Author: رفیع اللہ میاں

  • امریکا کو ایک پیج پر ہونے کا پیغام دیا گیا: شاہ محمود کی صحافیوں سے گفتگو

    امریکا کو ایک پیج پر ہونے کا پیغام دیا گیا: شاہ محمود کی صحافیوں سے گفتگو

     امریکی سیکریٹری مائیکل رچرڈ پومپیو سے دارالحکومت میں ہونے والی اہم ترین ملاقات سے متعلق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس کے بعد انھوں نے صحافیوں کے ساتھ سوالات کے سیشن میں کہا کہ امریکا کو اس ملاقات کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ ’ہم سب ایک پیج پر ہیں۔‘

    ان کا کہنا تھا کہ امریکی وفد کے ساتھ ملاقات میں آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل خصوصی طور پر شریک ہوئے، اس مشترکہ نشست سے امریکا کو واضح پیغام گیا کہ ہم سب ایک پیج پر ہیں۔ خیال رہے کہ اس ملاقات میں امریکی جنرل جوزف ڈنفورڈ بھی شریک تھے۔

    انھوں نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاک امریکا تعلقات میں تعطل ٹوٹ گیا ہے یہ اچھی پیش رفت ہے، تاہم چیلنجز کا سامنا اب بھی ہے، ہوسکتا ہے کئی معاملات پر ہماری سوچ مختلف ہو، دوسری طرف ہمارے ایک دوسرے کے ساتھ مفادات بھی وابستہ ہیں۔

    [bs-quote quote=”پاک امریکا تعلقات میں تعطل ٹوٹ گیا ہے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ایک اور صحافی کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ امداد روکنے کا معاملہ زیرِ بحث نہیں لایا جائے گا، ہمارا رشتہ لین دین کا نہیں، خود دار قوموں کی سوچ مختلف ہوتی ہے، ہم اصولوں اور مستقبل کے سمت کی بات کرنا چاہتے تھے اس لحاظ سے یہ نشست مفید رہی، یہ تاثر دیا گیا تھا کہ نئی حکومت کے آنے سے قبل امریکا نے ایک قسط روکی، لیکن 300 ملین ڈالر روکنے کا فیصلہ نئی حکومت سے پہلے کا ہے۔

    ایک اور سوال پر وزیرِ خارجہ نے سارا زور خواہشات پر ڈالتے ہوئے کہا ’آج کی نشست میں سننے، سمجھنے اور آگے بڑھنے کی خواہش تھی، ہماری خواہش ہے کہ آج امریکا کے ساتھ تعلقات کو پُر امن انداز میں آگے بڑھائیں، سیکریٹری پومپیو سے کہا کہ الزام تراشیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، آج کی نشست میں کوئی منفی پہلو دکھائی نہیں دیا۔‘

    [bs-quote quote=”پہلے ہی فیصلہ کیا تھا کہ امداد روکنے کا معاملہ زیرِ بحث نہیں لایا جائے گا” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    افغانستان کے ساتھ تعلقات کی نزاکت پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کے پاس افغانستان سے ڈائیلاگ کے لیے بنیادی ڈھانچا موجود ہے، مغربی سرحد پر چیلنج سے نمٹنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جا چکے، پاک فوج نے بھی بارڈر مینجمنٹ کے لیے اپنا کردار ادا کیا، امریکا سے کہا مغربی جانب (افغانستان) توجہ دینی ہے تو مشرقی جانب (بھارت) سے ہمیں سہولت درکار ہے۔


    امریکی وفد نے ڈو مور کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی


    انھوں نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کی خلاف ورزی ہوتی ہے جس سے معصوم لوگ متاثر ہوتے ہیں، ہم ایل او سی کی صورتِ حال کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ہم دیکھیں گے کہ اس کی بہتری کے لیے کون کیا کر سکتا ہے، یہ واضح ہے کہ تالی دو ہاتھوں ہی سے بجتی ہے۔

    [bs-quote quote=”وزیرِ خارجہ شاہ محمود نے امریکا کے ساتھ اختلافات کے خاتمے کے تاثر کو مسترد کر دیا” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ایک سوال کے جواب میں وزیرِ خارجہ نے امریکا کے ساتھ اختلافات کے خاتمے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’میں نہیں کہہ سکتا کہ امریکا کے ساتھ ہمارا کسی بھی معاملے پر اختلاف نہیں، امریکا سے بھی کہا تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے، ماحول ساز گار بنائیں۔‘

    ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے اس تاثر سے بھی انکار کیا کہ وہ اس ملاقات کے ذریعے کسی چیز کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ابھی مستقبل کا لائحۂ عمل بھی طے کرنا ہے جس کے لیے واشنگٹن میں اگلی نشت ہوگی، تاہم انھوں نے حیرت انگیز طور پر وزیرِ اعظم عمران خان اور امریکی وزیرِ خارجہ کی ٹیلی فونک گفتگو کو مثبت قرار دیا۔

  • افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    افشاں ملک کے افسانے عورت پن کے تعصبات سے بالاتر ہیں

    گھروں میں کُتب بینی کو رواج دینا اور مطالعے کا ماحول بنانا کتنا اہم، ضروری اور خواب ناک ہے، اس کا اندازہ ڈاکٹر افشاں ملک کی مختصر کتھا پڑھنے سے ہوتا ہے۔کس طرح ایک گھر کے جیتے جاگتے انسان اپنے پرکھوں سے مِل آتے ہیں، اپنی ثقافت کی خوش بو گھر کی مٹی میں سونگھ لیتے ہیں اور کئی زمانے آپس میں جُڑ جاتے ہیں۔

    افشاں ملک کا تعلق علی گڑھ سے ہے، گھرانے میں کئی پُشتوں میں کوئی ادیب، شاعر نہیں گزرا، لیکن دادا، پَر دادا کا ذوقِ مطالعہ عروج پر رہا۔ افشاں کے گھرانے کی زندگی ہمیں سبق دیتی ہے کہ ایک وراثت ہے جو بہترین ہے، افضل ہے، جسے آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا جانا چاہیے، یہ وراثت کتابیں اور مطالعہ ہے۔

    ڈاکٹر صاحبہ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی اور ایک دن چھپکے سے افسانوں کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔ وہ بیس سال سے انسان اور اس کے فلاحی رشتوں کو مدِ نظر رکھ کر افسانے لکھ رہی ہیں۔ لیکن کیا ’انسان‘ کہہ کر بات ختم ہو جاتی ہے؟ نہیں، یہ ’انسان‘ تو خود بے پناہ خانوں میں منقسم ہے، طرح طرح کے تعصبات میں جکڑا ہوا ہے۔


    افشاں ملک کا افسانہ ’گود لی ہوئی ماں‘ پڑھیں


    [bs-quote quote=”افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/08/afshan-Malik-2.jpg”][/bs-quote]

    اردو افسانہ اس وقت بھارت اور پاکستان میں بہت مقبول صنف بن چکی ہے۔ بے شمار نئے اور جوان خون کے حامل افسانہ نویس سامنے آ رہے ہیں۔ ان کے سامنے یہ اہم سوال ہے کہ کیا وہ ’انسان‘ کے گوناں گوں تعصبات کو درست طور پر سمجھ کر، اسے اس کے نظریات سمیت افسانوں کی زینت بنا رہے ہیں یا مصنف خود اپنے تعصبات اور نظریات کے پرچار کے لیے کردار تخلیق کر رہے ہیں۔

    افشاں کا خیال ہے کہ موجودہ عہد کا انسان روزی روٹی کی فکر سے زیادہ فرقہ پرستی، دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا اسیر ہے۔ خاتون افسانہ نویس کہتی ہیں کہ وہ اس انسان کو اس تشویش ناک صورتِ حال سے باہر نکالنے کے لیے افسانے لکھتی ہیں۔

    نعیم بیگ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بینکار اور اردو انگریزی ناول نگار ہیں۔ مقامی اور خطے کی سیاست اور جنگی صورتِ حال پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مغربی ثقافتی یلغار، ہندوستان کی تقسیم، عالمی جنگوں کے اثرات اور انگریز کے چھوڑے ہوئے جاگیر داری نظام نے ہماری ثقافت کے خال و خد کو داغ دار اور دھندلا کر دیا ہے۔ اس صورتِ حال میں افشاں ملک اپنے افسانوں کے ذریعے اپنی مٹی کی خوش بو محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔

