Author: رفیع اللہ میاں

  • گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ تینوں حیرت سے یہ تفصیل سن رہے تھے۔ اینگس مزید بتانے لگے۔ "اس کی ساتویں بیوی امبر تھی، بیس برس کی، جب کہ شادی کے وقت رالفن اڑتیس کا ہو چکا تھا۔ وہ اسکیتھین نسل سے تھی اور ویسیگوتھز اور ونڈالز کے ساتھ جنگ کے دوران پکڑی گئی تھی۔ اس کی آٹھویں بیوی ایٹروسکن تھی۔”

    "انکل میں جانتی ہوں کہ وہ کہاں سے تھی، ایٹروسکن شمالی اٹلی میں رہتے ہیں، میں نے ان کے متعلق اسکول میں پڑھا۔” فیونا نے جلدی سے اپنی معلومات سے کام لیا۔

    "بالکل درست، اس کا نام کارینا تھا، اس کی عمر بھی بیس سال ہی تھی، جب کہ بادشاہ کی عمر چالیس تھی۔ نویں بیوی سیلٹک تھی، اس کے بال آتشیں سرخ تھے، وہ بے حد خوب صورت تھی، اور وہ غالباً آئرلینڈ سے تھی۔ وہ رالفن سے بہت چھوٹی تھی، اس وقت اس کی عمر صرف اٹھارہ سال تھی جب کہ رالفن تیتالیس سال کا ہو چکا تھا۔”

    "عمر کا یہ فرق تو واقعی بہت زیادہ ہے۔” فیونا جلدی سے بول اٹھی۔

    "ہاں، لیکن اس زمانے میں ایسا ہونا کوئی خاص بات نہیں تھی۔ دسویں بیوی کا نام ٹائنا تھا، جس کا تعلق قبرص سے تھا۔ وہ اور بھی چھوٹی تھی، کیوں کہ اس کی عمر شادی کے وقت صرف سترہ برس تھی، اور رالفن چھیالیس کا ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی گیارہویں بیوی آنات تھی، جو مصری تھی۔ کتاب میں لکھا ہے کہ آنات کو الیگزینڈریا میں رالفن شاہی خاندان سے بھگا کر لایا تھا۔ شروع میں اس واقعے سے ہر طرف ہنگامہ مچ گیا تھا لیکن پھر دونوں میں محبت ہو گئی اور انھوں نے شادی بھی کر لی۔ اس کی عمر بہ مشکل پندرہ سال تھی، جب کہ بادشاہ پچاس کا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد وہ آنات کے خاندان کے ساتھ مصالحت کرنے میں کامیاب ہو گیا اور وہ مصر کے ساتھ تجارت کرنے لگا۔ اس کی آخری بیوی چھوٹی سی ہیلینا اسپارٹا سے تھی، جسے اب تم یونان کے نام سے جانتے ہو۔ ہیلینا بہت ہی خوب صورت تھی۔ اس کی عمر شادی کے وقت صرف دس سال تھی۔”

    "کیا…. صرف دس سال!” فیونا کی آنکھیں نکل آئیں۔ "یعنی مجھ سے بھی ایک سال چھوٹی۔”

    "دراصل ہیلینا نے اپنی پسند سے اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ وہ بادشاہ سے بے حد محبت کرتی تھی، ان کے دس بچے ہوئے۔”

    "دس بچے۔” فیونا اور جبران نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کھی کھی کرنے لگے۔ "اچھا سنو، شہنشاہ رالفن کے ڈیڑھ سو بچے جوانی ہی میں مر گئے تھے۔” اینگس نے کتاب کا صفحہ غور سے پڑھتے ہوئے کہا۔ "بلاشبہ یہ ایک بہت ہی شان دار خزانہ ہے جو تمھیں ملا ہے۔ یہ آج کے لیے تمھارا تاریخ کا سبق ہوا۔ اچھا، پھر ہوا یہ کہ جادوگر نے بادشاہ کو جادوئی گولا پیش کر دیا جس کے ساتھ ایک ہار بھی تھا۔ لومنا نے جب اس تحفے کی طاقتوں کی وضاحت کی تو بادشاہ نے اسے شکریے کے ساتھ قبول کر لیا اور اس کی بہت تعریف کی۔ لیکن یہ بات چھپی نہ رہ سکی، کیوں کہ گولا جس سنار نے تیار کیا تھا اس نے لوگوں سے یہ راز کہہ دیا۔

    رفتہ رفتہ پوری دنیا میں اس کے بارے میں مشہور ہو گیا۔ دور دراز سے لوگ حملہ آور ہو کر اس جادوئی گولے کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شخص تو تقریباً کامیاب بھی ہو گیا تھا لیکن پھر بھی جادوئی گولا اس کے ہاتھ نہ آ سکا، ہاں جادوگر لومنا اس کے ہاتھوں مارا گیا۔ حملہ آور اسے بادشاہ سمجھا تھا۔ لومنا اس وقت میز کے سامنے بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ حملہ آور نے اس کے دل میں تلوار گھونپ دی۔ اس واقعے سے شہنشاہ رالفن نہایت رنجیدہ ہو گیا۔ اس نے اس میز کو قومی نشان کا اعزاز بخشا، اور اس کے بعد پھر کوئی بھی اس میز پر نہیں بیٹھا۔”
    یکایک جبران اپنی جگہ سے اٹھا اور یوں بولنے لگا جیسے خواب میں بول رہا ہو۔ "کیا یہ وہی میز ہو سکتی ہے جو ہم نے کل قلعۂ آذر میں دیکھی تھی، ہو سکتا ہے اس پر خون کے دھبے اب بھی موجود ہوں؟”

    "عین ممکن ہے۔ کتاب میں لکھا ہے کہ لومنا نے سونے کی ایک تختی پر اپنا نام کھدوا کر اس میز پر اندر کی جانب لگا دی تھی۔” اینگس پھر کتاب کے مندرجات سنانے لگا۔

    دانیال نے پوچھا "جادوگر کو کس نے قتل کیا؟”

    "بارتولف نامی ایک شیطان بادشاہ نے، جو زناد نامی سرزمین سے آیا تھا، وہ ایک بزدل بادشاہ تھا۔ اور وہ رالفن ہی کا بھائی تھا لیکن اس کی طرح بہادر نہیں تھا۔ بارتولف کی چار بیویاں تھیں، جن کے نام صورت، جدائل، شہرت اور مزدل تھے۔ یہ بیویاں وہ اپنے ساتھ ہیڈرومیٹم ہی سے لایا تھا، وہ فونیزی نژاد تھیں، یعنی آج کے لبنان کے علاقے میں واقع قدیم تہذیب سے، بدقسمتی سے بارتولف اپنی بیویوں کے حق میں بہت ہی برا ثابت ہوا۔ کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ان پر ظلم کرتا تھا۔ اس نے اپنے بھائی رالفن کو قتل کرنے کے لیے اپنے انتہائی ماہر قاتل بھیجے لیکن غلطی سے انھوں نے جادوگر لومنا کو قتل کر دیا۔ واقعے کے بعد محافظوں نے قاتلوں کو پکڑا اور پھانسی پر چڑھا دیا۔ کافی عرصے بعد جب بادشاہ رالفن کا انتقال ہو گیا تو جادوئی گولا اور بارہ قیمتی ہیروں والا ہار نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ بادشاہ کیگان پیدا ہوا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پینتالیسویں نسل تک ان میں بیٹے ہی پیدا ہوتے رہے۔ وہ میز بھی ان کے پاس رہی۔ کوئی بھی لومنا کی اچھائی کو بھلانا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ بادشاہ کیگان اور اس کا قلعہ ہائی لینڈ کے قبائل اور اسکاٹ لینڈ کے بادشاہ مالکولم کینمور سے کیسے اوجھل رہا؟ وہ لازمی طور پر اسکاٹ لینڈ بھیس بدل کر آتا ہوگا۔ اس نے یہاں کچھ وقت بھی گزارا ہوگا اور ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت ہی معزز شخص کے روپ ہی میں ٹھہرا ہوگا۔” اینگس کے ماتھے پر لکیریں ابھر آئیں۔

    "وہ لازماً عربی لباس میں آیا ہوگا ،اسی طرح اس کے خدمت گار اور محافظ بھی عربی وضع قطع میں رہے ہوں گے۔” جبران نے اپنا خیال پیش کیا۔

    (جاری ہے….)

  • دسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دسویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "شہنشاہ رالفن نے لومنا کو اپنا جادوگر بنا لیا لیکن وہ اسے صرف اچھے کاموں کے لیے استعمال کرتا تھا۔ جنگوں میں بھی جادوگر مدد کے لیے آگے آتا لیکن رالفن اسے منع کر دیتا۔ بادشاہ لومنا سے دو مواقع پر مدد لیا کرتا تھا؛ ایک جب اسے اپنی رعایا کی بیماریوں اور کمزوریوں کو دور کرنا ہوتا تھا، دوم جب اچانک قحط پڑ جاتا تھا۔ قحط کی صورت میں بادشاہ لومنا کو غذا کی فراہمی کے کام پر لگا دیتا تھا۔ ایک جنگ کے دوران رالفن شدید زخمی ہو گیا۔ لومنا کو اپنے بادشاہ سے بہت پیار تھا، اور وہ اس کا شکر گزار بھی تھا، اس نے بادشاہ کی جان بچا لی۔ جب رالفن صحت یاب ہو گیا تو لومنا نے عرض کیا کہ وہ انھیں ایک خاص تحفہ دینا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا، اور ساری دنیا میں گھوم پھر کر بارہ ہیرے جمع کیے۔ پھر ایک سنار سے کہہ کر ایک سنہری گیند بنوائی، ایک ایسی گیند جس پر یہ بارہ ہیرے رکھنے کی جگہیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ باتیں اس نے بہت راز میں رکھیں۔ ان میں سے ہر ہیرا رالفن کی ایک ایک بیوی کے لیے تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے ہر حال میں بارہ ہی ہیرے جمع کرنے ہیں کیوں کہ رالفن اپنی تمام بیویوں کو بہت چاہتا تھا، یہ اور بات تھی کہ اس کی بیویاں حسد میں مبتلا تھیں۔ ہر ایک خود کو زیادہ اہم ثابت کرنے کی کوشش میں لگی ہوتی تھی۔ یہاں ان بیویوں کی فہرست بھی دی ہوئی ہے، کیا آپ لوگ اسے سنا پسند کریں گے؟”

    اینگس نے ٹھہر کر ان کی جانب دیکھا۔ فیونا کو ان بیویوں کے ناموں میں دل چسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن اس نے دیکھا کہ خود اینگس کے چہرے پر جوش کے آثار چھائے ہوئے ہیں، تو اس نے بے دلی سے کہا۔ "جی انکل سنائیے۔” وہ اینگس کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتی تھی، کیوں کہ وہ دیکھ رہی تھی کہ اینگس کو کتاب میں دی ہوئی معلومات میں بے حد دل چسپی محسوس ہو رہی ہے۔ اینگس سنانے لگا۔ "ان میں ہر بیوی دنیا کے مختلف علاقے سے آئی ہوئی تھی، اور رالفن کی پہلی بیوی کا نام پولا تھا، وہ پونِک تھی۔”

    "پونِک… اس کا کیا مطلب ہے؟” جبران نے ناک کھجائی۔

    "اس کا مطلب ہے کہ پولا ہیڈرمیوٹم سے آئی تھی۔ جب ان کی شادی ہوئی تو اس وقت دونوں کی عمر صرف بیس سال تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ رالفن یا تو بورل سے وہاں گیا تھا یا پھر وہ کسی دور میں وہاں رہا ہوگا۔ جو لوگ کارتھیج کے آس پاس رہتے تھے، وہ پونیشیائی نسل سے تعلق رکھتے تھے، اسے مختصر طور پر پونِک کہتے تھے۔”

    "اس میں تو کافی تفصیل درج ہے۔” جبران حیران ہوا۔

    "ہاں ، آگے سنو۔” اینگس سر اٹھائے بغیر بولے۔ "اس کی دوسری بیوی فرانک تھی، اس کا نام بطینی تھا۔ اس سے پہلے کہ تم میں سے کوئی پوچھے میں خود بتا دیتا ہوں کہ فرانکس دراصل فرانسیسی تھے، جنھیں آج ہم فرنچ کہتے ہیں۔ اس وقت رالفن کی عمر تئیس برس تھی جب کہ بطینی انیس سال کی تھی۔ تیسری بیوی کا نام آبدی تھا، وہ ناک تھی۔”

