Author: رفیع اللہ میاں

  • ایک سو ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ستاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس دل چسپ ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    جبران نے اچانک پوچھا کہ جب وہ قدیم آدمی پکھراج کو یہاں دفنا رہا تھا، تو کیا یہ انگور کے باغ یہاں اس وقت بھی تھے یا کچھ اور تھا یہاں؟ دانیال نے فوراً مسکرا کر کہا شکر کرو کہ کوئی غار تو نہیں ہے۔ جبران نے اسے گھور کر دیکھا۔
    فیونا نے دیکھا کہ یہ ایک بہت بڑا انگور کا باغ تھا، جس میں سبز، گہرے جامنی اور عام جامنی رنگ کے انگوروں کے الگ الگ درخت اگے تھے۔ جبران کے منھ میں پانی بھر آیا، اور بول اٹھا: ’’مجھے انگور چاہیئں، انھیں کھانے کو بہت جی للچا رہا ہے۔‘‘
    فیونا نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا کہ کام ختم کر کے واپسی پر خوب کھانا کھائیں گے۔ جبران نے حسرت سے انگور کی بھری ہوئی بیلوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں اگر زندہ بچ گئے تو!‘‘
    فیونا نے اس کی بات نظر انداز کی اور وہاں لکڑی کی باڑ سے ٹیک لگا کر مٹی پر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر کے دماغ میں دہرایا: ’’پکھراج تم انگور کے اس باغ میں کہاں ہو؟‘‘ اور یکایک اس کے ذہن میں ایک تصویر ابھر آئی۔ وہ اچھل کر کھڑی ہو گئی اور بے اختیار بولی: ’’مل گیا!‘‘ اس نے حیرت سے دیکھا کہ جبران اور دانیال کے منھ جامنی رنگ کے انگوروں سے بھرے ہوئے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، دانیال معصومیت سے بولا: ’’سچ میں یہ بہت ذائقہ دار انگور ہیں، تم بھی کھا کر دیکھو۔‘‘ فیونا کو بھی اس کے ہاتھ سے انگور کا خوشہ لینا ہی پڑا، لیکن کھانے کے بعد اس کا موڈ بھی اچھا ہو گیا کیوں کہ وہ واقعی بہت مزے دار تھے۔ فیونا بولی: ’’ذائقہ دار ہیں لیکن احتیاط سے، میری ممی کہتی ہیں کہ زیادہ انگور کھانے سے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔‘‘
    ’’سچ میں …!‘‘ دانیال چونک اٹھا۔ جب کہ جبران نے اسے نظر انداز کر کے پوچھا کہ پکھراج کہاں ہے؟ فیونا نے جواب میں ایک آہ بھر کر کہا کہ قیمتی پتھر انھیں انگور کے ایک پودے کے نیچے ملے گا۔ دونوں یہ سن کر پریشان ہو گئے کیوں کہ وہاں ایک لاکھ پودے تو ضرور ہوں گے۔ جبران نے پوچھا کہ کون سا پودا؟ فیونا نے بتایا کہ اگر وہ باغ کے دروازے پر کھڑے ہوں تو انھیں بائیں جانب دسویں قطار پر جا کر وہاں سے اندر کی طرف ساٹھ ویں پودے پر جانا ہوگا۔ ’’اور بوبی ٹریپس کا کیا ہوگا؟‘‘ دانیال پوچھ بیٹھا۔
    انھوں نے طے کیا کہ انھیں مطلوبہ درخت تک بہت احتیاط سے جانا چاہیے، چناں چہ وہ آہستہ آہستہ قدم قدم چل کر جانے لگے۔ جبران کی آنکھیں تیزی سے اطراف میں گھوم رہی تھیں تاکہ اگر کوئی خطرہ ہو تو اسے فوراً دیکھ سکے۔ ساٹھ ویں پودے پر پہنچ کر وہ رک گئے۔ فیونا درخت کی جڑ میں بیٹھ گئی اور وہاں سے نرم مٹی ہٹائی۔ کچھ نہیں ہوا تو اس نے مٹی ہاتھ سے کھودی اور مٹھی بھر بھر کر دوسری طرف ڈالنے لگی، جبران اور دانیال بھی اس کی مدد کرنے لگے۔
    یکایک زمین کو ایک جھٹکا لگا اور وہ ہل کر رہ گئی۔ تینوں بری طرح اچھل پڑے اور خوف کے مارے لڑھکتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ جو گڑھا انھوں نے کھودا تھا وہ زمین میں دھنس گیا تھا۔ دانیال نے چھلانگ مار کر کھڑے ہو کر کہا: ’’پہلا پھندہ … یہ یہ اس سوراخ کو کیا ہو رہا ہے؟‘‘
    وہ دہشت زدہ آنکھوں سے کھودے ہوئے گڑھے کو دیکھ رہے تھے اور پھر انھوں نے دیکھا کہ وہاں سے پہلے سیاہ مکڑیاں نکلنے لگیں اور پھر سرخ۔ جس رفتار سے مکڑیاں نکل رہی تھیں بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں رہی ہوں گی۔ فیونا چلائی: ’’مجھے مکڑیوں سے نفرت ہے۔‘‘ اور بھاگنے لگی۔ اسے بھاگتے دیکھ کر جبران اور دانیال بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑے، ان کے پیچھے خوف ناک شکلوں اور سرخ پیٹھ والی مکڑیاں دوڑتی جا رہی تھیں۔ تھوڑا سا آگے جا کر فیونا نے مڑ کر دیکھا، مکڑیاں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ جبران بولا: ’’سامنے ایک گھر ہے کیا اس کے اندر چلیں؟‘‘ فیونا نے دروازے پر رک کر دستک دے ڈالی، لیکن کوئی ہل جل محسوس نہیں ہوئی تو فیونا نے جلدی سے دروازہ کھولا اور تینوں اندر چلے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ انھوں نے گھر والوں کو آوازیں دیں لیکن وہ واقعی خالی تھا۔ دانیال نے سوال اٹھایا کہ کیا مکڑیاں گھر میں نہیں آ سکیں گی؟ جبران کا خیال تھا کہ جلد یا بدیر وہ گھر کے اندر ہر جگہ نظر آئیں گی اور اس طرح کی مکڑیاں زہریلی ہوتی ہیں، ایسا اس نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔ اچانک دانیال کو کچھ یاد آیا، اس نے فیونا کو جلدی سے مخاطب کیا: ’’فیونا، تم تو جادو کر سکتی ہو، ان مکڑیوں سے بات کر کے ان سے جان چھڑاؤ نا۔ ان سے کہو کہ واپس چلی جائیں۔‘‘
    یہ سن کر فیونا نے آنکھیں بند کر لیں اور دماغی طور پر مکڑیوں سے رابطہ کر کے بولنے لگیں: ’’مکڑیو، ہم پر حملہ کرنا بند کرو۔ دور جاؤ، ہم تمھیں کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتے۔‘‘
    وہ جس کمرے میں تھے اس کی کھڑکی پر پہنچنے والی ایک مکڑی نے فیونا کو جواب دیتے ہوئے کہا: ’’تم ہمیں کنٹرول نہیں کر سکتی، پہلا جادو تمھارے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ور ہے، ہم تمھیں پکڑنے اور مارنے آ رہے ہیں۔‘‘
    جبران نے جلدی سے پوچھا: ’’کیا مکڑیاں واپس جا رہی ہیں؟‘‘ فیونا نے بتایا کہ مکڑیوں نے اس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ تب دانیال نے کہا کہ دوسری طاقتوں میں سے کسی کا استعمال کرو۔ جبران نے دیکھا کہ ایک مکڑی سامنے کے دروازے سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی، وہ جلدی سے اسے کچلنے کے لیے آگے بڑھا اور اسے جوتے تلے مسل دیا۔ دانیال نے کہا اگر اور مکڑیاں داخل ہو گئیں تو ہم انھیں جوتوں تلے مسل کر ختم نہیں کر سکیں گے۔ اتنے میں دوسری مکڑی اندر چلی آئی اور پھر یکے بعد دیگرے مکڑیاں اندر داخل ہونے لگیں۔ فیونا نے فوراً آگ کا تصور کیا اور پھر ایک شعلے نے وہاں موجود تمام مکڑیوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ دانیال یہ دیکھ کر چلایا: ’’فیونا احتیاط کے ساتھ، تم انھیں آگ سے نہیں جلا سکتی، ورنہ پورا گھر آگ کی لپیٹ میں آ جائے گا اور ہم بھی جل جائیں گے۔‘‘
    فیونا نے کہا کہ اس کے ذین میں ایک خیال آیا ہے، یہ کہہ کر وہ پچھلے دروازے کی طرف بھاگ کر گئی اور گھر سے باہر نکل گئی، جہاں زمین پر مکڑیوں کی ایک چادر بچی ہوئی تھی۔ وہ ان کے اوپر سے انھیں کچلتی ہوئی دوڑتی چلی گئی۔ اس نے وہاں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دیکھی تھیں، جنھیں ’ڈیڈی لانگ لیگز‘ کہا جاتا ہے۔ جب وہ ان کے قریب پہنچیں تو اس نے انھیں مخاطب کر کے کہا: ’’لمبی ٹانگوں والی مکڑیوں، آ کر اپنے ان دوستوں کو پکڑو اور ان سرخ پیٹھ والی مکڑیوں کو مار ڈالو، یہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
    مکڑیوں نے کہا: ’’ٹھیک ہے فیونا، ہم اپنے دوستوں کو بلاتی ہیں، ہم یہاں کے آس پاس کی سب سے زہریلی مکڑیاں ہیں، اگرچہ ہم انسانوں کے لیے مہلک نہیں ہیں لیکن دوسری مکڑیوں کے لیے بہت زہریلی ہیں۔‘‘
    فیونا نے ان کا شکریہ ادا کیا، لیکن اسی لمحے اسے گھر کے اندر سے چیخیں سنائی دیں۔ پھر فیونا کو گھر کے پیچھے موجود ایک کھیت سے سرسراہٹ کی آواز سنائی دی، اور اس نے دیکھا کہ ہزاروں کی تعداد میں لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں دوڑتی چلی آ رہی ہیں، اور سرخ پیٹھ والی مکڑیوں ہڑپ رہی ہیں۔ خطرہ دیکھ کر مکڑیاں بھاگنے لگیں تو لمبی ٹانگوں والیوں نے ان کا پیچھا کیا، فیونا نے دیکھا کہ وہاں مردہ مکڑیوں کا ایک قبرستان بن گیا ہے۔ وہ زور سے ہنسی۔ جبران اور دانیال بھی گھر سے نکل آئے اور وہ بھی خطرناک مکڑیوں کا حشر دیکھنے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے اوپر بے شمار لمبی ٹانگوں والی مکڑیاں رینگ رہی ہیں لیکن وہ مزے سے کھڑی ہے اور انھیں ہٹانے کی کوشش نہیں کر رہی۔ فیونا نے کہا: ’’یہ میرے دوست ہیں، گھبراؤ نہیں۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھیے
    اگلی صبح وہ دس بجے اٹھے۔ دانیال نے جوتے پہنتے ہوئے فیونا سے پوچھا کہ پکھراج کو کہاں تلاش کرنا ہے، اور کیا اس نے اس سلسلے میں کوئی خواب دیکھ لیا ہے یا نہیں۔ فیونا نے تیار ہوتے ہوئے جواب دیا: ’’ہاں مجھے لگتا ہے کہ میں اس مقام کو پہچان لوں گی، لیکن فی الوقت یہ نہیں پتا کہ وہ ہے کہاں پر۔ ہمیں بس شہر میں جانا ہوگا اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘
    جبران نے ان کا دھیان ناشتے کی طرف مبذول کرایا: ’’میں نے دیکھا تھا کہ اس ہوٹل میں مزے کا ناشتہ ملے گا، اور لنچ تو باہر ہی کرنا پڑے گا۔‘‘
    کچھ دیر بعد وہ ہوٹل کے دروازے سے باہر نکلے تو فیونا نے بتایا کہ اس نے سیاحوں کی گائیڈ بک میں ایک جگہ کا نام پڑھا تھا جسے بیٹری پوائنٹ کہتے ہیں۔ جبران نے پوچھا کہ کیا پکھراج وہیں پر ہے، لیکن فیونا نے کہا کہ اسے نہیں معلوم۔ جبران اسے گھورنے لگا تو فیونا نے کہا تم لوگ یہاں ٹھہرو، میں سوچتی ہوں کچھ۔ یہ کہہ کر اس نے پاس کی دیوار سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ یک بہ یک اس کے ذہن میں انگور کے ایک باغ کی تصویر ابھری۔ اس نے آنکھیں کھول لیں تو دونوں اسے بے تابی سے گھور رہے تھے۔ فیونا نے منھ بنا کر کہا تم ایسے بے قوفوں کی طرح گھور کیوں رہے ہو۔ دانیال نے جھینپ کر کہا: ’’مجھے لگا شاید تم سو گئی ہو!‘‘
    فیونا بولی: ’’میں سو نہیں گئی تھی، ہمیں بس ایک انگور کے باغ کو ڈھونڈنا ہے، یعنی ہمیں لوگوں سے پوچھنا ہے کہ انگور کے باغات کا علاقہ کہاں پر ہے۔‘‘
    انھیں کچھ فاصلے پر کتابوں کی ایک دکان نظر آئی جو گلی کے اندر واقع تھی۔ دانیال نے کہا تسمانیہ سے متعلق جاننے کے لیے ایک کتابچہ خریدنا چاہیے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ جبران نے کتاب کھول کر دیکھا تو انھیں ایک نقشے سے معلوم ہوا کہ سمندر ان سے بس پانچ منٹ کی واک کے فاصلے پر ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انھیں یہاں پینگوئن بھی دیکھنے کو ملیں گے جو یہاں پریاں کہلاتی ہیں۔ تاہم جبران نے کہا کہ وہ اس علاقے کے قریب نہیں ہیں۔ فیونا نے ساحل کی ریت پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ چند ہی لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھول کر پوچھا کہ کتاب سے پتا چلا کہ انگور کے باغات کہاں ہیں؟ دانیال نے بتایا کہ کتاب سے پتا چلتا ہے کہ تسمانیہ میں انگور کے سیکڑوں باغات ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں ایک فون بوتھ کی تلاش میں سڑک کی طرف چل پڑے۔ فیونا نے انھیں ایک نام بتایا کہ ان کا مطلوبہ انگور کا باغ وہاں ہے، اس جگہ کو جاننے کے لیے انھوں نے فون بوتھ میں پڑی فون ڈائریکٹری کھنگالی تو پتا چلا کہ ان کی مطلوبہ جگہ ہوبارٹ شہر ہی میں نہیں ہے، اور یہ کہ انھیں ایک لمبا سفر کرنا پڑے گا۔
    فیونا نے کہا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے انھیں ٹیکسی لینی پڑے گی۔ وہ ٹیکسی کا انتظار کرنے لگے، جب ٹیکسی آئی تو فیونا نے ڈرائیور کو پتا سمجھایا۔ ڈرائیور نے مشکوک انداز میں ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا ان کے پاس کرائے کے پیسے بھی ہیں یا نہیں۔ فیونا نے مسکرا کر کہا بے فکر ہو جاؤ، اچھی ٹپ بھی ملے گی، بس ہمیں وہاں لے جاؤ۔
    جب وہ ٹیکسی میں بیٹھے تو ڈرائیور نے عقبی آئینے سے میں دیکھتے ہوئے کہا: ’’تم لوگ تو بہت چھوٹے ہو، ادھر ادھر کیسے گھوم رہے ہو۔ تمھارے لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکاٹ لینڈ سے آئے ہو۔‘‘
    فیونا نے دیکھا کہ ریڈیو کے قریب ڈیش بورڈ پر ڈرائیور کا لائسنس چپکایا گیا تھا، اور اس پر ڈرائیور کا نام ڈیوڈ لکھا ہوا تھا۔ فیونا نے کہا: ’’مسٹر ڈیوڈ، ہمارے والدین بزنس میٹنگ میں ہیں۔ ہم جہاں جا رہے ہیں اس باغ کے مالک میرے والدین کے دوست ہیں، والدین ہم سے بعد میں وہاں ملیں گے۔‘‘
    ڈرائیور نے انھیں بتایا کہ ان کا سفر تقریباً ایک گھنٹے کا ہے، اس لیے وہ آرام سے ٹیک لگا کر سو بھی سکتے ہیں۔ فیونا نے اس سے پوچھا کہ کیا تسمانیہ میں واقعی پینگوئن ہیں؟ ڈیوڈ نے بتایا کہ ہاں لیکن وہ دوسری سمت میں ہیں، البتہ اگر چڑیا گھر جائیں تو وہاں دوسرے جانوروں کے ساتھ پینگوئن بھی مل جائیں گے۔ اس کے بعد ان کا باقی سفر خاموشی سے کٹا۔ جب وہ مطلوبہ انگور کے باغ پہنچے تو ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ وہ تینوں ٹیکسی سے اتر گئے اور فیونا نے اسے کرایہ ادا کیا۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا گیا۔ فیونا نے دونوں سے کہا کہ یہ ہے وہ جگہ یہاں پکھراج موجود ہے۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو پچاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پچاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں

    فیونا اور باقی افراد انکل اینگس کے گھر پہنچ چکے تھے، اچانک فیونا چونک اٹھی: ’’امی ابھی تک نہیں آئیں، کافی دیر ہو گئی ہے، وہ اتنا وقت کیوں لے رہی ہیں؟‘‘
    بات تو پریشانی والی تھی لیکن اس وقت کسی نے کچھ خاص محسوس نہیں کیا، اور انکل اینگس نے فیونا کو تسلی دی کہ آتی ہی ہوں گی۔ انھوں نے جیب سے کچھ رقم نکالی اور فیونا کو دیتے ہوئے تنبیہہ کی کہ اس بار پیسے سمجھداری کے ساتھ خرچ کرے۔ انھوں نے یاد دلایا کہ اب فیونا کے پاس جادوئی طاقتیں بھی ہیں، خصوصاً اب وہ سونا اور زیورات اور زمین میں دبی ہوئی دولت تلاش کرنے کی طاقت رکھتی ہے، اور اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
    جبران اور دانیال فرش پر بیٹھے فیونا اور اینگس کی باتیں دل چسپی سن رہے تھے۔ فیونا نے گہری سانس لی اور کہا ہم تیار ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور فیونا نے منتر پڑھا۔۔۔۔ دالث شفشا ۔۔۔ اور اگلے لمحے وہ روشنی کے چکر میں غائب ہو گئے تھے۔
    اینگس نے کہا کہ بچے چلے گئے، میں ذرا مائری کی تلاش میں جاتا ہوں، ان کو آنے میں اتنی دیر نہیں ہونی چاہیے تھی، مجھے امید ہے بچوں کی واپسی سے پہلے ہم دونوں لوٹ آئیں گے۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گئے اور جونی نے ان کے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔
    ۔۔۔۔۔۔
    ان تینوں نے خود کو ایک ایسی جگہ پایا جہاں آس پاس ہریالی تھی، جس کا مطلب تھا کہ بہار کا موسم ہے، جب کہ وہ اسکاٹ لینڈ میں پیچھے خزاں چھوڑ کر آئے تھے۔ فیونا نے دونوں سے پوچھا کہ وہ کہاں پر ہیں اس وقت۔ جبران نے موسم کی مناسبت سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ اگر گلوب کے نقشے پر دیکھا جائے تو اس وقت ہم خط استوا کے جنوب میں ہیں لہٰذا ہم یا تو ارجنٹائن میں ہیں، ملاوی میں یا تسمانیہ میں۔
    دانیال نے دلیل دی کہ نہ تو وہ ملاوی جیسے چھوٹے جزیرے پر ہیں، نہ ہی افریقہ میں، اس لیے بچتا ہے تسمانیہ یعنی آسٹریلیا کی ریاست۔
    فیونا نے آس پاس دیکھا کہ وہاں ازالیا نامی جھاڑی نما درخت تھے، کمیلیا نامی سرخ پھولوں والے پودے تھے، گلاب اور چیری کے بھی تھے۔ جبران نے ان کی توجہ ایک عمارت کی طرف دلائی جس پر لکھا کہ یہ تسمانیہ کا نباتاتی گارڈن ہے۔ اس کے بعد ہی انھیں یقین آیا کہ وہ واقعی تسمانیہ میں ہیں۔
    انھوں نے وقت دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ لندن سے دس گھنٹے آگے تھے۔تسمانیہ میں صبح کے چار بج رہے تھے اور وہاں ہلکا سا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پکھراج کی تلاش سے قبل حسب معمول وہ کوئی ہوٹل تلاش کرنے لگے کیوں کہ انھیں کچھ دیر کے لیے نیند لینی تھی۔ فیونا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: ’’پھر ایک ہوٹل کی تلاش!‘‘
    جب وہ باغات سے گزر کر شہر کی روشنیوں میں پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ تسمانیہ کے دارالحکومت ہوبارٹ میں ہیں۔ انھوں نے سڑک کنارے کچھ ہوٹل دیکھے۔ ایک ہوٹل پر لکھا تھا ’’بارامونڈی بیرک۔‘‘ جبران نے کہا: ’’ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی فوجی کیمپ ہو، دعا ہے کہ ہمیں کاٹ کی چارپائیوں پر نہ سونا پڑے۔‘‘
    جب وہ اندر گئے تو کاؤنٹر پر فیونا سے عمر میں بس تھوڑی ہی بڑی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ نائٹ منیجر لڑکی نے انھیں دیکھتے ہی کہا: ’’بچے اتنے سویرے کیسے نکل آئے، تمھارے والدین کہاں ہیں؟‘‘ وہاں صوفے پڑے ہوئے تھے، فیونا نے باقی دونوں کو وہاں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نائٹ منیجر کی طرف مڑ کر وضاحت کرنے لگی کہ گاڑی میں تھوڑی سی گڑ بڑ ہو گئی ہے، والدین اسے ٹھیک کروا کر ابھی پہنچ ہی جائیں گے، انھوں نے ہمیں بھیجا کہ ہم کمرہ بک کر لیں۔
    نائٹ منیجر کا نام اسٹیفنی تھا، اس نے کہا کہ کئی بستروں والا کمرہ چاہیے ہوگا۔ فیونا نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر انھیں ہوٹل کا سب سے بڑا خالی کمرہ دے دیا گیا۔ کمرہ دوسری منزل پر تھا، تینوں اوپر پہنچ گئے۔ فیونا نے انھیں بتایا کہ اچھی بات یہ ہوئی کہ منیجر نے بغیر کسی سوال کے برطانوی کرنسی قبول کر لی۔ تینوں کمرے میں پہنچ کر الگ الگ بستروں پر ڈھیر ہو گئے۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چوراسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن فیونا کی ممی کو اغوا کر کے قلعے پہنچا تو فوراً سیڑھیوں سے نیچے اتر کر انھیں غار میں لے گیا، اور ایک دیوار کے ساتھ زنجیر سے باندھ دیا۔ پھر وہ سرنگ کے ذریعے دوڑتا ہوا جھیل کے پاس پہنچ گیا اور پہلان جادوگر کو آوازیں دینے لگا۔ پہلان نے اسے بار بار آ کر پریشان نہ کرنے کا کہنا تھا لیکن وہ یہ بتانے کے لیے بے چین ہو رہا تھا کہ وہ مائری کا ’تحفہ‘ لے کر آیا ہے۔

