Author: رفیع اللہ میاں

  • ریسٹورنٹس میں صارفین سے لیے جانے والا ٹیکس کیا ہے؟ ویڈیو!

    ریسٹورنٹس میں صارفین سے لیے جانے والا ٹیکس کیا ہے؟ ویڈیو!

    آپ اپنی فیملی کے ساتھ ویک اینڈ پر کچھ اچھا وقت گزارنے کے لیے ڈنر پر ریسٹورنٹ جاتے ہیں اور وہاں آپ سے بھاری بل وصول کیا جاتا ہے، اور آپ بہ خوشی ادا کر کے گھر لوٹ جاتے ہیں۔

    ریسٹورنٹس میں کھانا کھانے والے صارفین یہ دیکھنے کی زحمت کبھی نہیں کرتے کہ جو بل ان سے لیا جا رہا ہے، اس میں شامل ٹیکسز کی نوعیت کیا ہے۔ بے شک، ہمیں بس کھانے سے مطلب ہوتا ہے، اور بل تو آخر میں ادا کرنا ہی ہوتا ہے، چاہے کتنا بھی کیوں نہ ہو ۔

    اس ویڈیو میں ہم ایک ایسے ٹیکس کے بارے میں آپ کو بتا رہے ہیں جو سندھ ریونیو بورڈ کے نام پر لیا جا رہا ہے۔ اے آر وائی نیوز کے رپورٹر ندیم جعفر بھی اس پر ایک چشم کشا ویڈیو رپورٹ تیار کر چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی اس رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایک طرف شہریوں کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ انھیں بل میں شامل ٹیکسوں کے بارے میں کوئی پروا نہیں ہے، دوسری طرف ریسٹورنٹس مالکان اس صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

    پاکستان اور دنیا بھر سے آڈیو خبریں – ARY Radio

  • ڈیورنڈ لائن کا قیدی: فیض اللہ خان نے افغانستان میں قید کے دوران جو دیکھا اسے رقم کر دیا

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی: فیض اللہ خان نے افغانستان میں قید کے دوران جو دیکھا اسے رقم کر دیا

    ایک اچھے صحافی کا مشاہدہ بہت شان دار ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات اور چیزوں کو دیکھ کر ایسے پیٹرنز کی نشان دہی کی صلاحیت رکھتا ہے، جن کی مدد سے سماجی اور سیاسی صورت حال کی ایک حقیقت سے قریب تر تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ یہ ذکر ہے فیض اللہ خان اور ان کی واحد کتاب ’’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ کا۔

    مشاہدے اور پیٹرن کی صفحہ 185 پر یہ خوب صورت مثال ملاحظہ کریں: ’’ملک بھر میں کہیں بھی طالبان حملہ کریں، میڈیا کے مطابق اس میں پاکستانی، ازبک، عرب اور چیچن ملوث ہیں۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ ہر بار یہ دعویٰ کیا جاتا کہ درجنوں پاکستانی اس حملے میں مارے گئے یا گرفتار ہوئے، لیکن کبھی بھی کسی کی لاش یا گرفتار پاکستانی فورسز سے متعلق کسی شخص کی فوٹیج نہیں دکھائی جا سکی۔‘‘ اب اس پیٹرن کو دیکھیں تو عین یہی آپ کو پاکستانی میڈیا میں بھی دکھائی دے گا اور بھارتی میڈیا میں بھی۔ ایسے کئی پیٹرن فیض اللہ نے کتاب میں نشان زد کیے ہیں، جو بے وجہ نہیں معلوم ہوتے۔ وہ زیرک صحافی ہیں، انھوں نے ذہانت سے اس خطے کے سماجی، سیاسی اور عسکری ذہنیت کا خاکہ کھینچا ہے۔

    جب کتاب کی بات کی جاتی ہے تو اردو میڈیا سے جڑے ایک پاکستانی صحافی سے کچھ زیادہ امید نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا باب میرے لیے حیرت انگیز تھا۔ روایتی طور پر ٹی وی رپورٹنگ سے وابستہ کسی صحافی سے لمبی اور ادبی نوعیت کی تحریر کی امید کم ہی رکھی جا سکتی ہے۔ ایسے میں اپنی پہلی کتاب کا آغاز اتنے شان دار طریقے سے کرنا کہ اس پر عالمی ادبی معیار کا گمان ہو، جیسے روسی، چینی، یا لاطینی امریکی یا کوئی ترکی ادیب اپنی کتاب کا آغاز کر رہا ہو! یہ باب کسی ناول کے باب کی طرح ہے اور اس کی علامتی ویلیو یہ ہے کہ ’’حقیقت فکشن بھی ہو سکتی ہے اور فکشن حقیقت بھی۔‘‘ شاید اسی نکتے کو ایک اور طرح سے محسوس کرتے ہوئے وسعت اللہ خان نے لکھا کہ اگر فیض اللہ خان افغان صحافی ہوتا اور پاکستانی انٹیلیجنس کے ہتھے چڑھتا، تب بھی وہ ایسی ہی آپ بیتی لکھتا اور اس کا نام بھی ڈیورنڈ لائن کا قیدی ہی ہوتا۔

    دراصل یہ کتاب اپنے عنوان ہی نہیں اپنے مواد میں بھی علامتوں کے ذریعے متعدد ’’حقائق‘‘ سے روشناس کراتی ہے۔ میرے لیے یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ اس کتاب میں فیض اللہ خان کی اتنی بڑی صلاحیت کا ادراک ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد 8 سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور انھوں نے ابھی تک اس فطری تحفے کی ’’ذمہ داری‘‘ قبول نہیں کی ہے۔ ذمہ داری قبول کرنا ایک نہایت قابل قدر انسانی رویہ ہے لیکن گزشتہ دو ڈھائی عشروں سے یہ رویہ عالمی سیاست کے اسٹیج پر تنظیمی عسکریت پسندی یا تنظیمی دہشت گردی سے بری طرح جڑ کر ایک بدنام علامت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیمیں بم دھماکوں میں انسانوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرکے مذہب کے نام پر ’’فخر‘‘ کا اظہار کرکے انسانیت کو شرمندہ کرتی ہیں، ایسے میں فیض اللہ جیسے قلم کار کو زبان میں موجود علامتوں کے ذریعے طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنے کی اپنی صلاحیت کو زیادہ جوش اور تحرک کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ڈیورنڈ لائن کا قیدی رہا ہو کر اپنے گھر تو آ گیا ہے اور اس نے ایک کتھا بھی سنا دی ہے، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیدی ابھی تک پوری طرح رہا نہیں ہوسکا ہے۔ وہ تا حال علامتوں کی بے درد زنجیروں سے جھوجھ رہا ہے۔ ان زنجیروں سے رہائی کا واحد طریقہ اپنی صلاحیت کا ادراک ہے اور ایک اگلی کتاب۔
    اس کتاب میں ایسی کئی چیزیں ہیں جن پر کافی تفصیل سے بات کی جا سکتی ہے، لیکن میری یہ تحریر ایک تعارفی تحریر ہے جس میں میں نے اس کے متن کو تنقیدی نگاہ سے بھی دیکھا ہے۔ اس کتاب کا عنوان برطانوی سامراج کو قبول نہ کرنے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ برطانیہ نے کالونی میں اپنے مفادات کی خاطر یہ لائن کھینچ کر قبائل کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا تھا۔ آج بھی، جب کہ یہ لائن نو آبادیاتی یادگار ہے، دونوں طرف کے قبائل اسے تسلیم کرنے سے اصولی طور پر انکاری ہیں۔ لیکن کتاب کا یہ عنوان اپنے ساتھ اتنے واضح علامتی معنی لیے ہونے کے باوجود اس کے ناشر زاہد علی خان نے ’’عرض ناشر‘‘ میں افغانوں سے متعلق حقیقت سے عاری اور حماقت سے بھری ایسی باتیں لکھی ہیں، کہ گمان گزرتا ہے کہ وہ زمینی حقائق کے ڈائناسارز کو جان بوجھ کر نظر انداز کر کے، من پسند اور مخصوص سوچ کی تشکیل کردہ ایسے معنی کے ہاتھوں اغوا ہو رہے ہیں، جو ہے تو مچھر اتنا لیکن پیش کیا جاتا ہے نمرود کے قاتل کے طور پر!

    یہ ایک تاریخی مظہر ہے کہ حاکم قوت ہمیشہ خود کو بہ ظاہر آسان اور سادہ علامتوں کی صورت میں پیش کیا کرتی ہے تاکہ عام لوگ اپنے اندھے جذبات کی مدد سے انھیں فوراً سمجھ سکیں اور ان سے جڑ سکیں اور انھیں تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ انھیں بس یہ محسوس ہو کہ وہ پوری طرح سمجھ چکے ہیں حالاں کہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھے ہوتے۔ زبان اگرچہ خود ساری کی ساری علامتوں پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن روزانہ زندگی میں بولے جانے والے الفاظ کے واضح معنی اور زبان کے متفقہ گرامر کے ذریعے لوگوں کے درمیان رابطہ کاری بہ آسانی ممکن ہو جاتی ہے اور لوگ گفتگو کے ذریعے آسانی سے ایک دوسرے کا فوری مدعا سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن علامتوں کی ایک سطح وہ ہوتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دے کر انھیں غلط طور سے استعمال کرنے کے لیے بے حد مددگار ہوتی ہے۔ دھوکا یوں کہ ان کے ذریعے حقیقی صورت حال پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو کیا یاد رکھنا چاہیے، اس کے لیے ان کے سامنے یہی تشکیل شدہ معروف علامتیں رکھ کر یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ ’’خیر کی قوت‘‘ ہیں اور ان کا مقابل ’’بدی‘‘ کی بدترین علامت ہے۔ اس کی مثال ہمیں کتاب کے شروع میں ’’عرضِ ناشر‘‘ میں ملتی ہے جس میں امریکی ڈالروں اور امریکی میزائلوں کی شرم ناک جنگ کی سیاہ تاریخ کو ’’پاکستان افغان مہاجرین کے لیے ماں کی علامت‘‘ اور ’’پڑوس ملک کے لیے انسانی تاریخ کا ناقابل فراموش رویہ‘‘ جیسے بیانیے میں چھپایا گیا ہے۔ اسی لیے چالیس لاکھ (افغان مہاجرین) کے ہندسے کو ایک ایسی عالمی اپیل کی صورت میں دہرایا جاتا ہے جس پر ’’افغانستان پر روس کے قبضے‘‘ کے بڑے جھوٹ کی رنگین چادر چڑھی ہوئی ہے۔ افغانوں کے خلاف پروپیگنڈا ہمیں ابھی افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کی شد و مد سے شروع کی گئی مہم کے دوران بھی ملتی ہے، تاہم اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے حقیقی صورت حال پر مبنی رپورٹس کافی تشویش ناک ہیں۔ تاہم یہ اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔

    دل چسپ امر یہ ہے کہ پہلے ہی باب میں فیض اللہ نے افغان سیکیورٹی اہل کاروں کے لہجوں میں ایسی خوف ناک نفرت سے سامنا کرایا ہے، جو ہرگز بدی کی کسی ماورائی علامت سے جنم نہیں لیتی، بلکہ اس کی تشکیل نفرت انگیز زمینی حقائق کرتے ہیں۔ اسے ڈیورنڈ لائن کی تاریخی علامت کے تناظر میں دیکھیں تو افغان قبائل نے جو مسلسل مزاحمت برطانوی کالونیلز کی در اندازیوں اور مداخلتوں کے سامنے کی، وہی مزاحمت انھوں نے پوسٹ کالونیل دور میں سرحد پار سے ہونے والی مداخلتوں کے جواب میں بھی کی، اور اس نفرت کو اسی مزاحمت کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر پروپیگنڈا مسلسل اور طاقت ور ہو تو فیض اللہ بھی ’’ہم نے آپ کو مہمان کا درجہ دیا‘‘ (صفحہ 208) والے مقبول ڈسکورس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یعنی پہلے آپ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی ہتھیاروں کے ساتھ گھستے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں کے پرامن شہری بے گھر ہوتے ہیں اور مہاجرین (جدید دنیا کی ایک نئی اچھوت برادری) بن جاتے ہیں، اور پھر انھیں سہولیات سے محروم جھونپڑیوں کے شہر میں بھیڑ بکریوں کی طرح بسا کر خود کو ’’عظیم مہمان نواز‘‘ کا خطاب دے دیتے ہیں۔

    فیض اللہ نے بہت معصومیت کے ساتھ اپنے بھی دو دل چسپ ڈسکورسز تشکیل دیے ہیں، جن سے عام افغان باشندے کی نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی طرز عمل سے متعلق بھی ایک مخصوص سوچ کی تشکیل میں مدد ملتی ہے۔ یعنی مصنف کی تحریر سے عندیہ ملتا ہے کہ افغان سے متعلق ایک خاص رائے قائم کی جائے۔ ان میں سے پہلا ڈسکورس دیکھیں: ’’افغان شک کی بنیاد پر کوئی بھی الزام لگا کر حتمی سمجھتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 114)۔ دراصل یہ واقعہ اس وقت کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ سے متعلق ہے، جس کے بارے میں افغان قیدیوں کا کہنا تھا کہ اس نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس نے ایسا کوئی معاہدہ کیا تھا یا نہیں، عام شہری ہمیشہ سیاست دانوں کے حوالے سے اس قسم کے اندھا دھند یقین کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو کسی سیاست دان کے یہودی ایجنٹ ہونے اور کسی کے بھارتی ایجنٹ ہونے کا ’’یقین‘‘ لاحق رہا ہے، اور جو ان دو ممالک کا نہیں، وہ امریکی ایجنٹ تو ہوتا ہی ہے، جماعت اسلامی تو امریکی ڈالروں کے حوالے سے مخالفین میں بہت بدنام رہی ہے۔ لیکن بے خبر رکھے گئے عوام کا یہ عمومی رویہ اگر مخصوص قوم کی خصوصیت بنا کر پیش کیا جائے تو اسے کلامیہ (ڈسکورس) سازی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

    دوسرا دل چسپ ڈسکورس اس طرح تشکیل پاتا ہے: ’’افغان انرجی ڈرنک کے دیوانے ہیں۔‘‘ (صفحہ 117)۔ اس طرح کے بیانات میں امر واقعہ کا انکار ممکن نہیں ہوتا، لیکن جملے کا معنیٰ بہ ظاہر اتنا ہی نہیں ہوتا۔ ڈسکورسز کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ یہ طاقت اور سیاسی معنی سے لبریز ہوتے ہیں۔ یہ وقت پڑنے پر آسانی سے اپنا رنگ اور اپنی صورت بدل لیتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی طاقت اور سیاسی صورت حال بدلتی ہے، ڈسکورس والی نام نہاد حقیقت بھی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ افغان اگر انرجی ڈرنک کے ’’دیوانے‘‘ ہیں تو اسے افغانستان میں طویل غیر ملکی مداخلتوں (بالخصوص امریکی) کے تناظر سے ہٹ کر دیکھنا منصفانہ اظہار نہیں ہے۔ اسی طرح تو افغان ڈالر کے بھی دیوانے ہیں لیکن اس کا ’’امریکی استعماری‘‘ تناظر کتنا شرم ناک اور ہول ناک ہے۔ اس طرح کے ڈسکورسز ایک قوم کو ایک خاص رنگ اور ڈھنگ میں پیش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں ایک خاص تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔
    یہ کتاب اگرچہ ایک اچھی دستاویز کی طرح ہے تاہم افغان سماج کا تجزیہ ایک زیادہ غیر جانب دار رویے کا طالب ہے۔ اوپر صفحہ 185 کا جو اقتباس پیش کیا گیا ہے، اس کے بعد افغان میڈیا میں پاکستان کی مخالفت کا خصوصی ذکر موجود ہے لیکن جس سماجی تجزیے کی ضرورت تھی وہ موجود نہیں۔ مثال کے طورر پر اس اقتباس سے قبل سرمایہ کاری (بالخصوص انفراسٹرکچر میں) کے حوالے سے بھارت افغانستان دو طرفہ تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک اچھا سماجی تجزیہ کار یہ بنیادی سوال اٹھائے گا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی قربت اور اشتراک کے باوجود اس سرمایہ کاری کی طرف پاکستان نہیں گیا؟ افغانستان صرف ڈیورنڈ لائن ہی پر نہیں، ملک کے اندر مداخلت پر بھی شاکی رہا ہے۔ طویل عرصے تک اس مداخلت کے باوجود پاکستان کا یہ کردار افغانستان کے اندر تعمیر و ترقی کی طرف کیوں نہیں گیا؟ اس تجزیے کی عدم موجودی کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے افغان میڈیا کا یہ پاکستان مخالف رویہ کسی پراسرار قوت کے طابع ہو۔ حالاں کہ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگر چودہ اگست کو یہ میڈیا پاکستان کے حوالے سے کوئی خبر نہیں چلاتا اور پندرہ کو ہندوستان کی آزادی پر خصوصی نشریات ترتیب دیتا ہے تو اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ افغانستان کا کاروباری اور سرمایہ کاری پارٹنر ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے وہاں کس چیز میں سرمایہ کاری کی ہے؟

    میرا خیال ہے کہ یہ کتاب اپنے زبردست متن کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ ویلیو رکھتی ہے، جیسا کہ فیض االلہ کو یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کو پہلے انگریزی میں چھپوائیں، میں اس مشورے سے خود کو متفق پاتا ہوں۔ تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں آنے والی کتابوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں زبردست طور سے ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے، تاکہ ایک طرف زبان اور اس کے گرائمر کے حوالے سے ان میں سقم نہ رہے، دوسری طرف متن کو اتنا چست کیا جا سکے کہ اس میں کوئی جملہ یا پیراگراف اضافی محسوس نہ ہو، اور کوئی واقعہ ایسا نہ لگے کہ اسے زبردستی بٹھایا گیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا قیدی میں ایڈیٹنگ کی بہت زیادہ ضرورت ہے، ایک طرف اگر کاما اور ڈیش کا عدم استعمال پریشان کرتا ہے، تو دوسری طرف ان کا غلط استعمال تقریباً ہر صفحے پر ملتا ہے۔ مندرجہ بالا ان تمام خامیوں کے باوجود یہ ایک اچھی دستاویز ہے، جس میں کچھ دل چسپ حقائق ایسے بھی ملتے ہیں، جنھیں ہم سامراجی رویوں کے نتائج کے تاریخی تسلسل میں دیکھ سکتے ہیں۔ صفحہ 160 پر لکھا گیا ہے کہ ابو بکر البغدادی نے علاقوں پر قبضہ شروع کیا تو جن عراقی فورسز پر امریکا نے اربوں ڈالرز لگائے تھے، انھوں نے کوئی مزاحمت کیے بغیر علاقے چھوڑ دیے۔ اب حال ہی میں افغانستان میں طالبان کی باز آمد پر اسی تاریخ نے خود کو دہرایا۔

    جو بائیڈن کے زیر صدارت جب امریکا نے آخرکار افغانستان سے نکلنے کے فیصلے کو اگست 2021 میں عملی صورت دے دی تو یہ بات میڈیا میں اس طرح بریکٹ نہیں ہوئی، جس طرح فیض اللہ خان نے القاعدہ کی خراسان شاخ کی شوریٰ کے ایک رکن شیخ جعفر کے انٹرویو کے ذریعے واضح کی، کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا سے کئی سال قبل القاعدہ کی تمام عسکری اور فکری قیادت افغانستان سے نکل کر عراق، شام، لیبیا، صومالیہ اور الجزائر جیسے ممالک میں منتقل ہو چکی تھی (صفحہ 144)۔

    یہ کتاب اپنے مواد میں بے حد اہم ہے، اور فیض اللہ کا طرز تحریر کافی دل چسپ ہے، یعنی کتاب خود کو آخر تک پڑھواتی ہے۔

  • ذاکر نائیک کی آمد اور سوشل میڈیا پر جنگ

    ذاکر نائیک کی آمد اور سوشل میڈیا پر جنگ

    بات تلخ ہے لیکن اس تلخیوں بھرے معاشرے کی حقیقت ہے۔ لوگ شاید یہ سوچتے ہوں کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سننا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا سچ میں وہ نائیک کو سننے کے لیے انھیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟

    سوشل میڈیا پر میں نے 100 کے قریب پوسٹوں کا بہ غور مطالعہ کیا۔ مجھے یہ نتیجہ ملا کہ وہ انھیں سننا نہیں چاہتے، بلکہ ان کے ذریعے اپنے عقائد کی سر بلندی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مخالف عقائد کا ابطال ہو، ان کی تذلیل ہو۔ جو مخالف عقائد والے ان کی آمد کے خلاف ہیں، وہ انھیں اس لیے نہیں مسترد کر رہے ہیں کہ وہ ان کے عقائد کو کسی نئی اور بڑی دلیل کے ساتھ غلط قرار دیں گے۔ بلکہ اس لیے کہ ان کی آمد سے مقامی سطح پر جاری مسلکی چپقلش کو مزید ہوا ملے گی، اور ان کی تذلیل کا نیا موقع تخلیق ہوگا۔

    ہر دو طرف کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ نائیک کے پاس کوئی نئی دلیل نہیں ہے۔ وہ در حقیقت دلیل کا آدمی ہے ہی نہیں، وہ حوالہ جات کا آدمی ہے۔ اس لیے جہاں دلیل ’تخلیق‘ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں حوالہ غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ایسے کئی معاملات ہیں جہاں ذاکر نائیک کے غیر متعلقہ حوالہ جات مضحکہ خیز حد تک صورت حال کو خراب کر دیتے ہیں، اور مذہبی منافرت کو ہوا ملتی ہے۔

    اب اس سارے پس منظر کو دیکھیں تو ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے۔ یہ افراد اپنی دینی تربیت میں تو جیسے ہوں گے، ہوں گے؛ ان کی ثقافتی تربیت نہیں ہو سکی ہے۔ جدید دنیا میں ملازمین کو ثقافتی آگاہی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ثقافت اور سوچ اور فکر والے افراد کے ساتھ بہتر طور پر کام کر سکیں اور کام کے حوالے سے بہتر نتائج حاصل ہو سکیں۔

    طلبہ کی ثقافتی تربیت پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے تاکہ وہ نسل، جنس، مذہب، فکر اور رائے کے اختلاف کی نوعیت سمجھتے ہوئے، مل کر درپیش چینلجز سے نمٹنا سیکھ سکیں۔ ذاکر نائیک کی آمد کا مذکورہ تنازعہ اکثر تنازعات کی طرح ثقافتی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ یعنی ایک دوسرے کے عقائد اور رائے اور خیالات کو بے رحمی سے مسترد کرنا۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ مہمان کی آمد کے ساتھ اس بے رحمی میں اضافے کا بھرپور خدشہ ہے۔
    ثقافتی تربیت کی عدم موجودی کے باعث انسان کے سماجی رویوں میں بہتری اور ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔ اور اس تربیت کی مدد سے مختلف لوگوں کے متنوع نقطہ نظر اور پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ان کو سراہنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ غلط فہمیوں کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔

    ایک فریق اور بھی ہے، جو مذہب بے زار ہے، جس کی رائے ہے کہ ذاکر نائیک جیسے مہمان اس ملک سے دور رہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا انھیں پاکستان آنا چاہیے؟ وہ نائن الیون کے بعد امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، اور برطانیہ کے دورے کر چکے ہیں۔ پانچ اور دس سالہ ویزے ملے انھیں۔ 2006 میں ویلز میں بھی ایک قدامت پسند رکن پارلیمنٹ نے ان کی آمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پھر یہ تسلیم کیا گیا کہ ذاکر نائیک مذاہب کے درمیان مماثلت پر بات کرتے ہیں اور غیر متنازعہ افراد میں سے ایک ہیں۔ کسی بھی شخص پر صرف اس لیے پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ اس کی رائے دوسرے لوگوں کو ناگوار لگتی ہے۔ اب برطانیہ اور کینیڈا میں مخصوص گروپس کے دباؤ کی وجہ سے ان پر پابندی عائد ہے۔

    اس قضیے کا ایک اہم ترین سوال سیاسی ہے۔ اگلے مہینے کے ابتدائی ہفتے میں ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کا دورہ پاکستان متوقع ہے، اور انھی دنوں ملائیشیا ہی میں مقیم ذاکر نائیک بھی پاکستان آ رہے ہیں۔ یہ سیاسی گٹھ جوڑ ہی اس قضیے کا بڑا سوال ہے۔ اسے اس پسِ منظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برسوں میں نائیک کو ملائیشیا میں بہت اثر و رسوخ حاصل ہوا ہے، کچھ لوگ اگر ان کی موجودی کو مسلمانوں کے لیے خیر کا باعث سمجھتے ہیں تو کچھ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ملائی مسلم برتری کے کمپلیکس میں اضافہ کیا ہے۔ یوں اگر اعلان نہ بھی کیا جاتا ہے تو انھیں پاکستان میں ایک اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت حاصل ہوگی۔

    یہاں مختلف عقائد کے افراد سوشل میڈیا پر نائیک کے آنے پر لڑ رہے ہیں، بہ ظاہر یہ اختلاف اور لڑائی سادہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نائیک کی آمد کا تمام قضیہ ہی ایک ڈسکورس ہے۔ جس میں ایک بار پھر سیاست اور مذہب بغل گیر ہیں۔

    (یہ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے اور‌ خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)
  • ادب کا رشتہ سرمایہ داریت سے جوڑنے والے دنیا کے نمایاں درسی ادبی نقاد فریڈرک جیمیسن انتقال کر گئے

    ادب کا رشتہ سرمایہ داریت سے جوڑنے والے دنیا کے نمایاں درسی ادبی نقاد فریڈرک جیمیسن انتقال کر گئے

    کنیکٹیکٹ: ادب کا رشتہ سرمایہ داریت سے جوڑنے والے دنیا کے نمایاں نقادوں میں سے ایک فریڈرک جیمیسن 90 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

    فریڈرک جیمیسن کی بیٹی شارلٹ جیمیسن نے ایک بیان میں اتوار کو ان کی موت کا اعلان کیا، تاہم ان کے انتقال کی وجہ نہیں بتائی گئی، ان کا انتقال امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے قصبے کلنگ ورتھ میں ان کے گھر پر ہوا۔

    گزشتہ 40 برسوں سے دنیا کے معروف ادبی نظریہ سازوں میں فریڈرک جیمیسن کا اثر و رسوخ برقرار رہا ہے، وہ اپنی نہایت سخت مارکسی تنقید کے لیے مشہور تھے، نقادوں میں ان کی انفرادیت یہ تھی کہ انھوں نے اپنی تنقید کا میدان جرمن اوپیرا، سائنس فکشن فلموں اور لگژری ہوٹلوں کے ڈیزائن جیسے موضوعات تک پھیلایا۔

    وہ ایک با اثر درسی نقاد تھے، انھوں نے 30 سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں، ان کی کتابیں گریجویٹ طلبہ (ابتدائی انڈر گریجویٹ بھی) کے لیے پڑھنا ضروری تھا، نہ صرف ادب میں بلکہ فلم اسٹڈیز، آرکٹیکچر اور تاریخ میں بھی۔

    ثقافتی نظریہ ساز فریڈرک جیمسن نے اسکالرز کی کئی نسلوں کو متاثر کیا، وہ شمالی کیرولائنا کی ڈیوک یونیورسٹی سے 1985 میں وابستہ ہوئے اور 18 سال تک اس کے ادبی پروگرام کو عالمی سطح کی شہرت عطا کی۔

    نیویارک ٹائمز کے مطابق وہ با اثر تو تھے لیکن بہت زیادہ اکیڈمک ہونے کی وجہ سے وہ عوام کو با شعور بنانے کے سلسلے میں اس طرح کامیابی حاصل نہیں کر سکے جس طرح ان کے ہم عصر چند ادبی نظریہ سازوں نے حاصل کی، جیسے کہ سلیوو ژِژیک اور ہیرالڈ بلوم نے حاصل کی تھی، تاہم ان کا کام اتنا ہی بااثر تھا جتنا کہ دیگر کا۔

    بہ طور پروفیسر انھوں نے زیادہ تر جو کورسز پڑھائے وہ جدیدیت، مابعد جدیدیت، نظریہ اور ثقافت، مارکس اور فرائیڈ، اور جدید فرانسیسی ناول اور سنیما پر مشتمل تھے۔ انھوں نے 1954 میں ہیور فورڈ کالج سے بی اے کے ساتھ گریجویشن کی، اور 1959 میں ییل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔

    وہ فرانسیسی اور جرمن نظریے کو امریکا میں لانے والے پہلے اسکالرز میں سے ایک ہیں، انھوں نے فلم، فن تعمیر، پینٹنگ اور سائنس فکشن جیسے موضوعات پر بہت سارا لکھا۔ وہ پہلے اسکالرز میں سے ایک تھے جنھوں نے سائنس فکشن لکھنے والے ادیب ’فلپ کے ڈک‘ پر سنجیدگی سے توجہ دی۔

    جیمیسن کی 1971 کی کتاب ’’مارکسزم اور ہیئت‘‘ نے ادبی تھیوری میں مارکسی مطالعے کو زندہ کرنے میں بہت مدد کی، اس کتاب میں انھوں نے تاریخی اور سیاسی نظریے کے درمیان تعلق پر بہت زور دیا، اور یوں ادبی تنقید میں سیاسی سروکار کی طرف رجوع کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔

    ان کی موت کی خبر کے بعد اتوار کو دنیا بھر کے ادبی دانشوروں نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ ڈیوک یونیوسٹی کے بہت سے ساتھیوں اور سابق طلبہ نے ان کی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ یونیورسٹی میں ادب کے ایک ممتاز پروفیسر ٹورل موئے نے کہا کہ جیمیسن کی موت نہ صرف ڈیوک بلکہ دانشورانہ دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، ان کے کام نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔

    ٹائمز کے رپورٹر کلے رائزن نے لکھا کہ فریڈرک جیمیسن نے دو نمایاں کارنامے انجام دیے، ایک یہ کہ 1970 کی دہائی میں انھوں نے مغربی مارکسزم کے (فرانس اور جرمنی میں مقبول) تنقیدی نقطہ نظر کو امریکی حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا، یہ نقطہ نظر اس تصور پر مبنی تھا کہ ثقافت کا سماج کی اقتصادی بنیاد سے گہرا تعلق ہے (اگرچہ مکمل طور پر اس تک محدود نہیں)۔ دوم یہ کہ صنعت سازی سے عبارت بیسویں صدی کے پہلے نصف میں تشکیل پانے والے تجزیے کو فریڈرک جیمیسن صدی کے دوسرے نصف کے گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی والے دور میں لے کر آئے، ایک ایسا دور جس میں سرمایہ داری روزمرہ کی ثقافت کی چکرا دینے والی گہرائی میں اتری۔

