا نہ مناؤ تو ذرا دروازے پر جا کر دیکھ لیں، کون ہے؟ میرے ہاتھ کوئلے میں سیاہ ہو رہے ہیں۔‘‘

    ’’ضرور کیوں نہیں۔‘‘ جمی نے کہا اور جا کر دروازہ کھولا۔ دروازے پر کھڑے شخص کو دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔ اس کے منھ سے بے اختیار نکلا: ’’پونڈ … تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘

    آنے والا ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ سجا کر بولا: ’’کووان! تم مجھے دیکھ کر حیران کیوں ہوئے ہو؟ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ مجھے بھی آخر کار تم لوگوں سے ملنا ہی تھا، جیسا کہ دیگر لوگ یہاں آچکے ہیں… ارے ہاں آلروئے کہاں ہے؟‘‘

    جمی نے اسے جواب دینے کی بجائے اندر کی طرف مڑ کر بلند آواز میں کہا: ’’بلال … میں جلد ہی واپس آ جاؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جلدی سے دروازہ بند کر لیا اور پونڈ کو بازو سے پکڑ کر باغیچے کی طرف لے گیا۔ ’’بے وقوف، تم ایسے کیوں چلے آئے۔ میں بلال سے تمھارے بارے میں کیا کہوں گا؟‘‘ لیکن پونڈ نے اس کی بات نظر انداز کر کے باغیچے میں گھاس پر بیٹھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پوچھا: ’’یہاں ہو کیا رہا ہے کووان؟ آلروئے کہاں ہے؟‘‘

    جمی بولا: ’’پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لو کہ میں یہاں جمی اور آلروئے جونی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ میں اتنا جان گیا ہوں کہ ہیرے ایک ایک کر کے جمع ہو رہے ہیں اور جادوئی گیند میں رکھے جا رہے ہیں۔ اب تک صرف دو ہی ملے ہیں۔ ایک میرا یعنی سیاہ آبسیڈین اور ایک تمھارا یعنی مرجان۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ باقی ہیروں کو جمع ہونے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا اب۔ پھر باقی لوگ بھی سامنے آ جائیں گے۔‘‘

    ’’تو آخرکار یہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔‘‘ پونڈ نے لمبی سانس لے کر کہا: ’’ہیرے کون جمع کر رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ کنگ کیگان کا کوئی وارث ہوگا۔‘‘

    جمی یعنی کووان کہنے لگا: ’’ایک لڑکی ہے، جس کا نام فیونا مک ایلسٹر ہے، اور وہ کنگ کیگان کی وارث ہے۔ ایک بار جب ہم بارہ اکھٹے ہو جائیں گے اور بارہ ہیرے جادوئی گولے میں پہنچ جائیں گے، تب ہی ہم اس قابل ہوں گے کہ اپنے شروع کیے ہوئے کام کو انجام تک پہنچا سکیں۔‘‘

    پونڈ حیرت سے بولا: ’’ایک لڑکی یہ سب کچھ کر رہی ہے … کتنی عمر ہے اس کی؟‘‘ جمی نے جواب دیا: ’’اس کی عمر گیارہ سال ہے لیکن ہے بہت ذہین اور بہادر۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، کیا ہم فلسطین جائیں گے؟‘‘ پونڈ نے پوچھ لیا۔ جمی نے سر ہلا کر جواب دیا کہ ہاں وہ مل کر پہلے فلسطین جائیں گے اور پھر بورل لوٹ کر پرامن زندگی گزاریں گے۔ اس نے کہا: ’’صدیاں گزر گئیں ہیں صدیاں، یہاں پہلے کبھی ہماری سلطنت ہوا کرتی تھی، ہم اب بھی اپنی سلطنت قائم کر سکتے ہیں، جب وقت آئے گا تو ہم ایسا کریں گے۔ فی الحال ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم جادوئی گولے اور فیونا کی حفاظت کریں، یہاں تک کہ سارے ہیرے جمع کر لیے جائیں اور گولا ایک بار پھر ہمارے قبضے میں آ جائے۔‘‘

    پونڈ نے ایک بار پھر سوال کیا: ’’دوگان اور پہلان کے بارے میں کیا خبر ہے؟‘‘
    ’’’’مجھے خدشہ ہے پونڈ، کہ وہ یہیں پر ہیں۔‘‘ جمی نے سرسراتی آواز میں کہا۔

