Author: رفیع اللہ میاں

  • چالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’بہت خوب۔‘‘ ڈریٹن نے اداکاری کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’تو وہ اسی گھر ہی میں رہ رہا ہے، جہاں میں نے آخری مرتبہ اس کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ تو ایلسے، اب میں ایسی جگہ کا خواہش مند ہوں جہاں مجھے تنہائی میسر ہو کیوں کہ میں کتاب لکھنا چاہتا ہوں، اس لیے میں ایسی جگہ تلاش کرنے جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکلا اور نفرت انگیز انداز میں منہ سکیڑ کر بڑبڑایا: ’’بے وقوف بڑھیا، یہ تو میری ماں سے بھی کہیں زیادہ بے وقوف لگ رہی ہے۔ ویسے اس سے کافی معلومات مل گئی ہیں، اور اب میں جان گیا ہوں کہ اینگس کہاں رہتا ہے۔ اب میں وہاں جاؤں گا اور دیکھوں گا کہ اس نے اپنے آس پاس کیا کچھ جمع کر رکھا ہے۔‘‘

    ڈریٹن اینسٹر اسٹریٹ کی جانب گامزن ہو گیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اینگس کے گھر پر تھا۔ پہلے تو اس نے گھر کے باہر احاطے میں احتیاط سے دیکھا کہ کہیں اس نے کتے تو نہیں رکھے، لیکن وہاں کوئی کتا نہیں تھا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور آگے بڑھ کر دروازے کا ہینڈل گمھایا۔ اسے خوش گوار حیرت ہوئی کہ اینگس نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔ ’’مزا آئے گا۔‘‘ شیطانی مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھیلنے لگی تھی۔

    دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہو گیا۔ اسی وقت بہت ساری بلیاں اس کی طرف دوڑ پڑیں اور اس پر غرانے لگیں۔ اینگس کو کتے پالنے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن بلیاں انھوں نے بہت ساری اور بہت شوق سے پالی تھیں۔ گھر میں ہر طرف بلیاں ہی بلیاں نظر آیا کرتی تھیں۔ یہ بلیاں ایک اجنبی کی آمد پر بہت غصے میں دکھائی دے رہی تھیں۔ ڈریٹن نے دروازہ کھلا چھوڑا اور ایک بلی کو غصے سے لات مار کر باہر پھینک دیا اور چلایا: ’’دفع ہو جاؤ منحوس بلیوں!‘‘ جو بلی اس کے قریب آتی وہ اسے لات مار کر باہر پھینکنے لگا۔ کئی ایک بلیاں جو اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر رہی تھیں، ڈریٹن نے انھیں دم سے پکڑ کر دور اچھال دیا اور آخر میں دروازہ بند کر دیا۔

    کچھ دیر تک گھر کی تلاشی لینے کے بعد اس نے قریب سے گاڑی کے گزرنے کی آواز سنی تو اس نے محسوس کیا کہ یہ وقت درست نہیں ہے، رات کا اندھیرا بہتر ہوگا۔ اس لیے وہ پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔ درختوں کے جھنڈ میں آگے بڑھتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ قلعہ آذر کو کیسے اور کہاں ڈھونڈے۔ چلتے چلتے وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ ایک موڑ پر اسے ایک بورڈ نصب نظر آ گیا، جس پر لکھا تھا: ’’قلعہ آذر اس طرف۔‘‘ وہ اس طرف چلتا چلا گیا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا۔ آخر کار جھیل کے کنارے پہنچ کر رک گیا، ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑبڑایا: ’’تو قلعہ ایک جزیرے پر ہے، اب وہاں تک کیسے پہنچوں؟‘‘

    کچھ دیر تک جب اسے کوئی ذریعہ نظر نہیں آیا تو اس کے سر میں غصے کا غبار بھر گیا۔ اور پھر اس کی نگاہ جبران کے پاپا والی کشتی پر پڑ ہی گئی۔ ڈریٹن اسے ایک اتفاق ہی سمجھا، لیکن اسے پتا نہیں تھا کہ یہاں جبران کے پاپا کی کشتی ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس نے کشتی کی رسی کھول دی اور اسے پانی میں دھکیل دیا، پھر چپو سنبھال کر کشتی کو جزیرے کی جانب کھینے لگا۔ وہاں پہنچ کر جب اس نے کشتی کو ساحل پر ٹھہرایا تو قلعے سے بہت سار ہنس اڑ کر دور چلے گئے۔

    اس نے ایک نظر میں قلعے کا جائزہ لیا اور دل ہی دل میں کہا کہ یہ تو قلعے کی طرح نہیں لگ رہا ہے۔ وہ اطمینان سے چلتا ہوا بے خوفی سے قلعے میں داخل ہو گیا، اور تمام کمروں میں گھوما پھرا۔ اسے جادوئی گولے اور کتاب کی تلاش تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اسے کہاں چھپایا گیا ہوگا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس نے چمنی کے پیچھے چھپا ہوا کمرہ تلاش کر لیا۔ دراصل فیونا اور اس کے دوست دروازہ بند کرنا بھول گئے تھے۔ وہ یہ خفیہ دروازہ کھلا دیکھ کر خوش نہیں ہوا، بلکہ تشویش میں مبتلا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ ضرور یہ دروازہ اس سے پہلے ہی کوئی کھول چکا ہے۔ اندر میز بھی موجود تھی اور صندوق بھی۔ اس نے میز کے نیچے دیکھا، وہاں سونے کی تختی لگی تھی جیسا کہ اس کے پاس موجود کتاب میں ذکر تھا، پھر اس نے صندوق کھول کر دیکھا تو اس میں مکڑی کے جالوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس نے کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی نگاہیں کھڑکی کے منقش شیشے پر ٹھہر گئیں۔ شیشہ بالکل صاف تھا جیسے اسے کسی نے حال ہی میں صاف کیا ہو۔ اسے شیشے پر بادشاہ کیگان کی شبیہ نظر آ گئی۔

    ’’ تو تم ہو کنگ کیگان۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگا: ’’میرے پیش رو، لیکن مجھے اس پر ذرا بھی فخر نہیں ہے، تم بزدل ہو، تم اسی کے مستحق تھے کہ تمھارا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔ دیکھو کیگان، یہ رہا تمھارا نیکلس… میرے پاس!‘‘

    اس نے کھڑکی کے سامنے کھڑے کھڑے سینہ تان لیا اور بلند آواز میں بولنے لگا: ’’تمھیں پتا ہے میرے پردادا دوگان نے تمھاری بیٹی ازابیلا سے زبردستی شادی کر لی تھی۔ ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا، کیا تمھیں پتا ہے؟‘‘ وہ ہنسنے لگا: ’’نہیں، بھلا تمھیں کیسے پتا چل سکتا ہے، تم تو کب کے کیڑوں کی خوراک بن چکے ہوگے۔‘‘

    اچانک اسے اپنے قدموں کے پاس کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی۔ اس نے جلدی سے پیروں کی طرف دیکھا، اور اسے ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہڑ دوڑتی محسوس ہوئی۔

    (جاری ہے)

  • انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    انتالیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    اتوار کی صبح جب آسمان پر بادل پھیلے ہوئے تھے اور درمیان میں کہیں کہیں سے سورج کی کرنیں گیل ٹے پر پڑ رہی تھیں، افق پر نقرئی شعلے بھڑک رہے تھے، ایسے میں ایڈن برگ سے نکلی ہوئی ریل گاڑی گیل ٹے کے اسٹیشن پر رک گئی۔ اس وقت جزائر آرکنے سے ایک رات کی مسافت طے کرنے والی بطخیں لوچ جھیل پر اتری تھیں۔

    ڈریٹن نے جب ریل گاڑی کی وسل سنی تو ایک کنڈکٹر نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی رکنے والے ہیں۔ اس وقت اس نے بڑبڑا کر کہا تھا: ’’اف اتنا طویل اور بے زار کن سفر تو میں نے زندگی بھر نہیں کیا تھا۔‘‘

    کارن وال میں بورڈنگ کے بعد اسے لندن میں وکٹوریہ اور پھر ایڈن برگ ہی میں ویورلے اسٹیشن پر ایک ہی رات میں ریل گاڑیاں تبدیل کرنی پڑی تھیں۔ وہ سوٹ کیس اور بیگ اٹھا کر اپنے گلے میں نیکلس کی موجودی کو یقینی بناتے ہوئے ریل گاڑی سے اترا۔ اس نے خود کو ایک جوہڑ میں پایا جو رات کی تیز بارش سے بن گیا تھا۔

