Author: رفیع اللہ میاں

  • پچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’پتا نہیں کہاں چلا گیا بے وقوف؟‘‘ فیونا سڑک کے کنارے بنی دکانوں کی طرف دیکھنے لگی۔ جبران نے کہا چلو ان دکانوں میں دیکھتے ہیں۔ دونوں ایک ایک کر کے دکان دیکھنے لگے لیکن وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ ان کی پریشانی اور بڑھ گئی۔ اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا اور دانیال کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔ ’’اب کیا ہو گا؟‘‘ جبران روہانسا ہو گیا۔

    ’’میرے خیال میں ہم ہوٹل چل کر دیکھتے ہیں، شاید وہ وہاں پہنچ چکا ہو۔‘‘ فیونا خود کو جیسے دلاسا دینے لگی۔ لیکن وہ اور کیا کرسکتے تھے، اس لیے ہوٹل پہنچ گئے۔ فیونا تیزی سے میگنس کی طرف بڑھی اور اس سے پوچھا: ’’کیا آپ نے دانیال کو آتے دیکھا یہاں؟‘‘

    ’’نہیں، میں تو سارا دن یہیں موجود رہا ہوں، وہ واپس نہیں آیا، کیا وہ کہیں کھو گیا ہے؟‘‘ میگنس نے جواب میں کہا: ’’گھبراؤ نہیں، رکجاوک زیادہ بڑا قصبہ نہیں ہے، وہ جلد ہی لوٹ آئے گا۔‘‘

    ’’آؤ یہیں پر اس کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘ فیونا بے چینی سے بولی اور دونوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ ’’پتا نہیں یہ لڑکے اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔‘‘ وہ غصے اور پریشانی میں بڑبڑانے لگی۔

    ’’اس کے پاس رقم موجود ہے، اس لیے وہ ٹیکسی کر کے یہاں آ سکتا ہے۔‘‘ جبران نے تسلی دی۔ ’’میں تو یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ یہاں ٹیکسی بھی ہوں گے، اسے تو ہوٹل کا نام تک یاد نہ ہوگا۔‘‘ فیونا کو رہ رہ کر اس پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں دروازے کی طرف دیکھتے رہے۔ آدھا گھنٹے بعد دانیال ہوٹل کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ تب تک میگنس بھی ڈیوٹی ختم کر کے جا چکا تھا۔ فیونا اسے دیکھ کر اچھلی اور دوڑ کر اس کے قریب گئی: ’’کہاں رہ گئے تھے تم، ہماری تو جان ہی نکل گئی تھی۔‘‘ فیونا نے اس کے کوٹ کا کونا پکڑ کر اسے صوفے پر بٹھا دیا۔

    ’’یار کہاں رہ گئے تھے تم، ہم نے قصبہ چھان مارا تمھارے پیچھے۔‘‘ جبران نے بھی اطمینان کی سانس لی لیکن لہجے میں ناراضی تھی۔

    ’’خریداری کر رہا تھا۔‘‘ دانیال نے جواب دیا۔

    ’’اوہ پتا نہیں کیا خرید رہے تھے تم۔‘‘ فیونا کو پھر غصہ آنے لگا۔

    ’’دراصل میں تمھارے لیے کچھ خرید رہا تھا۔‘‘ دانیال نے شرما کر کہا اور کوٹ سے ایک پیکٹ نکالا۔ ’’مجھے اس لیے پروا نہیں تھی کہ جانتا تھا تم لوگ ہوٹل پہنچ کر انتظار کرو گے، میں اسے پیک کروا رہا تھا، جب باہر نکلا تو تم لوگ جا چکے تھے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، لیکن آئندہ خیال رکھنا۔‘‘ جبران نے اسے تنبیہہ کر دی۔ ’’اور یہ کیا ہے؟ ذرا کھولنا اسے فیونا۔‘‘

    فیونا نے پیکٹ کھول کر دیکھا۔ اندر سے ایک خوب صورت ہار نکل آیا۔ ’’واؤ، یہ تو بہت پیارا ہے۔‘‘ ہار کے ساتھ چَین پر ایک چھوٹا سا سہنری چوہا لٹکا ہوا تھا۔ دانیال نے جھینپ کر کہا: ’’مجھے یاد ہے تم قلعہ آذر میں چوہے سے ڈر گئی تھی، اب تو تمھارے پاس تمھارا اپنا چوہا ہو گیا ہے، جسے تم ہر وقت گلے میں لٹکائے پھر سکتی ہو، اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ تمھیں چوہوں سے ڈر محسوس نہ ہو۔‘‘

    ’’شکریہ، یہ واقعی پیارا ہے، چوہے میں دل کی جگہ پر ایک نگینہ بھی جڑا ہوا ہے۔‘‘ فیونا نے خوش ہو کر کہا۔

    ’’اچھا اب میری بات بھی سنی جائے۔‘‘ جبران نے مداخلت کی۔ ’’مجھے شدید بھوک لگی ہے، پہلے کچھ کھاتے ہیں اور پھر ہوٹل کے سوئمنگ پول میں کودتے ہیں۔‘‘

    ’’کیا یہاں پیراکی کا لباس مل جائے گا۔‘‘ فیونا خوشی سے اچھل پڑی۔ ’’ہاں کرائے پر مل جاتا ہے۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔ تینوں کھانے کے لیے بنے مخصوص ہال میں داخل ہوئے اور ایک میز کے گرد خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ مینو پر نظر ڈال کر انھوں نے اپنے لیے آئس لینڈ کی مخصوص ڈشیں منگوائیں۔ فیونا نے مقامی پین کیک، بھیڑ کا سوپ اور اسکائر منگوا لیے۔ پوچھنے پر انھیں معلوم ہوا کہ اسکائر تازہ پنیر چھان کر تیار کی جاتی ہے جو دہی کی طرح لگتی ہے۔ جبران نے بھیڑ کے نکمین پارچے اور مٹر سوپ منگوائے، جب کہ دانیال نے مینو دیکھ کر کہا: ’’میں تو کوئی بالکل ہی مختلف چیز منگواؤں گا۔‘‘

    اس کی بات سن کر ویٹر فوراً بولا: ’’جناب ہمارے ہاں گھوڑے اور اودبلاؤ کا گوشت بھی دستیاب ہے۔‘‘

    ویٹر کی بات سن کر فیونا اور جبران چونک پڑے۔ انھوں نے منھ بنا لیے تھے لیکن دانیال نے مسکرا کر کہا: ’’میں وھیل والی ڈش کھاؤں گا۔‘‘ ویٹر نے کہا یہ بہت مزے دار ہے، آپ کو پسند آئے گی۔

    ویٹر کے جانے کے بعد دونوں نے دانیال کو آڑے ہاتھوں لیا: ’’کیا تم پاگل ہو گئے ہو، یہاں انھوں نے وھیل جیسے خوب صورت آبی جانور کو مارا ہے اور تم اسے کھاؤ گے۔‘‘ فیونا نے تیز لہجے میں کہا۔ جبران نے بھی برا منھ بنا کر کہا: ’’دانی، وھیل کا گوشت بھی کوئی کھانے کی چیز ہے، مجھے تو سوچ کر ہی متلی ہو رہی ہے۔‘‘

    ’’ارے تم دونوں خوامخوا ناراض ہو رہے ہو۔ میرا اگر اس سے پیٹ نہیں بھرا تو اس کے بعد گھوڑے کا اور پھر اودبلاؤ کی ڈش بھی منگوالوں گا۔‘‘ دانیال نے شرارت آمیز لہجے میں کہا۔

    ’’تم اودبلاؤ بھی کھا جاؤ گے۔‘‘ فیونا نے آنکھیں نکال لیں۔ ’’کبھی نہیں، تم ایسا نہیں کر سکتے۔ ورنہ… ورنہ پھر ہم دوست ہی نہیں ہو سکتے۔‘‘

    ’’تو کیا تمھارا مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اودبلاؤ کھا لیا تو تم میرے ساتھ دوستی نہیں کرو گی۔‘‘ دانیال نے حیران ہو کر کہا تو فیونا نے کہا: ’’میرا مطلب یہ ہے کہ تم اودبلاؤ مت کھانا۔‘‘

    ان کی گفتگو جاری تھی کہ ویٹر ان کی پسند کی ڈشیں لے آیا۔ پھر تینوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ فیونا اور جبران بار بار سر اٹھا کر دانیال کی طرف دیکھتے رہے اور برے برے منھ بناتے رہے۔

    ’’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے تم چربی چبا رہے ہو۔‘‘ فیونا آخرِ کار بول اٹھی۔ دانیال نے فوراً پلیٹ آگے کر دی: ’’ارے یہ تو بہت مزے کا ہے، تم دونوں بھی چکھو نا۔‘‘

    ’’نہیں … نہیں … شکریہ، ہم نے نہیں کھانا۔‘‘ دونوں نے جلدی سے معذرت کی۔ کچھ دیر بعد ویٹر نے آ کر پلیٹیں اٹھائیں اور جاتے جاتے دانیال کو مخاطب کیا: ’’جی جناب، ڈش کیسی لگی؟‘‘

    ’’بہت مزے دار۔‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

    بھاری بل ادا کرنے کے بعد وہ سوئمنگ پول چلے گئے۔ جیبوں کا سارا سامان ایک لاکر میں رکھا دیا اور پھر دو گھنٹے تک خوب پیرا کی کا لطف اٹھایا اور پھر کمرے میں جا کر بستروں پر لیٹتے ہی نیند کی میٹھی وادیوں میں کھو گئے۔

    (جاری ہے….)

  • انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انچاسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اچھا اب تولیے واپس رکھ دو اور نیچے چل کر معلومات حاصل کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے تولیہ واپس ریک پر ڈال دیا، اور دروازے کی طرف بڑھی۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے چلے گئے۔ فیونا استقبالیہ پر موجود شخص کی طرف بڑھی۔ ’’جناب، کیا یہاں قریب میں کوئی آتش فشاں پایا جاتا ہے؟‘‘

    استقبالیہ پر موجود شخص مسکرایااور میز پر ذرا آگے کی طرف جھک کر انھیں پوری طرح دیکھ کر بولا: ’’یہ پورا ملک ہی آتش فشاں ہے، ہاں اگر یہ جاننا ہو کہ حالیہ آتش فشاں کہاں پھٹا ہے تو بتا دیتا ہوں کہ ویسٹمین جزائر کا ایک آتش فشاں ہے جسے ہیمے کہتے ہیں، اور یہ 1973 میں پھٹا تھا۔‘‘

    ’’ہاں بالکل یہی، ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘ فیونا نے جلدی سے پوچھا۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے تھوڑی سی دیر کر دی، کیوں کہ سہ پہر کو آخری کشتی بھی کچھ دیر قبل ہی نکلی ہے، اب اگلی صبح کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ ناشتہ کر کے میرے پاس آنا تو میں راستہ سمجھا دوں گا۔ اس نے انھیں چند پمفلٹس بھی دیے اور ہدایت کی کہ انھیں غور سے پڑھ لیں۔ استقبالیہ پر موجود شخص نے آخر میں اپنا نام بھی بتایا: ’’میرا نام میگنس میگنسن ہے، لیکن تم لوگ مجھے صرف میگنس پکار سکتے ہو، اور آپ کی تعریف؟‘‘

    ’’میں فیونا، یہ جبران اور یہ دانیال۔‘‘ فیونا نے تعارف کرایا: ’’دراصل ہمارے والدین جلد ہی یہاں پہنچیں گے۔ انھوں نے ہمیں پہلے ہی یہاں بھیج دیا ہے اس لیے ہم اپنے طور پر گھوم پھرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا ٹھیک ہے اب تم لوگ رکجاوک کی شام سے لطف اندوز ہو۔

    فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا: ’’ہمیں میگنس کی بات پر عمل کرنا چاہیے، باہر چل کر رکجاوک کی شام کا لطف اٹھاتے ہیں اور پھر واپس آ کر رات کا کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ تینوں ہوٹل سے نکل کر سڑک پر آ گئے اور پمفلٹس کھول کر یہاں کے بارے میں درج معلومات پڑھنے لگے۔ جبران نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور حیران ہو کر کہا: ‘‘ابھی ساڑھے چار ہی بجے ہیں اور اندھیرا چھانے لگا ہے، گرمیوں کے موسم میں یہاں سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور ساری رات سورج کی روشنی رہتی ہے۔‘‘

    ’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ اب یہاں خزاں کا موسم ہے، اسی لیے سردی بھی کوئی خاص نہیں ہے اور برف باری بھی۔‘‘ دانیال بتانے لگا، وہ اب جادو کی وجہ سے انگریزی بول ہی نہیں بلکہ اچھے سے پڑھ بھی سکتا تھا۔ جبران نے اندھیرا ہوتے دیکھ کر کہا: ’’ہمیں اب ہوٹل جانا چاہیے، اجنبی مقام پر رات کو گھومنا محفوظ نہیں۔‘‘

    ’’کسی میوزیم یا پھر کوئی لائبریری دیکھنے چلتے ہیں۔‘‘ دانیال بولا۔ فیونا نے جبران کی حمایت کی: ’’نہیں دانی، ہم یہ سب جگہیں پھر بھی دیکھ سکتے ہیں، ویسے مجھے بھوک بھی لگی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا کہ کل تو ہم بہت مصروف ہوں گے، کچھ شاپنگ ہی کر لیتے ہیں، خواہ ایک ہی دکان میں جائیں۔ جبران اور فیونا نے اس کی ضد کے آگے ہار مان لی۔ جبران نے کہا میں تو مچھلیوں والے کی دکان میں جانا چاہوں گا، جہاں ماہی گیری کا سامان فروخت ہوتا ہو، اپنے پاپا کے لیے کچھ خریدوں گا۔ لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا کہ یہ چیزیں تو گیل ٹے میں بھی بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ ایسے میں فیونا نے سامنے کی ایک دکان کی طرف اشارہ کیا کہ چلو اس میں چلتے ہیں۔ فیونا نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، یہ دست کاری، فن اور اونی اشیا کی دکان تھی۔ دانیال سڑک ہی پر کھڑا رہ گیا، اس نے کہا: ’’نہیں بھئی، یہاں لڑکیوں کی چیزیں ہی ملتی ہیں۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے، تم اپنی مرضی کی دکان ڈھونڈ لو، ہم دونوں یہاں جاتے ہیں، لیکن آدھے گھنٹے بعد یہیں پر واپس آنا۔‘‘

    آدھے گھنٹے بعد جب دونوں دکان سے نکلے تو دانیال کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ انھوں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر رفتہ رفتہ ان کی پریشانی بڑھتی گئی۔

    (جاری ہے)

  • اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

    ’’لو یہ تو بڑی جلدی مل گیا۔ یاد ہے نا ہم نے کس طرح کرنسی حاصل کی تھی۔ اب پھر ہمیں وہی دکھ بھری کہانی سنانی ہے۔ تو سب سے پہلے میں کوشش کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے مسکرا کر یاد دلایا اور بینک کے اندر چلی گئی۔ پانچ منٹ بعد جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں آئس لینڈ کے کرنسی نوٹ تھے۔ وہ آتے ہی چہک کر بولی: ’’میں بہت شان دار اداکاری کرنے لگی ہوں۔ اچھا تم دونوں یہ رقم رکھ لو، جب ہم واپس جائیں گے تو انکل اینگس کو بقایا رقم واپس کر دیں گے۔‘‘ فیونا نے دونوں کو کچھ رقم دے دی۔

    ’’میری دعا ہے کہ کوئی ہم سے پاسپورٹ نہ طلب کر لے۔ ویسے اگر ہمارے پاس پاسپورٹ ہوتے تو ہم اس پر ان سارے مقامات کی مہر لگوا لیتے۔‘‘ دانیال نے کہا۔

    فیونا نے آنکھیں گول گول گھماتے ہوئے کہا: ’’ایسا ظاہر کرو کہ تم یہیں رہتے ہو، ایسی حرکتیں نہ کرو کہ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور پھر چہک کر بولی: ’’واہ یہ کتنا پیارا ہوٹل ہے۔‘‘

