Author: رفیع اللہ میاں
-
دو سو پانچ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
-
دو سو چار ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
قالین ہوا میں اڑنے لگا تھا کہ دانیال نے چیخ کر کہا اس کے کنارے پر مجھے تین مکڑیاں نظر آ رہی ہیں، انھیں گراؤ۔ جبران نے قالین کے درمیان خود کو ٹھیک سے متوازن کیا اور جوتا اتار کر ایک مکڑی کو دے مارا، وہ نیچے جا گرا۔ دوسری مکڑی کی ٹانگیں قالین کے کنارے پر ٹکی ہوئی نظر آ رہی تھیں، جبران نے اسے نیچے گرا دیا۔ تیسری مکڑی اچانک اوپر آ گئی اور فیونا کی ٹانگ پر چڑھ گئی۔ وہ ڈر کے مارے پیچھے ہٹی تو قالین سے ایک چیخ کے ساتھ لڑھک گئی، لیکن اس نے بدحواسی میں قالین کے کنارے کو سختی سے دبوچ لیا تھا جس کی وجہ سے وہ گرنے سے بچ گئی لیکن اب ہوا میں لٹک رہی تھی۔ مکڑی تو گر گئی تھی لیکن فیونا کی جان کو خطرہ تھا، اس نے گھبرا کر کہا ’’مجھے بچاؤ ۔۔۔ مجھے گرنے مت دو پلیز۔‘‘
دانیال نے اس کے ہاتھ کو تھاما اور اسے اوپر کھینچنے لگا لیکن چند ہی لمحوں میں انھیں اندازہ ہو گیا کہ وہ فیونا کو اوپر نہیں لا پائے گا۔ تب فیونا نے آنکھیں بند کیں اور پرندوں کو پکارا ۔۔۔ ’’کہاں ہو تم پرندو، میں گرنے والی ہوں، میری مدد کرو!‘‘جبران نے کسی بڑی چیز کو ہوا میں تیرتے آتے دیکھا۔ اندھیرے کی وجہ سے ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا تھا، کہ وہ کیا چیز ہے۔ جبران اور دانیال سمجھے شاید کوئی گدھ ہے اس لیے وہ گھبرا گئے تھے کہ کہیں ان پر حملہ نہ کر دے، لیکن فیونا نے تسلی دی کہ وہ مدد کو آ رہا ہے۔ پاس آ کر پرندہ فیونا سے بات کرنے لگا اور اس سے پوچھنے لگا کہ کیا اسے مدد کی ضرورت ہے۔ فیونا نے اسے اپنی سچویشن بتائی۔ وہ ایک بہت بڑا گدھ تھا، فیونا نے دانیال کو ہاتھ ہٹانے کے لیے کہا اور پھر خود ہی قالین کا کنارہ چھوڑ دیا۔ وہ نیچے گرنے لگی تو گدھ نے جھپٹا مار کر اسے پنجوں میں دبوچ لیا۔
گدھ نے ذرا دیر میں فیونا کو قلعے کی چوٹی پر اتار دیا۔ فیونا نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ گدھ نے اس سے کسی مردے کے بارے میں دریافت کیا تو فیونا نے بتایا کہ مردہ تو نہیں دیکھا لیکن قلعے میں ریت کی مکڑیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ گدھ یہ سن کر مکڑیوں کے پیچھے چلا گیا۔ جبران نے قالین کو فیونا کے قریب اترنے کا حکم دیا تو قالین نے تعمیل کی، کچھ ہی دیر بعد وہ تینوں پھر قالین پر سوار اڑ رہے تھے۔ وہ خود کو کھلے آسمان میں اڑتا دیکھ رہے تھے اور ان کے بال تیز ہوا سے اڑے جا رہے تھے، انھیں بہت لطف آ رہا تھا۔ قالین نے انھیں آدھے گھنٹے تک صحرا کی عجیب و غریب چیزیں دیکھنے کا موقع فراہم کیا، انھوں نے بدوؤں کے خیموں کے باہر کیمپ فائر کا نظارہ بھی کیا۔ جب وہ قلعے واپس پہنچے تو فیونا کے کہنے پر قالین زمین سے دس فٹ اوپر ٹھہر گیا، ان کا قالین پر اسی طرح سونے کا ارادہ تھا۔ فیونا اور جبران نے جادوئی چراغ کو لے کر دانیال کا مذاق اڑایا تھا لیکن اب وہ اس کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ تینوں کچھ ہی دیر میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے نیند کی وادی میں کھو گئے۔
طلوعِ فجر کے ساتھ وہ باری باری جاگ گئے۔ انھوں نے نیچے دیکھا تو زمین صاف تھی۔ فیونا نے انگڑائی لیتے ہوئے کہا یاقوت کی تلاش میں جانا ہے اب۔ جب قالین زمین پر پہنچا تو انھوں نے نیچے چھلانگ لگا دی، فیونا نے قالین کو لپیٹا اور قلعے کی دیوار سے لگا کر رکھ دیا۔
جبران نے پوچھا کہ نگینہ کہاں تلاش کرنا ہے، کس راستے پر جائیں گے؟ فیونا نے خاموشی سے وہاں دیواروں پر ایک نگاہ دوڑائی اور پھر بولی اس طرف۔ وہ پتھر کی ایک اونچی دیوار کی طرف چلنے لگے۔ لیکن اس سے چند فٹ کے فاصلے پر جیسے ہی وہ رکے، دیوار اچانک سامنے سے غائب ہو گئی۔ تینوں چونک اٹھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ’’دیوار کہاں چلی گئی؟‘‘ دانیال اور جبران ایک ساتھ بول اٹھے۔
فیونا جھجھکتے ہوئے آگے بڑھی اور غائب ہوئی دیوار کی جگہ سے گزرنے لگی، لیکن اسے بری طرح ٹھوکر لگی اور وہ پیچھے گر پڑی۔ اس نے ماتھا پکڑ لیا اور اٹھ کر بولی ’’دیوار ابھی بھی موجود ہے لیکن ہمیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ شاید ہمیں اس کے گر چکر لگا کر چلنا چاہیے لیکن مشکل تو تب بھی ہوگی کہ ہم اس کے گرد جائیں گے کیسے جب یہ نظر ہی نہیں آ رہی۔‘‘ تاہم وہ ایک طرف آگے بڑھنے لگے، لیکن پھر واپس اسی جگہ آ گئے جہاں سے دیوار غائب ہوئی تھی۔ انھوں نے دیکھا دیوار وہاں موجود تھی اور نظر آ رہی تھی۔ اس کے بعد وہ دیوار کے ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ کافی دور تک چلنے کے بعد فیونا کو محسوس ہوا کہ وہ نگینے کے قریب نہیں پہنچ سکی ہے۔ یہ پریشانی کی بات تھی۔
جبران نے کہا ’’یہ دیوار جادوئی ہے، بہتر ہے ہم واپس جائیں کیوں کہ اس طرح تو ہم کہیں بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘ وہ مڑ کر واپس اسی جگہ آ گئے جہاں سے چلے تھے۔ فیونا ایک بار پھر دیوار کے قریب گئی تو وہ غائب ہو گئی۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ دیوار غائب ہونے کے بعد وہ جگہ خالی نظر آنے کی بہ جائے وہاں صحرا نظر آ رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے دور اونٹوں کا کوئی ریوڑ جا رہا ہو۔
(جاری ہے۔۔۔)
-
دو سو تین ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