    وہ نفرت سے بڑبڑایا: ’’غلیظ جگہ اور یہ منحوس سردی!‘‘ اس نے جلدی سے کوٹ کے بٹن بند کر دیے اور بڑبڑانے لگا کہ یہ تو کارن وال سے بھی بدتر جگہ ہے۔ اس کے قریب ہی اسٹیشن کا کنڈکٹر گارڈن بروس ایک شخص سے کہہ رہا تھا: ’’یہ ہے آپ کی ٹرین، یہ کریان لارچ جا رہی ہے، آپ کب واپس آئیں گے اینگس؟‘‘

    ’’میں کل دوپہر تک لوٹوں گا۔ میرا یہ دورہ مختصر ہے۔ بس ضرورت کے مطابق ہی کچھ تجارت کروں گا۔‘‘ اینگس نے ریل گاڑی میں چڑھتے وقت کہا۔ ریل گاڑی چل پڑی۔ ڈریٹن اسے جاتے دیکھتا رہا۔ اس نے کنڈکٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا، شاید وہ اس کے چہرے کے تاثرات کو سمجھ کر اس کی طرف آیا تھا۔ ڈریٹن کا حلیہ بھی عجیب تھا، اس کے کانوں میں کئی سارے چھلے لٹک رہے تھے۔ ’’کیا میں آپ کی کچھ مدد کر سکتا ہوں جناب؟‘‘

    ڈریٹن نے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اس وقت اس کا دماغ تیزی سے کچھ سوچنے لگا تھا۔ ’’میں ڈریٹن اسٹیلے ہوں۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا: ’’دراصل میں ایک کتاب لکھنے یہاں آیا ہوں، اور کسی ایسی جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں مجھے تنہائی اور سکون میسر آئے۔ میری بدقسمتی ہے کہ اینگس نکل گئے، ہم بہت پرانے دوست ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے اینگس کے بارے میں سراسر جھوٹ بولا تھا، اور اس چالاکی پر وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا، اس نے پوچھا: ’’کیا اینگس اب بھی قصبے میں رہتا ہے؟‘‘

    کنڈکٹر نے جواب دیا: ’’وہ اسی گھر میں رہ رہا ہے جس میں اس نے اپنی زیادہ تر جوانی گزاری ہے۔‘‘

    ’’کیا اس نے شادی کی ہے؟‘‘ ڈریٹن نے بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا اور چہرے پر مسکراہٹ طاری کر دی لیکن کنڈکٹر کے چہرے پر سنجیدگی اسی طرح طاری رہی۔ ’’نہیں، اینگس نے کبھی شادی نہیں۔ نہ مجھے اس سے کوئی توقع ہے۔ آپ کہاں ٹھہریں گے؟‘‘

    ’’مجھے ایسی جگہ کی ضرورت ہے جہاں میں ناشتہ بھی کر سکوں اور آرام کے لیے ایک بستر بھی مل سکے۔ کیا یہاں قریب میں کوئی بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہے؟‘‘

    ’’ابھی تو بہت سویرا ہے اور آج اتوار بھی ہے، لیکن اگر آپ مرکزی اسٹریٹ چلے جائیں تو آپ کو مک ڈوگل کا بیڈ اینڈ بریک فاسٹ دکھائی دے گا۔ دروازے پر دستک دے کر ایلسے سے کہنا کہ آپ کو کنڈکٹر گارڈن نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو جگہ دے دیں گی۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور چلا گیا۔

    ڈریٹن کو خدشہ تھا کہ کنڈکٹر اس کی موجودی کے بارے میں پتا کرنے بھی آسکتا ہے اس لیے وہ مک ڈوگل کے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ ہی آیا۔ اس نے اپنا سامان بستر پر رکھ دیا اور کمرے سے نکل کر ’’ڈونٹ ڈسٹرب‘‘ کی تختی دروازے پر لٹکا دی، اور پھر کچن کا رخ کر لیا۔ ایلسے نے ناک پر جمی عینک ذرا سی اوپر کی جانب کھسکا کر پوچھا: ’’کیا میں آپ کو ناشتے میں کچھ دوں؟‘‘

    ’’بہت اچھا خیال ہے، یعنی نیکی اور پوچھ پوچھ!‘‘ ڈریٹن نے دانت نکال کر حتی الامکان اپنے لہجے کو خوش گوار بناتے ہوئے کہا۔ ایلسے نے کہا: ’’دیگر مہمان کھانے کے کمرے میں بیٹھے ہیں، آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر سستا لیں۔ میں جلد ہی آپ کے لیے ناشتہ لے کر آتی ہوں، ویسے آپ کیا پسند کریں گے، چائے، کافی یا مالٹے کا جوس؟‘‘

    اس نے اپنی شخصیت کا اچھا تاثر پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو مالٹے کا جوس لے کر آئیں میرے لیے۔‘‘

    ’’بہت بہتر جناب اسٹیلے، آپ جا کر بیٹھ جائیں، میں بس آتی ہوں۔‘‘

    ڈریٹن کھانے کے کمرے میں داخل ہوا تو چونک اٹھا۔ وہاں سب ہی لوگ بوڑھے تھے اور ان کے ہمراہ ان کی بیویاں تھیں جن کے چہرے اسے رنجیدہ نظر آئے۔ اپنے درمیان ایک جوان کو دیکھ کر ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور گیل ٹے کی روایت کے مطابق ایک ایک کر کے سب اسے خوش آمدید کہنے لگے۔ ڈریٹن چوں کہ اپنی شخصیت کے بارے میں اچھا تاثر چھوڑنا چاہتا تھا اس لیے اس نے مجبوراً سب سے ہاتھ ملایا، تاہم جیسے ہی وہ کسی سے ہاتھ ملاتا فوراً ہی ہٹا دیتا۔ ذرا دیر بعد اس کے سامنے میز پر بھاری ناشتہ سج چکا تھا۔ اس نے بھنا گوشت، ساسیج، انڈا آملیٹ اور گندم کے توس کھائے اور آخر میں ایک گلاس مالٹے کا جوش بھی نوش کیا۔ پیٹ بھرنے کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ اب اس کے پیٹ میں مزید گنجائش نہیں رہی تو اس نے ایلسے کو دیکھ کر کہا: ’’ذرا سنیے ایلسے! کیا میں آپ کو اس طرح پکار سکتا ہوں؟‘‘

    اس نے جواب میں خاموشی سے سر ہلا کر اجازت دی۔ ڈریٹن نے کہا: ’’دراصل میں اپنے پرانے دوست اینگس کے ہاں جانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ایلسے نے کہا: ’’کیا آپ اینگس مک ایلسٹر کی بات کر رہے ہیں، لیکن وہ تو آج صبح ہی کریان لارچ چلا گیا ہے، لیکن کل دوپہر تک آجائیں گے۔ کیا آپ یہاں رہیں گے یا نہیں؟‘‘

    ڈریٹن نے کہا: ’’جی ہاں، میں یہیں رہوں گا۔ ویسے اب اس کا گھر کہاں ہے، کیا اسی پرانے گھر میں ہے وہ؟‘‘

    ایلسے نے جواب دیا: ’’وہ اسی پرانے گھر ہی میں رہ رہے ہیں، جو اینسٹر اسٹریٹ کے آخر میں ہے، نمبر 23۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    اڑتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’اُف جبران، ایسا مت کہو، مجھے نہیں لگتا کہ یہ برے لوگ ہیں۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’مم… میں وضاحت نہیں کر پا رہی ہوں لیکن مجھ لگتا ہے کہ یہ اس معاملے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’کس معاملے سے؟‘‘ جبران حیران ہو گیا۔

    ’’جادوئی گیند، قلعے اور قیمتی پتھروں کے معاملے سے، تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں؟‘‘

    ’’مجھے ایسا نہیں لگتا، ہاں کوئی غیر معمولی بات ضرور محسوس ہوتی ہے۔‘‘ جبران نے کہا اور آنکھیں ملنے لگا۔ ’’آج تو میں بہت تھک گیا ہوں۔ سارا دن کام میں لگا رہا۔ میں پاپا اور مہمانوں کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے چلا گیا تھا۔‘‘

    ’’واہ، تو تم نے آج خوب تفریح کی۔‘‘ فیونا نے ہنس کر کہا۔ اچانک مائری کی آواز آئی: ’’فیونا کیا تم جانے کے لیے تیار ہو؟‘‘

    ’’اچھا میں جا رہی ہوں، ویسے تمھیں بتادوں کہ انکل اینگس کل صبح کریان لارچ جا رہے ہیں، تجارت کے سلسلے میں، وہ وہاں شو کریں گے۔‘‘