    (جاری ہے …)

  • چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    درختوں کی اوٹ سے ڈریٹن نے دیکھا کہ اینگس کے گھر میں روشنی ہے۔ وہ خود کلامی کرنے لگا: ’’کوئی گھر میں ہے، کیا یہ تم ہو اینگس … میرا تو جی چاہتا ہے کہ ایک لات مار کر دروازہ توڑوں اور اندر آ کر تمھارا سر بھی پھوڑ دوں، اور پھر تم سے جادوئی گولا چھین لوں۔‘‘

    اس نے دیکھا کہ اس کے نیکلس سے روشنی پھوٹنے لگی ہے۔ وہ بے اختیار چونک اٹھا اور بڑبڑانے لگا: ’’تو اس کا مطلب ہے کہ اب یہاں دو ہیرے آ چکے ہیں، لیکن ان ہیروں کا بھلا یہاں کیا کام؟ ان کا ٹھکانا تو میرے پاس ہے، میں ہوں اس کا اصل مالک۔‘‘

    وہ احتیاط سے چلتا ہوا کھڑکی کے پاس آیا اور اندر جھانکا۔ اندر اینگس کے ساتھ فیونا، جبران اور دانیال بھی تھے۔ وہ حیران ہو گیا کہ یہ تینوں یہاں کیا کر رہے ہیں، اور سوچنے لگا کہ ان میں سے لڑکی ضرور ایک فیونا ہوگی۔ آخر کار اس نے گولا بھی دیکھ لیا۔ وہ اینگس کے عین سامنے میز پر رکھا پڑا تھا۔ اس میں دو نگینے جڑے ہوئے تھے۔ جادوئی گیند دیکھ کر ڈریٹن کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے حاصل کرنے کے لیے کیا کرے۔ اچانک اسے ایک خیال سوجھا اور اپنی عادت سے مجبور ہو کر بڑبڑانے لگا: ’’اب تک صرف دو ہیرے حاصل ہوئے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ میں انھیں کیوں حاصل کروں؟ میں بھی کتنا احمق ہوں۔ یہ حاصل کرنے کے بعد باقی ہیروں کے لیے خوار پھرتا رہوں گا۔ اس سے بہتر یہ نہیں ہے کیا کہ ان چالاک بچوں ہی کو سارے ہیرے ڈھونڈ نکالنے دیا جائے اور جب سارے آ جائیں تو پھر آسانی سے انھیں قتل کر کے گولا اور ہیرے دونوں حاصل کر لوں۔‘‘

    یہ سوچ کر وہ مطمئن ہو گیا اور ابھی سے ہنگامہ کرنے کا ارادہ بدل لیا۔

    (جاری ہے)

  • پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    انھوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ چھوڑ دیے۔ وہ اینگس کے گھر پر کھڑے تھے۔ جبران نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’وہ سو رہے ہیں، ہمیں دھیمے قدموں سے یہاں سے جانا چاہیے، کہیں ان کی نیند میں خلل نہ آ جائے۔‘‘

    ’’ہم ایسا نہیں کر سکتے، مرجان کو گولے میں رکھنا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے اینگس کو جگا دیا۔ وہ اچھل کر کھڑے ہو گئے، انھیں یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی واپس آ جائیں گے۔ اینگس نے کہا کہ انھیں شاید اونگھ آ گئی تھی اور یہ کہ وہ سو نہیں رہے تھے۔ فیونا نے مرجان ان کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’ہمیں یہ بہت مشکل سے حاصل ہوا ہے، کبھی ٹرالز، کبھی زلزلہ تو کبھی وائی کنگز … بس سارا وقت دوڑتے بھاگتے ہی گزرا۔‘‘

    جبران نے بتایا کہ انھیں ایک موقع پر پفن نے بچایا: ’’مجھے تو ٹرالز پکڑ کر زندہ بھون کر کھانا چاہ رہے تھے، لیکن بچت ہوگئی۔‘‘

    ایسے میں دانیال بھی حالات کا ایک حصہ بتانے لگ گیا: ’’ہم ایک کشتی میں گئے، نیلی جھیل میں تیراکی کی، اور پتا ہے ایک بھتنے اور روشنی کی پری سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔‘‘

