Author: رفیع اللہ میاں

  • اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    ’’آؤ آؤ … تم مجھے نہیں پکڑ سکتے۔‘‘ فیونا ان کا منھ چڑانے لگی۔ دانیال کی آنکھیں خوف سے بھر گئیں۔ وہ ڈری ڈری آواز میں بولا: ’’فیونا یہ کیا کر رہی ہو، دیکھو وہ تمھارے قریب آ رہے ہیں۔‘‘

    فیونا سیٹی سے مشابہ آواز میں مسلسل گنگنا رہی تھی، اچانک ایک پرندہ غار کے اوپر بنے دہانے سے اندر آیا۔ دانیال نے مڑ کر دیکھا تو دوسرا پرندہ بھی آ گیا، اور اس کے بعد ذرا سی دیر میں غار پفن نامی پرندوں سے بھر گیا۔ دانیال کے چہرے پر پہلے حیرت کے آثار چھائے اور پھر وہ مسرت سے کھل اٹھا۔ پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نے ذرا ہی دیر میں درندوں کو پاگل سا کر دیا۔ ایسے میں فیونا نے چیخ کر دانیال سے کہا کہ وہ جلدی سے جا کر جبران کو چھڑا کر لائے۔ فیونا اور جوش سے گانے لگی اور پرندوں سے مخاطب ہو کر حکم دیا: ’’ٹرالز پر حملہ کر دو۔‘‘ پرندوں نے اشارے کی سمت میں دیکھا اور ٹرالز پر حملہ آور ہو گئے۔ جبران پر پہرہ دینے والا ٹرال بھی دیگر ٹرالز کے ساتھ شامل ہو گیا تھا۔ وہ سب غرا کر پرندوں کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگے جب کہ پرندے ان کی ناکوں، آنکھوں، کانوں اور جگہ جگہ نوچنے لگے تھے۔ دانیال دوڑ کر جبران کے پاس پہنچ گیا، جبران نے کہا: ’’جلدی کھولو دانی، ٹرال کے واپس آنے سے پہلے مجھے آزاد کر دو۔‘‘

    دانیال نے رسی کھول دی۔ دونوں اٹھ کر سرنگ میں فیونا کے پاس آ گئے۔ ’’بہت خوب، کیسے ہو جبران؟‘‘ فیونا اپنی ترکیب کامیاب ہوتے دیکھ کر چہک اٹھی۔ جبران نے پوچھا: ’’حیرت ہے فیونا، یہ پرندے تو ٹرالز پر دشمنوں کی طرح حملہ کر رہے ہیں، تم نے یہ سب کیسے کیا؟‘‘

    ’’میرے خیال میں کنگ کیگان نے مجھے یہ دھن سکھائی ہے۔‘‘ فیونا دھن سنانے لگی۔

    درندے نہایت غصے کی حالت میں دیگر سرنگوں کی طرف بڑھنے لگے تاکہ باہر نکل سکیں۔ فیونا نے چلا کر پرندوں سے کہا کہ ان کے غار سے نکلنے تک درندوں کو نہ چھوڑیں۔ اور پفن پرندے خوف زدہ ٹرالز کو بدستور کاٹتے نوچتے رہے۔

    فیونا نے دونوں سے کہا کہ اب جتنی جلدی ہو سکے انھیں غار کے علاقے سے چلے جانا چاہیے، لیکن سب سے پہلے مرجان حاصل کرنا ہے۔ دانیال نے جبران کو بتایا کہ انھوں نے مرجان کو تقریباً نکال ہی لیا تھا کہ اچانک زلزلہ آ گیا۔ جبران نے بھی کہا اس نے بھی زلزلے کو محسوس کیا تھا لیکن ٹرالز بالکل اس پر پریشان نہیں ہوئے تھے، اس نے کہا کہ شاید یہ ان کے لیے معمول کی بات ہو۔ فیونا انھیں دوبارہ اسی مقام پر لے گئی جہاں مرجان موجود تھے، لیکن اب وہاں ایک بڑے پتھر نے سوراخ کو بند کر دیا تھا۔ تینوں نے مل کر زور لگایا اور آخر کار پتھر کو ہٹا دیا۔ فیونا بولی: ’’یہی ہے وہ سوراخ جس کے اندر مرجان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جیسے ہی اسے اٹھانے کی کوشش کریں گے، زلزلہ آ جائے گا۔ تو ایسے میں کیا کیا جائے؟‘‘

    ’’میرے خیال میں مرجان اٹھا کر اندھا دھند بھاگ جاتے ہیں۔‘‘ جبران بولا، لیکن دانیال نے فوراً مداخلت کی: ’’لیکن یہاں تیسرا پھندا بھی تو ہے۔‘‘ فیونا نے جواب دیا: ’’وہ تو جب سامنے آئے گا تو اس وقت ہی اس کے ساتھ بھی دیکھ لیں گے، فی الوقت مجھے جبران کی بات درست لگ رہی ہے۔ دانی، تم جیسے ہی مرجان اٹھالو گے ہم سب فوری دوڑ لگا لیں گے اور جتنا تیز بھاگ سکتے ہیں، اتنی تیزی سے بھاگیں گے۔ مجھے امید ہے کہ چھت ہم پر نہیں گرے گی۔‘‘

    ’’کیا تم تیار ہو؟‘‘ جبران نے دانیال کی طرف دیکھا۔ دانیال نے سر ہلایا، گہری سانس لی، اور پھر بیٹھ کر سوراخ میں ایک بار پھر ہاٹھ ڈال دیا۔ فیونا نے جبران کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا: ’’جیسے وہ پتھر اٹھاتا ہے، تم نے دوڑ لگانی ہے اور پیچھے مڑ کر ہرگز نہیں دیکھنا۔‘‘

    دانیال نے اپنی انگلیوں پر مرجان کو محسوس کیا۔ ’’میں نے اسے پکڑ لیا ہے لیکن جیسے ہی میں اسے باہر کھینچوں گا ہم مر جائیں گے۔‘‘

    ’’نہیں … ہم نہیں مریں گے، تم اسے نکال لو۔‘‘ فیونا مضبوط لہجے میں بولی۔ دانیال نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر کھول کر مرجان کو مٹھی میں دبایا اور ایک جھٹکے سے ہاتھ باہر کھینچ لیا۔

    زمین کو شدید جھٹکا لگا۔ اور غار میں زبردست گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ غار کی چھت سے سیاہ لاوے کے بڑے بڑے ٹکڑے گرنے لگے۔ اور وہ تینوں ان سے بچنے کے لیے اندھا دھند بھاگتے ہوئے غار کے دہانے کی طرف بڑھنے لگے۔ زمین مسلسل ہل رہی تھی، اس لیے وہ دوڑتے دوڑتے بری طرح لڑکھڑا رہے تھے۔ اس دوران زمین سے نوکیلے پتھر بھی نکل آئے تھے، اور ان کے پیچھے دھول کا ایک بادل چکر کاٹتا چلا آ رہا تھا۔

    ’’ہم مرنے والے ہیں۔‘‘ جبران نے خوف سے چلا کر کہا لیکن اس نے دوڑنا بند نہیں کیا۔ ان کے پیچھے زبردست دھماکے ہونے لگے تھے، غار کی چھت جگہ جگہ سے منہدم ہو رہی تھی۔ عین اسی لمحے جب وہ غار کے دہانے سے باہر نکلے، پورا غار ہی ایک دھماکے سے بیٹھ گیا اور ہر طرف دھول چھا گئی۔

