Author: رفیع اللہ میاں

  • ایک سو ساٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ساٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’ہم آزاد ہو گئے ہیں۔‘‘ فیونا خوشی سے فضا میں اچھل کر بولی۔ ’’اور ہم اس وقت کہاں ہیں، ہمیں نہیں پتا، شین کہاں ہے یہ بھی نہیں پتا، اور ہمارا سامان کہاں ہے، بالکل نہیں پتا!‘‘ وہ تینوں ہنسنے لگے۔

    ان کے بیگ دریائے یوکان میں کہیں بہتے ہوئے جا رہے ہوں گے، لیکن انھیں اس کا غم نہیں تھا۔ دانیال سردی سے کانپتے ہوئے بولا: ’’ہم خوب بھیگ چکے ہیں، کہیں سردی سے برف نہ بن جائیں۔‘‘ جبران برف کی ایک چٹان پر چڑھ گیا تھا اور سردی کی شدت سے کانپ رہا تھا۔ اس کے منھ سے بہ مشکل نکلا: ’’شکر ہے سورج ابھی تک موجود ہے، ورنہ ہم قلفی کی طرح جم جاتے۔ اور یہ دیکھو، انکل اینگس کا کیمرہ ابھی تک میرے گلے میں موجود ہے، واؤ۔‘‘

    ان دونوں کے برعکس دانیال کا برا حال تھا۔ وہ ایک جوہڑ میں گرنے کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت ہو چکا تھا۔ وہ بار بار بالوں سے کیچڑ نکال نکال کر جھٹک رہا تھا۔ ’’پانی کی یہ سواری تو میرے لیے بہت ناگوار ثابت ہوئی۔‘‘

    ایسے میں جبران کو کرسٹل یاد آ گئی۔ اس نے کہا شاید ننھی پری بھی پانی میں بہہ کر غرق ہو گئی ہے۔ لیکن فیونا اچھل کر بولی: ’’وہ زندہ ہے، وہ رہی گلیشیئر کے پاس سے روشنی کی ایک کرن اڑ کر آ رہی ہے۔‘‘

    جب وہ قریب آئی تو جبران نے اپنی ہتھیلی آگے کر پھیلا دی۔ ’’تمھیں زندہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘‘ جبران نے کہا اور کرسٹل اس کی ہتھیلی پر اتر گئی۔

    ’’تم لوگوں کی طرح میں بھی آزاد ہو گئی ہوں۔‘‘ وہ گہری سانس لے کر بولی۔ ’’اگرچہ میں اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکی، میں زمرد کی حفاظت نہ کر سکی، میں تو بالکل ہی بھول گئی ہوں کہ باہر کی یہ دنیا کیسے لگتی ہے۔ میری دنیا تو برف تک محدود ہو گئی تھی اور میں سمجھتی تھی کہ دنیا میں ہر چیز برف کی ہوتی ہوگی۔‘‘

    فیونا کہنے لگی: ’’کرسٹل تم ناکام نہیں ہوئی ہو، ہمیں زمرد کے حصول ہی کے لیے بھیجا گیا ہے اور ہم اچھے لوگ ہیں۔ پتا ہے ابھی کچھ دیر بعد ہم اس شخص سے ملاقات کریں گے جس نے تمھیں زمرد کی حفاظت پر مامور کیا تھا۔ میرا خیال ہے اگر تم اپنے لوگوں سے جا ملو تو وہ شخص بہت خوش ہوگا۔ تم برف کی شہزادی ہو اور سچ میں شہزادیوں کی طرح لگتی ہو۔ اب تم گلیشیئر کی چوٹی پر چلی جاؤ، مجھے یقین ہے تم اپنے دوستوں کو ڈھونڈ لوگی۔‘‘

    سورج کی روشنی میں پری کے پر چمکنے لگے تھے۔ وہ بولی: ’’ان کرنوں میں مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے، میں ایک بار پھر پھولوں اور تتلیوں کا نظارہ کر سکوں گی۔‘‘