    ’’کیسا شو؟‘‘ جبران نے پوچھا۔ فیونا نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں گھوم پھر کر اپنی دست کاری کے فن پارے فروخت کرتے ہیں۔ ان کی واپسی پیر کے دوپہر کو ہوگی۔ اور جب تک وہ واپس نہیں آئیں گے تب تک وہ کسی اور مہم پر بھی نہیں جائیں گے۔

    ’’ٹھیک ہے میں بھی اطمینان سے سو جاتا ہوں۔‘‘ جبران نے جماہی لی۔

    مائری اور فیونا رخصت ہو گئیں۔ جونی اور جمی بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ جونی نے چلتے چلتے کہا یہاں اندھیرا کچھ جلدی نہیں اترا ہے! مائری نے آسمان کی طرف دیکھ کر جواب دیا، جہاں اندھیرے نے پر پھیلا دیے تھے: ’’یہ خزاں کا موسم ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ کے ہائی لینڈز میں ہیں۔‘‘

    اچانک فیونا نے جونی کو مخاطب کیا: ’’آپ کیوں ٹی وی دیکھنا نہیں چاہتے؟ جبران نے بتایا تھا کہ آپ نے اس سے پہلے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا!‘‘

    ایک بار پھر دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھا۔ پھر جونی نے جواب دیا: ’’دراصل ہمارے والدین نے ہمیں بچپن ہی سے سکھا دیا تھا کہ وقت کا بہترین استعمال یہی ہے کہ ہم کتابیں پڑھیں یا کہانیاں لکھیں، یا پھر دور دراز مقامات کی سیر کیا کریں۔ اس لیے ہم نے کبھی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، نہ ہمیں اس کا کوئی شوق ہے۔‘‘

    ’’اوہ، پھر تو ٹھیک ہے۔‘‘ فیونا دل چسپی سے بولی۔ ’’مجھے بھی مطالعہ اور کہانیاں لکھنا پسند ہے۔ تو آپ لوگ کماتے کیسے ہیں؟‘‘ اس سے پہلے کہ جونی جواب میں کچھ کہتا، اس کی ممی مائری نے فوراً مداخلت کر کے فیونا کو ٹوک دیا: ’’ایسی باتیں مت پوچھو، ان باتوں سے تمھارا کیا لینا دینا۔‘‘ لیکن جونی نے جواب میں کہا کہ یہ درست ہے کہ جمی زیادہ تر وقت سیر سپاٹے میں گزارتا ہے اور میں لکھنے میں۔ فیونا نے پوچھا کہ کیا وہ کوئی کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔

    جونی نے جواب دیا: ’’ہاں بہت پہلے ایک کتاب لکھی تھی میں نے۔‘‘

    فیونا نے اس کے بعد کوئی اور سوال نہیں کیا، اس لیے باقی کا راستہ خاموشی سے طے ہوا۔ گھر کے دروازے پر پہنچ کر مائری نے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا تو جمی نے چونک کر کہا: ’’آپ نے دروازے کو تالا نہیں لگایا تھا؟‘‘

    ’’نہیں… ہمیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔ گیل ٹے بہت پُر امن جگہ ہے، یہاں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘ مائری نے پورے یقین کے ساتھ جواب دیا۔

    ’’لیکن ممی ہمیں دروازے کو تالا لگانا چاہیے، کیوں کہ ان دنوں یہاں باہر سے اجنبی سیاح آتے ہیں۔‘‘ فیونا بولی اور پھر جلدی سے جونی کی طرف مڑ کر معذرت کرنے لگی۔ ’’آپ برا نہ منائیں، میرا مطلب اجنبی سیاحوں سے ہے۔‘‘

    ’’تم درست کہہ رہی ہو فیونا، یہ اچھا آئیڈیا ہے، اب کے بعد دروازے کو ضرور تالا لگایا کریں مائری۔‘‘ جونی نے بھی کہا اور مڑ کر بولا: ’’مجھے امید ہے کہ جلد دوبارہ ملاقات ہوگی۔‘‘

    دونوں جبران کے گھر کی طرف چل پڑے، اور مائری نے دروازہ بند کر لیا۔ فیونا اپنے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی: ’’ممی، جبران کے پاپا بلال صاحب کی فیملی کے بعد کیا یہ دونوں بھائی بھی ہمارے خاندان کے قریب آ رہے ہیں، کیا ہمیں ان کے ساتھ کوئی رشتہ قائم کرنا چاہیے؟‘‘

    ’’ابھی ہم ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘ مائری نے جواب دیا: ’’اب تم چلو، گڈ نائٹ!‘‘

    (جاری ہے….)

  • سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    سینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط یہاں پڑھی جاسکتی ہیں

    فیونا اور اس کی ممی چند گھنٹے بعد جبران کے گھر کی طرف جارہے تھے۔ ’’کتنی عجیب بات ہے، ہمارے درمیان اس سے قبل ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ چند ہی دن میں ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب آ گئے ہیں، کہ اب ان کے ہاں رات کے کھانے کی دعوت پر جا رہے ہیں۔‘‘ مائری نے چلتے چلتے کہا۔

    ’’کیا اس میں ہماری دوستی کا کوئی کردار نہیں ہے؟‘‘ فیونا نے پوچھا۔

    ’’بہت اہم کردار ہے بیٹی۔ بچوں کی دوستی سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانوں میں پکی دوستی ہو جاتی ہے، اور بعض اوقات دوستی کا تعلق رشتہ داری میں بدل جاتا ہے۔‘‘

    ’’اب تو مسٹر تھامسن بھی ہمارے درمیان آ گئے ہیں۔‘‘ فیونا نے کن اکھیوں سے اپنی ممی کے چہرے کے تاثرات دیکھے۔ ’’ممی، کیا یہ سب عجیب سا نہیں لگتا آپ کو؟ ابھی چند دن پہلے تک ہم کتنی بوریت محسوس کرتے تھے اور اب کتنے پرجوش ہو گئے ہیں۔ کیا ہماری زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے؟‘‘

    چلتے چلتے مائری ایک دم رک گئیں۔ انھوں نے گھوم کر فیونا کو حیرت اور خوشی سے دیکھا اور کہا: ’’مجھے حیرت ہے تم ایسی باتیں کر رہی ہو، کل تک تم یہاں سے بور ہو گئی تھی۔ خیر میں بتاؤں کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ تمھیں اپنے دماغ پر زیادہ زور نہیں دینا چاہیے۔‘‘

    کچھ دیر بعد وہ جبران کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے لیے دروازہ جبران ہی نے کھولا اور انھیں مہمان خانے لے گیا۔ وہاں تھامسن اور اس کا بھائی پہلے سے موجود تھے۔ دونوں ان کے استقبال کے لیے اٹھ گئے اور پھر چاروں صوفوں پر بیٹھ گئے۔

    ’’ہم دوسری مرتبہ مل رہے ہیں مائری مک ایلسٹر، یہ آپ کی بیٹی فیونا ہے نا؟‘‘ جونی تھامسن نے بیٹھتے ہی مسکرا کر کہا۔

    ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کا تعلق اینور ڈروچٹ سے ہے، یہ ایک پیارا گاؤں ہے۔‘‘ تھامسن نے اپنے بھائی جمی کو کن اکھیوں سے دیکھا۔ مائری نے کہا: ’’میں نے بھی آپ کے بارے میں سنا ہے مسٹر تھامسن، یہ کہ آپ کا تعلق لندن سے ہے۔‘‘

    ’’پلیز آپ مجھے یہ مسٹر تھامسن بلانا چھوڑ دیں، میرا نام جون ہے لیکن آپ مجھے جونی پکار سکتی ہیں۔ یہ میرا بھائی جیمز ہے، اسے جمی کہلوانا پسند ہے۔‘‘ جونی تھامسن بولا۔ ’’ویسے ہم لندن سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

    ایسے میں جبران کے پاپا بلال کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ وہ آتش دان کے قریب بیٹھے سگار سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سب مڑ کر ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ’’لیکن آپ کا لہجہ تو لندن والوں جیسا ہرگز نہیں ہے، آپ کے لہجے سے لگتا ہے کہ آپ یورپی ہیں۔‘‘

    جمی نے کھانس کر تھوک نگلا۔ جونی نے جواب میں کہا: ’’دراصل ہماری ماں اسکاٹ لینڈ کی تھیں، اور باپ کا تعلق مشرق وسطیٰ سے تھا، ویسے ہم دونوں لندن ہی کے ہیں۔‘‘

    بلال نے مطمئن ہو کر اثبات میں سر ہلایا اور سگار کا دھواں اڑانے لگے۔ اسی وقت شاہانہ نے آ کر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔ سب اٹھ کر بلال کی رہنمائی میں کھانے کے کمرے کی طرف چلے۔ سب ایک بڑی سی میز کے گرد کرسیوں پر بیٹھ گئے تو شاہانہ کھانے کے ساتھ آ گئیں۔ اگلے لمحے گلابی لکیروں والا میز پوش سلور کی پلیٹوں سے چھپ گیا۔ میز پر انواع و اقسام کے کھانے چُنے گئے۔