    جھیل کی سطح لرز اٹھی اور لہروں میں اچھال پیدا ہو گیا، ڈریٹن نے دیکھا کہ جھیل کے پانی کا ایک مینار سا اوپر کی جانب اٹھا اور اس کی سماعت سے تیز آواز ٹکرائی: ’’اب کیا کہنے آئے ہو؟‘‘
    ڈریٹن نے بولا: ’’غار میں آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے، آؤ دیکھو۔‘‘
    جادوگر پہلان پانی سے نکلا اور ڈریٹن کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد وہ سرنگ کے ذریعے غار میں پہنچ گئے۔ پہلان نے مائری کو بندھا دیکھا تو حیران ہو گیا، ان کا چہرہ پائی سے گندا ہو رہا ہے۔ وہ پہلان کو دیکھتے ہی بول اٹھیں: ’’تم کون ہو؟‘‘
    ڈریٹن نے بتایا کہ یہ پہلان ہے، کنگ دوگان کا جادوگر۔ پہلان کو اس پر غصہ آ گیا: ’’میں اپنا جواب خود دے سکتا ہوں احمق۔‘‘ پھر وہ مائری کی طرف متوجہ ہوا، اور کیگ کیگان کے اولاد کی یہاں موجودگی پر خوشی کا اظہار کرنے لگا۔ پھر وہ مائری کو ایک بڑے سانپ کا روپ دھار کر بچوں کی طرح ڈرانے کی کوشش کرنے لگا۔ دیکھنے میں یہ بھیانک اژدہا لگ رہا تھا جو کانٹے دار سرخ زبان باہر نکال کر مائری کی طرف رینگنے لگا، اس کی خوف ناک آنکھوں کی کشش بے پناہ بڑھ گئی تھی۔ مائری نے چیخ کر کہا: ’’مجھے سانپوں سے نفرت ہے، دور ہو جاؤ مجھ سے۔‘‘
    سانپ دھیرے دھیرے ہوا میں بلند ہو گیا جیسے مائری پر جھپٹنے والا ہو، پھر وہ کنڈلی مار کر رقص سا کرنے لگا۔ ڈریٹن کو خود سانپوں سے نفرت تھی اس لیے وہ دور ہو کر پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اچانک سانپ نے جھپٹ کر مائری کے گلے میں اپنے دانت گاڑ دیے اور وہاں سے خون کا ایک فوارہ پھوٹ پڑا۔ مائری کے حلق سے نکلنے والی چیخ گلے ہی میں دب گئی۔ اس کے منھ سے آواز بھی نہ نکل سکی۔ سانپ ان سے دور ہٹ گیا اور مائری نے اچانک آنکھیں کھول لیں۔ ان کے کانوں سے جادوگر پہلان کا قہقہہ ٹکرایا: ’’ہاہا… ہاہا… ہاہاہا، میں نے تمھیں بے وقوف بنا دیا۔ مائری جلدی سے گلے پر ہاتھ پھیر کر دیکھنے لگیں کہ کیا سچ میں وہ زخمی نہیں ہوئی ہیں۔ حقیقت جان کر انھیں اطمینان ہو گیا لیکن اگلے ہی لمحے وہ کرخت لہجے میں بولنے لگیں: ’’تم لوگ کس قسم کے بیمار ذہن لوگ ہو، دوسروں کو خوف زدہ کر کے خوشی حاصل کرتے ہو، اور جادو کر کے خود کو طاقت ور محسوس کرتے ہو… افسوس ہے تم پر!‘‘
    ڈریٹن چلا کر بولا: ’’منھ بند رکھو عورت، اگر خیریت چاہتی ہو منھ بند رکھو سمجھی!‘‘ اچانک وہاں موجود سانپ غائب ہو گیا اور جادوگر پھر نمودار ہوا۔ اس نے مائری سے کہا کہ وہ اپنے باپ دادا کی طرح نڈر بننے کی کوشش کر رہی ہے، ایک آگ ہے وجود کے اندر، تو چلو ڈریگن بن کر دکھاتا ہوں۔ ڈریٹن نے قہقہہ لگا کر کہا: ’’اب یہ تمھیں زندہ بھوننے والا ہے مائری، سنبھل جاؤ۔‘‘
    پہلان نے ڈریگن بن کر غار کی چھت کی طرف منھ کر کے بھیانک آواز نکالی اور پھر اس سے آگ کے شعلے برآمد ہوئے۔ غار میں ایک دم کالا دھواں پیدا ہوا جو مائری کے حلق میں چلا گیا اور وہ کھانسنے لگیں۔ جب دھواں چھٹ گیا تو اچانک ڈریگن نے منھ مائری کی طرف کر کے کھولا اور آگ کے ایک دریا نے ان کے جسم کو لپیٹ میں لے لیا۔ ڈریٹن خوف زدہ ہو کر دیکھنے لگا کہ مائری کا بدن جل کر سیاہ ہو گیا ہے، اور مائری کے حلق سے اذیت سے بھری چیخیں نکل رہی ہیں۔ خوف کے مارے ڈریٹن کی آنکھوں کے ڈھیلے باہر نکل آئے تھے، اور اچانک اسے الٹی آ گئی۔ الٹی کر کے جیسے ہی وہ سیدھا ہو گیا مائری کو وہاں سلامت موجود پایا۔
    مائری نے سرگوشی جیسی آواز میں کہا: ’’تم قابل نفرت ہو، شیطان ہو، میں تمھاری موت کا انتظار کروں گی۔‘‘ پہلان جادوگر واپس اپنی حالت میں آ گیا تھا، اس نے غصے سے ڈریٹن سے کہا لے جاؤ اس عورت کو جھیل پر اور اسے وہاں کی بھیانک مخلوق کی خوراک بنا دو، یاد رکھنا اسے زندہ نہیں بچنا چاہیے۔‘‘
    ڈریٹن اچھلا اور بولا کہ کیا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن پہلان نے کہا کہ ان کے پاس فیونا موجود ہے تو اس کی ممی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا اور مائری پر کچھ دیر کے لیے جو نیند سی طاری ہوئی تھی وہ اس سے جاگ اٹھیں۔ مائری نے ڈریٹن کو مخاطب کر کے کہا: ’’تم بھی بہت برے ہو ڈریٹن لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس جادوگر کی طرح پھر بھی نہیں ہو، تمھارے اندر امید کا دیا روش ہو سکتا ہے۔ اس لیے تم پہلان جادوگر کو بھول جاؤ اور ہمارے آ ملو، ہم تمھیں آگے آنے والے حالات سے بچائیں گے۔‘‘
    ڈریٹن نے مائری کی بات خاموشی سے سنی اور پھر غرا کر بولا: ’’تمھیں کیا پتا کہ میں پہلان سے بھی بدتر ہوں، اب میں تمھیں کھولنے جا رہا ہوں، اگر کوئی مضحکہ خیز کوشش کی تو یہیں جان سے مار ڈالوں گا۔ جادوگر کو سن لیا ہے نا ہمیں اب تمھاری مزید ضرورت نہیں ہے۔‘‘
    زنجیریں ڈھیلی ہونے کے بعد مائری کو کچھ بہتر محسوس ہونے لگا، لیکن ان میں لڑنے کی طاقت نہیں تھی، درد نے ان کے جسم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ اب بھی محسوس کر سکتی تھیں کہ شعلے انھیں جلا رہے ہیں اور سانپ کے دانت ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔ ڈریٹن نے جھک کر انھیں اٹھایا اور کندھے پر ڈال کر کشتی تک لا کر اندر پھینک دیا۔
    جاری ہے ۔۔۔
  • ایک سو تریاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تریاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھیے

    ڈریٹن ان لوگوں میں سے تھا جو زیادہ انتظار نہیں کر سکتے، جو چیز حاصل کرنی ہو اسے پوری بدمعاشی کے ساتھ زور بازو سے حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ ہی کچھ اور تھا، جادوئی گولا تب تک حاصل کرنا مشکل تھا جب تک تمام ہیرے ڈھونڈ کر نہیں لائے جاتے، اور ان کے لیے مختلف قسم کے دور دراز اور خطرناک علاقوں کا جادوئی سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ اس میں وقت تو لگنا ہی تھا۔ اینگس کے گھر سے بھاگنے کے بعد وہ جھیل پہنچ گیا تھا، کشتی چلا کر جب وہ دوسری طرف اترا تو جھنجھلایا ہوا تھا۔ وہ بڑبڑا کر بولا: ’’اس طرح آگے پیچھے جاتے ہوئے میں اب تھک چکا ہوں، ایک تو یہ کشتی چلانا بھی ایک عذاب ہے۔‘‘ اس نے چار و ناچار کشتی ایک درخت سے باندھ دی۔

    قلعے کی طرف جاتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ اب کون سی طاقت اس کے پاس آ گئی ہے کیوں کہ فیونا اور اس کے دوست نیا ہیرا جو لے کر آ گئے تھے۔ جادوگر پہلان اسے بتا چکا تھا، اس نے یاد کیا اور پھر اچھل پڑا۔ ’’اوہ تو اب میرے پاس سونا اور ہیرے جواہرات تلاش کرنے کی طاقت آ گئی ہے۔‘‘ سوچتے سوچتے وہ قلعے کے اندر پہنچ گیا تھا۔ اپنے سلیپنگ بیگ پر بیٹھ کر اسے خیال آیا کہ اس قلعے میں بھی تو خزانہ ہو سکتا ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ بے قراری سے اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ خزانہ کہاں چھپایا گیا ہوگا۔ اگلے ہی لمحے حیرت انگیز طور پر اسے خواب جیسی کیفیت میں ہیرے جواہرات سے بھرا ایک روشن کمرہ دکھائی دیا۔ وہ پرجوش ہو گیا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ لیکن وہ کمرہ ہے کہاں؟ اس نے پھر آنکھیں بند کر کے تصور کیا اور پھر اسے پورا نقشہ دکھائی دینے لگا۔ ’’میں نے ڈھونڈ لیا۔‘‘ اس کے منھ سے چیخ نکل گئی اور وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

    ٹارچ لے کر وہ سیڑھیوں پر نیچے اتر گیا، وہاں اس نے دیوار کے ایک پتھر پر ہاتھ سے دباؤ ڈالا تو سیڑھیوں کے نیچے ہلکی سی گڑگڑاہٹ سنائی دی اور وہاں ایک دیوار کھل گئی۔ وہ جلدی سے کمرے کے اندر چلا گیا لیکن وہاں کوئی سونا نہیں تھا۔ یہ ایک بہت چھوٹا کمرہ تھا۔ اسے بہت غصہ آیا اور اسی عالم میں اس نے دیوار پر ایک پتھر پر زور سے مکا مار دیا۔ اچانک وہاں بھی ایک دروازہ کھل گیا جس سے اندر جاتے ہی اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ یہ کمرہ سونے اور قیمتی جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک لمحہ دیر کیے بغیر چھلانگ لگا کر سونے کے ڈھیر پر کود گیا اور مٹھی میں چیزیں بھر بھر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور بے اختیار چلانے لگا: ’’میں امیر ہو گیا ۔۔۔ میں امیر ہو گیا۔‘‘

    اس نے خزانے میں سے چھانٹ کر زمرد اور ہیرے اپنی جیبوں میں بھرے اور پھر اوپر محل کی طرف چلا گیا۔ وہ اتنا بے چین تھا کہ محل کے اندرونی حصے سے باہر نکل کر شکستہ پل پر جا کر کھڑا ہو گیا اور رات کے اندھیرے میں زور زور سے سانسیں بھرنے لگا۔

    وہاں سے گزرتے لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی اور وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ وہ کون ہے۔ لیکن اس نے ہر چیز سے بے نیاز کشتی میں ایک بار پھر جھیل پار کی اور کشتی کو ایک قریبی درخت سے باندھ دیا۔ اس کے بعد وہ تیزی سے فیونا کے گھر کی طرف جانے لگا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اب۔ اس نے دیکھا کہ مائری اور فیونا جبران کے گھر گئے اور وہاں سے ان دونوں کو لے کر فیونا کے گھر کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچ کر مائری نے باقی افراد سے کہا کہ وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑیں، وہ گھر سے کچھ اٹھا کر لا رہی ہیں۔ ادھر وہ چل پڑے اور ادھر مائری گھر کے اندر جا کر کچھ ہی دیر میں واپس آ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا۔ اس وقت باقی افراد دور جا چکے تھے اور مائری اکیلی تھیں۔ ڈریٹن دوڑ کر ان کے پیچھے چلا گیا اور پیچھے سے آواز دے کر پوچھا: ’’ڈبے میں کیا ہے؟ کیا میں دیکھ سکتا ہوں؟‘‘