    تینوں ہنسنے لگے۔ "یہ ناک کیا ہے؟” فیونا بے خیالی میں اپنی ناک مسلنے لگی۔ "یہ کون سا ملک ہے؟”

    "بری بات ہے، اگر تم لوگ کسی بات کے بارے میں علم نہیں رکھتے تو اس کے متعلق ہنسنا نہیں چاہیے۔” اینگس نے بہ ظاہر ناراضی کا اظہار کیا۔

    "سوری …. سوری انکل۔” انھوں نے جلدی سے معذرت کی۔ وہ بتانے لگے۔ "ناکس دراصل افریقا میں نائجیریا کی ثقافت والے لوگ ہیں۔ وہ لوہے سے چیزیں بنانے میں ماہر تھے۔ وہ اس وقت بہ مشکل سترہ سال کی تھی، اور غالباً شہزادی تھی، جب کہ بادشاہ رالفن اب چھبیس برس کا ہو گیا تھا۔ اس کی چوتھی بیوی حضرہ رومن تھی۔ اس کی عمر بھی انیس سال تھی جب کہ رالفن انتیس سال کا تھا۔ پانچویں بیوی جرمن تھی جس کا نام گریسلڈا تھا، وہ تمام بیویوں میں سب سے زیادہ خوب صورت تھی۔ اس کے بال نقرئی سنہری تھے اور آنکھیں سمندر کی طرح نیلی تھیں۔ رالفن کی عمر اس سے شادی کے وقت بتیس سال تھی اور گریسلڈا اٹھارہ سال کی تھی، چھٹی بیوی کا نام لیلا تھا، وہ بھارت سے تھی۔”

    "بھارت… میں نے تو یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا۔” فیونا جلدی سے بولی۔ اس سے پہلے کہ اینگس جواب دیتا، جبران نے فوراً بول پڑا۔ "میں بتاتا ہوں، یہ انڈیا کا سنسکرت نام ہے، اور ہمارا پڑوسی ملک ہے۔”

    "ہاں انڈیا سنا ہے میں نے۔” فیونا نے اثبات میں سر ہلایا۔

    اینگس کتاب پڑھنے لگے۔ "لیلا کے بال لمبے سیاہ تھے اور اسی طرح آنکھیں بھی سیاہ کٹار تھیں۔ جب ان کی شادی ہوئی تو بادشاہ پینتیس سال کا جب کہ لیلا اکیس برس کی تھی۔

    (جاری ہے….)

  • نویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    انھوں نے احتیاط کے ساتھ کے خستہ صفحات الٹے اور بولے۔ "یہ تو بے حد دل چسپ کتاب ہے، تم لوگوں کو یہ کہاں سے مل گئی؟ یہ تو کسی بہت قدیم ایلوری کیتھ مور نامی مصنف نے لکھی ہے۔ یہ کہانی شہنشاہ کیگان سے متعلق ہے جو یہاں سے بہت دور ایک جگہ رہتا تھا، اس کے پاس دولت اور خزانوں کے انبار تھے۔”

    اینگس کتاب کا پہلا صفحہ الٹتے ہی بولتے چلے گئے۔ "اس کے پاس اتنی دولت تھی کہ کئی لوگ اس کی جان کے دشمن بن گئے اور یہ دولت حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے۔ اس کتاب کی خطاطی بہت ہی پیاری ہے۔ مجھے حیرت ہو رہی ہے اتنی خوب صورت خطاطی دیکھ کر، کیوں کہ آج تک میں نے ایسی خطاطی نہیں دیکھی۔ ارے، تم لوگوں نے بتایا نہیں کہ یہ کتاب تمھیں کہاں سے ملی؟”

    فیونا اپنے دوستوں کی طرف دیکھنے لگی، پھر ایک طویل سانس لے کر بولی۔ "انکل، میں اس وقت تک آپ کو یہ نہیں بتا سکتی جب تک آپ ہمارے ساتھ اسے راز رکھنے کا وعدہ نہ کریں۔ آپ میری ممی سے اس کا ذکر نہیں کریں گے۔”

    اینگس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "میرا خیال ہے تم لوگ مجھ پر اعتبار کر سکتے ہو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے اپنے ہی تک محدود رکھوں گا۔” یہ سن کر فیونا نے انھیں قلعۂ آذر میں داخل ہونے کی پوری کہانی سنا دی۔ وہ سر ہلا کر بولے "تو یہ بات ہے، بہت دل چسپ!”

    جبران پہلی مرتبہ بولا۔ "کیا اس کتاب میں اور بھی کچھ لکھا ہے؟ کوئی نقشہ وغیرہ؟”

    "بہت کچھ لکھا ہے اس میں، بے قرار مت ہو،میں بتاتا ہوں۔” اینگس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ "اس میں لکھا ہے کہ شہنشاہ کیگان کے پاس جادوئی طاقت تھی جو اسے کسی خاص جادوئی گولے سے حاصل ہوئی تھی۔ جب وہ اسے استعمال کرتا تھا تو اس میں ان بارہ چیزوں کے کرنے کی صلاحیت آ جاتی تھی۔ اس میں یہ سارے نام لکھے ہوئے ہیں، کیا انھیں دہراؤں؟”

    اینگس جو خود بھی کتاب کی تحریر میں کھو گئے تھے، سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ تینوں یک زبان ہو کر چلائے۔ "ہاں، ہاں بتا دیں۔”

    "تو غور سے سنو، نمبر ایک، سب سے پہلے اس کے پاس ایسی صلاحیت آ جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ غاروں اور زمین میں دفن خزانوں کو کھوج سکتا تھا۔ وہ کسی نقشے کو دیکھتا، اس کے درست مقام کو سمجھ لیتا اور پھر اپنے آدمیوں کے ذریعے وہ مدفون خزانہ نکال لیتا، اسی لیے وہ اتنا دولت مند تھا۔”

    یہ سن کر فیونا نے ٹھنڈی سانس بھری۔ "یہ واقعی ایک زبردست قوت ہے۔ کاش میرے پاس بھی زیورات ہوں تو ہم کسی بڑے شہر کو منتقل ہوں اور مزید بیزار ہونے سے بچ جائیں۔”

    "فیونا، دولت سب کچھ نہیں ہوا کرتی، یہ دیکھو کہ اس نے شہنشاہ کیگان کے ساتھ کیا کیا؟” اینگس نے فوراً کہا "خیر، سنو، دوسری طاقت یہ تھی کہ وہ لوگوں کو اشیا میں تبدیل کرنے پر قادر ہو جاتا تھا۔”

    "کیا مطلب؟ کس قسم کی چیزوں میں؟” جبران چونک اٹھا۔ "ایسا تو کتاب میں کچھ نہیں لکھا۔” اینگس نے جواب دیا۔ "لیکن ہم خود بھی اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ مثلاً انسان کو پتھر، بوتل یا درخت میں تبدیل کرنا وغیرہ ۔” کہتے کہتے اینگس کی آنکھوں میں پراسرار چمک آ گئی۔ "کچھ ایسے لوگ ہیں جنھیں میں بہت شوق سے چیزوں میں تبدیل کرنا چاہوں گا۔”

    وہ تینوں مسکرانے لگے۔ اینگس نے کہانی جاری رکھی۔ "اس کے پاس جو تیسری قوت تھی، وہ خود کو نظروں سے غائب کرنے سے متعلق تھی۔ وہ جانوروں کے ساتھ باتیں کرسکتا تھا، انھیں اپنے حکم پر چلا سکتا تھا، جب کہ موسم، سمندر اور پانیوں پر بھی اس کا اختیار ہو جاتا تھا۔ وہ کئی زبانیں سمجھنے لگتا اور دوسروں کا دماغ پڑھ سکتا تھا۔ اور وہ خود کو کہیں بھی پہنچا سکتا تھا، دور دراز کے ملکوں میں بھی۔ایک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ خود کو چھوٹا بڑا بھی بنا سکتا تھا، اور کہیں بھی اچانک ایک اشارے سے آگ بھڑ کا سکتا تھا۔ آخری یعنی نمبر بارہ یہ کہ وہ وقت میں بھی سفر کر لیتا تھا، یعنی ماضی میں بھی چلا جاتا تھا۔”

    "یہ ناممکن ہے، کوئی بھی انسان یہ سارے کام نہیں کر سکتا۔ ایسا تو کوئی بھی جادو نہیں پایا جاتا۔” فیونا نے اچانک رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا "کم سے کم میں تو اس پر یقین نہیں کر سکتی، کہیں آپ ہمارے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے ہیں انکل اینگس؟”

    "میری بچی، میں تمھارے ساتھ مذاق نہیں کر رہا، کتاب میں یہی کچھ لکھا ہے۔ اب تم اس پر یقین کرتی ہو یا نہیں، یہ تم پر منحصر ہے۔” اینگس نے کتاب کے اندر انگلی رکھ کر کتاب بند کر کے کہا۔

    "مجھے اس پر یقین ہے۔” جبران ایک دم سے بول اٹھا۔ "مجھے بھی۔” دانیال نے بھی کہا۔ "لیکن شہنشاہ نے یہ جادوئی گیند کہاں سے حاصل کی تھی؟”

    جبران نے دانیال کی بات اینگس کو ترجمہ کر کے سنائی، اینگس کافی دیر سے نوٹ کر رہے تھے کہ ہر بات کے اختتام پر جبران دانیال کے کان میں کھسر پھسر شروع کر دیتا تھا۔ اب ان کی سمجھ میں آیا کہ دانیال کو انگریزی نہیں آتی تھی۔ اینگس نے کتاب دوبارہ کھول کر دونوں کا اس بات کے لیے شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اعتبار کیا اور اسے مذاق نہیں سمجھا۔

    وہ مزید بتانے لگے "اس میں لکھا ہے کہ میسح سے تقریباً دو سو سال قبل ایک قدیم جادوگر نے کیگان کے آباو اجداد میں کسی کو یہ دیا تھا۔ کیگان سے بہت پیچھے کی نسلوں میں اس کے پینتالیسویں پردادا شنہشاہ رالفن ہوا کرتا تھا، جس کی سلطنت کا نام بورل تھا۔” اینگس نے بتایا کہ انھوں نے بورل نام کی جگہ کے بارے میں کبھی نہیں پڑھا، یا سنا۔ انھوں نے کہا "شہنشاہ رالفن کی بارہ عدد بیویاں تھیں، اور اس کے پاس جو جادوگر تھا، وہ بے حد ماہر تھا اور اس کا نام لومنا تھا۔”

    "بارہ بیویاں…!” تینوں چیخ اٹھے۔

    اینگس نے یہ کہ کر اپنی بات جاری رکھی کہ پرانے زمانے میں زیادہ شادیاں کرنا عام بات تھی۔ "جادوگر لومنا دراصل جادوگروں کی سرزمین زیلیا سے آیا تھا۔ اس نے رالفن کے پاس آ کر درخواست کی کہ اگر بادشاہ سلامت اسے اپنا جادوگرِ خاص مقرر کر دیں، تو یہ اس کی عزت افزائی ہوگی۔”

    فیونا نے ایک بار پھر اعتراض کر دیا۔ "بھلا جادوگر کب سے لوگوں سے کہنے لگے کہ وہ انھیں اپنا جادوگر بنا لیں، مجھے اس پر یقین نہیں ہے۔”

    "فیونا، یہ میں اپنی طرف سے نہیں سنا رہا ہوں، بلکہ کتاب میں جو لکھا ہے وہی پڑھ رہا ہوں، اور یہ مت بھولو کہ یہ کتاب تم ہی میرے پاس لے کر آئی ہو۔” اینگس نے سپاٹ لہجے میں کہا اور گلا صاف کر کے بتانے لگے۔ "یہ بات ہر طرف مشہور ہو گئی تھی کہ شہنشاہ رالفن اس زمین کا سب سے بڑا بادشاہ ہے۔ وہ ایک بہادر جنگجو تھا۔ اس کے پاس بہت بڑی فوج تھی، لیکن لوگوں کو اس سے اس کی نرم دلی اور عدل کی وجہ سے پیار تھا۔ وہ صرف اپنی رعایا ہی کے لیے اچھا نہیں تھا بلکہ وہ اپنی بارہ بیویوں کو بھی بہت چاہتے تھے۔ ان بیویوں سے رالفن کے ڈیڑھ سو بچے تھے۔”

    "ڈیڑھ سو بچے…” جبران اچھل پڑا۔ "یہ کیسے ہو سکتا ہے؟”

    "بھئی، اگر تمھاری بھی بارہ بیویاں ہوں تو اتنے بچے تمھارے بھی ہو سکتے ہیں۔”فیونا نے مسکرا کر شرارت آمیز لہجے میں کہا۔

    "ناممکن… میں تو ایک بھی شادی نہیں کرنے والا، بارہ تو دور کی بات۔” جبران فوراً بولا اور پھر سے کرسی پر بیٹھ گیا۔

    "تم لوگ اپنی ہی بولو گے یا مجھے اسے ختم کرنے دو گے؟” اینگس نے مداخلت کی اور پھر کتاب پر نظریں جما دیں۔

    (جاری ہے….)

  • آٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    آٹھویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "جمعے کی یہ صبح کتنی خوش گوار ہے۔” مائری نے فیونا سے کہا جو باورچی خانے میں میز کے سامنے بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔ "میں نے رات کو انتہائی عجیب خواب دیکھا۔ میں ایک خوب صورت جزیرے پر تھی۔ میرے پاس گدھے تھے اور آس پاس سفید عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔”

    فیونا کو ایک دم سے پھندا سا لگا۔ "کیا ہوا؟” مائری چونک اٹھیں۔

    "کچھ نہیں… کچھ نہیں، میں ٹھیک ہوں۔” فیونا نے تیزی سے رومال سے منھ صاف کیا۔ دراصل اس کی ممی نے بات ہی ایسی کی تھی جس نے اسے چونکا دیا تھا۔ عین یہی خواب تو اس نے بھی دیکھا تھا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ وہ کہہ دے کہ اس نے بھی یہی خواب دیکھا ہے لیکن پھر چپ رہنے کا فیصلہ کر لیا۔

    https://urdu.arynews.tv/story-urdu-translation-rafi-ullah-mian/
    "ممی ذرا جئی کا یہ کیک تو دیں۔” مائری نے پلیٹ اس کے آگے سرکا دی۔ میں نے صبح سویرے تمھارے لیے کالے بیر توڑے ہیں، بالکل تازہ ہیں، کیا تم کھانا پسند کرو گی؟”

    "ضرور ممی، کیا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔” فیونا خوش ہو کر بولی۔ "اس کا مطلب ہے کہ ہمارے باغیچے میں بیری کے درخت نے پھل دینا شروع کر دیا ہے۔”

    مائری نے مسکرا کر کالے بیر سے بھرا پیالہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ "تم اسکول کے بعد کیا کرو گی؟ میں کام سے ذرا دیر سے آؤں گی۔”

    فیونا کچھ کہنے والی تھی کہ اسے بستر کے نیچے رکھی کتاب یاد آ گئی۔ "میں جبران اور دانی کے ساتھ کھیلنے جاؤں گی… اور ہو سکتا ہے کہ راستے میں انکل اینگس کے گھر پر بھی رک جائیں۔”

    "یہ تو تم بہت اچھا کرو گی فیونا۔ انھیں مہمانوں کا آنا بہت اچھا لگتا ہے۔ ان کو بتانا کہ میں کل چند تازہ سبزیاں لے کر ان سے ملنے آؤں گی۔”

    فیونا نے خاموشی سے اپنا ناشتہ ختم کیا اور پھر اسکول بیگ اٹھا کر بھاگتے ہوئے اسکول کی راہ لے لی۔ اسکول سے واپسی پر پہلے تو وہ گھر گئی اور پھر جبران کے گھر کی طرف چل پڑی۔ وہ دونوں گھر ہی پر مل گئے۔ فیونا کو اس کے موزے میں واضح طور پر چاقو پڑا محسوس ہوا۔ "کیا تم رات کو اسی کے ساتھ سو گئے تھے؟” اس نے حیرت سے پوچھ لیا۔ "نہیں، میں نے اسے چھپا لیا تھا۔ دراصل میں اور عرفان ایک کمرے میں سوتے ہیں، اور وہ کوئی بات چھپا نہیں سکتا، کاش میرا کوئی الگ کمرہ ہو۔”

    "چھوڑو یہ باتیں، دیر ہو جائے گی، چلو۔” فیونا بولی۔ "جبران، کیا تمھارے پاپا نے اس بارے میں کوئی ذکر کیا ہے کہ وہ جونی تھامسن کو مچھلیوں کے شکار کے لیے لے کر جائیں گے؟”

    "ہاں، پاپا کے مطابق جونی تھامسن یہاں پر ہے اور ان کا بھائی جلد آ رہا ہے، کیوں؟” جبران نے دانیال کو بھی آواز دے کر بلا لیا اور پھر تینوں کتاب لے کر انگل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں جبران نے پوچھا۔ "کیا تمھارے انکل اینگس قابل اعتماد ہیں؟”

    فیونا نے بتایا ” وہ سب سے الگ تھلگ رہتے ہیں، اور رازوں کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ اور پتا ہے وہ دن بھر صرف اپنی پالتو بلیوں کے ساتھ ہی باتیں کرتے رہتے ہیں۔”

    وہ انکل اینگس کے گھر پہنچ گئے۔ جبران اور دانیال کو دور ہی سے دیواروں پر بلیاں دکھائی دے گئیں۔ فیونا نے اپنی بات جاری رکھی۔ "وہ بہت مختلف انسان ہیں، میری ممی انھیں منفرد کہا کرتی ہیں۔ ان کے گھر میں بجلی نہیں ہے، وہ کوئلہ جلاتے ہیں۔”

    وہ سب دروازے پر رک گئے، فیونا نے دستک دے دی۔ ذرا دیر بعد دروازہ کھلا اور ادھیڑ عمر کا اینگس نمودار ہو گیا جو فیونا کے چچا تھے۔ اینگس فیونا کے پاپا کے بڑے بھائی تھے اور ان کی عمر پچاس سال تھی۔ جبران کو وہ بہت عجیب سے لگے۔ ان کے بال بھورے اور آنکھیں خاکی مائل نیلی تھیں۔ فیونا نے اسے بتایا تھا کہ انکل اینگس لکڑی کے کھلونے بنا کر برطانیہ میں مختلف شو کر کے انھیں فروخت کرتے ہیں۔ اسے یاد آیا کہ فیونا نے ان کا پورا نام اینگس روڈرِک مک ایلسٹر بتایا تھا۔

    اینگس فیونا کو دیکھتے ہی چہک اٹھے۔ "اوہو… میری بھتیجی آئی ہے اور ساتھ میں اس کے دوست بھی ہیں۔ میں یقین سے کہ سکتا ہوں یہ تمھارے نئے دوست ہوں گے۔” فیونا یہ سن کر ہنس پڑی۔ "بالکل درست اندازہ لگایا آپ نے انکل۔”

    وہ انھیں لے کر اندر لے گئے۔ آتش دان میں آگ کی لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ اینگس نے انھیں کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ان کے سامنے اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھتے ہی بولے۔ "تو اب بتاؤ، تم میرے پاس کیا لے کر آئی ہو؟ کیوں کہ فیونا، اس سے پہلے تم کبھی اپنی ممی کے بغیر یہاں نہیں آئی ہو۔”

    جبران حیرت سے چونک اٹھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں فیونا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا دی۔ فیونا کے انکل نے دوسری مرتبہ بالکل درست اندازہ لگایا تھا۔ فیونا نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر دیا۔ "انکل، آپ یہ سیاہ کیتلی آگ پر لٹکائے رکھتے ہیں، آپ چولھا کیوں نہیں خرید لیتے؟”

    وہ مسکرا دیے۔”میری پیاری سی بھتیجی، دراصل میں تکے، سوپ اور اسی طرح کی چیزیں ہی تیار کرتا ہوں۔ ہاں اگر کسی اور چیز کی ضرورت پڑے تو باہر جا کر خرید لیتا ہوں۔ میں بہت پرانے خیالات کا آدمی ہوں۔ دیکھو نا ہر ایک کے گھر میں بجلی ہے، گیس ہے، لیکن میرے ہاں نہیں۔ میں پرانے وقتوں کی طرح اب بھی مٹی کے تیل کے دیے اور لال ٹین جلاتا ہوں۔ اگر کبھی کچھ اور کھانے کو جی کرے تو جھیل کی طرف جاکر مچھلیاں پکڑ لیتا ہوں اور پھر مزے سے بھون کر کھاتا ہوں۔ میں خرگوش بھی بڑے شوق سے شکار کرتا ہوں اور پھر شاید تمھیں معلوم نہیں ہے کہ تمھاری ممی میرے لیے بیکری سے پیسٹری اور ڈبل روٹیاں لے کر آتی ہے۔ اس لیے فیونا، تم میرے بارے میں بالکل پریشان مت ہوا کرو۔ میں اپنے اس گھر اور اپنی حالت پر بے حد خوش ہوں۔” انھوں نے پوری تفصیل سے اپنے شب و روز کے متعلق بتا کر چپ سادھ لی۔ ماحول میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔

    "سوری انکل۔” فیونا نے طویل سانس لے کر خاموشی توڑی۔ "میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچانا چاہ رہی تھی، بس میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔ شاید آپ کی آسانی کے لیے، تاہم آپ خوش ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔”

    انھوں نے جواب میں صرف مسکرانے پر اکتفا کیا اور فیونا کے چہرے پر نگاہیں جما دیں۔ فیونا نے جھجکتے ہوئے کتاب نکالی اور ان کی طرف بڑھا دی۔ "انکل یہ کتاب ملی ہے۔ میں بس اس میں سے ایک ہی لفظ خزانہ پڑھ سکی ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ آپ گیلک زبان جانتے ہیں اس لیے آپ کے پاس لائی ہوں اسے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟”

    اینگس نے کتاب ہاتھ میں لی اور ایک ٹک اس کے کتاب پوش کو دیکھنے لگے۔

  • ساتویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ساتویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "یہ کیا ہے؟” وہ ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جھکی اور کتاب اٹھا لی۔ کتاب پوش چمڑے کا تھا۔ اٹھاتے ہی اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جھڑنے لگے۔ فیونا کتاب لے کر فرش پر بیٹھ گئی اور اسے کھول کر دیکھنے لگی۔ جبران اس کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ "یہ کون سی زبان میں لکھی گئی ہے، کیا تم اسے پڑھ سکتی ہو؟”

    تینوں کی آنکھیں کتاب پر جمی ہوئی تھیں۔ ایسے میں دانیال بولا۔ "یہ تو مجھے ویسی ہی زبان لگ رہی ہے جیسی لائبریری کی باہر والی دیوار پر لکھی گئی ہے۔” فیونا بولی۔ "یہ اسکاٹ لینڈ کی قدیم مقامی زبان گیلک ہے، مجھے تھوڑی سی پڑھنا آتی ہے یہ زبان، تاہم میری ممی زیادہ بہتر طور پر جانتی ہیں۔”

    دانیال نے مشعل قریب کر دی۔ اس کی روشنی میں فیونا کی سبز مائل نیلی آنکھیں عجیب طرح سے چمکنے لگیں۔ وہ مزید جھک کر پڑھنےکی کوشش کرنے لگی۔ چند لمحوں بعد اس نے کہا۔ "میں اس میں سے چند الفاظ پڑھ سکتی ہوں، یہ لکھا ہے آیونمھاس …. یہ گیلک زبان میں خزانے کو کہتے ہیں۔ یہ کسی خزانے کے بارے میں کچھ لکھا ہے لیکن یہ بے حد پرانا ہے، اسے پڑھنا بہت مشکل ہے۔”

    "خزانہ…!” جبران کی نقری بھوری آنکھوں میں چمک آ گئی۔ وہ جوش سے بولا۔ "کیا اس میں کوئی نقشہ وغیرہ ہے؟”

    "میں کچھ کہہ نہیں سکتی، کیوں کہ اس میں چیزیں واضح نہیں ہیں۔” فیونا نے جواب دیا۔ جبران جلدی سے بولا۔ "تم نے ایک بار اپنے انکل اینگس کا ذکر کیا تھا، کیا وہ گیلک نہیں پڑھ سکتے؟”