    انھوں نے 1981 میں اپنی کتاب ’’دی پالیٹیکل اَنکنشس: نریٹو ایز آ سوشلی سمبلک ایکٹ‘‘ میں دکھایا کہ ہومر کے ایپک سے لے کر جدید ناول تک بیانیے کی جتنی شکلیں ہیں، وہ سب سرمایہ داریت کے ارتقا کے ساتھ صورت پذیر ہوئی ہیں، اور یہ کہ ان اصناف نے سرمایہ دارانہ ساختوں کو نہ صرف یہ کہ فروزاں کیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ انھیں مبہم بھی کر دیا۔

  • ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    ترجمے کے حوالے سے دو اہم نکات

    کچھ عرصے کے دوران سوشل میڈیا پر اردو تراجم کے حوالے سے وقتاً فوقتاً ایسی آرا سامنے آتی رہی ہیں کہ ایک تاثر تشکیل پاتا ہے جیسے اردو ترجمہ پڑھنا بہ ذات خود ایک کم تر اور پست ذہن کا کام ہو۔ کچھ لوگ انگریزی زیادہ اچھے سے پڑھ لیتے ہیں اور وہ ایک ادائے دل بری سے کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو براہ راست انگریزی ہی میں کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں (جیسے اردو ترجمہ پڑھنا ایسا ہو جیسے ہماری زبان میں کچھ پیشوں اور کچھ ذاتوں کو ’نیچ‘ کے درجے پر رکھ دیا گیا ہے)۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ جو انگریزی کتاب وہ پڑھ رہے ہیں، وہ انگریزی میں نہیں لکھی گئی، بلکہ خود کسی دوسری زبان سے کیا گیا ترجمہ ہے۔ یعنی مسئلہ ترجمہ نہیں ہوتا، بلکہ انگریزی زبان سے جڑی ’برتری‘ کی غیر منطقی سوچ ہوتی ہے۔ جس نے نفسیات میں گھر کر لیا ہے۔ یہ پوسٹ کولونیل دور کی ایک حقیقت ہے۔ اور قابل ہم دردی بھی۔

    اردو ترجمے سے متعلق عام طور سے ترجمے کے کئی مسائل زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ مجھے ان میں سے کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے، میں ان میں دو مزید اہم نکتے شامل کرنا چاہتا ہوں۔ شاید اسے عام قارئین کے لیے سمجھنا تھوڑا سا مشکل ہو، کیوں کہ اس قسم کی باتیں مخصوص اصطلاحات میں کی جاتی ہیں، تاکہ طویل وضاحتی اقتباسات سے بچا جا سکے، ورنہ ایک ہی بات کے متعدد پہلوؤں کو تفصیلاً بیان کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ میری بات سہولت سے سمجھ میں آ سکے۔

    ثقافتی ڈسکورس (کلامیہ): تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ یعنی جس زبان میں ادب لکھا گیا ہے، وہ زبان جس معاشرے میں بولی جاتی ہے، اس معاشرے میں وہ زبان کس طرح اور کیوں معنی سازی میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ایک عام جملہ گرائمر کے اصولوں کی پیروی کرتا ہے، لیکن ایک ڈسکورس جملے اور جملوں کے درمیان ربط سے پیدا ہونے والا ایک نیا معنیٰ ہے، جو زیادہ تر سیاسی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی کالونی کے طور پر برصغیر سے متعلق یہ جملہ بہت عام رہا ہے، اور لوگ اسے اپنے مضامین میں کوٹ کرتے رہے ہیں: ’’برصغیر کے عوام ثقافتی اور علمی طور پر پس ماندہ ہیں۔‘‘ اپنے ظاہری معنی میں یہ ایک عام سا جملہ تھا لیکن دراصل یہ کالونیل دور کے ’’آقاؤں‘‘ کا انھیں ’’تہذیب یافتہ‘‘ کرنے کا حیلہ تھا۔ اسی سے جڑا ہوا ایک جملہ اب بھی عام ہے، ’’برصغیر کے عوام آج تک ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکے‘‘ یہ بھی اپنے ظاہری معنی سے کہیں زیادہ معنی اور سیاسی معنی کا حامل جملہ ہے۔ اس کے ذریعے آج کے پوسٹ کالونیل دور کے ’’آقا‘‘ ان افراد پر حملہ کرتے ہیں جو ’’مقامی سامراج‘‘ کو بے نقاب کرتے ہیں اور وہ جواب میں انھیں کبھی ’’مغرب کے پروردہ‘‘ کبھی وطن اور کبھی دین کے ’’غدار‘‘ قرار دیتے ہیں۔

    کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے معاشرے کے لوگوں کی سوچ کتنی تہہ دار ہے، وہ اپنی زندگی کے لیے رہنما اصول کس گہرائی کے ساتھ تشکیل دیتے ہیں۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔

    معنی کا فہم: مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟

    یعنی مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے، تو محض اس کا قاموسی معنیٰ (لغت/ڈکشنری) ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزا محسوس ہوتے ہیں۔ اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔

    لغت میں مترجم کو متبادل لفظ تو مل جائے گا، لیکن جیسا کہ ساختیات بتاتی ہے کہ معنیٰ کا بھی معنیٰ ہوتا ہے، اگر اس معنی کا فہم حاصل نہیں ہو سکا ہے تو ترجمے کے عمل میں ثقافتی صورت حال ہاتھ سے چھوٹ سکتی ہے۔ ایک عام سے جملے کا ایک عام سا ترجمہ ممکن ہو جاتا ہے، لیکن اس جملے کا ایک معنیٰ تہذیبی اور سیاسی تناظر میں بھی تشکیل پاتا ہے، اس معنی تک پہنچنے کے لیے مترجم کو ڈسکورس کے جدید لسانیاتی اور فلسفیانہ تصور سے شناسائی مددگار ہوتی ہے۔

    اوپر میں نے زبان کے محاسن کی بات کی ہے، اس کا اشارہ کلام کے محاسن کی طرف تھا۔ ہم اپنی گفتگوؤں اور تحاریر میں عموماً اپنے آئیڈیاز پیش کیا کرتے ہیں۔ ادب میں ہم اس مقصد کے لیے کلام کے محاسن سے کام لیتے ہیں اور اس طرح اپنے بیان میں معنی کی ایک سے زائد پرتیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان ایک سے زائد اور مختلف پرتوں تک رسائی ترجمے کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ اکثر اسی سبب ترجمہ ناقص قرار پاتا ہے، یا مترجم خود کو ایک مشکل صورت حال میں گرفتار پاتا ہے۔

    معنی کے فہم کے سلسلے میں ایک بنیادی نکتہ تراجم کے ضمن میں عموماً یہ مذکور کیا جاتا ہے کہ معنیٰ ثقافتی تناظر میں تشکیل پاتا ہے۔ اس بات کا صاف مطلب ہوتا ہے کہ مترجم کے پاس ایک لمحے کے لیے بھی اس تناظر سے رشتہ توڑنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ترجمے کے اندر بھی معنی سازی کا عمل متن کی زبان کے اپنے ثقافتی تناظر میں آگے بڑھتا ہے۔ یعنی ترجمہ اگر کسی فکشن کے متن کا ہے تو صرف کہانی ہی منتقل نہیں ہوتی، اس میں موجود ثقافتی، سماجی، معاشی اور سیاسی نظریات کا ایک پیکج بھی ساتھ منتقل ہوتا ہے۔ مترجم اگر ثقافتی یا تہذیبی تصادم جیسے کسی نظریے پر یقین رکھتا ہو، تو اصل میں وہ نقب زن ہے مترجم نہیں۔ اپنے تصادمی سوچ کے باوجود وہ دوسری زبان کے متون میں دل چسپی لے رہا ہے لیکن ترجمے کے عمل میں اسے پورا پیکج قبول نہیں۔ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ایک طرف اگر وہ اُس متن کے معنی کے پیکج کو مسترد کرتا ہے تو دوسری طرف عین استرداد کے اُسی لمحے میں وہ معنی کے اس نظام کو منہدم کر کے اپنی پسند کی معنویت تشکیل دے دیتا ہے۔ یعنی معنی کے ایک نظام کا انہدام از خود ایک اور نظام کی تشکیل کے مترادف ہوتا ہے۔ اس طرح تصادمی سوچ ترجمے کے عمل کو مہملیت کا شکار بنا دیتی ہے۔ اس عمل میں موجود ایک حماقت کو صاف دیکھا جا سکتا ہے جو ترجمے کے میدان کو تہذیبوں کے تصادم کا میدان سمجھ کر کارفرما ہوتی ہے۔

    اس تمام قضیے کی جو بنیادی الجھن ہے وہ اس سوال کی صورت میں ہے کہ جس زبان کے متن کا ترجمہ ہدف ہے، کیا وہ برتر زبان ہے؟ کیا ترجمہ اس کے آگے محض حاشیائی اہمیت کا حامل ہے؟ میں نے اس پر ڈی کنسٹرکشن کو متعارف کرانے والے فلسفی ژاک دریدا کی فکر کے تناظر میں جتنا غور کیا ہے، اس کی جڑیں میں نے کسی زبان میں مسلسل آنے والی تبدیلی و ترقی کے عمل میں پیوست پائی ہیں۔ کوئی بھی متبادل لفظ ترجمے کی زبان ہی کا لفظ ہونا چاہیے، اس یونیورسل رعایت کے ساتھ کہ زبانیں مشترک الفاظ کا ایک ذخیرہ بھی رکھتی ہیں۔ زبان کو ایک اصطلاح کی منتقلی کے دوران خود کو وسعت آشنا بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ جاپانی پروفیسر کے ساتھ ژاک دریدا کی خط و کتابت میں "ڈی کنسٹرکشن” کے جاپانی متبادل پر گفتگو ہوئی اور خود انگریزی و فرانسیسی میں اس اصطلاح کے اندر موجود پیچیدگی زیر بحث آئی، لیکن دریدا کا مؤقف تھا کہ اس کا جاپانی متبادل جاپانی زبان کے اپنے پس منظر میں ہونا چاہیے۔ ایک زبان دوسری پر تسلط قائم نہیں کر سکتی۔ ایک اصطلاح کے لیے دوسری زبان میں موزوں متبادل کی تلاش کی یہ کوشش اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ زبان کے ماہرین کے درمیان یہ معمول کی ایک سرگرمی ہے۔ زبان میں اگر ترقی کا عمل جاری ہے تو وہ دیگر زبانوں کے ثقافتی پیکجز سے نہ تو گبھراتی ہے نہ اس کے آگے خود کو اس کا "دوسرا” محسوس کرتی ہے۔

