Author: رفیع اللہ میاں

  • ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ناول: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    وہ دونوں ایک پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے پہاڑی بکرے کو بے تحاشا دوڑا رہے تھے، اس کے باوجود کہ انھیں معلوم تھا کہ وہ اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ بکرا تنگ آ کر پہاڑ پر موجود چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر زقند بھرتا، ذرا دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں نے پتھر اٹھا کر اس کے پیچھے پھینکے اور ہنستے ہوئے، پہاڑ کے دامن میں ایک چٹان پر بیٹھ گئے۔

    ان میں سے ایک نے پھولی سانسوں کے درمیان دوسرے سے پوچھا "جبران! اسے بوجھو، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے، بھاگتا جائے ….. بتاؤ، کیا ہے؟”

    جبران جھٹ سے بولا "شروع ہو گئی تمھاری پہیلیاں، لیکن یہ تو بہت آسان ہے، میں بتاتا ہوں ایرو پلین۔”

    پہلا لڑکا ہنس کر بولا "بے وقوف، ہوائی جہاز بھاگتا نہیں اڑتا ہے۔”

    "تو پھر…..” جبران نے چٹان پر بیٹھے بیٹھے آگے کی طرف جھک کر کنپٹی سہلائی اور دوسری کوشش کی "پہاڑی بکرا”۔

    "دھت تیرے کی” لڑکے نے قہقہ لگایا۔

    "تو پھر تم ہی بتا دو۔” جبران نے جھنجھلا کر کہا۔

    "وقت” اس نے جواب دیا۔ لیکن یہ سن کر جبران اچانک اچھل کر چٹان سے کود پڑا اور بولا "ارے، میں تو بھول گیا تھا، مما نے جلدی آنے کو کہا تھا، چلو دیر ہو گئی ہے۔”

    جبران گول گول پتھروں پر چھلانگیں مارتا گھر کی جانب دوڑا، دوسرا لڑکا بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ درختوں کے جھنڈ کی دوسری طرف ایک چھوٹے مگر سلیقے سے بنے نہایت خوب صورت گھر کے کھلے دروازے میں داخل ہو کر جبران رک گیا۔ صحن میں ایک پُروقار خاتون تار پر سے سوکھے کپڑے اتار رہی تھیں، چہرے مہرے سے وہ چالیس سال کی لگ رہی تھیں، اور اس نے اس پہاڑی گاؤں کی روایت کے برعکس سادہ لیکن جاذب نظر شلوار قمیض پہن رکھا تھا۔ پاؤں میں غیر ملکی چپل تھی، یہ بات نہیں تھی کہ انھیں اپنی روایات پسند نہیں تھیں، بلکہ وہ ایک طویل عرصہ اسکاٹ لینڈ میں گزارنے کے باعث اپنے خوب صورت ترین شہر اور پُر فضا مقام گلگت کی ثقافت سے دور ہو گئی تھیں۔ لیکن یہاں کی ثقافت اب بھی ان کے دل میں زندہ تھی، وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھیں، یہ اور بات تھی کہ یہاں کا روایتی لباس اب ان سے پہنا نہیں جاتا تھا۔ وہ ہلکا پھلکا لباس پہننے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ان کا نام شاہانہ تھا۔

    شاہانہ نے مڑ کر اپنے بیٹے جبران کی طرف دیکھا اور کلائی میں بندھی سنہری گھڑی پر نظر ڈالی، پھر تیز آواز میں بولیں۔ ” جبران ، تم دس منٹ لیٹ ہو۔”

    "سوری ممی، قصور اس پہاڑی بکرے کا ہے۔” جبران کوئی بات بنا رہا تھا کہ منھ سے بکرے کا ذکر نکل گیا۔

    "پہاڑی بکرا…. تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟” ممی نے اسے گھور کر دیکھا۔

    "وہ ممی، دراصل ہم پہاڑی بکرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔” جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ اسے پتا تھا کہ اب ممی غصہ ہوں گی، اور اسے ایک عدد لیکچر سننے کو ملے گا ، لیکن خلاف توقع انھوں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔”بے وقوفی والی باتیں مت کرو، کمرے میں جاؤ اور اپنا سامان سمیٹ لو۔”

    "ٹھیک ہے ممی۔” جبران نے کہا اور پیچھے مڑ کر دوسرے لڑکے سے پوچھا "کیا تم تیاری کر چکے ہو؟”

    ابھی وہ جواب دینے ہی والا تھا کہ خاتون نے اسے مخاطب کیا "دانیال بیٹا، تم بھی جاؤ، امی تمھارا انتظار کر رہی ہو گی، کل صبح ہماری فلائٹ ہے، اپنی ساری چیزیں سمیٹنے میں امی کی مدد کرو۔”

    "جی آنٹی۔” دوسرے لڑکے دانیال نے سَر ہلایا اور جبران کے کندھے کو ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے نکل گیا۔

    اگلی صبح اسکاٹ لینڈ کے لیے ان کی فلائٹ تھی۔ جبران کے والد بلال احمد بیس سال سے اسکاٹ لینڈ میں کام کے سلسلے میں مقیم تھے۔ شاہانہ کی پیدائش اسکاٹ لینڈ ہی میں گلگت کے ایک خاندان میں ہوئی تھی، لیکن ان کے والدین نے انھیں بچپن میں گلگت بھجوا دیا، تاکہ وہ اپنے آبائی گاؤں کے ماحول میں پروان چڑھے۔ بیس سال کی عمر میں وہ واپس اسکاٹ لینڈ گئیں، اور پھر تیس سال کی عمر میں ان کی شادی بلال احمد سے ہوئی۔ شاہانہ ایک عرصے بعد گلگت آئی تھیں، اور جبران نے پہلی مرتبہ آبائی گاؤں دیکھا جو اسے بہت پسند آیا تھا۔ واپس جانے کو ابھی اس کا جی نہیں کر رہا تھا لیکن وہ اپنے کزن دانیال کو اسکاٹ لینڈ دکھانے کے لیے بے چین تھا۔ دانیال اس کے چچا کا بیٹا تھا اور گیارہ سال کا تھا، یعنی اس سے ایک سال بڑا۔ دونوں ایک دوسرے کے پکے دوست بن گئے تھے۔ یہ جبران ہی کی ضد تھی جو اس کے والد نے دانیال کے لیے بڑی مشکلوں سے وزٹ ویزا بھجوایا۔

    صبح نو بجے انھوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے رشتے داروں اور سرزمین پاک کو الوداع کہا، اور جزیروں کی سرزمین کی طرف محو پرواز ہو گئے۔ دانیال نے پہلی مرتبہ ہوائی جہاز میں قدم رکھا تھا، اس لیے وہ با ت بات پر حیران ہو رہا تھا اور جبران اسے ہر چیز کی تفصیل پُر جوش انداز میں بتاتا جا رہا تھا۔

    دونوں دوران پرواز کبھی باتوں میں مگن ہوتے، کبھی کچھ کھاتے، کبھی سوتے ، یہاں تک کہ جہاز گلاسگو کے ایئرپورٹ پر اتر گیا۔ تیرہ چودہ گھنٹوں کے طویل فضائی سفر نے انھیں تھکا دیا تھا۔ ایئرپورٹ پر جبران کے والد بلال احمد ان کے منتظر تھے۔ جبران انھیں دیکھ کر دوڑا اور ان سے لپٹ گیا۔ "پپا، میں نے آپ کو بہت مس کیا۔”

    "مجھے بھی تم لوگ بہت یاد آ رہے تھے۔” انھوں نے جبران کو پیا ر کیا۔

    "پپا، یہ دانیال ہے، پتا ہے دانی اب میرا بیسٹ فرینڈ بن چکا ہے۔” جبران نے اپنے نئے دوست کا تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ بلال احمد مسکرائے اور دانیال کو بھی گلے لگا لیا۔ "کیسے ہو بیٹا، ہوائی جہاز کا سفر کیسا لگا؟”

    "بہت زبردست، بہت مزا آیا۔” دانیال نے فوراً جواب دیا۔

    وہ ایئرپورٹ سے نکل کر گاڑی کے پاس آ گئے، تو کار سے پانچ سالہ عرفان اور دو سالہ سوسن بھی نکل کر ممی اور بھائی جان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ گاڑی میں بیٹھ کر جبران کی ممی نے سوسن کو گود میں بٹھا لیا اور ایک بازو عرفان کے گرد حمائل کر کے ان سے باتیں کرنے لگیں۔ ان دونوں کو انھوں نے اپنے پاپا کے پاس ہی اسکاٹ لینڈ میں چھوڑا تھا۔

    گلاسگو، اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر… دانیال اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ اسے پہلی نظر میں یہ شہر پسند آ گیا تھا اور اس لیے وہ بہت خوش تھا۔

    گلاسگو کے مضافات می بلال احمد نے ایک چھوٹا سا لیکن خوب صورت گھر خریدا تھا، جس کے سامنے ایک پیارا سا باغیچہ تھا۔ باغیچے کے سامنے انھوں نے گاڑی روک دی اور اعلان کیا۔ "یہ ہے ہمارا چھوٹا سا پیارا گھر۔”

    جبران تیزی سے دروازہ کھول کر اترا، اور باغیچے کے درمیان بنے تنگ راستے میں دوڑا، جس کے اختتام پر گھر کا دروازہ تھا۔ دورازہ بند تھا، وہ مڑا اور بولا "پپا پلیز، چابی مجھے دیں۔”

    بلال احمد ڈگی سے سوٹ کیس نکال رہے تھے، ذرا ٹھہر کر انھوں نے چابی نکالی اور جبران کی طرف اچھال دی۔ جبران نے چابی کیچ کر لی اور دروازہ کھول دیا۔پھر مڑ کر دیکھا اور بولا۔ "دانی، بھاگ کر آؤ، میں تمھیں اپنا گھر دکھاتا ہوں۔”