انھوں نے ایک نوکیلے پتھر کی مدد سے انار توڑ کر اس کے دانے نکالے اور مزے سے کھانے لگے، لیکن فیونا نے اناڑی پن سے اپنے کپڑے سرخ دھبوں سے بھر دیے تھے۔ ان کے پاس پانی کم تھا اور صحرا میں پانی پینے کے لیے زیادہ ضروری ہوتا ہے، اس لیے اسے اسی طرح رہنا تھا۔ جب تک انھیں خبر ہوتی، سورج غروب ہونے لگا تھا، انھوں نے بیگ میں رکھا کھانا ختم کیا اور پھر زمین پر قالین بچھا دیا۔ دانیال نے کہا کاش حکیم ہمیں وہ جادوئی لفظ بتا پاتا تو ابھی قالین پر اڑنے کا مزا لیتے۔ فیونا نے کہا کہ چراغ والا حکیم تو ہمیں جو مشورہ دینا چاہتا تھا وہ بھی آزادی کے جوش میں نہیں دے پایا۔ چلو، اب اس قالین پر سو جاتے ہیں۔ وہ قالین بچھا کر اس پر لیٹ گئے اور اربوں ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھنے لگے۔ جبران نے کہا مجھے لگتا ہے اس کاینات میں ہمارے علاوہ بھی کسی سیارے پر زندہ مخلوق ہوگی۔ فیونا نے فوراً کہا، ہاں اور اس محل میں بھی ہمارے علاوہ دوسری مخلوق موجود ہے۔ وہ دونوں یہ سن کر چونک اٹھے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اس طرف دیکھنے لگے جس طرح فیونا دیکھ رہی تھی۔ ’’کیا وہ کیکڑے ہیں؟‘‘ دانیال نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں، یہ بڑے سائز کی مکڑیاں ہیں، میں نے ایک ٹی وی شو میں دیکھا تھا کہ صحرا کی یہ مکڑیاں لوگوں سے زیادہ تیز دوڑ سکتی ہیں، دیکھو کتنی بد صورت ہیں یہ۔‘‘ جبران نے جواب دیا۔ دانیال نے جلدی سے فیونا سے کہا کہ وہ جادوئی لفظ ادا کرے تاکہ قالین اڑے، لیکن وہ بھول گیا تھا کہ حکیم نے جادوئی لفظ بتایا ہی نہیں تھا۔ پھر اس نے کہا کہ مکڑیوں سے بات کر کے انھیں بھگایا جائے۔ فیونا بولی کہ اسے تو ویسے ہی مکڑیاں بہت بری لگتی ہیں اور تسمانیہ کے بعد اب پھر ان کا سامنا مکڑیوں سے ہو رہا ہے۔ مکڑیاں قریب آئیں تو دانیال چیخا: ’’حکیم ہماری مدد کرو، وہ جادوئی لفظ بتا دو۔‘‘
فیونا نے آگ لگانے اور ریت کی مکڑیوں کو جلانے کے بارے میں سوچا لیکن پھر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ صحرا کی رات پہلے ہی کافی گرم تھی، اس لیے اس نے مکڑیوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا لیکن عین اسی لمحے جبران نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ارے دیکھو، شوٹنگ اسٹار ۔۔۔۔ اسے شہابِ ثاقب کہتے ہیں نا دانی۔‘‘
دانیال اور فیونا اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اچانک فیونا نے حیرت سے کہا یہ شوٹنگ اسٹار تو ہماری طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ باقی دونوں بھی یہ محسوس کر کے اچھل پڑے۔ تینوں اس صورت حال سے حیران بھی اور پریشان بھی تھے۔ شہابِ ثاقب کے ان پر گرنے کا مطلب تھا کہ ان کا خاتمہ۔
شوٹنگ اسٹار تیزی سے ان کی طرف آیا، وہ مکڑیوں کے ڈر سے قالین سے اٹھ کر بھاگ بھی نہیں سکتے تھے۔ اور پھر وہی ہوا، ٹوٹا ستارہ ان کی آنکھوں کے سامنے آ کر قالین پر دھم سے گرا، اور انھیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ تینوں ششدر رہ گئے۔ فیونا بولی کہ اس نے پہلے کبھی قالین پر گرتے ستارے کے بارے میں نہیں سنا۔ ستارہ اتنا روشن تھا کہ اس نے پورے محل کو روشن کر دیا، اور انھیں ہر جگہ موجود مکڑیاں اچھے سے نظر آنے لگیں۔ جبران نے ڈرتے ڈرتے ستارے کو پاؤں سے ٹھوکر لگائی اور وہ تھوڑا سا ہلا۔ پھر اس نے ہمت کی اور ہاتھ اس کے قریب لے گیا، لیکن اسے کوئی گرمی محسوس نہیں ہوئی۔ ’’یہ تو عجیب ہے، نہ یہ گرم ہے نہ اس میں آگ ہے۔‘‘ جبران نے فٹ بال کے سائز کے ستارے کو ہاتھ میں اٹھا کر گھما پھرا کر دیکھا۔
اچانک وہ چونک اٹھے۔ انھوں نے دیکھا کہ ستارے کے بالکل درمیان میں حکم کا چہرہ نظر آنے لگا تھا۔ فیونا چلا کر بولی ’’حکیم ہم مصیبت میں ہیں، ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ حکیم اسے دیکھ کر بولا ارے تمھارے کپڑے اتنے گندے کیوں ہیں۔ جبران نے جلدی سے اسے انار کے بارے میں بتایا اور کہا کہ جو باتیں وہ بتانا بھول گیا ہے، جلدی سے بتا دے۔
حکیم نے کہا ہاں سوری، میں بھول گیا تھا۔ تم نے قالین پر بیٹھ کر صرف اتنا کہنا ہے ’’اڑ اڑ جا اڑ‘‘ اور یہ اڑنے لگے گا، اور ہاں ایک مشورہ بھی دینا چاہ رہا تھا، وہ یہ تھا کہ ’’زمین پر مت سونا، یہاں ریت کی مکڑیاں ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا اور پھر ستارہ آسمان کی طرف اڑ گیا۔چاند کی روشنی میں انھیں مکڑی کی پیلی آنکھیں نظر آ رہی تھیں، تینوں جلدی سے قالین پر ٹھیک سے بیٹھے اور فیونا نے کہا اڑ اڑ جا اڑ۔ ادھر قالین فضا میں بلند ہوا اور ادھر مکڑیاں پاگلوں کی طرف ان کی طرف دوڑ پڑیں، کیوں کہ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ شکار ان کے ہاتھ سے نکلنے والا ہے۔ لیکن دیر ہو چکی تھی، قالین اب فضا میں بلند ہو چکا تھا۔ تینوں گھبرا رہے تھے اور انھوں نے قالین کے کنارے مضبوطی سے پکڑ رکھے تھے کہ کہیں نیچے نہ گر جائیں۔
(جاری ہے…)
-
مارکیز کا آخری ناول اور انعام ندیم کا ترجمہ
اردو میں غیر ملکی ادب کے تراجم کا سلسلہ کم و بیش اردو فکشن جتنا پرانا ہے۔ آپ میر امن دہلوی تک جائیں یا ان سے بھی قبل ملا وجہی تک، اردو ترجمہ اور فکشن کا ساتھ بہت پرانا اور ابتدائی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے تراجم کے سلسلے میں ایک نمایاں جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے، شاید اشاعتی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں ایک مثبت اشارہ پایا جاتا ہے، اگرچہ یہ مترجِمین کے لیے اب بھی کوئی منافع بخش عمل نہیں ہے۔ شاید کوئی پبلشر آپ سے آپ کا ناول اتنے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کرے جتنے اطمینان کے ساتھ کوئی ترجمہ قبول کرے۔
تراجم کے بارے میں بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن اس سلسلے میں جو سب سے اہم بات ہے، وہ یہ ہے کہ، تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔ جو دو زبانوں اور دو ثقافتوں کے درمیان معاملہ کررہا ہے۔
ایک جملہ ایسا ہے جو ثقافتی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماجی، سیاسی اور معاشی مظاہر میں بھی کلیشے کی مانند دہرایا جاتا ہے۔ وہ جملہ ہے: ”یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔“
اسی طرح مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟ مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے تو محض اس کا قاموسی معنیٰ ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزہ محسوس ہوتے ہیں اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔
ایک جملہ ایسا ہے جو ثقافتی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماجی، سیاسی اور معاشی مظاہر میں بھی کلیشے کی مانند دہرایا جاتا ہے۔ وہ جملہ ہے: ”یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔“ یا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں ہر کام آسان چاہیے، یا یہ کہ جتنا لکھا ہے، اُسے کافی سمجھا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص ناول لکھ رہا ہے تو یہ اس کے تخلیقی جذبے کی سنجیدگی کا غماز عمل ہے۔ لیکن اگر وہ غیر ملکی ادب کا ترجمہ کر رہا ہے تو اس میں تخلیقی جذبہ کارفرما تو ہے ہی، اس میں فکری سنجیدگی کی ایک اعلیٰ سطح بھی کارفرما ہے۔ اس کے بغیر ترجمے کا سارا عمل ہی بے معنی اور مہمل ہو جاتا ہے۔ تو یہاں سنجیدگی کا اتنا بار ہے، ایسے میں ترجمے کے عمل کے سلسلے میں یہ جملہ بولنا یا لکھنا کہ ”یہ کوئی آسان کام نہیں“ خود ایک مہمل بات ہے۔ ترجمہ کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ ہو، مترجم کا بے پناہ جذبہ اسے اس کے لیے ممکن بنا دیتا ہے۔