    [bs-quote quote=”مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ’اضطراب‘ افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے جو افشاں ملک کے قلم سے ترتیب پایا ہے۔ اس مجموعے میں 16 افسانے ہیں جو ایک دوسرے سے بہت مختلف موضوعات پر ہیں۔ آپ اکثر ڈائجسٹوں میں کہانیاں پڑھتے رہتے ہیں، یہ کہانیاں ایک ہی موضوع ’محبت‘ کے گرد گھومتی ہیں، محبت بھی مرد اور عورت والی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہانیاں قاری کو زندگی کے کسی گہرے اور سنجیدہ تجربے سے روشناس نہیں کراتیں۔


    انگارے: ضخیم روسی ناولز کی یاد تازہ کرنے والا ایک مختصر ناول


    افشاں ملک کے افسانے قاری کو زندگی کے مختلف گہرے اور سنجیدہ تجربات سے روشناس کراتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں مرد عورت، میاں بیوی، مرد مرد، اور عورت عورت کے تعلقات کی مختلف پرتوں کے ساتھ ساتھ سماجی سیاسی شعور بھی مل جاتا ہے۔ ان کی بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایک عورت ہوتے ہوئے افسانے میں عورت کے کردار کو پیش کرتے ہوئے تانیثی (عورت سے متعلق) تعصبات کا شکار نہیں ہوتیں۔

    اضطراب کے افسانے پڑھتے ہوئے آپ کو لطف بھی آئے گا اور دماغ کے کینوس پر کچھ سنجیدہ نقوش بھی مرتب ہوں گے۔ ان افسانوں میں چند کے نام یہ ہیں: گورِ غریباں، افتادہ اراضی، گود لی ہوئی ماں، پینٹنگ، اور آسیب زدہ۔

  • نئے پاکستان کی قومی اسمبلی کی تاریخ ساز تشکیل: چند دل چسپ حقائق کے ساتھ

    نئے پاکستان کی قومی اسمبلی کی تاریخ ساز تشکیل: چند دل چسپ حقائق کے ساتھ

    ادھرپاکستان کی جمہوری تاریخ نے اہم سنگِ میل عبور کیا اور ادھر نئے اور دل چسپ واقعات کا ظہور ہونے لگا، پورا ملک ایک نئی کروٹ لیتا دکھائی دے رہا ہے۔

    ملک کی تاریخ میں مسلسل تیسری بار قومی اسمبلی اپنی تشکیل کے عمل سے پُر امن طور پر گزرنے لگی ہے، اراکین نے حلف اٹھا لیا ہے، ایک دوسرے کے دشمن سمجھے جانے والے ایک بار پھر جمہوری اسٹیج پر مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے دکھائی دیے۔

    عام لوگ ایسے مناظر دیکھ کر ایک دوسرے کی پارٹی وابستگیوں کو طنز کا نشانہ بنانے لگتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انتخابی سیاست الگ ہوتی ہے اور حکومت بننے کے بعد ملکی معاملات چلانے کا عمل بالکل الگ ہوتا ہے۔

    ایک دہائی سے قوم جس شخص کا نام لے رہی ہے اور جس کا نام اکثر منفی طور پر لیا جاتا ہے، حتیٰ کہ ان کا نام بھی نہیں لیا جاتا اور اشارہ کردیا جاتا ہے کہ ’سمجھ تو گئے ہوں گے‘ جس نے پہلی بار ملکی تاریخ کو نئی سمت دکھائی، اور جمہوری حکومت کو پانچ سال کا ہندسہ عبور کروایا، وہ آصف علی زرداری پہلی بار  اسمبلی میں قدم رکھنے والے اپنے بیٹے بلاول کے ساتھ قومی اسمبلی میں داخل ہوئے۔

    قومی اسمبلی کے اراکین کی فہرست والی دستاویز پر سب سے پہلا دستخط بھی زرداری نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کیا، انتخابات 2018 میں ایک دوسرے کے بد ترین حریف دکھائی دینے والے پارٹی سربراہان عمران خان، آصف زرداری، بلاول زرداری اور شہباز شریف ایوانِ بالا میں ایک ساتھ دکھائی دیے۔

    [bs-quote quote=”ملک کی مسلسل تیسری مرتبہ تشکیل پانے والی اسمبلی کا سب سے اہم واقعہ وہ تھا جب عمران خان اور آصف زرداری نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا، شرمائے اور کپتان نے سابق صدر سے ہاتھ ملا لیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ یوٹرن کا نان اسٹاپ طعنہ دینے والے چھوٹے زرداری نے نئے پاکستان کے متوقع وزیرِ اعظم کے ساتھ تصویر بھی بنوائی، اور شوباز کی پھبتی جس پر کستے رہے تھے ان کے ساتھ مصافحہ کیا۔ یوں نئے پاکستان کی نئی اسمبلی کا پہلا اجلاس سیاست دانوں کی مسکراہٹوں کی نذر ہو گیا۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اسلامی جمہوریہ پاکستان کی 15 ویں قومی اسمبلی میں اس بار کچھ نئے چہرے بھی شامل ہوگئے ہیں، جس سے نئے پاکستان کا عکس اور عزم بھی جھلکتا ہے۔ ان نئے چہروں میں بلاول زرداری، فیصل واوڈا، خیبر پختونخوا کی پرعزم خاتون زرتاج گل، اسد قیصر، سابق وزیرِ اعلیٰ کے پی پرویز خٹک، علی زیدی اور چوہدری حسین الہیٰ شامل ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ سب سے کم عمر پارلیمنٹیرین بننے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ 26 سالہ چوہدری حسین الٰہی صدر مسلم لیگ (ق) چوہدری شجاعت حسین کے چھوٹے بھائی چوہدری وجاہت کے صاحب زادے ہیں۔

    نئے پاکستان کی نئی قومی اسمبلی سے اس بار کچھ پرانے بھی آؤٹ ہو گئے ہیں جو اس ملک کے لیے سب سے بڑا نیک شگون بھی ہے، ان میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، مولانا فضل الرحمان، فاروق ستار، شاہد خاقان عباسی، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی خان، خواجہ سعد رفیق اور چوہدری نثار علی خان شامل ہیں۔ سب سے بڑا اَپ سیٹ وہ تھا جب جیپ قومی اسمبلی میں رسائی حاصل نہ کرسکی۔

    نئے پاکستان میں ابھی ہمیں مزید کیا کچھ دیکھنا پڑے گا، یہ وقت کے ساتھ ساتھ معلوم ہوتا جائے گا، عمران خان نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں ’سرسبز پاکستان‘ کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر پودے اُگانے کی مہم جاری ہے، جس کا آغاز تحریکِ انصاف نے خیبر پختونخوا میں درخت اگانے کی مہم کے ساتھ کیا تھا، جسے الیکشن سے قبل اے آر وائی کی ٹیم نے آگے بڑھایا اور اب پاک فوج اسے ایک نئی سطح تک لے جا رہی ہے۔

  • سعودی کینیڈا تنازعہ: انسانی حقوق کی جنگ یا سعودی سیاسی خود مختاری پر مغربی وار

    سعودی کینیڈا تنازعہ: انسانی حقوق کی جنگ یا سعودی سیاسی خود مختاری پر مغربی وار

    دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تنازعے نے اس وقت جنم لیا جب کینیڈا کی خاتون وزیرِ خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سعودی عرب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے قید کارکنوں کو رہا کر دے، اس مطالبے پر سعودی عرب نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ سلطنت نے کینیڈا کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات توڑتے ہوئے کینیڈین سفیر کو ناپسندیدہ قرار دے کر اسے ملک بدر کر دیا اور اپنا سفیر واپس بلا لیا۔

    کرسٹیا فری لینڈ نے ٹویٹ میں کہا ’رائف بداوی کی بہن ثمر بداوی کے بارے میں یہ جان کر کہ اسے سعودی عرب نے جیل میں ڈال دیا ہے، ہمیں بہت تشویش ہوئی ہے۔ کینیڈا اس مشکل وقت میں بداوی خاندان کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم رائف اور اس کی بہن کی رہائی کا مضبوط مطالبہ دہراتے ہیں۔‘ خیال رہے کہ کینیڈا کی وزارتِ خارجہ کے آفیشل اکاؤنٹ سے اس سلسلے میں الگ ٹویٹ کیا گیا ہے۔