    یہ سن کر جبران اور فیونا حیرت کے مارے اچھل پڑے۔ وہ کسی جادوئی دنیا میں نہیں بلکہ حقیقی دنیا میں کھڑے تھے۔ لیکن دانیال نے بڑی روانی سے انگریزی میں بات کی تھی۔

    ’’اوہ … اس کا مطلب ہے کہ اب تم انگریزی مکمل طور پر سیکھ چکے ہو۔‘‘ فیونا نے دانیال کی طرف حیرت سے دیکھا۔ دانیال خود بھی اچھل پڑا تھا۔ اس کے منھ سے نکلا …. ارے … یہ …. یہ کیسے ہو گیا؟ جبران نے خوش ہو کر کہا چلو اچھا ہوا، اب مجھے ترجمانی کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ وہ دونوں اس بات پر مسکرا دیے۔ تب انھیں اینگس نے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ ’’تم لوگوں نے بلاشبہ کئی مہمات سر انجام دی ہوں گی، کیوں نہ اس مرتبہ دانیال ساری تفصیل بیان کرے، کیوں کہ پچھلی مرتبہ فیونا نے تفصیل سنائی تھی۔‘‘

    جبران نے ایک قدم آگے بڑھ کر کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ اینگس نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں جبران، تم اگلی مرتبہ سناؤ گے۔‘‘

    ’’اوہو … میری باری تو ہمیشہ آخر میں آتی ہے۔‘‘ دانیال کہانی سنانے لگا۔ ایک دشوار سفر کی کہانی سن کر اینگس نے کہا: ’’تم لوگ واقعی بہت ساری مشکلات سے گزر کر آئے ہو، یہ اتنی بڑی ہیں کہ تمھاری عمر کے بچوں کا ان سے سامنا کرنے کی توقع بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘

    دانیال نے کہا کہ وہ ان واقعات کو اپنی ڈائری میں لکھے گا، ٹرالز، پفن اور میگنس کی تصاویر بھی بنائے گا۔ اینگس نے بھی اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ شام کو یہ کہانی لکھیں گے۔

    جادو کا گولا ان کے سامنے میز پر دھرا تھا۔ اینگس نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ والا ہیرا، پہلے والے ہیرے سے قطار میں پہلے آئے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اینگس نے ہیرا پہلی سوراخ میں رکھ دیا، عین اسی لمحے دونوں ہیرے چمک اٹھے۔

    جبران نے کہا: ’’ارے ڈریگن چمک اٹھے ہیں۔‘‘ اینگس پراسرار لہجے میں بولا: ’’فیونا … کیا تم جانتی ہو کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ میں بتاتا ہوں، اب تمھارے پاس دوسری طاقت بھی آ گئی ہے، ایک ایسی پراسرار طاقت جس کی مدد سے تم خود کو چھوٹا اور بڑا کر سکتی ہو۔‘‘ یہ سن کر تینوں ایک دم سناٹے میں آ گئے۔

    وہ اینگس کی بات کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بات تو سیدھی طرح ان کی سمجھ میں آ گئی تھی لیکن اس بات پر یقین کرنا ذرا مشکل ہی تھا کہ کوئی شخص خود کو اپنی مرضی سے چھوٹا یا بڑا کر سکتا ہے۔ وہ بے یقینی کے عالم میں اینگس کو اس انداز سے دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں کہ آپ نے ابھی کیا کہا تھا!

    اینگس ان کا رد عمل دیکھ کر مسکرا دیے، اور بولے: ’’میرے کہنے کا سیدھا سادہ مطلب ہے، یعنی فیونا اب خود کو اپنی مرضی کے مطابق سکیڑ کر چھوٹا بھی کر سکتی ہے اور پھیلا کر بڑا بھی … اتنا بڑا کہ مجھ سے بھی …!‘‘

    ’’واؤ …‘‘ تینوں کے منھ سے بے اختیار چیخ نما نعرہ نکلا۔ ’’مم … میں … اب نہ صرف آگ لگا سکتی ہوں بلکہ خود کو چھوٹا بڑا بھی کر سکتی ہوں …. اوہ … یہ … یہ … بالکل خواب جیسا ہے … پر مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ فیونا پرجوش ہو کر بولی۔