    مائری نے مڑ کر دیکھا تو ڈریٹن کو سامنے پا کر وہ خوف سے برف بن گئیں۔ ان کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’یہ صرف پائی ہے ڈریٹن، بچوں کے لیے لے جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’پائی؟ اوہ میرا پسندیدہ۔‘‘ اس نے جھپٹا مار کر فیونا کی ممی کے ہاتھ سے ڈبہ چھین لیا، اور کھول کر اپنی انگلیاں اس کے اندر ڈبو دیں، اور پھر باہر نکال لیں۔ اپنی انگلیاں منھ میں ڈال کر وہ بولا: ’’یہ تو بیری کا ذائقہ ہے، واہ۔‘‘

    اچانک اس نے ایک پائی اٹھا کر مائری کے سر پر دے مارا۔ وہ چیخ اٹھیں: ’’یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم نے میرے بال خراب کر دیے۔‘‘ ڈریٹن نے سفاکی اور بدتمیزی کی حد کر دی۔ ’’یہ تو کچھ نہیں، یہ دیکھو۔‘‘ اور اس نے ایک اور پائی نکال کر مائری کے چہرے پر پھینک دی۔ اور پھر ایک اور مائری کے سر پر دے ماری۔ وہ چلانے لگیں: ’’رک جاؤ، یہ کیا بدتمیزی کر رہے ہو تم ڈریٹن، رک جاؤ۔‘‘

    ڈریٹن نے بدتمیزی سے کہا: ’’اوہ آپ کا حلیہ تو پوری طرح بگڑ چکا ہے، آپ ایسا کریں میرے ساتھ قلعے میں چلیں اور وہاں یہ سب دھو لینا۔‘‘ مائری نے کہا کہ وہ اسے گھر میں بھی دھو سکتی ہیں۔ ڈریٹن نے لپک کر مائری کو بازو سے پکڑا اور چلایا۔ ’’میں کہہ رہا ہوں چلو میرے ساتھ۔‘‘ وہ مائری کو گھسیٹنے لگا تو ان کے منھ سے کراہیں نکل گئیں۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔ ڈریٹن نے انھیں بہت تکلیف دی۔ گھسٹتے ہوئے ان کا پورا وجود ہل کر رہ گیا تھا۔ ایسا ان کی زندگی میں کبھی ان کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا۔ ’’مت گھسیٹو مجھے، رک جاؤ پلیز۔‘‘ وہ روناسی ہو کر بولیں۔ لیکن ڈریٹن غصے سے غرایا: ’’منھ بند کرو اپنا، ایک تو تم عورتیں ہر وقت شکایتیں کرتی رہتی ہو، رونا دھونا ختم نہیں ہوتا تم لوگوں کا۔ اب اگر تم نے منھ سے آواز نکالی تو جھیل کے اندر پھینک دوں گا۔‘‘

    (جاری ہے….)

  • ایک سو بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشہ اقساط پڑھیں

    فیونا نے پوچھا کہ یہ کب سے یہاں پڑا ہوا ہے؟ جیزے نے جواب دیا کہ بس آدھا گھنٹا ہی ہوا ہوگا۔ جیزے اس بات پر حیران ہو رہا تھا کہ ڈریٹن اسٹیلے نے آخر بالیاں کیوں پہنی ہوئی ہیں، بالیاں تو عورتیں پہنتی تھیں۔ اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی مرد کو بالیاں پہنے نہیں دیکھا تھا۔ فیونا نے مسکرا کر بتایا کہ اب دنیا بدل چکی ہے، مرد بھی بالیاں پہنتے ہیں اور کسی کسی کے ساتھ تو بالیاں اچھی لگتی ہیں لیکن اس ڈریٹن کے ساتھ بالکل نہیں، یہ تو ایک درندے کی طرح لگتا ہے۔