    سعودی عرب نے گزشتہ ہفتے ثمر بداوی نامی خاتون ایکٹوسٹ سمیت کئی خواتین کو گرفتار کیا تھا جو پہلے سے گرفتار باغی رائف بداوی کی بہن ہے۔ دیگر خواتین میں نسیمہ الصدا اور امل الحربی شامل ہیں۔ یہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین ہیں جو عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ سعودی وزیر عادل بن احمد الجبیر کے مطابق زیرِ حراست افراد کے غیر ملکی اداروں کے ساتھ تعلقات تھے۔ تاہم ان کے خلاف ابھی تک الزامات کی نوعیت واضح نہیں ہوئی ہے کیوں کہ انھیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ سعودی وزیر کے مطابق یہ معاملہ انسانی حقوق کا نہیں بلکہ قومی سلامتی کا ہے۔

    ثمر بداوی، جو کئی بار گرفتار ہوئی

    ثمر بداوی کو 2012 اور 2015 میں سعودی عرب میں عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے پر بین الاقوامی ایوارڈز دیے جا چکے ہیں۔ دسمبر 2014 میں ثمر پر سعودی حکومت نے برسلز میں ہونے والے یورپی این جی او فورم میں شرکت کرنے پر پابندی لگادی تھی۔ یہ اس واقعے کا نتیجہ تھا جس میں بداوی نے جنیوا میں یو این ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا تھا کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ثمر بداوی نے اپنے سابقہ شوہر ولید ابو الخیر کے حوالے سے بھی بات چیت کی تھی جو اس وقت مملکت میں پندرہ سالہ قید کاٹ رہا ہے۔ 2016 اور اگلے برس بھی ثمر کو کئی گھنٹے کے لیے حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی گئی۔

    کینیڈا کی وزیرِ خارجہ کی طرف سے ٹویٹر پر پے در پے ٹویٹس سے شروع ہونے والی اس سفارتی جنگ میں کینیڈا کا روایتی قریبی دوست امریکا دورلاتعلق کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ کینیڈا کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنا بلاشبہ سعودی عرب کی طرف سے پاور پلے کا مظاہرہ ہے، یہ بتانے کے لیے کہ وہ اپنی سیاسی خود مختاری پر مغربی مطالبوں کو ہرگز نظر انداز نہیں کرے گا، یہ مملکت کے نسبتاً جوان رہنما کے ملکی استحکام کے لیے کیے جانے والے اہم اقدامات کا بھی عکس ہے۔

    کینیڈین وزیرِ خارجہ کے ٹویٹ کے بعد سعودی عرب نے کینیڈا میں سعودی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی اور طبی پروگرامز بھی ختم کرنے کا اعلان کیا جب کہ کینیڈا میں زیرِ تعلیم ہزاروں سعودی طلبہ اور زیرِ علاج مریضوں کو منتقل کرنے کا بھی منصوبہ بنایا۔ سعودی ایئرلائن نے ٹورنٹو کے لیے تمام پروازیں بھی فی الحال بند کر دی ہیں۔ خیال رہے کہ دونوں ممالک میں ہتھیاروں کی خریداری کی ڈیل بھی ہوئی ہے، جس کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ تاہم سعودی عرب میں کینیڈین سرمایہ کاری تا حال جاری ہے۔

    ثمر بداوی ہیلری کلنٹن اور مشل اوباما سے ایوارڈ وصول کرنے کے موقع پر

    سعودی عرب نے کینیڈا کے ساتھ اسکالر شپ پرواگرامز سمیت تمام معاہدے بھی منسوخ کردیے ہیں، گندم اور چاول کی خریداری پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی گہرائی کو سمجھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے اگر کینیڈا سے تمام معاہدے ختم کردیے تو کینیڈا کو ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    کینیڈا کو اپنی غلطیاں درست کرنے کی ضرورت ہے: سعودی عرب

    سعودی عرب نے اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے، اس سلسلے میں دو روز قبل سعودی کابینہ کا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی زیرِ صدارت اجلاس بھی منعقد ہوا، اجلاس میں سعودی ولی عہد شہزاد ہ محمد بن سلمان بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں سلطنت کی خارجہ پالیسی اور کینیڈا کے ساتھ تنازعے کے تمام عواقب پر گہرائی کے ساتھ غور کیا گیا۔ سعودی حکومت نے اس سلسلے میں واضح اور دو ٹوک مؤقف اپنانے کا فیصلہ کیا۔

    دوسری طرف کینیڈین حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ جاری سفارتی تعلقات میں تنازعے کے حل کے لیے متحدہ عرب امارات اور برطانوی حکومت سے بھی رابطہ کیا، تاکہ وہ سعودی عرب کے ساتھ جاری سفارتی تنازعے کو دوستی میں بدلنے کے لیے کردار ادا کریں۔ اگرچہ کینیڈا تنازعے کے حل کا خواہاں ہے لیکن خواتین کے حقوق کے سلسلے میں اپنے اصولی مؤقف سے ہٹنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔

    کینیڈا کا سعودی عرب سے معافی مانگنے سے انکار

    آج بھی اس سلسلے میں کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری پرتشویش کا اظہار کرنے پرمعافی مانگنے سے انکار کردیا ہے۔ کشیدگی کم کرنے کے لیے وزارتِ خارجہ کی سطح پر رابطے بھی کیے جا رہے ہیں لیکن کینیڈا اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ کرسٹیا فری لینڈ کہہ چکی ہیں کہ وہ اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کینیڈین وزیرِ خا رجہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے مطالبے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق انسانی حقوق ہیں اور کینیڈا انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔

    سعودی مؤقف ہے کہ کینیڈا نے اس کے داخلی معاملات جو کہ سلطنت کی سلامتی سے تعلق رکھتے ہیں، میں مداخلت کرکے ایک بڑی غلطی کی ہے۔ اس غلطی کو کینیڈا نے سدھارنا ہے، دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ واضح رہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ مزید آگے بڑھتا ہے تو سعودی حکومت کینیڈا پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کی طرف بھی جا سکتی ہے۔ یہ کینیڈا کے لیے نقصان دہ ہوگا کیوں کہ متعدد ممالک سعودی مؤقف کی حمایت میں اپنا بیان دے چکے ہیں۔ خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی سعودی عرب کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

  • سوشل میڈیا پرسب سے بڑا چیلنج ’جعلی خبریں‘ ہے

    سوشل میڈیا پرسب سے بڑا چیلنج ’جعلی خبریں‘ ہے

    فیک نیوز، فیک نیوز سن سن کر آپ کے کان پک گئے ہوں گے، یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو آپ نے دو سال قبل نہیں سنی ہوگی، لیکن آج سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سب کے لیے ایک جانی پہچانی ’چیز‘ بن گئی ہے۔ جی ہاں، سماجی دانش ور اسے ’عالمی اور مقامی منڈی کی حکمت عملی‘ سمجھتے ہیں۔

    جدید دنیا میں آج نظامِ حکومت کے لیے جمہوریت (ڈیمو کریسی) کو درست ترین انتخاب سمجھا جاتا ہے، دل چسپ امر یہ ہے کہ فیک نیوز یعنی جعلی خبر کو اسی جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جعلی خبر آزادانہ بحث اور اس سے بڑھ کر خود ’مغربی نظام‘ کی دشمن بن گئی ہے۔

    ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں لوگ اب سوشل میڈیا کو صرف انٹرنیٹ کا دروازہ نہیں سمجھتے، بلکہ ’خبر‘ کا ایک اہم ذریعہ بھی سمجھتے ہیں۔ دو سال سے ابھرنے والا یہ مسئلہ اب ایک زبردست چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے کیوں کہ جعلی خبروں اور غلط اطلاعات پھیلانے کے لیے زیادہ جدید ٹیکنالوجی وجود میں آ چکی ہے۔

    فیک نیوز یعنی جعلی خبر کیا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’فیک نیوز غلط اطلاع دینے کی ایک شکل ہے، یہ ایک غلط اور جھوٹی خبر کو کہتے ہیں۔‘ بعض اوقات جعلی خبر پوری طرح جعلی نہیں ہوتی اس لیے اسے پکڑنا آسان نہیں ہوتا، اور اکثر لوگ طنزیہ انداز میں دی جانے والی خبر کو بھی سنجیدہ سمجھ کر اسے فیک نیوز کے زمرے میں شامل کر دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگوں میں طنز کو سمجھنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔

    آپ نے پاکستانی اخبارات میں اور برقی میڈیا پر ’زرد صحافت‘ کی اصطلاح بھی بہت سنی ہوگی، فیک نیوز اسی ’یلو جرنلزم‘ یا پروپگینڈے کی ایک قسم ہے، جو جان بوجھ کر پرنٹ، براڈ کاسٹ نیوز میڈیا یا آن لائن سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پہلے پہل سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی اطلاع آخر کار مرکزی دھارے کی میڈیا میں بھی جگہ بنا لیتی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ جعلی خبر کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ زیادہ تر اس کا تعلق سیاست سے جڑا ہوا ہے جیسا کہ عالمی سطح پر بھی اسے جمہوریت کو نقصان پہچانے کے لیے بنایا جانے والا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ خود پاکستان میں بھی اس سے یہ کام وسیع سطح پر لیا گیا ہے۔ سیاست دانوں کے بارے میں لاتعداد غلط خبریں پھیلائی گئیں، آج ملک میں سیاست کا نام ہی گالی بن چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سیاست دانوں کی اپنی حرکتیں زیادہ تر مشکوک رہی ہیں تاہم ملک میں جمہوریت کو کم زور کرنے کے لیے اس ہتھیار سے بہت کام لیا گیا ہے۔

    غلط خبر، جھوٹی خبر یا فیک نیوز کی زد میں ریاستی ایجنسی بھی ہوتی ہے، سرکاری ادارہ بھی، کوئی اہم اور نمایاں شخصیت بھی، اور فیک نیوز کے ذریعے مالی یا سیاسی فائدہ بھی حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کلک ریونیو بڑھانے کے لیے بھی سنسنی خیزی سے کام لیا جاتا ہے جو جھوٹی خبر یا غلط انداز سے لکھی اور شایع کی گئی خبر کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔

    فرخ ندیم انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی کے شعبۂ انگریزی میں لیکچرار کے عہدے پر فائز ہیں، یہ ادبی اور ثقافتی نقاد ہیں اور ثقافتی تنقید کے موضوع پر دو ماہ قبل ان کی ایک بے حد وقیع کتاب بھی شایع ہوئی ہے، فیک نیوز کے حوالے سے کہتے ہیں ’فیک نیوز دراصل سرمایہ دارانہ کلچر کا ایک بڑا بحران ہے۔‘ یعنی جعلی خبر کا تعلق سرمائے سے بھی ہے، اس کے پیچھے سرمائے کی طاقت ہوتی ہے، دولت کے پجاری ادارے عوام کی ذہن سازی کی خاطر فیک نیوز کا استعمال کرتے ہیں۔ فرخ ندیم نے ایک زبردست مثال دی، انھوں نے کہا ’جیسے اسٹاک ایکس چینج کو بعض اوقات فیک نیوز سے تحریک دی جاتی ہے۔‘

    جعلی خبر کو پکڑنا آسان نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات اسے پکڑا بھی جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ضرور دیکھا جانا چاہیے کہ کوئی خبر اگر معمول سے ہٹ کر آ رہی ہے تو کیا اس کو زیادہ ویریفائیڈ اکاؤنٹس اور ذمہ دار لوگ شیئر کر رہے ہیں۔ اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ خبر ٹویٹر اور فیس بک پر ٹرینڈ بنی ہوئی ہے لیکن ذمہ دار لوگ اسے شیئر نہیں کر رہے ہوتے۔ اس سلسلے میں یہ کرنا چاہیے کہ ذمہ دار اداروں اور لوگوں کے اکاؤنٹس چیک کیے جائیں کہ کیا وہاں سے بھی خبر دی گئی ہے یا نہیں۔

    فیک نیوز اور انتخابات کا قریبی تعلق ہے۔ پاکستان میں انتخابات 2018 سے قبل سوشل میڈیا جعلی خبروں کے طوفان کی زد میں تھا جس کی بے شمار مثالیں پڑی ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی بیگم کلثوم کی موت خبر، خود نواز شریف کے وطن واپس نہ آنے کی خبریں، انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف سابقہ بیوی ریحام خان کی کتاب کے مندرجات کے حوالے سے بے تحاشا غلط خبریں، پاک فوج کے شعبۂ اطلاعات (آئی ایس پی آر) کے حوالے سے خبریں، اور ان فیک نیوز کے درمیان کرکٹر عبد الرزاق کی موت کی خبر، اس کی محض چند مثالیں ہیں۔

    عالمی سطح پر امریکی انتخابات اس کی تازہ اور بڑی مثال ہے جس کے سلسلے میں ابھی بھی فیس بک ایسے جعلی اکاؤنٹس اور پیجز کی تلاش میں لگا ہوا جہاں سے امریکی انتخابات میں رائے عامہ پر باقاعدہ طور پر اثرات ڈالے گئے۔ امریکا نے روس پر بھی الزام لگایا کہ اس نے مداخلت کی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں روس کی انٹرنیٹ ریسرچ ایجنسی کو بھی ملوث قرار دیا گیا جس نے وسیع پیمانے پر غلط خبریں اور اطلاعات پھیلا کر رائے عامہ تبدیل کی۔

    پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ماہرین کہتے ہیں کہ فیک نیوز کی ایک بڑی پہچان ’ہیٹ اسپیچ‘ بھی ہوتی ہے، ایک ایسا مواد جو نفرت پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے کسی فرد، کسی جماعت، کسی ادارے، کسی صوبے یا حکومت کے بارے میں حقایق کو مسخ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو نفرت پر ابھارا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں بھی اپنا کردار ادا کیا کرتی ہیں اور دشمن ممالک کی ایجنسیاں بھی، جس کی روک تھام کے لیے ریاستیں قانون سازی کرتی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا عمران خان خارجہ پالیسی میں ’تبدیلی‘ لاسکیں گے

    کیا عمران خان خارجہ پالیسی میں ’تبدیلی‘ لاسکیں گے

    اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی بڑی ضرورت ہے، خطے میں اور باقی دنیا میں پاکستان کی موجودی اپنی تمام تر کم زوریوں کے ساتھ ’ڈو مور‘ کے بھاری بوجھ تلے دبی رہی ہے۔

    پاکستانی انتخابات میں اس وقت تک بھاری اکثریت سے فتح حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے پہلے اور غیر سرکاری خطاب میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دے کر خطے اور باقی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔

    پاکستان کو پہلی بار ایک ایسا وزیرِ اعظم ملنے والا ہے جو دنیا کے ساتھ پہلے ہی سے ایک واضح تعارف کا حامل ہے۔ برطانوی یونی ورسٹی سے لے کر بھارت کی گلیوں تک اس کی پہچان میں ایک بین الاقوامیت کا رنگ جھلکتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی شخصیت ایک بین الاقوامی خصوصیت کی حامل شخصیت ہے۔

    ایک ایسا ملک جسے استحکام کی اشد ضرورت ہے، جہاں گزشتہ پندرہ سال سے آنکھیں صرف امن کی جانب دیکھ رہی ہیں، وہ ملک پاکستان ہے۔ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بہتر تعلقات ہی وہ حکمت عملی ہے جس کے ذریعے خود پاکستان کو ترقی کی شاہ راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ پُر سکون اعصاب کے ساتھ غیر سرکاری خطاب میں عمران خان کا تمام نفرتیں اور تنازعات کے خاتمے کا عندیہ دینا خطے کی ایک نئی تاریخ کی تشکیل کو راستہ دینا ہے۔

    اپنی تشکیل کے پہلے دن سے اس بد قسمت ملک پر ایک ہی سوچ مسلط رہی ہے، پاکستان صرف دوسروں سے نفرت اور ٹکراؤ کی صورت میں قائم رہ سکتا ہے۔ ملکی خارجہ پالیسی سے لے کر بجٹ کی تشکیل تک یہی سوچ قومی اقدامات کا حاصل رہی۔ بھارت ہو یا افغانستان، ایران ہو یا روس، اس خطے میں ہمیشہ ایسا محسوس کیا گیا جیسے پاکستان ان کے وسط میں ’تنازعے کا مرکز‘ ہو۔ ملک کے اگلے متوقع وزیرِ اعظم عمران خان کو اگر اس صورتِ حال کا ادراک ہوا ہے تو یقیناً ملک کو تبدیلی کے راستے پر گام زن ہوتے دیر نہیں لگے گی۔