    لیکن اس سے قبل کہ جبران یا دانیال کچھ بولتے، اینگس نے نہایت سنجیدہ لہجے میں فیونا کو خبردار کیا: ’’میں نے تم سے جو کہا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا۔ اگرچہ یہ سب کچھ بہت شان دار ہے اور تمھیں بے حد مزا بھی آ رہا ہے لیکن یہ مت بھولو کہ یہاں شیطانی قوتیں بھی موجود ہیں۔ زیادہ خود اعتمادی ٹھیک نہیں ہے بلکہ ہر لمحے چوکنا رہو۔‘‘

    اینگس کہتے کہتے ایک لمحے کے لیے ٹھہرے اور پھر بولے: ’’چلو اب دیکھتے ہیں کہ قدیم کتاب میں اور کیا لکھا ہے، اور … آگے کیا کچھ ہونے والا ہے؟‘‘

    (جاری ہے….)

  • چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    میگنس نے خاکی سوٹ پہن رکھا تھا، لیکن اب وہ گہرے نیلے میں بدل چکا تھا۔ ٹوپی ہلکے نیلے رنگ کی ہو گئی تھی اور یہی رنگ جوتوں کا تھا۔ اس کی آنکھیں قمقموں کی طرح چمک اٹھی تھیں اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ تینوں جہاں کھڑے تھے، وہیں بت بن کر کھڑے رہ گئے۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ان کے سامنے ایک زندہ بھتنا کھڑا ہے۔ جبران کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’تت … تت … تم سچ مچ بھتنے ہو؟‘‘

    فیونا بھی یہ دیکھ کر تھوڑی سی گھبرا گئی تھی: ’’تت … تم … تو بالکل نیلے گلیشیئر کی طرح چمک رہے ہو۔‘‘

    بھتنا بولا: ’’میں جانتا ہوں کہ تم اپنے والدین کے ساتھ نہیں آئے ہو، اور میں ہیمے میں ٹرالز کے بارے میں بھی جانتا ہوں، میں نے تم تینوں کی نگرانی کے لیے اپنی ننھی دوست انیکا کو بھیجا تھا۔‘‘

    تینوں بے اختیار اچھل پڑے۔ فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اوہ … تو وہ انیکا تھی، جس نے ہماری مدد کی تھی۔ وہ دھن بھی انیکا کی تھی اور پفن پرندوں کو بھی اس نے ہمارے ساتھ بھیجا۔‘‘

    میگنس نے پراسرا مسکراہٹ کے ساتھ خاموشی سے سر ہلا دیا۔ ’’واؤ … یہ سب کتنا شان دار لگ رہا ہے۔ میں یہاں آئس لینڈ میں کھڑا ایک بھتنے سے بات کر رہا ہوں۔ میں اس سے قبل کبھی کسی بھتنے سے نہیں ملا۔ دراصل مجھے ان کے وجود پر یقین ہی نہیں تھا۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا۔ اس کے بعد تینوں نے باری باری میگنس بھتنے سے مصافحہ کیا، فیونا نے کہا کہ چھوٹی سے روشنی پری کو ہماری مدد کرنے پر شکریہ کہہ دینا، اور آپ کا بھی بہت شکریہ۔ میگنس نے کہا: ’’آئس لینڈ ایک جادوئی جگہ ہے۔ یہاں بھتنے، بونے، پریاں اور حتیٰ کہ ٹرالز بھی ہیں۔ اکثر ٹرالز اپنے آپ میں گم رہتے ہیں لیکن وہ والے دراصل شیطان کے زیر اثر تھے۔‘‘

    ایسے میں جبران نے اس کے عجیب جوتوں پر ایک نظر ڈال کر پوچھا: ’’کیا میگنس آپ کا اصل نام ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ بھتنے نے جواب دیا کہ اس کا اصل نام تھوری ہیلا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر یہاں کے لوگ جان گئے کہ میں بھتنا ہوں تو مجھے کبھی بھی کام نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اسی لمحے ہلکی سی روشنی اس کے گرد جھلملانے لگی۔ وہ چونک کر بولا: ’’اوہ… انیکا… تم عین وقت پر آ گئی ہو، دیکھو تمھارے دوست رخصت ہو رہے ہیں یہاں سے۔‘‘