    "کیوں نہیں۔ وہ ماہر ہیں۔ وہ اور میرے پاپا ایک ساتھ گیلک پڑھ چکے ہیں۔” فیونا نے جواب دیا۔

    "تو پھر چلو، یہ کتاب ان کو دے کر معلوم کرتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟” جبران نے کتاب لے کر کوٹ کے بٹن کھولے اور اسے اندر رکھ کر بٹن بند کر کے کوٹ کو پینٹ میں اڑس لیا، تاکہ کتاب نیچے سے نکل نہ جائے، اور پھر چاقو بھی لے کر اپنے اونی موزے میں اڑس لیا۔ تینوں واپس محرابی دروازے پر پہنچ گئے۔ دانیال نے مشعل کے سرے پر پاؤں مار کر اسے بجھا دیا اور واپس اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا کیوں کہ انھیں اس کی دوبارہ ضرورت پڑھ سکتی تھی۔ فیونا کشتی میں بیٹھ کر بولی۔ "جبران، میں نے ابھی تک ایک بھی تیتر نہیں دیکھا، تم اپنے پاپا سے ضرور کہنا کہ مسٹر لیمنٹ کو کچھ پتا نہیں ہے۔”

    جبران منھ بنا کر بولا۔ "ہاں ہم نے کوئی ایک عفریت بھی تو نہیں دیکھا، بے حد مایوسی ہوئی!” تینوں ہنس پڑے۔ سورج غروب ہو رہا تھا، اس کے شعلوں ایسا رنگ جھیل کے پانی پر منعکس ہو رہا تھا۔ دوسری طرف اترنے کے بعد انھوں نے کشتی اس کی مخصوص جگہ پر درخت سے باندھ دی اور ایک بار پھر کتاب کو دیکھنے لگے۔ جبران نے کتاب نکال کر فیوناکے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ "فیونا، یہ تم گھر لے جاؤ، کیوں کہ میں اسے اپنے گھر میں چھپا نہیں سکتا۔ میری ممی اور پاپا اسے دیکھ لیں گے۔ اگر انھوں نے نہیں دیکھا تو عرفان اور سوسن سے چھپی نہیں رہ سکے گی۔ کل ہم اسکول کے بعد تمھارے انکل اینگس کو دیکھنے جائیں گے۔”

    تینوں گھر کی طرف چل پڑے۔ فیونا کا گھر زیادہ قریب تھا۔ جبران اور دانیال اس سے ہاتھ ملا کر گھر کی طرف دوڑ پڑے، کیوں کہ انھیں بہت دیر ہو چکی تھی۔ فیونا گھر میں داخل ہوئی تو اس کی ممی باورچی خانے میں مچھلی تل رہی تھیں۔ "فیونا، جاؤ ہاتھ دھو کر آؤ، مچھلی تیار ہے۔ نئے دوستوں کے ساتھ ایڈونچر کیسا رہا؟” انھوں نے باورچی خانے ہی سے ہانک لگائی۔

    "زبردست ممی!” اس نے کہا اور دوڑ کر اپنے کمرے میں گئی۔ کتاب اپنے بستر کے نیچے چھپا دی اور پھر ہاتھ دھو کر باورچی خانے میں داخل ہو گئی۔ "ہم م م … اچھی خوش بو ہے۔”

    "بیٹھ جاؤ یہاں اور مزے لے لے کر کھاؤ۔” مائری بولیں اور ایک چھوٹی طشتری میز پر رکھ دی۔ "پتا ہے آج میں نے تمھارے لیے خصوصی میٹھا بھی تیار کر رکھا ہے۔” فیونا کی آنکھوں میں یہ سن کر چمک آ گئی۔ وہ چہک کر بولی۔ "ضرور آپ نے مارزیپن تیار کیا ہے، کیوں کہ آپ کو پتا ہے بادام، چینی اور انڈوں سے تیار کیا جانے والا یہ کھیر مجھے بہت پسند ہے۔”

    مائری مسکرا دیں۔ "پتا ہے، آج میری ملاقات ایک دل چسپ آدمی سے ہوئی۔”

    "کیا وہ واقعی دل چسپ شخص تھا؟” فیونا نے مچھلی کھاتے ہوئے بے کار سوال کر دیا۔ مائری نے سنجیدگی سے کہا۔ "اس کا نام جونی تھامسن ہے، اور وہ لندن سے یہاں آیا، جلد ہی اس کا بھائی اس سے ملنے والا ہے، وہ دونوں یہاں ایک ہفتے تک رہیں گے اور مچھلیوں کے علاوہ دیگر شکار بھی کھیلیں گے۔ میں نے اسے جبران کے ڈیڈ کے پاس بھیج دیا۔”

    "آہا مما، یہ تو بڑی دل چسپ کہانی ہے، سچ مچ میں دل چسپ آدمی لگ رہا ہے۔”

    "تم یہ مچھلیاں اور کھیر کھاؤ، اب تھامسن کے متعلق اور کوئی با ت نہیں ہوگی۔” وہ اچانک درشت لہجے میں بولیں۔

    رات کو جب مائری اینا فرگوسن مک ایلسٹر اپنے بستر پر لیٹیں، تو باہر خزاں کے آغاز کی ہوائیں شور مچا رہی تھیں۔ وہ شہر کے لیے اپنے سفر کے متعلق سوچتے سوچتے سو گئیں۔دوسرے کمرے میں فیونا بستر پر لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی تھی۔ وہ قدیم جادوؤں، بونوں اور دور دراز کے علاقوں کے خواب دیکھنے لگی۔

    (جاری ہے…)

  • چھٹی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چھٹی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اندر گھپ اندھیرا تھا، ماحول میں عجیب سی گھٹن تھی۔ انھیں اندر جاتے ہی سردی کا احساس ہوا۔ فیونا کی آواز آئی "اس دیوار کو دیکھو، اس میں کتنے بڑے بڑے پتھر لگائے گئے ہیں۔ ایک ایک پتھر ہاتھی جتنا ہے۔ پتا نہیں، وہ یہ کیسے اٹھا کر لائے ہوں گے۔”
    پانچویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
    وہ دونوں مڑے۔ فیونا دیوار کو ہاتھوں سے چھو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ انھیں اندھیرے میں چیزیں نظر آنے لگیں۔ وہ ایک دیوار کے قریب کھڑے تھے۔ دانیال بولا "یہ دیوار کائی زدہ ہے، اور وہ دیکھو، وہاں بھی دیوار پر گارگوئل کے بدنما سر لگے ہوئے ہیں۔ یہ تو رہنے کے لیے ایک خوف ناک جگہ ہے، یہاں تو دیواروں پر مکڑی کے جالوں اور چوہوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔”

    فیونا اپنے کپڑے سمیٹ کر بولی "مجھے مکڑی کے جالوں اور مکڑیوں سے سخت نفرت ہے۔”

    "اور مجھے چوہے ناپسند ہیں۔” جبران بولا "امید ہے کہ مجھے چوہے دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔”

    "لیکن یہاں بہت سارے چوہے ہیں۔” انھیں دانیال کی آواز ذرا فاصلے سے آتی ہوئی محسوس ہوئی، اور وہ دونوں تیزی سے مڑے، اور پھر ان کی آنکھوں میں حیرت دوڑ گئی۔ اب ان کی آنکھیں بھی اندھیرے سے مانوس ہو گئی تھیں۔ وہ ایک بہت بڑے ہال نما کمرے میں کھڑے تھے جس کی چھت بے حد اونچی تھی۔ وہ تینوں سر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھنے لگے۔ عین اسی وقت ایک کونے میں لومڑ دکھائی دیا۔ فیونا کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ وہ دوڑ کر جبران کے پیچھے چھپ گئی۔

    "یہ کیا ہے؟ کیا یہ چوہا ہے؟” اس نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

    "اب ڈرو نہیں، وہ جا چکا ہے۔ بہرحال وہ چوہا نہیں لومڑ تھا لیکن حیرت ہے کی بات یہ ہے کہ وہ آیا کہاں سے تھا؟” جبران نے کونے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تینوں اسی طرف دیکھنے لگے اور پھر انھیں اچانک نیچے جاتی ہوئی سیڑھیاں نظر آ گئیں۔ "میرا خیال ہے اب ہمیں واپس گھر جانا چاہیے کیوں کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔ نیچے جانا مناسب نہیں ہوگا، پتا نہیں یہاں کیا ہو!” جبران بولا، اس کے لہجے میں تشویش کی لہر تھی۔

    فیونا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ "ہم واپس نہیں جائیں گے، تم ڈرو مت، یہ دیکھو دیوار پر مشعل موجود ہے۔”

    "کیا یہ اب بھی کام کرتی ہوگی؟” دانیال نے حیرت سے پوچھ لیا۔ جبران نے کہا "اس کا تو ابھی پتا چل جائے گا۔” اور آگے بڑھ کر مشعل کے دستے پر ہاتھ جمایا۔ "چچ…. لکڑی کے دستے پر کوئی سیاہ لیس دار مادہ لگا ہوا ہے، کیا تم میں سے کسی کے پاس ماچس ہے؟”وہ مڑ کر ان دونوں کی طرف دیکھنے لگا۔ فیونا نے برا سا منھ بنا کر کہا "ہمارے پاس ماچس کیوں ہونے لگی بھلا؟ تمھیں پتا ہے میری ممی سگریٹ نوشی نہیں کرتیں۔”

    "اوہ، معذرت خواہ ہوں۔” جبران نے جلدی سے کہا اور اپنی پینٹ کی جیب پر ہاتھ مار کر بولا "یہ رہی میرے پاس، صبح پاپا نے ایک کام کے لیے دی تھی اور واپس لینا بھول گئے تھے۔” وہ یہ کہ کر فیونا کے پاس آیا اور بولا "ذرا پکڑنا اسے۔”

    فیونا نے مشعل تھامی تو اس نے بھی چونک کر کہا "ارے یہ کیا لگا ہوا ہے اس پر؟” اس نے جلدی سے اسے سونگھا اور بولی "اس سے تو پگھلے ہوئے کولتار کی سی بو آ رہی ہے۔”

    "یہ غالباً پرانا مٹی کا تیل ہے۔” جبران نے کہا اور دیا سلائی جلا کر مشعل کے سرے کے پاس لے گیا۔ اگلے ہی لمحے مشعل نے آگ پکڑ لی اور ماحول ایک دم سے روشن ہو گیا۔ "مشعل پر جو کچھ بھی لگا ہوا ہے، بہرحال اب تک کام کر رہا ہے۔” دانیال نے فیونا سے مشعل لے کر کہا۔

    تینوں مشعل کی روشنی میں نیچے اترنے لگے۔ جب وہ ایک اور خالی کمرے میں پہنچے تو فیونا نے کہا "یہ تو بالکل ویسا ہی کمرہ ہے، بس یہاں دیوار میں ایک بڑا آتش دان ہے۔”

    جبران بولا "فیونا، یہ بڑا نہیں، بہت بڑا آتش دان ہے۔ یہ تو میرے بیڈ روم جتنا ہے۔ پتا نہیں اتنا بڑا آتش دان بنوانے کی کسی کو کیا ضرورت پیش آ گئی تھی!”