    بھارت کے ساتھ جب ہمارے ہمیشہ کے کشیدہ تعلقات کا ذکر آتا ہے تو ایک چیز دونوں ممالک کے درمیان مشترک ہوتی ہے اور یہ مشترک چیز ہماری ’لڑائی‘ پر ہنستی ہے۔ غربت وہ چیز ہے جو ہمیشہ نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ غربت کو ایک ’ولن‘ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ بین الاقوامی تعلقات کا ایک اہم نکتہ ہے کہ ممالک کے درمیان تعلقات کی تشکیلِ نو کی حکمتِ عملی مقامی سطح پر معاشی حالت پر اثرات ڈالنے کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ چناں چہ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ برّ صغیر میں غربت میں کمی آئے تو سب سے پہلے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی طرف دیکھنا ہوگا۔

    پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کی استواری کا معاملہ ملک کی خارجہ پالیسی کا مشکل ترین حصہ رہی ہے۔ یہ خطے کی سطح پر سیاسی حکمتِ عملی سے لے کر اندرونی استحکام کی حکمتِ عملی تک ایک ایسا معاملہ رہا ہے جس میں مداخلت سیاسی قوتوں کی پہنچ سے باہر رہی ہے۔ کیا عمران خان صرف مقامی سطح پر ’کرپشن‘ میں کمی کا ہدف لے کر قومی منظرنامے میں داخل ہوئے ہیں یا وہ خطے کی سطح پر اور بین الاقوامی معاملات میں ذہانت کے ساتھ ’اسٹروک‘ کھیل پائیں گے۔ یہ وہ سوال ہے جو تحریکِ انصاف کی قوت کی وضاحت کرے گا۔


    تجزیے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ تجزیے کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کوک اسٹوڈیو سیزن 11 نے مشہورنغمہ ’ہم دیکھیں گے‘ ریلیزکردیا

    کوک اسٹوڈیو سیزن 11 نے مشہورنغمہ ’ہم دیکھیں گے‘ ریلیزکردیا

    کراچی: کوک اسٹوڈیو نے سیزن 11 کا پہلا گیت ’ہم دیکھیں گے‘ ریلیز کر دیا، ملک میں تبدیلی کی علامت اس گیت کو پچاس سے زائد گلوکاروں اور میوزک بینڈز نے گایا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کوک اسٹوڈیو نے ایک بار پھر سیزن 11 کے آغاز پر تہلکہ مچا دیا ہے، ایک قوم ایک جذبہ اور ایک آواز کی حامل سوچ پر مبنی گیت ریلیز کر دیا گیا جس کے متنوع رنگوں میں اتحاد کا گہرا رنگ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔

    گیت ’ہم دیکھیں گے‘ اردو کے مشہور اور مقبول شاعر فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’و یبقٰی وجہ ربک‘ پر مبنی ہے، جسے سب سے پہلے 1986 میں اقبال بانو نے لاہور کے الحمرا آرٹس کونسل میں گایا تھا۔

    1985 میں جنرل ضیاء الحق نے عورتوں کے ساڑی پہننے پر پابندی لگا دی تھی جس پر پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال بانو نے احتجاج کرتے ہوئے لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں کالے رنگ کی ساڑی پہن کر ہزاروں سامعین کے سامنے فیض کی یہ نظم گائی۔

    کوک اسٹوڈیو کا کہنا ہے کہ وہ فخریہ طور پر یہ گانا ریلیز کررہا ہے، یہ گانا پاکستان کے لوگوں کی طرف سے پاکستان کے لوگوں کے لیے ہے۔

    اس گیت کو پروفیسر اسرار نے کمپوز کیا ہے، اس کے پروڈیوسر زوہیب قاضی اور علی حمزہ ہیں، اسے البم کوک اسٹوڈیو سیزن 11 میں ریلیز کیا گیا ہے۔

    گیت میں اپنی آواز شامل کرنے والوں میں کیلاش کی آریانا اور ثمرینہ، فقیرا فیم شمو بائی، کریویلا امریکی میوزیکل بینڈ کی یاسمین یوسف اور جہان یوسف اور علی عظمت شامل ہیں۔

    ’ہم دیکھیں گے‘ میں شامل دیگر اہم آوازوں میں عابدہ پروین، عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی، حسن جہانگیر، ابرار الحق، جواد احمد، حمیرہ ارشد، مومنہ مستحسن ساحر علی بگا، دو قوال بھائی استاد غلام فرید الدین ایاز اور ابو محمد بھی شامل ہیں۔

    کوک اسٹوڈیو نے باصلاحیت گلوکار تلاش کرلیے

    وادی ہنزہ کی نتاشا بیگ، کوک اسٹوڈیو سے بیکنگ ووکلسٹ کے طور پر ابتدا کرنے والی کراچی کی سنگر ریچل وکاجی، میوزک گروپ زیب اور ہانیہ سے شہرت پانے والی سنگر ہانیہ اسلم، جمی خان، عاصم اظہر، شجاع حیدر اور آئما بیگ نے بھی گیت کو اپنی خوب صورت آوازیں دی ہیں۔

    پاریک: کوک اسٹوڈیو کے پلیٹ فورم سے کیلاشی فوک میوزک کا انوکھا تجربہ

    اداکار احد رضا میر، میوزک بینڈ ساونڈز آف کولاچی، دنیا بھر میں پاکستان کو بہترین انداز میں پیش کرنے والا پشاور کا پشتو بینڈ خماریان، بوہیمیا گیم ٹائم کے لیے مشہور رائٹر ینگ دیسی اور لیاری سے تعلق رکھنے والے ہپ ہاپ گروپ لیاری انڈر گراؤنڈ نے بھی گیت میں پرفارم کیا ہے۔

    گیت میں جام شورو سندھ سے تعلق رکھنے والا صوفی راک فولک بینڈ دی اسکیچز، طبلہ اور ڈھولک پلیئر بابر علی کھنا، بہترین بیس گٹار پلیئر کامران ظفر عرف منو، پاکستانی کرسچن کمیونٹی کے ابھرتے ہوئے کی بورڈ پلیئر رفس شہزاد اور کراچی کے ڈرمسٹ اور ریلوکٹینٹ فنڈامنٹلسٹ میں کام کرنے والے کامی پال کی پرفارمنس بھی شامل ہے۔

    کوک اسٹوڈیو سیزن 10 – اسٹرنگز کی یاد گارپرفارمنس پر اختتام پذیر

    عمران شفیق عرف مومو، عالمی سطح پر ناول ’دی وِش میکر‘ کے لیے مشہور علی سیٹھی، ریاض قادری اور غلام علی قادری، مشہور پشتو سنگر گل پانڑا، عطاء اللہ عیسی خیلوی کے بیٹے سانول عیسیٰ خیلوی، ایلزبتھ رائے، بلال خان، مشال خواجہ نے بھی پرفارمنس دی ہے۔

    کوک اسٹوڈیو کے گیت میں لاہور سے تعلق رکھنے والا جدید فیوژن فنک بینڈ مغلِ فنک، وشنو اور سنگر اور رائٹر اسرار، نغمہ اور لکی، کوئین آف پشتون فوکلور زرسانگہ، مہر، شہاب اور وجہیہ، چاند تارا آرکسٹرا اور بلوچستان کے پہاڑوں سے اترنے والی آواز شایان منگل دریہان بینڈ کی آوازوں نے بھی جادو جگایا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    عظیم مزاح نگار مشاہیر کے شان دار خراجِ تحسین کے جلو میں رخصت ہو رہا ہے

    وہ بہت سہولت کے ساتھ سادہ جملوں میں آپ کو قہقہے لگانے پر مجبور کرنے کی پوری قوت رکھتا ہے۔ اکیلے میں جب آپ ان کا لکھا متن پڑھتے ہیں تو مسلسل ہنسنے کی وجہ سے دور سے دیکھنے والا آپ کو یقیناً پاگل سمجھے گا۔ یہ ذکر ہے اس عہدِ مزاح کا جو حیاتِ عارضی کی چمکیلی لیکن مسلسل پگھلتی برف پر پھسلتے پھسلتے اختتام کے نشان پر ٹھہر گیا ہے۔

