Author: رفیع اللہ میاں

  • غزہ کا الشفا اسپتال اسرائیلی فوج کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟

    غزہ کا الشفا اسپتال اسرائیلی فوج کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟

    7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد جب سے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے حملے شروع ہوئے ہیں، محصور شہر کے شمالی حصے میں واقع الشفا اسپتال کا نام خبروں میں نمایاں طور پر سامنے آ رہا ہے۔

    بالخصوص گزشتہ 5 دنوں سے غزہ کے حوالے سے سب سے اہم خبر الشفا اسپتال سے متعلق خبر رہی ہے، کیوں کہ غزہ کے لیے وہ لائف لائن کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، جہاں نہ صرف زخمیوں کا علاج ہو رہا تھا بلکہ پناہ گزینوں کو بھی بڑی تعداد میں ’چھت‘ میسر آ گئی تھی۔

    جب اس اسپتال کے اندر سے مردہ اور معذور بچوں کی تصاویر پوری دنیا میں نشر کی گئیں، تو اس نے لاکھوں لوگوں کو فلسطینیوں کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ فلسطینیوں کو بھی اس سے طاقت ملی، اور ان کے لیے یہ اسپتال طاقت کی علامت بن گیا اور ایک عسکری طور پر ایسی مضبوط قوت (اسرائیل) کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا جو بہت کم تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔

    الجزیرہ کے مطابق اسپتال میں سفاکانہ مناظر منظر عام پر آئے، صہیونی فورسز کے اسنائپرز نے ایک طبی عمارت سے دوسری عمارت میں جانے کی کوشش کرنے والے فلسطینی شہریوں کو بے دریغ گولیاں ماریں، اور اس درندگی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف ایک شور اٹھا، وہ شور جس پر صہیونی سرکار نے کان بند کر لیے ہیں۔

    الشفا اسپتال کی اہمیت

    فلسطینیوں کے لیے اب الشفا اسپتال کی اہمیت طبی مرکز سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے، کئی منزلہ اس میڈیکل کمپلیکس کو غزہ کا دھڑکتا دل قرار دیا گیا ہے۔

    جب فلسطین پر برطانوی حکومت تھی یہ اسپتال اس وقت سے موجود ہے، یہ دراصل برطانوی فوجی بیرک تھا جس میں فوجی رہائش پذیر تھے، اور 1946 میں یہ ایک اسپتال بن گیا۔ اس نے کئی جنگیں سہیں اور اسرائیلی قبضے کے کئی برس بھی اس نے دیکھے لیکن یہ اسی طرح قائم رہا۔

    پچھلے ایک مہینے سے اسے ادویات اور ایندھن کی فوری ضرورت تھی لیکن اسرائیل نے اسے ممکن نہیں ہونے دیا، اور پھر اسرائیلی فوجیوں نے اندر گھس کر ادویات کے رہے سہے ذخیرے کو بھی اڑا دیا۔ اسپتال میں اتنی لاشیں پڑی تھیں کہ اسپتال کے عملے کو درجنوں لاشوں کو اجتماعی قبر میں دفن کرنا پڑا، ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔

    غزہ شہادتیں: اپنے ہی صحافیوں کا بی بی سی پر جانب داری کا الزام

    اس کے علاوہ الشفا اسپتال غزہ حکومت کے انتظامی اداروں کے لیے بھی ایک کنٹرول سینٹر کی مانند ہے، وزارت صحت کے حکام نے وہاں لاشوں کے درمیان پریس کانفرنسیں کیں، اور حکومت کی وزارت اطلاعات بھی اسی اسپتال سے کام کرتی رہی۔

    جب غزہ کے باقی حصوں کے رابطے اسرائیل نے منقطع کر دیے تھے، تب ایسے میں الشفا نے اپنے انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کو برقرار رکھا، اس لیے یہ صحافیوں کے لیے بھی ایک اہم ترین مقام رہا، جن میں سے کچھ صحافی اب بھی وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں سے اسپتال کے ڈائریکٹر اور دیگر ڈاکٹرز اور عملہ جب بھی ممکن ہوا، مسلسل اپ ڈیٹ فراہم کرتے رہے ہیں۔

    صہیونی فورسز کا اسپتال پر قبضہ

    پندرہ نومبر کو صہیونی فورسز الشفا اسپتال میں چھاپا مارتے ہوئے داخل ہوئے اور ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی، اسرائیل کہہ چکا ہے کہ وہ مستقبل میں غزہ کی سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالنا چاہتا ہے (اگرچہ امریکا چاہتا ہے کہ یہ ذمہ داری نئی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہی ہو)، اس لیے زمینی آپریشن کو وسعت دینے کے لیے شہر کے اس مرکزی اسپتال کو سنبھالنا ضروری تھا۔

    جس طرح الشفا اسپتال نے فلسطینیوں اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے مزاحمت کے نئے معنی فراہم کیے ہیں، اسی طرح اسپتال میں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ اسرائیل کے لیے بھی اہم بن گیا ہے، چناں اس نے بے رحمانہ طور پر اسپتال کے پاس بمباری کی اور پھر اس میں داخل ہو کر اس پر قبضہ کر لیا۔

    اپنے بیانات میں صہیونی فورسز نے پروپیگنڈا کیا کہ اسپتال کو حماس اپنی عسکری اور انتظامی صلاحیتوں کے گڑھ کے طور استعمال کر رہا ہے، تاہم حماس اور وزارت صحت کی جانب سے مسلسل اس بے بنیاد الزامات کی تردید کی گئی، اور فوجیوں کو اسپتال سے کوئی اسلحہ نہیں ملا۔

    فلسطینی وزارت خارجہ نے الشفا کے بارے میں اسرائیل کی ’گمراہ کن من گھڑت سازشوں‘ کے خلاف بھی خبردار کیا، جہاں ہزاروں افراد نے پناہ لے رکھی تھی، اور صہیونی فورسز نے ان بے آسرا لوگوں کو اسپتال سے باہر نکلنے پر مجبور کیا۔

    گزشتہ روز غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز نے الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ کو بھی گرفتار کر لیا ہے، دیگر عملہ بھی فورسز کی حراست میں ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ وہ عالمی ادارہ صحت سے اس سلسلے میں وضاحت چاہتا ہے، کیوں کہ طبی ماہرین ڈبلیو ایچ او کے ایک قافلے میں مریضوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے، جب انھیں اسرائیلی فورسز نے روکا اور حراست میں لے لیا۔

    اسرائیلی فورسز نے چند دن قبل یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انھوں نے اسپتال میں 55 میٹر طویل ایک سرنگ دریافت کیا ہے، اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس مقام پر کھڑی ایک گاڑی سے بھاری اسلحہ بھی ملا۔ تاہم الجزیرہ کے مطابق ایک فوجی تجزیہ کار زوران کوسوواک نے غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک سول انجینئر کے حوالے سے بتایا کہ یہ ویڈیو دراصل دو مختلف سرنگوں کے کلپس جوڑ کر بنائی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ صہیونی فورسز کی وحشیانہ بمباری میں اب تک 14,500 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔

  • ایک سو اڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اڑسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    جونی نے کتاب پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’یہ کتاب ہمیں جادوگروں کے منتروں اور عجیب و غریب جادو کے بارے میں بتاتی ہے، اور اس سے بڑھ کر یہ کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ….. ‘‘

    جونی کہتے کہتے رک گیا۔ اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ ناچنے لگی تھی۔ وہ خصوصی طور پر فیونا، جبران اور دانیال پر نظریں جمائے مسکرائے جا رہا تھا۔ وہ تینوں بے چینی سے پہلو بدل کر نہایت غور سے جونی کی طرف ہمہ گوش ہو گئے تھے اور اس وقت تینوں کے منھ تجسس کے مارے کھلے ہوئے رہ گئے تھے۔
    ’’جلدی بتائیں نا پلیز۔‘‘ فیونا مچل کر بول اٹھی۔ ’’تم نے تو ہم سب کو تجسس میں ڈال دیا ہے جونی۔‘‘ مائری سے بھی رہا نہ گیا۔
    جونی نے سر ہلا کر کہا: ’’ٹھیک ہے بتاتا ہوں، میں سمجھا کہ شاید آپ میں سے کوئی سمجھ جائے گا لیکن خیر یہ کتاب ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ زیلیا کا راستہ کس طرف ہے اور وہاں کس طرح پہنچا جا سکتا ہے۔‘‘ فیونا، جبران اور دانیال حیرت اور خوشی کے مارے چیخ اٹھے۔
    ’’شان دار …. سنسنی خیز … زیلیا کی مہم تو بہت دل چسپ رہے گی۔‘‘ فیونا نے کہا اور یہ بات باقی دونوں کے دل کی بھی آواز تھی۔
    جونی نے کہا: ’’ہاں، لیکن ایک بات ذہن نشین رہے کہ ہم نے اس کتاب کو ڈریٹن اور پہلان سے چھپا کر رکھنی ہے … ہر حال میں … اگر یہ کتاب ان کے ہاتھ لگ گئی تو پتا ہے کیا ہوگا؟ یہ کتاب آپ کی اس دنیا کو، ہماری دنیا کو الٹ پلٹ سکتی ہے۔‘‘
    یہ سن کر وہ تینوں پریشان نظر آنے لگے۔ ایسے میں اینگس نے کام کی پوچھی: ’’جونی کیا تم زیلیا کی زبان پڑھ سکتے ہو؟‘‘
    جونی نے جواب دیا: ’’نہیں لیکن ہم بارہ آدمیوں میں سے ایک اسے پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اسے یہاں پہنچنے میں ابھی کافی وقت ہے۔ اس کا نام بون ٹابی ہے۔ ہم میں صرف اسی کو زیلیا کی زبان پڑھنا آتا ہے۔ ہمیں اس کتاب کی حفاظت کرنی ہے جیسا کہ ہم جادوئی گولے کی کرتے آ رہے ہیں۔ اس وقت تک جب تک وہ یہاں آ کر ہمارے ساتھ نہ مل جائے۔‘‘
    اینگس کہنے لگے: ’’یہ ساری تفصیلات بہت دل چسپ ہیں اور بہت ساری باتیں مزید ہو سکتی ہیں لیکن بہت دیر ہو گئی ہے۔ اب ان بچوں کو ان کے گھروں تک پہنچانا زیادہ ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے والدین ان کے پریشان ہوں گے۔ فیونا اور مائری تم دونوں بھی اب گھر جاؤ۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو ستاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ستاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں‌ کلک کریں

    وہ اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑی ہو گئی اور مسرت سے چیخ مارتی دوڑی اور ممی کے گلے میں جھول گئی۔ ’’اوہ ممی، کتنی شان دار خبر سنائی ہے آپ نے۔‘‘

    ’’قلعے میں رہائش کا تو مزا ہی الگ ہوگا۔‘‘ جبران نے ایک شان دار سجے ہوئے قلعے کا تصور ذہن میں لاتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن فیونا ہم ایک دوسرے سے بہت دور ہو جائیں گے۔‘‘