    دانیال بھی اس کی طرف دوڑا۔ گھر کو اندر سے اتنی نفاست سے سجایا گیا تھا کہ دانیال حیران رہ گیا۔ جبران نے ذرا دیر میں سارا گھر اسے دکھا دیا، وہ بے حد متاثر ہوا، پھر وہ ایک کمرے میں آ کر بیٹھ گئے۔ بلال احمد شاہانہ سے گاؤں کے حالات پوچھنے لگے، اور دونوں دوست اپنی گپ شپ میں محو ہو گئے۔ رات کا کھانا انھوں نے مل کر کھایا، اور پھر کچھ دیر بعد وہ سونے کے لیے چلے گئے۔

    اگلی صبح ناشتے کے بعد جبران کے پاپا تو آفس چلے گئے، جب کہ جبران، دانیال کو لے کر چھت پر آ گیا۔

    "جبران، کیا تمھارا یہاں کوئی دوست نہیں ہے؟” دانیال نے پوچھا۔ جبران نے جواب میں کہا "یہاں محلے میں تو کوئی خاص نہیں البتہ اسکول میں ڈینئل میرا بہت اچھا دوست ہے، ایک آن لائن فرینڈ بھی ہے۔ فیونا…. تمھاری ہی ہم عمر ہے، یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے گیل ٹے کے نام سے، وہاں اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہے۔”

    دانیال نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا، اس لیے اسے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے بارے میں کچھ پتانہیں تھا، اس لیے اس نے پوچھا "یہ آن لائن فرینڈ سے کیا مطلب ہے؟”

    جبران کو پہلے تو اس کی بے خبری پر حیرت ہوئی لیکن پھر اس نے تفصیل سے بتا دیا کہ وہ کس طرح اس کی دوست بنی۔ "تو تم آج تک فیونا سے نہیں ملے ہو؟” دانیال نے حیران ہو کر کہا۔

    "نہیں۔” جبران بولا۔ "لیکن چلو، ابھی اس سے رابطہ کرتے ہیں، اس نے کہا تھا کہ میں جیسے ہی واپس آؤں اسے ضرور بتاؤں۔”

    جبران اسے لے کر اپنے کمرے میں آیا، اور کمپیوٹر آن کر کے فیونا کو انباکس میسج کر دیا،کچھ ہی دیر میں فیونا کا جواب آ گیا، اس نے جبران کو اسکاٹ لینڈ واپس آنے پر خوش آمدید کہا تھا، اور پھر پاکستان اور گلگت کے سفر سے متعلق تفصیلات پوچھنے لگی۔ جبران نے اسے دانیال سے متعلق بھی بتا دیا۔ فیونا یہ جان کر خوش ہوئی اور کہا کہ وہ بھی اس کے ساتھ چیٹنگ کرے، لیکن جبران نے بتایا کہ دانی کو انگریزی نہیں آتی۔ فیونا کو مایوسی ہوئی، لیکن پھر اس نے دونوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے دی۔ جبران نے کہا اگر ممی پاپا نے اجازت دی تو وہ ضرور دانی کو لے کر آ جائے گا۔

    دوپہر کو کھانے کی میز پر جبران نے ممی سے فیونا کا ذکر کر دیا، اور جانے کی اجازت مانگی۔ چوں کہ فاصلہ زیادہ نہیں تھا اس لیے انھوں نے اجازت دے دی۔ شام کو پپا نے بھی بہ آسانی اجازت دے دی اور دونوں نے اگلے دن صبح ہی گیل ٹے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

    صبح سویرے دونوں بس میں بیٹھ کر دس منٹ میں گیل ٹے پہنچ گئے۔ فیونا کا گھر ڈھونڈنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ تھوڑی ہی دیر میں درست پتے پر پہنچ گئے۔ ایک بہت ہی پیاری لڑکی …. فیونا کھڑکی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ وہ دراصل ان ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ انھیں آتے دیکھ کر وہ دوڑ کر باہر آئی اور ان کے سامنے رک گئی۔ خوش آمدید کہ کر دونوں سے ہاتھ ملایا۔

    جاری ہے…..

  • باغ میں‌ تتلی

    باغ میں‌ تتلی

    نہال خوش تھا۔ بہار آئی ہوئی تھی۔ باغیچے میں پھول ہی پھول کِھلے تھے۔

    اُسے رات جلدی سونے کی عادت تھی کیوں کہ اس سے نیند برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اِدھر کھانا کھاتا اور اُدھر اس کی آنکھیں بوجھل ہونا شروع ہوجاتیں۔ پاپا بڑی مشکل سے اسے تھوڑی سی واک کراتے اور پھر وہ دوڑ کر بستر پر گر جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صبح سویرے ابھی ممی پاپا اور گڑیا سو رہے ہوتے اور نہال جاگ جاتا۔ پھر وہ سارے گھر میں اِدھر اُدھر پھرتا یا کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگ جاتا یا پھر باہر اپنے گھر کے باغیچے میں نکل جاتا۔

    اُس دن جب وہ سویرے سویرے باغیچے میں گیا تو بہت حیران ہوا۔ پودوں پر بہار ایسی اُتری تھی کہ پھول ہی پھول کِھل گئے تھے۔ باغیچے میں ہلکی سی سفید دھند پھیلی تھی۔ اُفق پر سورج نے ابھی سَر نہیں اٹھایا تھا۔ فضا بے حد خوش گوار تھی اور ہلکی ہلکی سردی تھی۔ اسے بڑا مزا آیا۔ رنگ برنگے پھول دیکھ کر وہ خوش ہوا اور دوڑ کر ایک ایک پھول کو ہاتھ لگا کر دیکھنے لگا۔ سارا باغیچہ خوش بو سے مہکا ہوا تھا۔ وہ گہری سانسیں لے کر خوش بو اپنے پھیپھڑوں میں اُتارنے لگا۔

    اسے یاد آیا کہ انگلش بُک کے ایک سبق میں پارک، بہار اور پھولوں کا ذکر اس نے پڑھا تھا۔ اس نے پودوں، درختوں اور پھولوں پر نگاہ دوڑائی تو اسے یہ منظر بالکل اُسی تصویر جیسا لگا جو کتاب میں شامل تھی اور کسی آرٹسٹ کی بنائی ہوئی تھی۔ وہ خود بھی شوق سے ڈرائنگ کرتا تھا۔

    کیاری سے گزرتے گزرتے وہ سفید اور ملائم پتیوں والے پھولوں کے پاس رک گیا۔ یہ چنبیلی تھی۔ اس نے زور سے سانس کھینچی۔ یہ خوش بو اسے بہت پسند تھی۔ یکایک وہ چونکا۔

    ارے تتلی… نارنجی، سیاہ اور سفید رنگ کے پروں والی تتلی چنبیلی سے اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

    ”ارے رُکو کہاں جارہی ہو۔“ نہال بولا اور سبز گیلی گھاس پر تتلی کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ وہ ننگے پاؤں تھا۔ ٹھنڈی گھاس اس کے تلوؤں پر گدگدی کرتی تھی۔ تتلی تھی کہ پھولوں پر سے ہوا کی طرح سرسراتی اڑتی جارہی تھی۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ نہال اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا رہا۔ تتلی آسانی سے کسی کے ہاتھ نہیں آتی۔ اس نے نہال کو دوڑا دوڑا کر تھکا دیا۔ آخر کار وہ بے حال ہوکر رُک گیا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

    رنگین پروں والی بڑی تتلی بھی قریبی گلاب پر بیٹھ گئی اور نہال کو دیکھنے لگی۔ ”ٹھیک ہے‘ میں اب تمھیں نہیں پکڑوں گا۔“ نہال نے سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا۔

    ”تم بھی اب مت اُڑنا۔ تم مجھے اچھی لگتی ہو۔ کتنے پیارے، رنگین پر ہیں تمھارے۔ یہ پیلا رنگ کتنا پیارا ہے۔“ نہال نے سَر آگے کر کے اُسے قریب سے دیکھنے کی کوشش کی۔

    ”میرے قریب مت آؤ۔“ تتلی نے اچانک اسے ٹوکا اور وہ یہ باریک آواز سن کر اچھل پڑا۔
    ”ارے تم بول سکتی ہو۔“ نہال حیران ہوا۔

    ”ہاں‘ لیکن مجھے تم پر غصہ آرہا ہے‘ تم اچھے نہیں ہو۔“ تتلی پیاری سی باریک آواز میں بولی۔

    نہال نے کہا‘ تتلی کو بھی غصّہ آتا ہے۔ تتلی تو اتنی نازک ہوتی ہے۔ غصّہ کیسے سہتی ہے؟

    تتلی بولی کہ اس کے پَروں کا رنگ پیلا نہیں نارنجی ہے۔ اچھے بچّے تتلی کے پیچھے نہیں دوڑتے۔ اور وہ تتلی کے نارنجی پروں کو پیلا بھی نہیں کہتے۔

    ”اچھا میں سوری کرتا ہوں بس۔“ نہال نے جلدی سے غلطی مان لی۔

    تتلی خوش ہوئی اور بولی۔ ”میرا نام مونارک ہے۔ تمھارا نام مجھے معلوم ہے۔ پاپا نے تمھارا نام نہال رکھا تھا۔“

    ”تمھیں میرا نام کیسے معلوم ہوگیا؟“ نہال مزید حیران ہوا۔

    ”بس ہوگیا معلوم، یہ تمھیں نہیں بتا سکتی۔“ مونارک اِترا کر بولی۔

    ”میں نے تمھیں پہلے یہاں نہیں دیکھا۔“ نہال کہنے لگا۔ ”تم کتنی بڑی ہو، تتلی تو چھوٹی ہوتی ہے۔“

    وہ بتانے لگی کہ مونارک بڑی تتلی ہوتی ہے اور یہاں بس کبھی کبھی آجاتی ہے، وہ بھی سویرے سویرے، اور پھر چلی جاتی ہے۔

    ”تو کیا تم ابھی چلی جاؤ گی۔“ نہال اُداس ہوگیا۔

    ”ہاں۔“ مونارک نے اپنے سَر پر موجود دو انٹینا لہرا کر کہا۔ ”میں جتنی خوب صورت ہوں، اُتنی زہریلی بھی ہوں۔ مجھے کوئی جانور پکڑ کر کھاتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ پتا ہے میں آج بہت اداس ہوں۔“