    یہ ذکر ہے مشتاق احمد یوسفی کا، ذکر ہے آبِ گم کا، ذکر ہے خاکم بَدہن کا، اور زرگزشت کا اور چراغ تلے کا۔ یہ ذکر ہے مسلسل اور باقاعدہ فکر میں مبتلا کرنے والے مزاح کا، ان قہقہوں کا جو آپ کے حلق سے نکلتے ہیں اور اس رجحان ساز ادیب کے گرد خراجِ تحسین کا ہالہ بنا دیتے ہیں۔

    ابنِ انشا اور ظہیر فتح پوری سے ہم تک آتے آتے، کل تک ہم بجا طور پر کہا کرتے تھے کہ ’ہم عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘ یہ عہد اب ختم ہوچکا۔ وہ مرچکے لیکن ان کی لطیف نثر انھیں ہمارے قہقہوں میں زندہ رکھے گی۔ مجھے وہ اس لیے پسند ہیں کیوں کہ وہ اس عہد کے کم کوش اور کم مطالعہ قاری کو بے خوفی سے اپنی شگفتہ نثر میں بھاری الفاظ کا جام پلا دیتے تھے، یہ قاری سمجھتے تھے کہ ان کا ادیب کسی دوسرے پر طنز کر رہا ہے لیکن بھاری لفظ پر پھسلنے والے کو احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ طمانچہ انھیں بھی پڑ چکا ہے۔

    94 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت سے ہونے والے اس عہد ساز ادیب نے سماج کے ہر شعبے کے افراد سے اپنی نثر کے ذریعے تعارف قائم کیا ہے، حتیٰ کہ ہمارا سیاسی شعبہ بھی جس سے وابستہ اکثر لوگ کتاب پڑھنے سے ایسے دور رہتے ہیں جیسے جہل علم سے دور رہتی ہے، ان کی نثر کا مداح ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عہدِ یوسفی کو کس طرح خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

    صدر، وزیر اعظم و دیگر سیاسی شخصیات کا خراج تحسین


    ملک کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے انتقال پر صدر مملکت، نگراں وزیر اعظم اور ملک کی دیگر اہم سرکاری و سیاسی شخصیات کی جانب سے تعزیتی بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔

    صدر مملکت ممنون حسین نے رجحان ساز مزاح نگار کی دنیا سے رخصتی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی ادبی خدمات یاد رکھی جائیں گی، صدر کی جانب سے مرحوم کی مغفرت اور اخروی زندگی میں درجات کی بلندی کی دعا بھی کی گئی۔

    نگراں وزیر اعظم ناصر الملک کی جانب سے بھی مشتاق یوسفی کے انتقال پر گہرے رنج کا اظہار کیا گیا، دعاؤں کے ساتھ انھوں نے مرحوم کی ادبی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کیا، کہا اُن کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    دریں اثنا نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے بہترین مزاح تخلیق کرنے والے ادیب کو خراجِ عقیدت پیش کیا، انھوں نے یوسفی کے غم زدہ خاندان سے اظہار ہم دردی کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم نے منفرد اسلوب سے مزاح نگاری کو نئی جہت دی۔ ان کا نہایت دکھ سے کہنا تھا کہ آج سے اُردو ادب میں مزاح نگاری کے خوب صورت عہد کا خاتمہ ہوگیا۔

    دوسری طرف کلیدی سیاسی شخصیات کی جانب سے بھی اُردو ادب کے اس روشن اور ہنستے ستارے کے انتقال پر تعزیتی پیغامات جاری کیے گئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کی صنف مزاح نگاری سیاسی شعبے کے افراد سے کتنی قربت کی حامل ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ زبان و ادب کے لیے مشتاق احمد یوسفی کی خدمات اَن مول ہیں، انھوں نے یوسفی کے انتقال پر اظہار افسوس کیا اور اہل خانہ سے تعزیت کی۔ عمران خان کا بھی کہنا تھا کہ ان کی موت سے اردو مزاح نگاری کا عظیم عہد تمام ہوا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے بھی منفرد مزاح نگار کے انتقال پر اظہارِ افسوس پر مبنی پیغام جاری کیا گیا ہے، ان کے بیان میں مرحوم کو اُردو ادب کا درخشندہ ستارہ قرار دیا گیا۔ بلاول نے مرحوم کے غم زدہ خاندان سے تعزیت کی اور کہا کہ یوسفی کی ادبی خدمات گراں قدر ہیں۔

    لطف کی بات ہے کہ سیاسی شخصیات سے ہٹ کر ایک اہم عسکری شخصیت پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور نے بھی ٹوئٹر پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرتے ہوئے یوسفی کے انتقال پر تعزیت کی ہے۔ آصف غفور نے لکھا کہ مشتاق احمد یوسفی مسکراتے ہوئے ہمیں چھوڑ کر جنت کے ابدی امن کی طرف چل دیے، اللہ ان پر رحم فرمائے۔

    آصف غفور نے ٹوئٹ کے ساتھ یوسفی کا ایک اقتباس بھی شیئر کیا ہے جو چراغ تلے سے لیا گیا ہے: ’انسان کو موت ہمیشہ قبل از وقت اور شادی بعد از وقت معلوم ہوتی ہے۔‘

    فردوس عاشق اعوان نے بھی اظہار تعزیت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ اُردو ادب کے اثاثے کے چلے جانے پر انھیں گہرے دکھ نے آلیا ہے۔

    امجد اسلام امجد، افتخار عارف اور صابر ظفر


    ملک کی ممتاز ادبی شخصیات کی جانب سے بھی صاحب اسلوب مزاح لکھنے والے ادیب مشتاق یوسفی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ممتاز شاعروں میں سرِ فہرست شاعر، ڈراما نگار اور نغمہ نگار امجد اسلام امجد نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی شخصیت کے ایک اہم پہلو کو یاد کیا، کہا کہ مشتاق یوسفی محبت کرنے اور بانٹنے والی شخصیت تھے۔ معروف شاعر افتخار عارف نے بھی کہا کہ مزاح نگاری کے لیے یوسفی کی خدمات گراں قدر ہیں۔

    کراچی سے تعلق رکھنے والے منفرد اور ملک بھر میں مقبول شاعر اور مقبول ترین نغمہ نگار صابر ظفر نے یوسفی کے انتقال پر کہا ہے کہ وہ اس عہد کے مقبول ترین مزاح نگار تھے اور رہیں گے، بہ حیثیتِ انسان وہ بہت شفیق اور مہربان طبیعت کے مالک تھے۔ صابر ظفر نے بھی مرحوم کی شخصی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بعد آنے والے لکھاریوں کی بے حد حوصلہ افزائی کرتے تھے، عبید اللہ علیم، افتخار عارف اور نصیر ترابی کو سامنے لانے میں ان کی نوازشوں کا بڑا دخل رہا۔ معروف شاعر نے انھیں ایک شجرِ سایہ دار قرار دیا جس کا خلا پورا ہونا ممکن نہیں لگتا۔

    قارئین اور مداحوں کا خراجِ تحسین


    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی پاکستان کے عظیم مزاح نگار کی موت پر انھیں ان کی خدمات کے صلے میں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا، ٹوئٹ کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔

    ممتاز مزاح نگار کو ان کے قارئین نے اردو ادب کا لے جنڈ قرار دیا، مداحوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ جوش و خروش سے مرحوم کے لکھے ہوئے مشہور مضامین میں سے اقتباسات شیئر کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    مشتاق یوسفی سے آخری دنوں میں ملاقات کرنے والی شخصیات نے بھی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یادگار تصاویر شیئر کیں، اور ان کے حوالے سے اہم باتیں بتائیں۔ ایک میڈیا شخصیت نے بتایا کہ 94 سال کی عمر میں بھی مرحوم کی یادداشت نہایت اچھی تھی، وہ ذہنی طور پر کچھ پریشان تھے کیوں کہ بہت کم زور ہوگئے تھے اور خوراک نہیں لے پا رہے تھے۔

  • درد کہاں جاتے ہیں مائے

    درد کہاں جاتے ہیں مائے

    شاعری کا ظہور انسانی جذبے سے ہوتا ہے۔ جب میں سوچتا ہوں کہ غزل کا ظہورکیسے ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ من بھیتر میں تسلیم ورضا کا بے پناہ جذبہ اس کا باعث ہے؛ اُس وقت جب ہم حسن کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہیں تب چاہے مسرت کا حصول ہو یا دکھ اٹھائیں۔ لیکن نظم کیوں پیدا ہوتی ہے؟ یہ بالکل ایک الگ سوال ہے۔ نظیر سے لے کر اقبال اور فیض تک اور آج تک کے تقریباً تمام اہم نظم گو شعرا تک نظم کی روایت پر نگاہ دوڑائی جائے تو اس کا جنم ایک جذبۂ پیکار سے ہوتا معلوم ہوتا ہے۔جذبۂ پیکاراپنے وجود کے معروض کو بدل دینے کی تڑپ سے لب ریزجذبہ۔