    وہ تینوں وائی کنگ شپ نامی ہوٹل میں داخل ہو گئے۔ سامنے ہی قدیم بادبانی کشتی وائی کنگ کا ماڈل نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ ’’یہ کتنا خوب صورت ہے۔‘‘ جبران دوڑ کر اس کے قریب چلا گیا۔ کشتی میں وائی کنگ جنگجوؤں کے مجسمے کھڑے تھے اور ان کے ہاتھوں میں تلواریں اور بھاری ڈھالیں تھیں۔ وہ ایک بڑے کمرے میں کھڑے تھے، جس کی چھت کے قریب دیواروں پر چوبی ڈریگن یا سمندری عفریت چاروں طرف چکّر کاٹ رہا تھا۔ اس کے منھ سے شعلے نکلتے اور ہر چند فٹ کے بعد اس کی پشت میں ایک کوہان نما اٹھ کر چھت سے ٹکراتا۔ وائی کنگ جنگجو نہ صرف کشتی میں کھڑے تھے بلکہ پورے دالان میں چند قدم کے فاصلے پر ایستادہ تھے۔ ہوٹل کے کمرے کے وسط میں شیشے کے صندوق میں وائی کنگ ٹوپیاں، سکے، کھلونے، پیالے اور دوسری نوادرات رکھی ہوئی تھیں۔ فیونا نے سرگوشی کی: ’’تم دونوں یہ نوادرات دیکھو، میں اندر جا کر کوئی کمرہ کرائے پر لیتی ہوں۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرو فیونا، اگر انھوں نے تم سے پاسپورٹ کے متعلق پوچھا تو؟ ‘‘ جبران نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ارے تم پریشان کیوں ہو گئے ہو، گھبراؤ نہیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ فیونا نے جواب دیا اور بغیر اس کی بات سنے چلی گئی۔ چند منٹ بعد جب اس کی واپسی ہوئی تو اس کی انگلی سے ایک چابی لٹک رہی تھی۔ اس نے چالاکی سے ہنستے ہوئے کہا: ’’انھوں نے مجھ سے پاسپورٹ مانگا لیکن میں نے کہہ دیا کہ میرے والدین بعد میں آئیں گے اس لیے انھوں نے مجھے کمرہ لینے کے لیے بھجوا دیا۔ اور یہ سن کر اس نے میری بات پر یقین کر لیا۔‘‘

    ’’تم تو بہت زبردست جا رہی ہو فیونا، تمھارا جواب نہیں۔‘‘ جبران خوش ہو کر بولا۔ اپنی تعریف سن کر فیونا کا سینہ فخر سے پھول گیا۔

    ’’ہمارے کمرے کا نمبر کیا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔ ’’سیکنڈ فلور، روم نمبر 217.‘‘ فیونا نے بتایا۔

    وہ تینوں اپنے کمرے میں آ گئے۔ یہ اتنا اچھا خاصا کشادہ کمرہ تھا، جس میں تین عدد بستر بچھے تھے۔ تینوں ایک ایک بستر پر بیٹھ کر سستانے لگے۔ فیونا فوراً لیٹ گئی۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا سا ہوا اور وہ ایک منظر دیکھنے لگی۔ یہ ایک آتش فشاں پہاڑ کا منظر تھا جو ایک زبردست دھماکے سے پھٹا اور وہ آگ اور لاوا اگلنے لگا۔

    وہ جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی، دونوں اس کی طرف دیکھنے لگے۔ فیونا نے کہا میں جان گئی ہوں کہ مرجان کہاں ملے گا ہمیں۔ وہ دونوں اس کے پاس آ گئے۔ فیونا نے کہا سب سے پہلے ہمیں یہاں کسی سے قریبی آتش فشاں کے بارے میں معلوم کرنا ہوگا، ہمیں وہیں جانا ہے۔

    ’’کیا… آتش فشاں … ‘‘ دونوں چونک اٹھے۔

    ’’ہاں، چلو ہوٹل کے دالان میں کسی سے پوچھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں کمرے سے نکلنے لگے تو جبران نے غسل خانے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ ’’ارے یہ دیکھو، یہ کتنا خوب صورت باتھ ٹب ہے۔‘‘

    فیونا اور دانیال نے بھی اندر جا کر دیکھا، تمام ٹائلوں پر وائی کنگ کشتی کی تصویر منقش تھی۔ ہر ٹائل پر کشتی کو مختلف رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔ ٹاؤل ریک پر تین تولیے لٹک رہے تھے، یہ بھی مختلف رنگوں کے تھے اور ان پر بھی وائی کنگ جنگ کے مختلف مناظر کی چھپائی کی گئی تھی۔ باتھ ٹب عین وسط میں تھا اور اس پر اسکینڈے نیویا کے غار کی دیواروں والی لکیریں اور علامات بنائی گئی تھیں۔ انھیں دیکھ کر جبران کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

    ’’یہ تو رونک حروف تہجی ہیں۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔ فیونا حیران ہو گئی: ’’رونک حروف تہجی کیا ہیں؟‘‘

    ’’دراصل وائی کنگ لوگ اسی طرز تحریر میں لکھتے تھے۔ حیرت ہے تمھیں نہیں پتا، اسکول میں یہ ہمیں پڑھایا تو گیا ہے۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔

    ’’ہاں ٹھیک ہے پڑھایا ہوگا۔‘‘ فیونا نے جلدی سے کہا اور آگے بڑھ کر سبز رنگ کا تولیہ کھینچ کر بولی: ’’مجھے تو یہ والا پسند ہے، اس لیے یہ میری ہو گئی۔‘‘

    جبران نے جلدی سے خاکی رنگ کا تولیہ اتار لیا۔ آخری تولیہ بھورے رنگ کا تھا جو دانیال کے حصے میں آیا۔ دانیال نے تولیہ چہرے پر مل کر دیکھا اور کہا یہ تو بہت نرم ہے۔

    (جاری ہے)

  • سینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    وہ تینوں ایک پہاڑی پر کھڑے تھے، ذرا ہی دیر پہلے منتر نے انھیں اس پہاڑی پر پہنچایا تھا اور وہ اپنے سامنے پھیلے ہوئے قصبے کو دیکھ رہے تھے۔ یکایک جبران چلایا: ’’ہٹو فیونا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے برق رفتاری سے اس کا بازو پکڑ کر کھینچ لیا۔ وہ لڑکھڑا کر گھاس پر گری۔ عین اسی لمحے وہاں سے گھوڑوں کا ایک ریوڑ دوڑتا ہوا گزرا، جن کی دُمیں اور ایال ہوا میں لہرا رہی تھیں۔

    ’’یہ کیا تھے؟‘‘ فیونا نے اٹھ کر اپنی نیلی پینٹ سے گرد جھاڑتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

    ’’چھوٹے قد کے گھوڑے۔ ذرا دیر ہو جاتی تو وہ تمھیں کچل کر گزر چکے ہوتے۔‘‘ جبران نے دوپہر کی دھوپ سے بچنے کے لیے آنکھوں کے سامنے ہاتھ آگے کیا۔ ’’ذرا دیکھو انھیں، کتنے پاگل پن سے دوڑ رہے ہیں۔‘‘

    ’’یہ تو طے ہے کہ یہ ٹراپیکل یعنی گرم مقام نہیں ہے۔‘‘ دانیال کہنے لگا، حیرت انگیز طور پر فیونا اب اس کی بات اچھی طرح سے سمجھ رہی تھی۔ ’’یہ قصبہ تو ہائیڈرا اور گیل ٹے سے کہیں زیادہ بڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بہت خوب صورت جگہ ہے۔ میں واپس جا کر اس کی تصاویر پینٹ کروں گا۔‘‘ اس نے پہاڑ کے دامن میں پھیلے ہوئے قصبے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا جہاں دور تک نیچے واقع سمندر تک سرخ، سبز اور نیلی چھتوں والے گھروں کا ایک طویل سلسلہ پھیلا نظر آ رہا تھا۔ ’’دیکھو یہ پانی یونان کے پانی سے بالکل مختلف لگ رہا ہے، یہ بہت سرد محسوس ہوتا ہے۔‘‘

    ’’ہم ہیں کہاں پر؟‘ جبران اس فہرست کو یاد کرنے لگا جہاں جہاں انھیں جانا تھا۔ ’’یہ نیپال تو نہیں ہو سکتا، کیوں کہ یہاں آس پاس پہاڑی سلسلے نہیں ہیں، اور یہ منگولیا بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ سمندر کے کنارے نہیں، یا ہے؟ کیا منگولیا میں اس طرح کے جنگلی گھوڑے پائے جاتے ہیں؟‘‘ اس نے فیونا کی طرف دیکھا۔

    فیونا بولی: ’’میرے خیال میں ہم آئس لینڈ میں ہیں اور یہ آئس لینڈ کے گھوڑے تھے۔ کتنے چھوٹے قد کے گھوڑے تھے نا۔ ایسا لگتا تھا کہ بدمست بھینسے دوڑ رہے ہوں۔‘‘ اس نے جیب سے کیمرہ نکالا اور کہا: ’’اس مرتبہ اگر گھوڑے پھر آگئے میں پوری طرح تیار رہوں گی۔‘‘ اس نے کیمرے کا فلیش چیک کیا۔ ’’یہ رنگین چھتیں دیکھ کر میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ قصبہ ریکجاوک ہے۔‘‘

    ’’اگر ہم آئس لینڈ میں ہیں تو پھر قلفی بن کر جم کیوں نہیں گئے؟‘‘دانیال بولا۔ اسے زمین پر کہیں بھی برف دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ’’آئس لینڈ میں تو برف ہی برف ہوتی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟‘‘