  • دو سو نو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو نو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    تینوں انکل اینگس کے گھر پر ایسے نمودار ہو گئے، جیسے فرش سے دھواں اٹھتا ہو اور اگلے لمحے وہ انسانوں کا روپ اختیار کر جائے۔ مائری مک ایلسٹر اپنی بیٹی کو واپس آتے دیکھ کر اچھل پڑیں اور دوڑ کر اسے گلے لگا لیا۔ بلاشبہ یہ سب حیرت انگیز تھا، ناقابل یقین تھا، اور بلاشبہ خطرناک بھی۔ اس لیے وہ دل ہی دل میں گھبراتی رہی تھیں۔
    مائری ابھی ان کے کپڑے اتنے خراب ہونے کے بارے میں باز پرس کرنے ہی والی تھیں کہ اینگس نے پوچھا کہ اس بار وہ کہاں گئے تھے۔ ان کے سامنے قدیم کتاب کھلی ہوئی تھی، وہ یہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ ٹائم پورٹل سے اب اگلا کون آدمی آنے والا ہے۔ جبران نے بتایا کہ وہ اس بار اردن گئے تھے۔
    اینگس سے قبل جونی نے چونک کر کہا ’’اوہ اس کا مطلب ہے کہ اب بونتابی پہنچنے والا ہے یہاں۔‘‘ اینگس نے بھی کتاب پر نگاہیں دوڑا کر سر اثبات میں ہلایا اور کہا ’’تو تم نے اپنے اس بھائی کے لیے ہمارے اس دور کا کیا نام سوچ رکھا ہے۔‘‘
    جونی بولا کہ اس نے آنے والے قدیم انسان کے لیے جیسن کا نام سوچ رکھا ہے۔ جبران نے انھیں چراغ والے جن حکیم کے بارے میں تفصیل سے بتایا، وہ سن کر حیران رہ گئے۔ یعنی چراغ والا جن بھی اب سوچ ہو کر نظر آیا۔ کمال ہے۔ ان کے منھ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ دانیال نے بیگ سے ایک اسکیچ نکال کر دکھایا اور کہا یہ دیکھو، حکیم ایسے دکھتا تھا۔ دانیال نے انھیں وہ چراغ بھی دکھایا اور سونے کا سکہ بھی جو حکیم نے اسے تحفتاً دیے تھے۔ لیکن چراغ میں اب کوئی جادو نہیں تھا۔ جبران نے بتایا کہ اسے چوہے کا ایک پیارا سا مجسمہ تحفے میں ملا، اور فیونا کو ایک ہار۔ فیونا نے ہار کا تعویذ کھول کر دیکھا تو اچھل پڑی، اس کے اندر حکیم دکھائی دے رہا تھا جو اسے دیکھ کر مسکرا دیا تھا۔ فیونا نے اسے جلدی سے پھر بند کر دیا۔
    اینگس نے ایسے میں کہا کہ اب یاقوت کو جادوئی گولے میں رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ فیونا نے چونک کر کہا میں تو بھول گئی تھی، اس نے روبی نکال کر جونی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس کے اندر ڈریگن چمک رہا تھا۔ انکل اینگس نے جادوئی گولا میز پر رکھا اور جونی سے یاقوت لے کر اس کی جگہ رکھ دیا۔ پورا کمرہ اچانک روشنیوں سے جگمگا اٹھا، ڈریگن گھر کی دیواروں پر رقص کرنے لگے تھے۔ اینگس کے منھ سے نکلا ’’ایسا لگتا ہے کہ ہم جتنے زیادہ جواہرات اس گولے میں ڈالیں گے، رنگ اتنے ہی طاقت ور اور روشن ہوں گے۔‘‘
    کمرے میں گہری خاموشی چھا گئی تھی، اور حقیقت یہ تھی کہ وہ سب خاموش اور خوف زدہ کھڑے اپنے اردگرد چمکتی ہوئی روشنی کو دیکھ رہے تھے۔ کیوں کہ انھیں اچھی طرح علم تھا کہ یہ روشنی جادو سے بھری ہوئی ہے۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • دو سو آٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو آٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن سہ پہر کو ہوٹل کے کمرے میں جاگا۔ اس نے ہوٹل کی کھڑکی کے باہر کے شٹر کو ہوا میں ہلتے ہوئے سنا۔ اس نے دل میں کہا باہر کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہوگی۔ وہ نیچے لابی کی طرف آیا۔ خزاں کی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی تو اس نے کوٹ کے کالر سے گردن چھپا لی۔ پہلان کو اس نے رپورٹ دینی تھی، لیکن اس وقت اسے بھوک لگ رہی تھی، وہ ہوٹل سے باہر نکلا اور اسی ریسٹورنٹ کی طرف چلا گیا جہاں اس نے پہلے بھی کھانا کھایا تھا۔

    وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تو گوشت کی تازہ پائی اور کارنش پیسٹری کی مہک نے اس کی بھوک ایک دم سے بڑھا دی۔ ویٹریس ایگنس نے اسے پہچان لیا، اس کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار پھیل گئے۔ وہ مینیو لے کر اس کے پاس کھڑی ہو گئی تو ڈریٹن نے بدتمیزی سے مینیو لے کر اسے کہا کہ وہ ’دفع‘ ہو جائے۔ ڈریٹن نے پنیر اور پیاز کی بریڈیز، ڈیڑھ درجن ساسیج رولز اور پھلیاں اور چپس کی پلیٹ منتخب کی، پھر اس نے ایگنس کو اشارے سے بلانا چاہا لیکن اس نے نظر انداز کر دیا، اس پر ڈریٹن آگ بگولا ہو گیا، اور کرسی پر کھڑے ہو کر چلایا اور مغلظات بکنے لگا۔ ایگنس اپنے باس کے اشارے پر خاموشی سے آ کر کھڑی ہو گئی۔ ڈریٹن نے کہا کہ اسے یہ، یہ اور یہ چاہیے، وہ بھی آن کی آن میں۔ جب ایگنس مڑ کر جانے لگی تو ڈرٹین نے ڈپٹ کر پوچھا: ’’تمھارا مسئلہ کیا ہے؟‘‘

    ایگنس نے گھبرا کر کہا: ’’میں آپ کو نہیں بھولی ہوں، مجھے معلوم ہے کہ آپ ہی تھے جس نے میک ایلسٹر کے گھر کو نقصان پہنچایا تھا۔ ایلسی نے مجھے بتایا۔‘‘

    ڈرٹین چونکا: ’’اوہ اس نے ایسا کہا، ٹھیک ہے، مجھے ایلسے کے ساتھ افواہیں پھیلانے کے بارے میں بات کرنی پڑے گی، تم جلدی میرا کھانا لاؤ اب۔‘‘

    ریسٹورنٹ میں موجود بہت سے لوگ خطرے کا احساس کرتے ہوئے اٹھ کر باہر نکل گئے۔ ایسے میں دروازہ کھلا اور ایلسے اندر داخل ہو گئی۔ ایگنس گھبرا کر ایلسے کے پاس بھاگی اور آہستگی سے کہا: ’’بہتر ہے تم ابھی چلی جاؤ۔ وہ آدمی یہاں ہے اور…‘‘

    لیکن ڈریٹن نے بھی اسے دیکھ لیا تھا، وہ اٹھ کر اس کے پاس گیا اور بازو سے پکڑ کر کہا: ’’ذرا میرے ساتھ بیٹھ جاؤ یہاں، ہم تھوڑی بات کریں گے۔‘‘ اس نے ایلسے کو تقریباً گھسیٹا اور میز پر لے جا کر کرسی پر بٹھا دیا۔ ایسے میں ایگنس نے اپنے باس ایوان کے کان میں کچھ سرگوشی کی اور وہ ایپرن کھول کر دبے پاؤں دروازے سے ریسٹورنٹ سے باہر نکل گیا، خود ایگنس کاؤنٹر کے پیچھے گئی اور ایک بھاری سیاہ کڑاہی اٹھالی، کہ اگر ڈریٹن نے ایلسے کو تکلیف دینے کی کوشش کی تو وہ اس سے حملہ آور ہوگی۔

    ڈریٹن کی زہر خند آواز گونجی: ’’ایلسے، تمھیں دیکھ کر اچھا لگا لیکن میں نے سنا ہے کہ تم میرے بارے میں شہر بھر میں انٹ شنٹ افواہیں پھیلا رہی ہو۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘

    ’’مم … میں نہیں سمجھی، تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ ایلسے پوری طرح گھبرائی ہوئی تھی۔ ڈریٹن نے کہا کہ وہی بات کہ میں نے مک ایلسٹر کے گھر کو برباد کیا۔ ایلسے نے کہا یہ موضوع اٹھا تھا اور ایک بار آپ کا نام بھی آیا بس۔ ڈریٹن بولا ’’اوہ، اور میرا نام کس نے اٹھایا؟ کیا تم نے میرا نام اٹھایا تھا ایگنس، اور میرا کھانا کہاں ہے؟‘‘ اس نے ایگنس کی طرف مڑ کر کہا۔ ایگنس نے کڑاہی نیچے رکھ دی اور اس کا کھانا ٹرے میں سجا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔

    ڈریٹن نے ایک ساسیج نیپکن پر رکھ کر ایلسے کی طرف بڑھایا اور کہا تم بھی کھاؤ۔ ایلسے اس کا انداز دیکھ کر انکار نہیں کر سکی، ڈریٹن نے کہا ٹماٹر کی چٹنی بھی لو نا۔ یہ کہہ کر اس نے بوتل اٹھائی لیکن اس میں سے چٹنی زور ڈال کر نکل سکتی تھی۔ اس لیے ڈریٹن نے اس کی باریک نلی ایلسے کے سینے کی طرف کر کے اچانک اسے دبایا اور چٹنی ایک دھار کی طرف نکلی اور ایلسے کا سفید بلاؤز رنگین ہو گیا۔ ڈریٹن نے اداکاری کی، اوہ میں نے گڑبڑ کر دی۔ پھر اس نے چپس اٹھا کر ایلسے کے کپڑوں پر پڑی ٹمیٹو ساس میں ڈبوئی اور منھ میں ڈال دی۔ ’’کافی لذیذ ہے۔‘‘ اس نے کہا اور ساسیج رول کھانے لگا۔ ایلسے اٹھ کر جانے لگی تو اس نے اسے دوبارہ بٹھا دیا اور وہ تب تک بیٹھی رہی جب تک ڈریٹن نے اپنا کھانا ختم نہ کر لیا۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے سرد لہجے میں کہا ’’اگر میں نے شہر میں مزید ایک بھی افواہ سنی تو میں تمھارے ’بی اینڈ بی‘ آ کر تم سے ملوں گا، سمجھ گئی نا؟‘‘