    اگلے لمحے ان کے سامنے ایک ننھی سی ہلکی نیلی پری نمودار ہو گئی، ظاہر ہے کہ اس کے دو پر تھے اور اس کے بال سنہری تھے۔ دانیال بول اٹھا: ’’اس پری کی آنکھیں بھی تمھاری طرح نیلی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں یہی تو ہماری پہچان ہے۔ ہم انسانوں کا روپ بھی دھار سکتے ہیں، لیکن جو ہمارے بارے میں جانتے ہیں وہ ہمیں ان آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں۔‘‘ بھتنا مسکرا کر بولا۔

    ’’ہیلو انیکا …‘‘ فیونا نے اسے مخاطب کیا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ انیکا فوراً بھتنے کے پیچھے چھپ گئی۔ میگنس بولا: ’’روشنی کی پریوں کو کبھی مت چھونا، ورنہ جل جاؤ گی، اچھا اب میں اپنے کام پر جاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر پہلے والے لباس میں آ گیا۔ تینوں نے ان کی طرف ہاتھ ہلایا اور رخصت ہو گئے۔ میگنس نے جاتے جاتے ہانک لگائی: ’’مجھے مت بھولنا۔‘‘

    وہ تینوں سڑک پر آ گئے، اور نیلی جھیل کے لیے بس پکڑ لی۔ جھیل کا پانی گہرا نیلا تھا، اوپر سے ٹھنڈا لگ رہا تھا لیکن حقیقت میں خاصا گرم تھا اور اس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس کی حرارت ایک سو چار فارن ہائٹ تھی۔ دراصل اس میں ایک میل گہرائی میں بجلی پیدا کرنے والے پمپ لگے ہوئے تھے۔ وہ پمپ سمندر کے پانی سے بجلی پیدا کر کے باقی پانی کو جھیل میں چھوڑ دیتے تھے۔ تینوں اس میں نہانے کے بعد پھر بس میں بیٹھ کر ٹاؤن پہنچ گئے۔ فیونا نے ایک بار پھر آئس لینڈ کی کرنسی تبدیل کروا لی اور پھر ان ہی پہاڑیوں کی طرف چل دیے جہاں وہ پہلی مرتبہ نمودار ہوئے تھے۔ تینوں عین اسی مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ وہ خاموشی سے آئس لینڈ کو دیکھنے لگے۔

    دانیال بولا: ’’مجھے آئس لینڈ بہت یاد آئے گا، خصوصاً پفن اور میگنس۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ ہم آئس لینڈ کے ایک بھتنے کو جانتے ہیں۔‘‘

    فیونا نے طویل سانس لے کر کہا: ’’کیا تم دونوں تیار ہو … ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔‘‘

    اس کے ساتھ ہی وہ واپسی کا منتر پڑھنے لگی۔ ’’دالث شفشا یم بِٹ!‘‘ ان کی سماعتوں سے جبران کی آواز ٹکرائی: ’’الوداع اے آئس لینڈ۔‘‘

    لیکن ابھی اس کے منھ سے پورا جملہ ادا نہیں ہو پایا تھا کہ انھوں ںے خود کو اینگس کے گھر میں پایا۔

    (جاری ہے)

  • تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’وائی کنگز بہت تیز رفتاری کے ساتھ دوڑتے آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا بولنے لگی۔ ’’لیکن جیسے ہی یہ لوگ روشنی کی اس دیوار سے ٹکرائیں گے، سب کے سب ختم ہو جائیں گے۔‘‘

    فیونا کا ہاتھ ابھی تک فضا میں بلند تھا، جس میں موجود مرجان سے نکلنے والی شعاع نے دیوار اٹھا دی تھی، جبران تجسس میں اس کے بہت قریب ہو گیا تو اس کا کندھا فیونا سے ٹکرا گیا، فیونا کو تو جھٹکا لگا ہی، لیکن جبران کو ایسے لگا جیسے کسی تیز برقی آرے نے اسے سَر سے بالکل درمیان میں پیروں تک چیر کر رکھ دیا ہو۔ فیونا بے اختیار چلائی: ’’یہ کیا کر رہے ہو جبران، دور رہو مجھ سے۔‘‘ جبران خود بہ خود ہی دور ہو چکا تھا لیکن اس جھٹکے کے باعث وہ کچھ دیر تک سن کھڑا رہا۔ فیونا کے ہاتھ میں مرجان سورج کی طرح چمکتا رہا۔