ترجمہ خود میری پروفیشنل لائف کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ میں ٹائم اور نیوز ویک کی ٹائٹل اسٹوریز ترجمہ کرتا رہا ہوں۔ آرٹ بک والڈ کے کالم ترجمہ کرتے ہوئے کئی بار مجھے دانتوں تلے پسینہ آیا۔ نوبیل انعام یافتہ شیمس ہینی کی نظمیں ترجمہ کرتے ہوئے اس عمل میں مستور بے پناہ سنجیدگی کی ضرورت کو میں نے گہرائی سے محسوس کیا۔ اور حال ہی میں ژاک دریدا کے ایک مضمون کا ترجمہ کرتے ہوئے میں نے اس اضطراب کو محسوس کیا جو کسی اور زبان کے متن کے زیادہ سے زیادہ درست مفہوم تک رسائی کے لیے بار بار ایڈیٹنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔
میڈیا سے وابستگی نے ترجمے کے عمل کی کچھ باریکیوں سے بھی روشناس کرایا۔ ان میں ایک یہ بھی شامل ہے جس کی مثال میں نے اس کتاب میں مارکیز کے تعارف والے صفحے پر پائی۔ لکھا ہے کہ مارکیز کی دیگر تصانیف میں ”وبا کے دنوں میں محبت“ ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“ وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ مارکیز نے ان عنوانات سے کوئی ناول نہیں لکھے۔ ہم سمیت پوری دنیا تک یہ ناول انگریزی زبان میں پہنچے ہیں۔ کسی بھی ناول کا ترجمہ کرتے ہوئے کتاب پر عنوان کا بھی ترجمہ کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے، لیکن مصنف کے ناولوں کی فہرست اگر مذکور کرنی ہو تو پھر ان عنوانات کا ترجمہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ انٹرنیٹ پر ہم انگریزی عنوان ہی لکھ کر اس کے بارے میں دستیاب تمام معلومات تک رسائی کر سکتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ انعام ندیم کے تعارف میں کتابوں کے عنوانات میں یہ غلطی نہیں دہرائی گئی ہے۔
ترجمہ کرتے ہوئے ایک بہت عام غلطی بار بار دہرائی جاتی ہے، لفظ کا ترجمہ ہو جاتا ہے لیکن احساس کی ترجمانی رہ جاتی ہے۔ مترجم کو متن کی قرات کے دوران الفاظ اور جملوں کے قاموسی مفہوم پر پوری توجہ مرکوز کرنی پڑتی ہے لیکن اچھا مترجم ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی لفظ یا جملہ پڑھ کر جو مفہوم اس کے ذہن میں آ رہا ہے، وہ تو ایک طرف، لیکن اسے پڑھ کر اسے محسوس کیا ہوا ہے، یہ اس کے لیے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ کیوں کہ ادبی تراجم تب تک مکمل نہیں ہو پاتے جب تک متن کے پیدا کردہ احساس تک رسائی نہیں کی جاتی۔ ہم ایسے بھی تراجم دیکھتے ہیں جو نہ تو ہمارے اندر کوئی قابل قدر احساس پیدا کرتے ہیں، نہ ان سے مصنف کے فن کے بارے میں کوئی قابل قدر خیال جنم لیتا ہے۔ مجھے انعام ندیم کا یہ ترجمہ پڑھتے ہوئے خوشی ہوئی کہ انھوں نے مارکیز کے احساس کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ابھی جب میں ثقافتی ڈسکورس کی بات کر رہا تھا، تو شاید کسی کے ذہن میں اس کے شناخت کیے جانے کا سوال اٹھا ہو۔ یعنی یہ کسی بھی چیز کے مفہوم پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ ایک جگہ تو یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ آپ اسے بالکل ٹھیک ٹرانسلیٹ کر لیں، اور ایک جگہ آپ کو اس سے بچنا ہوتا ہے کہ کہیں کسی لفظ کا ترجمہ کرتے ہوئے اضافی ڈسکورس شامل نہ ہو جائے۔ میں اس کی مثال اس کتاب سے دینا چاہتا ہوں۔ اردو ترجمے میں اینا مگدالینا جب سفر سے گھر لوٹتی ہے تو شوہر سے بات کرتے ہوئے دو بار لفظ ’’طہارت‘‘ ادا کرتی ہے۔ یہ لفظ پڑھتے ہوئے ذہن کو جھٹکا لگتا ہے کہ کیا وہ شریعت محمدی پر عمل پیرا تھی! طہارت اور پاکیزگی ایسی اصطلاحات ہیں جو جسم کی صفائی سے کہیں بڑھ کر مفہوم کی حامل ہیں۔ اگر اینا مگدالینا کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ اس کے جسم سے پسینے کی وجہ سے بو آ رہی ہے، تو اس کے لیے زبان کسی اور لفظ کا تقاضا کرتا ہے، جو اضافی مفاہیم سے Loaded نہ ہو۔
انعام ندیم نے چھ ناول ترجمہ کیے ہیں، اور ان کا یہ پہلا ترجمہ ہے جو میں پڑھ سکا ہوں۔ انھوں نے انگریزی جملے کی ساخت کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مارکیز نے کس قسم کے جملوں کی مدد سے کہانی سناتے ہوئے جذبات سے بھری ہوئی سچویشنز تخلیق کی ہیں۔ مارکیز کی داستان گوئی ہمارے اس دور کی ایک مثالی داستان گوئی ہے۔ یہ بات میں نہ صرف دوسروں کی تقلید میں کہہ رہا ہوں بلکہ خود میری بھی اس وجہ سے یہی رائے ہے کہ ان کے ناول پڑھتے ہوئے میں ان میں پوری طرح خود کو کھو دیتا ہوں۔ مارکیز کا یہ فن اس ناولٹ میں بہت ہی سکڑی ہوئی حالت میں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مارکیز نے بے حد اختصار سے کام لیا ہے، جس کی وجہ سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے ایک طویل داستان کی تلخیص پیش کی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک تلخیص میں تمام داستانوی رنگوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے، ایسے میں انگریزی کے مقابل اردو جیسی چھوٹی زبان میں اس کی منتقلی کسی چیلنج سے کم امر نہیں۔ انعام ندیم نے اس چیلنج کو قبول کیا، اور مارکیز کے ناول کا انگریزی ترجمہ Until August کے عنوان سے مارکیٹ میں آتے ہی ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر اس کا اردو ترجمہ ’’ملتے ہیں اگست میں‘‘ کے عنوان سے پیش کر دیا۔
مارکیز جس طرح جنسی سرگرمیوں کو بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ اردو مترجم کے لیے سچ مچ کے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ مترجم کو کہیں کچھ چھپانا پڑتا ہے اور کہیں مدھم کرنا۔