    جب وہ سب چائے نوش کر رہے تھے تو ایسے میں ڈریٹن دھیرے دھیرے ہوش میں آ گیا۔ اسے سر میں درد محسوس ہونے لگا جہاں جیزے کی زبردست ٹھوکر لگی تھی۔ اس نے دیکھا کہ فیونا اور دوسرے لوگ بیٹھے چائے کے گھونٹ بھر رہے ہیں اور ان کے درمیان گپ شپ چل رہی ہے۔ وہ ڈریٹن سے بالکل غافل ہو چکے تھے، ایسے میں ڈریٹن کو محسوس ہوا کہ نشہ اترنے کے بعد اس کی طاقتیں واپس آ گئی ہیں۔ اس نے سوچا کہ اب یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے۔ اس نے جادو کے زور سے خود کو چھوٹا کر دیا، اور اتنا سکڑ گیا کہ رسیوں سے بہ آسانی نکل آیا۔ اس نے خود کو ایک چوہے کے سائز جتنا بنا دیا تھا، اس کے باوجود وہ ڈر ڈر کر دروازے کی طرف بڑھنے لگا اور بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتا رہا۔ دروازے پر پہنچ کر وہ اس کے نیچے آسانی سے رینگ کر باہر نکل گیا۔ عین اسی وقت جیفری اور اینگس اپنے سفر سے واپس پہنچے تھے، ڈریٹن فورا وہاں پڑی دودھ کی بوتل کے پیچھے چھپ گیا۔ وہ دونوں اسے نہ دیکھ سکے۔ جیسے وہ اندر چلے گئے ڈریٹن اپنے نارمل سائز میں آ گیا اور محل کی جانب سے تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔
    جیفری اور اینگس بھی چائے کے ساتھ دیگر لوازمات سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ایسے میں جیزے نے اینگس سے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ڈریٹن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
    انکل اینگس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا تو وہاں کسی کو نہ پایا۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’آپ کس بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ مجھے تو ڈریٹن نظر نہیں آیا۔‘‘
    جیزے نے یہ سن کر پیچھے دیکھا اور اچھل پڑا۔ ’’ارے، ڈریٹن کہاں چلا گیا؟ میں نے تو اسے رسیوں کے ساتھ مضبوطبی سے باندھا تھا، اس نے کیسے چھڑایا خود کو؟‘‘ جیک نے کہا کہ اس نے تو دروازہ کھلنے کی آواز بھی نہیں سنی۔ فیونا نے کہا: ’’میں جانتی ہوں کہ اس نے یہ کیسے کیا، وہ سکڑ کر دروازے کے نیچے سے باہر گیا ہے۔‘‘
    جونی نے اہم بات کی: ’’یہ بات تو صاف ہو گئی ہے کہ ڈریٹن جادوئی گولے اور کتابوں کے لیے اتنی بری طرح سے تڑپ رہا ہے کہ ان کے حصول کے لیے کوئی بھی غیر معقول کام کرنے سے نہیں کتراتا۔ اس لیے ہم اب اور بھی زیادہ احتیاط کرنی ہوگی اور دیگر قیمتی پتھروں کے حصول کو بھی تیز تر کرنا ہوگا۔‘‘
    فیونا کرسی سے اٹھ کر جیفری کے پاس گئی اور سخت ناراضی والے لہجے میں اسے مخاطب کیا: ’’گلیشیئر میں ہماری ملاقات کرسٹل سے ہوئی تھی۔ یاد ہے نا آپ کو وہ۔ شکر ہے کہ اب وہ آزاد ہے لیکن آپ آخر کیسے اتنے طویل عرصے کے لیے اسے گلیشیئر کے اندر رہنے پر مجبور کر سکتے ہیں؟ وہ گلیشیئر تو ویسے بھی تقریباً ٹوٹنے والا تھا اور ایسا ہوتا تو کرسٹل آزاد ہو جاتی اور زمرد بھی کھو جاتا۔‘‘
    جیفری یہ سن کر چونک اٹھا: ’’اوہ تو آپ کرسٹل سے ملے۔ مجھے افسوس ہے کہ اس بات کا مجھے خیال تک نہ آیا کہ وہ اس پر ناخوش ہوگی۔‘‘ اس نے اپنی بھوری آنکھیں فیونا پر جما کر کہا: ’’یہ بہت پرانی بات ہے، لیکن مجھے افسوس ہے اس پر اور میں معذرت خواہ ہوں اس کے لیے۔‘‘
    جونی نے مداخلت کی اور کہا کہ جبران اور دانیال کو لانے کا وقت ہے تاکہ اگلے قیمتی پتھر کے لیے جایا جا سکے۔ اس کے بعد وہ مائری اور فیونا کو لے کر اینگس کے گھر سے نکل گیا۔ وہ جبران کے گھر پہنچے تو مائری نے شاہانہ اور بلال سے درخواست کی کہ وہ جبران اور دانیال کو اینگس کے ہاں کچھ دیر کے لیے لے جانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مہمانوں کو چائے کی پیش کش کی لیکن وہ جلدی میں تھے، جبران اور دانیال کو لے کر واپس ہو لیے۔ بلال نے جونی سے کہا کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ آئے تاکہ شکار پر نکلیں۔ بلال نے کہا کہ وہ انھیں بندوق کے ساتھ بطخ کا شکار سکھائیں گے، اور ہو سکتا ہے کہ ہرن، خرگوش اور تیتر بھی ہاتھ آ سکیں۔ جونی نے بھی جلدی میں ہامی بھر لی۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو اکیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکیاسی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن کی آنکھ کھلی تو اسے کچھ دیر تک یاد ہی نہ آیا کہ وہ ہے کہاں پر۔ وہ قلعے کے ٹھنڈے فرش پر لیٹ کر سو گیا تھا، جس کی وجہ سے اس کی پیٹھ پر سرخ نشان پڑ گیا تھا، وہ پیٹھ کھجاتے ہوئے باہر نکلا تو بارش کی وجہ سے ہر طرف کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔ جھیل پر آکر وہ کشتی میں دوسری طرف اتر گیا، اچانک اسے یاد آیا کہ اسے یہ کشتی تلاش کرتے ہوئے کتنی زحمت اٹھانی پڑی تھی، اسے یہ کشتی ایک جھاڑی سے ملی۔ اس نے سوچا کہ کشتی کو ایسی جگہ چھپانی ہوگی کہ کوئی اور نہ ڈھونڈ سکے، یہ سوچ کر اس نے کشتی کو کھینچ کر ایک غار میں چھپا دیا۔
    اسے بھوک لگی تھی اس لیے وہ گاؤں کے بالکل باہر ایک چھوٹے سے کیفے میں جا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ اپنے آرڈر کا انتظار کر رہا تھا تو کیفے میں دو چھتریاں اندر داخل ہوئیں۔ چھتریاں بند ہوئیں تو ڈریٹن نے ویٹرس کو سنا۔ وہ ان دونوں سے کہہ رہی تھی: ’’جون! سوسن! آپ ایڈنبرا سے واپس آ گئے، جنازے میں شرکت ہوئی؟‘‘ انھوں نے جواب میں کہا کہ جنازے پر تو پہنچے تھے تاہم جب واپس گھر آئے تو گھر کی حالت ناقابل یقین حد تک تباہ دیکھی۔ ہمارے گھر میں کوئی شیطان گھس گیا تھا جس نے سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا تھا، اس شیطان نے ہمارے کپڑے بھی چرائے۔ ڈریٹن اپنی شرمناک کارکردگی سن کر دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ ویٹرس نے جون اور سوسن کو بتایا کہ کسی نے مائری مک ایلسٹر کے گھر کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔
    ڈریٹن نے پہنے ہوئے کپڑوں کی طرف دیکھا اور پریشان ہو گیا کہ اگر انھوں نے پلٹ کر دیکھا اور کپڑے پہچان لیے تو مسئلہ ہو جائے گا۔ وہ دبک کر تب تک بیٹھا رہا جب تک جون اور سوسن اٹھ کر نہ چلے گئے۔ اس کے بعد وہ تیزی سے اٹھا اور بل دیے بغیر نکل گیا۔ ویٹرس اس کے پیچھے آوازیں دیتی رہ گئی۔ اس کے بعد وہ شہر کی طرف نکل کر ادھر ادھر گھومتا رہا، اس نے ایک دکان سے نیا کوٹ بھی خریدا اور سوسن کے گھر سے اٹھایا ہوا کوٹ پھینک دیا۔ ہلکی بارش اب بھی برس رہی تھی، اس کے دماغ پر پہلان جادوگر اور بھیڑیوں کے حملے کا خیال اب بھی طاری تھا اور اسے وہ درد ابھی محسوس ہو رہا تھا۔ یکایک اس نے فیونا کے خلاف شدید نفرت محسوس کی، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جادوئی گولہ چھین لے گا اب ان سے، اور پہلان جائے بھاڑ میں۔
    وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، اور وہاں پہنچ کر اس نے دروازہ کو لات مار کر کہا: ’’کھولو دروازہ، احمقو، مجھے جادوئی گولہ چاہیے، اور مجھے وہ سب کتابیں بھی چاہیئں، میں تم سب کو مار دوں گا۔‘‘
    جیزے کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا، اس نے کتاب نیچے رکھ دی اور جا کر دروازہ کھول کر کہا: ’’تم نشے میں ہو، جاؤ گھر چلے جاؤ۔‘‘
    لیکن ڈریٹن نے اسے دھکا دے کر نیچے گرا دیا: ’’ہٹ جاؤ میرے راستے سے، مجھے یہ گیند ابھی کہ ابھی چاہیے۔‘‘ وہ اینگس کے گھر میں داخل ہوا اور میز پر گیند اور کتابیں دیکھ کر خوش ہو گیا۔ لیکن پیچھے سے جیزے نے اس کی گردن پر کہنی کا ایک زور دار وار کر کے اسے فرش پر گرا دیا۔ اس کے کانوں سے جیزے کی آواز ٹکرائی: ’’تم نے پہلے بھی مجھ پر وار کیا تھا لیکن اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا لڑکے۔‘‘
    ڈریٹن واقعی نشے میں تھا، اور لڑائی کے قابل نہیں تھا۔ جیزے نے اس کے سر پر ٹھوکر مار کر اسے بے ہوش کر دیا۔ پھر گھر میں رسی تلاش کر کے ڈریٹن کو اس سے اس طرح باندھ دیا کہ وہ جنبش بھی نہ کر سکے۔ جب وہ واپس بیٹھ کر کتاب پڑھنے لگا تو فیونا اور باقی بھی پہنچ گئے۔ وہ ڈریٹن کو بندھے دیکھ کر حیران ہوئے۔
    (جاری ہے)
  • تنہا کرنے کی امریکی یورپی کوششیں ناکام، اسرائیل حماس جنگ کا ایجنڈا لے کر روسی صدر کا بڑا قدم

    تنہا کرنے کی امریکی یورپی کوششیں ناکام، اسرائیل حماس جنگ کا ایجنڈا لے کر روسی صدر کا بڑا قدم

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے تنہا کرنے کی امریکی اور یورپی کوششیں ناکام بناتے ہوئے اسرائیل حماس جنگ اور تیل کا ایجنڈا لے کر ایک نہایت غیر معمولی غیر ملکی دورے پر نکلنے کا قصد کر لیا ہے۔

    روسی صدر پیوٹن آج بدھ کے روز ایک غیر معمولی غیر ملکی دورے پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پہنچنے والے ہیں، جس کا مقصد تیل کے شعبے میں تعاون کو تقویت دینا اور امریکا اور یورپ کی جانب سے انھیں تنہا کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنا ہے۔

    کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے گزشتہ روز منگل کو کہا تھا کہ دو طرفہ بات چیت میں غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ اور تیل کی منڈی میں تعاون پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

    اگرچہ یورپ اور امریکا نے یوکرین کے ذریعے روس کو مشرقی یورپ میں پھنسا دیا ہے، اور اس پر ’جارحیت‘ کے لیے عالمی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں لیکن روس کا واضح مؤقف ہے کہ یوکرین معاملہ اس کی سلامتی کا معاملہ ہے، اور اس نے واشنگٹن کے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کی نوعیت کو مسترد کرتے ہوئے ایک طرف شمالی ایشیا میں چین اور نارتھ کوریا کے ساتھ اور دوسری طرف خلیج اور مشرق وسطیٰ میں یو اے ای اور سعودی عرب جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے پر استوار کرنے کا تاریخی قدم اٹھایا۔

    پیوٹن خلیج اور مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو تقویت دینے کی مہم کے ذریعے ماسکو کو تنہا کرنے کی مغربی کوششوں کو ناکام بنا رہے ہیں، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے مارچ میں پیوٹن پر یوکرینی بچوں کو ملک بدر کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے تھے، جس کے بعد روسی رہنما نے زیادہ بین الاقوامی دورے نہیں کیے۔ آئی سی سی کے معاہدے پر نہ تو متحدہ عرب امارات اور نہ ہی سعودی عرب نے دستخط کیے ہیں، اس لیے اگر ولادیمیر پیوٹن ان کے علاقوں میں داخل ہوتے ہیں تو ان ممالک کو انھیں گرفتار نہیں کرنا پڑے گا۔

    ایک طرف روس نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان پر کہ ’’واشنگٹن کو ایک نئے عالمی نظام میں محرک قوت ہونا چاہیے‘‘ شدید تنقید کی اور یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’’اس طرح کا امریکی مرکوز ورژن پرانا ہو چکا ہے‘‘ دوسری طرف نئے عالمی نظام کی ضرورت پر اتفاق کرتے ہوئے یہ کہا کہ ’’عالمی حکمرانی کے کسی بھی میکانزم کو کسی ایک ریاست کے ہاتھوں میں مرکوز نہیں ہونا چاہیے، بلکہ آزاد ہونا چاہیے۔‘‘ نئے عالمی نظام کو لے کر ولادیمیر پیوٹن کی سوچ بالکل واضح دکھائی دے رہی ہے، وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مقابل ایک نئے عالمی بلاک کی تشکیل کر رہے ہیں، جس کے خال و خد تیزی سے واضح ہوتے جا رہے ہیں۔