    فیونا نے دیکھا کہ اس کے دونوں دوستوں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ ساتھ اداسی کا سایہ بھی پھیل گیا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ مائری نے ان تینوں کے جذبات کو محسوس کرتے ہوئے مسکرا کر کہا: ’’ہم تمھیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ تم اور تمھارے والدین بھی ہمارے ساتھ قلعے میں منتقل ہوں گے۔ ہم ان سے درخواست کریں گے کہ وہ ہمارے ساتھ قلعے میں منتقل ہو جائیں۔ اگر انھوں نے پھر بھی انکار کیا تو ہم ان سے کہیں گے کہ وہ کم از کم تم دونوں کو قلعے میں رہنے کی اجازت دیں۔‘‘
    فیونا یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور ممی کا اس بات پر شکریہ ادا کرنے لگی کہ وہ اس کے دوستوں کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ جبران اور دانیال بھی پرجوش ہو گئے تھے اور پرامید تھے کہ دونوں میں سے کوئی ایک بات ہو جائے گی۔ یعنی یا تو وہ سب فیونا کے ساتھ منتقل ہو جائیں گے یا صرف ان دونوں کو قلعے میں عارضی طور پر رہنے کی اجازت مل جائے گی۔
    قلعے میں منتقلی کی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ کافی دیر سے خاموش رہنے والے اینگس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا: ’’ مائری تم بھول رہی ہو کہ یہ سب کرنے کے لیے پہلے قانونی اجازت ضروری ہے۔‘‘ پھر مائری کو پریشان دیکھ کر خود ہی کہا: ’’لیکن کوئی بات نہیں، میں کل جا کر سرکاری کاغذات کے سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘
    اس کے بعد اینگس نے جونی کو مخاطب کیا: ’’اور ہم اس دوسری کتاب کے بارے میں سننے کے لیے بے چین ہیں، تم نے کہا ہے کہ یہ زیلیا کی زبان میں لکھی گئی ہے؟‘‘
    جونی نے کتاب ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہا: ’’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ زیلیا ہماری اس دنیا کا حصہ ہے بھی اور نہیں بھی۔ ہم میں سے کوئی بھی وہاں نہیں جا سکتا کیوں کہ وہ صرف جادوگروں کے لیے ہے۔ غیر جادوگر وہاں قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زیلیا کسی اور رخ پر ہے۔ مطلب یہ کہ ہم دائیں بائیں، اوپر نیچے، سامنے پیچھے کے رخ سے واقف ہیں لیکن ہم انسانوں نے ابھی تک دماغ کی پوری صلاحیت کو استعمال کرنے پر قدرت حاصل نہیں کی ہے اس لیے ہمارے لیے ایسی باتیں سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمارا دماغ اس میں الجھ جاتا ہے کہ ان سمتوں کے علاوہ کوئی اور سمت کیسے اور کہاں ہو سکتی ہے۔ ہاں، میں تم لوگوں کو کچھ باتیں ضرور بتا سکتا ہوں جو جادوگر زرومنا نے مجھ سے کہی تھیں۔ وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں نہایت شفاف پانی کے دریا بہتے ہیں اور جو ننھے بلبلوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو پانی سونے کی طرح چمک اٹھتا ہے اور دریا ایسے لگتے ہیں جیسے سونا پگھل کر بہہ رہا ہو۔ وہاں درختوں پر ایک ہی طرح کے اور ایک ہی سائز کے پتے نکلتے ہیں جنھیں حشرات کھاتے نہیں ہیں۔ پھول ایسے رنگوں میں کھلتے ہیں جنھیں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ یہ اتنے شوخ اور چمکیلے ہوتے ہیں کہ اگر عام آدمی ان رنگوں کو دیکھ لے تو اندھا ہو جائے۔ پرندے اتنے نغمگی کے ساتھ گاتے ہیں کہ سننے والا سحر زدہ ہو جائے لیکن ہم انھیں نہیں سن سکتے۔ ہمارے وہ صرف چہچہاہٹ ہوگی اور جادوگروں کے لیے ایک نہایت مسرت بخش نغمہ۔ وہاں جانور پرامن طور پر مل جل کر رہتے ہیں۔ پھل بے تحاشا اگتے ہیں، شہد ہر میز پر رکھتے ہر برتن سے بہتا ہے۔‘‘
    جونی زیلیا کے متعلق عجیب و غریب معلومات بیان کرتے کرتے رکا تو جبران سے رہا نہ گیا، فوراً بول اٹھا: ’’تو اتنی شان دار جگہ جادوگر چھوڑنے پر کیوں تیار ہو جاتے ہیں؟‘‘
    جونی مسکرایا: ’’جادوگر صرف دو وجوہ پر زیلیا چھوڑتا ہے۔ ایک وجہ یہ کہ اس پر شیطانی حرکتوں کی وجہ سے پابندی لگا دی جائے، دوم یہ کہ وہ دوسروں کی خدمت کا جذبہ اور خواہش لے کر وہاں سے نکلے۔ اکثر جادوگر زیلیا ہی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور وہیں پر خوش رہتے ہیں۔ بچپن میں وہ اسکول ساحری میں داخل ہو کر جادو کے طور طریقے سیکھتے ہیں۔‘‘
    جونی نے مزید بتایا کہ زیلیا میں پیدائش ہی سے بچوں کو صحیح اور غلط کے بارے میں سمجھایا جاتا ہے، اس لیے اکثر جادوگر انسانوں کی دنیا سے دور رہنا چاہتے ہیں لیکن ان میں سے چند مہم جو قسم کے جادوگر بھی ہوتے ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کی دنیا میں جا کر ضرورت مندوں کے کام آئیں۔ پہلان اور چند دیگر جادوگروں نے ان تعلیمات کو قبول نہیں کیا اور شیطانی اور باغیانہ حرکتوں کے باعث ہمیشہ کے لیے زیلیا سے نکالے گئے۔ وہ زمین پر چلے آئے اور یہاں شیطان صفت لوگوں کو تلاش کر کے ان کی خدمت پر لگ گئے۔
    جونی چپ ہوا تو فیونا بول اٹھی: ’’بہت دل چسپ باتیں ہیں، یہ کتاب کیا کہتی ہے؟‘‘
    جاری ہے۔۔۔
  • ایک سو چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھیاسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جونی نے مائری کو جواب دیا کہ ایسا ممکن ہے، چند ماہ کے اندر قلعے کو رہنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ جب مائری نے قلعے کے باغات سے متعلق بات کی تو جونی نے انھیں بتایا کہ ان بارہ افراد میں سے ایک جولیان ہے جو باغبان تھا اور یہ کہ وہ اس قلعے کو بہت کم وقت میں بحال کر سکتا ہے۔ دونوں قلعے کی تزئین کے فیصلے پر متفق ہو گئے۔ قلعے میں مکڑیوں اور سرنگوں کا بھی مسئلہ تھا جن کے بارے میں انھوں نے طے کیا کہ انھیں بھر دیا جائے گا اور یہ طے کر وہ اندر چلے گئے تاکہ باقی سب کو بھی اس سے آگاہ کر دیں۔ وہ سب جادوئی چمکتے دمکتے گولے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ مائری نے سب کو مخاطب کیا کہ وہ کچھ بولنا چاہتی ہے۔ سب ان کی طرف متوجہ ہو گئے لیکن جیسے ہی انھوں کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا، دروازے پر دستک سنائی دی۔ سب نے ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اینگس بولے میں دیکھتا ہوں۔ انھوں نے جا کر دروازہ کھولا تو باہر ایک اجنبی کھڑا تھا۔ پانچواں اجنبی!