یہ ناول ایک خاتون کی جنسی سرگرمیوں کی ایک ایسی داستان ہے جس کا بنیادی سرا ایک پُراسرار معاملے سے جڑا ہے۔ یہ مارکیز کا دستخطی اسٹائل ہے، وہ اپنے ناولوں میں جادوئی حقیقت نگاری کا عنصر اسی طرح لے کر آتے ہیں۔ مارکیز جس طرح جنسی سرگرمیوں کو بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ اردو مترجم کے لیے سچ مچ کے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ مترجم کو کہیں کچھ چھپانا پڑتا ہے اور کہیں مدھم کرنا۔ انعام ندیم نے ایسے حصوں سے گزرتے ہوئے پوری طرح اپنے ہنر کا اظہار کیا ہے اور بعض مقامات کو رواں اور خوب صورت نثر میں منتقل کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھا اور دل پذیر ترجمہ ہے، اور اسے بک کارنر نے بہت خوب صورتی سے چھاپا ہے۔ اس کتاب کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ انعام ندیم نے صرف ناول ہی نہیں، بلکہ وہ مسودہ جسے مارکیز نے خود ایڈٹ کیا تھا، وہ بھی اس کتاب کا حصہ بنا دیا ہے۔
-
دو سو دو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اونٹ کے جانے کے بعد فیونا اور وہ دونوں قصر کے دروازے میں داخل ہو گئے۔ اندر بھی گرمی تھی، اور آس پاس کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ باقی دونوں ادھر ادھر دیکھ رہے تھے جب کہ دانیال نے یہ کہہ کر کہ وہ تو اپنا جادوئی چراغ بھول ہی گیا ہے، اسے نکال لیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا یہ بس ایک چراغ ہے، یہاں لوگ انھیں تیل جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کیوں کہ یہاں بہت سے لوگوں کے پاس بجلی نہیں ہے۔دانیال نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی، اور چند قدم آگے بڑھ کر قلعے کی پتھر کی اونچی دیوار کے سائے میں بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنی ہلکی نیلی قمیض کا کونا پکڑ کر چراغ پر رگڑا تاکہ اسے صاف کرے، کہ اگلے ہی لمحے وہ بری طرح اچھل پڑا۔ چراغ ایک دم سے گرم ہو کر لرزنے لگا تھا اور اس میں سے ایک عجیب سا ڈراؤنا شور نکلنے لگا۔ اس نے گھبرا کر چراغ ہاتھوں سے گرا دیا۔ اور دوڑ کر فیونا کے پاس چلا گیا۔ فیونا اس کے چہرے کی حالت اور منھ سے نکلتی ٹوٹی پھوٹی بات سن کر ہنسنے لگی۔ ’’دانی، یہاں صرف ایک ہی چیز ہے جو عجیب و غریب حرکتیں کر رہی ہے، اور وہ تم ہو۔‘‘
دانیال نے کہا اگر تم لوگوں کو یقین نہیں ہے تو آؤ خود دیکھو۔ فیونا نے مذاق اڑاتے ہوئے جبران سے کہا آؤ دانی ہمیں چراغ والا جن دکھائے گا۔ وہ جیسے ہی اس کونے میں پہنچے جہاں دانیال نے چراغ گرایا تھا تو انھیں چکر کاٹتے سبز دھوئیں نے گھیر لیا۔ دانی نے جلدی سے بتایا کہ یہ چراغ میں سے نکلا ہے۔ وہ دونوں بھی حیرت سے سبز دھوئیں کو دیکھنے لگے، دانیال کی آنکھوں میں چمک آ گئی تھی، کیوں کہ وہ سچا ثابت ہوا تھا۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دھوئیں نے انسانی شکل اختیار کر لی۔ دانیال چیخا: ’’یہ دیکھو، میں نے کہا تھا نا کہ یہ جینی ہے!‘‘
ان کے سامنے کھڑی مخلوق نے ناراض اور گونجتی ہوئی آواز میں کہا ’’میں تمھیں عورت دکھائی دیتی ہوں کیا؟ میں جینی نہیں جن ہوں۔‘‘
فیونا نے نوٹ کیا کہ اس کی دھوئیں جیسی جلد ہلکی سبز تھی، سر پر ایک چمک دار سلنڈر سی سبز ٹوپی جمی تھی، جس کے اوپری سرے پر ایک پھندنا لٹک رہا تھا، اس کی پینٹ دیودار کے درخت کی طرح تھیلی دار اور گہرے سبز رنگ کی تھی، جب کہ زیتون ایسی سبز واسکٹ پہنی تھی جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ وہ موٹے بازوؤں والا جن تھا اور اس نے پیروں میں سنہری چپل پہنی ہوئی تھی۔
اچانک دانیال نے پوچھا ’’کیا تم ہماری تین خواہشات پوری کرو گے؟‘‘جن نے ایک بار پھر ناراض ہوتے ہوئے کہا ’’میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں ایک جن ہوں، اور جن خواہشات پوری نہیں کرتے بلکہ جینی کرتی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا ’’مجھے اس فرق کا نہیں پتا۔ تم ایک جادوئی چراغ سے آئے ہو، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ تم ایک جن ہو اور خواہشات پوری کر سکتے ہو۔‘‘
جن نے کہا میرا نام حکیم ہے، میں سلطان دیبوجی کے زمانے کا ایک جن ہوں۔ مجھ سے بس تھوڑا سا بکری کا دودھ گر گیا تھا جس پر سلطان نے مجھے پیتل کے اس چراغ میں بند کر دیا۔ ویسے یہ کون سی صدی ہے؟ جبران نے جواب دیا کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔ وہ اچھل کر بولا ’’اس کا مطلب ہے کہ میں اس چراغ میں 1200 سال سے بند ہوں؟ بکری کا تھوڑا سا دودھ گرنے کے لیے۔‘‘
کچھ لمحوں بعد وہ خوش ہو کر بولا آپ سب کا شکریہ، میں اب خوش ہوں کہ آزاد ہو گیا ہوں۔ مجھے اب جانا چاہیے۔ ویسے تم لوگوں نے ٹوپیاں اچھی پہنی ہیں۔ دانیال نے چیخ کر کہا ’’رکو ذرا، تمھیں ہماری تین خواہشیں پوری کرنی چاہیے، ہم نے تمھیں آزاد جو کیا ہے۔‘‘ لیکن جن نے کہا ہرگز نہیں۔ اس پر دانیال نے کہا اچھا دو خواہشیں تو پوری کرو، لیکن جن نے انکار میں سر ہلایا۔ ایسے میں فیونا نے مسکرا کر کہا چلو ایک خواہش ہی پوری کر دو۔ پر جن نے کہا ’’بالکل نہیں، ہاں، میں آپ کو کچھ مشورہ دے سکتا ہوں۔‘‘
فیونا جلدی سے بولی’’ ہمیں مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ جن نے کہا تو کیا جادوئی قالین چلے گا؟ دانیال اچھل کر بولا اوہ کیوں نہیں، زبردست۔ اس پر حکیم نے اپنا سبز دھواں دار ہاتھ ہوا میں لہرایا اور عربی میں کچھ بڑبڑایا، اگلے ہی لمحے ان کے قدموں میں ایک جادوئی قالین بچھا نظر آ رہا تھا۔ انھیں یہ بالکل ویسا ہی لگا جیسا کہ انھوں نے مادبا میں دیکھا تھا۔ حکیم نے بتایا کہ انھیں صرف جادوئی لفظ دہرانا ہے اور یہ اڑنے لگے گا۔ اور جب وہ واپس جائیں تو اس قالین کو قصر میں چھوڑ کر جائیں۔ سلامہ ۔۔۔ اب میں جا رہا ہوں میری نئی آزادی مجھے بلا رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا۔
فیونا نے اچانک کہا کہ جن نے تو وہ جادوئی لفظ بتایا ہی نہیں، اب ہم اس پر کیسے اڑیں گے؟‘‘ وہ جن کو بار بار آوازیں دینے لگے لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔ وہ تھک کر وہاں بیٹھ گئے۔ جبران نے فیونا سے پوچھا کہ کیا وہ جانتی ہے کہ یاقوت کہاں ہے؟ کیا اس قلعے میں ہے؟ فیونا نے بتایا کہ وہ یہیں پر ہے لیکن اسے صرف سورج نکلنے کے وقت ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جبران حیران رہ گیا: ’’اس بار وقت کی یہ پابندی کیوں بھلا؟‘‘ فیونا نے حیرت انگیز بات بتائی کہ یاقوت کو صرف سورج کی روشنی میں دیکھا جا سکے گا، نہ پہلے نہ بعد میں۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ہمیں سارا دن اور ساری رات یہاں بیٹھے رہنا ہے۔ فیونا تو کچھ ہی دیر میں وہاں سو گئی، جب کہ جبران ویران قلعے میں ادھر ادھر گھومنے لگا اور دانیال اسکیچز بنانے لگا، اس نے دراصل جن کی تصویر بنانی تھی۔