    جبران چاروں طرف نگاہ دوڑا کر موسم پر تبصرہ کرنے لگا: ’’ہم آئس لینڈ ہی میں ہیں، برف باری جلد شروع ہو سکتی ہے۔ چند ہی دن میں یہاں سرد ہوائیں چلنی شروع ہو جائیں گی۔ ہمیں یہاں قیمتی پتھر مرجان ڈھونڈنا ہے۔ تمھارے انکل اینگس نے کہا تھا کہ یہ گلابی مائل سرخ رنگ کا اور بہت مہنگا ہوتا ہے۔ ہم اسے کہاں سے ڈھونڈنا شروع کریں؟‘‘

    دانیال نے کہا: ’’ہمیں قصبے جانا چاہیے، سہ پہر کا وقت ہے، ایسا لگتا ہے یہاں اندھیرا جلد اترے گا۔‘‘

    دونوں نے تائید کی اور تینوں قصبے کی طرف چل پڑے۔ سبز چمکتی گھاس پر لمبے بالوں والی بھیڑیں گھاس چر رہی تھیں۔ فیونا نے وہاں مختلف اور نمایاں رنگوں کو محسوس کیا اور کہا: ’’یہاں کتنے سارے رنگ ہیں، میں نے سفید سے لے کر گہرے بھورے رنگوں کے شیڈز تک دیکھ لیے ہیں۔ یہ بھیڑیں تو بالکل ہمارے ہائی لینڈز کی بھیڑوں کی طرح ہی نا۔‘‘ اس نے قریب جا کر بھیڑ کو چھونا چاہا لیکن وہ دور بھاگ گئیں۔ کچھ فاصلے پر پودوں کے درمیان مور جتنے سفید پرندے پہاڑی کی طرف اڑے۔ جبران انھیں دیکھ کر بولا: ’’یہ تیتروں کی ایک قسم ہے جسے ٹارمگین کہا جاتا ہے، پتا ہے یہ موسم کے حساب سے رنگ بدل سکتے ہیں، گرمیوں میں ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے اور اب یہ سفید ہونے لگے ہیں، جلد ہی یہ مکمل طور پر سفید ہو جائیں گے اور اس طرح خود کو برف میں چھپا سکیں گے۔‘‘

    ’’واہ تم تو آئس لینڈ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہو۔‘‘ دانیال نے حیران ہو کر کہا۔ جبران نے کہا: ’’ہاں، اسکول میں پڑھا ہے اس کے بارے میں، انھیں دیکھ کر اچانک یاد آیا مجھے۔‘‘

    فیونارکجاوک قصبے سے متعلق بتانے لگی: ’’یہ دارالحکومت ہے، اور یہ لائبریریوں اور مجسموں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں خوب صورت ایڈر بطخیں اور سرخ چپٹی چونچ والے پفن نامی پرندے بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔‘‘ کچھ دور تک چلنے کے بعد فیونا نے کہا: ’’اب ہمیں سب سے پہلے کسی بینک کو تلاش کرنا ہے، جہاں ہم کرنسی کا تبادلہ کر سکیں، میرے خیال میں آئس لینڈ کی کرنسی کو کرونر کہتے ہیں۔‘‘

    ’’ان بارہ آدمیوں نے قیمتی پتھر چھپانے کے لیے جزائر ہی کیوں چنا؟‘‘ دانیال بولا: ’’وہ دیکھو، ساحل سے دور جزیرے نظر آ رہے ہیں۔‘‘

    جبران نے اس کے جواب میں جو معلومات بتائیں اسے سن کر فیونا بھی حیران رہ گئی، وہ بولا:’’غالباً اس لیے کہ یہ جزیرے اس دور میں الگ تھلگ واقع تھے، ان کے پاس بحری جہاز اور بڑی کشتیاں نہیں تھیں جن پر سوار ہو کر وہ آسانی سے جزیرہ ہائیڈرا چلے جاتے۔ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ ان کے لیے ان جگہوں پر پہنچنا کتنا مشکل رہا ہوگا۔ آئس لینڈ اسکاٹ لینڈ سے بہت دور ہے۔ وہ شاید مشرقی ساحل کی کسی ماہی گیر کشتی میں یہاں پہنچے ہوں گے۔‘‘

    فیونا اسے حیرت اور خوشی سے دیکھنے لگی: ’’تم تو معلوما ت کا خزانہ ہو، تمھیں یہ سب کیسے معلوم ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’مجھے پڑھنے کا شوق ہے، میری ممی میرے پڑھنے کے لیے کتابیں خرید کر لاتی ہیں اور میں انھیں شوق سے پڑھتا ہوں۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔

    ذرا دیر بعد وہ قصبے کی مرکزی سڑک پر پہنچ گئے۔ یہاں ہوٹل، ریستوران اور دکانوں کو رنگین بنایا گیا تھا۔ سڑک پر تھوڑا آگے جا کر وہ ایک بینک کے پاس رک گئے۔

    (جاری ہے)

  • چھیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اسکول سے نکلنے کے بعد فیونا گھر نہیں گئی۔ وہ مزید انتظار نہیں کرسکتی تھی اس لیے سیدھا جبران کے گھر چلی گئی، اسے دراصل اینگس کے گھر پہنچنا تھا۔ جبران بھی اسی وقت گھر پہنچا تھا، اسے دیکھتے ہی فیونا نے کہا: ’’تم تیار ہو۔ چلو انکل کے ہاں چلتے ہیں، میں جلد سے جلد کسی دوسرے ملک جانا چاہتی ہوں۔ ویسے پتا نہیں کہ آج وہ منتر ہمیں کس دیس لے کر جائے گا!‘‘

    دانیال بولا: ’’میرے خیال میں وہ کوئی سرد مقام ہو سکتا ہے، اس لیے میں تو اونی کوٹ لے کر جاؤں گا۔‘‘

    جبران نے اپنی پسند کا اظہار کیا: ’’لیکن مجھے امید ہے اس مرتبہ ہم کسی گرم علاقے میں جائیں گے، مجھے ایسے ہی علاقے پسند ہیں جو گرم ہوں اور وہاں بارش زیادہ نہ ہو۔‘‘

    تینوں بے تابی سے اینگس کے گھر کی طرف دوڑتے ہوئے جانے لگے۔
    ……………………

    دوسری طرف مائری مک ایلسٹر بیکری سے نکلنے کے بعد جیسے ہی گھر پہنچی، اور گھر کا دروازہ کھولا، ان کے منھ سے ایک چیخ نکل گئی۔ وہ دوڑ کر اندر گئیں اور گھبراہٹ میں فیونا کو آوازیں دینے لگیں۔ وہ سمجھی تھیں کہ شاید وہ اپنے کمرے میں ہو، لیکن وہاں کوئی نہ تھا اور گھر میں ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ ان کی آنکھیں حیرت اور خوف کے مارے پھٹ رہی تھیں۔ انھوں نے گھبرا کر ٹیلی فون اٹھا کر جبران کے گھر کا نمبر ملا دیا۔ دوسری طرف شاہانہ نے فون اٹھایا۔ ’’ہیلو شاہانہ، کیا مرد حضرات شکار سے واپس آ گئے ہیں؟‘‘ مائری نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ شاہانہ نے کچھ کہا تو مائری نے کہا: ’’ٹھیک ہے، ذرا جونی کو فون دیجیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر انھیں انتظار کرنا پڑا۔

    ان کے سامنے گھر کا نقشہ بکھرا پڑا تھا اور ان کے گالوں پر آنسو بہتے جا رہے تھے۔ جونی نے دوسری طرف سے جیسے ہی ہیلو کہا مائری جلدی سے بولیں: ’’جونی کیا آپ فوری طور پر یہاں آ سکتے ہیں؟ یہاں … یہاں خوف ناک بات ہو گئی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا اور وہیں پر گر کر سسکیاں بھرنے لگیں۔ انھیں شدید جذباتی جھٹکا لگا تھا۔ کیوں کہ وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں کہ گیل ٹے میں ان کے گھر میں کبھی اس طرح کا واقعہ رو نما ہو سکتا ہے۔

    تھوڑی دیر بعد مائری کو دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی، جونی اندر آ گیا۔ مائری اس وقت ایک کونے میں سمٹی بیٹھی ہوئی، خوف زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھیں۔ جونی نے مائری کو سہارا دے کر اٹھایا اور صوفے پر بٹھا دیا، اور ایک کمبل اٹھا کر ان کے گرد لپیٹ کر بولا: ’’اب بتاؤ، کیا ہوا ہے؟‘‘
    …………………..