    فیونا دوڑ کر اس کے اندر چلی گئی اور چلا کر بولی "اندر آجاؤ، یہاں کوئی کالک نہیں ہے۔” اس کی آواز کی بازگشت وہاں دیر تک گونجتی رہی۔ وہ دونوں بھی اندر داخل ہوئے۔ آتش دان اندر سے ٹھنڈا تھا۔ فیونا نے دیوار کو ہاتھ لگایا، اور اچانک کہنے لگی۔ "کیا یہ بھی ان آتش دانوں میں سے ایک ہے جن کی دیواروں میں ایک خصوصی اینٹ لگی ہوتی ہے؟”

    "دانیال چونک اٹھا۔ "کیا تمھارا یہ مطلب ہے کہ وہ اینٹ دبانے سے دیوار میں کوئی خفیہ راستہ نکل آئے گا؟”

    دونوں حیرت سے فیونا کی طرف دیکھنے لگے اور اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ رینگ رہی تھی۔ وہ ذرا آگے کی طرف جھک کر سرگوشی میں بولی۔ "جی ہاں۔”

    تینوں کچھ دیر تک خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے، پھر دانیال بولا۔ "تو آؤ کوشش کرتے ہیں۔”

    تینوں مختلف سمتوں میں آتش دان کی دیواروں میں موجود ایک ایک اینٹ پر دباؤ ڈالنے لگے۔ ذرا دیر بعد اچانک انھیں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے سامنے کی دیوار کی اینٹوں نے اپنی جگہ چھوڑی دی تھی، اور وہاں ایک تاریک گلی دکھانی دینے لگی۔ جبران نے کنارے پر جا کر اندھیرے میں جھانک کر دیکھا۔ "یہاں بھی ویسی ہی ٹھنڈ ہے، لگتا ہے آگے جا کر یہاں بھی سیڑھیاں نیچے کی طرف جا رہی ہیں۔”

    اس مرتبہ دانیال کو محسوس ہوا کہ انھیں اندر نہیں جانا چاہیے، اس لیے اس نے کہا۔ ” چلو واپس چلتے ہیں، یہ راستہ مجھے خوف ناک لگ رہا ہے۔” فیونا نے اس کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا۔ "پہاڑوں میں رہنے والے تو نڈر ہوتے ہیں، تم کیوں گھبرا رہے ہو!” جبران نے جب اسے ترجمہ کر کے فیونا کی بات سمجھائی تو اسے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنے دل سے خوف کو نوچ کر پھینکنے کی کوشش کی۔ "ٹھیک ہے، میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا مسکرا دی۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا اور کہا آؤ۔

    وہ تاریک گلی میں داخل ہو کر سیڑھیاں اترتے چلے گئے۔ سیڑھیاں ایک کمرے میں جا کر ختم ہو گئیں جہاں لکڑی کی ایک میز کے گرد پرانے زمانے کی کرسیاں موجود تھیں۔ جبران نے کمرے سے سیڑھیوں کا سلسلہ مزید نیچے جاتے دیکھ کر حیرت سے کہا۔ "پتا نہیں یہ سیڑھیاں اور کہاں تک نیچے جا رہی ہیں، کیا نیچے کوئی قید خانہ ہے؟ اندر سے یہ قلعہ جتنا بڑا ہے، باہر سے اتنا بڑا نہیں دکھائی دیتا۔”

    فیونا نے کہا "دیواروں پر ان قدیم پردوں کو دیکھو، ان پر کتنی مہارت کے ساتھ رنگین تاروں سے تصاویر بنائی گئی ہیں۔ پردے اتنے پرانے ہیں کہ پھٹنے والے ہیں، مجھے یقین ہے کسی زمانے میں یہ بے حد خوب صورت لگتے ہوں گے۔”

    "ارے یہاں تو رنگین شیشے والی کھڑکی بھی ہے۔” جبران بولا۔ فیونا پردوں سے نظریں ہٹا کر کھڑکی کو دیکھنے لگی۔ پتا نہیں اس کھڑکی میں کہاں بہت ہلکی سورج کی روشنی اندر آنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہر چیز پر صدیوں کی گرد جمی ہوئی تھی۔ اچانک دانیال چیخ کر بولا۔ "یہاں آؤ، دیکھو میں نے کیا چیز ڈھونڈ لی ہے۔” دونوں اس کی طرف گئے تو انھوں نے بھی دیوار کے پاس پڑے صندوق کو دیکھ لیا۔ دانیال اسے کھولنے کے لیے اس کا ہینڈل ڈھونڈتے ہوئے بولا۔ "یہ یقیناً یہاں صدیوں سے پڑا رہا ہے۔”

    "یہ ایک ہزار سال سے بھی قدیم لگ رہا ہے۔” فیونا نے اپنا خیال پیش کیا۔ دونوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ صندوق پر مکڑی کے جالوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ جبران نے جلدی جلدی جالے صاف کیے۔ دانیال نے کہا "چلو اسے کھولتے ہیں۔”

    "نہیں۔” فیونا چلائی۔ "کیا پتا اس میں کوئی بھوت ہویا پھر خون چوسنے والے ہزاروں بھنورے۔”

    جبران نے مسخرے پن سے کہا "ووووو …. لو ہم ڈر گئے… بس!” فیونا اور دانیال اس کے انداز پر بے اختیار ہنس پڑے۔ دانیال نے ہرن کے سینگ والے ہینڈل کو کھینچ کر صندوق کا ڈھکن کھول دیا۔ اندر بھی دھول بھری تھی۔ دانیال کی نظر ایک چاقو پر پڑی، جس کے دستے پر نقش و نگار کندہ تھے۔ "یہ دیکھو، میں شرط لگا سکتا ہوں کہ یہ بے حد قدیم چاقو ہے۔” وہ پرجوش انداز میں بولا۔ جبران بھی دل چسپی سے چاقو کو قریب سے دیکھنے لگا جب کہ فیونا کی نظریں کسی اور چیز پر ٹکی ہوئی تھیں۔ صندوق کے کونے میں ایک قدیم کتاب پڑی ہوئی تھی۔

    (جاری ہے…..)

  • پانچویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    پانچویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اپنے خوف کو دور کرنے کے لیے اس نے جبران سے کہا "مجھے تو یہاں تیتر نظر نہیں آ رہے، کیا تم نے اپنے پاپا کو ٹھیک طرح سے سنا تھا؟”

    کشتی ساحل کی ریت سےٹکرانے لگی تو جبران چھلانگ مار کر اترا۔ دانیال بھی اترا۔ دونوں نے کشتی ساحل پر کھینچ لی۔ "میرے پاپا نے کہا کہ تیتر تھے، تو ضرور ہوں گے۔” جبران نے جواب دیا، لیکن اسے خود بھی کہیں تیتر نظر نہیں آئے۔ "ہو سکتا ہے تیتر خوراک کی تلاش میں اڑ چکے ہوں، اور رات کو آرام کرنے قلعۂ آذر میں واپس آئیں۔”

    فیونا نے ساحل پر پنجوں کے بل کھڑے ہو کر دوسرے جزیرے پر دیکھا، جہاں صنوبر کے درخت نظر آ رہے تھے، لیکن اس کی شاخوں پر نوکیلے پتے نہیں تھے۔”صنوبر کو کیا ہو گیا ہے، لگتا ہے اس کے پتے تیتر کھا گئے۔” یہ کہ کر وہ ہنس پڑی۔

    چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    جبران نے اس کے لطیفے پر برا منھ بنا لیا۔ فیونا اور دانیال قلعے کی طرف مڑ کر دیکھنے لگے۔ قلعے کی دیواریں صدیوں سے ویسی ہی کھڑی تھیں۔ اس کے پتھروں پر مرطوب موسم کی وجہ سے کائی جم چکی تھی۔ وہ جس جزیرے پر کھڑے تھے، اس پر بھی قلعے کے آس پاس صنوبر کے درخت کھڑے تھے لیکن اس کی شاخوں پر بہت کم پتے رہ گئے تھے۔ فیونا بولی "ان درختوں کو کیا ہوا ہے؟ کہیں یہ آسیب زدہ تو نہیں!” جبران نے اس کی بات دانیال کو سمجھائی تو وہ مسکرانے لگا، اس نے زمین پر اپنی نگاہ جمائی اور بولا "غالباً اس کی وجہ یہ گیلی زمین ہے۔”

    پھر وہ تینوں دوڑتے ہوئے قلعے کی دیوار کے پاس آ کر رک گئے۔ دانیال نے قلعے کے پتھروں پر ہاتھ پھیر کر کہا "یہ گرینائٹ سے بنے ہوئے ہیں، اس پر جگہ جگہ سوراخ ہیں جو غالباً کسی حملے کے نتیجے میں بنے ہیں، ایسا لگتا ہے کسی زمانے میں یہاں زبردست جنگ ہوئی ہے۔”

    فیونا اس کی ذہانت پر حیران ہو گئی، جبران نے اس سے پوچھا "کیا تمھاری ممی نے اس قلعے کی تاریخ کے حوالے سے کچھ بتایا ہے؟ ان کے خاندان میں کون کون رہتا تھا یہاں؟”

    "نہیں، دراصل ممی جب بھی اس کے متعلق کچھ کہتی ہیں تو میں ان کی باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ میرا خیال ہے کہ تاریخ ایک بیزار کن موضوع ہے۔” اس نے قلعے کی اونچائی کا اندازہ کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔ "میرے خیال میں یہ قلعہ تین منزلہ اونچا تو ہوگا۔ دیوار میں کھڑکیاں بھی بنی ہوئی ہیں، شاید ان میں سے حملہ آوروں پر گرم تیل پھینکا جاتا رہا ہو۔” اس نے زمین کی طرف اشارہ کر کے کہا "یہ دیکھو، یہ شاید خندق تھی، جس کا اب محض نشان ہی رہ گیا ہے اور اس میں جھاڑیاں اور گھوکرو کے پودے اُگ آئے ہیں۔”

    ایسے میں دانیال نے ان کی توجہ دیوار پر بنی تصاویر کی طرف دلائی جو کہ عجیب قسم کی تھیں۔ فیونا نے ایک جگہ سے پتے ہٹا کر دیکھا۔ وہاں پتھر پر گارگوئل نامی عجیب و غریب جانور کی تصویر کندہ کی گئی تھی۔ فیونا بولی "ذرا دیکھو اسے، اس کی باہر نکلی آنکھوں اور پھولے ہوئے منھ سے ایسا لگتا ہے جیسے اب یہ چیونگم اُگل دے گا۔” جبران گارگوئل کے بارے میں جانتا تھا کہ یہ ایک عجیب الخلقت مخلوق ہے، اور اس کے سر کو پرانے چرچوں کے اوپر دیوار میں لگایا جاتا ہے۔ اس نے کہا "فیونا گھبراؤ نہیں، گارگوئل کا چہرہ ہوتا ہی بد نما ہے۔”

    وہ تینوں وہاں سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر موجود دو بڑے ستونوں کے درمیان پہنچ گئے۔ جبران نے کہا "یہاں غالباً قلعے کا دروازہ تھا۔” وہ دروازے سے گزر گئے۔ اندر انھیں ایک قسم کے سدا بہار درخت کی باڑ نظر آئی، جس کی شاخیں ایک دوسرے سے جڑی، اوپر کی طرف اٹھی ہوئی ہوتی ہیں، جیسے کوئی ہاتھ کی انگلیاں اوپر کی طرف گولائی میں پھیلائے۔ اس کے پتے ہموار اور سوئی جیسے ہوتے ہیں اور اس میں چھوٹا سرخ پھول لگتا ہے۔ جبران انھیں دیکھ کر حیرت سے چلایا "ارے یہ تو بھول بھلیاں ہے۔”

    تینوں دوڑ کر اس کی طرف گئے اور دو رویہ درختوں کے درمیان رک گئے۔ فیونا بولی "میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ یہاں رہنے والوں نے اپنے بچوں کے لیے یہ سدا بہار درخت لگائے تھے۔” اس نے جبران کی طرف دیکھ کر پوچھا "کیا اس کے اندر چلیں؟”

    "یہ بھول بھلیاں ہے، کہیں اس کے اندر ہم کھو نہ جائیں۔” جبران جھجکا۔

    "گھبراؤ نہیں۔” اس بار دانیال بولا "مزا آئے گا۔ ہم ایک دوسرے کے قریب قریب رہیں گے، لیکن خیال رہے کہ ان درختوں میں کانٹے بہت ہیں، کہیں خود کو زخمی نہ کروا بیٹھو۔”

    فیونا نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے، اور پھر تینوں بھول بھلیوں میں داخل ہو گئے۔ درختوں کے درمیان بنی ہوئی پگڈنڈی میں سوکھے پتے اور شاخیں بکھری پڑی تھیں۔ سدا بہار درختوں پر عشق پیچاں کی شاخوں نے چھتیں سی بنا لی تھیں۔ یہ درخت قلعے کی اندرونی دیوار کے ساتھ ساتھ دور تک اُگے ہوئے تھے اور کہیں کہیں ان کی دیوار پندرہ فٹ بلند ہو گئی تھی جن پر عشق پیچاں کی موٹی گول شاخوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ جبران نے حیرت سے پوچھا "قلعے کی دیواروں کے پاس اندر کی طرف ان درختوں کو اُگانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟”

    تینوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ فیونا نے جواب دیا "شاید انھوں نے باغیچے کو ہواؤں سے بچانے کے لیے یہ اُگائے ہوں۔”

    "ٹی وی پر میں نے ایک شو دیکھا تھا، ایک شخص نے یہ سدا بہار درخت جانوروں کی شکل میں تراشے تھے، شاید واقعی یہ بھی بچوں کے لیے اگائے گئے ہوں۔” جبران نے کہا۔ فیونا بولی "ایسا لگتا ہے جیسے یہاں بھوت ہوں۔ تم دونوں کا کیا خیال ہے ان باڑوں میں کسی قسم کی کوئی مخلوق ہو سکتی ہے؟”

    جبران نے جلدی سے کہا "ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہاں کوئی بھوت ووت نہیں۔ یہاں پرندوں کے گھونسلے یا چوہے یا پھر کوئی لومڑی ہو سکتی ہے۔”

    وہ راستے پر چلتے چلے جا رہے تھے، اس میں ذرا ذرا دیر بعد موڑ آ رہے تھے۔ وہ اس بھول بھلیاں کے اختتام پر ابھی نہیں پہنچے تھے۔ انھیں اطمینان تھا کہ اپنے قدموں کے نشانات پر وہ واپس جا سکتے ہیں۔ اچانک ان تینوں کے قدم رک گئے۔ ان کے سامنے ایک مجسمہ کھڑا تھا جس کے سامنے زمین میں کنوئیں جیسا سوراخ بنا تھا، جس پر لکڑی کا دروازہ پڑا تھا۔ جبران تیزی سے آگے بڑھا اور مجسمے سے دھول صاف کرنے لگا، یہ ماربل سے بنایا گیا تھا۔

    ” یہ کس کا مجسمہ ہے؟” فیونا بڑبڑائی۔

    "اس پر لکھا ہے کنگ رالفن۔” جبران نے اعلان کیا۔ دانیال نے پوچھا "یہ کون تھا؟”

    "پتا نہیں، شاید ان بادشاہوں میں سے ایک تھا جو اس قلعے میں رہتے تھے، اس کا چہرہ کتنا شان دار ہے۔” جبران نے جواب دیا۔ اس نے تلوار پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "مجھے تو یہ تلوار بہت پسند آ گئی ہے۔”

    "مجھے یاد دلانا، اس کے بارے میں ممی سے پوچھوں گی۔” فیونا نے کہا اور سوراخ کے ٹوٹے پھوٹے دروازے پر قدم رکھ دیا۔ لکڑی کا دروازہ یکایک تڑخ کر ٹوٹا اور فیونا لڑکھڑا گئی، اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکلی۔ دانیا ل نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے واپس کھینچ لیا۔

    "اُف میرے خدا، میری تو جان ہی نکل گئی۔ شکریہ دانی۔” فیونا نے زور زور سے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

    "احتیاط کرو فیونا، یہ تو کسی جگہ کے داخلے کا راستہ لگ رہا ہے۔” جبران نے فکر مندی سے کہا۔

    فیونا کے قدم رکھنے کی وجہ سے لکڑی کا ایک حصہ ٹوٹ کر نیچے گر گیا تھا، اس لیے اس میں سوراخ بن گیا۔ دانیال نے پیٹ کے بل لیٹ کر کنوئیں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ اس نے ایک پتھر اٹھا کر اندر پھینکا، پھر اس کی بازگشت سے اندازہ لگایا کہ کنواں کافی گہرا ہے۔ "اس بھول بھلیوں کے درمیان کوئی خفیہ راستہ کیوں بنایا گیا ہے؟” فیونا اس کے گرد احتیاط سے گھومی۔ "اور وہ بھی اس مجسمے کے عین سامنے۔”

    "پتا نہیں کیا مقصد تھا اس کا۔” جبران نے کہا ” میرا خیال ہے کہ اب ہمیں یہاں سے واپس جانا چاہیے، یہاں تو ہر طرف یہ لمبی باڑ ہے، جس میں بہ مشکل روشنی نیچے آتی ہے۔ راستہ تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا فیونا، اب تم ہی واپسی کا راستہ ڈھونڈتے ہوئے آگے چلو۔”

    فیونا آگے آکر آسمان کی طرف دیکھنے لگی، جہاں ان کے سروں پر بہت اوپر سدا بہار درختوں کی چوٹیاں اور ان پر مارننگ گلوری یعنی عشق پیچاں کی شاخیں ہی نظر آ رہی تھیں۔ اچانک وہ بولی "ہاں سورج اس طرف ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس طرف مغرب ہے، چلو اس راستے پر چلتے ہیں۔” وہ انھیں لے کر چل پڑی۔ ذرا ہی آگے جا کر انھیں راستے میں پرندوں کے نہانے کے لیے ایک چھوٹا سا ٹب ملا۔ "ارے یہ کتنا پیارا ٹب ہے۔” وہ بولی "لیکن اس میں پانی نہیں ہے، لیکن یہ بہت خوب صورتی سے بنایا گیا ہے، چلو، مجھے یقین ہے اب جلد ہی ہم اس بھول بھلیوں سے نکل جائیں گے۔”

    فیونا کا دعویٰ درست تھا، کوئی پانچ منٹ بعد وہ تینوں باہر کھڑے تھے۔ "مزا آگیا۔” فیونا بولی "میں تو ایک بار پھر اس میں جانا چاہوں گی۔”

    "چلو باقی قلعہ بھی دیکھتے ہیں۔” دانیال بولا، اور تینوں آگے بڑھے۔ "یہاں ہر طرف مجسمے لگے ہیں، واپسی پر انھیں دیکھیں گے۔” جبران نے کہا ۔

    قلعے کے کونوں میں گول ٹاور کھڑے تھے۔ طرز تعمیر سے اندازہ ہوتا تھا جیسے اسے نارمنوں یعنی شمالی فرانس کے حملہ آوروں نے تعمیر کیا ہو۔ چلتے چلتے انھیں لکڑی کا ایک پُل نظر آ گیا جو جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا۔ اس کے ٹکڑے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے۔ دانیال اس کے قریب چلا گیا۔ وہاں موٹی موٹی زنجیریں دیکھ کر وہ پُرخیال انداز میں بولا”اس پُل کو ان زنجیروں کے ذریعے اوپر نیچے کیا جاتا تھا، کوئی اس پر چڑھنا مت، کیوں کہ یہ بے حد خستہ ہو چکا ہے۔” وہ احتیاط سے چلتے ہوئے ایک محرابی دروازے کے عین سامنے پہنچ کر رک گئے۔ "کیا ہمیں اندر داخل ہونا چاہیے؟” جبران نے دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

    "ہاں، بلاشبہ، کیا تمھیں ڈر لگ رہا ہے؟” فیونا نے اسے چھیڑا۔ "میں نے تو سنا ہے کہ لڑکے بہادر ہوتے ہیں۔” یہ کہ کر وہ ہنس پڑی۔ محرابی دروازے کے دوسری طرف گھپ اندھیرا تھا۔ فیونا بولی "تو پہلے کون جائے گا اندر؟” یہ کہ کر وہ جبران کی طرف دیکھنے لگی۔

    "کیا مطلب…. کیا پہلے میں جاؤں اندر؟” جبران جھجکتے ہوئے بولا۔ "ہاں۔” فیونا شرارت سے مسکرا دی۔

    "تو ٹھیک ہے۔” جبران نے طویل سانس کھینچی۔ اس نے اپنی ساری ہمت جمع کی اور پھر محرابی دروازے میں قدم رکھ دیا۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے اندر داخل ہوئے۔

  • چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    چوتھی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    فیونا گھر پہنچ کر جبران اور دانیال کا انتظار کر نے لگی۔ اسے کھڑکی میں بیٹھے انتظار کرتے ہوئے پانچ ہی منٹ ہوئے تھے کہ اس نے دونوں کو سامنے گلی میں آتے دیکھا۔ دونوں اس کے گھر کے دروازے کے سامنے پھولوں والے راستے پر رک گئے۔ فیونا تیزی سے دروازہ کھول کر باہر آئی اور دونوں کو مسرت بھری نظروں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ "آؤ، اندر آؤ… ممی ابھی آتی ہوں گی، وہ آپ دونوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر رہی ہیں۔”

    "فیونا، تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی، صبح سے اتنی بارش ہو رہی تھی، مجھے ڈر تھا کہ شاید آج ملاقات نہیں ہو سکے گی، لیکن اچھا ہوا بارش رک گئی۔” جبران نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد اونی کوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے کہا۔

    "مجھے بھی تم دونوں سے مل کر خوشی ہوئی ہے، دراصل یہ اتنا چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہاں اتنے کم لوگ ہیں کہ میرا کوئی خاص دوست ہی نہیں بن سکا ہے ابھی تک۔” فیونا نے کھڑکی سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا۔ شیشے کے پار ان کے باغیچے میں کھلے پھول لہراتے نظر آنے لگے۔

    پہلی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    دوسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    تیسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    "تو ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن جاتے ہیں۔” جبران نے فوراً دوستی کی پیش کش کر دی۔” آن لائن دوست تو ہم پہلے ہی سے ہیں۔”

    فیونا نے مسکراکر کہا ” ہاں، میں تمھارے ساتھ دوستی کر سکتی ہوں، تم ایک اچھے لڑکے ہو۔”

    "شکریہ!” جبران شرما گیا، پھر سنبھل کر بولا "یہ میرا کزن ہے دانیال۔ بدقسمتی سے اسے انگریزی نہیں آتی لیکن میں آپ دونوں کے درمیان ترجمان بن سکتا ہوں۔”

    "ٹھیک ہے۔” فیونا نے سر ہلایا۔ "میں اپنے نئے دوست سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسے اسکاٹ لینڈ آ کر کیسا لگا؟”

    جبران نے فیونا کا سوال اردو میں دانیال کو سنایا تو اس نے بڑے اعتماد سے جواب دیا "مجھے یہاں آ کر بہت اچھا لگا ہے، یہاں کے سرخ اینٹوں والے تقریباً ایک جیسے گھر، صاف ستھری گلیاں، اور ٹھنڈا موسم، سب بہت اچھا لگا۔”

    جبران نے اسے انگریزی میں منتقل کیا تو فیونا ایک دم سے بولی "ابھی تو تم نے یہاں کا دریا اور جھیلیں نہیں دیکھیں، وہ دیکھو گے تو اور اچھا لگے گا۔”

    "میں ضرور دیکھنا چاہوں گا۔ ” دانیال مسکرا دیا۔ اسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور فیونا کی ممی ہاتھوں میں تھیلیاں پکڑے دروازے کے سامنے سے گزریں۔ وہ ذرا ٹھہریں اور بولیں "میں ابھی آئی۔” انھوں نے کھانے کا سامان باورچی خانے میں رکھا اور ڈرائنگ روم میں آ گئیں۔ "خوش آمدید بچّو، کیسے ہیں آپ دونوں؟”

    "جی، ہم ٹھیک ہیں، شکریہ، خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔” جبران نے جواب دیا۔ مائری کی آنکھوں میں ایک دم سے چمک آ گئی۔ ” لگتا ہے آپ کی ماں آپ کا بہت خیال رکھتی ہیں۔”

    "نہ صرف ماں بلکہ پاپا بھی۔” جبران نے جلدی سے کہا "وہ دونوں مجھے ڈھیر سارا وقت دیتے ہیں اور ہر معاملے میں میری مدد کرتے ہیں۔”

    "اچھا تم لوگ باتیں کرو، میں کچھ اسنیکس لاتی ہوں۔” یہ کہہ کر فیونا کی ممی اٹھ کر چلی گئیں اور تھوڑی دیر بعد جب وہ ایک بھرا ٹرے لے کر دوبارہ آئیں تو انھوں نے جبران سے پوچھا "آپ کے پاپا کہاں کام کرتے ہیں؟”

    جبران نے ٹرے سے اسنیکس اٹھاتے ہوئے کہا "وہ الباکاٹے فرم میں جنرل منیجر ہیں۔” فیونا کی ممی یہ سن کر چونک اٹھیں۔”کیا آپ بلال احمد کے بیٹے ہیں؟”