    اینگس اسے دیکھ کر پہلے جو جھجکے اور پھر اسے بھی اندر لے آئے۔ سب اس کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ آتے ہی بولا: ’’مجھے کیٹر کہتے ہیں۔ اوہو آرٹر، کووان، پونڈ، آلرائے تم چاروں کیسے ہو، کیا ہو رہا ہے یہاں؟‘‘
    ’’بیٹھ جاؤ کیٹر۔‘‘ جونی نے گہری سانس لی۔ ’’یہ اینگس ہے، اس گھر کا مالک اور یہ مائری، یہ ان کی بیٹی فیونا، اور یہ دونوں اس کے دوست دانیال اور جبران۔ ان بچوں نے قلعہ آذر میں جادوئی گولے کو ڈھونڈ نکالا تھا اور یہ تینوں اب قیمتی پتھر جمع کرنے کے لیے سفر کر رہے ہیں۔ یہ ابھی کچھ ہی دیر قبل زمرد حاصل کر کے آئے ہیں اسی لیے تم زرومنا کے وعدے کے مطابق وقت کی گزرگاہ سے ہو کر یہاں آئے ہو۔ ہم ایک ایک کر کے ظاہر ہو رہے ہیں۔‘‘
    جونی کی وضاحت سن کر وہ بولا: ’’قلعہ آذر وہی جگہ ہے نا جو میں نے تلاش کی تھی۔ یہ کون سا سال ہے؟‘‘ وہ ان کے لباس دیکھ کر پوچھ بیٹھا۔
    ’’دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہو چکی ہے اور ہم اسکاٹ لینڈ میں ہیں۔ کنگ کیگان ہم سے جدا ہونے کے بعد اسکاٹ لینڈ آئے تھے اور یہاں اس قلعے کو تعمیر کیا تھا۔ مائری اور فیونا ان کے وارث ہیں۔‘‘ جونی نے اسے بتایا۔
    ایسے میں اچانک جیک نے اسے مخاطب کیا: ’’آج کے بعد تمھارا نام جیفری ہے کیوں کہ ہمارے قدیم نام اس دور میں بہت عجیب لگتے ہیں۔لوگ سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ویسے ابھی مزید کچھ سننے کو ملے گا فی الحال مائری کچھ کہنے جا رہی ہیں، انھیں سنتے ہیں۔‘‘
    جیفری نے اثبات میں سر ہلایا، اسی لمحے اس کی نظر ہار پر پڑی۔’’اوہو، یہ تو ملکہ سمانتھا کا ہار ہے۔‘‘جونی بولا ’’ہاں یہ میں نے دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ ملکہ سمانتھا بھی یہی چاہتی۔ بہرحال، تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہم نے بھی اپنے نام تبدیل کیے ہیں۔ میں جونی ہوں، کووان جمی ہے، پونڈ جیزے ہے اور آرٹر کا نام جیک ہے۔‘‘
    مائری نے کھانس کر سب کو پھر اپنی طرف متوجہ کیا، اور جیفری کو مخاطب کر کے بولیں: ’’تم دوسروں سے مختلف نظر آ رہے ہو، تمھاری آنکھیں نیلی ہیں اور بال ہلکے رنگ کے ہیں۔‘‘ جیفری نے اس پر بتایا کہ اس کے والد گال کے رہنے والے تھے اور والدہ عرب تھیں بورل کی۔ جیفری پھر بورل کے بارے میں بتانے لگا: ’’گال لوہے کے زمانے میں مغربی یورپ کا ایک علاقہ تھا، جو فرانس، لگزمبرگ، بیلجیئم، سوئٹزرلینڈ، شمالی اٹلی، نیدرلینڈز اور جرمنی پر مشتمل تھا۔‘‘
    مائری نے کہا: ’’ٹھیک ہے میں سمجھ گئی، اب میں کچھ کہنا چاہتی ہوں، دراصل میں قلعہ آذر کی نئے سرے سے آرائش اور مرمت کرنے کا سوچ رہی ہوں تاکہ ہم وہاں منتقل ہو سکیں۔‘‘
    یہ سن کر فیونا اچھل پڑی۔ اس کے لیے یہ خبر سب سے زیادہ سنسنی خیز تھی۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پینسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    جونی یادداشتوں میں جیسے ڈوب گیا تھا، وہ بولتا گیا: ’’پہان بھی وہیں رہتا تھا لیکن وہ شیطان کے جھانسے میں آ گیا اور لالچ کے مارے غلط راستے پر چل پڑا۔ اور پھر اس کے زیلیا میں داخلے پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔ اس کے بعد اس نے کنگ دوگان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا۔ بس، اس کے بعد ہی مسائل پیدا ہونے لگے۔ اس کے پردادا بارتولف بھی ایک جادوگر تھا، مجھے اس وقت اس کا نام صحیح طور سے یاد نہیں آ رہا ہے، مجھے کتاب میں دیکھنا پڑے گا۔‘‘
    ناول کی پچھلی اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    جونی کہتے کہتے خاموش ہوا تو مائری نے کھڑے ہو کر کہا: ’’جونی، یہ سب تو بس ایک کہانی ہی ہے، مجھ سے تو اتنی ساری باتیں ہضم ہی نہیں ہو رہی ہیں۔ جادوگر، شہنشاہ اور شیطان صفت لوگ … یہ سب تو قصے کہانیوں میں ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے کچھ دیر کے لیے باہر کھلی ہوا میں جانا چاہیے، ورنہ مجھے لگتا ہے کہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔ حقیقت میں ایسی چیزیں قبول نہیں کی جا سکتیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئیں۔
    جونی نے کتاب بند کی اور اٹھتے ہوئے کہا: ’’میں اس کتاب کے بارے میں بعد میں بتاؤں گا، ابھی مجھے لگتا ہے کہ مائری کو سمجھانا ضروری ہے۔‘‘
    وہ باہر نکلا تو مائری صنوبر کے درخت کے پاس کھڑی ہوا میں اڑنے والی بطخوں کی ڈار کو دیکھ رہی تھیں۔ بطخیں وی کی شکل میں جھیل کی طرف اڑ رہی تھیں۔ جونی نے کہا: ’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ ایک عام انسان کے ساتھ اس طرح کی عجیب و غریب اور خطرناک واقعات ہونے لگتے ہیں تو وہ پریشان ہو جاتا ہے، اسے یقین نہیں آتا۔ حالاں کہ سب کچھ اس کے سامنے کھل کر آ جاتا ہے۔‘‘
    مائری نے کہا: ’’مجھے بدمزاج مت سمجھنا پلیز، تم ٹھیک نے کہا، ایسا ہی کچھ ہوا ہے میرے ساتھ۔ یہ فضا دیکھو، ہوا میں صنوبر کی مہک، فضا میں بطخوں کی قیں قیں، اور ہوا کی کی یہ نرم لہریں مجھے بھی بہت اچھی لگتی ہیں اور ان سے لطف اٹھاتی ہوں۔‘‘ جونی مسکرایا اور ایک ہار ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا: ’’یہ دیکھو، قدیم ہار، یہ ملکہ سرمنتھا کا ہار ہے، انھیں بہت پسند تھا، آپ یہ پہنیں گی تو آپ کو یہ سب سمجھنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔‘‘