    ’’کیا وہ واپس آ گئے ہیں؟‘‘ جبران نے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر کھڑکی سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ’’ارے یہ بلیاں باہر کیوں پھر رہی ہیں، انکل تو انھیں کبھی باہر نہیں چھوڑتے۔ چلو اندر چل کر معلوم کرتے ہیں کہ سب ٹھیک تو ہے۔‘‘ فیونا کے لہجے میں حیرت تھی۔

    دانیال نے ہینڈل گھمایا اور تینوں اندر داخل ہو گئے۔ ’’یہاں تو مجھے سب ٹھیک دکھائی دے رہا ہے۔ بلیوں کو اندر آنے دو، یہ بے چاری تو بہت بھوکی ہوں گی۔‘‘ فیونا نے مخصوص پیالے پانی اور بلیوں کی خوراک سے بھرنے لگی۔ اینگس دروازے کے پیچھے ہی ایک تھیلے میں ان کی خوراک بھر کر رکھتے تھے۔ پھر فیونا اور جبران بلیاں اندر لے آئے۔

    ’’وہ ابھی تک نہیں لوٹے۔ ہمیں ان کا انتظار کرنا چاہیے، مجھے یقین ہے وہ جلد پہنچ جائیں گے۔‘‘ فیونا نے کہا۔ وہ تینوں کرسیوں پر بیٹھ گئے، انھیں واقعی زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا، دروازہ کھلا اور اینگس اندر داخل ہو گئے۔ تینوں انھیں دیکھتے ہی اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ فیونا نے کہا: ’’ہم آپ کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے، ہم دوسرا قیمتی پتھر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

    اینگس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ انھوں نے کندھوں پر رکھا بوجھ اتار کر کہا: ’’ذرا صبر بچو، میں لمبے سفر سے لوٹا ہوں، پہلے کچھ کھانے تو دو۔ پھر سارا سامان کھولوں گا اور پھر دیکھتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘‘

    وہ ان کے قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھ گئے، لیکن جھک کر فیونا کے کان میں شرارت سے سرگوشی کی: ’’تو اس بار تم کہاں جانے کا سوچ رہی ہو!‘‘ فیونا نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا: ’’ہم تو صرف قیمتی پتھر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ لیکن پھر اچانک فیونا سنجیدہ ہو کر بولی: ’’پتا ہے آپ کو، جب سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے، یہاں آس پاس کچھ عجیب سی باتیں ہونے لگی ہیں۔‘‘

    یہ سن کر اینگس چونک اٹھے: ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’سب سے پہلی بات… جونی اور جمی تھامسن۔‘‘ فیونا بتانے لگی۔ جبران نے کہا وہ ہمارے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ فیونا نے بتایا کہ وہ کچھ عجیب سے لوگ ہیں لیکن ممی کو یقین ہے کہ برے لوگ نہیں ہیں۔

    ’’اوہو بچو… چھوڑو ان باتوں کو۔ تم لوگ خوامخواہ معمولی بات کا بھتنگڑ بنا رہے ہو۔‘‘ اینگس نے قہقہہ لگایا۔ ’’چلو، سب سے پہلے تمھارا ہی کام کرتے ہیں۔ تم تینوں آتش دان کے پاس کھڑے ہو جاؤ۔ میں جادوئی گولا نکال رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے بیگ سے جادوئی گیند نکال کر میز پر رکھ دی، اور فیونا کو مخاطب کیا: ’’میں تمھیں بتانا بھول گیا تھا کہ اب تم آگ پیدا کر سکتی ہو، اور اس کے لیے تمھیں اپنے دماغ میں حکم دینا پڑے گا بس!‘‘

    ’’واہ زبردست … شکریہ انکل۔ موقع ملا تو میں اس طاقت کو ضرور استعمال کروں گی۔‘‘ فیونا نے خوش اور حیران ہو کر کہا، اور پھر وقت ضایع کیے بغیر جبران اور دانیال کے ہاتھ تھام کر منتر دہرانے لگی … دالث شفشا یم … دالث شفشا یم … اور پھر تینوں اینگس کی آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گئے، انھوں نے مسکرا کر ٹیک لگالی۔

    (جاری ہے….)

  • پینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’گھر میں کوئی نہیں، یہ صبح میرے لیے لکی ہے۔‘‘ ڈریٹن مسکرایا اور احتیاطاً سارے گھر کے گرد ایک چکر لگا لیا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ باغیچے میں بھی کوئی نہیں ہے تو اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا۔

    ’’ارے یہ تو بند ہے، حیرت ہے۔ یہاں کسی کے گھر کا دروازہ بند نہیں ہوتا، لیکن اس گھر کا دروازہ بند ہے۔ کیا بات ہے مائری اور فیونا… کیا چھپا رکھا ہے تم دونوں نے؟‘‘ وہ پُر جوش ہو کر بڑبڑانے لگا۔

    نہ صرف دروازے بلکہ کھڑکیاں بھی اندر سے بند تھیں۔ ہاں باورچی خانے کی کھڑکی کھلی مل گئی۔ اس نے دیوار کے ساتھ ایک گملا رکھا اور اس پر چڑھ کر اچھلا اور کھڑکی پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ گھر کے اندر تھا۔ گھر اندر سے صاف ستھرا تھا اور ہر شے سلیقے سے رکھی ہوئی تھی۔ یہ بات اس کو سخت ناپسند تھی، اس لیے اس نے الماریوں سے برتن نکال نکال کر فرش پر پٹخ دیے۔ ذرا دیر میں اس نے گھر کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ ریفریجریٹر سے بھی کھانے پینے کی تمام اشیا نکال کر فرش پر پھینک دیں۔

    ’’فیونا… تم نے اسے آخر کہاں چھپا رکھا ہے؟‘‘ وہ چلایا۔ اس نے بیڈروم کی الماری بھی اسی طرح خالی کر دی۔ طاقچوں میں رکھے سارے برتن اب فرش پر بکھرے پڑے تھے۔ غرض ہر چیز اس نے الٹ پلٹ کر رکھ دی لیکن وہ جس چیز کی توقع کررہا تھا، وہ اسے نہیں مل سکی۔ آخر تھک ہار کر وہ بڑبڑایا: ’’ہونہہ … تو اس لڑکی نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اسے چھپایا ہوا ہے، تاکہ کوئی بھی اسے نہ پاسکے۔‘‘ کوئی ایک گھنٹے بعد وہ فیونا کے گھر سے نکلا۔ اس کا رخ اب اینگس کے گھر کی طرف تھا۔

    (جاری ہے…)

  • چوالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

    پیر کی صبح گیل ٹے میں بڑی مصروفیت بھری ہوتی ہے، بچے اسکول کی طرف جا رہے ہوتے ہیں، اور ان کے والدین کام کی جگہ کو محو سفر ہوتے ہیں، کسی کا رخ گاؤں کی طرف تو کسی کا شہر کی طرف ہوتا ہے۔ اکثر لوگ ریل گاڑی سے سفر کرتے ہیں۔ ایسے میں ڈریٹن پر جب سورج کی شعاعیں پڑنے لگیں تو اس نے انگرائی لیتے ہوئے اٹھنے ہی میں غنیمت جانی۔ سستی اتارتے ہوئے اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔

    ’’شکر ہے بارش نہیں ہو رہی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور لیپ ٹاپ نکال کر تمام تصاویر اپ لوڈ کر لیں جو اس نے اینگس کے گھر میں قدیم کتاب کی اتاری تھیں۔ کمرے میں ٹیلی فون لائن دیکھ کر اور خوش ہوا، اور ساری تصاویر انٹرنیٹ کے ذریعے ایک پرانے دوست کو بھیج دیں، اور ہدایات کے ساتھ یہ پیش کش بھی کی کہ اگر وہ چوبیس گھنٹوں میں یہ تصویریں اس کے پاس پہنچا دے تو اسے بڑا انعام ملے گا۔ اس کے بعد وہ نیچے اترا، اسے اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں تھی کہ ٹیلی فون لائن سے انٹرنیٹ منسلک کرنے پر جو بھاری بل آئے گا وہ ایلسے کے گلے میں پڑے گا۔ جیسے ہی وہ نیچے اترا، اس کا سامنا ایلسے سے ہوا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔

    ’’اوہ تم کیسے ہو ڈریٹن۔ افسوس یہاں کوئی چور گھس آیا تھا۔ آپ کا بٹوہ تو محفوظ ہے نا، یا آپ کا بھی چوری ہو گیا؟‘‘