    ”ارے تمھیں کیا ہوا، تم کیوں اداس ہو؟“ نہال نے پریشان ہوکر پوچھا۔

    ”میرے دوست مجھ سے کہتے ہیں کہ تم زہریلی ہو، ہم تمھارے ساتھ نہیں کھیلیں گے۔“ مونارک بولی۔

    نہال نے یہ سن کر جلدی سے کہا کہ آج سے میں تمھارا دوست ہوں، ہم دونوں کھیلیں گے اور میں تمھیں پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔ ٹھیک ہے اب۔ لیکن تتلی نے اسے بتایا کہ اسے ابھی ضرور جانا ہے۔ وہ ہر سال ہزاروں میل کا سفر کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے۔ آج جب وہ یہاں سے گزر رہی تھی تو اس کو ایک تتلی نے بتایا کہ اس کے ماں باپ اس کے پیدا ہوتے ہی مرگئے تھے۔ سبھی مونارکوں کے ماں باپ اسی طرح مرتے ہیں۔ اسے اپنے ماں باپ بہت یاد آتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے مونارک رونے لگی۔ ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھوں میں جھلملانے لگے۔ نہال بھی اُداس ہوا اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔

    مونارک کہنے لگی۔ ”نہال‘ میرے دوست، تم کتنے اچھے ہو۔ تم میرے لیے دکھی ہوگئے ہو۔“

    ”ہاں‘ میں تمھیں کبھی بھی زہریلی نہیں کہوں گا، پکّا وعدہ۔“ نہال نے کہا۔

    مونارک اپنی چھے ٹانگوں میں سے دو چھوٹی ٹانگوں سے اپنا پیٹ کھجانے لگی۔

    نہال کو ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے۔ اور پھر کہا۔ ”مونارک‘ تم نے سچ مچ اپنے ممی پاپا کو نہیں دیکھا۔“

    ”ہاں۔“ اس نے اداسی سے اپنا چھوٹا سا سر ہلایا۔ ”مونارک اپنے ماں باپ کو کبھی نہیں دیکھ پاتے۔ وہ انڈوں سے مونارک کے نکلنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔

    نہال نے بوجھل دل سے کہا۔ ”اچھی تتلی، اب تو میں تمھارا دوست ہوں۔ اب تم مت روؤ۔“

    ”ٹھیک ہے میرے دوست۔ لیکن اب مجھے جانا ہوگا۔“ تتلی بولی اور اپنے پَر پھڑ پھڑانے لگی۔ وہ اُڑنے کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ ”مجھے بہت دور، دوسرے ملک جانا ہے۔ اب تمھارے ممی پاپا بھی جاگنے والے ہیں۔ وہ تمھیں تلاش کرنے ادھر آئیں گے۔“

    نہال نے پوچھا کہ کیا وہ پھر آئے گی اس باغیچے میں۔ تتلی نے کہا کہ تتلیاں بس ایک بار سفر کرتی ہیں اور پھر مر جاتی ہیں۔ پھر شاید اس کے بچّے یہاں چکر لگائیں۔

    نہال پریشان ہوگیا۔ ”تو کیا تم اپنے ننھے بچّوں کے ساتھ نہیں ہوگی‘ وہ اکیلے ہوں گے؟“

    ”ہاں۔“ وہ بولی۔ ”مونارک کے بچے یتیم پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ گھبراتے نہیں ہیں۔ اپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے رنگین پَروں سے دنیا کو خوب صورت بناتے ہیں۔“ یہ کہہ کر مونارک اُڑی اور اُڑتی چلی گئی۔

  • کیا پیوٹن یوکرین پر ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں؟

    کیا پیوٹن یوکرین پر ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں؟

    کیا پیوٹن یوکرین پر ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں؟ اس مہلک سوال نے عالمی سطح پر جنگوں کو ناپسند کرنے اور امن کے بارے میں سوچنے والے افراد کے اذہان کو جکڑا ہوا ہے۔

    آپ کو یاد ہوگا کہ یوکرین پر حملے کے فوراً بعد، صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی "ڈیٹرنٹ فورسز” یعنی جوہری ہتھیاروں سے لیس فوج کو تیار رہنے کی ہدایت کی تھی، اسی سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ ماسکو ‘طاقت ور’ جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔

    ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کیا ہیں؟

    بی بی سی سیکیورٹی کوریسپانڈنٹ گورڈن کوریرا کے مطابق ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار وہ ہیں جو نسبتاً کم فاصلے پر استعمال کیے جا سکتے ہیں، اور اس کے استعمال کا مقصد فوری اور مؤثر نتائج کا حصول ہوتا ہے، ان کا استعمال جارحانہ صورت میں بھی ہوتا ہے اور دفاعی صورت میں بھی۔ یہی حیثیت انھیں ‘اسٹریٹیجک’ جوہری ہتھیاروں سے ممتاز کرتی ہے۔

    اس کے باوجود ‘ٹیکٹیکل’ کی اصطلاح میں ہتھیاروں کی بہت سی اقسام شامل ہیں، بشمول چھوٹے بم اور میزائل جو ‘میدان جنگ’ کے ہتھیاروں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

    روس کے پاس کون سے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار ہیں؟

    خیال کیا جاتا ہے کہ روس کے پاس تقریباً 2000 ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار ہیں، انھیں مختلف قسم کے میزائلوں پر رکھا جا سکتا ہے، جو عام طور پر روایتی دھماکا خیز مواد پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ انھیں میدان جنگ میں توپ خانے کے گولوں کے طور پر بھی فائر کیا جا سکتا ہے۔

    کیلیبر میزائل (SS-N-30)

    انھیں ہوائی جہاز اور بحری جہازوں کے لیے بھی تیار کیا گیا ہے، مثال کے طور پر تارپیڈو اور آبدوزوں کو نشانہ بنانے کے لیے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ وار ہیڈز روس کی اسٹوریج والی عمارتوں میں رکھے گئے ہیں، یعنی جنگ کے لیے انھیں نکالا نہیں گیا ہے۔ تاہم عالمی سطح پر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ روس نے اگر فیصلہ کیا تو بڑے اسٹریٹجک میزائلوں کے مقابلے میں چھوٹے ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کرے گا۔

    ان ہتھیاروں کی طاقت؟

    ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار سائز اور طاقت میں بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں، سب سے چھوٹا ایک کلوٹن (kiloton) یا اس سے کم ہو سکتا ہے (ایک ہزار ٹن دھماکا خیز TNT کے برابر)، اور بڑا غالباً 100 کلوٹن جتنا بڑا ہو سکتا ہے۔ اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما میں جس بم نے تقریباً 146,000 افراد کو ہلاک کیا تھا، وہ صرف 15 کلوٹن تھا۔

    ماہرین کے مطابق اگر یہ ہتھیار چلائے گے تو ان کے اثرات کا انحصار وار ہیڈ کے سائز، زمین سے ان کی بلندی اور مقامی ماحول پر منحصر ہوں گے۔ روس کے سب سے بڑے اسٹریٹجک ہتھیار کم از کم 800 کلوٹن بتائے جاتے ہیں۔

    پیوٹن کے بیانات

    دراصل جوہری ہتھیاروں سے متعلق پیوٹن کے بیانات نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کی، یہ بظاہر خوف کا احساس پیدا کرنے کی کوشش ہے، بی بی سی سیکیورٹی کوریسپانڈنٹ گورڈن کوریرا کے مطابق یہ بیانات دراصل مغرب کے لیے ایک اشارہ ہیں کہ وہ یوکرین میں مزید مداخلت سے باز رہیں، اور امریکی جاسوس اسے جوہری جنگ کی منصوبہ بندی کے طور پر نہیں دیکھ رہے۔

    مختصر فاصلے والے جوہری ہتھیار لے جانے کے لیے روس کے پاس 2 سسٹمز موجود ہیں:

    کیلیبر میزائل (SS-N-30) یہ آبدوز اور بحری جہاز سے لانچ ہونے والا کروز میزائل سسٹم ہے۔
    اس کا ہدف زمین یا سمندر دونوں مقامات پر ہے اور رینج 15 سو 2 ہزار 500 کلو میٹر تک ہے، میزائل کی لمبائی 6.2 میٹر ہے اور یہ کروز میزائل ہے۔

    اسکندر ایم میزائل لانچر (SS-26 ‘Stone’)، یہ موبائل گراؤنڈ بیسڈ میزائل سسٹم ہے جس کی  رینج 400 سے 500 کلو میٹر تک ہے، اور زمین سے زمین پر ہدف بناتا ہے، میزائل کی لمبائی 7.3 میٹر ہے، اور یہ سولڈ فیول راکٹ ہے

    تاہم دوسری طرف یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ اگرچہ امکانات کم ہیں، لیکن یہ ممکن ہے کہ روس، بعض حالات میں، یوکرین میں چھوٹے ٹیکٹیکل ہتھیار استعمال کرنے پر آمادہ ہو۔ تاہم روس کا اگر نیٹو کے ساتھ تنازع ہو تو اس کا رویہ ہمیشہ جارحانہ ہوتا ہے، وہ نیٹو کو پیچھے دھکیلنے کے لیے اسی طرح کا طرز عمل اختیار کرتا ہے۔ یہ طرز عمل ڈرامائی اقدامات پر مشتمل ہوتا ہے جیسا کہ میدان جنگ میں ٹیکٹیکل ہتھیار کا استعمال، یا ایسا کرنے کی دھمکی دینا۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فریق مخالف کو اتنا ڈرایا جائے کہ وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو۔

    اسکندر ایم میزائل لانچر (SS-26 ‘Stone’)

    تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر پیوٹن کو محسوس ہوتا ہے کہ یوکرین میں ان کی حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے، تو وہ تعطل کو توڑنے یا شکست سے بچنے کے لیے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کو ‘گیم چینجر’ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ممکنہ طور پر یوکرین میں یا روس میں صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔

    فی الوقت جوہری ماہرین کا یہی خیال ہے کہ روسی صدر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بات کر کے لوگوں کو خوف زدہ کر رہے ہیں، تاہم ایک امکان کے طور پر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ معاملات اپنے قابو میں کرنے کے لیے وہ یوکرین کی زمین پر ایک جوہری ہتھیار چلا سکتے ہیں۔ کنگز کالج لندن کی نیوکلیئر ماہر ڈاکٹر ہیدر ولیمز کہتی ہیں کہ سوال یہ ہے کہ پیوٹن کے لیے یوکرین میں ‘جیت’ کا کیا مطلب ہے؟ یہ ابھی واضح نہیں ہوا، اور آخر روس کو جوہری ہتھیار استعمال کرنے پر کیا چیز مجبور کر سکتی ہے؟ خیال رہے کہ یوکرین روس تنازع پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس یوکرین میں حکومت کا تختہ الٹنے سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہوں گے۔

    ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کا استعمال خود کو شکست ہے؟

    ایک پریشان کن معاملہ یہ بھی ہے کہ روس بہت قریب ہے، کیا یوکرین میں کسی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار کے استعمال کے بھیانک اثرات خود روس کی سرحدوں کو عبور نہیں کر سکتے، جب کہ پیوٹن کا دعویٰ بھی ہے کہ یوکرین روس کا حصہ ہے، پھر اپنی ہی زمین پر جوہری ہتھیار کے استعمال کے کیا معنی؟ بہرحال جوہری ماہرین کے آگے یہ سوال موجود ہے کہ کیا دوسری عالمی جنگ میں امریکا کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد پیوٹن اس ‘ممنوع’ کو کر گزرنے والا پہلا رہنما بننا چاہیں گے؟ کچھ لوگ فکر مند ہیں کیوں کہ انھوں نے وہ کام کر ڈالے ہیں جن کے بارے میں دوسروں کا خیال تھا کہ وہ نہیں کریں گے، جیسا کہ یوکرین پر حملہ یا 2018 میں سیلسبری (برطانوی شہر) میں اعصابی گیس کا (مبینہ) استعمال۔ ڈاکٹر ہیدر ولیمز کا کہنا ہے کہ روس کے جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کی ایک اور وجہ بھی ہے، اور وہ ہے چین۔

    روس چین کی حمایت کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے، جب کہ چین ‘پہلے استعمال نہ کرنے’ کے جوہری نظریہ پر عمل پیرا ہے، اس لیے ڈاکٹر ہیدر کا خیال ہے کہ اگر پیوٹن نے جوہری ہتھیار چلا دیے، تو چین کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہونا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو جائے گا، اور ممکن ہے وہ چین کو کھو دے۔

    کیا ایٹمی جنگ بھی چھڑ سکتی ہے؟

    کوئی نہیں جانتا کہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کا استعمال کہاں تک لے جائے گا، یہ تو واضح ہے کہ پیوٹن سمیت جوہری جنگ کوئی نہیں چاہے گا، تاہم غلط حساب کتاب کی غلطی بھی ہو سکتی ہے، اگر اس کا استعمال مخالف فریق کے ہتھیار ڈالنے کے خیال سے کیا جائے تو یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ نیٹو پوری طاقت کے ساتھ یوکرین کے اندر آ کر جواب دینے لگے۔

    امریکا کا کہنا ہے کہ صورت حال پر اس کی گہری نظر ہے، اس کی انٹیلی جنس روسی جوہری سرگرمیوں کو بغور دیکھ رہی ہے، جیسا کہ آیا ٹیکٹیکل ہتھیاروں کو اسٹوریج سے باہر منتقل کیا جا رہا ہے، یا لانچ کی جگہوں پر صورت حال میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی، تاہم امریکا نے تاحال ایسی کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔

    گورڈن کوریرا نے لکھا ہے کہ امریکا اور نیٹو کسی بھی جوہری استعمال کا جواب کیسے دیں گے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ صورت حال کو مزید بڑھانا نہ چاہیں جس سے ایٹمی جنگ کا خطرہ سر پر منڈلانے لگ جائے، تاہم وہ ایک لکیر کھینچنا تو ضرور چاہیں گے، یعنی ایٹمی رد عمل کی بجائے ایک روایتی لیکن سخت رد عمل، اور پھر روس کیا کرے گا؟

    برطانوی نیوکلیئر سائنس دان جیمز ایکٹن کا کہنا ہے کہ ایک بار جب آپ جوہری دہلیز عبور کر لیتے ہیں، تو پھر رکنے کا کوئی واضح مقام دکھائی نہیں دیتا۔

    رپورٹ: بی بی سی

  • کابل میں ویلنٹائنز ڈے پر کیا ہوا؟ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو کس نے بنائی؟

    کابل میں ویلنٹائنز ڈے پر کیا ہوا؟ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو کس نے بنائی؟

    کابل: طالبان کے دورِ حکومت میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کی دکانیں اور گلیاں جب ویلنٹائنز ڈے پر سُرخ پھولوں اور دل کے شکل کے غباروں سے بھر گئیں تو سوشل میڈیا پر یہ مناظر دیکھ کر دنیا والے حیران رہ گئے۔

    ایک طرف جب کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ سخت مزاج اسلام پسند طالبان کی ناک کے نیچے کوئی غیر مسلموں کا ایک ایسا تہوار منائے گا، جس پر پہلے ہی سے مسلمان حلقوں میں بے حیائی کا اعتراض عائد ہے، ایسے میں کابل کے دکان داروں نے اپنی دکانیں سُرخ گلابوں، لال غباروں، ٹیڈی بیئر اور دیگر اشیا سے سجا دیں۔

    خیال رہے کہ افغانستان بالخصوص کابل میں پہلے بھی ویلنٹائنز ڈے منایا جاتا رہا ہے، اس سال طالبان کی حکومت میں بھی شہریوں نے کسی فکر کے بغیر محبتوں کا یہ تہوار منایا، طالبان دور حکومت میں سڑکیں اور گلیاں بھی سرخ غباروں سے سجائی گئیں۔

    لیکن سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی زیر گردش ہے، جو ایک دکان پر پھول خریدنے آئی ہوئی ایک لڑکی نے بنائی، اس ویڈیو کے مطابق چند طالبان اہل کاروں نے کابل کے علاقے پُل سرخ میں پھولوں اور گفٹس کی ایک دکان پر چھاپا مارا، اور اسے بند کرا دیا۔

    مقامی صحافیوں نے ٹوئٹس میں بتایا کہ طالبان نے شہر میں کئی دکانیں بند کرائیں، اور ویلنٹائن ڈے منانے نہیں دیا گیا، طلوع نیوز کے ایک سابق صحافی نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ اس دکان میں ایک لڑکی اپنی سہیلی کے ہمراہ پھول لینے آئی تھی۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دکان میں کام کرنے والے لڑکے افراتفری میں باہر رکھے ہوئے پھولوں کے ٹوکرے اٹھا اٹھا کر اندر لا رہے ہیں، اور آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جلدی کرو، اس دوران فٹ پاتھ پر لوگ آ جا رہے ہیں اور سڑک پر گاڑیاں چلتی بھی دکھائی دے رہی ہیں۔

    اسی دکان کی ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دکان کے باہر طالبان اہل کار گزر رہے ہیں، اور دکانیں بند کرا رہے ہیں۔

    کچھ تصاویر ایسی بھی سامنے آئی ہیں جن میں اسی دکان کے باہر کا منظر ہے، اور طالبان وہاں سے لوگوں کو جانے کا کہہ رہے ہیں، جب کہ دکان بند کرائی گئی ہے، اور فٹ پاتھ پر پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی ہیں۔

    تاہم کابل میں دکان داروں یا پھولوں کے خریداروں پر طالبان اہل کاروں کی جانب سے کسی تشدد پر مبنی واقعے کی خبر سامنے نہیں آئی ہے، جب کہ طالبان کی جانب سے کوئی آفیشل بیان بھی سامنے نہیں آیا ہے۔

  • دل دہلا دینے والا آتش فشاں، زمین پر بننے والی لہروں کی سیٹلائٹ ویڈیوز سامنے آگئیں

    دل دہلا دینے والا آتش فشاں، زمین پر بننے والی لہروں کی سیٹلائٹ ویڈیوز سامنے آگئیں

    بحرالکاہل میں واقع ملک ٹونگا میں سمندر کے نیچے وسیع سطح پر ایک آتش فشاں پھٹنے سے جہاں ٹونگا اور فجی جزیرے کا کچھ علاقہ تباہی کا شکار ہوا، وہاں اس آتش فشاں نے زمین کے اس حصے میں وسیع سطح پر لہریں بھی پیدا کیں، جس کی سیٹلائٹ اینیمیشنز دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔

    ٹوئٹر پر شیئر کی گئیں سیٹلائٹ ویڈیوز اور امیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پانی کے اندر بڑے پیمانے پر آتش فشاں پھٹنے سے جنوبی بحرالکاہل میں ایک جھٹکا (شاک ویو) لہرا رہا ہے، جسے جاپانی جیواسٹیشنری ہماواری سیٹلائٹ نے پکڑا ہے۔

    یہ اینیمیشن GOES ویسٹ سیٹلائٹ ڈیٹا کی ہے، اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہُنگا ٹونگا آتش فشاں پھٹنے سے شارٹ ٹرم (کچھ ہی دیر کے لیے) فضائی ردعمل پیدا ہوا۔ ہر فریم سیٹلائٹ ڈیٹا میں 10 منٹ کی تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کہ سرفہرست لہر پوری دنیا پر محیط سطح کے دباؤ (سرفیس پریشر) کی ریڈنگز میں دیکھی گئی ہے۔

    ایک اور سیٹلائٹ اینیمیشن میں ٹونگا آتش فشاں کے خوف ناک پھیلاؤ کو دیکھا جا سکتا ہے، پھٹنے کے بعد وہ تیزی کے ساتھ وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے، اس موقع پر بجلیاں بھی کڑکنے لگی تھیں۔

    ان ویڈیوز کے علاوہ کچھ لوگوں نے بھی آتش فشاں پھٹنے کے وقت ویڈیوز بنائی ہیں، عین اس وقت آتش فشاں کے مقام سے کچھ ہی فاصلے پر ایک کشتی بھی گزر رہی تھی، ٹوئٹر پر صارف نے لکھا کہ میں کشتی میں عین اسی وقت آتش فشاں پھٹتے دیکھ رہا ہوں، یہ تو دیوانگی ہی ہو سکتی ہے.