    ایلسے نے ڈر کے مارے ہاں میں سر ہلایا، اس کے گالوں پر آنسو بہنے لگے تھے۔ ڈریٹن نے اچانک میز پر پڑی پلیٹ اٹھا کر فرش پر پٹخ دی۔ پلیٹ میں بچا کھانا فرش پر بکھر گیا۔ پھر وہ ہنستے ہوئے اٹھا اور بل ادا کیے بغیر باہر نکل گیا۔ وہ جیسے ہی گلی مڑنے والا تھا عین اسی وقت ایوان بھی ایک پولیس افسر کے ساتھ واپس آیا۔ ڈریٹن اس سے بے خبر تھا اور سوچ رہا تھا کہ بہتر ہے کہ وہ اب قلعے جا کر پہلان جادوگر کو کل رات کے بارے میں رپورٹ دے۔
    جاری ہے ۔۔۔

  • دو سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو سات ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    فیونا نے چراغ کے جن سے کہا کہ اتنا سب کچھ ایک اشارے میں حاضر کر دیا لیکن اس دسترخوان پر کوئی ایک کانٹا یا چمچ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ حکیم نے دانت نکال کر جواب دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں اردن میں چمچے کانٹے استعمال نہیں ہوتے، لوگ انگلیاں ہی استعمال کرتے ہیں، اس لیے اب چپ چاپ کھا لو۔ دانیال مسکرایا میں اور جبران تو اس کے عادی ہیں، اس لیے ہمیں انگلیوں سے کھانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس کے بعد تینوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کھانا ٹھونسا، کیوں کہ کھانے کے بعد جبران اڑن قالین پر ہاتھ اور ٹانگیں پھیلا کر لیٹ گیا، اس کا پیٹ پوری طرح پھول گیا تھا۔ فیونا اور دانیال کا بھی یہی حال ہو رہا تھا، فیونا نے اگرچہ کچھ کہا نہیں لیکن کراہتے ہوئے تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور پیر پھیلا دیے۔
    پھر حکیم نے تالی بجائی اور سب کچھ غائب ہو گیا۔ حکیم ان تینوں کو خوش دیکھ کر مسکرایا، اور جیب سے نکال کر انھیں الگ الگ قیمتی تحفے بھی دے دیے۔ جبران کو اس نے ایک سکہ دیتے ہوئے کہا یہ نوجوانی سے میرے پاس ہے اور یہ خوش قسمتی کا سکہ ہے، تم جب بھی اسے ہاتھ میں پکڑو مجھے یاد کر لینا۔ دانیال نے کہا آپ نے ہمیں ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آپ کو چراغ میں کیوں ڈال دیا گیا تھا، کیا آپ نے کسی کو قتل کیا تھا۔
    حکیم نے بتایا: ’’اگر تم واقعی جاننا چاہتے ہو تو سنو، 1200 سال پہلے میں یہاں سے بہت دور بغداد کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ میں نے کسی کو قتل نہیں کیا، میں نے کبھی چوری بھی نہیں کی۔ میں وہاں بس لوگوں کے مجمع میں قصے سنایا کرتا تھا، ہاں میں ایک قصہ گو تھا۔‘‘
    فیونا جلدی سے بولی: ’’اب ہمارے دور میں اسٹینڈ اپ کامیڈی کی جاتی ہے، قصہ گوئی کا دور ختم ہو چکا ہے۔‘‘
    حکیم بولنے لگا: ’’ ہر رات بازار میں لوگ میری کہانیاں سننے کے لیے رک جاتے تھے۔ لیکن پھر میرے پاس کہانیاں ختم ہو گئیں اور میں وہی پرانی کہانیاں بار بار سناتے ہوئے تھک گیا۔ ایک دن میں نے لوگوں کو ایک لطیفہ سنایا، لیکن کوئی نہیں ہنسا، انھوں نے مجھ سے کہا کہ جلدی کرو اور کہانی ختم کرو۔ اگلی رات میں نے پھر لطیفہ سنایا اور پھر دوسرا سنایا لیکن افسوس کہ میرے علاوہ اس پر کوئی نہیں ہنسا، میرا تو خیال تھا کہ میرے لطیفے کافی مضحکہ خیز ہیں۔ پھر ایک دن سلطان بازار کے پاس آکر رکا، اس نے میرا بڑا ذکر سنا تھا۔ مجھے یہ جان کر بہت جوش آیا اور میں نے ایک بڑی غلطی کر دی، اس رات خاص طور پر میں نے کہانیاں سنانے کی بجائے ایک کے بعد ایک لطیفہ سنایا۔ سلطان کو شدید مایوسی ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ اگر میں نے یہ لطیفے نہ سنانے کا وعدہ نہ کیا تو مجھے جادو کے چراغ میں ڈال دیا جائے گا، اور میں نے انکار کر دیا تو مجھے چراغ میں بند کر کے اسے صحرا میں پھینک دیا گیا۔‘‘
    فیونا نے کہا ایک تحفہ میں بھی آپ کو دینا چاہتا ہوں، پھر اس نے جیب سے ایک چھوٹا سا پیکٹ نکال کر اسے تھما دیا۔ حکیم حیرت سے اس پیکٹ کو دیکھنے لگا۔ فیونا بولی اسے کھولو اور اس میں موجود اسٹکس میں سے ایک نکال کر منھ میں ڈال لو، اور ہاں اسے ببل گم کہتے ہیں۔
    حکیم نے ان کے کہنے کے مطابق ڈرتے ڈرتے ایک ببل گم منھ میں رکھ کر چبایا، اگلے ہی لمحے اس کے منھ میں مٹھاس پھل گئی۔ کچھ دیر بعد وہ بولا کیا اسے بس یوں ہی چباتے رہنا ہے۔ فیونا ہنس کر بولی، ابھی ایک اور تماشا دکھاتی ہوں ٹھہریں۔ پھر اس نے بھی ایک ببل گم منھ میں ڈال کر چبانا شروع کیا اور پھر اچانک اسے دانتوں سے باہر نکال کر اس میں ہوا بھری اور بلبلا بنا دیا۔ دھیرے دھیرے وہ فیونا کے منھ پر بڑا ہوتا گیا اور پھر اچانک پھٹ گیا اور اس کی بلبلہ اس کی ناک پر پھیل گیا۔ جبران اور دانیال ہنسنے لگے، چراغ والا جن بھی ہنس پڑا۔ فیونا بولی جب بھی آپ فارغ ہوں اور بور ہو رہے ہیں تو ببل گم چبا لیا کریں۔
    اور پھر وہ لمحہ آ گیا جب حکیم نے رخصت ہونا تھا، وہ اس وقت ریت پر کھڑے تھے، حکیم اپنے اڑن قالین پر بیٹھ گیا اور ان کی طرف جھک کر بولا، کیا تم واقعی جاتے جاتے ایک لطیفہ نہیں سننا چاہو گے مجھ سے؟ تینوں کے منھ سے بہ یک وقت نکلا ’’نہیں۔‘‘ حکیم نے کندھے اچکائے اور ہوا میں اڑتا چلا گیا۔ فیونا نے گہری سانس لے کر ان دونوں کی طرف دیکھا، جبران آہستگی سے بولا، ہمارے بھی جانے کا وقت آ گیا ہے۔ تینوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا اور فیونا منتر پڑھنے لگی۔۔۔ دالث شفشا یم بٹ ۔۔۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • دو سو چھ ویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دو سو چھ ویں قسط: پُراسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    "جن ایک ایسے آدمی کو جانتے ہیں جو سبز پہننا پسند کرتا ہے؟ یہ مزاحیہ ہے، ہے نا؟” حکیم ہنستے ہنستے اپنے اطراف میں ریت پر گھومنے لگا۔ ٹرین کی گرج کی طرح ایک شور نے زمین کو ہلا دیا۔ "اوہ۔ میرے جانے کا وقت۔” وہ جانے لگا لیکن ہچکچاتا رہا۔ تیزی سے بات کرتے ہوئے، اس نے کہا، "میں جانے سے پہلے، میرے پاس آپ کے لیے کچھ ہے۔ یہاں، کالم. چراغ تمہارا ہے۔ اس کی اچھی طرح حفاظت کریں اور اس کے اندر کسی جن کو نہ پھنسائیں۔ فیونا، آپ کو اور ایلسپیٹ کو اپنے تحائف کا انتظار کرنا پڑے گا۔ مجھے جانا ہوگا۔ میں آپ کو چھپانے کا مشورہ دیتا ہوں۔ ابھی!” جن غائب ہو گیا۔
    اچانک چراغ والا جن اچھل کر بولا ’’میرے جانے کا سمے آ گیا، میں تو نکل رہا ہوں، اور تمھیں بھی مشورہ ہے کہ کہیں چھپ جاؤ۔‘‘ ابھی وہ تینوں اس کی بات سمجھے بھی نہیں تھی، ایک طرف تو حکیم غائب ہو گیا، دوسری طرف انھوں نے اپنی طرف ایک بھورے رنگ کی دیوار تیزی سے بڑھتی دیکھی، جس میں سے گرج کی آواز آ رہی تھی۔ جبران چلایا: ’’یہ ریت کا طوفان ہے، بھاگو!‘‘ اور وہ تینوں دوڑے پڑے۔
    انھیں چھپنے کے لیے قلعے کا ایک گوشہ ملا، جہاں بیٹھ کر انھوں نے خود کو جادوئی قالین سے ڈھانپ لیا۔ قالین کے نیچے وہ ریت کے طوفان کی دہشت ناک آواز سنتے رہے۔ ریت کے ذرے انھیں ایسے چبھ رہے تھے جیسے مکھیوں کے غول ڈنک مار رہا ہو۔ شور اتنا تھا کہ انھیں کان بہرے ہونے کا احساس ہونے لگا اور ہوا اتنی گاڑھی ہو چکی تھی کہ ان کے لیے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ جب انھوں نے سانس لینے کی جدوجہد کی تو پھیپھڑے درد سے پھٹنے لگے۔
    اچانک ان کے ہاتھوں سے قالین بھی چھوٹ گیا۔ فیونا بہ مشکل بول پائی کہ یہ تیسرا پھندا ہے۔ ریت کے طوفان نے قالین کو اڑایا اور وہ پل بھر میں غائب ہو گیا۔ اور پھر ان کو بھی ریت نے ڈھانپنا شروع کر دیا۔ فیونا تکلیف کے عالم میں سانس روک روک بولی: ’’ہمارا دم گھٹنے والا ہے۔ ریت ہمیں ڈھانپ لے گی اور ہم سانس نہیں لے پائیں گے۔‘‘ کچھ ہی دیر میں جبران اور دانیال کے حواس سے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، وہ تینوں ایک دوسرے سے لپٹے بیٹھے تھے، اور اس عالم میں تین گھنٹے گزر گئے۔ ریت ان کی گردنوں تک جمع ہو گئی تھی، اور وہ اس میں دفن ہونے جا رہے تھے۔ طوفان تھمنے لگا تو دانیال کی ڈوبتی آواز آئی: ’’میں اپنا ہاتھ نہیں ہلا پا رہا ہوں۔‘‘
    ایسے میں فیونا کو یاد آیا کہ وہ موسم بدل سکتی ہے، اس نے جلدی سے بارش سے بھرے بادلوں کے بارے میں سوچا۔ اور ذرا دیر میں صحرا میں بارش شروع ہو گئی، ان تینوں کو اپنے چہروں پر، جو اُس وقت ریتے باہر تھے، چھینٹے پڑنے کا احساس ہوا۔ اگلے ایک گھنٹے تک بارش برسنے کے بعد ہوا میں ریت کے طوفان کے اثرات ختم ہو گئے، اور جگہ جگہ ریت میں پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں سی بن گئیں۔ دانیال نے دیکھا کہ کچھ ہی فاصلے پر جادوئی قالین بھی زمین پر گرا پڑا تھا۔
    کچھ ریت پانی میں بہہ گئی تھی اور باقی کو انھوں نے ہٹایا اور باہر نکلے، انھوں نے اپنے سروں پر قوس قزح کو دیکھا، تو ان کے موڈ کچھ بہتر ہوئے۔ ایسے میں چراغ والا جن پھر نمودار ہو گیا۔ اس نے تالی بجائی اور قالین تین گنا بڑا ہو گیا، اور اس پر ماربل کی خوب صورت میز نمودار ہو گئی جس کے پائے صندل کی لکڑی کے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ میز پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوئے تھے۔ قالین پر چار عدد خوب صورت اور نرم رنگین تکیے بھی اب نظر آ رہے تھے۔ حکیم نے کہا: ’’یہ چار اس لیے ہیں کہ اب میں بھی تم لوگوں کے ساتھ اس پر سفر کروں گا۔‘‘ اس نے بتایا ’’چاندی کے ان تین خوب صورت جگوں میں انگور، انار لیموں کا رس ہے۔ ان پلیٹوں میں انگور، کھجور، خربوزے، کیلے اور کیوی کے پھل چنے گئے ہیں جنھیں کاٹا گیا ہے۔ اور ان پلیٹوں میں چکن، گائے کا بھنا گوشت، مسالے دار چٹنی، میمنے کے کباب، بادام اور پائن والے چاول، اور چپاتیاں ہیں۔ اور ہاں یہ والی ڈش ملوخیہ کہلاتی ہے، یہ چکن اور چاول کے ساتھ پالک کا اسٹو ہے، اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘
    اتنی چیزیں دیکھ کر ان کی بھوک چمک اٹھی، اور چہروں پر خوشی کے اثرات اور گہرے ہو گئے۔
    جاری ہے…
  • ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    تاریخ ایک ایسی شے ہے جس کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا رہا ہے کہ لوگ اس سے سبق لیتے ہیں، کیا واقعی ایسا ہے؟ ایسا کون سا نمایاں سبق ہے جو گزشتہ پانچ سو سالوں سے نہایت تیزی سے ترقی کرتے انسان نے تاریخ سے حاصل کیا ہے، اور اسے مد نظر بھی رکھا؟