    ’’ہم زندہ نکل آئے … ہم زندہ نکل آئے … دیکھا ہم نہیں مرے۔‘‘ دانیال خوشی سے اچھلنے لگا۔ لیکن جبران تیزی سے فیونا کی طرف بڑھا: ’’کیا ہوا، کیا تم زخمی ہو گئی ہے۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے بازوؤں اور ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا، اسے دراصل لاوے کے چھری کی تیز دھار جیسے نوکیلے پتھر چبھ گئے تھے۔ جبران نے اس کے بازوؤں اور ٹانگوں سے احتیاط کے ساتھ وہ ٹکڑے نکالے۔ ’’شکر ہے کہ ہمارے سر ان سے بچ گئے ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا ایک کپڑے خون صاف کرنے لگی۔

    ’’حیرت ہے، وہ احمق ٹرالز کہاں چلے گئے۔‘‘ دانیال نے چاروں طرف دیکھا۔ ’’میرے خیال میں میں جانتی ہوں، چلو میرے پیچھے آؤ۔‘‘ فیونا بولی۔ وہ انھیں پہاڑی کے اوپر لے گئی اور ایک جگہ سلگتے انگاروں کی طرف اشارہ کر کے بولی: ’’وہ رہے ٹرالز۔‘‘

    ’’یہ تو ٹرالز نہیں ہیں، کسی نے کچرا جلایا ہے۔‘‘ جبران نے منھ بنا لیا۔ دانیال نے خدشہ ظاہر کر دیا کہ کہیں آتش فشاں پھر سے تو نہیں ابلنے لگا ہے۔ جب تینوں اس جگہ کے مزید قریب گئے تو فیونا بولی: ’’دیکھو، ان کی ساخت بالکل ٹرالز جیسی ہے، پفن پرندوں نے ان کا پیچھا کیا اور وہ باہر سورج میں نکل آئے اور جل کر راکھ ہو گئے۔‘‘

    تینوں اس بات پر بہت خوش دکھائی دینے لگے۔ فیونا اچھلنے لگی تھی، کہ پرندوں نے ان کی کس طرح سے مدد کی۔ لیکن جبران نے اسے ٹوک دیا کہ زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ تیسرا پھندا بھی یہیں کہیں موجود ہے۔

    دانیال نے جیب سے مرجان نکال کر انھیں دکھایا۔ فیونا نے وہ لے لیا اور اوپر کر کے اسے دیکھنے لگی۔ ’’یہ تو آبسیڈین سے کہیں زیادہ خوب صورت ہے، دیکھو کتنا گلابی ہے یہ۔‘‘ فیونا نے کہیا اور پھر سے سیٹی بجانے لگی۔ پفن پرندے ذرا ہی دیر میں اڑ کر ان کی طرف آ گئے۔ وہ بولی: ’’ذرا ان پرندوں کو دیکھو، آسمان پر ان سے ایک کالی چادر سی تن گئی ہے۔‘‘

    پرندے ان تینوں کے سروں پر چکر کاٹنے اور آوازیں نکالنے لگے۔ ’’کتنے پیارے ہیں یہ پرندے۔‘‘ فیونا بولی۔ کچھ دیر تک پرندے ان کے گرد چکر کاٹتے رہے اور پھر اڑ کر چلے گئے۔ ایک پفن جو ابھی بچہ تھا، پیچھے رہ گیا۔ فیونا نے اسے اٹھایا اور بڑے پیار سے چہرے سے لگا لیا۔

    (جاری ہے)

  • ساٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ساٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    فیونا ٹوٹی ہوئی چٹانوں پر چڑھ کر غار کے اندھیرے سے روشنی میں آ گئی۔ پفن نامی پرندوں کی تلاش میں وہ پہاڑوں کی طرف احتیاط سے دوڑنے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ پفن پہاڑی کی کھڑی چٹانوں سے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے وہ سب سے قریبی کھڑی چٹان کو ڈھونڈنے لگی۔ راستے میں آنے جانے والوں سے پوچھنے کے بعد فیونا ایک کھڑی چٹان کی طرف دوڑ پڑی۔ پتھروں اور سبزے والی جگہوں سے گزرنے کے بعد جب وہ کھڑی چٹان کے اوپر پہنچ گئی تو رک کر اپنی بے ترتیب سانسیں درست کرنے لگی۔ حواس بحال ہوئے تو پفن نامی پرندوں کو وہاں دیکھ کر خوش ہو گئی۔ وہ پیٹ کے بل لیٹ کر احتیاط سے کھڑی چٹان کے اوپری کنارے پر پہنچ گئی۔ ہزاروں فٹ نیچے سمندر کو دیکھ کر اس کے بدن میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ چٹان پر لیٹے لیٹے پریشانی کے عالم بڑبڑانے لگی: ’’میں اب ان پرندوں کو اپنے پیچھے کس طرح لگا لوں؟ کیا کوئی میری مدد کر سکتا ہے کہ میں کیا کروں؟‘‘

    سمندر کی لہریں چٹان کی دیوار سے مسلسل ٹکرا رہی تھیں۔ اس ٹکراؤ میں ایک عجیب سی دھن تھی، ایک آہنگ تھا۔ یہ دھن اور آہنگ وہ ہوا کے ذریعے اوپر تک پہنچنے والے ننھے چھینٹوں کے ساتھ سن رہی تھی۔ اسے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا لیکن سوچتے سوچتے وہ بے خیالی میں منھ سے سیٹی کی مانند ویسے ہی دُھن نکالنے لگی جو سمندر کی لہریں چٹان سے ٹکرانے سے پیدا ہو رہی تھی۔

    ’’ہیں … یہ دھن میں بھلا کیوں گنگنانے لگی ہوں، مجھے تو آتا بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ تعجب سے بڑبڑائی۔ لیکن اس نے وہ دھن گنگنانا نہیں چھوڑا۔ ایسے میں اچانک چند پرندے اڑ کر چٹان کی چوٹی پر آ گئے، اور فیونا انھیں دیکھ کر حیرت کے مارے اچھل پڑی۔

    ’’ارے یہ تو کمال ہو گیا، یعنی مجھے ہیملن کا پچرنگی بانسری بجانا والا بننا پڑے گا، جب میں سیٹی بجاؤں گی تو یہ پرندے میرے پیچھے پیچھے اڑ کر آئیں گے۔ اگرچہ میری سیٹی اتنی اصلی نہیں ہے تاہم یہ اثر کر رہی ہے۔‘‘

    فیونا زیادہ بلند آواز سے وہ مخصوص دھن منھ سے نکالنے لگی اور اس نے دیکھا سیکڑوں پرندے اڑ کر آئے اور آس پاس گھاس پر بیٹھ گئے۔ فیونا خوشی سے چہکنے لگی: ’’بہت خوب میرے پیارے پرندو، مجھے تمھاری دھاری دار چونچیں اور نارنجی پنجے بے حد پسند ہیں، ٹھیک ہے اب تم سب میرے پیچھے آؤ۔‘‘

    فیونا پہاڑی سے اتر کر گنگنانے لگی اور سیکڑوں کی تعداد میں آنے والے پرندے جلد ہی ہزاروں کی تعداد میں بدل گئے۔ وہ لاوا غار کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ چلتے چلتے وہ بڑبڑائی: ’’جس نے بھی میری مدد کی ہے، اس کا بہت بہت شکریہ۔‘‘