    واضح رہے کہ سیٹلائٹ امیجز کا مطالعہ کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ٹونگا کا بڑے پیمانے پر زیر آب آتش فشاں پھٹنے سے مرجان کی چٹانوں کو دیرپا نقصان پہنچ سکتا ہے، ساحلی پٹی تباہ ہو سکتی ہے اور ماہی گیری کی صنعت میں بڑا خلل پڑ سکتا ہے۔

    چوں کہ ٹونگا، آتش فشاں پھٹنے سے آئے ہوئے سونامی کے بعد دنیا کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، تو اس ملک کو اس خطرے کا بھی سامنا ہے کہ بین الاقوامی امدادی کارکن کرونا وائرس کو جزیرے کی اس قوم میں لا سکتے ہیں، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ وائرس اب تک یہاں نہیں پہنچ سکا ہے۔

    دوسری جانب ٹونگا کے بڑے پیمانے پر زیر آب آتش فشاں پھٹنے سے ہونے والی تباہی کا ابھی بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے، لیکن سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ نقصان دیرپا ہو سکتا ہے۔

  • وزیر اعظم پاکستان نے افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کو امریکا کا جنونی عمل قرار دے دیا

    وزیر اعظم پاکستان نے افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کو امریکا کا جنونی عمل قرار دے دیا

    اسلام آباد: وزیر اعظم پاکستان نے افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کو امریکا کا جنونی عمل قرار دے دیا ہے۔

    وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے خطے میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے افغانستان پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ ایک جنونی عمل تھا۔ عمران خان نے چند دن قبل الجزیرہ عربی کو ایک خصوصی انٹرویو دیا، جس میں انھوں نے جنوبی ایشیائی خطے کی صورت حال پر تفصیلی گفتگو کی، بالخصوص افغانستان پر امریکی مسلط کردہ بیس سالہ جنگ اور اس کے مضمرات کے حوالے سے اہم نکات اٹھائے۔

    وزیر اعظم پاکستان نے ایک طرف جہاں افغانستان کے حوالے سے امریکی جنون کا ذکر کیا، وہاں کشمیر کے حوالے سے پڑوسی ملک بھارت کے جنون پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ افغانستان اور کشمیر میں انسانی بحران اور بہ طور پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ انتہائی معاندانہ بھارتی رویے کے تناظر میں عمران خان کے انٹرویو کا یہ تاثر سامنے آیا ہے کہ دونوں ممالک امریکا اور بھارت پر جنونی حکومتوں کا قبضہ رہا۔

    الجزیرہ عربی کی خاتون اینکر پرسن عُلا الفارس کو انٹرویو میں وزیر اعظم پاکستان نے واضح طور کہا کہ افغانستان پر امریکا کی مسلط کردہ جنگ ایک جنونی عمل تھا، امریکا نے 20 سال تک قبضہ کیے رکھا، افغانستان میں جو کچھ ہوا اُس کے بعد امریکا اب صدمے میں ہے۔

    بیس سالہ امریکی جنگ کے بعد پہلے پاکستانی وزیر اعظم نے افغانستان کے مسئلے کو انسانی بحران کے رُخ سے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، جو باہر سے آئے ہوئے حملہ آوروں کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج اسلام آباد دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے، اور افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس کی گہما گہمی عروج پر ہے۔

    دنیا کے سامنے وزیر اعظم کی یہ تشویش بجا ہے کہ افغانستان کی بروقت مدد نہ کی گئی تو بڑا انسانی بحران جنم لے گا، اس بحران کے ذمہ دار امریکا اور اس کے اتحادی ہیں، جنھوں نے مل کر بیس سال تک اس ملک کو کھنڈرات میں بدل ڈالا ہے، اسی تناظر میں عمران خان بجا طور پر دنیا کے ان ممالک سے تباہ حال افغانوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

    اس تشویش کی ایک اندرونی وجہ بھی ہے، اپنے انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، افغانستان کے ساتھ ہماری 2800 کلومیٹر کی سرحد ہے، وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں استحکام پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے، موجودہ صورت حال میں افغانستان میں بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔

    پاکستان پوری قوت کے ساتھ افغانستان کے حالیہ مسئلے کودنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کے سامنے بھی رکھ کر، بدلتے جنوبی ایشیا کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہا ہے، جو فی الوقت نہ صرف افغانستان کے انسانی بحران سے نمٹنے میں مددگار ہو سکتا ہے، بلکہ طویل المدتی تناظر میں یہ خطے کی بدلتی تجارتی صورت حال کی جانب بھی ایک کھڑکی کھولنے کا نقطہ آغاز ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے دارالحکومت میں آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کی کانفرنس منعقد کی ہے، اور سیکیورٹی کے طور پر دو دن کی عام چھٹی کا اعلان بھی کیا گیا ہے، آج ہفتے کو اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے افغان وزیر خارجہ امیر تقی نے خصوصی ملاقات کر کے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔

    افغان وزیر خارجہ نے نئی افغان حکومت کے قیام کے بعد اسلامی ممالک کی کانفرنس ہونا خوش آئند قرار دیا، دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے کانفرنس کے انعقاد کی وجہ پر واضح گفتگو کی، کہا افغانستان نازک صورت حال سے دوچار ہے، ایسے میں دنیا کو زمینی حقائق سے آگاہ ہونا چاہیے، اگر فوری توجہ نہ دی گئی تو انسانی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔

    افغانستان پر بدترین جنگ مسلط کرنے والے امریکا کے اتحادی ممالک، جو شمالی امریکا سے لے کر یورپ تک پھیلے ہوئے ہیں، اب امریکا کی جانب سے افغان جنگ کو 2011 سے طول دینے کو ایک غلطی قرار دیے جانے کے باوجود، بدقسمت ملک میں درپیش انسانی بحران کے حوالے سے چپ سادھے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ امریکا افغان قوم کے 10 ارب ڈالر کے اثاثے بھی بحال کرنے کے لیے تیار نہیں، ایک ایسے وقت میں جب انھی کے ہاتھوں تباہ حال قوم کو اس کی اشد ضرورت ہے۔

    ایسے میں اسلام آباد میں اسلامی ممالک کو اکٹھا کرنا پاکستان کی جانب سے ایک بہترین حکمت عملی ہے، اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا دنیا آج بھی مذہبی تناظر میں بٹی ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں اسلام آباد پر جمی ہوئی ہیں، اور اس کانفرنس سے قبل الجزیرہ عربی کو ان کا خصوصی انٹرویو دنیا کے لیے ایک تازیانہ ہے، کہ اس کے جنون نے ایک غریب ملک کو کس طرح تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

  • احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    قمر رئیس نے اپنے مضمون ”افسانہ نگار ندیم“ میں لکھا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ (ندیم) گڑیا، آنندی، موذیل یا لاجونتی کے مرتبے کی کوئی کہانی نہیں لکھ سکا….“ (عالمی اردوادب 1996)

    مجھے نہیں معلوم کہ اس دعوے کا شافی جواب دیا گیا ہے یا نہیں تاہم اس نے مجھے سوچنے پر ضرور مجبور کیا کہ قمر رئیس نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے جس کی مختلف جہات کی طرف تاحال کسی بھی نقّاد نے سنجیدگی سے توجہ نہیں کی۔

    رئیس خانہ، کنجری، الحمدُللہ، پرمیشر سنگھ وغیرہ قاسمی صاحب کے وہ افسانے ہیں جو ان کے ادبی رجیم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ادب کے حوالے سے ان کا یہ نقطہ نظر بالکل سامنے تھا کہ یہ اپنی داخلی جمالیات پر استوار ہوتا ہے۔ مصنّف کی فکری وابستگی کی حیثیت ثانوی ہے۔ ترقی پسند ہونے کے ناطے یہ ان کی فنی و فکری زندگی کا بڑا تضاد رہا ہے، تاہم جس طرح وہ اپنی سماجی زندگی میں دھیمے مزاج اور انسانوں کو اپنے آپ میں جذب کرنے والے رویّے کے حامل تھے، اسی طرح ادبی زندگی میں بھی وہ فکری شدت پسندی کی طرف مائل نہ ہوسکے۔

    اس حد تک تو ٹھیک تھا لیکن جب وہ ترقی پسند فکر کی نمائندگی کرنے آئے تو یہاں ان کے مزاج اور معروضی حقیقت کے درمیان موجود تضاد کے مابین صلح کرتے ہوئے وہ ادبی رجیم کے اْس سرے کو نہ تھام سکے، جو اعلا ترین فن پاروں کی طرف لے کر جاتا ہے۔ قاسمی صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:

    ”آپ کو میرے نظریۂ فن کی ایک ہی بنیاد نظر آئے گی اور وہ انسان دوستی، انسان کا احترام اور انسان کا وقار اور اس کی عظمت ہے۔“

    اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی سماجی زندگی میں انسان دوست شخصیت رہے ہیں اور ان کے ہاں انسان دوستی کا فلسفہ مغرب سے درآمد شدہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کے اندر اپنی ثقافت سے گہری جڑت کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ انسان دوستی کے اس جذبے کو انھوں نے فنی سطح پر برتنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ترقی پسند دوستوں سے ایک سطح پر خود کو ممتاز دیکھتے رہے۔ یہ ان کی زندگی کا بھی رومان تھا جو دیگر ترقی پسندوں سے مختلف تھا اور یہی رومان ان کے افسانوں میں بھی فنی سطح پر منتقل ہوتا رہا۔

    ان کے افسانے رومانیت پسندی اور سماجی حقیقت نگاری کے امتزاج سے ایسے فن پاروں میں منقلب ہوتے رہے جو پنجاب کی منفرد، بھرپور اور دل کش معاشرت کے اظہار کے ساتھ نمایاں تو تھے لیکن اپنے بنیادی موضوع میں منفرد اور متحرک آئیڈیا سے محرومی کا شکار ہوئے۔