    ’’ارے اتنا سب کچھ، یہ تو کسی بادشاہ کی فوج کے لیے بھی کافی رہے گا۔‘‘ بلال کے چہرے پر واقعی حیرت تھی، کیوں کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ کھانے کے لیے کیا انتظام کیا گیا ہے۔ عین اسی لمحے فیونا کی نظر جونی کی طرف اٹھ گئی۔ وہ اپنے بھائی جمی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ دونوں بھائی کر کیا رہے ہیں، یہ تو واقعی عجیب طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں۔ یعنی جبران نے درست کہا تھا۔

    ’’دراصل آپ میز پر جو اتنے سارے کھانے دیکھ رہے ہیں ان میں اکثر مائری کے لائے ہوئے ہیں۔ وہ آج اپنے باغیچے سے تازہ سبزیاں لائی تھیں۔ مہمان خانے میں جس گل دان میں آپ رنگ رنگ کے پھول دیکھ کر آئے ہیں، وہ بھی مائری لائی ہیں۔ ایسے پھول آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔‘‘ شاہانہ نے راز سے پردہ اٹھایا۔

    کھانا کھانے کے بعد فیونا، جبران اور دانیال دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ فیونا بولی: ’’جبران تم نے نوٹ کیا کہ وہ دونوں بھائی آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے رہے۔ جمی نے ایسا ظاہر کیا جیسے اس کے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہو لیکن میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کو اشارے کر رہے تھے۔‘‘

    ’’تو کیا یہ دونوں قاتل اور کسی جیل سے بھاگے قیدی ہیں، اور رات کو جب ہم سو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل کر دیں گے؟‘‘ جبران کی آنکھوں میں تشویش کے سائے تیرنے لگے۔

    (جاری ہے…)

  • چھتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    فیونا، جبران اور دانیال اینگس کے گھر سے نکل کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چل پڑے۔

    ’’پتا نہیں اس وقت میری ممی کہاں ہوں گی؟ شاید بیکری میں کام کر رہی ہوں گی۔ میں اس طرح کرتی ہوں کہ پہلے بیکری جا کر دیکھتی ہوں، کیا تم دونوں میرے ساتھ جاؤ گے؟‘‘ فیونا نے دونوں سے پوچھا۔

    ’’بہتر ہوگا کہ ہم اپنے گھر کو جائیں۔ ٹھیک ہے کہ یہاں اسکاٹ لینڈ میں صرف چند ہی منٹ کا وقت گزرا ہے لیکن میرا بدن تھکن سے چور ہے۔ میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جبران نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’اس کے بعد میں ڈائری بھی لکھوں گا۔‘‘

    ’’میں ڈرائینگ میں ماہر ہوں۔ میں تو ان چیزوں کی تصاویر بناؤں گا جو آج ہم نے دیکھی ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔

    ’’پاپا کو شاید مسٹر تھامسن کے سلسلے میں میری مدد کی ضرورت پڑے۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’پتا ہے فیونا، تھامسن عجیب قسم کا آدمی ہے۔ انھیں یہ تک نہیں پتا کہ ٹیبلٹ کیا ہوتی ہے۔ اور تو اور، انھیں یارکشائر پڈنگ کے متعلق بھی کچھ پتا نہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انگریز کو یارکشائر پڈنگ کا پتا نہ ہو!‘‘

    ’’یہ تو بڑی احمقانہ سی بات ہے جبران۔‘‘ فیونا حیران ہو گئی۔

    ’’اچھا پھر ملیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور دانیال کے ہمراہ اپنے گھر کے راستے پر مڑ گیا۔ فیونا سیدھی بیکری جا پہنچی جہاں اس کی ممی پارٹ ٹائم ملازمت کرتی تھیں۔ وہ بیکری کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ اندر ایک ہی شخص تھا۔ فیونا نے پوچھا: ’’ہیلو جناب میکنزی، کیا آج ممی کام کر ہی ہیں؟‘‘

    ’’ہاں، امید ہے کہ وہ جلد ہی آ جائیں گی۔ آج ایک یا دو گھنٹوں کے لیے مجھے ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ انھوں نے جواب دیا اور شیشے کے کیس سے ایک تھال نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ ’’کیا تم اس کا ذائقہ چکھ کر بتاؤ گی؟‘‘

    فیونا نے تھال میں پڑی پیسٹری کو حیرت سے دیکھ کر پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟ میں نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’یہ میں نے پہلی مرتبہ بنائی ہے، اسے بکلاوا کہتے ہیں اور یہ یونانی پیسٹری ہے۔‘‘ میکنزی نے جواب دیا۔ ’’دراصل یہ جدید ترکی کے حوالے سے بھی جانی جاتی ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدیم فارس میں اس کا آغاز ہوا تھا، لیکن یونان میں بکلاوا کی بے تحاشا اقسام پائی جاتی ہیں۔‘‘

    یونان کا ذکر سن کر فیونا چونک اٹھی۔ دل میں کہا کہ یونان کی ہے تو پھر تو ضرور کھاؤں گی، کیوں کہ وہ ابھی ابھی تو یونان سے لوٹی تھی۔ اس نے ایک پیسٹری اٹھا کر کھائی اور بے اختیار بولی: ’’واہ مزے دار ہے، یہ دودھ کے سموسے سے کہیں زیادہ اچھی ہے۔‘‘

    ’’یہ دودھ کا سموسہ کیا چیز ہے بھلا؟‘‘ میکنزی کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ فیونا ہنس پڑی۔ ’’اسے مِلک پائی کہتے ہیں اور یہ بھی یونانی ہے۔‘‘

    ’’اوہ … تم تو یونانی ڈشز کے بارے میں بھی جانتی ہو۔ ویسے یہ پیسٹری شہد، فائلو پیسٹری شیٹ، مکھن اور خشک میوؤں سے تیار ہوتی ہے۔ احتیاط کرنا اگر تم اسے زیادہ کھاؤ گی تو تمھارا وزن بڑھ جائے گا۔‘‘ اس نے فیونا کو دوسری پیسٹری کی طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر خبردار کیا۔

    ’’اوہ شکریہ میکنزی صاحب، تو میں چلتی ہوں اور گھر ہی پر ممی کا انتظار کرتی ہوں، اور مجھے ابھی ابھی یاد آیا ہے کہ انھیں بلال صاحب کے ہاں جانا تھا۔‘‘

    فیونا گھر آ کر ٹی وی دیکھنے لگی۔ وہ ٹی وی دیکھنے میں اتنی منہمک تھی کہ اسے ممی کے اندر آنے کا بھی پتا نہ چلا۔ وہ اس کے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔ ’’انکل اینگس کے گھر کا دورہ کیسا رہا؟ تم تو بہت جلد آ گئی ہو۔‘‘

    فیونا ممی کی آواز سن کر چونک اٹھی، پھر مسکرا کر بتانے لگی کہ انکل کے گھر کا دورہ دل چسپ رہا۔ ممی نے صوفے سے اٹھ کر چغہ اتارا اور ایک کرسی کی پشت پر ڈال دیا۔ ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ اینگس کو آج صبح ایک یا دو دنوں کے لیے کریان لارک جانا تھا، کیا انھوں نے اس کا ذکر کیا؟‘‘

    ’’نہیں تو … کب واپس آئیں گے وہ؟‘‘ فیونا نے کندھے اچکائے۔

    ’’غالباً پیر کی صبح، لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ انھوں نے اس کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ دراصل وہ اپنے بنائے ہوئے مجسموں کی نمائش کرائیں گے وہاں۔ یہ بات ضرور ان کے ذہن سے نکل گئی ہوگی۔‘‘

    ’’ان کے دماغ سے بہت ساری باتیں نکل جاتی ہیں۔ خیر آپ جبران کے گھر گئی تھیں تو اس کی ممی کو سبزیاں پسند آئیں، اور تھامسن سے ملاقات ہوئی؟‘‘

    ’’شاہانہ کو میری ساری چیزیں بہت پسند آئیں۔ پتا ہے انھوں نے مجھے اور تمھیں آج رات کھانے پر بلایا ہے۔‘‘

    ’’کیا واقعی؟‘‘ فیونا پُر جوش ہو گئی۔

    ’’ہاں بالکل۔ اور تمھارے لیے ایک خبر یہ بھی ہے کہ وہاں تھامسن اور ان کا ایک بھائی جیمز بھی ہوں گے، وہ بھی یہاں پہنچ گئے ہیں۔‘‘