    دانیال ابھی تک اپنے کپڑوں سے کیچڑ جھاڑنے میں لگا ہوا تھا، بولا: ’’کیا تتلیاں بھی تم سے دوستی کرتی ہیں؟‘‘

    ’’ہاں کیوں نہیں۔ ہم تو بہت اچھے دوست ہیں۔‘‘ کرسٹل بولی: ’’ٹھہرو ذرا، میں تمھاری مدد کرتی ہوں، تم سیدھے کھڑے ہو جاؤ لیکن ان دونوں سے ذرا دور۔‘‘
    ’’تم کیا کرنے والی ہو میرے ساتھ۔‘‘ دانیال نے اسے گھور کر دیکھا۔

    ’’ڈرو نہیں، تم میرا جادو ابھی دیکھ لو گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی ہتھیلی اٹھا کر کھولی۔ اس پر برف کے ننھے ننھے ٹکڑے پڑے تھے اور بالکل قطروں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ کرسٹل نے ہتھیلی کو جھٹکا دیا۔ برف کے ننھے ٹکڑے اڑ کر دانیال کے گرد چکر کاٹنے لگے اور پھر اگلے ہی لمحے وہ بھی ان کے ساتھ لٹو کی طرح گھومنے لگا۔ اس کے جسم پر موجود کیچڑ اڑ کر دور گرا اور جب وہ اپنی جگہ ٹھہر گیا تو بالکل صاف ستھرا نظر آنے لگا تھا جیسے اسے کیچڑ لگا ہی نہیں تھا۔ لیکن کچھ دیر تک اسے ایسا لگا جیسے دنیا گھوم رہی ہے۔ وہ ہوا میں ہاتھ پھیلا کر سہارا پکڑنے کی کوشش کرتا رہا اور پھر اس کی حالت بحال ہو گئی۔

    (جاری ہے۔۔۔)

  • ایک سو انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انسٹھ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ’’تم لوگوں کو یہاں سے نکل کر جانے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ کرسٹل بولنے لگی: ’’تم نے زمرد نکالا ہے، یہ ہر صورت یہیں رہے گا۔ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں اسے یہاں سے ادھر ادھر نہ ہونے دوں، اس لیے تم لوگ یہاں سے اب نہیں جا سکتے۔‘‘