    غار کے پاس پہنچ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو سحر زدہ ہو گئی۔ اس نے خود کلامی کی: ’’اوہ یہ تو ایک لاکھ ہوں گے۔ لیکن اب مزا آئے گا، میری یہ پرندوں کی فوج درندوں کی ایسی تیسی کر دے گی۔‘‘

    وہ پرندوں کے سامنے اس طرح کھڑی تھی جیسے کوئی کمانڈر اپنی فوج کے آگے تن کر کھڑا ہوتا ہے۔ اس نے بلند آواز میں کہا: ’’میں تم سب سے ایک کام لینا چاہتی ہوں، یہ سوراخ تم سب کو نظر آ رہا ہے نا۔‘‘ فیونا نے انگلی سے غار کے دہانے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’اگر تم اس کے اندر اڑ کر جاؤ گی تو تمھیں اندر چار عدد ٹرال ملیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سب ان پر حملہ کر دو۔ ان کی موٹی ناکیں، ان کے بد نما انگوٹھے، ان کی آنکھیں، کان اور جو کچھ تم چاہو نوچ لو۔ اور اس وقت تک انھیں نوچتے رہو جب تک وہ غار سے باہر نہ نکلیں۔ کیا تم سب میری بات سمجھ گئے ہو؟‘‘

    کوئی بھی پرندہ الفاظ میں تو کچھ نہ کہہ سکا البتہ انھوں نے اپنی مخصوص آوازوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ فیونا غار کی طرف بڑھنے لگی، دہانے پر پہنچ کر وہ مڑی اور کہا: ’’ابھی باہر ٹھہرو تم سب، میں پہلے اندر جا کر دانیال کو بتاتی ہوں، جب میں گانے لگوں تو تم سب اندر آ کر ٹرالز پر حملہ کر دینا۔ اس دوران میں اور دانیال مل کر جبران کو آزاد کر کے بھاگ جائیں گے، اب میں اندر جاتی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی جب کہ پرندے غار کے دہانے پر منڈلانے لگے۔ دانیال نے اسے اندر آتے دیکھا تو اس کی جان میں جان آ گئی۔’’اوہ فیونا تم واپس آ گئی، میں بہت ڈرا ہوا تھا کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا اس دوران، کیا تم مدد لے آئی ہو؟‘‘

    فیونا نے کہا کہ جو میں لے کر آئی ہوں اس پر تم کبھی یقین نہیں کر پاؤ گے۔ میرے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں پرندے ہیں، تم یہیں ٹھہرو ذرا۔ پھر وہ غار میں بے خوفی کے ساتھ آگے بڑھی، اس نے دیکھا تینوں ٹرالز نے آگ بھڑکا دی تھی اور اب لکڑی کے ٹکڑے کاٹ رہے تھے۔ اس نے انھیں بہادری سے للکارا: ’’ہیلو گندے اور بدبودار درندو، میں تم سے بالکل نہیں ڈرتی۔‘‘

    دانیال کو یہ دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ ایک بدلی ہوئی فیونا کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ جبران نے بھی آنکھیں گھما کر ان کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔ ’’فیونا … تم کیا کرنے والی ہو؟‘‘ جبران کی چیخ وسیع غار میں انھیں ایک سرگوشی کی طرح سنائی دی۔ ٹرال کو شاید اس کا بولنا اچھا نہیں لگا اس لیے اس نے اپنا بھاری بھر کم پیر فرش پر پڑے جبران کی پیٹھ کر رکھ دیا۔ جبران کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ فیونا غصے میں چلائی: ’’بے وقوف درندو، تم میرے دوست کو لنچ سمجھ کر نہیں کھا سکتے، میں تم سب کا بندوبست کر کے آئی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ گنگنانے لگی اور ٹرال غضب ناک ہو کر فیونا کی طرف بڑھنے لگے۔

    (جاری ہے)

  • انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    ٹرال خود کو روشنی سے بچا رہے تھے۔ غار کے فرش پر ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ چند ہڈیوں پر ابھی تک گوشت باقی تھا۔ دانیال ان ہڈیوں کو دیکھ کر بری طرح دہشت زدہ ہو گیا، اسے متلی آ گئی اور جلدی سے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ فیونا بھی سامنے دیکھ رہی تھی، تینوں ٹرال غار کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’میرے خیال میں یہ آگ جلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا، اس کی حالت بھی دانیال سے کچھ کم نہ تھی۔ کلیجہ اس کے منھ کو آ رہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن جبران نظر نہیں آ رہا تھا، اس نے دانیال کو آواز دے کر پوچھا کہ کیا اسے جبران نظر آیا۔ دانیال نے بھی نظریں دوڑائیں اور پھر خوشی سے چلایا: ’’وہ رہا … دیوار کے ساتھ کوئی لیٹا ہے، اور وہ جبران ہی کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔‘‘

    تب انھیں نظر آیا کہ ایک چوتھے ٹرال نے جبران کے ہاتھ پیر اپنے موٹے بالوں سے باندھ دیے تھے۔ یہ موٹے بال رسیوں کا کام کر رہے تھے۔ فیونا نے کہا: ’’یہاں بہت ساری سرنگیں ہیں اگر ہم جبران کو چھڑا لیں تو یہاں سے نکل سکتے ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے لیکن جبران کو ہم کس طرح ان سے چھین سکتے ہیں؟ پہلے تو ہمیں ان تین درندوں کے پاس سے گزرنا ہو گا اور پھر اس ٹرال کو بھی چکمہ دینا ہوگا جو عین جبران کے سامنے بیٹھا ہے اور جس نے اپنے جسم کے گندے بالوں سے اسے باندھ رکھا ہے۔ ہمارے پاس یہ رسی نما بال کاٹنے کے لیے چاقو بھی نہیں۔‘‘ دانیال نے پریشان ہو کر کہا۔

    فیونا نے آنکھیں بند کر لیں، اس خیال سے کہ ہو سکتا ہے اس کے دماغ میں کوئی تصور آ جائے جو یہ بتائے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اس نے مقامی پرندے پفن کے ایک غول کو دیکھا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں کھول کر کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ ان درندوں کو یہاں سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’کیسی ترکیب ہے؟‘‘ دانیال نے خوش ہو کر پوچھ لیا۔ فیونا دانیال کو سرنگ میں پیچھے کی طرف لے گئی اور بولی: ’’دانی، تم یہاں کھڑے ہو کر ٹرالز پر نظر رکھو۔ اگر وہ جبران کو کھانے لگے تو تم دوڑ کر ایک دم چیخنا شروع کر دو۔ اس طرح تم میرے آنے تک انھیں پریشان رکھنا، یا ان کی توجہ ہٹانے کے لیے جو کچھ تم کر سکتے ہو کرنا۔‘‘

    ’’کک… کیا… تم کہاں جا رہی ہو؟ نہیں تم مجھے یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ تم جبران کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔‘‘ دانیال نے لپک کر اسے بازو سے پکڑ لیا۔

    دیکھو دانی، مجھے پتا ہے کہ تم خوف زدہ ہو لیکن اب معاملہ حل ہونے جا رہا ہے۔ جبران کو کچھ نہیں ہوگا، اور تمھیں بھی کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے کچھ پرندوں کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی کے ساتھ مڑی اور اندھیرے میں گم ہو گئی۔