    وائی کنگز اندھا دھند دوڑے چلے آ رہے تھے، وہ بالکل بے خوف تھے اور راستے میں آنے والی کسی بھی چیز کو خاطر میں نہ لا رہے تھے، چناں چہ وہ جیسے روشنی کی دیوار سے ٹکرائے، غائب ہو گئے۔ اسی طرح وہ ایک ایک کرتے غائب ہوتے رہے۔

    ’’آہا، دیوار نے کام کر دیا۔‘‘ جبران جو اب تک جھٹکے سے سنبھل چکا تھا، خوش ہو کر بولا۔ اس کے چہرے پر اب خوف کی جگہ مسکراہٹ نظر آ رہی تھی۔ ذرا دیر بعد سب کے سب وائی کنگز کا خاتمہ ہو گیا، تو فیونا نے اطمینان کی سانس لی، اور مرجان کو جیب میں رکھ دیا۔ روشنی کی دیوار بھی خود بہ خود غائب ہو گئی۔ دانیال نے فیونا سے پوچھا کہ اسے روشنی کی دیوار بنانے کا خیال کیسے آیا۔ فیونا نے کہا: ’’پتا نہیں، میرے دماغ میں خود بہ خود خیال آتا ہے اور میں فوراً عمل کر لیتی ہوں، میرا خیال ہے کہ یہ کنگ کیگان کے جادوگر کے جادو کا اثر ہے۔‘‘

    ’’مجھے تو یقین نہیں آ رہا ہے فیونا۔‘‘ جبران بولنے لگا: ’’کہ ہم اتنے خطرات کے بعد بھی زندہ ہیں۔ مجھے تو یقین ہو گیا تھا کہ میں ٹرال کا لقمہ بن جاؤں گا۔‘‘

    ’’چلو، اللہ کا شکر ہے کہ ہم بچ گئے، اب یہ بتاؤ جبران کہ کیا تمھارا موڈ ہو رہا ہے کہ تم اپنی پسندیدہ ڈش پھر کھاؤ۔‘‘ دانیال نے مسکرا کر کہا۔

    ’’اہو … شرط لگا لو … میں تو تیار ہوں۔‘‘ جبران جھٹ سے بولا۔ فیونا نے ہنستے ہوئے کہا: ’’پلیز جبران، اب تم یہ مت کہنا کہ پفن جیسا معصوم پرندہ بھی کھا جاؤ گے۔‘‘

    ’’نہیں، بالکل نہیں، میں تو کیلا اور پپرونی پیزا کھانا چاہوں گا، جو تم نے پہلے بھی کھایا تھا۔‘‘ جبران نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ دانیال نے ایسے میں جیب سے پمفلٹ نکال لیا اور پھر دونوں کو خبردار کیا: ’’ہمیں واپس لے جانے کے لیے کشتی یہاں سے دو گھنٹے بعد روانہ ہو گی۔‘‘ جبران نے منھ بنا کر کہا کہ اب تین گھنٹے پھر جی متلاتا رہے گا۔ لیکن فیونا نے کہا کہ اب کے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ سمندر پرسکون ملے گا۔ تینوں بھوکے تھے، ٹاؤن کی طرف دوڑنے لگے۔ انھوں نے ریستوران میں برگر اور پیزا کھا کر پیٹ بھرے اور بروقت جا کر کشتی میں بیٹھ گئے۔ واپسی کا سفر واقعی پر سکون رہا۔ دوسری طرف ساحل پر اترنے کے بعد انھوں نے بس پکڑی اور ریکجاوک پہنچ گئے۔

    ’’میرے خیال میں ہمیں گھر واپس جانا چاہیے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا۔ ’’کیا خیال ہے کہ جاتے جاتے نیلی جھیل میں کچھ دیر نہاتے ہوئے جائیں۔ ہم تیراکی کا لباس پھر کرائے پر لے لیں گے۔ اس کے بعد ایک یا دو برگر مزید کھا کر اپنے اپنے گھر ہو لیں گے۔‘‘