    ’’ہم یہاں رہے تو مر جائیں گے۔‘‘ فیونا نے پریشان ہو کر کہا۔ ’’ہم انسان ہیں، پریاں نہیں۔ ہم کھاتے پیتے ہیں اور سانس لیتے ہیں۔ تم تو پری ہو، تمھیں کھانے پینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تم اولے کی طرح سفید اور برف کی طرح سرد ہو، تم خود کو دیکھو ذرا۔‘‘
    اچانک جبران بولا: ’’ہم تمھارے دوستوں تک تمھیں پہنچانے کے لیے مدد کر سکتے ہیں۔‘‘ لیکن کرسٹل کی سرد اور جذبات سے خالی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’میرے دوستوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مجھے حکم دیا گیا تھا کہ میں یہیں رہوں۔ تم لوگ بے کار بحث کر رہے ہو، میں اپنا وعدہ نہیں توڑوں گی چاہے مر ہی کیوں نہ جاؤں۔‘‘
    فیونا نے التجا کی: ’’کرسٹل، تم ایک ہزار سال قدیم ہو، تم غالباً نہیں مروگی لیکن ہم تو بچے ہیں، تمھاری طرح لمبا عرصہ نہیں جئیں گے، پلیز ہمیں جانے دو۔‘‘ جبران نے فیونا کو بازو سے پکڑ کر ذرا دور لے جا کر سرگوشی کی: ’’فیونا، تم آگ والا شعبدہ دکھاؤ، اس غار میں آگ بھڑکا کر اسے پگھلا کر رکھ دو۔ ہم گلیشیئر کے آخری سرے سے زیادہ دور نہیں ہیں۔‘‘
    ’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مجھے اب ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ تم ایسا کرو کہ اس ننھی پری کو باتوں میں لگاؤ، اسے پتا نہ چلے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔‘‘
    جبران کرسٹل کی طرف دوڑ کر گیا اور اچانک قہقہے لگا کر اس کے اردگرد اچھل کود کرنے لگا، پھر بولا: ’’کرسٹل، میں نے اپنا خیال بدل لیا ہے، اب میں تمھارے ساتھ یہاں رہوں گا، کیا تم مجھے برف کی مزید رنگین قلمیں دکھانا پسند کرو گی؟ اور مجھے بتاؤ کہ تم انھیں رنگین کس طرح بناتی ہو؟‘‘
    کرسٹل نے ہاں میں سر ہلایا اور غار کے مزید اندر کی طرف اڑ کر جانے لگی۔ دوسری طرف فیونا دانیال کی طرف دوڑ کر گئی اور اس سے بولی کہ برف کی دیوار سے پیچھے ہٹ جائے کیوں کہ وہ اسے آگ سے پگھلانے والی تھی۔ ’’دانی، تم کوئی چیز مضبوطی سے پکڑ لو، کیوں کہ برف پگھلے گی تو پانی ریلا بہہ کر آئے گا۔‘‘
    دانیال نے قریب ہی ایک لٹکتی مضبوط قلم کے گرد بازو پھیلا کر اسے جکڑ لیا۔ فیونا نے آگ کا تصور کیا اور برف کی دیواروں پر ننھے ننھے شعلے بھڑک اٹھے۔
    ’’دیکھو دانی، یہ شعلے برف پر کتنی پیاری چمک پیدا کر رہے ہیں۔‘‘ فیونا نے ننھے شعلے دیکھے تو خوش ہو کر کہا لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا: ’’بھاڑ میں گئے یہ پیارے شعلے، زیادہ آگ بھڑکاؤ تاکہ ہم یہاں سے آزاد ہو سکیں۔‘‘
    فیونا نے پھر آگ پر توجہ مرکوز کر دی۔ اب ننھے شعلے یکایک دگنے تگنے ہو کر پھیل گئے، اور لمحوں میں برف پگھلنا شروع ہو گئی۔ اس نے پھر توجہ بڑھائی اور شعلے مزید بڑے ہو گئے۔ برف کی قلمیں یکے بعد دیگرے گرنے لگے ار پانی کا ریلا بہنا شروع ہوا۔ اس نے چیخ کر دانیال کو خبردار کیا: ’’خود کو سنبھالو!‘‘