کئی گھنٹوں بعد جب فیونا نیند سے جاگ گئی تو جبران بھی واپس آ گیا تھا، انھیں ہلکی سی بھوک لگ رہی تھی۔ فیونا نے بیگ سے تین انار نکالے جسے دیکھ کر جبران اور دانیال خوش ہو گئے، لیکن یہ چیز فیونا کے لیے نئی تھی، اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے کھانا کیسے ہے۔ جبران نے بتایا کہ اسے کھول کر اس کے اندر موجود دانے کھانے ہیں اور یہ بہت میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔
(جاری ہے…)
-
دو سو ایک ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
کچھ ہی دیر بعد دانیال بے چینی سے اٹھا اور اگرچہ شام کے سائے پھیلنے لگے تھے، وہ ادھر ادھر چٹانوں میں کچھ ڈھونڈنے لگا۔ اسے ایک پتھر کے نیچے کچھ نظر آیا تو جھک کر اٹھانے لگا۔ یہ کوئی سنہری چمکتی چیز تھی۔ دانیال نے اسے پتھر کے نیچے سے اٹھایا۔ وہ ایک چراغ تھا جو سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ وہ پرجوش ہو کر باقی دونوں کے پاس دوڑتا ہوا گیا اور انھیں دکھا کر چلانے لگا: ’’یہ دیکھو، جادوئی چراغ…. الہ دین کے چراغ کے بارے میں تو تم نے سنا ہوگا۔ مجھے جادوئی چراغ مل گیا ہے۔‘‘
وہ دونوں اسے دیکھ کر مسکرانے لگے۔ دانیال نے آنکھیں نکال کر کہا: ’’لگتا ہے تم دونوں نے الہ دین کے چراغ کے بارے میں نہیں سنا۔ اگر میں اسے رگڑوں گا تو ایک جن نمودار ہوگا جو میری تین خواہشیں پوری کرے گا۔‘‘
جبران کے منھ سے قہقہہ نکلا اور دانیال اسے شعلہ بار نگاہوں سے گھورنے لگا۔ ’’بے وقوف مت بنو دانی، جن جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، اور الہ دین کی یہ کہانی بس الف لیلہ میں تھی، کوئی سچا واقعہ تھوڑی ہے۔‘‘ جبران نے کہتے کہتے مڑ کر اونٹ کی طرف دیکھا اور اسے مخاطب کر کے بولا: ’’تم ہی بتاؤ اسے کہ جادوئی چراغ جیسی کوئی شے نہیں ہے۔‘‘
اونٹ سمجھ گیا کہ جبران کیا کہہ رہا ہے، اس نے فیونا سے کہا ’’اپنے دوست سے کہو کہ سوچ وسیع رکھے، اس صحرا میں اس کا سامنا کسی بھی جادوئی چیز سے ہو سکتا ہے، جسے دیکھ کر وہ حیران رہ جائے گا۔‘‘
فیونا نے جبران سے کہا کہ اونٹ نے کیا جواب دیا ہے۔ پھر اس نے دانیال سے کہا کہ وہ چراغ کو اپنے پاس رکھے، ہو سکتا ہے شہر میں اس کی قیمت لگے۔ اس کے بعد فیونا کے کہنے پر وہ اٹھے اور دوبارہ اونٹ پر بیٹھ کر مادبا شہر کی طرف چل پڑے۔ اس بار ان کا یہ سفر ایک گھنٹے طویل رہا، یہاں تک کہ وہ مادبا پہنچ گئے۔ شہر اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور انھیں دور دور تک کوئی ہوٹل بھی نظر نہیں آ رہا تھا، وہ پریشان ہو گئے۔ ایسے میں اونٹ نے ان کی پریشانی دور کی۔ اس نے فیونا سے کہا کہ یہاں پاس ہی وردہ کی سہیلی لیلیٰ کی قالین کی دکان ہے، جس کا پچھلا دروازہ عموماً کھلا ہی ہوتا ہے، تم تینوں اندر جا کر قالین پر سو جاؤ، ہاں کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا۔ اونٹ نے انھیں دکان پر پہنچایا اور خود باہر سونے کے لیے بیٹھ گیا۔
تینوں پچھلے دروازے سے دکان میں داخل ہوئے، وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ قالینوں پر لیٹ کر بے سدھ سو گئے۔ جب ان کی آنکھیں کھلیں تو صبح ہو چکی تھی۔ ابھی لیلیٰ دکان پر نہیں آئی تھی، وہ تینوں اونٹ کو لے کر آگے بڑھ گئے، انھیں بھوک لگی تھی۔ ابھی انھیں کسی بینک سے برطانوی کرنسی کو اردنی دینار میں بھی تبدیل کرنا تھا۔ فیونا نے انھیں بتایا: ’’میں نے رات کو خواب میں یاقوت کو دیکھ لیا ہے، اور تم لوگ خوش نہیں ہوگے یہ سن کر کہ ہمیں اُس کے لیے واپس صحرا جانا پڑے گا۔‘‘
وہ یہ سن کر واقعی پریشان ہو گئے، جبران نے کہا کہ اس کے کولہوں اور ٹانگوں میں بہت درد ہو رہا ہے اونٹ کا پہلی بار اتنا سفر کر کے۔ دانیال نے بھی یہی شکایت کی۔ فیونا نے کہا کہ چلو پہلے کوئی بینک ڈھونڈتے ہیں۔ جب وہ جانے لگے تو اونٹ نے کہا کہ اس کے کھجور لانا نہ بھولنا۔ وہ اونٹ کو چھوڑ کر مادبا کی گلیوں میں آگے جانے لگے، ایک دکان کے باہر انھیں ایک بوڑھا شخص حقہ پیتا نظر آیا۔ کچھ ہی فاصلے پر فیونا نے بینک دیکھ لیا۔ فیونا خوش ہو گئی اور اکیلی اندر جا کر کچھ ہی دیر میں واپس آ گئی، اس کے پاس موجود رقم دینار میں تبدیل ہو چکی تھی۔
قریب ہی ایک کیفے تھا جہاں جا کر انھوں نے بوفے سے اپنی اپنی پسند کا ناشتہ چنا۔ انھوں نے انجیر، دہی، پستہ، چنوں سے بنی مزیدار ڈش حمس، زیتون اور پنیر کا ملا جلا ناشتہ کیا، جو انھیں بہت عجیب لگ رہا تھا۔
ناشتے کے بعد فیونا انھیں کیفے میں چھوڑ کر کچھ چیزیں خریدنے چلی گئی، جب کہ وہ دونوں آہستگی سے اپنے ناشتے کے ساتھ انصاف کرنے لگے۔ جب وہ باہر نکلے تو انھیں ابھی زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا تھا جب فیونا آ گئی۔ اس نے بہت ساری کھجوریں بھی خرید لی تھیں جو اونٹ کے لیے تھیں۔ اونٹ اتنی ساری کھجوریں دیکھ کر خوش ہو گیا۔ جب اس نے ساری کھجوریں چٹ کر لیں تو وہ تینوں اس پر بیٹھ کر پھر صحرا کی طرف لوٹ گئے۔ مخصوص پتھروں والے مقام پر پہنچ کر اونٹ نے کہا یہی میرے مالک کی جگہ ہے، تم کہاں جانا چاہوگی؟ فیونا نے ایک میل یا کچھ زیادہ دوری پر واقع ایک لاوارث عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’اُس صحرائی قلعے پر۔‘‘ اونٹ نے بتایا کہ اسے قصر کہتے ہیں قلعہ نہیں، البتہ مطلب ایک ہی ہے۔ اونٹ انھیں وہاں لے گیا۔ اونٹ نے کہا کہ اب وہ واپس خود اپنے مالک کے پاس چلا جائے گا، وہ فکر نہ کریں۔ اونٹ انھیں چھوڑ کر چلا گیا۔
(جاری ہے…)
-
دو سو ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اگلے دن فیونا کو اسکول سے چھٹی کرنی پڑی کیوں کہ جب وہ جاگی تو دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اس نے ممی کو جگایا، وہ بھی کام پر نہیں جا سکی تھیں۔ اس وقت جمی اور جونی بھی جاگ گئے تھے۔ انھوں نے نہا دھو کر، تازہ دم ہو کر کھانا کھایا اور پھر انکل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر مائری نے ان سے کہا کہ اب پہلے وہ اپنے کام کی جگہ پر جائیں گی تاکہ نہ آنے کی وجہ بتا سکیں اور پھر فیونا کے اسکول جا کر کوئی بہانہ کریں گی، اور واپسی پر کھانے کی چیزیں لے کر آئیں گی۔ یہ کہہ کر وہ بغیر کچھ سنے پھر نکل کر چلی گئیں۔