    مائری نے نیکلس پہنا تو انھیں ایسے لگا جیسے وہ واقعی شاہی خاندان کی وارث ہیں۔ اچانک مائری خواب آلود لہجے میں بولیں: ’’جونی، ابھی کچھ دیر قبل میں قلعہ آذر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ مجھے پاگل مت سمجھنا لیکن میں چاہتی ہوں کہ قلعہ آذر میری ملکیت میں آ جائے۔ وہ میرے آبا و اجداد سے تعلق رکھتا ہے، میں اسے صاف ستھرا کر کے اس میں منتقل ہونا چاہتی ہوں۔ لیکن تب ہی ممکن ہوگا جب ہم جھیل لوچ کی بلاؤں سے نجات حاصل کر لیں۔‘‘
    ’’ارے وہاں کوئی بلا نہیں ہے۔‘‘ جونی نے قہقہہ لگایا۔ ’’وہ تو ڈریٹن اور پہلان نے لوگوں کو قلعے سے دور رکھنے کے لیے تماشے دکھائے تھے، ورنہ جھیل تو بہت پرسکون ہے۔ جہاں تک قلعے کا تعلق ہے تو اس میں بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ہاں اب تم اکیلی نہیں ہو تمھاری مدد کرنے والے بہت سارے لوگ آ چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی قلعہ آذر میں ایک بار پھر رہائش کا خیال بہت جوش دلاتا ہے۔‘‘
    ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘ مائری کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ تصور میں خود کو قلعہ آذر میں کسی ملکہ کی طرح گھومتے پھرتے دیکھنے لگیں۔
    ’’میں سوچ رہی ہوں کہ ہمیں وہاں بجلی اور پانی کے انتظامات کرنے ہوں گے۔ قلعے کو اندر سے گرم رکھنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑے گا اور جگہ جگہ بننے والے سوراخوں کو بند کرنا ہوگا۔ کیا ہم یہ کر سکیں گے؟‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چونسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈالرز جیبوں میں ٹھونسنے کے بعد ڈریٹن نے وہاں مزید رکنا بے کار سمجھا۔ اسے یقین تھا کہ فیونا اور اس کے دوست زمرد حاصل کر چکے ہوں گے، لہٰذا وہ ایک عمارت کے پیچھے گیا اور غائب ہو گیا، اس کے بعد اس نے خود کو مک ایلسٹر کے گھر میں کھڑے پایا۔ آس پاس نظر دوڑانے کے بعد اس نے کود کلامی کی، مجھے جا کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ تینوں بدمعاش قیمتی پتھر حاصل کر چکے ہیں یا نہیں۔ اور پھر وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ کھڑکی کے نیچے پنجوں کے بل کھڑے ہو کر وہ اندر جھانکنے لگا اور دیکھا کہ زمرد آ چکا ہے۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔
    ۔۔۔
    وہ تینوں جیسے اینگس کے گھر میں نمودار ہوئے، فیونا کی ممی مائری بے اختیار اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ ’’شکر ہے تم سلامت لوٹ آئے۔‘‘ اینگس نے کہا میں نے کہا تھا کہ یہ بس تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آئیں گے۔ انھیں فیونا تھکی تھکی لگی۔ فیونا نے جیب سے زمرد نکال کر ان کے حوالے کر دیا۔ جبران نے بھی گلے سے کیمرہ اتار کر واپس کر دیا۔ اینگس نے ان کی داستان سننے سے قبل زمرد رالفن کے گولے میں رکھنا ضروری سمجھا، اور وہ سب گولہ لے کر دیوان خانے میں آ گئے۔ اینگس نے پتھر جیسے ہی جادوئی گیند میں مخصوص خانے میں رکھی، باقی تین پتھروں کی مانند زمرد بھی جھلملانے لگا، اور انھوں نے اس کی روشنی دھیرے دھیرے تیز ہوتے دیکھی۔
    ’’بہت شان دار۔‘‘ جمی نے کہا: ’’مجھے یاد ہے یہ اُس وقت بھی ایسا ہی تھا جب کنگ کیگان نے گولے سے انھیں ہٹایا اور ہم میں سے ہر ایک کو ایک ایک دیا۔ آج ہم یہاں اسکاٹ لینڈ میں ایک چھوٹے سے گھر میں پھر اکھٹے ہو گئے ہیں اور وہی جادوئی گیند ہمارے سامنے ہے۔‘‘
    جیک نے کہا: ’’یہ سب کچھ بہت عجیب ہے لیکن ہے ناقابل فراموش۔‘‘ دیگر افراد نے بھی اس کی تائید کی، تب جیک نے چونک کر کہا: ’’جونی، ہم نے جو دوسری کتاب حاصل کی ہے، وہ ان کو دکھانی چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے تکیے کے نیچے سے کتاب نکال لی۔
    ’’ایک اور کتاب؟‘‘ سب سے پہلے اینگس چونکے۔ ’’کیا یہ بھی پہلی والی کتاب کی طرح ہے؟‘‘
    جونی نے کہا: ’’اینگس یہ جو کتاب تمھارے سامنے میز پر دھری ہے، یہ میری ہے۔ میں نے جو دیکھا، سنا اور محسوس کیا، وہ سب اس میں درج کر دیا۔ جب کہ یہ دوسری کتاب جادوگر زرومنا سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘
    جونی نے جیک کے ہاتھ سے دوسری کتاب لی اور اینگس کے پاس بیٹھ کر کہا: ’’دیکھو، یہ دونوں کتابیں اوپر سے ایک جیسے لگتی ہیں۔ یہ چمڑے، لکڑی اور سونے سے تیار کی گئی ہیں اور دونوں زرومنا نے بنائی ہیں۔ لیکن اندر سے یہ مختلف ہیں۔ میں نے اپنی کتاب قدیم سیلٹک زبان میں لکھی ہے جب کہ زرومنا نے اپنی کتاب اپنے علاقے زیلیا کی زبان میں لکھی ہے، اور یاد رہے کہ پہلان جادوگر کا تعلق بھی زیلیا سے تھا۔‘‘
    ایسے میں خاموش بیٹھی ہوئیں مائری نے اچانک مداخلت کی: ’’زیلیا؟ یہ کہاں ہے؟‘‘
    ’’یہ جادوگروں کی سلطنت ہے لیکن مجھے نہیں پتا کہ یہ کہاں واقع ہے۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تمام جادوگر وہیں سے آئے تھے۔‘‘ جونی نے بتایا: ’’جادوگر زرومنا نے زیلیا سے آ کر کنگ رالفن سے درخواست کی تھی کہ اسے ان کا خاص جادوگر مقرر کیا جائے اور رالفن نے یہ درخواست قبول کر لی۔ تم لوگوں نے اس کے قتل کی کہانی تو سن ہی لی ہے، اسی طرح کنگ کیگان کے پاس بھی ایک جادوگر تھا، بہت با رعب تھا وہ، شان دار شخصیت والا۔ اس کے بال لمبے اور گہرے بھورے تھے۔ دور سے لگتا تھا کہ سیاہ ہیں جو اس کے شانوں پر لہراتے تھے۔ وہ سر پر نوک دار جامنی رنگ کی ٹوپی پہنتا تھا اور اس کا عجیب و غریب ڈیزائنوں سے بھرا چوغہ فرش کو چھو رہا ہوتا تھا۔ اس کی ناک لمبی لیکن آنکھیں موتیوں کی طرح چمکتی تھیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس کی آنکھیں سفید تھیں، اس کی پتلیاں بھی رنگین نہیں تھیں، بس سفید اور چمک دار تھیں۔ اس نے ہمیں زیلیا کے بارے میں بتایا تھا، میرے خیال میں اسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا جا سکتا ہے۔‘‘
    (جاری ہے)
  • حماس نے اسرائیل کو کتنے ارب ڈالر نقصان سے دوچار کیا؟