    ’’پرندے … کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ اس کے جاتے ہی دانیال بولا لیکن اس کی آواز سرنگ میں گونج کر رہ گئی۔ وہ دیوار کے پاس بیٹھ کر ٹرالز کو دیکھنے لگا اور دل ہی دل میں کہنے لگا: ’’جبران بہادر بنو …. جبران بہادر بنو!‘‘

    (جاری ہے)

  • اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’یہاں تو اچھی خاصی بدبو ہے، ٹرال کی بدبو تو یونان کے اُس گدھے سے زیادہ تیز ہے۔‘‘ دانیال نے چٹکی سے نتھنے بند کر دیے۔ فیونا ایک جگہ رک کر بولی: ’’مرجان یہاں ہے، لاوے کے اندر۔ کیا تم نیچے بیٹھ کر کسی سوراخ کو تلاش کر سکتے ہو؟‘‘ فیونا نے اپنے قدموں کے پاس اشارہ کیا۔ دانیال وہاں پڑے ایک پتھر کے نیچے سرک گیا اور پھر بولا: ’’ہاں یہاں ایک سوراخ ہے جس میں میرا ہاتھ آسانی سے جا سکتا ہے۔‘‘

    فیونا پُر جوش ہو کر بولی: ’’ٹھیک ہے دانی، تم جلدی سے وہاں مرجان تلاش کرو۔‘‘

    ’’میں کسی مہین چیز کو محسوس کر رہا ہوں، میرے خیال میں یہی مرجان ہے۔‘‘ دانیال مسرت بھرے لہجے میں بولا: ’’یہ رہا، میں نے اسے پکڑ لیا۔‘‘ عین اسی وقت غار میں زلزلہ آ گیا اور غار کی چھت سے لاوے کے ٹکڑے ٹوٹ کر نیچے گرے۔ فیونا گھبرا کر چلائی: ’’یہ کیا ہو رہا ہے … مم میرا خیال ہے کہ زلزلہ آ گیا ہے۔ دانی جلدی سے ہاتھ کھینچ لو، ہمیں خود کو محفوظ جگہ چھپانا ہوگا۔‘‘

    زمین سے ایسی گڑگڑاہٹ کی آوازیں اٹھ رہی تھیں جیسے کوئی ٹرال غرا رہا ہو۔ غار کا فرش بری طرح لرز رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے لپیٹنے لگا ہو۔

    ’’ارے فرش کو دیکھو… یہ تو بالکل دھوئیں کی لہریں ہیں۔‘‘ دانیال چیخا۔

    زلزلے کی گڑگڑاہٹ اتنی تیز ہو گئی تھی کہ انھیں کانوں کے پردے پھٹتے محسوس ہونے لگے۔ یکایک ان سے ذرا فاصلے پر چھت سے لاوے کے ٹکڑوں سے بنا ایک بڑا پتھر گرا اور سینکڑوں ٹکڑوں میں تبدیل ہو گیا، اور یہ ٹکڑے نہایت تیزی سے غار میں پھیل گئے۔

    ’’لیٹ جاؤ دانی، اگر ایک بھی پتھر لگا تو ہم مر جائیں گے۔‘‘ فیونا نے چیخ کر کہا اور فوراً زمین پر خود کو گرا دیا۔ دانیال نے بھی اس کے پاس ہی پتھریلی زمین پر خود کو گرا دیا۔ دونوں کے چہرے خوف سے زرد ہو چکے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی تیرنے لگے تھے لیکن انھیں اس کا احساس نہیں ہو پایا تھا۔ بہادری جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، سب ہوا ہو گئی تھی۔ اگلے دس منٹ تک دونوں بازوؤں میں سر چھپائے لیٹے رہے تاکہ لاوے کا کوئی پتھر انھیں نہ لگ جائے۔ پھر آخر کار زلزلہ تھم گیا اور غار دھول سے اٹ گیا۔ دونوں آہستہ آہستہ اٹھ کر دیکھنے لگے اور پھر کھانسنا شروع کر دیا۔

    ’’دانی، آگ بجھ گئی ہے۔‘‘ گھپ اندھیرے میں اس کے کانوں سے فیونا کی آواز ٹکرائی۔

    اس نے کہا کہ تم جلدی سے مزید آگ بھڑکاؤ، لیکن فیونا کوشش کے باوجود ناکام ہو گئی۔ فیونا کو خیال آیا کہ شاید دھول میں یہ کام نہیں کر رہا ہے۔ دانیال نے کہا فیونا تم گھبرائی ہوئی ہو بس، ایک بار پھر فوکس کرو۔ فیونا نے ایک بار پھر آگ کے خیال پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور اس بار وہ واقعی کام یاب ہو گئی۔

    ’’یہ آگ زیادہ تو نہیں ہے لیکن اس میں ہم مرجان کو تو ڈھونڈ ہی لیں گے۔‘‘ فیونا خوش ہو گئی۔ دونوں کا خوف کافی حد تک کم ہو گیا تھا، اور ان میں خود اعتمادی بحال ہونے لگی تھی۔

    ایسے میں دانیال نے یاد دلایا: ’’پھندا نمبر دو۔ ایک اور زلزلے میں خود کو مارے بغیر ہم مرجان کیسے حاصل کر سکیں گے؟‘‘

    دونوں اگلے ٹریپ کے خیال سے محتاط ہو گئے۔ دانیال نے کہا شاید جبران بھی ہو تو وہ بھی کچھ مدد کر سکے۔ فیونا کو بھی لگا کہ اب جبران کو پہلے ڈھونڈنا ہی بہتر ہے۔ دونوں اس پر متفق ہوئے تو فیونا پچھلی دیوار کی طرف بڑھنے لگی، جہاں اسے ایک سوراخ نظر آیا۔ وہ بولی: ’’ارے یہاں تو بدبو بھی ہے، ضرور ٹرال یہاں سے گزرا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک فلیش لائٹ نکال لی، اور اس کی روشنی میں آگے دیکھنے لگی۔ ’’وہ اسی راستے سے گئے ہیں، وہ دیکھو، جبران کے جوتوں کا ایک تسمہ ٹوٹا ہوا پڑا ہے۔‘‘ فیونا نے ایک سفید ڈوری پر روشنی ڈالی۔

    ’’فیونا، یہاں تو اور کوئی سرنگ نہیں ہے، یہ ایک ہی بہت بڑا غار ہے جو مختلف سمتوں مین بٹا ہوا ہے۔ کیا پتا اگلا پھندا یہیں پر ہو اور کیا پتا کہ وہ یہاں ہمارا انتظار کر رہا ہو تاکہ ہمیں ہڑپ کر جائے۔‘‘

    ’’دانیال، اب تم بھی بالکل جبران کی طرح باتیں کرنے لگے ہو، کیا پتا کیا پتا کی والی باتیں مت کرو، بس اسے ڈھونڈو۔‘‘ فیونا ایک طویل اور اندھی سرنگ میں آگے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی، لیکن پھر ایک آواز سن کر اس کے قدم رک گئے۔ اس نے دانیال کی طرف دیکھ کر جوش سے کہا: ’’اب جلدی کرو، میں نے ٹرال کی آواز سن لی ہے۔‘‘