    اس خال و خد کو ہم ایک طرف پیوٹن کے چین کے دورے اور شمالی کوریا کے کم جونگ اُن جیسے ’تنہائی پسند‘ رہنما کے روسی دورے میں دیکھ سکتے ہیں، شمالی ایشیا کی یہ دونوں قوتیں امریکا کے ساتھ تناؤ سے بھرے تعلق کو لے کر ڈٹی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف روسی صدر مشرق وسطیٰ میں ایک اہم ثالثی کردار کے ساتھ عالمی منظرنامے پر نمودار ہو رہے ہیں۔ جہاں تمام مشرق وسطیٰ اس وقت غزہ میں نیتن یاہو کی صہیونی ریاست کی وحشیانہ کارروائیوں کو مستقل طور پر روکنے کی جدوجہد میں مصروف ہے، لیکن امریکا اور چند یورپی ممالک کی خاموش شہ پر خونی صہیونی وزیر اعظم حماس کے خاتمے کے دعوے کی آڑ میں غزہ کو کھنڈر بنا کر اسے فلسطینیوں سے بالکل خالی کرنے کے گھناؤنے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

    ولادیمیر پیوٹن نے اکتوبر میں اسرائیل اور دنیا کو فلسطینیوں کے ناقابل یقین اور ناقابل قبول قتل عام سے خبردار کیا تھا، انھوں نے زمینی فوج کی جانب سے غزہ کا محاصرہ لینن گراڈ (سینٹ پیٹرزبرگ) کے محاصرے سے مشابہ قرار دیا جب نازی جرمنی نے تقریباً 900 دنوں تک مسلسل حملے میں تقریباً 10 لاکھ روسیوں کو ہلاک کیا تھا۔ انھوں نے اس موقع پر نہ صرف فوری طور مشرق وسطیٰ میں مذاکرات کا مطالبہ کیا بلکہ ثالثی کی پیش کش بھی کی۔ پیوٹن نے کہا ’’اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کی کلید ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔‘‘

    پیوٹن نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا، بے رحم صہیونی فورسز نے اسے حقیقت میں بدل دیا، اور دہ ماہ کے قلیل عرصے میں 15 ہزار سے زائد جانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا، جس میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ ولادیمیر پیوٹن نے اس ’’نام نہاد جنگ‘‘ کو امریکی سفارت کاری کی ناکامی قرار دیا۔ ان کا یہ مؤقف ہے کہ واشنگٹن نے فلسطینیوں کے لیے معاشی ’’خیرات‘‘ کا انتخاب کیا اور فلسطینی ریاست کے قیام میں مدد کی کوششوں کو ترک کر دیا۔ جہاں تک ثالثی کے کردار کا تعلق ہے تو بلاشبہ ماسکو اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی وجہ سے ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے، اور کوئی بھی ماسکو پر ایک فریق کی طرف جھکاؤ کا شک نہیں کر سکتا۔

    اب روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن آج سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ایک روزہ دورے پر ابوظبی پہنچ گئے ہیں، جس میں وہ پہلے امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان اور ریاض میں سعودی ولئ عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ اہم ملاقاتیں کریں گے۔

    پیوٹن ماضی کی نسبت اب مشرق وسطیٰ میں زیادہ بااثر کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، اسرائیل حماس جنگ ہو یا تیل کی پیداوار، دونوں ایسے نازک معاملات ہیں جن سے پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ اوپیک نے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کر کے پہلے ہی امریکا سمیت باقی دنیا کو تیل کی بڑھتی قیمتوں کے سلسلے میں ’پریشان‘ کر رکھا ہے، ایسے میں عالمی پابندیوں کے بیچ میں سے سہولت کے ساتھ گزرتے ہوئے روسی صدر کی آمد امریکا و اتحادیوں کے پسندیدہ ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کے لیے دھچکے سے کم نہیں ہے۔

    لطف کی ایک اور بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دورے کے اگلے ہی دن ولادیمیر پیوٹن ماسکو میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی میزبانی کریں گے۔ یعنی اسرائیل حماس جنگ اور مغربی ایشیا کے دیگر تزویراتی مسائل کے تناظر میں بھی ماسکو امریکا کے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے متوازی ایک عالمی سیاسی و معاشی نظام کے خال و خد کی تشکیل کے لیے ان دنوں پوری طرح متحرک ہیں، وہ نظام جس میں ماسکو چاہتا ہے کہ ہر ملک کی سلامتی یقینی ہو۔

  • ایک سو اسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اسّی ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    مائری مک ایلسٹر کی آنکھ کھلی تو بارش برس رہی تھی، وہ بستر سے اٹھیں اور کھڑکی پر سے پردے ہٹا دیے۔ انھوں نے جیسے ہی کھڑکی کھولی بارش سے بھیگی مٹی کی خوش بو کمرے میں بھر گئی۔ نہانے سے قبل انھوں نے کچن میں جا کر چائے کے لیے پانی چڑھایا، اور کمرے میں جھانک کر دیکھا تو جونی سو رہا تھا۔ مائری نے سوچا کہ آج جونی کو خریداری کے لیے لے جاؤں گی تو سیکڑوں سال قدیم یہ آدمی یہ دیکھ کر حیران ہوگا کہ آج جدید دور میں ان کے اختیار میں کیا کیا آ چکا ہے۔
    فیونا اوپر سے نیچے آئی تو ناشتے کا پوچھنے لگی، مائری نے کہا ناشتے میں آج پین کیک اور روغنی میٹھی ٹکیا ویفلز ملیں گے، وہ سن کر خوش ہو گئی لیکن بارش دیکھ کر ہمیشہ کی طرح پریشان ہو کر منھ بنانے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ جونی اور جیزے کے ساتھ ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے۔ ان قدیم آدمیوں کے لیے ناشتے کی چیزیں بالکل نئی تھیں، انھوں نے حیرت سے لیکن مزے لے کر ناشتہ کیا۔
    ایک گھنٹے کے بعد وہ اینگس کے دروازے پر کھڑے تھے۔ انکل اینگس اور جیفری کرینلارچ کے لیے ٹرین پکڑنے روانہ ہو چکے تھے۔ جیزے کو ابھی تک طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی اس لیے وہ جاتے ہی بستر پر گر گیا۔ فیونا، جونی، جمی اور جیک کو لے کر مائری شاپنگ کے لیے شہر میں نکل گئیں۔ موسم خاصا سرد تھا تو وہ اونی مصنوعات کی ایک دکان میں گھس گئے جہاں جمی کو اپنی آنکھوں سے میل کھاتا گہرے بھورے رنگ کا ایک اونی جمپر پسند آ گیا۔ جمی نے انھیں بتایا کہ بورل میں انھوں نے ایسے کپڑوں کے بارے میں سوچا بھی نہ تھا، وہاں تو وہ بس ایک لمبا ڈھیلا سفید رنگ کا چغہ پہنتے تھے اور پاؤں میں سینڈل۔ جمی نے وہ جمپر پہنا تو فیونا سے مسکراتے ہوئے پوچھ بیٹھا: ’’کیا میں اب برطانوی لگ رہا ہوں؟‘‘ فیونا زور سے ہنسی اور اثبات میں سر ہلا دیا، اس نے پرجوش ہو کر کہا ’’کیا آپ مجھے بوریل کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟ میں جانتی ہوں کہ یہ جزیرہ نمائے عرب پر واقع ہے جہاں اب یمن ہے۔‘‘

    جمی نے گھور کر دیکھا اور کہا کہ یہ ایسی باتیں پوچھنے کی جگہ نہیں ہے، کل اگر یاد دلاؤ گی تو کچھ باتیں بتا دوں گا۔ اس کے بعد سب نے اپنے لیے جمپر پسند کیا اور مائری نے پیسے ادا کر دیے، وہ جمپر پہن کر ہی دکان سے نکلے۔ ان قدیم آدمیوں کے لیے شہر کی ہر چیز حیرت میں مبتلا کر دینے والی تھی، گاڑیاں، ریل گاڑی اور ہر وہ جدید چیز جس کے ذریعے آج کے دور کے انسان نے اپنے لیے زندگی میں بے پناہ آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ شاپنگ کے بعد وہ دوپہر کے کھانے کے لیے دی ہاگز ہیڈ اِن میں داخل ہو گئے۔ کرسیوں پر بیٹھنے سے قبل انھوں نے اپنی چھتریاں جھٹک دیں اور کرسی کے ایک طرف ٹکا کر زمین پر رکھ دیں۔ کچن سے آتی بھنے ہوئے گائے کے گوشت، پیاز اور آلوؤں کی مہک نے ان کی بھوک بڑھا دی تھی۔ کھانا کھا کر وہ پھر اینگس کے گھر پہنچ گئے۔