    محمد حمید شاہد اپنے مضمون ”احمد ندیم قاسمی کا افسانہ: تخلیقی بنیادیں“ میں لکھتے ہیں: ”اس پر دوسری رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے ہاں بنیادی قضیہ وہی طبقاتی تضاد بنتا ہے جو ترقی پسندوں کو حد درجہ مرغوب رہا مگر یہ بھی ماننا ہوگا کہ اجتماعیت نگاری اس کا بنیادی مسئلہ نہیں رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ قاسمی کی ہر کہانی کے کردار بطور فرد بھی اپنی شناخت بناتے ہیں۔“

    قاسمی صاحب کے افسانوں کی ڈی کنسٹرکشن کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان متون میں طبقاتی تضاد کا قضیہ ایک ایسے حاشیے کی صورت ملتا ہے جس کی ابھی پہچان ہی نہیں کرائی گئی ہے۔ وہ جب پنجاب کی دیہی معاشرت کو فسانوی رنگ دیتے ہیں تو ان کے سامنے صرف ادبی جمالیات کا بنیادی قضیہ ہوتا ہے جسے رو بہ عمل لانا وہ اسی طرح ضروری سمجھتے تھے جس طرح مارکسیوں کی سنگت میں وہ خدا اور رسول سے جڑت ضروری سمجھتے تھے۔ اس تضاد کی وجہ سے ادب میں وہ اس انتہا پر چلے گئے جہاں کہانی میں فکر کا سرا انھیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔

    ادب میں فکر سے عدم جڑت کی وجہ سے ان کے افسانے اسٹرائکنگ آئیڈیاز سے خالی رہ گئے۔ ”لارنس آف تھلیبیا“ میں دیہی زندگی کا بھرپور رومانس ملتا ہے جہاں زمیں داروں کا ظلم سہنا بھی رومانس سے خالی نہیں ہوتا۔ مزارع کی جوان لڑکی کی عزت لٹنا اور اس پر اس کا عجیب رد عمل سب کا سب ایک دیہی رومانس میں لپٹا ملتا ہے۔ قاسمی صاحب کے افسانوی کردار جب بطور فرد اپنی شناخت بناتے ہیں تو پس منظر میں تاریخی سماجی عمل نہیں بلکہ خالصتاً رومانیت پسندی کا اکھوا ملتا ہے۔

    ”رئیس خانہ“ کے، طبقاتی تضاد کے شکار کرداروں کے ساتھ ہونے والے عظیم فریب کو قاسمی صاحب کے افسانے میں دیکھتے ہوئے لطف آتا ہے۔ اسے طبقاتی تضاد کا اظہار کہنے کے لیے بھی اعلا قسم کی بے حسی چاہیے جسے فنی طور پر برتتے ہوئے ایسی لطافت سے ہم کنار کیا گیا ہے کہ اختتام پر من چلوں کا لطیفہ بنتا محسوس ہوتا ہے۔

    افسانہ ”الحمدللہ“ کے مولوی اور چوہدری کے تعلق پر نگاہ دوڑائیں۔ مولوی ایک غیر پیداواری انسان ہے اور چوہدری انسانی جذبے اور عقیدت کے احساس سے لبریز۔ طرفہ تماشا یہ کہ غیر پیداواری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سماج پر دھڑا دھڑ بچوں کا بوجھ بھی لادتا جارہا ہے۔ اس افسانے کا جنم بھی کسی طبقاتی تضاد کے تصور سے نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایک روایتی سماج کے روایتی کرداروں کا رومانوی سطح پر فنی اظہار ہے جس میں بلاشبہ کشش ہے۔

    کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور غلام عباس…احمد ندیم قاسمی کے ہم عصر تھے، لیکن بطور افسانہ نگار انھیں ان جیسی حیثیت نہیں ملی۔ کچھ لوگ اس کا اظہار بطور شکوہ کرتے ہیں اور کچھ بطور حیرت۔

    ہم سیاسی، ثقافتی اور ادبی طور پر مابعد جدید دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں ہماری حیثیت کیا ہے، یہ ایک الگ سوال ہے۔ جغرافیائی سطح پر مابعد نو گیارہ کا دور ہمارے لیے دراصل اسی مابعد جدیدیت کی متعین کردہ صورت حال ہے جو بذاتِ خود فلسفیانہ سطح پر ہر قسم کے تعینات کو مسترد کرتی ہے۔ مابعد نو گیارہ کی مشرقی دنیا میں ہمارے لیے بھی یہ واضح راہ نمائی سامنے آئی ہے کہ ہیرو ازم اور شخصیات کے پیچھے اصل سیاسی متون کو درست سمت میں سمجھنے کے بعد ہی اپنے لیے کوئی مفید اور درست لائحہ عمل ترتیب دیا جانا ممکن ہے۔ بہ صورت دیگر سماجی و ثقافتی متون کی، اندر سے شکستگی کے عمل کو روکا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ادبی متون کو بھی درست سمت میں سمجھنے کے لیے متن کو توجہ کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے۔

    قاسمی صاحب کے حوالے سے مندرجہ بالا شکوے یا حیرت نما سوال کا جواب ڈھونڈنا اس تناظر میں زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔

    ایک ایسے دور میں جب اردو افسانہ پوری طاقت کے ساتھ سماجی سطح پر مکالمہ کررہا تھا، ادب کی جمالیات اس مکالمے کی زیریں سطحوں میں روبہ عمل تھی، انسانی ثقافتوں کے گہرے متون کو پیرایہ اظہار بنایا جارہا تھا، احمد ندیم قاسمی نے اپنے لیے دیہی معاشرت کے حسن کو پیرایۂ اظہار کے طور پر منتخب کیا۔ بطور انسان انھیں اپنی اس دیہی معاشرت سے بہت پیار تھا اس لیے بطور مصنف بھی انھوں نے اس معاشرت کی بدصورتی کو قبول نہیں کیا اور اسے حسن کے ایک درجے پر استوار کرلیا۔

    اپنی بنیاد ہی میں انھوں نے زندگی کی جدلیاتی سطح ہموار کرکے رکھ دی اور طبقاتی تضاد کے کسی تصور کے ابھرنے کا راستہ ہی بند کردیا۔ ادب اگر فکر کی بنیاد پر نہ بھی لکھا جائے تب بھی اگر وہ کسی اوریجنل فکر کے عنصر سے پاک رہ جائے تو معاشرے میں اس کے سرایت کرنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

    قاسمی صاحب کے افسانے کا المیہ یہی ہے کہ یہ رومانیت پسند رجحان کے تعاقب میں اپنی اصل سے بچھڑ گیا۔ بقول انتظار حسین ”کرشن چندر نے اپنی حقیقت نگاری میں رومانیت کا چھینٹا دیا ہوا تھا“ لیکن وہ اپنی اصل سے جدا نہیں ہوئے تھے۔ یہ سب ادب کے جمالیاتی پہلو کی اچھی سمجھ اور پرکھ رکھنے والے لوگ تھے۔

    حقیقت نگاری جب افسانے کی صورت میں ہوتی ہے تو یہ دل کشی سے خالی نہیں ہوتی۔ نہ ہی رومانیت کا چھینٹا لگنے سے حقیقت نگاری کی دل کشی ماند پڑتی ہے۔ قاسمی صاحب کے ہاں رومانیت پسندی کا رجحان اتنا غالب ہوگیا ہے کہ ان کا افسانہ نہ صرف فکر سے کٹ کر رہ گیا ہے بلکہ بنیادی خیال بھی اپنی طاقت سے محروم ہوا ہے۔

    مرکزی خیال کا کرشمہ دیکھیں۔ منٹو کے افسانے ”کھول دو“ کی لڑکی ہجرت کے وقت باپ سے بچھڑکر بلوائیوں اور مسلمان رضاکاروں کے ہاتھوں پامال ہوتے ہوتے اسپتال پہنچتی ہے تو وہاں اس کا کلائمکس ہوتا ہے۔ اس پر جو قیامتیں گزرتی ہیں، ان کا ذکر موجود نہیں ہے لیکن ان قیامتوں نے اس کے معصوم دماغ پر ”کھول دو“ کے جو الفاظ مرتسم کردیے ہیں، اس کا نتیجہ دوسروں کے لیے قیامت خیز نکلتا ہے۔ منٹو اگر رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت اس افسانے کو لکھتے تو جلتے روم کے مناظر میں ہزار دل کشی پیدا کردیتے۔ لیکن مرکزی خیال کی یہ قیامت خیزی ان کے ہاتھوں سے لازماً چھوٹ جاتی۔

    اب قاسمی صاحب کا افسانہ ”الحمدُ للہ“ دیکھیں۔ مولوی ابل اپنی جوان ہوتی بیٹیوں کے رشتوں کے لیے اس حد تک پریشان ہے کہ زبانی توکل تو اللہ پر کرتا ہے لیکن دل و دماغ میں چوہدری پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ بڑی بیٹی کی شادی کا اتنا بھاری بوجھ سر پر ہے کہ اٹھائے نہیں اٹھ رہا، اللہ پر حقیقی توکل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ لیکن قیامت جتنے اس بڑے امتحان سے وہ نہایت آسانی سے نکل آتا ہے اور پھر نواسے کی پیدایش پر کپڑے کھلونے وغیرہ لے جانے کی معمولی رسم اس کے لیے اتنی بڑی قیامت بن جاتی ہے کہ جوانی کی دہلیز پر پاؤں دھرتی دوسری بیٹیاں بھی ذہن سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور چوہدری جیسے واحد آسرے کی موت پر چند روپے ملنے کا یقین اسے ناقابلِ یقین حد تک کچھ دیر کے لیے خوشی سے دیوانہ کردیتا ہے۔

    قاسمی صاحب نے اس افسانے میں دیہی زندگی کی جزیات کو نہایت دل چسپ انداز میں بیان کیے ہیں لیکن مرکزی خیال کو زیب داستاں بناتے بناتے پلاٹ کمزور تعمیر کرلیا۔ افسانہ پڑھتے ہوئے بار بار محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بہت بڑا المیہ رونما ہونے والا ہے‘ لیکن قاسمی صاحب نے حقیقی زندگی کے حقیقی المیے رقم کرنا کبھی پسند نہیں کیا۔ وہ اگر کسی افسانے میں کسی حد تک المیہ رقم کرسکے ہیں تو وہ ہے ”کنجری۔“