    دس قدم کے بعد وہ ایک اور بڑے غار کے دہانے پر کھڑے تھے۔ فیونا نے فلیش لائٹ سامنے سے ہٹا دیا، اب اس کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ غار کی چھت میں ایک سوراخ سے روشنی چھن چھن کر آ رہی تھی اور سب کچھ نظر آ رہا تھا۔
    ’’لو، یہاں تو ایک نہیں تین تین ٹرالز ہیں۔‘‘ فیونا بری طرح چونک اٹھی۔

    (جاری ہے)

  • چھپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اف، یہاں تو بے حد سردی ہے، غار عموماً سرد ہُوا کرتے ہیں۔‘‘ جبران نے کوٹ کے بٹن جلدی سے بند کر دیے۔ دانیال نے سردی سے ہتھیلیاں رگڑتے ہوئے کہا: ’’فیونا، جب ہم گھر سے روانہ ہو رہے تھے تو اس سے ذرا دیر قبل تمھارے انکل نے کہا تھا کہ تم اگر چاہو تو آگ بھڑکا سکتی ہو۔ تمھارے پاس اس کی طاقت آچکی ہے۔ کیا تم نے انکل اینگس کی یہ بات نہیں سنی تھی؟‘‘

    ’’ہاں انھوں نے کہا تھا لیکن میں نے کچھ زیادہ توجہ نہیں دی۔‘‘ فیونا غار میں چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’انکل اینگس کی عادت ہے کہ وہ ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن میرے خیال میں وہ ہانک نہیں رہے تھے بلکہ انھوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب تم جادوئی گیند میں قیمتی پتھر رکھنے لگی تھی۔ تو اسی وجہ سے تمھیں یہ طاقت ملی ہے، اور اس کا تعلق قیمتی پتھر ہے۔ میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے جب انھوں نے یہ کہا تمھیں بس آگ کے بارے میں سوچنا ہے اور اس کی خواہش کرنی ہے، اور بس آگ اچانک بھڑک اٹھے گی۔‘‘ دانیال نے ہاتھ جیبوں میں ڈالتے ہوئے کہا: ’’تو کیوں نہ اس طاقت کو یہاں آزماؤ تم، میں تو سردی سے منجمد ہو رہا ہوں، کاش میں دستانے لے آتا۔‘‘

    ’’مجھے بھی شدید سردی لگ رہی ہے فیونا، چلو اسے آزماؤ بھی اب۔‘‘ جبران نے بھی اس سے جادو کے ذریعے آگ جلانے کا مطالبہ کیا۔

    ’’تو کیا تم دونوں یہ سمجھتے ہو کہ میں ایسا کر سکتی ہوں؟‘‘ فیونا کے لہجے میں حیرت تھی۔

    ’’ہاں، بالکل تم کر سکتی ہو۔‘‘ دونوں نے اثبات میں سر ہلا دیے۔ یہ دیکھ کر فیونا نے لمبی سانس لی اور پھر آنکھیں بند کر کے آگ کا تصور کیا۔ یکایک ان سے چند فٹ کے فاصلے پر آگ بھڑک اٹھی، اور تینوں ہی اسے دیکھ کر اچھل پڑے۔

    ’’اوہ … شان دار … یہ تو کمال ہو گیا۔‘‘ فیونا خوشی سے چلائی۔

    ’’دیکھا، تم نے ایسا کر دکھایا۔‘‘ جبران بولا اور فوراً آگ کے قریب چلا گیا۔ ’’ہے تو یہ گرم، جیسا کہ آگ ہوتی ہے، لیکن یہ کیسے جل رہی ہے؟ یہاں تو لکڑی وغیرہ نہیں ہے۔‘‘

    ’’چھوڑو اس بات کو۔‘‘ دانیال بھی قریب آ گیا، اور اپنے سرد ہوتے ہاتھ آگ پر تاپتے ہوئے بڑبڑایا: ’’اس کے شعلے زرد اور نیلے رنگ کے ہیں، کتنا عجیب ہے یہ نا!‘‘

    ’’اس میں سبز رنگ بھی ہے۔‘‘ فیونا بولی: ’’اب ذرا تم دونوں دور ہٹو، میں مزید آگ بھڑکا دوں۔ اگر ہم نے یہاں مرجان ڈھونڈنا ہے تو ہمیں خود کو گرم رکھنا ہوگا۔ اور وہ پتھر غار کی پشت کی طرف ایک سوراخ میں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ پھر آنکھیں بند کر لیں۔ اگلے لمحے غار میں دور تک آگ روشن ہو گئی۔ تینوں غار میں آگے کی طرف بڑھنے لگے اور کافی اندر چلے گئے۔

    ’’ان پتھروں پر چلنا تو بے حد دشوار ہے، میں کئی جگہ سے زخمی ہو گئی ہوں۔‘‘ فیونا نے کراہتے ہوئے کہا اور ایک ہاتھ سے پینٹ پر آئے ہوئے کٹ کو ٹٹولنے لگی۔

    ’’میں نے کسی چیز کو حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔‘‘ اچانک جبران کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔ غار میں مکمل خاموشی تھی، اور جبران کی آواز گونج گئی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’وہ عین ہمارے سامنے ہے اور ہم اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘

    ’’جبران، اب مزید نہیں۔‘‘ دانیال نے غار میں آگے کی طرف دیکھا جہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ ’’تم بلاوجہ چیزوں کا تصور کر لیتے ہو۔ ویسے تم نے اس مرتبہ کیا دیکھ لیا ہے، اب یہ مت کہنا کہ ٹرال دیکھ لیا ہے۔‘‘

    ’’مجھے نہیں معلوم کہ یہ ٹرال ہوتا کیسے ہے لیکن پھر بھی یہ ٹرال ہو سکتا ہے۔‘‘ جبران نے کہا اور فیونا کے پیچھے ہو گیا۔ ’’چلو، یہاں سے نکل چلتے ہیں۔ میں … میں کسی ٹرال سے لڑنے کے موڈ میں ہرگز نہیں ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فیونا کا بازو پکڑ لیا۔

    ’’تم بہت ڈرپوک ہو جبران، فیونا کا ہاتھ چھوڑ دو۔‘‘ دانیال اس کی طرف مڑ کر بولا۔ ’’ٹرال نامی مخلوق ناروے سے یہاں وائی کنگ کے بحری جہازوں پر آئی تھی، یہ بے حد سست مخلوق ہے۔ اس کی ناک بڑی ہوتی ہے جس پر ایک گلٹی نکلی دکھائی دیتی ہے۔ نوک دار سینگ، بڑا منھ جس میں تیز دانت ہوتے ہیں۔ اس کی جلد گانٹھ دار ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے اس پر گلٹیاں نکلی ہوئی ہیں۔ اس کے کان بالکل چھوٹے ہوتے ہیں، اور یہ ایک بے وقوف قسم کا جانور ہے جس کی آنکھیں اندھیرے میں چمکتی ہیں۔ چوں کہ انھیں سورج کی روشنی پسند نہیں اس لیے یہ مخلوق غاروں میں رہتی ہے۔‘‘

    ’’تمھارا مطلب ہے کہ اس جیسے غاروں میں۔‘‘ جبران یہ کہہ کر پلٹا: ’’میں تو باہر جا رہا ہوں۔ میں اب مزید آگے نہیں جا پاؤں گا۔ اگر تم دونوں کو مرجان کی تلاش ہے تو پھر اکیلے جاؤ۔‘‘

    (جاری ہے ….)

  • پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    ’’یہ تو بہ ظاہر پتھر دکھائی دے رہا ہے، چٹان حرکت نہیں کرتی، یہ کوئی زندہ مخلوق ہے۔‘‘ دانیال نے بیگ سے کیمرہ نکالتے ہوئے ایک نئی بات کہہ دی۔ ’’جب ہم لنچ کر رہے تھے تو میں نے دو آدمیوں کو ہولڈوفوک کے متعلق باتیں کرتے سنا تھا۔‘‘

    فیونا چونک اٹھی: ’’ہولڈوفوک؟ کیا میں پوچھنے کی جرأت کر سکتی ہوں کہ یہ کس قسم کی مخلوق ہے؟‘‘

    ’’ہولڈوفوک چٹانوں کے درمیان رہتی ہے اور چٹانوں کی طرح دکھائی دیتی ہے اور یہ لوگوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘ دانیال نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا اور کیمرے کا فلیش دبا دیا۔ ’’آؤ، میں ذرا قریب سے اس کی تصویر کھینچ لوں۔‘‘

    ’’کیا یہ دن میں بھی نکل آتی ہے یا صرف رات کو نکلتی ہے؟‘‘ جبران کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔

    ’’دن ہو یا رات، اس کی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ہاں انھیں براہ راست سورج کی روشنی پسند نہیں۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔

    انھوں نے ’پتھر‘ کو غور سے دیکھا۔ ’’یہ تو حرکت نہیں کر رہا، ہم خوامخواہ کچھ کا کچھ تصور کر لیتے ہیں۔ یہاں کوئی ایسی ویسی مخلوق نہیں ہے۔ اور ٹرال کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ محض تصوراتی مخلوق ہے۔‘‘ فیونا نے دونوں کی طرف گھور کر دیکھا۔

    ’’ہاں تم نے ٹھیک کہا، نہ ہونے کو تو ماربل عفریت بھی کوئی چیز نہیں جو سانپ کے سروں والی مخلوق ہے لیکن پھر بھی ہم نے دیکھ لی تھی۔‘‘ دانیال نے اس پر طنز کیا۔ ’’پتا ہے اس جزیرے پر تو بہت ساری پریاں، بالشتیے اور لمبے کانوں والی پری نما مخلوق بھی رہتی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر ٹھیک ہے، آؤ انھیں قریب سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے قائل ہو کر کہا اور کوٹ کی جیب سے کیمرا نکال لیا۔ اس دوران دانیال کئی تصاویر بنا چکا تھا۔ وہ تینوں دل ہی دل میں ڈر رہے تھے لیکن اس مخلوق کو قریب سے دیکھنا بھی چاہتے تھے۔

    ’’اوہو، تم بھی کیمرہ لائی ہو۔‘‘ جبران چہکا۔ عین اسی وقت ان کے سامنے کوئی چیز چمکی، جیسے اچانک کوئی شعلہ بھڑکا ہو۔ ’’ارے یہ کیا تھا … کیا یہ ٹرال مخلوق تھی؟‘‘ جبران اچھل پڑا۔

    ’’میں جانتا ہوں یہ کیا ہے۔‘‘ دانیال پرجوش ہو کر بولا اور تیزی سے روشنی کی طرف بڑھا۔ ’’یہ روشنی پری ہے۔ یہ دراصل ٹرال ہی کے متعلق باتیں کر رہی تھی۔ یہ پریاں بالکل پیٹر پان کی ٹِنکر بیل جیسی ہوتی ہیں۔ جب یہ اڑتی ہیں تو اپنے پیچھے روشنی کی لکیر چھوڑ جاتی ہیں۔ اور پتا ہے یہ کسی کو نقصان بھی نہیں پہنچاتیں۔ اگر ایک بوتل مل جائے تو میں کسی ایک کو پکڑ کر اسے اپنے ساتھ گھر بھی لے کر جاؤں۔‘‘

    ’’پتا نہیں، ہم کیسی عجیب و غریب جگہ پر آ گئے ہیں، ہمیں آگے کیا کچھ دیکھنے کو مل جائے، میں تو واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران اچانک خوف زدہ ہونے لگا تھا۔ فیونا نے اسے تسلی دی: ’’کچھ نہیں ہوگا، ڈرو مت، ہم تقریباً پہنچ ہی گئے ہیں، بس ذرا ہی آگے لاوا غار ہے، اور احتیاط سے چلو سب، یہ زمین نوک دار ہے۔‘‘
    فیونا نے چلتے چلتے مڑ کر دانیال کی طرف دیکھا اور پکارا: ’’واپس آ جاؤ، چھوڑیوں پریوں کو… آہ… میرے ٹخنے پر چوٹ لگ گئی!‘‘

    (جاری ہے)

  • چون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    دانیال نے چوں کہ پمفلٹ بہت اچھی طرح پڑھ لیا تھا اس لیے اسے یہ ساری معلومات یاد تھیں۔ جبران کو اس کی بات پر یقینی نہیں آیا اور بولا: ’’قزاق اور آئس لینڈ میں؟‘‘

    ’’جی ہاں، یہ 1627 کا ایک سچا قصہ ہے۔ قزاقوں نے انھیں افریقہ لے جا کر غلاموں کی طرح فروخت کر دیا تھا۔ انھوں نے بہت سارے مردوں کو جان سے بھی مار دیا تھا۔‘‘

    ’’کک … کیا اب بھی قزاق یہاں آ سکتے ہیں؟‘‘ جبران گھبرا گیا۔

    فیونا ہنس پڑی: ’’بے وقوف، وہ چار سو سال پرانی بات ہے، اب یہاں بحری قزاق نہیں ہیں۔‘‘

    تقریباً تین گھنٹے کے سفر کے بعد آخر کار کشتی ساحل پر لنگر انداز ہو گئی۔ کشتی پانی میں ڈول رہی تھی۔ وہ تینوں لڑکھڑاتے ہوئے ساحل پر اترے۔ جبران کو چکر آنے لگے تھے اور وہ آگے پیچھے ڈول رہا تھا جیسے ابھی تک کشتی ہی میں سوار ہو۔

    ’’پریشان مت ہو، کچھ دیر میں تمھاری طبیعت سنبھل جائے گی۔‘‘ فیونا نے اسے تسلی دی۔ اس کی اور دانیال کی طبیعت اب درست تھی، ان دونوں کی بھوک خوب چمک اٹھی تھی۔ فیونا نے کہا: ’’سب سے پہلے کھانا!‘‘

    ’’میرا جی نہیں کر رہا ہے، ہاں تم دونوں جا کر کھا سکتے ہو۔‘‘ جبران نے کہا۔ فیونا اسے سمجھانے لگی کہ کھانا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ آگے کا کچھ پتا نہیں کہ کیا ہو، اور دن کس طرح گزرے، اور کھانے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں۔ تینوں ایک کیفے کی طرف بڑھے اور وہاں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ مینو پر نظر ڈال کر فیونا کا منھ بن گیا: ’’لو، یہاں تو کیلے اور پپرونی پیزا دستیاب ہیں۔ یہاں بھی وہی ڈشیں ہیں۔ دودھ میں پفن اور گھوڑے کا گوشت، کچی مچھلیاں … اوع … یہ کون کھائے گا۔‘‘