    تاریخ ایک ایسا اندھیرا ہے جس میں چلنے والی گولی کے بارے میں کبھی پتا نہیں چلتا کہ ٹریگر دبانے والا کون تھا! اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ کے صفحے پر جا بہ جا روشنی کے دائرے بنے نظر آتے ہیں لیکن ان روشن دائروں کے آس پاس ایسے ان گنت دائرے بھی بنے ہوئے ہیں جو تیز روشنیوں میں دکھائی نہیں دیتے، یہی تاریخ کے صفحے کے وہ اندھیرے دائرے ہیں جن میں رونما ہونے والے درد ناک واقعات صدیوں سے سسک رہے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جن پر ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا، محض چند عشروں کی سیاہی کے آگے بھی یہ ’سچ سنانے کی ہمت‘ جٹا نہیں پائے۔ ایسے واقعات میں ایک واقعہ 14 سالہ ننھے جاں باز اقبال مسیح کا بھی ہے، جس کا سینہ منھ اندھیرے رائفل سے داغ دیا گیا۔ بندوق کی دھمک تھی یا ایک روشن روح پر اندھیرے شیطان کا بھیانک حملہ، کہ پیچھے کھڑی پرانی سی سائیکل لرز کر مٹی پر گر پڑی۔

    قصہ ایک ڈاکیومنٹری کا

    راوا (Rava) ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت کچھ عرصے سے تسلسل کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے ایسے گوشے ’بے نقاب‘ کیے جا رہے ہیں، جو اپنے وقت پر تو اخبار کی محض ایک سُرخی بن کر رہ گئے تھے، تاہم کہیں پر ان روشن اور کہیں پر ان تاریک دائروں میں بہت سارا ’سچ‘ یا تو ہمیشہ کے لیے دب گیا، یا اس طرح لوگوں کے سامنے ابھر کر نہ آ سکا، جس طرح آنا چاہیے تھا۔ راوا فلمز نے یہ کہانیاں تاریخ کی مٹی کھود کر نکالیں اور انھیں اسکرین کی زینت بنا دیا۔ دل چسپ امر یہ ہے ایک طرف جب کہ پاکستان میں سنیما انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے، دوسری طرف راوا فلمز کے تحت بننے والی ڈاکیومنٹری فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما اسکریننگ ہو رہی ہے؛ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور جرات مندانہ قدم ہے۔ راوا نے اپنا مشن بنایا ہوا ہے کہ پاکستان میں اس ژانرا کو فروغ ملے، اسی لیے تواتر کے ساتھ نہایت منفرد موضوعات پر ڈاکیومنٹریز بنائی جا رہی ہیں۔

    راوا نے اپنے یو ٹیوب چینل پر جو تازہ ترین ڈاکیومنٹری جاری کی ہے، اس کا عنوان ہے: ’’قتل معصوم _ اقبال مسیح _ ننھا جاں باز‘‘ جس کی اسکریننگ حسبِ سابق طارق روڈ پر واقع ارینا سنیما میں کی گئی۔

    اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟یہ ڈاکیومنٹری سید عاطف علی نے بنائی ہے، ڈراما انڈسٹری میں اپنا آخری ڈراما ’خان‘ بنانے کے بعد انھوں نے اگلے پڑاؤ کی طرف سفر شروع کیا، انھوں نے فلمیں ’پری‘ (2018) اور ’پیچھے تو دیکھو‘ (2022) بنائیں، اور اب راوا ڈاکیومنٹری فلمز کے تحت انھیں ’فری ہینڈ‘ مل گیا ہے کہ وہ جس موضوع پر چاہے ڈاکیومنٹری بنا لیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ڈراما ہو یا فلم میکنگ، ناظرین کو نئے تجربات سے روشناس کرایا جائے، انھیں سماج کے ایسے گوشوں اور ایسے تصورات سے متعارف کرایا جائے جو انھیں کچھ نیا سوچنے پر مائل کر سکے، چناں چہ انھوں نے سرپھری عشق کے نام سے بھی ایسا ہی ایک ڈراما بنایا تھا جو محرم پر ہم ٹی وی سے آن ایئر ہوا تھا۔ اب انھوں نے ڈاکیومنٹریز کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور یہ ایک ایسی دنیا ہے جو مختلف رنگوں کے ان گنت شیڈز سے بھری ہوئی ہے۔ راوا کے روح رواں سابق بریگیڈیئر طارق رفیق کے ساتھ مل کر عاطف علی نے متعدد ڈاکیومنٹریز ’تخلیق‘ کی ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ ترین تخلیق ایک ایسے 14 سالہ بچے کی کہانی ہے جس نے پاکستان میں ’بونڈڈ لیبر‘ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک کہانی جو درد بھری ہے اور آنکھوں میں آنسو بھر دیتی ہے۔ اس کا اسکرین پلے بھی سید عاطف علی نے بلال حسین کے ساتھ مل کر لکھا ہے۔

    فیکٹری میں بچے گروی رکھیں

    آج جب کہ پاکستان کے جدید شہروں بلکہ دیہات تک میں بھی کوئی اس بات کو سوچ نہیں سکتا کہ ننھے بچوں کو گروی رکھ کر بھی سرمایہ داروں سے قرض کا حصول کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود یہ قبیح حمل کہیں نہ کہیں جاری ہے۔ یہ مزدوری کی ایک نہایت غلیظ شکل تھی جس میں ایک شخص کارخانہ دار سے قرض لیتا اور اسے چکانے کے لیے پھر اپنے بچے بہ طور مزدور گروی رکھ کر لگوا دیتا۔ یہ بچے اپنے باپ کے لیے گئے قرض کی رقم اپنی محنت سے چکاتے۔ اسے ’بونڈڈ چائلڈ لیبر‘ کہا جاتا ہے، جو زیادہ تر ملک میں قالین بافی کی صنعت میں رائج تھی۔ اس نے ہزاروں بچوں سے ان کی معصومیت چھینی، کھیلنے کودنے کے دن چھین کر ان پر گھر کا قرض چکانے کا سنگین ترین بار ڈالا۔ پاکستان میں بننے والے قالین بیرون ملک جاتے تھے اور ملکی برآمدات کا یہ ایک اہم ذریعہ تھا، ایک ایسا ذریعہ جس میں مصنوعات بچوں کے خون سے رنگ تھیں۔
    خون کا یہی رنگ دکھانے کے لیے سید عاطف علی اور راوا فلمز نے ’’اقبال مسیح‘‘ کے نام سے یہ ڈاکیومنٹری بنائی ہے۔

    اقبال مسیح سے ملیے!