    ’’زبردست …!‘‘ جبران بولا۔ دانیال کو بھی تجویز پسند آئی۔ تینوں اپنے ہوٹل جا کر بل ادا کرنے لگے۔ انھوں نے میگنس کو الوداع کہا تو اس نے حیرت سے کہا: ’’گھر جا رہے ہو؟ میں نے تو تمھارے والدین کو ابھی تک نہیں دیکھا۔‘‘ فیونا کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ دوڑنے لگی۔ اس نے میگنس کے جوتوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’کتنے عجیب جوتے ہیں، تم تو بالکل بھتنے کی طرح لگتے ہو۔‘‘ میگنس کو اس کی بات عجیب لگی لیکن اس نے فیونا کی بات کا برا نہیں منایا، اور ان کے لیے دروازہ کھولا۔ وہ باہر نکلے تو میگنس نے انھیں الوداع کر کے کہا: ’’سچ یہ ہے کہ میں واقعی بھتنا ہوں۔‘‘

    یہ سن کر تینوں مسکرانے لگے۔ وہ جانتے تھے کہ میگنس مذاق کر رہا ہے اور حقیقت میں بھتنے نہیں ہوتے۔ لیکن میگنس نے ایک ہاتھ اٹھا کر اسے ہلکا سا جھٹکا دیا اور ایک شعلہ سا بھڑک کر اس کے سر سے پیروں تک چلا گیا، اور اگلے لمحے اس کے کپڑے تبدیل ہو چکے تھے۔

    (جاری ہے)

  • باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    فیونا پرندے کو پیار کر رہی تھی کہ اچانک جبران کی سرسراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی: ’’فیونا، میرے خیال میں تیسرا پھندا میری سمجھ میں آ گیا ہے۔‘‘

    فیونا اور دانیال دونوں چونک اٹھے۔ انھوں نے دیکھا کہ جبران دور ساحل کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ پرندوں کا غول دور نیلے آسمان میں اڑتا جا رہا تھا۔

    ’’وہ کیا ہے؟ سمندری ڈاکو؟‘‘ فیونا نے دور سمندر میں ایک بحری جہاز کی طرف دیکھ کر کہا، جس کے بادبان پر سرخ و سفید دھاریاں تھیں اور جہاز کا مستول کسی ڈریگن کے سر کی طرح مڑا ہوا تھا۔

    دراصل یہ ایک وائی کنگ جہاز تھا جو ان کی طرف تیزی سے آ رہا تھا اور یہ بہت بڑا تھا۔ جب وہ ساحل کے قریب لنگر انداز ہوا تو بے شمار لوگ اس پر سے چھلانگیں مار کر اترے اور بحری جہاز کو ریت پر کھینچنے لگے۔

    ’’یہ وائیکنز ہیں…؟‘‘ دانیال کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ ان آدمیوں نے گھٹنوں تک پینٹیں پہنی تھیں اور شرٹس کی آستینیں لمبی لمبی اور کھلی کھلی تھیں۔ سب نے کانسی کی طرح دکھائی دینے والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں جن کی اطراف سے سینگ نکلے ہوئے تھے۔ ’’ارے ان کے کپڑے تو اتنے غلیظ ہیں، یہ دھوتے نہیں ہیں کیا؟‘‘ دانیال نے منھ بنا کر کہا۔

    ’’میرے خیال میں یہ بھاگنے کا وقت ہے، چلو بھاگو سب۔‘‘ جبران نے کہا اور جواب کا انتظار کیے بغیر مخالف سمت میں بھاگ کھڑا ہوا۔ ’’ٹھہرو… ہم بھی آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے چیخ کر کہا اور وہ دونوں بھی جبران کے پیچھے دوڑنے لگے۔