    فیونا نے کہا: ’’جبران کہہ رہا تھا کہ تھامسن ایک عجیب آدمی ہے، انھوں نے یارکشائر پڈنگ تک نہیں سنا۔‘‘

    ’’مجھے نہیں پتا، میں ابھی ان کے متعلق اتنا نہیں جانتی۔ ویسے میں اپنے ساتھ فروٹ چاٹ لے کر جاؤں گی۔ اب میں چلتی ہوں، ایک یا دو گھنٹے کام کروں گی۔ کچھ چیزیں خریدوں گی اور پھر تقریباً شام چھ بجے تک پہنچ جاؤں گی، اس لیے تم تیار رہنا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے ممی، لیکن بکلاوا بھی ضرور لے لینا۔ جبران اسے پسند کرے گا۔ یہ یونانی پیسٹری ہے۔ مجھے یقین ہے اس کا ذائقہ آپ کو بھی پسند آئے گا۔‘‘

    (جاری ہے)

  • پینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    اسٹور روم میں ڈریٹن تمام صندوقوں کو چھان مار رہا تھا۔ ایک صندوق سے پرانے کپڑے باہر پھینکتے ہوئے اس نے چیخ کر کہا: ’’اُف یہ کیا گندگی ہے، پتا نہیں کیسی عورت ہے یہ۔ اب یہ کپڑے یہاں رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس نے خالی صندوق کمرے کے ایک طرف پھینک دیے۔ وہ جس چیز کی تلاش میں تھا، اسے ڈھونڈنے میں ناکامی پر اس کا غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا تھا۔ بالآخر اسے ایک پرانے پیانو کے پیچھے گتے کا ایک ڈبا نظر آ گیا جس میں کتابیں اور کاغذات پڑے تھے۔

    ’’آخرکار یہ میرے ہاتھ لگ ہی گیا۔‘‘ اس نے خوش ہو کر کہا۔ کمرے میں ساری چیزیں اسی طرح بکھری ہوئی چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میز کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہی اس نے ایک قدیم کتاب نکال لی۔ اپنا ایک بازو جھاڑو کی طرح میز پر پھیر کر اس نے تمام اشیا فرش پر گرا دیں اور کتاب میز پر رکھ کر پہلا صفحہ کھولا، اور پھر بلند آواز سے پڑھنے لگا: ’’کنگ دوگان کی تاریخ: تصنیف ٹالون ہارمڈن۔‘‘

    اس کے بعد تین گھنٹوں پر ڈریٹن محو ہو کر یہ کتاب پڑھتا چلا گیا۔ جس میں لکھا تھا کہ کنگ دوگان نے بادشاہ کیگان کی دو بیٹیاں شہزادی ازابیلا اور شہزادی آنا کو اغوا کیا۔ دوگان نے ازابیلا سے زبردستی شادی کی، ان کے ہاں ہیگر نامی بیٹا پیدا ہوا۔ دوگان نے ان دونوں بہنوں کو اپنی سلطنت سے دور رکھا اور بیٹا اپنے پاس رکھ لیا۔ ازابیلا نے قسم کھائی کہ وہ ایک دن بچہ چھیننے کا انتقام ضرور لے گی۔ ہیگر ایک ایسا بچہ تھا جس کا تعلق دوگان اور کیگان دونوں سلطنتوں سے تھا۔ جب دوگان مر گیا تو اس نے وہ بارہ ہیروں والا نیکلس پہن لیا جسے کیگان کی سلطنت سے چرا کر لایا گیا تھا۔ ہیگر دوگان کا ایک ہی بچہ تھا، اس لیے وہ ہی تخت کا وارث ٹھہرا۔ ازابیلا اور آنا بعد میں اپنے والد کی سلطنت لوٹ گئی تھیں لیکن وہ دنیا میں نہیں رہا تھا۔

    ڈریٹن پڑھتے پڑھتے پُر جوش ہو گیا تھا۔ ’’ڈیڈ نے بھی کیسی کیسی چیزیں چھپا کر رکھی ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔ پھر اس نے صفحہ پلتا اور آگے پڑھنے لگا: ’’ہیگر اور اس کی آنے والی نسلوں نے ملک زناد پر تین صدیوں تک حکومت کی اور پھر اس خاندان میں لڑکوں کی پیدائش رک گئی۔ چناں چہ تخت کی وراثت بیٹیوں اور ان کی بیٹیوں کو منتقل ہو گئی۔‘‘

    کتاب کا آخری صفحہ پڑھنے کے بعد ڈریٹن نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی اور گہری سانس لی۔ ’’تو میں بادشاہ دوگان اور شہزادی ازابیلا کا وارث ہوں۔‘‘ اس نے کتاب بند کر دی اور اپنی ماں کے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے الماری کھولی اور ماں کی چیزیں باہر پھینک کر ان کا سوٹ کیس نکال لیا۔ سوٹ کیس خالی تھا لیکن تھا بہت بھاری۔ وہ سوٹ کیس اپنے کمرے میں لے گیا اور جو چیزیں اس نے اپنے لیے کارآمد سمجھیں، اٹھا کر سوٹ کیس میں ٹھونس دیں۔ پھر گلے میں نیکلس ڈال کر سیڑھیاں اترنے لگا۔

    ’’کہاں جا رہے ہو ڈریٹن؟‘‘ ماں کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس نے مڑ کر آگ بگولا ہو کر کہا: ’’چپ رہو تم، میں یہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ تم آئندہ میری شکل نہیں دیکھ سکو گی۔‘‘

    ’’تمھیں صندوق میں کیا ملا؟‘‘ پینی لوپ نے بیٹے کی سخت بات بھی نظر انداز کر کے پوچھ لیا، وہ یہ پوچھنے سے خود کو نہ روک سکی تھیں۔

    ’’مجھے پتا چلا ہے کہ میں بادشاہوں کی اولاد ہوں۔ میرا ڈیڈ بھی بادشاہوں کی اولاد تھا لیکن تم نہیں۔ میں اپنے آبا و اجداد کے خزانے کا مستحق ہوں، اس لیے اسکاٹ لینڈ جا رہا ہوں، تم بھی وہاں کی ہو نا … کیا نام ہے اس گھٹیا سی جگہ کا نام جہاں تم پیدا ہوئی؟‘‘

    ’’گیل ٹے۔ میری ایک بہن بھی وہاں رہتی ہے۔‘‘ پینی لوپ نے جواب دیا۔

    ’’گیل ٹے تو ہائی لینڈز ہی میں کہیں ہے نا؟‘‘ ڈریٹن نے پوچھا، جس پر پینی لوپ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ڈریٹن نے ان کی بہن کے بارے میں بھی بدتمیزی شروع کر دی: ’’مجھے تمھاری اس موٹی بدشکل بہن سے کوئی دل چسپی نہیں ہے، میں بس خزانے کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور نکل گیا۔ پینی لوپ نے اس کی موٹر سائیکل کی آواز سنی اور دکھ سے سوچا: ’’کیسا خزانہ!‘‘

    دوپہر کے وقت ریل گاڑی اسٹیشن سے نکلی۔ اگلی صبح کو اسے ایڈن برگ پہنچنا تھا۔ ڈریٹن نے اپنے سونے کا کیبن تلاش کر کے بیگ طاق میں پھینکا اور سوٹ کیس سے کتاب نکال کر دوگان کے شیطان جادوگر اور اس کی طاقتوں کے بارے میں پڑھنے لگا:

    ’’چوں کہ ہیگر کی رگوں میں دو خاندانوں کا خون دوڑ رہا تھا اس لیے اس کے پاس خصوصی طاقتیں تھیں۔ یہ شیطانی قوتیں بہت خطرناک تھیں۔ وہ اچھائی اور برائی دونوں کا جادو کر سکتا تھا۔‘‘

    ڈریٹن دل چسپی سے کتاب بلند آواز میں پڑھنے لگا۔ اس نے جادوئی گیند کے بارے میں بھی پڑھا۔ اس نے خود کلامی کی: ’’تو دوگان کی طاقتوں کے ساتھ ساتھ میں کیگان کے جادوئی گولے کی بارہ طاقتوں کا بھی حق دار ہوں۔‘‘

    اس کی آنکھوں میں سیاہی مائل شعلے چمک اٹھے۔ ’’جب میں اسے اپنے قبضے میں لے لوں گا اور منتر پڑھوں گا تو شیطان جادوگر پہلان کو ماضی کی تاریکیوں سے طلب کر سکوں گا، اور پھر اس سے یہ بھی سیکھ لوں گا کہ ان طاقتوں کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے جادوئی گولا اور بارہ قیمتی پتھر حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور اسے پانے کی صرف ایک جگہ ہے … گیل ٹے … اسکاٹ لینڈ میں واقع قلعہ آذر! واہ کتنی دل چسپ بات ہے۔ میری ماں بھی اسی گاؤں کی ہے جہاں قلعہ واقع ہے۔ مجھے توقع ہے کہ مجھ سے پہلے اسے کسی اور نے نہیں پایا ہوگا۔‘‘

    اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔ ’’سب سے پہلے تو میں اپنی پیاری ماں کو مینڈک بنا کر اسے مگرمچھوں کے تالاب میں پھینک دوں گا، کیوں کہ وہ ایک بے کار شے ہے۔‘‘

    ڈریٹن تب تک مطالعہ کرتا رہا، جب تک نیند اس پر غالب نہیں آ گئی، اور وہ اس عالم میں سو گیا کہ ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرا ہاتھ سختی سے نیکلس پر جما ہوا تھا۔

    (جاری ہے…)

  • چونتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چونتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    کھڑکی کے بند شیشے پر بارش کے قطرے مسلسل اس طرح گر رہے تھے کہ اس پر بے ہنگم موسیقی کا شائبہ ہو رہا تھا۔ ڈریٹن اسٹیلی نے خاکی اور نیلے رنگ کا بھاری پردہ ہٹا کر منظر دیکھا اور بڑبڑایا: ’’ٹرورو میں ایک اور تکلیف دہ دن۔‘‘

    اس نے شیشے سے جھانکتے ہوئے بادلوں کو دیکھنے کی کوشش کی اور پھر بڑبڑایا: ’’کتنی پریشان کن جگہ ہے یہ، نہیں اب تو میں یہاں بالکل نہیں ٹھہرنے والا۔‘‘

    وہ اس وقت برطانیہ کی کاؤنٹی کارن وال کے شہر ٹرورو میں اپنے گھر پر تھا۔ سیکڑوں ریتیلے ساحلوں والی یہ کاؤنٹی ایک جزیرے کی مانند ہے۔ ڈریٹن نے پردہ چھوڑ دیا اور باہر سے آنے والی روشنی کا راستہ رک گیا۔ اس نے شدید مایوسی کے عالم میں الماری کھولی اور موٹر سائیکل کی چابیاں ڈھونڈنے لگا۔ کمرے میں جو ہلکی سی روشنی پھیلی ہوئی تھی وہ میز پر رکھے برقی چراغ سے نکل رہی تھی۔ اس پر دھول کی ایک موٹی تہ جم چکی تھی۔ اس نے دیوار گیر آئینے میں نظر آنے والے اپنے سراپے پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی۔ وہ انیس سال کا مضبوط قد کاٹھ کا نوجوان تھا۔ اس کے بال سیاہ اور لمبے تھے جن میں اس کے دونوں کان چھپے ہوئے تھے۔ اس کے کانوں میں دس دس چھلے پڑے ہوئے تھے، اور بازو پر ٹیٹو نقش تھے۔ وہ ایک کھوپڑی تھی جس کی آنکھ میں تیر گھسا ہوا تھا، جو دوسری طرف سے نکل گیا تھا اور اس جگہ سے کھوپڑی ٹوٹ رہی تھی۔اس نے جھلا کر اپنی گندی ٹی شرٹ پھاڑ کر فرش پر پھینک دی۔ وہاں گندے کپڑوں کا ایک ڈھیر جمع ہو گیا تھا، جو کئی ہفتے پرانا تھا۔

    ’’کیا مصیبت ہے یہاں!‘‘ وہ جھلا کر بڑبڑایا۔ اس کی موٹی گردن میں ایک نیکلس اچانک چمکنے لگا تھا، جس نے اس کی توجہ فوراً کھینچ لی تھی۔ اس نے نیکلس اتار کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ اس میں لگے ستارے کے نو کونوں میں سے ایک کونے سے سیاہی مائل بھورے رنگ کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ ’’پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا، یہ کیا ہونے لگا ہے یہاں۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے ایک دراز کھولا، اور محدب شیشہ نکال کر نیکلس کا جائزہ لینے لگا۔ ’’ہونہہ … سیاہ پتھر چمک اٹھا ہے۔‘‘

    اس نے محدب شیشہ ایک میز پر پھینک دیا اور اپنے بیڈروم کا دروازہ کھول کر ماں کے پاس آیا اور نہایت بدتمیزی کے ساتھ چیخا: ’’ڈیڈ نے مجھے یہ نیکلس دیا ہے، اس کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘

    اس کی ماں پینی لوپ میک ایلسٹر، ٹی وی روم میں کرسی پر بیٹھی پروگرام دیکھتے ہوئے چائے کی چسکیاں لے رہی تھیں۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی آواز ان سنی کر دی۔ وہ آگے بڑھ کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

    ’’کیا تم بہری ہو، میں کیا پوچھ رہا ہوں۔ اس نیکلس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے بدتمیزی کی انتہا کر دی۔

    پینی لوپ جس طرح اپنے شوہر سے ڈرتی تھیں، اسی طرح بیٹے سے بھی خوف زدہ رہتی تھیں۔ انھوں نے ڈریٹن کے ساتھ آنکھیں نہیں ملائیں اور سر نفی میں ہلا دیا۔

    ’’اسے دیکھو، تم اس کے متعلق کیا جانتی ہو؟‘‘ ڈریٹن نے اس کی آنکھوں کے سامنے نیکلس لہرایا۔

    پینی لوپ نے بدستور نظریں چراتے ہوئے کہا: ’’اچھا یہ … یہ بہت پرانا ہے۔ میں نے جب سے تمھارے باپ سے شادی کی ہے، اسے ہر وقت ان کے گلے میں پہنے دیکھا۔ مجھے نہیں پتا کہ یہ کیا ہے یا اس کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ لیکن یہ تو بہت عجیب انداز میں چمک رہا ہے۔ میں نے پہلے اسے اس طرح چمکتے نہیں دیکھا۔‘‘

    ’’تو تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ ڈیڈ نے تمھیں اس نیکلس کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا … ٹھیک ہے، تم اس طرح نہیں بتاؤ گی۔‘‘ ڈریٹن کا لہجہ آخر میں خوف ناک ہو گیا۔ پینی لوپ نے اسے ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو جلدی سے سمٹ کر چہرہ چھپا لیا اور گڑگڑا کر کہا: ’’مجھے مت مارو ڈریٹن! انھوں نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ مجھے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتاتے۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم محسوس نہیں کرتے۔ ہاں، چھت پر اسٹور روم میں ایک صندوق ہے، میرے خیال میں … ہو سکتا ہے کہ … !‘‘

    ’’بس بس … یہ کیا احمقانہ پن ہے۔ سیدھی طرح بات کیوں نہیں کر رہی ہو۔ چلو اب مجھے اطمینان کے ساتھ بتاؤ، یہ صندوق کا کیا چکر ہے؟‘‘

    وہ بتانے لگیں: ’’میرے خیال میں صندوق اسٹور روم میں پڑا ہے۔ تمھارے باپ شاردو اسٹیلی کے پاس بہت ساری قدیم کتابیں اور کاغذات تھے۔ ان کو اپنے خاندان کی تاریخ سے متعلق بہت زیادہ دل چسپی تھی۔ وہ اس کے متعلق روزانہ کئی گھنٹے مطالعہ کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ تمھارے کام کی نکل آئے۔‘‘

    ’’خاندانی تاریخ! ہونہہ … مجھے اس خاندان کے بارے میں مزید کچھ بھی معلوم کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ چھوڑو ہماری تاریخ کو۔ وہاں ضرور کچھ اور ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑا اور جاتے ہوئے میز پر دھری طشتری کو لات مارتے ہوئے گرا دیا۔ طشتری میں پینی لوپ کا کھانا سجا تھا، فرش پر چاروں طرف فرائی انڈا، چپس اور پھلیاں بکھر گئیں۔ پینی لوپ خوف زدہ ہو کر ہر طرف پھیلی گند کی حسرت سے دیکھنے لگیں۔ ڈریٹن نے سیڑھیوں پر رک کر دیکھا اور زہر خند لہجے میں بولا: ’’اب کیا سارا دن اسے گھورتی رہو گی یا اسے صاف بھی کرو گی بے وقوف عورت۔ تم میرے راستے میں اپنی چیزیں چھوڑو گی تو ایسا ہی ہوگا!‘‘