    ’’مت کرو ان چیزوں کا ذکر۔‘‘ جبران نے سر پکڑ لیا۔ ’’میں تو یہاں مزید نہیں بیٹھ سکتا۔ کھانوں کی بو سے میری طبیعت مزید خراب ہو ری ہے۔ میں باہر جا کر تم دونوں کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔

    دونوں نے مجبوراً کیلے اور پپرونی کے پیزا کا آرڈر دے دیا۔ ڈشیں آگئیں تو جلدی جلدی کھا کر اور باہر نکل آئے۔

    ’’کچھ بہتر محسوس کر رہے ہو اب؟ چہرے کی رونق تو لوٹ آئی ہے۔‘‘ فیونا نے پوچھا۔ جبران نے مسکرا کر سر ہلایا۔ دانیال نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اچھا، اب کیا کریں، کھانا بھی کھا چکے۔ یہاں وقت تیزی سے گزر رہا ہے، ذرا سوچو، اگر کوئی شخص 1200 میں یہاں آ کر قیمتی پتھر چھپاتا ہے، تو اب تک تو وہ اس لاوے میں کہیں دفن ہو چکا ہوگا۔‘‘

    فیونا بولی: ’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اسے کچھ زیادہ دیر تک تلاش کرنا پڑے گا، اسے ڈھونڈ نکالنا کچھ زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’لیکن ہم ان پتھریلی پہاڑیوں میں قیمتی پتھر کو کہاں کہاں تلاش کریں گے؟‘‘ جبران بولا۔

    ’’میں بتاتی ہوں۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا: ’’مرجان ہمیں ایک لاوا غار میں ملے گا۔‘‘

    ’’اور اب یہ لاوا غار کیا شے ہے؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔

    فیونا بتانے لگی: ’’لاوا غار اس وقت وجود میں آتا ہے جب اوپر کی سطح کا گرم بہتا لاوا ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، تاہم اس کے نیچے گرم لاوا بہتا رہتا ہے اور اس طرح ایک ٹیوب بن جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہ لاوا سخت ہونے لگتا ہے اور ایک غار کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔ مرجان کسی ٹنوں لاوے کے نیچے نہیں چھپا ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کسی غار میں ہے، یہ جزیرہ کچھ زیادہ بڑا نہیں ہے۔ چلو اسے ڈھونڈنے کا آغاز کرتے ہیں۔ ہاں، ایک بات یاد رکھنا کہ لاوا بہت کاٹ دار ہوتا ہے، اگر ہم نے احتیاط نہیں برتی تو یہ ہمیں لمحوں میں کئی ٹکڑوں میں بدل دے گا۔‘‘

    قیمتی پتھر کی جستجو میں تینوں لاوے کی زمین کی طرف بڑھنے لگے۔ دانیال بولا: ’’یہ زمین ناہموار ہے لیکن اچھی لگ رہی ہے۔‘‘

    وہاں جگہ جگہ پتھر پڑے ہوئے تھے اور چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر گھاس کی چادریں تنی ہوئی تھیں۔ جبران کو کچھ نظر آیا تو اس نے کہا: ’’ارے وہ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی چیز حرکت کر رہی تھی۔ جبران نے کہا: ’’اوہ یہ تو چٹان ہے جو حرکت کر رہی ہے۔‘‘

    (جاری ہے)

  • ترپّن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ترپّن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیے

    فیونا نے جواب دینے والی تھی کہ دانیال اس سے پہلے ہی بول پڑا: ’’گھبراؤ نہیں، تم اتنی جلدی کیوں خوف زدہ ہو جاتے ہو۔ پمفلٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جولفر نامی کشتی ایک جدید ترین کشتی ہے، دیکھو یہ نئی بھی لگتی ہے۔ اس میں ایک کیفے ٹیریا ہے اور ایک فلمی تھیٹر بھی۔ اگر ہم چاہیں تو عرشے پر بیٹھ کر ڈولفنوں اور وھیل کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ سمندر بہت پرسکون دکھائی دے رہا ہے، اس لیے آج ہواؤں کا کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے، لہریں بھی چھوٹی چھوٹی ہیں۔‘‘

    فیونا حیرت سے دانیال کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’واہ تم تو بہت اچھی باتیں کرنے لگے ہو۔‘‘

    ’’بس یہ تو تم لوگوں کا اثر ہے۔‘‘ دانیال نے قہقہہ لگایا۔ تینوں ہنسی مذاق کرتے ہوئے عرشے پر چڑھ کر سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ ’’دانی تمھارے پاس جو گائیڈ بک ہے، اس میں تھورلیکشوف کے متعلق بھی تو کچھ لکھا ہوگا، ذرا مجھے سنانا کیا لکھا ہے؟‘‘ فیونا نے اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے پوچھا۔

    دانیال پمفلٹ کھول کر پڑھنے لگا: ’’اس میں لکھا ہے کہ یہ چھوٹا سا شہر جنوبی ساحل پر ہے اور اس کا نام ایک بزرگ کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہاں سے مچھلی اور پومس برآمد کیے جاتے ہیں۔ تھورلیکشوف میں آئس بلو کے نام سے ایک واٹر پلانٹ بھی ہے جہاں منرل واٹر تیار کیا جاتا ہے۔‘‘ جبران نے پوچھا کہ یہ پومس کیا ہے، تو فیونا حیران ہو کر بولی: ’’اے تم نہیں جانتے، میں تو سمجھ رہی تھی کہ تم بہت کچھ جانتے ہو، بہرحال، یہ ایک قسم کا خاکی رنگ کا ہلکا سا آتش فشانی پتھر ہے۔ اسے پیس کر مختلف چیزوں کو مہین بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ دراصل لاوے سے بنتا ہے۔‘‘

    اسی وقت کشتی کا انجن چالو ہو گیا، اور ذرا دیر بعد کشتی سمندر میں اپنی منزل کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ ابھی انھوں نے آدھے گھنٹے ہی کا سفر طے کیا تھا کہ جبران کے ساتھ ساتھ فیونا کی طبیعت بھی خراب ہونے لگی۔ پھر جیسے ہی اس کی توجہ لہروں پر چلی گئی تو وہ خوف زدہ ہو گئی۔ ’’لہریں تو بہت بڑی ہیں۔ کک… کک … کیا جبران نے درست کہا تھا اور … یہ کشتی ڈوب جائے گی؟‘‘

    دانیال کا حال بھی ان دونوں کی طرح تھا۔ سمندر میں یہ ان کا پہلا سفر تھا اس لیے انھیں متلی ہونے لگی تھی، اور سر چکرانے لگا تھا۔ دانیال بولا:’’ میرا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے فیونا لیکن تم اس طرح کی بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ لہریں اتنی بھی بڑی نہیں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا پیٹ پکڑا اور اٹھ کر جنگلے کے پاس جا کر اپنی توجہ ہٹانے لگا۔

    ’’یہاں آؤ، میں نے قاتل وھیل دیکھ لیے ہیں۔‘‘ اس نے مڑ کر دونوں کو پکارا۔ دونوں کِلر وھیل کا سن کر عارضی طور پر اپنی تکلیف بھول گئے اور جنگلے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ ’’ارے وہ رہے کلر وھیل۔‘‘ جبران خوشی سے چلایا۔ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ پانی کے اس خطرناک جانور کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اسے جو کم زوری محسوس ہو رہی تھی، وہ پل بھر میں غائب ہو گئی تھی۔ فیونا بھی دل چسپی سے وھیل کو دیکھ رہی تھی جو بڑی تعداد میں تھیں اور کشتی کے ساتھ ساتھ ہیمے کی طرف سفر کر رہی تھیں، اور جن پر لمبی اور رنگین چونچوں والے پرندے پفن بہت بڑی تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے۔