    افتخار بخاری 80 کی دہائی کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نظم گوشاعروں میں نمایاں نام ہے۔ کاتب تقدیر نے ان کے لیے کوئی ایسی کہانی گھڑی کہ ان کی پہلی کتاب کو منظرعام پر آنے میں پینتیس سال لگ گئے۔ ایک طرف یہ رجحان اور ایک طرف یہ کہ ابھی شاعری کی سیڑھی پر پہلا قدم دھرا پڑا ہے اورمجموعہ بھی چھپ کر آجاتا ہے۔

    دو اہم نام شامل ہیں جواس کتاب ’درد کہاں جاتے ہیں مائے‘ کاتعارف کراتے ہیں۔ فلیپ پرفکشن کے جادوگر محمد حمید شاہد اور پیش لفظ کے طور پرعلینہ کے خالق علی محمد فرشی۔

    میں اس کتاب کی پہلی نظم کو مرکز نگاہ بناکر یہ بتانے کی سعی کرنا چاہتا ہوں کہ اس شاعری کا جنم کہاں سے ہوا ہے اوراس سلسلے میں ان دوصاحبان کے فرمودات سے مدد لے کر اپنی بات کروں گا۔

    فرشی صاحب معاصر نظم میں داخلی پیٹرن کی متنوع تشکیل کا ذکر کرتے ہیں لیکن انھوں نے افتخار بخاری کی کسی نظم میں یہ تشکیلی عمل ہمیں دکھانے سے گریز کیا ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ دعویٰ ادھورا رہ گیا ہے کہ”افتخار کی نظم اسلوب کے ذریعے اپنی پہچان کراتی ہے۔“ ہاں، انھوں نے تاثراتی تجزیہ خوب کیا ہے۔

    اس کتاب کی پہلی نظم ہے: ”شاعری چالاک ہوتی ہے“۔

    ”شاعری چالاک ہوتی ہے
    بھیس بدل کرستم گروں کی
    نظروں سے چھپی رہتی ہے
    جب میں دوسروں کے کھیتوں میں
    ہل چلاتاہوں
    شاعری بھوک بن کرمیرے پیٹ میں ہوتی ہے۔

    مل میں محنت کرکے
    جب میں شام گھر لوٹتا ہوں
    شاعری تھکن کی صورت
    میرے لٹکے ہوئے بازوؤں میں ہوتی ہے
    اور جب میری آنکھیں
    شہر لاحاصل کے منظروں کی بیگانگی میں
    بے مصرف ہوجاتی ہیں
    شاعری مہربان عورت کا
    روپ دھار کر
    میرے خوابوں میں چلی آتی ہے۔

    جب میرے ستم گر
    شاعری کو پناہ دینے کاالزام لگا کر
    میری تلاشی لیتے ہیں
    وہ کچھ بھی برآمد نہیں کرسکتے۔
    اس وقت شاعری خوف بن کر
    ان کے دلوں میں ہوتی ہے“

    علی محمد فرشی نے افتخاربخاری کو امیجسٹ قرار دیا ہے۔ یہ خاصا سویپنگ اسٹیٹمنٹ ہے۔ دو تین نظموں میں امیجز کی جھلک ملتی ہو تو ہو لیکن باقی شاعری ایسی سادہ بیانی سے عبارت ہے جو اپنی فنی تشکیل کے لیے شبیہ سازی کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔نظم کی تنقید میں یہ اہم نکتہ نظرانداز کیا جاتا ہے کہ اس کی اپنی ضرورت کیا ہے۔ افتخاربخاری کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی جو مجھے نظر آئی ہے، وہ یہی فنی ادرا ک ہے کہ یہاں اس شاعری کی اپنی ضرورت کیا ہے۔ یہی اس نظم گو کی فنی پختہ کاری ہے کہ جس چیزکی ضرورت ہے وہ ادراک کے دائرے میں ہے۔ تمام متن میں نظم کی اس سمت سے روگردانی نہیں کی گئی ہے۔ ایک کثیرالجہت امیج کی تشکیل بہ ہرحال نظم کے متن کو اُس سمت سے بالکل الگ راستے کی طرف لے جاتی ہے جہاں شاعری میں فکشن کا رنگ کارفرمائی دکھاتا ہے اور چوں کہ وہ شاعری ہے اس لیے نہ وہاں امیج بننے دیتا ہے نہ افسانے کافریم۔

    مذکورہ بالا نظم میں ہر شے بالکل واضح ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ایک داستان گو پوری وضاحت کے ساتھ کہانی سناتاہے۔ پہلے بند میں ایک کسان کا کردار بیان کیا گیا ہے اور دوسرے میں مزدور کا جو شہر کی دوڑ میں لاحاصل بھاگتا ہے‘ جو سرمایہ دارانہ نظام کا ایندھن بناہوا ہے۔ تیسراکردار ایک میٹا نریٹو کی مانند ہے جو ہے بھی اور نہیں بھی۔ جوتمام بیانیے پر غالب نظر آتا ہے۔ جسے شاعر نے شاعری کہا ہے۔ یہ کرداردراصل ایک جذبہ ہے جو کسان اور مزدور کے ساتھ ساتھ سفرکررہا ہے‘ جس سے اہلِ اقتدارخوف زدہ ہیں۔ کیا یہ جذبہ محض داخلی نوعیت کا ہے جس کے لیے نظم میں ’شاعری‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن یہ صرف شاعری نہیں ہے، یہاں شاعری اپنے معروض کی مزاحمت کا نام ہے۔ یہاں معروض اور موضوع کا جدلیاتی عمل واضح دکھائی دیتا ہے۔ یوں اس نظم کا کلیدی اشارہ جذبۂ پیکارہے۔ لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔

    محمد حمید شاہد نے اس شاعری کے داخلی پیٹرن کو زیادہ بہتر طورپر نشان زد کیا ہے‘ جس میں ابھرنے والے امیجزشاعرانہ سے زیادہ فسانوی ہیں۔ یہ ایک کہانی کی تجسیم کرتے ہیں جودکھ اور نارسائی سے عبارت ہے‘ جو بے تعبیر ہے۔ وہ چوں کہ خود ایک فسوں گر فسانہ گو ہیں، اس لیے زیادہ حیرانی کا باعث نہیں جوانھوں نے ایک شاعر کے متن کے داخلی پیٹرن کے ایک غالب اشارے کو پکڑلیا ہے۔ اس تناظر میں اس نظم کے اسلوب کا ایک اور اشارہ دیکھیے۔ متن کے داخلی پیٹرن سے جس جذبۂ پیکار کی جھلک ملتی ہے اس کی لسانی تشکیل کے تمام اشارے اس کی خوابیدہ کیفیت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ فعال جذبۂ پیکار نہیں ہے، یہ اپنی انقلابی حرکیات کی عدم فعالیت کے سبب اپنی نارسائی کو دکھ بناکر زیست کررہا ہے۔

    دیکھا جائے تو یہ شاعری ہمارے سماج میں عدم فعال جذبوں کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے‘ یہیں اس شاعری کا جنم ہوتا ہے۔ اسی کی طرف حمید شاہد اشارہ کرتے ہوئے نظم (شاعری) پر اتنا بڑا الزام دھرتے ہیں کہ:”جس خواب کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی، اس کی آخری پناہ گاہ کہانی نہیں، ایک نظم ہوتی ہے۔“ مذکورہ نظم اور دیگر کئی ساری نظمیں اس الزام کو تقویت فراہم کرتی ہیں۔ تاہم نظم کی اس توہین آمیز بے سمتی پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقتاً یہ نظم ہی ہے جوایک بے خواب دنیا میں جنم لیتی ہے اور اسے خواب دیکھنا سکھاتی ہے اور اسے تعبیر کاشعور عطاکرتی ہے۔