    وائی کنگز کسی اجنبی زبان میں چلا چلا کر کچھ کہہ رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں سونٹے اور برچھیاں تھیں، اور وہ سب ان تینوں کو پکڑنے آ رہے تھے۔ ’’میرے خیال میں اس بار پفن پرندے ہماری مدد کو نہیں آ سکیں گے۔‘‘ دانیال نے پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان کہا: ’’فیونا، میرے خیال میں ہمیں وائی کنگز کو شہر کی طرف نہیں لے کر جانا چاہیے۔ سوچو، یہ لوگ شہریوں کے ساتھ کیا کچھ کریں گے، یہ تو ہمیں پکڑنے کے لیے ان سب کو قتل کر دیں گے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے میں جانتی ہوں لیکن ہمارے پاس دوسرا کیا راستہ ہے؟‘‘ فیونا کے لہجے میں پریشانی تھی۔ اچانک دانیال کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ بولا: ’’فیونا ہمارے پاس ہے دوسرا راستہ۔ تم زبردست قسم کی آگ بھڑکاؤ، وائی کنگز سمجھیں گے کہ آتش فشاں پہاڑ پھٹ پڑا ہے، اور وہ یہ دیکھ کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘
    ’’لیکن یہاں کے رہنے والے لوگ بھی اس آگ کو دیکھیں گے، وہ سب بھی خوف زدہ ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔‘‘ فیونا ایک جگہ ٹھہر گئی۔ پھر ایک پتھر پر بیٹھ کر کہا مجھے سوچنے دو۔ جبران ایسے میں بے چین ہو کر بولا: ’’ہم بیٹھ نہیں سکتے … وہ ہمیں پکڑنے آ رہے ہیں۔‘‘ دانیال نے اسے مشورہ دیا کہ وہ پہاڑی کے سرے پر جا کر نگرانی کرے، اگر وائی کنگز نزدیک پہنچ جائیں تو چلا کر خبردار کر دے۔ جبران کے اس کے مشورے پر عمل کیا۔

    فیونا نے بیٹھے بیٹھے گہری سانسیں لیں۔ دانیال خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ فیونا نے آنکھیں بند کیں۔ اگلے لمحے اس نے دیکھا کہ وہ جزیرے پر تیز ہوا کی زد میں ہے اور وہ ایک نیلی تتلی کے پروں پر اڑ رہی ہے۔ عین اسی لمحے جبران ان کی طرف دوڑتا ہوا آ گیا: ’’بھاگو، وہ پہنچ گئے۔‘‘ فیونا اچھل کر کھڑی ہو گئی، دانیال نے پوچھا کہ کیا اس نے کوئی ترکیب سوچی۔ جب کہ فیونا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑنے لگی تھی، اس نے کہا ہاں میں سمجھ گئی ہوں کہ کیا کرنا ہے۔
    جبران نے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم نے جو بھی کرنا ہے پلیز جلدی کرو، وہ ہمارے سروں پر پہنچ گئے ہیں۔‘‘ انھوں نے دیکھا وائی کنگز واقعی پہاڑی پر پہنچ گئے تھے۔ وہ سب قطار میں کھڑے ہو گئے تھے اور اپنے ہتھیار لہرا رہے تھے۔ اچانک وہ چیختے چلاتے پہاڑی پر نیچے ان کی طرف دوڑ پڑے۔ زمین پر ان کے قدموں کی دھمک واضح محسوس ہو رہی تھی۔

    فیونا نے مرجان جیب سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ سورج کی شعاعیں اس پر منعکس ہونے لگیں۔ گلابی شیشے جیسا ہرا چمک اٹھا۔ اسی لمحے فیونا کو ہیرے کے اندر ڈریگن نظر آ گیا۔ اس نے جبران کی طرف مڑ کر کہا: ’’میں ڈریگن کو دوبارہ استعمال نہیں کر سکتی….لیکن …‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے چپ ہو گئی، جبران کے چہرے پر حیرت پھیل گئی، وہ بھی یہی کہنے والا تھا، لیکن فیونا نے یک لخت مڑ کر قیمتی پتھر کو وائی کنگز کی طرف کر دیا، اور خواب جیسی کیفیت میں بولی: ’’جب تک یہ سورج ہمارے سروں پر چمکتا رہے گا، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

    دانیال اور جبران نے دیکھا کہ مرجان اب براہ راست سورج کی روشنی میں نہا رہا تھا اور لمحہ بہ لمحہ روشن تر ہوتا گیا۔

    ’’فیونا، یہ تم کیا کر رہی ہو؟‘‘ دانیال کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھیں۔ ہیرے سے ایک گلابی شعاع نکلی اور اگلے لمحے اس سے ان کے آگے پچاس فٹ اونچی ایک دیوار بن گئی۔ یہ سب کچھ آناً فاناً ہو گیا۔ وہ حیرت سے دیوار کو آنکھیں پھاڑے دیکھنے لگے۔ دیوار دونوں اطراف میں خود بخود پھیلتی جا رہی تھی اور ان کے اور وائی کنگز کے درمیان راستے کو بند کر رہی تھی۔

    (جاری ہے)