    ’’نہیں، میرا بٹوہ میری جیب میں ہے۔‘‘ اس نے کہا اور شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔ اس نے رات ہی کو تمام بٹوے خالی کر کے انھیں کچرے میں پھینک دیا تھا۔ ’’صرف اتنا ہی نہیں ڈریٹن۔‘‘ ایلسے کہنے لگی: ’’کوئی چور اکثر لوگوں سے زیورات بھی کر چکا ہے۔ اب جب تک چور نہ پکڑا جائے کوئی بھی شے محفوظ نہیں ہے۔‘‘

    اس نے رات ہی کو چرایا ہوا زیور ایک درخت کی جڑ میں دبا دیا تھا، اور فی الحال محفوظ تھا۔ اس نے اداکاری کرتے ہوئے کہا: ’’یہ تو بہت برا ہوا ہے ایلسے، اگر میں آپ کے کسی کام آ سکتا ہوں تو مدد کے لیے ضرور کہیے گا۔‘‘

    ناشتے کی میز پر اسے چاروں طرف ایک ہی موضوع پر گفتگو سننے کو ملی۔ بیڈ اینڈ بریک فاسٹ میں آنے والے سب ہی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ وہ جلدی جلدی ناشتہ کر کے اٹھا اور وہاں سے نکلنے لگا۔ دروازے کے قریب اس نے ایلسے کو روک کر پوچھا: ’’آپ کو یہ پوچھے جانے پر بڑی حیرت ہو گی لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اینگس اپنے رشتہ داروں میں کس کے ساتھ زیادہ محبت کرتا ہے، خصوصاً کوئی چھوٹی لڑکی؟ دراصل میں اس کے لیے ایک تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’اس کی بھتیجی فیونا۔‘‘ ایلسے نے جواب دیا۔ ’’وہ زیادہ تر وقت اس کے ساتھ ہی گزارنا پسند کرتا ہے۔ جب سے فیونا کے ڈیڈی دنیا سے گزر گئے ہیں، تب سے وہی اس کی سرپرستی کر رہا ہے۔ کیا آپ اینگس کے گھر جائیں گے؟‘‘

    ’’میں کل گیا تھا لیکن وہ گھر پر نہیں تھے، جیسا کہ آپ نے پیشگوئی کی تھی۔ میں نے ان کے لیے پیغام چھوڑا۔ ویسے آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟‘‘ ڈریٹن بولا۔
    ’’بس ایسے ہی۔‘‘ ایلسے کہتے کہتے رک گئی۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ ڈریٹن نے کہا۔ ’’فیونا کہاں رہتی ہے، میں اس سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں۔‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔

    ’’وہ اپنی ممی مائری کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘ ایلسے نے اس کے گھر کا پتا بتا دیا۔
    ’’بہت بہت شکریہ ایلسے۔ آپ میری بہت کام آئی ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور طے کر لیا کہ واپسی میں اسے گل دستہ تحفے میں دے گا، تاکہ بڑھیا اور بھی اس کے کام آ سکے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد وہ فوراً اس درخت کے نیچے پہنچ گیا، اور زمین کھود کر زیور نکالا اور پوسٹ آفس جا کر اسے ٹرورو میں اپنے گھر بھیج دیا۔ اس نے لفافے کے اوپر اپنی ماں کے لیے لکھا کہ وہ اسے کھولنے کی کوشش نہ کرے ورنہ یہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا، اور وہ چند ہفتوں میں گھر پہنچ جائے گا۔
    فیونا کا گھر ڈھونڈنا مشکل نہ تھا۔ ڈریٹن گلیوں میں گھوم پھر کر تلاش کرنے لگا۔ جلد ہی اسے وہ گھر مل گیا۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ وہ ایک کھڑکی کے پاس جا کر اندر جھانکنے لگا۔

    (جاری ہے)

  • تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح فیونا اور اس کی ممی نے باغیچے میں گزاری۔ انھوں نے زمین کھود کر گاجر، آلو اور شلجم نکالے اور مٹر کی بیلوں سے پھلیاں اتاریں۔

    ’’سبزیوں سے فارغ ہو کر، میں چاہتی ہوں، کہ تم سیب اتارنے میں بھی میری مدد کرو۔ میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ ایپل پائی بنا لوں۔‘‘ مائری مٹر کی پھلیاں ٹوکری میں ڈالتے ہوئے بولیں۔

    ’’ٹھیک ہے ممی لیکن کچھ دیر کے لیے میں اپنے دوستوں سے ملنا چاہتی ہوں، واپسی پر آپ کا ہاتھ بٹاؤں گی۔‘‘

    ’’کب جا رہی ہو تم؟‘‘ انھوں نے پوچھا تو فیونا نے ہاتھوں سے کیچڑ کی تہہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا: ’’بس ابھی۔‘‘

    فیونا دوڑ کر اندر گئی اور شاور لینے کے بعد اتوار کے دن کے لیے اپنا پسندیدہ لباس پہنا اور ممی کو خدا حافظ کہہ کر جبران کے گھر کی طرف چل دی۔ فیونا جیسے ہی جبران کے گھر پہنچی، عین اسی وقت وہ اپنی مما اور بہن بھائی کے ہمراہ گھر سے نکلا۔ وہ تفریح کے لیے جا رہے تھے۔

    ’’ہیلو فیونا، کیسی ہو تم؟ ہم گھومنے جا رہے ہیں، تم بھی چلو ہمارے ساتھ۔‘‘ جبران اسے دیکھتے ہی بول اٹھا۔

    ’’نہیں، مجھے گھر پہنچنا ہے۔ دوپہر کو ہمارے گھر مہمان آ رہے ہیں۔ تم دونوں کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں آنا مت بھولنا۔‘‘ فیونا نے کہا اور واپس گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جب وہ گھر پہنچی تو وہاں جمی اور جونی پہلے ہی سے موجود تھے۔ جونی اسے دیکھ کر بولا: ’’ہیلو فیونا، ہم جلدی آ گئے ہیں، امید ہے تمھیں برا نہیں لگے گا۔ تمھاری ممی ہمارا بہت خیال رکھ رہی ہیں۔‘‘

    ’’میں ابھی آئی۔‘‘ فیونا نے کہا اور اوپر چلی گئی، اور ایک بار پھر لباس تبدیل کر کے آ گئی۔ اچانک اسے یاد آیا کہ ان کے مہمان بہت ساری روز مرّہ چیزوں سے واقف نہیں ہیں، اس لیے اس نے جونی کے بھائی کو مخاطب کیا۔

    ’’جمی انکل، کیا آپ میرے ساتھ آ کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دیکھنا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’فیونا، یہ بری بات ہے۔‘‘ مائری نے اسے فوراً ٹوک دیا۔ ’’صرف جمی ہی کیوں، تمھیں دونوں بھائیوں کو چھتے دکھانے چاہیئں۔‘‘

    ’’دراصل میں زندگی میں بہت سے شہد کے چھتے دیکھ چکا ہوں۔ میرے بھائی نے نہیں دیکھے۔ اس لیے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ جونی نے مسکرا کر جواب دیا۔

    فیونا جمی کو لے کر شہد کی مکھیوں کے چھتے دکھانے چلی گئی۔ ان کے جاتے ہی جونی نے مائری سے پوچھا: ’’تو آپ کا کہنا ہے کہ آپ اینور ڈروچٹ کی ہیں، مجھے ذرا اس جگہ کے بارے میں بتائیں کہ اب وہ کیسے لگتی ہے؟‘‘

    مائری نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی تو انھیں جونی کی آنکھوں میں یادوں کا بسیرا محسوس ہوا۔ وہ آنکھیں خلاؤں میں کہیں بھٹکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ ’’میں جب سے یہاں آئی ہوں، کوئی دو ماہ ہو رہے ہیں، پھر واپس نہیں جا سکی۔ حالاں کہ فیونا کہتی رہتی ہے کہ وہیں منتقل ہو جاتے ہیں یا پھر شہر چلے جاتے ہیں لیکن میں یہاں گیل ٹے میں مطمئن ہو گئی ہوں۔ اینور ڈروچٹ آج بھی وہی چھوٹا سا گاؤں ہے، تقریباً پچاس گھروں پر مشتمل۔ وہاں ایک پوسٹ آفس اور ایک ہی دکان ہے۔ اکثر لوگ یہاں گیل ٹے میں آ کر خریداری کرتے یا سیر کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کل وہاں کا ایک چکر لگا آئیں۔‘‘