ذرا ہی دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجی، انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے دوست دانیال اور جبران آ گئے ہیں۔ وہ دونوں فیونا کے پاس بیٹھ کر گزشتہ رات کی کہانی سننا چاہ رہے تھے لیکن فیونا نے کہا کہ ابھی سب سے پہلے انھیں اگلے مقام کے لیے نکلنا ہے، کیوں کہ اگلا قیمتی پتھر ان کا منتظر ہے۔ فیونا نے کہا کہ پتا نہیں وہ کیسی جگہ ہوگی، گرم یا سرد، بہرحال ان ہی کپڑوں میں جانا ہوگا۔ فیونا کو ابھی بھی نیند آ رہی تھی، اس نے کہا امید ہے کہ وہاں اچھی نیند کا موقع ملے گا۔انکل اینگس نے فیونا کو مزید کچھ رقم دی، اور کہا کہ اپنی جادوئی طاقتوں کا استعمال بھولنا مت، اس کی ضرورت پڑے گی۔ فیونا نے مسکرا کر کہا، ضرور، بس اب ہم جاتے ہیں اور چند منٹوں میں واپس آ جائیں گے۔
وہ تینوں کھڑے ہو گئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ فیونا منتر پڑھنے لگی۔ کمرہ ان کے گرد تیزی سے گھومنے لگا، اور بہت سارے رنگ ان کی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ جب وہ رک گئے تو انھوں نے خود کو ریت ایک ٹیلے پر کھڑے پایا۔ پاس کھڑے ایک اونٹ نے جھک کر فیونا کا ہاتھ چاٹا، فیونا ایک دم بدک کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا: ’’شاید میں جانتی ہوں کہ ہم کہاں آ گئے ہیں ….. اردن ہے یہ!‘‘
جبران نے چاروں طرف گھوم کر دیکھا، ہر طرف ریتے کے ٹیلوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا، سورج سر پر کھڑا آگ برسا رہا تھا۔ وہ بڑبڑا کر بولا کیا ہم واقعی اردن میں ہیں؟ ہم منگولیا میں بھی تو ہو سکتے ہیں لیکن وہاں اتنی گرمی نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے میں دانیال نے ان کی توجہ لمبے سفید لباس میں ملبوس ایک آدمی کی طرف مبذول کرائی جو ایک چٹان سے ٹیک لگا کر سو رہا تھا۔ اس کے سر پر سرخ اور سفید چیک والا اسکارف کوفیہ بندھا ہوا تھا۔
فیونا نے ان سے کہا ’’یہ اونٹ ضرور اس شخص کے ہیں، اگرچہ قیمتی پتھر یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے لیکن مجھے اس مقام کے متعلق زیادہ درست اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے، یہاں سرخ ریت اور سرخ چٹانیں ہی دکھائی دے رہی ہیں، اور گرمی بہت زیادہ ہے، سورج بھی غروب ہونے والا ہے، ہمیں اونٹ لے کر کوئی گاؤں یا قصبہ تلاش کرنا ہوگا۔‘‘
انھوں نے دیکھا کہ اونٹ ریت پر بیٹھ گئے تھے جب کہ ان کا مالک بے سدھ سو رہا تھا، ایک چاقو اس کے کمر سے بندھی رسی میں اڑسا ہوا تھا۔ فیونا نے کوئی آواز کیے بغیر ایک اونٹ کے پاس جا کر اس کی رسی پکڑ لی اور اسے کھینچ کر اونٹ کو اٹھانے کی کوشش کی۔ رسی اتنی گرم تھی کہ فیونا کا ہاتھ جل گیا اور رسی اس کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ اونٹ سر ہلایا اور اٹھنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ فیونا نے ایک اور اونٹ کے پاس جا کر اس کے کان میں کہا، اٹھو اونٹ ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ دانیال نے سرگوشی کی ’’کہیں وہ بدو جاگ نہ جائے، دیکھو اس کے پاس ہتھیار بھی ہے۔‘‘
فیونا کا ہاتھ جل گیا تھا اور اونٹ اٹھ نہیں رہے تھے، اسے غصہ آ گیا اور ان دونوں سے مدد کے لیے کہا۔ جبران نے مسکرا کر کہا ’’فیونا تم ہمیشہ اپنا جادو بھول جاتی ہو، تم جانوروں سے باتیں کر سکتی ہو، تو اونٹ سے ان کی زبان میں بات کرو۔‘‘
فیونا مسکرائی اور اپنا جادو استعمال کرنے لگی، فیونا نے ایک اونٹ سے کہا ’’تم کتنے پیارے جانور ہو، کیا تم اپنے دانت اچھے سے برش نہیں کر سکتے، خیر ہمیں قریبی شہر تک جانے کے لیے سواری کی ضرورت ہے، اگر تم میں سے کوئی ہمیں لے جائے گا تو ہم تمھیں واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں، اور ہم تمھیں چوری کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
ایک اونٹ بولنے لگا ’’میرا نام سلوم ہے، میں تم لوگوں کو سواری دوں گا، لیکن شرط یہ ہے کہ تم مجھے کچھ کھجور کھلاؤ۔‘‘ فیونا حیران ہو گئی اور بولی کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اونٹ کھجور بھی کھاتے ہیں۔ اونٹ نے کہا کہ وہ کچھ بھی کھا لیتے ہیں۔ فیونا نے اس کے ساتھ سودا کر لیا۔ وہ تینوں اس پر بیٹھنے لگے تو اونٹ نے فیونا سے کہا ’’پیٹھ پر پڑا کمبل خراب مت کرنا، مجھے اس سے بہت لگاؤ ہو گیا ہے، یہ میرے آقا احمد نے پچھلے سال پنی بیویوں میں سے ایک سے میرے لیے بنوایا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت خوب صورت ہے۔‘‘
وہ تینوں بڑی مشکل سے اونٹ پر بیٹھے اور خود کو سنبھالا۔ اونٹ نے انھیں بتایا کہ وہ انھیں اردن کے قدیم شہر مادبا لے کر جا رہا ہے، کیوں کہ وہی ایک قریب ترین شہر ہے۔ اونٹ نے فیونا سے یہ بھی کہا کہ تین بچے اس وقت صحرا میں کیا کر رہے ہیں، کیوں کہ ان کا یہاں ہونا بہت خطرناک ہے۔ فیونا نے اسے بتایا کہ وہ جواہر کی تلاش میں ہیں۔ اونٹ نے حیران ہو کر کہا کہ یہاں جواہرات نہیں ہیں، ہاں صحرائی ہیروں کی بات الگ ہے۔ صحرائی ہیروں کی بات سن کر وہ تینوں پرجوش ہو گئے لیکن اونٹ نے بتایا کہ زیادہ خوش نہ ہوں، وہ قیمتی تو ہیں لیکن اصلی ہیرے نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے بلور کے ٹکڑے ہیں، اور اصلی ہیرے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چلتے ہوئے دائیں بائیں بلور تلاش کرتے ہوئے جا رہے تھے لیکن ایک گھنٹا ہو گیا اور اونٹ چلتا ہی رہا۔ وہ اونٹ کے سفر سے بہت تھک گئے تھے کیوں کہ گرمی بھی بہت تھی۔ دانیال نے کہا کیا کہیں رک کر آرام نہیں کیا جا سکتا۔ فیونا نے کہا اچھا خیال ہے، یہاں تو شام ہونے کے بعد بھی سورج چمک رہا ہے۔ اس نے اونٹ سے کہیں رکنے کے لیے کہا تو اونٹ ایک جگہ رک کر بیٹھ گیا۔
وہ تینوں دوڑتے ہوئے ایک پتھر کے سائے میں پہنچ گئے، تینوں پسینے پسینے ہو رہے تھے۔ جبران نے کہا ’’ہم شاید کسی بڑے صحرا میں ہیں، ابھی تک کسی شہر کا کوئی نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیا۔‘‘ فیونا نے کہا کہ قیمتی پتھر یہیں اسی علاقے میں کہیں ہے۔ وہ چٹان کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں بھی پاس ہی بیٹھ گئے۔