    قاسمی صاحب کے بعض افسانوں کے مرکزی خیال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے یا تو اپنے دور کے آس پاس لکھے گئے موضوعات کو اپنے مخصوص ماحول اور انداز میں لکھا ہے جیسا کہ ”الحمد للہ“، اس خیال پر مبنی ایک ایرانی افسانہ لیل و نہار میں چھپا تھا۔ ”فقیر سائیں کی کرامات“ ایک دیہی حکایت پر مبنی ہے۔

    ”لارنس آف تھلیبیا“ کا موضوع بھی اسی دور کا مرغوب موضوع ہے، یعنی مزارع کے گھر کی عزت بھی جاگیردار کی ملکیت میں شامل ہوتی ہے۔ رئیس خانہ اپنے مرکزی خیال میں من چلوں کا لطیفہ بن گیا ہے کہ ایک افسر ایک غریب عورت کی عزت پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کئی عورتوں کے ساتھ رات گزار کر اپنی پارسائی کا ڈھونگ رچاتا ہے اور آخر کار اس عورت کو اپنی خلوت گاہ تک لے آتا ہے۔ ”ہٰذا من فضل ربّی“ کا مرکزی خیال متمول مرد و خواتین کا بہ یک وقت کئی کئی پارٹنرز کے ساتھ گلچھرے الڑانے پر مبنی ہے لیکن اس میں بھی قاسمی صاحب کا مخصوص دل چسپ انداز ملتا ہے اور اختتام پر افسانہ ایک لطیفے جیسا لطف دیتا ہے۔

    ”کنجری“ میں پیشہ کرنے والی عورت کی بیٹی کا المیہ رقم ہے جو اس دور میں بھی کوئی نیا چونکادینے والا خیال نہیں تھا۔ اس موضوع پر بہت اور اچھا لکھا جارہا تھا۔ قاسمی صاحب نے اس کے المیاتی اختتام کو تحلیل تو نہیں کیا ہے۔ تاہم باقی سارا فسانہ انھوں نے رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت بُنا ہے حتیٰ کہ اختتام پر باپ کے مکروہ کردار کی کراہت بھی زائل کردی ہے۔

    ”گنڈاسا“ میں مرکزی کردار اپنے دشمن کو اس لیے چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اس کو پسند آنے والی لڑکی کا منگیتر ہے۔ بین میں مزار پر شاہ جی کے ہاتھوں عزت سے جانے والی کنواری لڑکی کا فسانہ ہے جو خود کلامی کے انداز میں لکھا گیا ہے اور ممکن ہے یہ اس وقت کا ایک اچھا تجربہ رہا ہو۔

    ”پرمیشر سنگھ“ تقسیم کے موضوع پر ان کا بہت مشہور افسانہ ہے۔ اس میں بھی انھوں نے المیے کو المیہ نہیں رہنے دیا ہے بلکہ رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت انسان دوستی کے احساس کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ایک سکھ جس سے اس کا بیٹا کھو گیا ہے، کے ہاتھ ایک مسلمان لڑکا لگتا ہے۔ وہ اسے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتا ہے۔ لیکن پھر اسے پاکستانی سرحد پر چھوڑنے آتا ہے اور فوجی کی گولی سے زخمی ہوجاتا ہے۔

    معلوم یہی ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب نے آئیڈیاز کی شدت کو رومانیت پسندی کی تہہ چڑھا کر ہمیشہ کم کیا ہے جس کے سبب ان کے افسانے اس زمانے میں لکھے جانے والے افسانوں کی سطح کو کبھی چھو نہیں پائے، نہ ہی انھیں ویسی مقبولیت ملی۔ منٹو جب تقسیم کے المیے پر انسانی جذبے کو موضوع بناتا ہے تو ”موذیل“ جیسا شاہ کار جنم لیتا ہے۔ غلام عباس جب پیشہ ور عورتوں کو موضوع بناتا ہے تو ”آنندی“ جیسا لازوال افسانہ جنم لیتا ہے۔ تقسیم ہی کے المیے پر بیدی ”لاجونتی“ جیسے آئیڈیا کو افسانوی کینوس پر لاتا ہے تو یادگار بن جاتا ہے۔ یہ آئیڈیاز اور آئیڈیاز کے بطن میں موجود یہ شدت قاسمی صاحب کے ہاں مفقود ہے۔

  • وزیر اعظم عمران خان کی ڈنر ڈپلومیسی؟

    وزیر اعظم عمران خان کی ڈنر ڈپلومیسی؟

    اسلام آباد: گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی اراکین اسمبلی اور اتحادی جماعتوں کے اراکین کے اعزاز میں خصوصی عشائیہ دیا، تاکہ ان حالات پر قابو پایا جا سکے جو پارٹی کے اندر اختلافات اور اتحادیوں کے ساتھ بڑھتے مسائل سے پیدا ہوئے۔

    حکومتی اور اتحادیوں کے اعزاز میں عشائیے میں وفاقی وزرا، سینیٹرز اور معاون خصوصی شریک ہوئے، ان کے علاوہ عشائیے میں جو اتحادی شریک ہوئے ان میں ایم کیو ایم پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)، جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی شامل تھے۔

    وزیر اعظم نے فرداً فرداً ارکان اسمبلی سے ملاقات کی، ان کے تحفظات کو سنا، اور ارکان اسمبلی کو بجٹ اور ملکی صورت حال پر اعتماد میں لیا۔

    لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف اگر عوامی مسلم لیگ کے رہنما وزیر ریلوے شیخ رشید کرونا وائرس انفیکشن سے حال ہی میں صحت یاب ہونے کی وجہ سے اس عشائیے میں شریک نہ ہو سکے، وہاں دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ق کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے ان کی رہائش پر ارکان قومی اسمبلی کے لیے الگ عشائیے کی تقریب منعقد کرنا معنی خیز رہا۔

    مافیا کا پیچھا چھوڑ دوں تو سب اچھا ہوجائے گا، وزیراعظم

    وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی اپنی رہائش گاہ پر عشائیے میں مونس الہٰی، چوہدری سالک حسین، چوہدری حسین الہٰی، اسلم بھوتانی، خالد مگسی، بی اے پی کے سردار اسرار ترین اور زبیدہ جلال، احسان اللہ ریکی، روبینہ عرفان اور جی ڈی اے کی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا شریک ہوئیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومتی اتحادی جماعتوں جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین بھی اس وقت دو کشتیوں میں سوار ہیں۔

    دوسری طرف عشائیے میں وزیر اعظم نے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں کوئی اختلافات نہیں سب متحد ہیں، تحریک انصاف جمہوری جماعت ہے سب کو اظہار رائے کی آزادی ہے، حکومت تمام اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے گی۔ انھوں نے کہا کہ کرونا صورت حال کے پیش نظر ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کم ہوئیں، تمام پی ٹی آئی اور اتحادی ارکان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ تاہم وزیر اعظم نے یہ اعتراف کیا کہ پارٹی کو موجودہ صورت حال میں بہت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔

    تین اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کے عشائیہ میں شرکت سے معذرت کر لی

    عشائیے میں ارکان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے پر وزیر اعظم سے سوالات کیے، اور انھیں باور کرایا کہ اچانک قیمتیں بڑھانے سے عوامی حلقوں میں تنقید ہونے لگی ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ وبا کے دوران تمام تر حفاظتی اقدامات کے ساتھ منعقد کی گئی اس تقریب میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے شکایات کے انبار لگائے گئے، اور متعدد مطالبے کیے گئے۔

    ایم کیو ایم کے بنیادی مطالبات میں بلدیاتی حکومت کے اختیارات، کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد، لاپتا اور قید کیے گئے کارکنان کی بازیابی، حیدرآباد یونی ورسٹی کا قیام، سیورج، کے فور اور گرین لائن بس منصوبوں کی جلد تکمیل شامل تھے۔ عمران خان نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کو یقین دلایا کہ شکایات کا ازالہ کیا جائے گا اور وعدے پورے کیے جائیں گے۔

    ادھر گزشتہ روز اپوزیشن بھی متحرک رہی، اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے اچانک پریس کانفرنس کر کے حکومتی اور اتحادیوں کی پریشانی بڑھا دی۔ انھوں نے ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے بجٹ 2020 کو مسترد کر دیا ہے۔ پریشانی کی بات یہ تھی کہ بجٹ کے خلاف حزب اختلاف کے مشترکہ اعلامیے پر بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، قومی وطن پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، اور نیشنل پارٹی نے دستخط کیے۔

    اعلامیے میں کہا گیا کہ وفاقی بجٹ معیشت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہے، عمران خان کی حکومت بجٹ میں عوام کو ریلیف نہیں دے سکی، پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ ثبوت ہے کہ اب ہر ماہ منی بجٹ کی سیریز آئے گی، پی پی، ن لیگ نے اتنا مجموعی قرضہ نہیں لیا جتنا پی ٹی آئی 2 سال میں لے چکی ہے، بجٹ خسارہ بھی ماضی سے زیادہ رہا، جی ڈی پی تاریخ میں پہلی بار منفی ہو گیا۔ اگرچہ بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن اکھٹی ہو چکی ہے لیکن گزشتہ روز سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ پاس ہو جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ حکومت عشائیے کے اپنے مقصد میں کام یاب ہو گئی ہے۔

    دوسری طرف حکومت کے لیے پریشانی بڑھانی والی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس تاخیر کا شکار ہو چکی ہے، مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کی کرونا وائرس سے علالت کے باعث اے پی سی کے لیے کچھ روز کی مہلت مانگ لی ہے، ذرایع کا کہنا ہے کہ کچھ روز بعد شہباز شریف کے کرونا کا ٹیسٹ ہوگا، جس کے بعد اے پی سی بلائی جائے گی۔

  • پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

    پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

     ملکی و غیر ملکی شکاریوں نے پاکستان کے قومی جانور مارخور کے شکار کے لیے گلگت بلتستان اور کشمیر کا رخ کر لیا، شکاریوں کے نرغے میں مارخور معدومی کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔

    پاکستان میں پہاڑی بکری کی نہایت قیمتی نسل مارخور کو قانونی طور پر بھی شکار کیا جاتا ہے، جس کے لیے نومبر سے لے کر اپریل کے مہینے تک قانونی شکار کا موسم چلتا ہے، تاہم اس دوران غیر قانونی شکار بھی جاری رہتا ہے۔

    [bs-quote quote=”شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پاکستان میں دیگر نایاب اور قیمتی پرندوں کا بھی باقاعدہ شکار کیا جاتا ہے، اور اس کے لیے فیسیں مقرر ہیں تاہم مارخور اس حوالے سے سرِ فہرست ہے کہ اس کے شکار کی فیس ایک لاکھ ڈالر ہے، جس کے لائسنس کے لیے مقامی اور غیر ملکی شکاری بولی دیتے ہیں۔

    مارخور کے شکار کے لیے بولی گلگت بلتستان کے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں منعقد کی جاتی ہے، جہاں جنگلی حیات اور ماحولیات کے شعبے کے وزرا اور حکام بھی موجود ہوتے ہیں، ہر سال ایک سروے کے بعد ٹرافی شکار کے لیے کوٹا بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا۔

    شکاریوں کے نزدیک اچھا وقت دسمبر کے مہینے کا ہوتا ہے، کیوں کہ جنوری، فروری اور مارچ میں موسم کے تغیر کے باعث شکار میں ناکامی ہوسکتی ہے، تاہم اپریل میں برف پگھلنے کے بعد سبز گھاس اگتی ہے تو مارخور پہاڑوں سے خوراک کی تلاش میں نیچے اترتے ہیں اس لیے یہ مہینا بھی شکار کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔

    گلگت بلتستان میں مارخور 2 ہزار سے 3 ہزار میٹر کی بلندی پر پلتے ہیں، تاہم کشمیر کے مارخور کا تعاقب دیگر پہاڑی شکاروں کی مانند بے پناہ جسمانی مشقت کا حامل ہوتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  گلگت: امریکی شکاری کا ایک لاکھ ڈالر کے عوض مارخور کا شکار

    یہ پہاڑی بکرے خوب صورت جنگلی حیات میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں بالخصوص نر ماخور جس کے سینگ لمبے اور چکردار ہوتے ہیں، برفانی لیپرڈ اور بھیڑیوں سے بچنے کے لیے یہ خطرناک کھڑی چٹانوں میں اپنا مسکن بناتے ہیں، یہ کھڑی چٹانیں انھیں شکاریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں، سرکاری سطح پر بھی اس شکار کو ہنٹنگ ٹرافی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔

    مارخور چوں کہ نایاب جانور ہے اور صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے، اس لیے قانونی اور غیر قانونی شکار، محکمہ جنگلی حیات کی غفلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کی معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان میں پرندوں کا شکار، امریکی ڈالرز میں فیس مقرر

    یہ مغربی کوہِ ہماليہ ميں اپنا ٹھکانا رکھتا ہے، مارخور کا کندھے تک کا قد 115-65 سينٹی ميٹر تک اور اس کے بل کھاتے سينگوں کی لمبائی نر مارخور 160 سينٹی ميٹر اور مادہ 25 سينٹی ميٹر تک ہوتی ہے۔

    يہی سينگ شکاريوں کو ان خوب صورت جانوروں کی طرف راغب کرتے ہيں جو کہ شکاری بہ طور ٹرافی رکھتے اور بيچتے ہيں، سينگ کے علاوہ گوشت حاصل کرنے اور بيچنے کی لالچ بھی اس کے غير قانونی شکار پر مائل کرتی ہے۔

    پاکستان کے اس خوبصورت قومی جانور کی نایاب نسل کو معدومی سے بچانے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اس کے ہر قسم کے شکار پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔

  • ایک لفظ آپ کی زندگی بدل سکتا ہے، جانیے کیسے؟

    ایک لفظ آپ کی زندگی بدل سکتا ہے، جانیے کیسے؟

    ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ’تمام عظیم چیزیں سادہ ہیں، اور اکثر صرف ایک لفظ کے ذریعے بیان کی جا سکتی ہیں۔‘

    ایک لفظ جو آپ کی زندگی کی درست طور پر نمائندگی کرتا ہے، جو آپ کی شخصیت کا رنگ ہے، نمائندہ ہے، جو آپ کی اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے مدد کرتا ہے، زندگی کے ہر قدم پر آپ کا ساتھ دیتا ہے، آپ کے ساتھ مسکراتا ہے اور آپ کے ساتھ روتا ہے۔

    [bs-quote quote=”ایک لفظ ایسا ہوتا ہے جو ناکامی میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو کر آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، آپ کو آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    کینیڈین مصنف ایون کارمائیکل کی ایک شان دار کتاب ’آپ کا ایک لفظ‘ اس سلسلے میں تفصیل کے ساتھ وہ راز منکشف کرتی ہے جس کی مدد سے ایک کام یاب کاروبار اور کام یاب زندگی گزاری جا سکتی ہے۔

    وہ کہتا ہے کہ ایک لفظ ایسا ہے جس سے یہ وضاحت ہو سکتی ہے کہ آپ کون ہیں۔ ہر شخص کا ایک لفظ ہوتا ہے، جس پر اس کی زندگی اور زندگی کی کام یابیوں کا انحصار ہوتا ہے۔ ایک ایسا لفظ جسے آپ اہم فیصلے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس کی آپ کو کچھ بڑا کرنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے پاس اس کے دو اسباب ہیں:

    پہلا سبب: ’آپ کا ایک لفظ‘ ترغیب کا مستحکم ذریعہ

    آپ جب بھی کچھ بڑا کرتے ہیں اور پھر نتائج آپ کی توقع کے مطابق نہیں ہوتے تو آپ کو حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہ حوصلہ افزائی آپ کو وہی ایک لفظ فراہم کرتا ہے۔ آپ خود سے سوال کرتے ہیں کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ کیوں کر رہے ہیں؟ یہ ایک لفظ اس سوال کے جواب میں مضمر ہوتا ہے۔

    مثال کے طور پر ایک شخص نے آن لائن بزنس شروع کیا اور طویل اور تھکا دینے والی محنت کے بعد بھی بہت کم کما پایا، اس کو محسوس ہوا کہ وہ ناکام ہو گیا۔ تب اس نے یو ٹیوب پر کام یاب بزنس کے طریقے ڈھونڈے، لیکن دراصل اس کو صرف ایک درست لفظ کی ضرورت تھی۔

    اس نے اس پر غور کیا اور اپنا ایک لفظ ڈھونڈ نکالا، یہ لفظ تھا ’یقین‘۔ اپنے کاروبار پر یقین، کہ وہ جو کر رہا ہے وہ ایک درست کاروبار ہے اور اس کاروبار سے پیسا کمایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنے کاروبار کو از سرِنو ترتیب دیا اور کام یاب رہا۔

    دوسرا سبب: ’آپ کا ایک لفظ‘ لوگوں کو آپ کے بارے میں بات کرنا آسان بنا دیتا ہے

    یعنی ہمیں اس سلسلے میں بہت زیادہ واضح ہونا چاہیے کہ لوگ ہمارے بارے میں وہی جانیں جو ہم چاہتے ہیں۔

    [bs-quote quote=”ایک ایسا لفظ جو لوگوں کو آپ کے بارے میں بات کرنا آسان بنا دیتا ہے، جو آپ کی شخصیت کی پہچان بن جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ اس لفظ کو کیسے تلاش کریں؟ تو خود سے تین سوال کریں۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    کاروبار کی مثال پر اسے اس طرح سمجھیں کہ آپ کے متوقع صارف کے پاس بہت سارے آپشنز ہیں تو وہ آپ ہی کا انتخاب کیوں کرے۔ یہاں ’رقم‘ اور ’منافع‘ جیسے الفاظ آپ کے کام نہیں آئیں گے بلکہ آپ کو کچھ الگ لے کر آنا ہوگا جو کسٹمرز کے ساتھ ایک جذباتی تعلق بن جائے۔ جب اسٹیو جابز نے ایپل کا آغاز کیا تو انھوں نے اپنے لیے لفظ Elegance کو چنا جو مارکیٹ میں دیگر کمپیوٹرز سے بالکل الگ تھا۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ آپ اپنا لفظ کیسے تلاش کریں۔ تو اس کے لیے خود سے یہ تین سوال کریں:

    آپ کی پسندیدہ چیزیں کیا ہیں؟ شخصیت کی خصوصیات کیا ہیں؟ اور تبدیل نہ ہونے والے عناصر کیا ہیں؟

    مثال کے طور پر آپ کی پسندیدہ کتابیں یا فلمیں کون سی ہیں اور ان میں قدرِ مشترک کیا ہے؟ آپ جن لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں یا وہ جن سے آپ کتراتے ہیں، ان کی شخصی خصوصیات کیا ہیں، اور ان میں کیا مشترک ہے اور کیا ایک دوسرے سے الگ؟ اور یہ کہ آپ کی زندگی میں جہاں تک آپ کو یاد ہے، کون سی دل چسپیاں موجود ہیں؟


    یہ بھی پڑھیں:  اگر کوئی دوست پریشانی میں آپ سے مشورہ مانگے تو ان باتوں کا خیال رکھیں


    پندرہ منٹ صرف کرکے آپ خود سے ان سوالات کے ذریعے وہ لفظ ڈھونڈ سکتے ہیں جس پر آپ کی زندگی کی کام یابیوں کا انحصار ہوتا ہے۔ اس مشق سے آپ کو کئی سارے الفاظ ملیں گے، آپ ان میں مشترک چیزیں تلاش کریں اور اس طرح اپنے ایک لفظ تک پہنچیں۔ وہ لفظ جو مشکل وقت میں آپ کی مدد کرتا ہے۔