    16 اپریل 1995 ک شام تھی جب رکھ باؤلی کے اطراف کھیتوں میں دو فائر گونجے اور ایک چودہ سالہ بچے کی لاش مٹی پر گر گئی۔ یہ ضلع شیخوپورہ کے قصبے مریدکے کے گاؤں رکھ باؤلی کا قصہ ہے جہاں 1983 میں اقبال مسیح پیدا ہوا تھا۔ اس کے بڑے بھائی کی شادی پر والد نے ارشد نامی ایک قالین باف سے قرض لیا اور پھر ادائیگی نہ کر سکنے پر اقبال کو محض 4 سال کی عمر میں اس کے ہاتھوں گروی رکھ دیا اور وہ اس طرح دن میں چودہ گھنٹے قالین بنانے کے کام پر لگ گیا لیکن وہ قرض کبھی ادا نہ ہوا۔ دس سال کی عمر میں وہ ایک دن آخر کار غلامی کا یہ پھٹہ اتار کر بھاگ گیا لیکن نو آبادیاتی نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے مامور پولیس نے اسے پکڑ کر پھر کارخانے دار کے حوالے کر دیا۔ بھاگنے کی کوششوں میں آخرکار ایک دن وہ کامیاب ہو گیا، اور چائلڈ لیبر کے خلاف سرگرم ایک تنظیم کے پاس جا پہنچا، جس کا نام تھا ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘ (بی ایل ایل ایف)۔ یہ تنظیم اس دکھ بھری کتھا کا ایک اہم حصہ ہے اور خود اس پر بھی الزام ہے کہ اس درد بھری کہانی کو جنم دینے میں اس کا بھی کوئی ’نادیدہ کردار‘ ہے۔

    اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟

    گیارہ سال کی عمر میں بھی 4 فٹ سے کم قد والے اقبال مسیح کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی، اور چہرے مہرے کے ایسے نقوش تھے کہ جبری مشقت کے شکار بچوں کے لیے جب وہ تحریک کا حصہ بنا تو جس طرح جنگل میں آگ پھیلتی ہے، اسی طرح اس کی شہرت پاکستان سے نکل کر عالمی سطح پر پہنچ گئی۔ اسے عالمی سطح پر زندگی میں اور بعد از مرگ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ جس دن اس کی ننھی زندگی کا چراغ گُل کر دیا گیا، وہ دن پاکستان میں قالین سازی پر بہت بھاری پڑا، اور دنیا نے جلد ہی پاکستانی قالین قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ اس میں معصوم بچوں کے ارمانوں اور ان کے مستقبل کا خون شامل ہے۔

    اقبال مسیح کو کس نے مارا؟

    یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کی تلاش میں جتنی بھی کوششیں کی گئیں، بار آور نہ ہو سکیں۔ عالمی دباؤ اور اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی خصوصی ہدایات کے باوجود ایک دن اس کیس کو ہمیشہ کے لیے فائلوں میں بند کر دیا گیا۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جس ملک میں لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا آج تک کوئی تعین نہیں ہو سکا، تو وہاں اقبال مسیح کے قاتل کیسے پکڑے جائیں گے۔ لیکن راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے اس موضوع کو ایک بار پھر بند فائلوں کی گرد جھاڑ کر باہر نکال لیا ہے۔ اور سید عاطف علی نے اپنی فلم میکنگ اور ہدایت کاری کے شان دار ہنر کو بروئے کار لا کر اتنی خوب صورتی سے اسے ’تخلیق‘ کی سطح پر لا کر پیش کیا ہے کہ دیکھنے والا آخری لمحے تک یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کوئی فیچر فلم نہیں ایک سچی کہانی ایک ڈاکیومنٹری دیکھ رہا ہے، جس میں کوئی فکشن نہیں ہے جو اسے حقیقت کی دنیا سے دور لے جا کر مبہوت کر دینے والے مناظر میں گم کر دے۔ فلم اور ڈرامے کے معروف نقاد حنیف سحر نے اس ڈاکیومنٹری کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’’راوا ڈاکیو منٹریز میں مسلسل نکھار آ رہا ہے، ہر نئی ڈاکیومنٹری پہلے سے زیادہ مستند اور سنیما ٹوگرافی کے کمالات کے اضافے کا ایک اطلاع نامہ ثابت ہو رہی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید لکھا ’’پہلی بار ایسا معلوم ہوا کہ عاطف علی نے اپنے ڈرامے کے تجربے کو بہت ہی مہین اور خاموش پیرائے میں نفاست سے استعمال کیا، وہ بھی ایسے کہ احساسات درہم برہم ہوئے اور پتا بھی نہیں چلا کہ آپ ڈراما نہیں بلکہ ایک دستاویزی فلم دیکھ رہے ہیں۔‘‘

    آپ ڈاکیومنٹری دیکھ لیتے ہیں اور سوال پھر بھی قائم رہتا ہے کہ اقبال مسیح کو کس نے مارا؟ اور ایک ضمنی سوال یہ بھی کہ گولی کس نے چلائی تھی؟ اس بات سے یہ غلط فہمی نہ ابھرے کہ اگر جواب فراہم نہیں ہوا تو اس ڈاکیومنٹری کا مقصد کیا تھا۔ مقصد تو بہت واضح ہے کہ تاریخ کے ایک تاریک دائرے میں چھپے اس دردناک کہانی کے ’سچ‘ کی تلاش میں جنھوں نے امیدیں تج دی تھیں، اور تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے، انھیں پھر چونکایا جا سکے کہ ان پر ایک قرض یہ بھی ہے کہ وہ اقبال مسیح کے قاتلوں کا پتا چلائیں۔

    ڈاکیومنٹری پر سوال

    راوا کی اس خوب صورت پیش کش میں سنیماٹوگرافی، ویژولز اور ایڈیٹنگ کا بہترین کام کیا گیا ہے۔ بالخصوص کرائم سین کی پیش کش بے حد عمدہ ہے۔ ساؤنڈ ایفکٹس میں بھی کوئی خامی نہیں رہنے دی گئی ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ ہم کوئی عالمی معیار کی ڈاکیومنٹری نہیں دیکھ رہے ہیں، محدود وسائل میں، بلاشبہ، یہ ایک عالمی معیار کی پیش کش ہے۔

    لیکن اس ڈاکومنٹری کا دوسرا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اس کی کہانی/اسکرین پلے میں ایک اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بہ طور ریسرچر فہمیدہ یوسفی اور بلال حسین نے اس قصے کے اہم پہلوؤں کو جمع کیا، لیکن بہ طور حساس رائٹر شاید عاطف علی سے بونڈڈ چائلڈ لیبر کا یہ سماجی ثقافتی پہلو نظر انداز ہو گیا کہ ایک خاندان کس طرح اپنے قرضوں کا بوجھ ایک معصوم چار سالہ بچے پر لاد سکتا ہے؟ چناں چہ، اس پیش کش میں ہمیں اقبال مسیح کے بھائیوں کی مظلومیت پوری طرح دکھائی دیتی ہے لیکن ان سے یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ ایک بڑے بھائی کی شادی کا قرضہ ایک معصوم بچے کے خون سے ادا کرنے کے لیے انھوں نے رضا مندی کیسے دکھائی؟ ایک غریب ہمیشہ خود کو غریب کہلوا کر بڑے سے بڑے سماجی اور اخلاقی جرائم کی ذمہ داری سے خود کو بچانے کی کوشش میں مصروف نظر آتا ہے۔ یہی ایک موقع تھا جب انھیں اس کڑے سوال کا سامنا ضرور کرنا تھا۔

    یہ ڈاکیومنٹری اپنے آغاز ہی سے ناظرین کو پوری طرح جکڑنے کی خاصیت رکھتی ہے۔ اس میں جذبات اور رشتوں اور سیاسی سفاکیوں کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اس لیے بلاشبہ یہ سید عاطف علی کی اب تک بہترین کاوش ہے۔ لیکن اپنے مواد (کونٹینٹ) کے اعتبار سے اس میں ایک چونکانے والا موقع وہاں آتا ہے جب اچانک ڈاکیومنٹری کی فضا بدل جاتی ہے اور ایک مجرم ہونے کا سارا فوکس این جی او ’بونڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ‘کے سربراہ احسان اللہ خان پر آ جاتا ہے۔ یہ اتنی چابک دستی سے ہوتا ہے کہ ذہن میں خیال ابھرتا ہے کہ کیا یہی اس ڈاکیومنٹری کا مقصد ہے؟ اسٹیبلشمنٹ کے اسٹائل پر اچانک مرکوز ہوتی یہ توجہ آخر کار دھیرے دھیرے تحلیل ہونے لگتی ہے لیکن ذہن میں اپنے پیچھے دھوئیں کی ایک لکیر ضرور چھوڑ جاتی ہے۔

    اور اختتام پر پہنچنے کے بعد ایک ہی سوال ذہن میں رہ جاتا ہے، ایک دکھ بھرا سوال ۔۔۔۔ کیا اس معصوم بچے کے قاتل کا کبھی پتا نہیں چل پائے گا؟ یہ تو ایک اور دھبّا ہوگا جو یہاں کی ۔۔۔۔ ہمارے پاکستان کی ’’مقامی انسانیت‘‘ کو مزید داغ دار کرے گا۔ بلاشبہ جس انسانیت کا معیار دنیا میں اب رائج ہے، ہم ابھی اس سے بہت دور ہیں۔ ہمارے لیے اب بھی دنیا ہمارے نو آبادیاتی سماج میں سمٹی ہوئی ہے جہاں اقبال مسیح کی موت ایک غریب بچے کی موت ہے، ایسی موت جو یہاں روز کسی نہ کسی بہانے واقع ہوتی رہتی ہے۔۔۔ اور اربابِ اختیار کہہ دیتے ہیں اقبال مسیح مر گیا، تو کیا ہوا، اسے مرنا ہی تھا، اب دوسری دنیا میں سکون سے جی رہا ہوگا!