    ’’اور قلعہ آذر!‘‘ جونی نے اچانک پوچھا۔ ’’کیا آپ وہاں کبھی گئی ہیں؟‘‘
    ’’نہیں کبھی نہیں۔‘‘ مائری نے جھرجھری سی لی۔ ’’پتا نہیں کیوں، مجھے وہاں سے خوف آتا ہے۔ اب میری بات پر ہنسیے گا مت۔ میرا مطلب ہے کہ ان دیواروں سے مجھے کسی دردناک سانحے کی لہریں نکلتی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘

    جونی محسوس کیا کہ ماحول پر اداسی چھا رہی ہے تو اس نے جلدی سے مسکرا کر پوچھا: ’’کیا آپ کو مچھلی کا شکار پسند ہے؟ مجھے تو بہت پسند ہے۔ بلال صاحب نے ہمیں مچھلی کے شکار کے لیے کئی جگہیں دکھائیں۔‘‘ لیکن مائری نے اس کی بات کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی اور پوچھا: ’’آپ کون ہیں جونی تھامسن؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ وہ نہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ لندن سے سیاح کے طور پر آئے ہیں تو پھر اس جگہ، جھیل، گاؤں اور حتیٰ کہ قلعے کے متعلق کیسے جانتے ہیں؟‘‘

    ’’میں آپ سے سچ کہوں گا۔‘‘ جونی کہنے لگا: ’’میں یہاں پہلے بھی آیا ہوں، اور یہاں ایک گاؤں میں رہ چکا ہوں۔ جھیل میں مچھلیاں پکڑ چکا ہوں لیکن یہ بہت پرانی بات ہے۔ میری سب سے خوب صورت اور سب سے بری یادوں کا تعلق بھی اسی جگہ سے ہے۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں پھر ماضی کی یادوں کی چمک جھلکنے لگی تھی۔ وہ کچھ دیر تک ماضی کی یادوں میں کھویا رہا، پھر مائری چائے اور بسکٹ کا انتظام کرنے لگیں۔ اتنے میں فیونا اور جمی بھی لوٹ آئے۔ وہ باغیچے میں کرسیاں ڈال کر بیٹھ گئے تھے اور چائے کے ساتھ بسکٹ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دھیرے دھیرے شام کے سائے پھیلنے لگے۔ جونی نے آسمان پر چمکتے تاروں کو دیکھتے ہوئے کہا: ’’صرف یہی چیز ہے جو یہاں ویسی کی ویسی ہی ہے، باقی سب کچھ بدل چکا ہے۔‘‘

    جمی کو حیرت ہوئی۔ اسے پتا نہیں تھا کہ اس کا بھائی کیا کہنا چاہ رہا ہے تاہم مائری صرف مسکرا دی۔ جونی نے کہا: ’’اب ہمیں جانا چاہیے کیوں کہ بلال صاحب کل ہمیں شکار پر لے جائیں گے اور ہم سارا دن اس میں گزاریں گے۔‘‘ جمی نے بھی کہا کہ کل میں بلال صاحب کے ہمراہ ایک روایتی پارٹی میں جائے گا۔‘‘

    وہ دونوں جبران کی گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے باغیچے سے اندر جاتے ہوئے کہا: ’’ممی، میں بھی کل اسکول کے بعد انکل اینگس کے ہاں جاؤں گی۔ جبران اور دانی بھی وہاں آئیں گے۔ کھانا ہم وہیں پر کھائیں گے اس لیے دیر ہوگی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ مائری نے کہا اور روشنیاں بجھانے لگیں۔

    (جاری ہے…..)

  • بیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بیالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُرتجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’واہ یہ تو زبردست بات ہو گئی ہے۔ سب کچھ اتنی آسانی سے ہو رہا ہے جیسے کوئی مکھن کھا رہا ہو۔ دنیا پر حکمرانی کا خیال کتنا شان دار اور خوب صورت ہے۔‘‘ ڈریٹن خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ خود کو ابھی سے دنیا کا بادشاہ سمجھے لگا۔ اس نے شیشے پر کنگ کیگان کی تصویر کو مخاطب کیا: ’’تو قلعہ آذر کے آقا، اب تم کیا سوچ رہے ہو۔ تم مردہ ہو اور میں زندہ ہوں اور جلد ہی جادوئی گولا میرے قبضے میں ہوگا۔ اب میں جا رہا ہوں، کل پھر ملاقات ہوگی۔‘‘

    وہ قلعے سے نکلا اور کشتی میں بیٹھ کر جھیل کے دوسرے کنارے اتر گیا۔ اس نے قریب ہی ایک بھاری پتھر تلاش کیا اور اسے اٹھا کر کشتی پر مارنا چاہا تاکہ اسے ڈبو دے، لیکن پھر اچانک اسے یاد آیا کہ اب اسے ہر رات یہاں آنا ہے، اس لیے کشتی کی ضرورت پڑتی رہے گی۔ اس نے وہ پتھر پانی میں پھینک دیا۔ ڈریٹن واپس اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر کسی نے اسے روکا تو ایک جھٹکے سے اس کی گردن کا منکا توڑ دے گا۔ دروازے پر پہنچ کر اسے پھر بلیوں نے گھیر لیا۔ اس نے بلیوں کو لاتیں مار مار کر بھگا دیا اور اندر داخل ہو گیا۔

    ڈریٹن اندر جا کر اینگس کی تمام چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگا، اور آدھے ہی گھنٹے بعد خوش قسمتی نے اسے بری طرح چونکا دیا جب اسے غیر متوقع طور پر قدیم کتاب مل گئی۔

    ’’ارے یہ کیا ہے۔‘‘ وہ حیران ہوا۔ ’’یہ اینگس تو چھپا رستم نکلا، اس نے تو قدیم کتاب بھی حاصل کر لی ہے۔ لگتا ہے یہ بھی میرا ساتھی ہے۔ آخر کون ہو تم بوڑھے اینگس اور اس لڑکی سے تمھارا کیا رشتہ ہے؟‘‘ وہ کتاب پا کر خود کلامی کرنے لگا۔ پھر اس نے ڈیجیٹل کیمرہ نکال کر کتاب کے ہر صفحے کی تصویر لی۔ چوں کہ کتاب گیلک زبان میں لکھی گئی تھی اور اسے اس کی کوئی شدھ بدھ نہیں تھی، اس لیے اسے غصہ آنے لگا۔ اس کے پاس جو کتاب تھی وہ پرانی انگریزی میں لکھی گئی تھی۔ اس نے سوچا کہ کسی بے وقوف اسکاٹ ہی نے اسے گیلک میں لکھا ہوا ہوگا۔ پھر اسے اپنا لیپ ٹاپ یاد آ گیا۔ اس نے خوش ہو کر سوچا کہ وہ اسے لیپ ٹاپ پر اپ لوڈ کر کے کسی ایسے شخص کو بھیجے گا جو اسے کچھ رقم کے عوض ترجمہ کر دے۔

    اچانک وہ ایک خیال آنے پر چونک اٹھا۔ ’’ارے میں تو بھول گیا تھا، یہ کتاب جہاں ہو گی یقیناً جادوئی گیند بھی وہیں ہوگی۔‘‘ یہ بڑبڑاتے ہوئے وہ ایک بار پھر چیزوں کی تلاشی لینے لگا۔ کافی دیر تک تلاش کے باوجود جب اسے جادوئی گولا نہیں ملا تو وہ غصے سے کانپنے لگا اور اسی عالم میں چیخا: ’’یقیناً وہ بڈھا اسے اپنے ساتھ لے گیا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ کتنا اہم ہے، لیکن میں اسے حاصل کر کے رہوں گا۔‘‘

    کچھ دیر بعد اس نے اپنے غصے پر قابو پایا اور ساری چیزیں ویسے ہی اپنی اپنی جگہ پر رکھ دیں، تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ یہاں آیا تھا۔ اس کے بعد وہ واپس بیڈ اینڈ بریک فاسٹ پہنچ گیا۔ وہ عین وقت پر پہنچا تھا کیوں کہ رات کا کھانا تیار تھا۔ کھانا کھا کر اس نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ گفتگو کر کے خود کو ایک اچھا لڑکا ثابت کیا اور پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بستر پر بیٹھ کر اس نے جیب سے تین بٹوے، دو ہیروں کے ہار اور ایک سونے کی انگوٹھی نکال کر سامنے رکھ دی، اور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ انھیں دیکھنے لگا۔

    ’’بے وقوف دیہاتی!‘‘ اس نے بڑبڑا کر کہا اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ یہ ساری چیزیں اس نے اسی ریستوران میں لوگوں کے ساتھ گفتگو کے دوران پار کی تھیں، اور کسی کو کچھ پتا نہیں چلا تھا۔ وہ بلاشبہ ایک ہوشیار جیب کترا تھا!