    حماس نے اسرائیل کو کتنے ارب ڈالر نقصان سے دوچار کیا؟

    فلسطین کے مزاحمتی گروپ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ کا آج چھٹا روز ہے، جس طرح صہیونی فورسز نے دنیا کے سب سے بڑے محصور شہر غزہ کو فضائی بمباری کے ذریعے تباہ و برباد کر دیا ہے، اسی طرح حماس کے حیرت انگیز میزائل حملوں نے اسرائیلی معیشت کو ایک بہت بڑا جھٹکا پہنچا دیا ہے۔

    ابھی جب اسرائیلی حکومت سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات محدود کرنے کے لیے قانون منظور کرنے کے بعد اندرونی طور پر شدید سیاسی تناؤ کا شکار ہو گئی تھی، ایسے میں اچانک حماس کے تباہ کن حملے نے اسے دہلا کر رکھ دیا، دنیا بھر کے میڈیا میں اس حملے کو ہکا بکا کر دینے والے اچانک حملے کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔

    اسرائیل کے پاس دنیا بھر کے جدید ترین ہتھیار موجود ہیں، اور امریکا کی جانب سے کسی بھی درکار اسلحے کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، روس جیسے طاقت ور ملک کے خلاف امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے یوکرینی حکومت اسلحے کی فراہمی کو کوئی روک نہیں سکا، تو اسرائیل کی حفاظت کی ذمہ داری تو ویسے بھی امریکا نے اپنے سر اٹھائی ہوئی ہے، اور جدید ہتھیاروں سے لیس ایک بحری بیڑا اسرائیل کے ساحلوں کے قریب لنگر انداز ہو چکا ہے، دوسرے بیڑا بھی بھیجا جا رہا ہے۔ چناں چہ اس وقت اسرائیل کو ہتھیاروں کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے، تاہم دنیا کی کوئی بھی جنگ ہو، یہ ممالک کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا کرتی ہے، اور یہ ایسا نقصان ہے جس سے کوئی بھی جنگ زدہ ملک نہیں بچ سکتا۔

    6.8 بلین ڈالر

    اسرائیل نے 1973 کی جنگ میں جتنا معاشی نقصان اٹھایا تھا، اس کے بعد سے یہ اب ایک اور تباہ کن وقت ہے جب اسے اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا ہوگا، اور اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ حماس کے میزائلوں نے صہیونی ریاست کو صرف انسانوں کی اموات کی سطح ہی پر نہیں دہلایا ہے، ڈیڑھ سو فوجیوں سمیت اب تک 1300 اموات واقع ہو چکی ہیں، بلکہ کسی بھی جنگ کے لازمی نتیجے کے طور پر اسرائیل نے بڑے معاشی نقصان کا سامنا شروع کر دیا ہے۔

    اسرائیل کے سب سے بڑے بینک ہاپولیم بینک کے مارکیٹ اسٹریٹجسٹ مودی شیفرر نے موجودہ بجٹ میں جنگ کے باعث نقصانات کا تخمینہ جی ڈی پی کے لگ بھگ 1.5 فی صد کی شرح سے لگایا ہے، اور یہ نقصان 6.8 بلین ڈالر بنتا ہے۔ اس کی وجہ سے اسرائیل کی شرح نمو اس سال 1.5 فی صد رہے گی۔

    جولائی 2014 میں غزہ پر اسرائیلی آپریشن ’’پروٹیکٹو ایج‘‘ سے بھی اسرائیل کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا، اُس وقت اس نقصان کا تخمینہ 3.5 ارب شیکل لگایا گیا تھا، جو جی ڈی پی کا تقریا 0.3 فی صد تھا۔ حالیہ جھڑپیں معیشت کے زخموں کو مزید گہرا کر دیں گی۔

    اسرائیلی ریزور فوج کا ملکی معیشت سے گہرا تعلق!

    اسرائیل کی اسٹینڈنگ آرمی، ایئر فورس اور نیوی ڈیڑھ لاکھ ارکان پر مشتمل ہے، جب کہ دفاعی افواج نے ڈیوٹی کے لیے 3 لاکھ سے زیادہ ریزرو فوجیوں کو طلب کر لیا ہے، جو کہ حالیہ تاریخ میں ایک بے مثال تعداد ہے۔

    سی این بی سی کے وائس پریذیڈنٹ جیسن گیوٹز نے اپنی ایک رپورٹ میں کچھ حیرت انگیز اعداد و شمار پیش کیے ہیں، انھوں نے لکھا کہ اسرائیلی ریزور فورس مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے 4 لاکھ ارکان پر مشتمل ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اسرائیلی معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہے جو جتنی زیادہ دیر حالت جنگ میں رہے گا، اتنا ہی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس فوج میں اگرچہ ریگولر فوج کے جوان سپاہیوں سے کہیں زیادہ تجربہ کار موجود ہیں، تاہم یہ سب وہ ہیں جو سماج کے کسی نہ کسی اہم ترین شعبے سے وابستہ ہیں، جیسا کہ اساتذہ، ٹیک ورکرز، اسٹارٹ اپ انٹرپرینیور، کسان، وکیل، ڈاکٹر، نرسیں، سیاحت اور فیکٹری ورکرز۔

    اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل کے اقتصادی نقصان کے مقدار کے حوالے سے یہ بات واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اس کا انحصار اس ریزور فورس پر ہے کہ یہ کتنے عرصے سے اپنی ملازمتوں سے دور رہتی ہے، جتنی زیادہ دیر تک یہ میدان جنگ میں رہے گی معاشی نقصان اتنا زیادہ ہوتا جائے گا۔ ایسے میں جب کہ اسرائیلی آبادی ایک کروڑ سے کچھ کم ہے، اور جی ڈی پی 521.69 بلین ڈالر ہے، تین لاکھ کی ورک فورس کتنی دیر تک معاشی محاذ سے دور رہ سکتی ہے، یعنی یہ جنگی محاذ براہ راست معاشی محاذ کو کمزور کرتا رہے گا۔

    اس تناظر میں یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں اسرائیل کی جنگوں کے معاشی اثرات کا مطالعہ کرنے والے معاشیات کے پروفیسر ایال ونٹر نے حماس کے حملوں کے بعد پڑنے والے اقتصادی اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’اثرات کافی ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے حالات میں سیاحت کا شعبہ فوری طور پر منجمد ہو جاتا ہے، اگرچہ جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد سیاحت کا شعبہ متحرک ہوتا ہے۔

    اسرائیل کیوں تیار نہیں تھا؟

    اسرائیلی حکومت جس طرح ملک میں بڑے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کر رہی تھی، اسرائیل کی معیشت 7 اکتوبر کی جنگ کے لیے بالکل تیار نہیں تھی، اسرائیلی اخبار ہارٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل موڈیز اور اسٹینڈرڈ اینڈ پوور جیسی ایجنسیوں سے اپنی کریڈٹ ریٹنگ کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا۔

    گزشتہ جولائی میں موڈیز نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات کو محدود کرنے والے نئے قانون کی منظوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ سیاسی تناؤ جاری رہے گا، اور ممکنہ طور پر اس کے اسرائیل میں اقتصادی اور سلامتی کے حالات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