    پینی لوپ اس کے جانے کا انتظار کرنے لگی اور اس کے جاتے ہی وہ اٹھیں اور باورچی خانے سے ایک بالٹی میں صابن کی جھاگ والا پانی لے کر واپس آ گئیں، اور قالین کے داغ دھونے لگیں۔ اسے گھٹنوں کے جوڑوں میں درد محسوس ہونے لگا۔ بیٹھ کر کام کرنا ان کے لیے بہت مشکل ہوتا تھا کیوں کہ وہ کافی عرصے سے جوڑوں کے درد میں مبتلا تھیں۔ اس کے باوجود انھوں نے کبھی اپنے بیٹے کے سامنے اس کی شکایت نہیں کی۔ دوسری طرف ڈریٹن کے راستے میں جو بھی چیز آتی تھی، وہ اسے لات مار دیتا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہو رہا تھا۔ صندوق اور برتنوں کی آوازیں پورے گھر میں گونج رہی تھیں۔ اس نے چھت کی طرف منھ اٹھا کر کہا: ’’یہ لڑکا بھی بالکل اپنے باپ جیسا ہے، دونوں شیطانی دماغ والے۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • تینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تینتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ’’ہم آپ کے لیے یونانی سموسہ اور بادام کا کیک لے کر آئے ہیں۔ یونانی زبان میں ان کے نام طویل ہیں لیکن یہ بہت ذائقہ دار ہیں۔‘‘ جبران نے کہا۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ’’بہت بہت شکریہ۔‘‘ اینگس نے جبران کے ہاتھ سے سموسہ اور بادام کے کیک لے لیے۔ ’’اگر تم لوگوں کو برا نہ لگے تو میں یہ کسی اور وقت کے لیے رکھ دوں۔ کیوں کہ میں ابھی ابھی تین عدد چاکلیٹ بسکٹ کھا چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کچھ سوچنے لگے اور پھر ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہو گئی۔ ’’میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے۔ سمجھ لو کہ میں ایک تاریخ نویس ہوں، آلرائے کیتھ مور کی طرح۔ میں بھی اس کتاب میں ان دل چسپ واقعات اور مہمات کی کہانی لکھوں گا۔ میرے پاس خصوصی سیاہی ہے اور اس قدیم کتاب میں خالی صفحات بھی ہیں۔‘‘

    ’’اوہ یہ تو شان دار خیال ہے۔ اگر آپ کچھ بھول بھی جائیں تو ہم ساری کہانی دہرا بھی سکتے ہیں۔‘‘ جبران جلدی سے بولا۔ ’’ویسے میں یہ ساری کہانی اپنی ڈائری میں بھی لکھوں گا۔‘‘

    ایسے میں دانیال اپنی جیب پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ زبان کے مسئلے کی وجہ سے کافی دیر سے خاموش کھڑا تھا۔ یکایک اسے پتھر کا وہ ٹکڑا یاد آیا جو اس نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔ وہ جلدی سے بولا: ’’یہ دیکھیں انکل، یہ میں نے خانقاہ سے اٹھایا تھا۔‘‘

    جبران نے فوراً اس کی ترجمانی کی۔ اینگس نے اس کے ہاتھ سے ٹکڑا لیا۔ یہ ماربل کی اینٹ کا ہی ایک ٹکڑا تھا۔ فیونا نے وہ تصویریں اینگس کو دکھائیں جو انھوں نے ساحل پر گدھے پر بیٹھ کر کھینچی تھیں۔ یہ تصاویر دیکھ کر وہ سب ہنسنے لگے۔

    اینگس نے اٹھ کر الماری کے اوپر سے قدیم کتاب اٹھا کر میز پر رکھ دی۔ ’’میں اسے بعد میں لکھنا شروع کروں گا جب بالکل اکیلا ہوں گا، تاکہ بھرپور توجہ کے ساتھ سارے واقعات قلم بند کر سکوں۔‘‘

    (جاری ہے…)

  • بتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    بتیسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں

    ’’ارے انکل آپ ابھی تک ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ آپ سارا دن کرسی پر بیٹھے ہمارا راستہ تکتے رہے! ہم تو سوچ رہے تھے کہ رات ہو گئی ہوگی اور آپ سونے جا چکے ہوں گے۔‘‘ فیونا بولی۔

    ’’میرے والدین ہمارے لیے پریشان ہوں گے، ہم سارا دن غائب رہے ہیں۔‘‘ جبران کو بھی پریشانی نے گھیر لیا۔

    ’’یہ تم لوگ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اینگس نے حیران ہو کر کہا۔ ’’ابھی پانچ ہی منٹ تو گزرے ہیں، اور تم لوگ آ بھی گئے۔‘‘

    وہ تینوں یہ سن کر اچھل پڑے۔ ان کی آنکھیں حیرت کے مارے پھیل گئیں۔ ’’کیسے پانچ منٹ؟‘‘ جبران کے منھ سے نکلا۔ اسے ہرگز یقین نہیں آ رہا تھا۔

    ’’انکل ہمیں وہاں پورا دن گزرا ہے، حتیٰ کہ سورج غروب ہونے لگا تھا۔‘‘ دانیال نے کہا لیکن اینگس اس کی طرف نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگے۔ فیونا نے بھی اس کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ جبران چونک پڑا تھا کیوں کہ دانیال کی بات صرف وہی سمجھا تھا۔ وہ اردو میں بولا تھا۔ پھر اس نے جلدی سے دانیال کے جملے کا ترجمہ کیا، تب ان دونوں کی سمجھ میں آیا کہ جزیرے ہائیڈرا پر جب وہ ایک دوسرے کی زبان بہ آسانی سمجھ رہے تھے تو وہ دراصل جادو کی وجہ سے تھا۔

    ’’یہ ناممکن ہے انکل کہ یہاں گیل ٹے میں ابھی تک صبح ہو، ہمیں تو قیمتی پتھر کے حصول میں واقعی سارا دن گزرا ہے۔ ہمیں بچھوؤں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ عفریت ہائیڈرا اور نکولس سے چھپنا پڑا اور پھر وہ ڈریگن کی آمد….‘‘ فیونا حیرت سے اینگس کی طرف دیکھ کر بتانے لگی اور اینگس نے اطمینان سے چائے کی پیالی اٹھائی اور اس سے گھونٹ بھرا۔

    ’’دیکھو، میری تو چائے بھی ابھی تک گرم ہے۔ چند منٹ پہلے تم تینوں یہاں کھڑے تھے اور مجھے چائے بناتے دیکھ رہے تھے۔‘‘ اینگس پھر آرام کرسی پر بیٹھ گئے اور پھر کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔ ’’ٹھیک ہے تم لوگوں نے وہاں پورا دن گزارا ہوگا لیکن یہاں گیل ٹے میں صرف چند ہی منٹ گزرے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک تو جادو کا معاملہ ہے اور پھر قیمتی پتھروں کی زمین پر وقت بالکل مختلف ہے۔ خیر، تم مجھے بچھوؤں اور ہائیڈرا عفریت کا قصہ سناؤ، یہ کہ کیا واقعات پیش آئے وہاں۔‘‘

    ’’ہم ایک یونانی جزیرے پر پہنچے تھے….‘‘ جبران بتانے لگا۔ لیکن فیونا نے جلدی سے مداخلت کی اور کہا: ’’اور وہاں ساحل پر ہائیڈرا نامی قصبہ تھا جہاں سارے گھر سفید رنگ کے تھے اور جو پہاڑوں کے نیچے بنائے گئے تھے۔ ہم نے یونانی کھانے کھائے اور وہاں کرسٹوف نامی ایک بدمزاج بیرے سے سامنا ہوا۔‘‘

    ’’اور ہم نے ایک ڈریگن کو دیکھا۔ وہاں مائع ماربل کا عفریت تھا جس کے نو سانپوں والے سر تھے۔‘‘ جبران نے فوراً مداخلت کی۔

    ’’ٹھہرو… ٹھہرو…‘‘ اینگس نے جلدی سے انھیں روکا۔ ’’فیونا تم تفصیل کے ساتھ بتاؤ اور تم جبران آخر میں اگر کوئی اضافہ کرنا چاہتے ہو تو ضرور کرنا۔‘‘

    تینوں کرسیوں پر بیٹھے گئے۔ فیونا نے اینگس کو ساری کہانی سنا دی۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد اینگس آرام کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے، کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر انھوں نے پوچھا: ’’تو اب آبسیڈین پتھر کہاں ہے؟‘‘

    فیونا نے قیمتی پتھر جیب سے نکال کر اینگس کی کھلی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ انھوں نے الماری کھول کر جادوئی گولا نکالا۔ ’تو یہ ہے جادوئی گیند، اور یہ ہے بارہ قیمتی پتھروں میں سے سب سے پہلا پتھر۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے گولا میز پر رکھ دیا، اور پتھر کو آنکھ کے قریب لے جا کر غور سے دیکھنے لگے۔ ’’اس کے اندر ایک ڈریگن منقش ہے، جس کی وجہ سے یہ غیر معمولی بن گیا ہے، تو کیا یہ وہی ڈریگن ہے؟‘‘ انھوں نے پھر پوچھا۔