(جاری ہے)
-
ایک سو ننانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھیے
فیونا اور اس کی ممی کی آنکھیں نیند سے بند ہونے والی تھیں جب اچانک فیونا بری طرح چونک اٹھی۔ اسے خیمے کے دروازے کے پاس عجیب سی سرسراہٹ محسوس ہوئی تھی، اور یہ ایسی سرسراہٹ تھی کہ اس کے بدن میں سرد لہر دوڑ گئی تھی۔ اس لیے وہ اچھل کر بیٹھ گئی۔ اس کی ممی نے پوچھا: ’’کیا ہوا فیونا؟‘‘
اس دوران فیونا کی نظریں خیمے کے دروازے پر مرکوز ہو گئی تھیں، اور اس نے ایک بار پھر سرسراہٹ محسوس کی، اس بار یہ بالکل واضح تھی۔ اس نے ممی کو بتایا کہ باہر کچھ ہے، شاید بھوت ہے کوئی اور میں اسے کراہتے ہوئے سن رہی ہوں۔ مائری مک ایلسٹر بھی یہ سن کر اٹھ کر بیٹھ گئیں اور حیران ہو کر بولیں: ’’ایک بھوت؟ وہ بھی ان پہاڑوں میں۔ تمھیں شاید سخت نیند آ رہی ہے، سو جاؤ۔‘‘
’’نہیں ممی، میری نیند پوری طرح اڑ چکی ہے، اور میں اس کی آواز سن رہی ہوں، اس کی آواز ایسی ہے جیسے …‘‘
’’جیسے کہ کیا؟‘‘ ممی نے حیرانی سے پوچھا۔ فیونا نے کہا ’’جیسے کہ بھوت!‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور خیمے کا دروازہ کھول کر سر باہر نکال کر دیکھنے لگی، لیکن اسے وہاں کچھ دکھائی نہیں دیا۔ اچانک اسے اپنی طرف تیزی سے لپکتی کوئی شے دکھائی دی، جو ایک تیز نوکیلی چیخ کے ساتھ خیمے میں گھسی اور دوسری طرف سے نکل گئی۔ مائری اور فیونا گھبرا کر خیمے سے باہر نکل آئے۔ چیخ سن کر پاس کے خیمے سے جونی اور جمی بھی نکل آئے تھے اور پوچھ رہے تھے کہ کیا ہوا۔ فیونا جونی کے پاس جا کر بولی کہ یہاں ایک بھوت ہے جو بہت خوف ناک اور بد صورت ہے۔
جیک نے بھی اپنے خیمے سے سر باہر نکال کر پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن عین اسی لمحے اس کی آنکھوں پر پیلی روشنی کے ایک بادل نے حملہ کر دیا، اور وہ اپنے خیمے میں پیچھے کی طرف جا گرا۔ اس کے اوپر کوئی شے چکرانے لگی اور کان پھاڑنے والی ایک تیز چیخ سنائی دی۔ جیک گھبرا کر خیمے سے باہر نکل آیا اور چلا کر بولا: ’’وہ میری خیمے کے اندر ہے۔‘‘
پھر وہاں دو اور بھیانک شکلیں نمودار ہو گئیں، ایک ہلکی سبز اور دوسری ارغوانی سرخ رنگ کی، دونوں ان کے سامنے وہاں چکر کاٹنے لگی تھیں جہاں انھوں نے آگ جلائی تھی۔ اینگس بھی اپنے خیمے سے نکل آئے تھے۔ وہ سب ایک جگہ کھڑے ہوئے اور صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ بھوت ان کے خیموں کے اندر گھس گھس کر کچھ شاید ڈھونڈ رہے تھے، انکل اینگس نے کہا ’’ایسا لگتا ہے بھوت خیموں میں جادوئی گیند اور کتابیں تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ اینگس فوراً اپنے خیمے میں گھسے اور برف والا باکس اٹھا کر باہر لائے اور اس کے اوپر بیٹھ گئے۔سرخ ٹوپی والا بھوت ان کے سروں پر آ کر اڑنے لگا، اور ٹوپی اتار کر اسے نچوڑا تو اس سے خون کے قطرے ان کے اوپر گرنے لگے۔ وہ خوف زدہ اس کی طرف دیکھنے لگے۔ ایک بھوت نے ایک بچے کو پکڑا ہوا تھا، وہ ان کے قریب آیا تو بچے نے اچانک خون کی الٹیاں کیں اور چیختے ہوئے زمین پر گر گیا۔ یہ بہت خوف ناک منظر تھا جس نے سب کے دل دہلا دیے۔ بھوت شاید انھیں خوف زدہ کرنا چاہتے تھے اس لیے عجیب و غریب حرکتیں کر رہے تھے۔ فیونا ایسے میں بولی کہ انھیں اب گھر چلے جانا چاہیے، یہاں مزید وقت گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ سب نے اس کی تائید کی، اور سب مل کر سامان جمع کر کے گاڑیوں میں بھرنے لگے۔ اس دوران بھوت ان کے سروں پر اڑتے رہے اور بھیانک آوازوں سے چیختے رہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ گاڑیاں اسٹارٹ کر کے روانہ ہو گئے اور راستے میں ڈریٹن کی گاڑی کے پاس سے بھی گزرے۔ جب وہ انکل اینگس کے گھر پہنچے تو صبح کے تقریباً 5 بج چکے تھے۔
۔۔۔۔۔دوسری طرف ڈریٹن بھی چوری شدہ کار کو واپس اینور البا لے گیا اور وہاں دریائے البا کے پل پر گاڑی سے اتر کر اسے دھکا دیتے ہوئے نیچے گرا دیا، گاڑی ایک زبردست چھپاکے سے دریا میں جا گری، اور بہہ کر جانے لگی۔ اسے آرام کی طلب ہو رہی تھی لیکن اس نے سوچا کہ قلعے کے ٹھنڈے فرش نے اسے بیمار کر دیا ہے، اب کسی مقامی ہوٹل میں کمرہ لے لینا چاہیے، امید ہے کہ ایلسے خاتون نے اس کا نام پھیلایا نہ ہوگا۔ صبح نمودار ہونے کو تھی جب وہ ایک ہوٹل کے پاس جا پہنچا، چوں کہ اس کے پاس کافی رقم تھی اس لیے ہوٹل کے کلرک نے اس وقت اس کی مشکوک آمد پر کوئی سوال جواب نہیں کیا اور اسے ایک کمرہ دے دیا۔ کمرے میں پہنچتے ہی وہ بستر پر لیٹ کر سو گیا۔
-
ایک سو اٹھانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
سب اپنے اپنے خیمے میں سونے کے لیے چلے گئے تھے، فیونا اور اس کی ممی بھی اپنے خیمے میں داخل ہوئے۔ ایسے میں فیونا نے کہا: ’’ممی میں چند منٹوں کے لیے دوربین سے یہاں کا نظارہ کرنا چاہتی ہوں، بس ابھی واپس آ جاؤں گی، ٹھیک ہے؟‘‘
مائری نے ٹھیک ہے کہہ کر سر اثبات میں ہلایا، فیونا باہر نکل گئی اور وہ سلیپنگ بیگ پھیلانے لگییں۔ فیونا سوچ سمجھ کر باہر نکلی تھی، اس نے ڈھلوان پر پہنچ کر دوربین آنکھوں سے لگایا اور رات کی تاریکی میں جنگل، پہاڑیوں اور درختوں کے گہرے سایوں میں کچھ تلاش کرنے لگی۔ آخر کار وہ چونک اٹھی: ’’یہ کیا ہے؟ اوہ یہ تو ایک کار ہے۔‘‘ اس نے دوربین میں غور سے دیکھا تو اسے ڈریٹن بھی کار میں پچھلی سیٹ پر سوتا نظر آ گیا۔ فیونا کے ہونٹوں پر خطرناک مسکراہٹ طاری ہو گئی۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور کیمپ گراؤنڈ کے آس پاس موجود ریچھوں، راکون بندروں، چوہوں اور گلہریوں کو پکارا، اور انھیں حکم دیا کہ وہ گاڑی میں موجود لڑکے کے گرد جمع ہو کر اسے ڈرائے، تاہم اسے زخمی نہ کرے۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو درختوں کے درمیان تیز سرسراہٹیں سنائی دینے لگیں، مختلف جانور ڈریٹن کی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ دوربین میں یہ نظارہ دیکھ کر مسکرا رہی تھی کہ اچانک اسے کندھوں پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا اور وہ اچھل پڑی۔
’’آپ کیا کر رہی ہیں فیونا؟‘‘ یہ جیک تھا۔