    اس پس منظر کو دیکھا جائے تو حماس کے اسرائیل پر سرپرائز اٹیک کے بعد اسرائیل ایک بڑے معاشی بحران کے دہانے پر ہے، اقتصادی محاذ پر صہیونی ریاست پر ایک تباہی منڈلا رہی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی سیاحت کے شعبے کی کارکردگی معطل ہو کر رہ جائے گی، جنوب میں اقتصادی سرگرمیاں مفلوج ہو جائیں گی، اور دفاعی اخراجات بڑھیں گے۔

    کیا عالمی معیشت کو بھی خطرہ ہے؟

    جنگوں سے جہاں ایک طرف میدان جنگ میں موجود فریقین ہر طرح کا نقصان اٹھاتے ہیں، اسی طرح کسی نہ کسی سطح پر دنیا بھر کے ممالک بھی اس نقصان میں شراکت دار بنتے ہیں، مثال کے طور پر روس اور یوکرین جنگ نے پوری دنیا کو اقتصادی بحران کا شکار بنا دیا تھا، ایندھن اور اشیاے خورد و نوش کی قیمتوں میں عالمی سطح پر جو اضافہ ہوا تھا، اس نے کئی ممالک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

    اب اسرائیل اور حماس کی جنگ سے بھی اقتصادی خطرات کا خدشہ تو ہے لیکن اس کا انحصار اس جنگ کی شدت پر ہے، اگر یہ جنگ طویل ہو کر مہینوں پر محیط ہوتی ہے اور فریقین کے عالمی حلیف اور مددگار اس میں سرگرمی سے حصہ لینے لگتے ہیں تو بلاشبہ اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو جائیں گے۔

    تاہم بدھ کو امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے مراکش میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس میں مندوبین کو بتایا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا عالمی معیشت پر کوئی خاص اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔ انھوں نے کہا ہم اسرائیل میں بحران سے ممکنہ اقتصادی اثرات کی نگرانی کر رہے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ اس سے عالمی اقتصادی سرگرمیوں پر اثرات مرتب ہوں گے۔

    تاہم ہفتے کے شروع میں تیل کی عالمی قیمتوں میں اس خدشے پر اضافہ ہوا تھا، کہ جنگ تیل پیدا کرنے والے مشرق وسطیٰ میں وسیع تر عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے، چناں چہ، یہ خطرہ تو سر پر منڈلا رہا ہے کہ اگر جنگ طوالت اختیار کرتا ہے تو اس سے تیل کی عالمی قیمتوں پر ایک بار پھر اثرات مرتب ہونا شروع ہو جائے گا۔

    اسرائیلی معیشت اس وقت کہاں کھڑی ہے؟

    اسرائیل میں غیر ملکی کارکنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، کئی شعبے ہیں جو غیر ملکی کارکنوں پر چل رہے ہیں، چناں چہ ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ اسرائیل کے بہت سے اہم روزگار کے شعبے جنگ کے دوران بھی بلاتعطل جاری رہیں گے، ان میں اسرائیل کا کیمیکل سیکٹر بھی شامل ہے، جو برآمدات کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