    لمحوں کے اندر اندر وہ دونوں پانی میں مکمل طور پر بھیگ گئے تھے۔ صاف اور برفیلے پانی نے انھیں اس طرح گھیرا جیسے کوئی انھیں زمین یا دیواروں پر پٹخ رہا ہو۔ آگ کی وجہ سے غار میں ٹھنڈا یخ دھواں پھیل گیا تھا۔ برف کے بڑے بڑے تودے ٹوٹ کر نیچے گرنے لگے اور برف کی چھت میں دراڑیں نمودار ہو گئی تھیں، جن روشی چھن کر غار میں آنے لگی تھی۔ روشنی دیکھ کر دانیال خوشی سے چیخ کر بولا: ’’فیونا، تمھارے جادو نے کام کر دکھایا، ہم آزاد ہو رہے ہیں۔‘‘
    جب کرسٹل کو پتا چلا تو دیر ہو چکی تھی، وہ چیخنے چلانے لگی اور برف کے گرتے ٹکڑوں سے خود کو بچاتے ہوئے ادھر ادھر بدحواسی میں اڑنے لگی۔ ’’تم نے میرا گھر برباد کر کے اچھا نہیں کیا، تم یہاں سے باہر نہیں جا سکتی، تم نے یہیں میرے ساتھ رہنا ہے۔‘‘
    اُمڈتے ہوئے پانی کے تیز دھارے نے آخرکار گلیشیئر کی دیواروں کو توڑ دیا اور پہاڑ کے نشیب کی طرف بہنے لگا۔ اس کا رخ بھی اسی طرف تھا جس طرف کچھ دیر قبل پانی کا ایک ریلا گیا تھا۔ گلیشیئر کا سامنے والا حصہ مکمل طور پر گر کر ٹوٹ چکا تھا۔ پانی کی لہر ان تینوں کو بھی اپنے ساتھ اس غار سے باہر نکال کر لے گئی۔
    (جاری ہے……)
  • ایک سو اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    دانیال بڑبڑایا: ’’شفاف پری!‘‘ فیونا بولی: ’’ہیلو کرسٹل فیری، میرا نام فیونا ہے، یہ دانی اور جبران۔ کیا تم یہاں گلیشیئر کے اندر رہا کرتی ہو؟‘‘
    ’’میں یہاں سے بہت دور شمال کی طرف دوسری پریوں کے ساتھ رہا کرتی تھی۔‘‘ ان کے کانوں سے شفاف پری کی آواز ٹکرانے لگی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ پری کی آواز میں دکھ ہے۔ ’’ہم سیر کرنے نکلے تھے کہ ایک دن زبردست طوفان آیا۔ تیز ہوا کے تھپیڑوں نے مجھے زمین پر دے مارا اور میں بے ہوش ہو گئی۔ جب بیدار ہوئی تو خود کو اس گلیشیئر میں قید پایا۔ پتا ہے، میں کتنے عرصے سے یہاں قید ہوں؟ ایک ہزار سال سے!‘‘
    ’’ایک ہزار سال سے!‘‘ تینوں کے منھ سے حیرت کے مارے بہ یک وقت نکلا۔ دانیال ایک طرف سر جھکا کر دیکھنے لگا تاکہ اس کے ننھے پر واضح طور پر دیکھ سکے۔ ’’کیا دوسری پریوں نے تمھیں تلاش نہیں کیا؟‘‘ اس نے پوچھ لیا۔ کرسٹل پری نے جواب دیا کہ ضرور تلاش کیا ہوگا لیکن پھر مایوس ہو گئی ہوں گی۔ اس نے کہا: ’’میں آج تک یہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتی رہی ہوں لیکن مجھے کوئی راستہ نہیں ملا۔ اب تم آ گئے ہو تو راستہ بن گیا ہے۔ یہ جو رنگین قلمیں نظر آ رہی ہیں دراصل یہ میں نے وقت گزاری کے لیے انھیں رنگوں سے سجایا ہے۔ زمین کے اوپر خوش رنگ پھول مجھے بہت یاد آتے ہیں۔ برف کی یہ قلمیں خوب صورت ہیں نا؟‘‘
    اس سے پہلے کہ کوئی جواب دیتا، دانیال نے فیونا کی طرف جھک کر سرگوشی کی کہ اگر یہ سچ مچ میں پری نہ نکلی تو کیا ہوگا، اگر یہ تیسرا پھندا ہوا تو؟ فیونا نے جواباً دانت کچکچائے: ’’بے وقوف مت بنو دانی، یہ پری برف کے گالے کی طرح معصوم ہے۔‘‘
    ’’کیا تم تینوں میرا گھر دیکھنا چاہو گے؟‘‘ وہ غار کے اندر کی طرف اڑتے ہوئے بولی۔ ’کیوں نہیں۔‘‘ جبران جلدی سے بولا: ’’تم بہت پیاری ہو، کیا میں تمھاری تصویر بناؤں؟‘‘