    سب سے اہم نکتہ جو افتخاربخاری کی ان نظموں میں کھوجا جانا ہے، یہ ہے کہ ان کا داخلی پیٹرن نظمیت کو اپنی تشکیل کا کہاں تک حصہ بناسکا ہے۔ فی الوقت تو اسے کلیشے زدہ طرز اظہار کی نمایندہ شاعری کہا جاسکتا ہے۔ دیکھیں:
    نظم دوسری یاد: جدائی کا بے انت کہرا‘ فراموش ستارے‘ عہد رفتہ کی گردآلود آوازیں‘ مہذب جہنم‘ لہومیں بہتی آتش۔
    نظم آدمی: دیارغیر‘ پیالیوں سے اٹھتی بھاپ‘ بھید کھولنا‘ آنکھوں سے درد امنڈنا۔
    نظم زمین پر ایک دن: دل کا خموشی سے محو گفتگو ہونا‘ گلیوں کا بھٹکنا‘ کاسۂ گدائی‘ یہ سامنے کا عام خیال کہ اگر دن کا استعمال کیا جائے تو ناکامی ملے گی یا کام یابی۔
    غرض ہرنظم کی تشکیل اس طرح کی نہایت ہی مستعمل یا سامنے کی تراکیب سے ہوئی ہے۔
    علی محمد فرشی نے بالکل صائب اشارہ دیا ہے کہ ڈکشن افتخاربخاری کا مسئلہ نہیں ہے‘ یقیناً یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری بیان اور خیال کی ندرت سے تہی محسوس ہوتی ہے۔ڈکشن محض لفظوں کی کرتب بازی نہیں، ذہین تخلیق کار کے لیے جہان ِمعنی کے نئے در وا کرنے کاراستہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس شاعری میں ان کا کوئی منفردلہجہ تشکیل نہیں پایا۔

    اس مجموعے میں جونظم مجھے سب سے زیادہ پسند آئی، آپ بھی ملاحظہ کریں:

    سفرمیں نیند کی خواہش

    سنو!
    جب تم کسی لمبے سفرپر جارہی ہو
    ریل گاڑی بے کشش، بے رنگ
    رستوں سے گزرتی ہو
    مسافت کی طوالت سے
    تم اکتانے لگو
    اورپھراچانک نیند آجائے
    سہاناخواب دیکھو
    اور جب جاگو
    تو یہ جانو
    کہ لمبا راستہ طے ہوچکا ہے
    تو بڑی راحت سی ملتی ہے
    مرے حق میں تمھاری آرزو بھی
    زندگانی کے سفر میں
    نیند کی خواہش تھی
    لیکن کیا کروں
    مجھ کو سفر میں نیند آئے بھی
    تو جلدی جاگ جاتا ہوں

  • ایک ماہ کی مہمان حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنا مہنگا پڑ گیا

    ایک ماہ کی مہمان حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنا مہنگا پڑ گیا

    بجٹ عمل کا تجزیہ


    آج قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں مسلم لیگ ن نے اپنا چھٹا اور آخری بجٹ پیش کرکے اپنی سیاسی ذمہ داریوں سے سبک دوشی کی طرف آخری اہم قدم اٹھالیا۔ تاہم صرف ایک ماہ کی مہمان حکومت کی طرف سے پورے سال کا بجٹ پیش کرنے سے یہ واضح تاثر ملا کہ اس کا یہ عمل سراسر بدنیتی پر مشتمل ہے۔

    سیاسی حلقوں میں پہلے ہی سے اس متوقع سالانہ بجٹ کے حوالے سے خدشات کا اظہار ہورہا تھا یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن احتجاج کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی۔ جیسے ہی بجٹ پیش ہوا، اسمبلی اور ملک کے طول و عرض میں سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کا شدید ترین سلسلہ شروع ہوگیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ سب نے متفقہ طور پر اسے غیر اخلاقی عمل قرار دیا۔

    مجھے یاد نہیں کہ قومی اسمبلی میں کسی جمہوری حکومت کی طرف سے کوئی بجٹ پیش ہوا ہو اور اسے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسترد نہ کیا گیا ہو، تاہم اس بار معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جب حکومت محض ایک مہینے کی مہمان ہے اور اس کی جانب سے وزیر خزانہ پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں روسٹرم پر آئے۔ معاملہ اس وقت مزید سنگین نوعیت اختیار کرگیا جب حکومت نے بجٹ سے چند گھنٹے قبل اقتصادی امور کے لیے وزیر اعظم کے مشیر مفتاح اسماعیل کو وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز کردیا۔

    مسلم لیگ ن نے 2013 کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی تھی جس کی مدت تیس مئی کو ختم ہورہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان میں جمہوریت کے مقدر کے عین مطابق عدالتی فیصلے کے ذریعے تاحیات نااہل قرار دے کر فارغ کردیا گیا تھا جس کے بعد ن لیگ کی جانب سے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم مقرر ہوئے۔

    اپنے آخری بجٹ میں موجودہ حکومت نے جس بدنیتی کا اظہار کیا ہے، اس پر سیاسی حلقوں سے شدید رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ن لیگ کو یقین ہو کہ اگلی باری بھی وہی لے گی، اس لیے اس نے اپوزیشن کے متوقع احتجاج اور تنقید کو نظرانداز کرکے بجٹ کی تیاری پر سسٹم کو لگایا۔ اگلی حکومت کسی اور جماعت کے ہاتھ میں آتی ہے تو ن لیگ کی اس پریکٹس کی لایعنیت مزید واضح ہوجائے گی جب وہ بجٹ کی ساخت میں بنیادی تبدیلیاں کرنے بیٹھے گی۔

    بجٹ عمل پر رد عمل


    خورشید شاہ

    قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بجٹ کو واضح طور پر غیر اخلاقی عمل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے آنے والی حکومت کا حق چھینا۔

    شاہ محمود قریشی

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج ن لیگ نے نئی منفی اور غیر اخلاقی روایت ڈال دی ہے۔ انھوں نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چار ماہ کے لیے بھی قانونی طور پر بجٹ پیش کیا جاسکتا ہے۔

    تفصیل کے لیے یہ پڑھیں۔۔۔ موجودہ حکومت کے بجٹ کا کوئی اخلاقی جواز نہیں: شاہ محمود قریشی

    سراج الحق

    امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بجٹ کو معاشی زبوں حالی کی تصویر قرار دیا۔ ان کا یہ نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ن لیگ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کا مظاہرہ کیا ہے۔

    آصف علی زرداری

    پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بجٹ کو ن لیگ کی لالچ کا عکس قرار دیا۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت نے پبلک سروس ڈیولپمنٹ پروگرام کے منصوبوں میں کمیشن کے لیے بجٹ پیش کیا ہے۔

    مصطفیٰ کمال

    پاکستان سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے بھی کراچی سے بجٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے اگلی حکومت کے حق پر شب خون قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کے اعداد و شمار غلط ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں۔۔۔ موجودہ حکومت آنے والی حکومت کا حق چھین رہی ہے: خورشید شاہ

    قمر زمان کائرہ

    پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی ن لیگ کی بدنیتی کی طرف اشارے دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت تیس جون تک پہلے ہی بجٹ منظور کرچکی تھی، پھر سالانہ بجٹ کیوں۔ یہ اہم نکتہ بھی بیان ہوا کہ بجٹ تبدیل کرنے پر کیا آئندہ اسمبلی ہائی جیک نہیں ہوگی؟

    بلاول بھٹو

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹ کے ذریعے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگلی حکومت کا حق چھن گیا، اب وہ چار بجٹ پیش کرسکے گی۔ بلاول بھٹو کے ایک اہم نکتے کے مطابق یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ بجٹ انتخابات سے قبل دھاندلی کی ایک صورت نہیں ہے؟

    اسے بھی ملاحظہ کریں۔۔۔ سراج الحق نے بجٹ کو معاشی زبوں حالی کی تصویر قرار دے دیا

    شیری رحمان

    پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ حکومت تو چھٹا بجٹ پیش ہی نہیں کرسکتی، وہ کھربوں کا قرض آنے والی حکومت کے کاندھوں پر چھوڑ کر جارہی ہے۔

    رضا ربانی

    سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی بجٹ پیش کرنے کے معاملے کو بدنیتی پر مبنی عمل قرار دیا جس کا واضح ثبوت یہ بھی تھا کہ اسے ایک غیر منتخب شخص نے پیش کیا۔

    فواد چوہدری

    پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے بھی کہا کہ یہ بجٹ دراصل انتخابات پر اثرانداز ہونے کا ایک حیلہ ہے۔