    فیونا چلائی: ’’وہ دیکھو، یہ ہیمے ہے اور لاوا بہہ رہا ہے۔ یہاں آتش فشاں پہاڑ ہے اور وہ رہے کالے پتھر۔ میری دعا ہے کہ جب تک ہم یہاں ہیں یہ نہ پھٹے۔‘‘

    ’’افوہ، فیونا ایک تو تم دونوں بہت جلد پاگل پن کی باتیں کرنے لگ جاتے ہو۔‘‘ دانیال جھلایا۔ ’’یہ تو ایک پیارا جزیرہ ہے، یہ دراصل ویسٹ مین جزائر کا ایک حصہ ہے اور یہاں کے لوگ اسے ویسٹ مانیار کہتے ہیں، جب کہ ہیمے ایک آتش فشانی جزیرہ ہے۔ اور کیا تم یہ یقین کرو گے کہ ایک دن یہاں قزاق آئے اور یہاں کی تمام عورتیں اور لڑکیاں اغوا کر کے لے گئے؟‘‘

    (جاری ہے….)

  • باون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    باون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ (more…)

  • اکیاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکیاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    جونی تھامسن نے پانی سے بھرا گلاس مائری کو دیتے ہوئے پوچھا: ’’اب بتاؤ کیا ہوا تھا؟‘‘

    ماہری بتانے لگیں: ’’جب میں کام سے گھر لوٹی تو دروازے کے پٹ کھلے ہوئے تھے۔ فیونا نے کہا تھا کہ وہ اپنے انکل کے گھر جائے گی، اس لیے میں جانتی تھی کہ گھر میں کوئی نہیں ہوگا، لیکن جب میں نے یہاں یہ تباہی دیکھی تو خیال آیا کہ کہیں وہ گھر واپس نہ آئی ہو اور کسی نے اندر داخل ہو کر اسے نقصان نہ پہنچایا ہو، یہ دیکھو نا انھوں نے کتنی بے دردی سے ہر چیز الٹ پلٹ کر کے رکھ دی ہے۔ حتیٰ کہ ریفریجریٹر سے بھی تمام چیزیں نکال کر نشست گاہ کے فرش پر پھینک دی ہیں۔ قالین پر سے یہ پگھلتی ہوئی آئس کریم اب کبھی صاف نہیں ہو سکی گی۔‘‘

    ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ نوجوان لڑکوں کے کسی گروہ نے کیا ہے، یہ سب کسی ایک سرکش آدمی کا کام ہے۔ کوئی ایسا شخص جو بے رحم ہے۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ کوئی شخص آپ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے؟‘‘ جونی نے سارے کمرے گھوم کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’گیل ٹے میں اس طرح کا کوئی بھی شخص نہیں ہے۔ ہاں میں نے آج بیکری میں کچھ افواہیں سنی ہیں۔ کسی چور نے ایلسے کے سرائے پر مہمانوں کو لوٹا۔‘‘ مائری نے گالوں پر آنسوؤں سے بنی لکیروں کو صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’میرے خیال میں آپ فوراً پولیس کو ٹیلی فون کر کے رپورٹ درج کرائیں۔‘‘ جونی بولا:’’آپ پولیس کو طلب کریں اور میں گھر کو صاف کرتا ہوں۔‘‘

    مائری نے ایمرجنسی نمبر ڈائل کیا، کچھ ہی دیر میں پولیس پہنچ گئی۔ ’’کیا ہوا ہے مائری؟‘‘ آفیسر اینڈرسن نے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’میں نے آج تک گیل ٹے میں اس قسم کی واردات کبھی نہیں دیکھی۔ یہ تو کوئی ذہنی مریض لگتا ہے۔‘‘

    پھر آدھے گھنٹے تک پولیس رپورٹ لکھتی رہی، معلوم ہوا کہ گھر سے کوئی بھی چیز چوری نہیں ہوئی۔ آفیسر اینڈرسن کو اس پر حیرت ہوئی۔ آخر میں اس نے رپورٹ بک بند کر کے اٹھتے ہوئے کہا: ’’ٹھیک ہے مائری، جیسے ہی ہمیں کوئی خبر ملتی ہے ہم آپ کے پاس آ جائیں گے، تب تک آپ دروازہ بند کر کے رکھا کریں۔‘‘

    ’’دیکھو، میں نے بھی آپ سے یہی کہا تھا نا۔‘‘ جونی نے دروازے کے قریب کچرے سے بھری تھیلی پھینکتے ہوئے کہا۔ مائری نے بتایا کہ انھوں نے دروازہ بند کیا تھا، وہ کھڑکی سے اندر آیا ہوگا۔ جونی نے خیال ظاہر کیا کہ لگتا ہے اسے کسی چیز کی تلاش تھی لیکن نہ ملی تو غصے میں گھر کی چیزیں الٹ پلٹ دیں۔ اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی، مائری نے جا کر دروازہ کھولا تو بلال اپنی بیگم شاہانہ کے ساتھ وہاں کھڑے تھے، ان کے ساتھ جونی کا بھائی جمی بھی تھا۔

    ’’جیسے ہی ہم نے سنا ہم چل پڑے۔‘‘ شاہانہ اندر آ کر بولیں: ’’ان کے لہجے میں مائری کے لیے بہت زیادہ ہمدردی تھی۔ واقعہ سننے کے بعد انھوں نے کہا: ’’ہم بھی گھر کو درست کرنے میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔‘‘

    انھیں گھر پھر سے بحال کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ چوں کہ گھر میں کھانے کی کوئی چیز سلامت نہیں رہی تھی، اس لیے شاہانہ کے کہنے پر بلال واپس گھر جا کر رات کے لیے پکا ہوا کھانا اٹھا کر لے آئے، سب نے مل کر کھانا کھایا۔ مائری نے شاہانہ کو گلے لگا کر کہا: ’’آپ کا بہت بہت شکریہ، اچھا ہوا کہ فیونا کے آنے سے پہلے ہی گھر درست ہو گیا ورنہ وہ بہت خوف زدہ ہو جاتی۔‘‘

    ’’کوئی بات نہیں۔‘‘ شاہانہ نے اپنائیت سے کہا: ’’بس اب اپنا خیال رکھیے۔‘‘

    جونی نے اپنے بھائی کو مخاطب کیا: ’’جمی، تم بلال صاحب کے ساتھ جا کر یہاں کی روایتی تقریب کا مزا لو، میں یہاں رات کے لیے ٹھہر جاؤں گا، لیکن پہلے اینگس کے گھر سے ہوتے ہوئے جانا،‘‘

    ’’یہ آپ کی اچھائی ہے لیکن اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ مائری بولیں۔

    ’’نہیں، اس کی ضرورت ہے۔‘‘ جونی نے جواب دیا۔ ’’وہ پاگل شخص کسی بھی وقت پھر آسکتا ہے۔‘‘

    کچھ ہی دیر بعد بلال اور شاہانہ اپنے گھر، جب کہ جمی اینگس کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

    (جاری ہے…)