  • ایک سو تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تریسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیں
    شین نے انھیں ان کے ہوٹل پر اتار دیا۔ اترتے ہی جبران بولا: ’’اب ہمیں فوری طور پر گھر جانا چاہیے۔‘‘ فیونا نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس اپنی اپنی چیزیں پوری ہیں، تو دونوں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ فیونا نے بھی کہا کہ اب گھر چلتے ہیں۔ دانیال نے پوچھا: ’’کیا ہمیں اُس مقام پر نہیں جانا پڑے گا جہاں ہم پہلی بار نمودار ہوئے تھے؟‘‘
    ’’نہیں۔‘‘ فیونا نے جواب دیا: ’’پہلے میں بھی ایسا سمجھتی تھی لیکن اب مجھے پتا چل گیا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے، بس صرف اُسی علاقے میں ہمیں ہونا چاہیے۔‘‘
    ’’تمھیں یہ کیسے معلوم ہوا؟‘‘ جبران نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’بس ہو گیا معلوم۔‘‘ اس نے کندھے اچکا کر کہا ’’اب دریائے یوکان کی طرف چلو۔‘‘
    جب وہ دریا کے پاس آئے تو انھیں بہت سارے لوگ گیلے کپڑوں کے ساتھ ملے، جن کے چہرے سرخ ہو رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ سب دریا میں خوب نہائے ہوں۔ جبران نے کہا: ’’گلیشیئر سے جو سیلابی ریلا آیا تھا کیا یہ سب اس میں بھیگے ہیں، کیا اتنی دور تک وہ ریلا آیا ہوگا؟‘‘
    ’’ہو سکتا ہے۔‘‘ فیونا بولی: ’’میرے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لو۔ گھر جانے کا وقت آ گیا ہے۔ میں واپسی کا منتر پڑھنے لگی ہوں۔‘‘
    فیونا نے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کیں اور پھر ایک دم کھول کر دھڑکتے دل کے ساتھ منتر پڑھنے لگی …. دالث شفشا یم بِٹ …
    (جاری ہے…)
  • ایک سو باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو باسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
    دریائے یوکان پر لوگوں کی اچھی خاصی تعداد جمع ہو گئی تھی۔ وائٹ ہارس آنے والے اکثر سیاح سونا چھاننے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت ضرور نکال رہے تھے۔ ان میں سے ایک ڈریٹن بھی تھا جس نے کرائے پر چھلنی خریدی تھی اور پھر دریا کے کنارے ایک جگہ منتخب کر کے ریت چھاننے بیٹھ گیا تھا۔ اس کے ایک طرف امریکا سے آئی ہوئی ایک فیملی بیٹھی تھی اور دوسری طرف ادھیر عمر میاں بیوی بیٹھے ریت چھان رہے تھے۔
    ڈریٹن کافی دیر سے جھک کر دریا میں چھلنی ڈال کر نکالتا تھا اور چھاننے کے بعد اس میں ریت اور کنکر کے سوا کچھ نہ پاتا تھا۔ سونے پر سہاگا، اس کے ایک طرف بیٹھی فیملی کے لوگ تھوڑی تھوڑی دیر بعد خوشی سے چیخ اٹھتے تھے کیوں کہ ان میں سے کوئی نہ کوئی اپنی چھلنی میں سونے کی چمک دار ڈلی موجود پاتا۔ یہ دیکھ کر وہ جلن اور حسد کے مارے تپنے لگا۔ دیگر لوگ بھی دریا کنارے بیٹھے کبھی کبھی مسرت بھری چیخ کے ساتھ اچھل پڑتے تھے، اور ڈریٹن کو آگ لگ جاتی تھی۔
    وہ غصے کے مارے سوچنے لگا کہ آخر وہ ہی کیوں ناکام ہو رہا ہے۔ باقی سب کو سونے کے ڈلے مل رہے ہیں اور وہ مسلسل محروم ہے۔ وہ اٹھا اور اپنی کمر سیدھی کرنے لگا، کیوں کہ وہ کافی دیر سے اکڑوں بیٹھا تھا، اس لیے اس کی کمر، گردن اور گھٹنے درد کرنے لگے تھے۔ اس نے دریا کنارے لوگوں پر ایک نگاہ ڈال کر زیر لب کہا: ’’تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے اب دوسرے پلان پر عمل کرنا ہوگا، ٹھیک ہے تو شروع ہو جاؤ ڈریٹن!‘‘
    وہ چہل قدمی کرتے ہوئے قریب بیٹھی فیملی کے پاس سے گزرنے لگا تو قصداً پھسل کر گرنے کی اداکاری کی اور اس دوران ایک بچے کو دھکا دے کر اس نے دریا میں گرا دیا۔ بچے کے والدین اور بہن بھائی اپنی اپنی چھلنی ہاتھوں سے گرا کر گھبراتے ہوئے اسے بچانے دوڑے۔ جب کہ ڈریٹن نے اطمینان کے ساتھ ان کے ایک جگہ جمع کیے گئے سونے کے ڈلے اپنی جیب میں منتقل کر دیے۔ جب فیملی والے بچے کو نکال کر بھیگے ہوئے اپنی جگہ پر آئے تو سونا غائب پا کر افسوس کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ ڈریٹن نے اگلے ایک گھنٹے میں بھرپور کارروائیاں کیں اور کئی لوگوں کو سونے کے ڈلوں سے محروم کر دیا اور پھر بھری جیبوں کے ساتھ قریبی بینک جا کر رقم کے عوض سونے کے ڈلوں کا تبادلہ کر لیا۔ جب وہ بینک سے نکلا تو کئی ہزار کینیڈین ڈالرز سے اس کی جیبیں پھولی ہوئی تھیں۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    اس نے اپنے سراپے پر ایک نگاہ ڈالی تو خود کو صاف ستھرا پا کر خوش ہوا اور کرسٹل کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ اس نے کرسٹل سے کہا کہ اپنا جادو باقی دونوں پر بھی آزماؤ ورنہ وہ ٹھنڈ کے مارے جم جائیں گے۔ کرسٹل نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور ہاتھ ایک بار پھر بلند کر کے جھٹکا دیا۔ اگلے لمحے جبران اور فیونا لٹو کی مانند گھومنے لگے، اور جب دونوں رکے تو پوری طرح خشک ہو چکے تھے۔ تینوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، وہ محفوظ بھی تھے اب اور ان کے پاس قیمتی پتھر بھی آ چکا تھا۔ کرسٹل نے آزادی کے لیے فیونا کا شکریہ ادا کیا اور پھر رخصت لے کر گلیشیئر کی بلندی کی طرف چلی گئی۔ جبران نے گہری سانس لی اور کہا: ’’یہ دوسری پری تھی، پہلی والی نے آئس لینڈ میں ہماری مدد کی تھی اور یہ والی، اگرچہ ہمیں قید رکھنا اس کی ذمہ دار تھی لیکن یہاں ہماری مدد کر کے گئی ہے۔‘‘
    ’’میں تو سوچ رہا ہوں کہ اس بار ہم کسی جزیرے پر نہیں آئے۔ یعنی یہ وائٹ ہارس کوئی جزیرہ نہیں ہے۔‘‘ دانیال نے گھوم پھر کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ فیونا بولی: ’’لگتا ہے پریوں اور جزیروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ بے چاری پری کتنی دور آ کر پھنس گئی تھی۔ ویسے اگر چند اور پریاں ہماری مہم میں ہم سے ملیں تو کچھ برا تو نہیں۔‘‘ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر زمرد کی موجودی کو محسوس کیا: ’’شکر ہے زمرد میری جیب سے گرا نہیں۔ میرے خیال میں اب شَین کو ڈھونڈا جائے، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘
    ’’وہ تو ہمارے لیے بہت پریشان ہو رہا ہوگا۔‘‘ دانیال نے کہا۔ تینوں اس طرف چلنے لگے جہاں سے وہ آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ شین دور ایک گھاس والی چھوٹی سی پہاڑی پر بیٹھا ہے۔ انھیں دیکھتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور دور ہی سے ہاتھ ہلا کر کچھ کہنے لگا۔ قریب پہنچنے پر ہی انھیں معلوم ہوا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
    ’’کہا مر گئے تھے تم لوگ۔ میں نے کتنا تلاش کیا تم تینوں کو اور تمھارا سامان کہاں ہے؟‘‘ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔
    ’’اگر ہم بتائیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔‘ فیونا نے معصوم بن کر جواب دیا: ’’مثلاً یہ کہ نوکیلے دانتوں والے قدیم ٹائیگر نے ہمارا پیچھا کیا تھا اور گلیشیئر کے بڑے بڑے ٹکڑے ہم پر گرے تھے اور ہم موت کے منھ سے بال بال بچے، اور گلیشیئر کے اندر بند جھیل بڑے غلط موقع پر دیوار توڑ کر ہمیں بہا کر لے جانے والی تھی لیکن ہم اس میں بھی بچ گئے۔‘‘
    ’’یہ تم کیا بکواس کر رہی ہو۔ نوکیلے دانتوں والا ٹائیگر، گلیشیئر کا ٹوٹنا، کیا تم جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادی ہو۔ اب تم میرے ساتھ ہی رہو گے سب لیکن تم لوگ بھاگ کر کیوں گئے تھے۔ میں تو کوئی زیادہ دور نہیں گیا تھا، جلد ہی پلٹ آیا اور تم تینوں کو غائب پایا۔ تم نے یقیناً مجھے دھوکا دیا تھا۔‘‘
    وہ بولتا ہی جا رہا تھا اور تینوں سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اگر مزید کچھ بولیں گے تو شین کا پارہ مزید چڑھے گا لہٰذا خاموش رہے۔ جب اس کا غصہ اتر گیا تو نرمی سے بولا: ’’چلو شکر ہے کہ تم تینوں سلامت ہو، میں تو واپس جا کر ریسکیو ٹیم کو لانے کی سوچ رہا تھا۔‘‘
    ’’ہم معذرت خواہ ہیں مسٹر شَین!‘‘ فیونا نے بہ مشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا: ’’دراصل ہماری عادت ہے کہ ہم والدین کو بھی اسی طرح اکیلے چھوڑ کر گھومنے نکل جاتے ہیں۔‘‘
    تینوں چپ چاپ جیپ میں بیٹھ کر وائٹ ہارس کی طرف چل پڑے۔ شین نے کہا کہ تم نے بیگ کھو دیے ہیں جس کے لیے اضافی رقم دینی ہوگی۔
    (جاری ہے…)