    (جاری ہے…)

  • اکتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اکتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    چمنی سے خاکی مائل بادامی دھواں اندر آ کر اس کی ٹانگوں کے گرد گھومنے لگا تھا، جس نے آن کی آن میں چکراتے ہوئے اوپر اٹھ کر اسے لپیٹ میں لے لیا۔ پھر دھوئیں کے چکر میں تیزی آنے لگی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھی تیزی سے گھومنے لگا جس پر دہشت کے مارے اس کے منھ سے چیخیں نکلنے لگیں۔ ’’یہ … یہ … کیا ہو رہا ہے؟‘‘ لیکن کچھ ہی لمحوں کے بعد دھواں ٹھہر گیا، تو اس کا گھومنا بھی بند ہو گیا۔ اس کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ دھواں اس کے سامنے کھڑا ہو کر دھیرے دھیرے انسان کی شکل اختیار کرنے لگا۔

    ’’کک … کیا تم کنگ کیگان ہو؟ مم … میں نے تمھیں ابھی ابھی برا بھلا کہا … کک … کیا تم مجھے … اس کی سزا دو گے؟‘‘ وہ خوف کے مارے ہکلانے لگا۔

    ’’کیا میں کنگ کیگان کی طرح دکھائی دیتا ہوں؟‘‘ یکایک ایک کمزور اور بوڑھی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ’’میں پہلان ہوں، کنگ دوگان کا جادوگر۔ میں سیکڑوں برس سے یہاں تمھارا انتظار کر رہا ہوں، اور آخر کار تم پہنچ ہی گئے۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرو … پہلان …‘‘ ڈریٹن یہ سن کر اچھل پڑا۔ ’’تم نے کیا کہا کہ تم میرا انتظار کر رہے تھے، کیا مطلب ہے اس کا، تم میرا انتظار کیوں کر رہے تھے؟‘‘ اب اس کا خوف دور ہو گیا تھا اور وہ کسی پولیس والے کی طرح سوال پر سوال داغنے لگا، لیکن جادوگر پہلان کو اس کی یہ بدتمیزی پسند نہیں آئی۔

    ’’لڑکے، میں تمھارے آبا و اجداد میں سے ہوں، میرا احترام کرو۔ مجھے ایک معمولی بھوت مت سمجھو۔ میں پہلان ہوں پہلان … زیلیا کا جادوگر!‘‘

    ’’تو آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ ڈر کر ایک دم سے با آدب کھڑا ہو گیا۔ پہلان کہنے لگا کہ اسے سونے کی گیند تمام قیمتی پتھروں سمیت چاہیے۔ پہلان نے کہا: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ نیکلس تمھارے پاس ہے۔‘‘

    ڈریٹن کی شرٹ سے نیکلس لہراتے سانپ کی طرح باہر نکل آیا۔ ’’نہیں، میں یہ آپ کو نہیں دوں گا۔‘‘ ڈریٹن نے جلدی سے اسے واپس شرٹ کے اندر ڈال لیا۔

    ’’بے وقوف لڑکے، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے آبا و اجداد کی طرح بالکل نہیں ہو۔ جب انھیں معلوم ہوگا کہ تم نے کتنی بے کار چیز کو گلے میں ڈال رکھا ہے تو انھیں تم پر غصہ آئے گا۔ اور تم نے عورتوں کی طرح یہ بُندے کیوں پہن رکھے ہیں، میں نے مردوں کو کبھی انھیں پہنے نہیں دیکھا۔

    ’’اب بہت ساری چیزیں بدل چکی ہیں اور مرد بھی انھیں پہننے لگے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے فوراً جواب دیا۔

    ’’میں پھر یہ کہوں گا کہ یہ مردوں کے لیے نہیں ہیں۔ تمھارے سوا میں نے کسی کو بھی کانوں کے چھلے پہنے نہیں دیکھا۔ بہرحال تم جادوئی گولا اور قیمتی پتھر میرے پاس لے کر آؤ۔ جب یہ ساری چیزیں میرے پاس ہوں گی تو میں پھر سے زندہ ہو جاؤں گا اور تمھارا جادوگر بن کر تمھاری خدمت کروں گا۔ ہم ساری دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ یقیناً تم بھی یہی پسند کرو گے، کیا کہتے ہو نوجوان ڈریٹن۔‘‘ یہ کہہ کر پہلان قہقہے لگانے لگا۔ اس کے قہقہے ایسے ہی تھے جیسے بھوت ہنس رہے ہوں جسے سن کر زندہ لوگوں میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے۔‘‘

    ’’واہ یہ تو بہت شان دار خیال ہے۔‘‘ ڈریٹن نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔ ’’یعنی اب میں بھی ایک جادوگر سے کام لے سکتا ہوں۔ لیکن جادوئی گیند ہے کہاں؟‘‘

    پہلان کے بھوت نے بتایا کہ جادوئی گولا اسی گاؤں میں ہے، ایک لڑکی نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا ہے، اور اس نے ایک قیمتی پتھر بھی ڈھونڈ لیا ہے۔

    ’’اوہ، تو یہ بات ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرا نیکلس کیوں اچانک چمکنے لگا ہے۔‘‘ ڈریٹن نے چونک کر کہا۔ ’’چوں کہ میں دونوں خاندانوں کا وارث ہوں اس لیے ضروری ہے کہ میں دوگان کے جادو کا طریقہ سیکھوں۔‘‘

    ’’تمھیں ہر صورت میں صبر سے کام لینا ہو گا۔‘‘ پہلان کے بھوت نے جلدی سے اسے ٹوک دیا۔ ’’میں خود ہی جادوئی گیند اور قیمتی پتھر حاصل کر لیتا لیکن میں اس قلعے اور جھیل سے باہر نہیں جا سکتا۔‘‘

    ’’اور اگر آپ یہاں سے نکلے تو کیا ہوگا … کیا آپ مینڈک بن جائیں گے یا کچھ اور؟‘‘ ڈریٹن نے عادت سے مجبور ہو کر مذاق اڑایا۔

    ’’بس … گستاخی کی بھی حد ہوتی ہے۔‘‘ پہلان کے بھوت کو غصہ آ گیا۔ ’’میں یہ جگہ نہیں چھوڑ سکتا۔ کسی چیز میں تبدیل نہیں ہوں گا، لیکن اگر نکلا تو عظیم جادوگر کا قہر مجھ پر ٹوٹ پڑے گا۔ اسے نہیں پتا کہ میں کہاں ہوں اور مجھ تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے، اس لیے میں یہیں رہوں گا۔‘‘

    ’’تو تم کبھی بھی یہاں سے باہر نہیں نکلو گے؟‘‘ ڈریٹن نے پوچھا۔

    اس نے کہا: ’’فی الحال حالات ہی ایسے ہیں، اگر مجھے کوئی چھوٹا بدن مل جائے تو میں یہاں سے نکل سکتا ہوں، لیکن وہ بھی صرف بارہ گھنٹوں کے لیے، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘

    ڈریٹن چونکا، اور گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ’’کک … کہیں آپ میرا جسم لینے کا ارادہ تو نہیں رکھتے۔ چھوٹے بدن سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا کسی جانور کا؟‘‘

    ’’احمق لڑکے، میں کسی انسانی بدن میں نہیں جا سکتا، کم سے کم اتنی آسانی سے تو بالکل نہیں۔ کوئی بھی جادوگر ایسا نہیں کر سکتا۔ ہاں میں کسی بھتنے، بونے، بالشتیے یا پھر پریوں کی دنیا کی کسی اور مخلوق کے جسم میں اندر جا سکتا ہوں اور اس پر قبضہ جما سکتا ہوں۔‘‘ پہلان جادوگر کا بھوت کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا۔ ’’میں نے تمھیں بہت کچھ بتا دیا ہے، وہ باتیں جو تمھیں بتانے کی نہیں تھیں۔ مجھے وہ جادوئی گولا چاہیے تاکہ میں ہمیشہ کے لیے اپنا جسم حاصل کر سکوں۔ اب تم میرے حکم کی تعمیل کرو گے ورنہ میں تمھیں مینڈک سے بھی زیادہ بدتر چیز میں تبدیل کر دوں گا۔ تم ہر رات یہاں آؤ گے اور میں تمھیں جادوگروں کے طریقے اور منتر سکھاؤں گا۔ جب وقت آئے گا تو تم ان منتروں کو استعمال کر کے جادوئی گولا حاصل کرنے کے قابل ہو جاؤ گے۔‘‘

    یہ کہہ کر جادوگر کا بھوت پھر دھواں بن کر غائب ہو گیا۔

    (جاری ہے….)