    فیونا نے نوٹ کیا کہ جب اس نے اینگس کو پتھر دیا، یعنی جیسے ہی پتھر اس کے ہاتھوں سے نکلا، تو اس کے اندر ڈریگن میں چمک ختم ہو گئی۔ اس نے کہا: ’’جی یہ ویسا ہی ڈریگن ہے۔‘‘

    اینگس نے گھمبیر لہجے میں کہا: ’’ایک پتھر کے اندر کون ڈریگن کا نقش بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے یقیناً انتہائی قسم کی مہارت درکار ہے، جو آج بھی ممکن نہیں ہے۔‘‘

    ’’یہ غالباً لومنا جادوگر نے بنایا تھا، میرے خیال میں عام شخص ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔‘‘ فیونا بولی۔ ’’میں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ کوئی ڈریگن کس طرح زندہ ہو کر آ سکتا ہے، تاہم اس نے ہمیں بچایا تھا۔‘‘

    ’’یہ غیر معمولی کہانی ہے۔ جادوئی گیند میں بارہ عدد سوراخ ہیں۔ ہر پتھر کے لیے ایک سوراخ۔ جہاں تک میرا خیال ہے جیسا کہ تم سب سے پہلے جزیرہ ہائیڈرا گئے تو یہ آبسیڈین ہی سب سے پہلا قیمتی پتھر ہے۔ اب مجھے آگے کا کام بلاشبہ ایک خاص انداز میں کرنا ہوگا۔‘‘ اینگس نے کہا۔ ان سب نے گیند پر نگاہیں جما لیں۔ جادوئی گولے میں سوراخ زگ زیگ انداز میں بنائے گئے تھے۔ پہلا سوراخ سب سے اوپر تھا۔ ’’میرے خیال میں یہ قیمتی پتھر اسی سب سے اوپر والے سوراخ کا ہے۔‘‘ اینگس نے کہا اور پتھر کو اس سوراخ میں جمانے لگے لیکن وہ وہاں بیٹھ نہ سکا۔

    ’’اوہ شاید یہ کسی اور سوراخ کا پتھر ہے۔‘‘ اینگس نے مزید تین سوراخوں میں اسے بٹھا کر دیکھا اور آخرکار اس نے درست سوراخ ڈھونڈ لیا۔ ’’اب سمجھ گیا، خاص پتھر کے لیے ایک خاص سوراخ ہے۔‘‘

    ’’ارے دیکھو اسے، یہ ایسے چمک رہا ہے جیسے کوئی کالا سورج چمک رہا ہو۔‘‘ فیونا بولی۔ ’’ڈریگن بھی پھر سے چمکنے لگا ہے۔‘‘

    ’’یہ تو بہت پیارا لگ رہا ہے۔‘‘ جبران نے منور پتھر پر نگاہیں جما لیں۔

    ’’بہت ہی شان دار۔‘‘ اینگس واپس آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگے۔ ’’ذرا سوچو، جب اس جادوئی گولے پر بارہ کے بارہ پتھر لگ جائیں گے تو یہ کیسا لگے گا؟‘‘

    ’’ارے میں تو بھول ہی گیا تھا۔‘‘ اچانک جبران اچھل پڑا۔

    (جاری ہے….)

  • پاکستان کے 2 صوبے بارشوں اور بدترین سیلاب نے ڈبو دیے، 527 جاں بحق

    پاکستان کے 2 صوبے بارشوں اور بدترین سیلاب نے ڈبو دیے، 527 جاں بحق

    کراچی: پاکستان کے جنوب مغربی اور جنوب مشرقی علاقے طوفانی بارشوں اور بد ترین سیلاب کی زد پر ہیں، جہاں مون سون کی بارشوں میں مجموعی طور پر اب تک 527 افراد جاں بحق اور لاکھوں گھر تباہ ہو چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے 2 صوبے بلوچستان اور سندھ کو بارشوں اور بدترین سیلاب نے ڈبو دیا ہے، رہائشی آبادیوں پر قیامت گزر رہی ہے، کروڑوں افراد جن میں بوڑھے، خواتین اور بچے شامل ہیں، بے آسرا کھلے آسمان تلے حکومتی مشینری اور مخیر اداروں کی امداد کے منتظر ہیں۔

    پی ڈی ایم اے سندھ کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب کے باعث گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مزید 30 افراد جاں بحق ہو گئے، جس سے صوبے میں مون سون کے آغاز سے اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 293 ہو گئی ہے۔

    طوفانی بارشوں کے بعد بلوچستان کے ندی نالے بھی بپھر گئے ہیں، چمن میں 2 ڈیم مزید ٹوٹ گئے، جس سے ضلع قلعہ عبداللہ میں بارشوں سے ٹوٹنے والے ڈیمز کی تعداد 18 ہو گئی، جب کہ بلوچستان میں مون سون سیزن کی تباہی میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھ کر 234 ہو گئی ہے۔

    بلوچ لڑکی سیلابی ریلے میں تباہ شدہ گھر کے ملبے سے اپنی کتابیں نکال کر صاف کر رہی ہے

     

    بلوچستان میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے اب تک 28 ہزار مکانات منہدم ہو چکے ہیں، اور ساڑھے 7 ہزار گھروں کو جزوی نقصان پہنچا، 710 کلو میٹر طویل شاہراہیں اور 18 پل شدید متاثر ہوئے، جب کہ ایک لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہوئے، درجنوں دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔

    گزشتہ روز وزیر ماحولیات سندھ اسماعیل راہو نے بتایا تھا کہ ملک بھر میں شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، جس کی وجہ سے رواں برس ملک میں غذائی بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، سندھ اور بلوچستان میں زرعی شعبے کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

    سندھ

    صوبہ سندھ میں وقفے وقفے سے بارش کی وجہ سے آفت زدہ علاقوں کے مکینوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں، اور متاثرہ علاقوں میں مزید تباہی پھیل گئی، شہر اور دیہات سب زیر آب آئے ہوئے ہیں، سڑکیں بہہ گئیں، ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے اور نظام زندگی مفلوج ہو چکا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق گھروں سے محروم ہونے والے لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتیں نوشہروفیروز میں ہوئیں، جہاں 11 افراد زندگیوں سے ہاتھ ڈھو بیٹھے۔

    پی ڈی ایم اے سندھ کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران صوبے میں 658 مویشی ہلاک ہوئے، اور 6 ہزار 382 گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔

    جانی نقصان میں لاڑکانہ میں 4، جیکب آباد میں 4، شہید بے نظیر آباد میں 3، کشمور 2، بدین میں 2، ٹنڈو محمد خان 2، دادو 1 اور سانگھڑ میں 1 شخص جاں بحق ہوا۔ جاں بحق ہونے والے 30 افراد میں سے 15 بچے، 7 مرد اور4 عورتیں شامل ہیں، جب کہ 836 افراد مختلف حادثات میں زخمی ہوئے۔ پی ڈی ایم اے سندھ کے مطابق سندھ میں مجموعی طور پر جاں بحق ہونے والوں میں 115 مرد، 45 عورتیں اور 133 بچے شامل ہیں۔

    مون سون کے آغاز سے اب تک 3 ہزار 794 مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 30 ہزار گھروں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا، مون سون کے آغاز سے اب تک 1 لاکھ ساڑھے 10 ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، جب کہ 2 لاکھ 57 ہزار 671 گھر جزوی متاثر ہوئے ہیں۔

    بلوچستان

    بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اس وقت شہری آبادیاں انسانی المیے سے گزر رہی ہیں، درجنوں دیہات کا رابطہ پوری طرح منقطع ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہاں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکا ہے۔

    کوہلو میں موسلادھار بارش سے لوگ محصور ہو چکے ہیں، لینڈ سلائیڈنگ اور سڑک کے حصے بہہ جانے سے کوہلو کوئٹہ شاہراہ بند ہو گئی ہے، بیجی ندی، مجنھرا، چاکر، کالابوہلا ندی میں سیلاب آیا ہوا ہے، کوئٹہ میں وقفے وقفے سے بارش کی وجہ سے نشیبی علاقے زیر آب آ چکے ہیں، امداد نہ ملنے پر سیلاب متاثرین احتجاج پر مجبور ہو چکے ہیں۔

    بلوچستان اور صوبہ میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے سیکڑوں اسکول بھی تباہ ہو چکے ہیں، کہیں کہیں عارضی انتظام کے تحت نہایت خراب حالات میں بھی بچوں کی کلاسز لی جا رہی ہیں، تاہم مجموعی طور پر تعلیمی نظام مکمل طور پر رک چکا ہے۔