’’مم … میں ستاروں کو دیکھ رہی ہوں۔‘‘ اس نے گڑبڑا کر جھوٹ بولا۔ لیکن وہ بھول گئی تھی کہ دوربین کا رخ آسمان کی طرف نہیں بلکہ نیچے جنگل کی طرف تھا۔ جیک کی گھومتی نظروں سے ہار کر آخر اس نے اعتراف کر لیا کہ وہ ڈریٹن کو سبق سکھانا چاہ رہی ہے۔ جیک چونک اٹھا اور بولا: ’’ڈریٹن؟ وہ کہاں ہے؟‘‘ فیونا نے اسے دوربین دے کر ایک طرف اشارہ کیا۔ جیک نے دیکھا کہ ایک ریچھ گاڑی پر کھڑے ہو کر اچھل کود کر رہا تھا، ایک پہاڑی شیر گاڑی کے دروازے پر حملہ آور ہو کر اپنے نوکیلے پنجے اس میں گاڑنے کی کوشش میں تھا۔ اس نے دیکھا کئی بندر اور بڑی گلہریاں اور دیگر کئی جانوروں نے گاڑی کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ جیک کو بھی دیکھ کر مزا آیا اور اس کے چہرے پر چاند کی روشنی میں مسکراہٹ پھیلی دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر تک انھوں نے ڈریٹن کی خوف زدہ صورت حال کا لطف لیا اور پھر خیموں میں چلے گئے، فیونا نے جیک سے کہا تھا کہ وہ اس کے بارے میں ممی کو ہرگز نہ بتائے۔
۔۔۔۔۔گاڑی میں بری طرح ہلچل کی وجہ سے ڈریٹن کی آنکھ کھل گئی، وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاڑی کے آس پاس ہر قسم کا جنگلی جانور موجود ہے اور گاڑی پر حملہ کر رہا ہے۔ وہ خوف زدہ ہو کر جانوروں کو دور ہونے کا حکم دینے لگا لیکن کسی نے اس کا حکم نہ سنا۔ وہ غصے سے چیخ چیخ کر انھیں جانے کا کہتا رہا لیکن جانوروں نے اس کی ایک نہ سنی۔ تھک ہار کر وہ خاموش بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ ایک اور رات بے خوابی میں گزرے گی اب۔ اس نے جادوگر پہلان کو آواز دے کر کہا اس سے بری رات اور کیا ہو سکتی ہے۔ پہلان نے اس کی چیخیں سنیں، تو اس کی حالت پر افسوس کرتا ہوا قلعے کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بڑبڑا کر بولا کہ اس احمق سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اس نے کمرے میں سرخ ٹوپیوں والی بد روحوں میں سے تین کو ڈریٹن کی طرف جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہاں جا کر اس کی مدد کرو، جانوروں کو ڈرا کر بھگاؤ اور پھر انسانوں کو خوف زدہ کرو۔ تین بد روح، گھناؤنی شکلیں پہلان کے حکم پر روانہ ہو گئیں۔
بد روحوں نے گاڑی کے آس پاس پھیلے ہوئے جانوروں کو ڈرا کر بھگا دیا۔ بد روحوں کو دیکھ کر ڈریٹن کی بھی روح فنا ہو گئی تھی، اور وہ سوچ میں پڑ گیا تھا کہ پتا نہیں پہلان نے انھیں پھر اذیت دینے کے لیے نہ بھیجا ہو۔ بد روحوں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ اٹھو اور بتاؤ کہ انسان کہاں پر ہیں، پہلان نے انھیں اذیت دینے کا حکم دیا ہے۔ ڈریٹن یہ دیکھ کر خوش ہو گیا اور بد روحوں کو بتایا کہ فیونا کا گروپ کہاں ٹھہرا ہوا ہے۔ بد روحیں فیونا اور باقی افراد کی طرف اڑ گئیں جب کہ ڈریٹن پھر گاڑی میں لیٹ کر سو گیا۔
(جاری ہے….)
-
ایک سو ستانوے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
’’ارے یہ بارش کہاں سے آئی؟ پانچ منٹ پہلے تو آسمان بالکل صاف تھا۔‘‘ فیونا کی ممی نے حیران ہو کر کہا۔ اور پھر سب خیموں کی طرف دوڑ پڑے، کیوں کہ صرف بارش ہی نہیں آسمان میں زور دار بجلی بھی کڑکی تھی۔ مائری نے سب کو اپنے خیمے میں آنے کو کہا کیوں کہ وہ سب سے بڑا تھا۔ جب وہ خیمے میں داخل ہوئے تو انھوں نے نہایت حیرت سے دیکھا کہ اولے برسنے لگے ہیں، جس نے خیمے کو جیسے زلزلے کی زد پر لے لیا ہو۔ باہر گاڑیوں کے بونٹس پر اولے پتھر کی طرح گر کر شور مچا رہے تھے۔ اینگس پریشان ہو گئے کہ گاڑی میں ڈینٹ پڑ جائیں گے اور گاڑی کا مالک یہ دیکھ کر سخت ناراض ہو جائے گا۔اچانک فیونا کو ایک خیال آیا اور اس نے کہا لگتا ہے یہ بھی ڈریٹن کی شرارت ہے۔ انھوں نے خیمے سے سر باہر نکال کر دیکھا، پتھروں سے بنے چولھے کے گھیرے میں پانی بھر چکا تھا اور کیمپ گراؤنڈ کے گڑھے بھی پانی سے بھر چکے تھے۔ باقی افراد کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ڈریٹن کی کارستانی ہے۔ پھر فیونا نے آنکھیں بند کر کے بارش، اولے اور کڑکنے والی بجلی روکنے کی کوشش کی۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے کانوں سے جیفرے کی آواز ٹکرائی: ’’شکر ہے بارش رک گئی۔‘‘
بارش رکنے کے بعد ماحول پراسرار طور پر گرم ہونے لگا تھا، جس کی وجہ سے ہر جانب پھیلی نمی کم ہونے لگی۔ ہوا کے گرم جھونکے انھیں اچھے لگنے لگے۔ وہ سب خیموں سے نکل آئے تھے اور فیونا نے جیفرے کی فرمائش پر ایک بار پھر آگ بھڑکا دی تھی۔ ہوا میں دیودار کی طرح میٹھی اور تازہ خوشبو آ رہی تھی۔ وہ آگے کے گرد بیٹھ کر خشک میوہ جات کھانے لگے اور ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگے۔ اس وقت وہ شہد کی مکھیوں کے ڈنک کی تکلیف بھی بھول گئے تھے۔
ایسے میں قدیم انسانوں میں کسی نے کہا کہ انھیں کوئی ایسی کہانی سنائی جائے جو انھوں نے اپنے زمانے میں نہ سنی ہو۔ فیونا نے کہا کہ وہ ڈراؤنی کہانی سنا سکتی ہے، پھر اس نے پوچھا کہ کیا انھوں نے ویمپائر کے بارے میں کبھی سنا؟ جولین نے کہا کہ اس نے تو کبھی نہیں سنا، اس نے جیفرے کی طرف دیکھ کر استفسار کیا اور اس نے پوچھا کیا یہ کوئی جان ور ہے؟ فیونا ہنسنے لگی اور بتایا: ’’ویمپائر آدمی ہوتا ہے، جو چمگادڑ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور دیگر انسانوں کا خون پیتا ہے، اسے مارنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کے دل میں لکڑی گھسائی جائے یا چاندی کی گولی استعمال کی جائے۔‘‘’’بہت عجیب چیز ہے یہ تو۔‘‘ جیفرے بولا۔ جولین نے کہا تو چلی سناؤ کوئی کہانی۔ فیونا سنانے لگی: ’’بہت عرصہ پہلے ٹرانسلوینیا میں …‘‘
جب فیونا نے کہانی سنائی تو وہ حیران ہوتے رہے، پھر اینگس گاڑی سے طاقت ور دوربین لے کر آ گئے، اور انھیں کھلے اور صاف آسمان میں ستارے دیکھنے کا تجربہ کرایا۔ مائری نے انھیں ملکی وے گیلیکسی کے بارے میں بتایا جس میں ہمارا نظام شمسی واقع ہے۔ دوربین کی مدد سے جب انھوں نے ستاروں کو اتنا صاف دیکھا تو وہ ششدر رہ گئے، اور اگلے ایک گھنٹے تک وہ سب کائنات کے عجائب پر حیران ہوتے رہے۔ وہ کہتے رہے کہ ان کے دور میں بڑے بڑے جادوگر تھے لیکن اس جدید زمانے کے جادوگروں کا کوئی مقابلہ ممکن نہیں ہے۔
دوسری طرف ڈریٹن کو ایک بار پھر اپنی شکست محسوس ہو رہی تھی، وہ بڑبڑا کر بولا، فیونا تم نے ایک بار پھر مجھے ہرا دیا ہے، لیکن خیر ابھی میں تھوڑی دیر سونا چاہتا ہوں، جاگنے پر دیکھوں گا۔ وہ گاڑی کی پچھلی میں گھسا اور کوٹ خود پر ڈال کر آنکھیں بند کر لیں۔
(جاری ہے…)