    (جاری ہے)
  • ایک سو انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انہتر ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈوبتے سورج کی شعاعیں مک ایلسٹر کی کھڑکی سے اندر داخل ہوئیں تو ڈریٹن اس وقت ایک بار پھر گندگی پھیلانے میں جُتا ہوا تھا۔ وہ مکمل طور پر ایک بیمار ذہنیت والا نوجوان تھا، ہمیشہ غلط کام کر کے ہی خوش ہوتا تھا۔ اس وقت وہ فرش پر بکھری خوراک کی اشیا پر چل پھر کر بیڈ روم میں داخل ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ مزید اس گھر میں نہیں رہے گا۔ وجہ ان چیزوں کی بد بو بھی جو اس نے پورے گھر میں پھیلا دی تھیں۔ الماری کے سب سے اوپری تختے پر اس نے جب کئی سلیپنگ بیگ دیکھے تو ان میں سے ایک کھینچ پر اس نے نکال لیا اور باقی فرش ہی پر پھینک دیے۔ اسے لٹکے ہوئے کپڑوں کے پیچھے ایک سوٹ کیس نظر آیا تو ہینگ سے نہایت بدتمیزی سے کپڑے کھینچ کر پھینک دیے اور پیچھے پڑا سوٹ کیس نکال لیا۔ اس کے بعد کپڑوں کی تمام الماریاں کھول کر ان میں سے مردانہ کپڑے نکالے اور سوٹ کیس میں ٹھونس دیے۔ ایک اور بیگ کو خوراک کی چیزوں سے بھرا جو ابھی تک اس نے ضائع نہیں کی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت اس نے آئینے میں خود کو دیکھا، اس کے گلے میں لٹکنے والے ستارے کے چار کونے روشن تھے۔ اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ پھیلی۔ ’’آٹھ رہ گئے ہیں۔‘‘ وہ بڑبڑایا۔

    جب وہ قلعہ آذر کے محرابی دروازے پر پہنچا تو سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرے نے آسمان کو ڈھانپ لیا تھا۔ وہ مرکزی دروازے سے اندر گیا اور فرش پر دونوں بیگ پھینکے پھر سوچنے لگا کہ اسے سلیپنگ بیگ کہاں رکھنا چاہیے۔ سونے کے دوران اسے تازہ ہوا کی ضرورت تھی اس لیے اس نے دروازے ہی کے قریب سونے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے سلیپنگ بیگ پھیلایا اور کھانے کی چیزیں نکال کر کھانے لگا، پھر ایک آواز بلند کی: ’’پہلان… میں یہاں ہوں، آؤ اور مجھے کچھ سکھاؤ۔‘‘
    اسے جواب میں دوسرے کمرے سے ایک آواز سنائی دی، وہ پہلان کو پکارتا وہاں گیا تو پہلان کو بھیڑیوں کے ایک غول کے درمیان پایا۔ ’’یہ تو بالکل اصلی بھیڑیوں کی طرح نظر آ رہے ہیں۔‘‘ ڈریٹن نے ان کے تیز دانت اور رال ٹپکاتے منھ دیکھ کر کہا۔
    پہلان کی سرد اور سرسراتی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی: ’’بے وقوف، یہ اصلی ہی ہیں۔ میں انھیں حکم دے سکتا ہوں، اور یہ لمحوں میں تمھارا گلا دبوچ کر چیر پھاڑ سکتے ہیں۔ یہ میرے دوست ہیں!‘‘
    ڈریٹن نے ہاتھ بے اختیار اپنے گلے پر پھیرا: ’’میں سمجھا تھا کہ تم مجھے اس وقت یہاں دیکھنا چاہو گے تاکہ مجھے کچھ جادو منتر سکھا سکو۔‘‘
    ’’ہاں، میں تمھیں سکھانا چاہتا ہوں۔‘‘ پہلان کی خوف زدہ کر دینے والی آواز ابھری: ’’میں جو تمھیں سکھانا چاہتا ہوں اسے کہتے ہیں خوف۔ میں چاہتا ہوں کہ تمھیں بتا دوں کہ تم نے خود کو کتنے خطرناک کام میں الجھا لیا ہے۔ تم شاید سوچ رہے ہو کہ یہ کوئی کھیل ہے جس میں تم چند بچوں اور چند قدیم آدمیوں کے مقابلے پر نکلے ہو۔ لیکن میں تمھیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔‘‘
    اچانک بھیڑیوں نے حرکت کی اور ڈریٹن کے گرد پھیل گئے۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ وہ بھیڑیوں کے دائرے میں قید ہونے لگا ہے۔ خوف کی ایک لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ وہ لرزتی آواز میں بولا: ’’یہ … یہ بھیڑیے کیا کر رہے ہیں؟ انھیں مجھ سے دور کرو۔‘‘
    پہلان خاموشی سے دیکھتا رہا یہاں تک کہ بھیڑیوں نے اس کے گرد اپنا گھیرا مکمل کر لیا۔ تب اس نے پوچھا: ’’کیا تم خوف محسوس کر رہے ہو؟‘‘
    ڈریٹن کے حلق سے ڈری ڈری آواز نکلی: ’’مجھے یہ مذاق پسند نہیں۔‘‘
    پھیڑیوں نے اپنا گھیرا تنگ کر دیا۔ ڈریٹن نے دیکھا کہ بھیڑیے اس کے قریب ہو گئے اور ان کے گلوں سے نکلتی دہشت ناک غراہٹ دل و دماغ پر ہیب طاری کر رہی ہے۔
    ’’تو تم خوف زدہ ہو گئے ہو؟‘‘ پہلان نے ہوا میں ہاتھ بلند کر کے کہا۔ اور اگلے لمحے بھیڑیے ڈریٹن پر جھپٹ پڑے۔ ایک نے اس کی ٹانگ منھ میں دبائی، دوسرے نے ہاتھ کو اور ایک نے اس کے گلے پر جھپٹ کر اپنے نوکیلے دانت گاڑ دیے۔
    ڈریٹن کے حلق سے دل دوز چیخیں بلند ہونے لگیں اور قلعے میں گونج کر رہ گئیں۔ وہ فرش پر گر پڑا تھا اور بھوکے بھیڑیے اسے چیر پھاڑ رہے تھے۔ اس کے حلق سے نکلنے والی چیخوں میں شیطان جادوگر کے قہقہے بھی شامل ہو گئے تھے۔ یکایک جادوگر نے اپنے قہقہے روک لیے اور پھر ایک لمحے کی بات تھی، جب ڈریٹن اچانک کھڑا ہو گیا۔
    ’’مم … میں زندہ ہوں۔‘‘ وہ خوشی سے پاگلوں کی طرح اپنے جسم پر ہاتھ پھیر پھیر کر دیکھنے لگا۔ اسے بدن پر زخم کا کوئی نشان دکھائی نہیں دیا۔ ’’مجھ پر تو بھیڑیوں نے حملہ کیا تھا۔‘‘ اس نے بے یقینی سے کہا لیکن جادوگر پہلان نے کہا: ’’بے وقوف ڈریٹن، اپنے آس پاس دیکھو، کیا یہاں کوئی بھیڑیا نظر آ رہا ہے؟‘‘
    وہاں سچ مچ بھیڑیوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ڈریٹن خوف زدہ بھی تھا اور حیران بھی۔ اسے اچھی طرح محسوس ہوا تھا کہ بھیڑیوں نے اس کا گلا کاٹ لیا ہے اور اسے اب بھی درد محسوس ہو رہا تھا۔ پہلان نے قہقہہ لگا کر اسے بتایا کہ یہ سب اس کے جادو کا کرشمہ تھا۔ پہلان نے جادو کے ذریعے اسے درد محسوس کرایا تھا اور کہا کہ جب وہ بھی کسی کے ساتھ ایسا کر سکے گا تو تب بڑا جادوگر کہلائے گا۔
    پہلان بولا: ’’تم صرف چند کرتب ہی دکھا سکتے ہو، اس کے علاوہ تمھاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جب تک تمام قیمتی پتھروں کے ساتھ وہ جادوئی گیند ہمارے ہاتھ نہیں آتا، تب تک میں تمھاری کچھ مدد نہیں کر سکتا۔ گولہ ہمارے قبضے میں آئے گا تو میں بڑے بڑے جادو تمھیں سکھا دوں گا۔ اس وقت تک تم مجھے بار بار پکار کر صرف اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ جب کہ میں تمھیں بتا چکا ہوں کہ ہر قیمتی پتھر کے ساتھ تمھیں کوئی نہ کوئی طاقت ملتی رہے گی۔ تم بس اسے استعمال کرنا سیکھو۔‘‘
    وہ کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہوا پھر بولا: ’’غور سے سنو میری بات، تم ایک نہایت بے وقوف لڑکے ہو۔ گھروں کا آگ لگانا چھوڑ دو اور نہ ہی بچوں کی طرح ہر جگہ اپنے جادوئی کرتبوں کا مظاہرہ کرو۔ آج کے بعد سے تم مجھے اس وقت تک نہیں دیکھ سکو گے جب تک میں یہ دیکھ نہ لوں کہ تم سننے کے لیے تیار ہو۔‘‘
    یہ کہہ کر جادوگر پہلان ایک سفید شعلے کی صورت چمکا اور غائب ہو گیا۔ ڈریٹن نے اس کے جاتے ہی سکون کی ایک لمبی سانس لی اور سلیپنگ بیگ کے اندر لیٹ گیا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ خوف ناک بھیڑیے اس کی طرف دیکھتے ہوئے غرا رہے ہیں۔
    (جاری ہے)