    "جی جی۔” اس بار حیران ہونے کی باری جبران کی تھی، فیونا کو بھی خوش گوار حیرت نے آ لیا۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کی ممی جبران کے والد کو پہلے سے جانتی ہیں اور اسے پتا ہی نہیں ہے۔ جبران نے پوچھا "کیا آپ انھیں جانتی ہیں؟”

    مائری مسکرا دیں "ہاں، کیوں کہ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ یہاں کے دریا اور جھیلوں میں بڑے شوق سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔”

    "ممی، یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے، پھر تو آپ اپنے آفس کے ساتھی کو فون کر کے کہیں کہ جبران اور دانیال یہاں ہیں، کیوں کہ ہم دیر تک گھومیں پھریں گے۔” فیونا نے چہک کر کہا۔

    مائری نے مسکرا کر سر ہلایا اور اٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئیں۔ ان کے جاتے ہی تینوں اسنیکس کھاتے ہوئے گپ شپ کرنے لگے۔ اچانک فیونا بولی "تمھارے پاپا مچھلی کا شکار کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس چھوٹی کشتی بھی ہوگی۔”

    "ہاں، ہے تو؟”جبران کے چہرے پر سوالیہ تاثر ابھرا۔

    "ہم اس کشتی کو لے کر قلعۂ آذر پر چلے جاتے ہیں، بڑا مزا آئے گا۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ قلعہ آذر ایک تاریخی مقام ہے، دانیال کو یہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے، اس کی زندگی کا یادگار تجربہ ہوگا۔ ” فیونا روانی اور جوش سے بولتی رہی، جب کہ جبران اس کے چہرے کو حیرت سے تکتا رہا۔ "کیا تم کبھی وہاں گئی ہو فیونا؟” جبران نے پوچھ لیا۔

    "نہیں۔” فیونا جلدی سے بولی۔ "میری ممی کہتی ہے کہ ہمارے آبا و اجداد وہاں رہتے تھے۔”

    جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا "میں نے قلعۂ آذر کے متعلق بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے، لیکن کبھی یہ نہیں سنا کہ اس قلعے میں کبھی مک ایلسٹر خاندان بھی رہا ہے۔” فیونا جلدی سے بولی "مک ایلسٹر نہیں، بلکہ میری ممی کی طرف کے آبا و اجداد میں سے کوئی وہاں رہتا تھا، یعنی فرگوسن خاندان سے۔”

    اس موقع پر دانیال، جو پہاڑی علاقے میں رہائش کے باعث بادلوں کے تیور دور سے پہچان لیتا تھا، مداخلت کر کے بولا "بھئی اگر تم لوگوں کو کہیں جانا ہے تو فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر مت لگائیں، کیوں کہ آسمان مکمل طور پر صاف نہیں ہے، اور مجھے خدشہ ہے کہ بارش ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔”

    جبران نے ترجمانی کی تو فیونا نے کہا ٹھیک ہے، چلتے ہیں، میں ممی کے لیے وہاں سے پھول بھی توڑ کر لے آؤں گی۔”

    وہ تینوں صدیوں پرانے قلعے کی سیر کرنا چاہتے تھے، اور تینوں میں ایک بات مشترک تھی، یہ کہ انھیں نئی نئی جگہوں کی تلاش اور مہم جوئی میں بہت دل چسپی تھی، فرق یہ تھا کہ دانیال کو اپنا یہ شوق آس پاس کے پہاڑوں میں گھوم پھر کر پورا کرنا پڑتا تھا۔ جبران نے جب فیونا سے پوچھا کہ کیا تم اپنی ممی سے پوچھو گی؟ تو اس کے چہرے پر شرارت بھری مسکان ابھری، اس نے کہا "ممی نے مجھے وہاں جانے سے منع کر رکھا ہے۔”

    وہ تینوں گھر سے نکلے اور جھیل کی طرف بڑھنے لگے۔ تینوں صنوبر اور شیشم کے جھنڈ میں راستہ بناتے ہوئے جا رہے تھے؛ جبران دانیال کو بتانے لگا کہ اسکاٹ لینڈ میں جھیل کو لوچ کہتے ہیں۔ درختوں اور رنگ رنگ کے پھولوں کے درمیان جھیل کا پانی نظر آرہا تھا، اور یہ منظر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی آرٹسٹ نے ایک فن پارہ تخلیق کیا ہو۔ بہار کا موسم عروج پر تھا۔ جھیل کے کنارے پہنچ کر وہ رک گئے۔ کنارے پر فاصلے فاصلے سے چھوٹی کشتیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ جھیل میں کوئی کشتی اس وقت کھیتی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی، جبران ایک کشتی کے پاس کھڑا ہو گیا تو فیونا بولی۔ "تو یہ ہے تمھارے پاپا کی کشتی!”

    اس نے جھیل کے پانی پر نظر دوڑائی اور پھر تشویش بھرے لہجے میں بولی "پانی میں لہریں اٹھ رہی ہیں، ہم محفوظ تو ہوں گے نا؟”

    "ارے گھبراؤ نہیں۔” جبران بولا "میرے پاپا نے مجھے کشتی کھینا سکھایا ہے، اور قلعہ آذر ویسے بھی زیادہ دوری پر نہیں ہے۔ مسٹر لیمنٹ نے پاپا سے گفتگو کے دوران ذکر کیا تھا کہ قلعے کے پاس جزیرے پر ہزاروں تیتر ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے ہم بھی چند تیتر پکڑ سکیں، پھر تو ڈنر میں مزا آ جائے گا۔”

    یہ کہہ کر وہ کشتی میں سوار ہوا اور چپو سنبھال لیے۔ فیونا اور دانیال بھی دوسرے سرے پر بیٹھ گئے۔ دونوں نے ایک ایک چپو سنبھال لیا اور پھر کشتی آہستہ آہستہ جھیل کے اتھلے پانی میں آگے بڑھنے لگی۔ فیونا پہلی مرتبہ کشتی میں سفر کر رہی تھی، وہ پانی میں دیکھ کر بولی "یہ تو تقریباً کالا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ لوچ نِس سے بھی زیادہ گہری جھیل ہے۔”

    ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اس کے لمبے بالوں کو اڑا کر اس کی آنکھوں پر دے مارا۔ وہ ایک ہاتھ سے بال ہٹا کر بولی "دیکھو جبران، پانی میں کتنا اچھال آنے لگا ہے، میں نے سنا ہے کہ لوچ نِس کی طرح اس جھیل ڈون میں بھی عفریت ہے۔” اگرچہ یہ اس کا اپنا منصوبہ تھا کہ قلعۂ آذر کی سیر کی جائے لیکن اب وہ جھیل میں سفر کرتے ہوئے گھبرا رہی تھی۔ "بے وقوفی کی باتیں مت کرو فیونا۔” جبران بولا۔ "بس اب ہم پہنچنے ہی والے ہیں، عفریت جیسی کوئی چیز نہیں، اگر تمھیں پھر بھی ڈر لگ رہا ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لو۔ اب تم گیارہ سال کی ہو گئی ہو لہٰذا تمھیں تصوراتی عفریتوں اور لہروں والے پانی سے نہیں گھبرانا چاہیے۔”

    "میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا جلدی سے بولی "اگرچہ مجھے عفریتوں پر کوئی یقین نہیں ہے لیکن لہروں والے پانی سے میرا بدن کانپنے لگتا ہے، اور مجھے ایسا بالکل پسند نہیں لیکن کیا کروں؟

    اسی لمحے اس کی نگاہیں قلعۂ آذر پر جم گئیں۔ ماحول میں پراسرار خاموشی پھیلی ہوئی تھی، صرف چپوؤں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔

    جاری ہے…….

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    مائری سڑک پار کر کے مک ایوانز بچر شاپ کی طرف جانا چاہتی تھیں کہ اچانک ان کے سامنے ایک بس آکر رک گئی۔ بس کے پائیدان سے ایک وجیہ صورت آدمی اچھل کر ان کے سامنے آ رُکا۔

    "ذرا سنیے خاتون، کیا مجھے کسی ایسے شخص کا پتا دے سکتی ہیں جو مجھے بتائے کہ مچھلیاں پکڑنے کے لیے بہترین جگہ کون سی ہے؟”

    مائری نے اس کی طرف دیکھا، اور سوچا کہ کیا اسے واقعی کسی شخص کی تلاش ہے۔ مائری نے کہا "میں آپ کو ایک ایسے شخص کا نمبر دے سکتی ہوں جو پڑوسی قصبے میں رہتا ہے، آپ حیران ہوں گے لیکن بلال احمد کو گیل ٹے کے باسیوں سے بھی زیادہ یہاں کے ماہی گیری پوائنٹس کے بارے میں معلومات ہیں۔ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، وہ پاکستانی نژاد ہے، فارغ اوقات میں اس کا بہترین مشغلہ یہاں مچھلیوں کا شکار ہے۔”

    "شکریہ خاتون، میرا نام جونی تھامسن ہے، میں لندن سے آیا ہوں، اور آپ ؟” اجنبی نے اپنا تعارف کراتے ہوئے پوچھا۔

    "میں مائری مک ایلسٹر ہوں۔”

    "معلوم ہوتا ہے آپ مسٹر بلال کو کافی عرصے سے جانتی ہیں۔”

    "جی ہاں، ہم ایک عرصے سے ایک ہی آفس میں کام کر رہے ہیں۔” مائری نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر بلال کا نمبر اور گھر کا پتا لکھ کر انھیں دے دیا۔ "ان سے کہنا مائری نے بھیجا ہے، کیا آپ یہاں زیادہ دن رہیں گے؟” مائری نے روانی میں پوچھا لیکن پھر حیران ہو گئیں، کہ اس نے یہ بات کیوں پوچھی۔

    جونی تھامسن نے کہا "میرے بھائی جمی آئندہ ایک دو دن میں مجھ سے ملیں گے، ہم یہاں ایک ہفتے تک رہیں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمارا قیام طویل ہو جائے، مجھے امید ہے کہ ہم دوبارہ ملیں گے۔”

    اسی وقت بس کے ڈرائیور نے سیٹی بجا کر انھیں متوجہ کر دیا، تو وہ مائری سے رخصت ہو کر چلا گیا۔ مائری حیرت سے اس کے متعلق سوچنے لگیں، انھوں نے کئی برسوں سے یہاں اس جیسا وجیہ شخص نہیں دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔ مائری نے سر جھٹک کر سڑک پار کیا اور دکان کی طرف بڑھنے لگیں۔

    جاری ہے……

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشمتل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    "افوہ مما … ایک تو یہاں ہر وقت بارش ہوتی رہتی ہے۔” فیونا نے ممی سے شکایت کی، جیسے وہ اس کا کوئی حل نکال لیں گی۔ "مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پورے سال ایک بھی پورا دن ہم نے خشک دیکھا ہو۔”

    فیونا کی مما مائری مک ایلسٹر کھڑی کے شیشے کے پار دیکھنے لگیں۔ وہ دونوں مک ڈونی کے چائے خانے، جس کی پیشانی پر ٹی روم کا بورڈ آویزاں تھا، میں بیٹھی تھیں۔ چائے خانے کے باہر آس پاس سبزہ نظر آ رہا تھا، یہ سر سبز منظر نگاہوں کو بے حد بھلا محسوس ہوتا تھا۔ مائری نے طویل سانس کھینچ کر کہا۔ "فیونا، تمھیں یہ جگہ پسند ہے تو پھر اس طرح کی شکایتیں کیوں کرتی رہتی ہو۔ان گلابی پھولوں والی سدا بہار جھاڑیوں کو تم کہیں اور دیکھ سکو گی کیا؟” فیونا کی مما نے کرسی سے باقاعدہ اٹھ کر گلی میں ایک طرف روندراں کی جھاڑیوں کی طرف اشارہ کیا تھا، جس میں گلابی رنگ کے بڑے بڑے پھول کھلے تھے۔

    "اوہ مما پلیز، بیٹھ جائیں، ویٹرس چائے لا رہی ہے۔” فیونا نے قدرے غصے سے کہا، اسے ممی کا اس طرح اٹھ کر جھاڑی کی طرف اشارہ کرنا عجیب لگا۔ مائری بیٹھ گئیں۔ ویٹرس نے انگلش چائے کی دو پیالیاں میز پر رکھ دیں جن سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔

    "شکریہ فلورا” فیونا نے ویٹرس کا خوش دلی سے شکریہ ادا کیا اور ممی کی طرف دیکھ کر بیزاری سے کہنے لگی۔ "وہ تو ٹھیک ہے، پر ممی، میں بے حد بور ہو جاتی ہوں۔ ہر وقت بارش…بارش…کوئی بھی کام نہیں ہو پاتا۔”

    فیونا نے چائے کا گھونٹ بھرااور مکھن لگے کیک Scone سے ایک ٹکڑا کاٹ کر منھ میں رکھا۔ کیک کا ٹکڑا لینے کے بعد اس نے مک ڈونی کا اپنا تیار کردہ نارنگی کے مربے کے ڈبا اپنی طرف کھسکایا۔

    مائری نے نیپکن سے ہونٹ صاف کرتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ "جیسا ذائقہ اس مربے اور سکون کا ہے، ویسا تمھیں کسی بڑے شہر میں بھی نہیں ملے گا۔ میری بھی ساری زندگی یہاں گیل ٹے سے زیادہ دور نہیں گزری، اور دیکھو ہشاش بشاش ہوں، تم بھی یہاں خوش رہو گی۔”

    فیونا نے شیشے کے پار آسمان پر پھیلے ہوئے بادلوں کو دیکھا، جن سے مسلسل بارش کے موٹے موٹے قطرے برس رہے تھے اور ان میں کوئی کمی نہیں آ رہی تھی۔ اس نے کہا "مجھے غلط مت سمجھیں ممی، گیل ٹے میں رہنا مجھے بھی پسند ہے، لیکن اتنی چھوٹی سی جگہ میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں، اگر میں کسی بڑے شہر میں رہوں گی تو نئے لوگوں سے ملاقات ہوگی۔” فیونا نے کیک سے ایک اور ٹکڑا لیا اور بولنے لگی "اپنے ارد گرد دیکھو نا، یہاں ہم دونوں ہی ہیں، کوئی تیسرا شخص ہمارے ساتھ نہیں، میں بیزار ہو جاتی ہوں مما۔”

    اسی وقت چائے خانے کے دروازے کے سامنے ایک خاتون رُکی، جس کا چہرہ سیاہ چھتری میں چھپا ہوا تھا۔ چھتری تہ ہو گئی تو مائری نے اسے پہچان لیا۔ نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیں۔

    "فیونا، آپ کو میری طرف سے گڈ ڈے اور آپ کو بھی مائری۔” انھوں نے آتے ہی کہا۔ "اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟”

    "کیوں نہیں۔” مائری نے مسکرا کر کہا اور میز کے اندر سے تیسری کرسی کھینچ کر نکال لی۔نیلی نے چھتری میز کے سہارے ٹکا دی اور برساتی اتار کر کرسی کی پشت پر ڈال دی۔کرسی پر بیٹھنے کے بعد اس نے گرما گرم چائے اور چھوٹی ڈبل روٹی کا آرڈر دے دیا۔ چائے آئی تو نیلی نے فیونا کی طرف جھک کر کہا۔ "یہاں کی چھوٹی ڈبل روٹی اچھی ہے لیکن اتنی بھی نہیں جیسا کہ میں بناتی ہوں۔” فیونا ہنس پڑی۔”میں جانتی ہوں۔”

    نیلی نے ڈبل روٹی کھاتے ہوئے پوچھا "آج کل کیسا محسوس ہو رہا ہے فیونا؟” اس سے پہلے کہ فیونا جواب دیتی، مائری نے مداخلت کر دی۔ "فیونا یہاں کی مسلسل بارش سے تنگ آ چکی ہے اور اب سوچ رہی ہے کہ کسی بڑے شہر میں جا کر رہا جائے۔”

    نیلی نے چونک کر کہا "ہاں، ہم نے بھی وقتاً فوقتاً ایسا ہی محسوس کیا ہے لیکن پھر وقت گزر ہی گیا، میں بہت سفر کر چکی ہوں اور ہر مرتبہ جب یہاں گیل ٹے لوٹ آئی تو بے انتہا مسرت ملی۔” یہ سن کر فیونا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ "آپ بہت سفر کر چکی ہیں، کیا آپ افریقا یا آسٹریلیا یا امریکا بھی گئی ہیں؟”

    نیلی مک ایلسٹر کرافورڈ بتانے لگیں "افسوس میں ان ممالک کے سفر پر کبھی نہیں جا سکی، دراصل میں اسکول ٹیچر تھی اس لیے زیادہ سفر نہ کر سکی لیکن پھر میرے پیارے شوہر گیون کی وفات کے بعد میں نے بہت سفر کیے۔ میں برطانیہ کا زیادہ تر حصہ دیکھ چکی ہوں، حتیٰ کہ آئرلینڈ بھی جا چکی ہوں لیکن افریقا نہیں جا سکی۔ اس زمین کے سب سے دور کے گاؤں کارن وال اپنی بہن پینی لوپ سے کئی مرتبہ ملنے گئی ہوں، لیکن ہاں فیونا، آپ کے نانا نانی نے ان علاقوں کا سفر کیا تھا۔” یہ کہ کر انھوں نے مائری کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر اداسی کے سائے پھیل گئے تھے۔ وہ جلدی سے بولیں "معذرت خواہ ہوں، میں نے آپ کے والدین کا ذکر کر دیا ہے، میں جانتی ہوں کہ ایان اور ہیتھر کی کشتی کے اندوہ ناک حادثے میں موت آپ کے لیے بے انتہا دکھ کا باعث ہے۔”

    "کوئی بات نہیں نیلی، اب تو انھیں گزرے بہت وقت ہو چکا ہے، انھیں سفر بہت پسند تھا، ممی ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ ان کا پسندیدہ مقام مصر ہے، جب کہ ڈیڈ کہا کرتے تھے کہ انھیں جنوبی افریقا پسند ہے۔”

    اگلے ایک گھنٹے تک نیلی اور مائری گفتگو کرتے رہے، انھوں نے دنیا کے ہر موضوع پر باتیں کیں، یہاں تک کہ فیونا بے زار ہو گئی۔ اس کے والد کا انتقال پانچ برس قبل ایک حادثے میں ہوا تھا، اس نے اچانک ممی کو مخاطب کیا۔ "مما، آپ کے دیگر سارے رشتے دار کہاں ہیں؟ نانا نانی کے انتقال کا تو مجھے پتا ہے لیکن آپ کے خاندان کے دیگر لوگوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہاں تو ہر رشتے دار کا تعلق ڈیڈ ہی سے ہے۔ آخر آپ کے کزنز کے ساتھ میری ملاقات کب ہوگی؟”

    "ہو جائے گی کسی دن۔” مائری نے چائے کا آخری گھونٹ بھر کر کہا جو بالکل ٹھنڈی پڑ چکی تھی، لیکن انھیں ٹھنڈی چائے ہی پسند تھی۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ فیونا یہاں بیٹھے بیٹھے بے زار ہو چکی ہے، اس لیے بولیں۔ "میرا خیال ہے بارش رک چکی ہے۔” انھوں نے اٹھ کر باہر جھانک کر دیکھا تو بارش واقعی رک چکی تھی۔ مائری نے بل ادا کیا اور نیلی کو خدا حافظ کہہ کر فیونا کے ساتھ باہر نکل گئیں۔

    "دیکھو فضا کتنی مہک اٹھی ہے، دور دور سے سیاح یہاں آکر ہماری جھیلوں اور دریا میں مچھلیاں پکڑتے ہیں، پھولوں سے ڈھکے پہاڑوں کی سیر کرتے ہیں۔” یہ کہ کر مائری نے گہری سانس لی، اور اسکاٹ لینڈ کے اس بلند علاقے کی مہکی ہوا کو اپنے پھیپھڑوں میں بھرا، جو اسکاٹش ہائی لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ انھوں نے کہا ” ذرا دریائے ٹے کو دیکھو، ٹراؤٹ مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے، اور سورج کی روشنی ان پر پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے دریا میں موتی تیر رہے ہیں، اور ذرا یاد کرو، تم کتنی مرتبہ جھیل لوچ ڈرول میں تیراکی کر چکی ہو، اور نہ جانے کتنی مرتبہ تم وہاں مچھلیاں بھی پکڑنے جا چکی ہو۔ یہ سب کیا ہے، محض اس لیے کہ تمھیں یہ سب پسند ہے، تمھیں یہاں رہنا پسند ہے۔”

    وہ دونوں اس وقت ڈینڈ لون پُل پر کھڑے نیچے دریائے ٹے کے بہتے پانی کو دیکھ رہے تھے۔ مائری پھر بولنے لگیں” اس پُل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سات سو سال سے قائم ہے، یہ پُل اس وقت بنایا گیا تھا جب قلعہ آذرکی تعمیر عمل میں آئی تھی لیکن میرا خیال ہے کہ یہ روایت درست نہیں، یہ پل اتنا قدیم نہیں ہو سکتا۔”

    فیونا نے پُل کی قدامت کے حوالے سے کچھ نہیں کہا اور بولی "میں تو اتنا جانتی ہوں کہ جو حسن یہاں ہے وہ کہیں اور نہیں۔” اس نے دور نظر آنے والی جھیل لوچ نس پر نظر ڈالی، چھوٹے جزیروں نے اس کے آبنوی پانی پر جگہ جگہ دھبے ڈال دیے تھے۔ یہ جزیرے شاہ بلوط، برچ، صنوبر اور سفیدے سے ڈھکے ہوئے تھے، رنگوں کی ایک بہار جوبن پر تھی۔

    "فیونا، ذرا ان پرندوں کی طرف دیکھو، کیا تم نے اس جیسی نغمگی سنی ہے؟” مائری پرندوں کی بولیوں میں گم سی ہو گئی تھیں۔ فیونا نے ہنستے ہوئے کہا "گھبراؤ نہیں ماں، میں بھی مانتی ہوں کہ گیل ٹے رہنے کے لیے سب سے بہترین جگہ ہے۔” دونوں ماں بیٹی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دریائے ٹے کے کنارے چلتے چلے جا رہے تھے۔ فیونا نے دور ایک بڑے سے جزیرے پر قدیم کھنڈرات پر نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا "ممی ، کیا آپ قلعہ آذر کبھی گئی ہیں؟”

    "پتا ہے اس جزیرے پر موجود گاؤں سکارا برے تقریباً چھ ہزار سال پرانا ہے۔” ممی بتانے لگیں "قلعہ آذر میں پتا نہیں ایسی کیا بات ہے کہ میں اس کے اندر قدم رکھنے سے گھبراتی ہوں۔ یہ سوچ کر ہی میرے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں جب سے یہاں ہوں، وہاں کبھی نہیں گئی اور میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ تم وہاں جاؤ، وہ ایک پراسرار جگہ ہے، اس سے دور ہی رہو تو بہتر ہے۔”

    فیونا نے اس پر کچھ نہیں کہا، لیکن چند لمحوں بعد اچانک بولی۔ "ممی، میرے چند دوست آنے والے ہیں ابھی، میں آپ کو بتانا بھول گئی تھی۔ جبران پاکستانی نژاد ہے، پڑوسی گاؤں میں اپنے ممی پاپا کے ساتھ رہتا ہے، اس کا ایک کزن پاکستان سے وزٹ پر آیا ہے، میں نے ان کو گھر پر آنے کی دعوت دے دی ہے۔”

    "یہ تو تم نے بہت اچھا کیا ہے فیونا، بہت اچھی بات ہے، تمھیں یہاں نئے دوست مل گئے ہیں۔ مائری نے خوش ہو کر کہا تو فیونا بولی "ممی کیا آپ مہمانوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا انتظام کر سکتی ہیں؟”مائری نے مسکرا کر کہا "کیوں نہیں، راستے میں مک ایوانز بچر کی دکان سے کچھ چیزیں لے لیتے ہیں۔”

    "لیکن ممی، وہ آنے ہی والے ہوں گے، میں گھر چلی جاتی ہوں، آپ خریداری کر کے آئیں۔” فیونا نے ممی کا ہاتھ پیار سے سہلاتے ہوئے کہا۔ ممی نے کہا "ٹھیک ہے بھئی، ایسا ہی کرتی ہوں۔” فیونا نے ممی سے اجازت لی اور تیز تیز قدموں سے گھر کی طرف چل پڑی۔

    جاری ہے …..