    ’’ہاں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میرے پیچھے آؤ۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ اڑ کر اندر جانے لگی۔ فیونا اور جبران اس کے پیچھے چلنے لگے تو دانیال نے بھی مجبوراً قدم اٹھائے۔ اس نے پھر سرگوشی کی: ’’فیونا، کیا ہم اس پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ کیا پتا یہ تیسرا پھندا ہو اور ہمیں پھنسانے لے جا رہی ہو۔‘‘دانیال پریشانی میں مبتلا ہو گیا تھا، اب اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ برف میں ہمیشہ کے لیے قید ہونے جا رہے ہیں۔ لیکن فیونا ناگواری سے کہنے لگی: ’’دیکھو دانی، کیا کرسٹل کسی شیطان کی طرح نظر آتی ہے؟ کیا وہ ایک پھندا دکھائی دیتی ہے؟ اس نے خود ہی کہا ہے کہ وہ تو ایک ہزار سال سے یہاں قید ہے … بے چاری!‘‘
    کرسٹل انھیں برف کی قلموں کے آس پاس سے گزار کر لے جا رہی تھی، وہاں انھیں مزید جھلملاتے رنگ دکھائی دیے، جو سرخ، زرد اور نارنجی تھے۔ جبران نے ان کی بھی تصویر لی۔ اچانک انھیں اپنے پیچھے کچھ چٹخنے کی آوازیں سنائی دیں۔ دانیال نے جلدی سے مڑ کر دیکھا اور گھبرا کر بولا: ’’فیونا، مڑ کر دیکھو، برف کی دیوار سخت ہو گئی ہے۔ ہم کرسٹل کے برفیلے غار میں قید ہو چکے ہیں!‘‘
    تینوں گھبرا کر اس دیوار کی طرف دوڑ کر گئے اور اسے زور زور سے لاتیں مارنے لگے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ دانیال بڑبڑایا: ’’میں شرط لگا سکتا ہوں یہ کرسٹل کی کارستانی ہے۔‘‘
    جبران پاگلوں کی طرح چلا کر بولا: ’’مارو… اسے زور سے مارو، تاکہ یہ دیوار ٹوٹ جائے۔ ہمیں باہر نکلنے کے لیے اسے توڑنا ہی ہوگا ورنہ یہ غار ہماری قبر بن جائے گا۔‘‘
    فیونا مڑ کر کرسٹل کو آوازیں دینے لگی: ’’کرسٹل فیری، تم کہاں ہو؟‘‘
    جبران نے جھنجھلا کر کہا: ’’تم اسے کیا آوازیں دے رہی ہو، وہ تو غائب ہو گئی ہے۔ میں یہاں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ وہ ایک دم روہانسا ہو گیا اور پھر اچھل اچھل کر برف کی دیوار کو لاتیں مارنے لگا۔ دانیال بھی اپنی کوشش کر رہا تھا لیکن برف کی دیوار ایسی ہو گئی تھی جیسے وہ پتھر کی ہو۔ پھر اس نے ٹھہر کر مایوسی سے کہا: ’’نہیں، یہ نہیں ٹوٹے گی، ہم یہیں مر جائیں گے، میں شروع سے جانتا تھا یہ پری بہت گندی ہے۔‘‘
    فیونا نے کہا: ’’ٹھہرو، ہم اس دیوار کو نہیں توڑ سکتے۔ ہمیں کرسٹل سے بات کرنی ہوگی، کہاں گئی وہ، میں جاتی ہوں اس کے پیچھے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑی۔ جبران بدستور برف کی دیوار پر ضربیں لگا رہا تھا پھر بولا: ’’دانی، تم اسے اپنے بوٹ سے توڑنے کی کوشش کرتے رہو، یہ برف ہے ضرور ٹوٹ جائے گی۔ میں فیونا کے پاس جاتا ہوں، ہو سکتا ہے اس کو مدد کی ضرورت پڑے۔‘‘
    جبران فیونا کے پاس آیا تو وہ کرسٹل سے کہہ رہی تھی: ‘‘کیا مطلب ہے تمھارا، ہم یہاں سے کیوں نہیں جا سکتے؟‘‘
    (جاری ہے۔۔۔)
  • ایک سو ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ستاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    فیونا کی آواز ان دونوں کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’گلیشیئر کے اندر یہ رنگ کہاں سے آئے!‘‘ اس نے برف کی ایک قلم کو چھو کر دیکھا اور پھر بولی: ’’یہ تو برف ہی کی طرح ہے، سرد لیکن رنگ ہلکا سبز دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ جبران نے فوراً کیمرہ نکال کر برف کی رنگین قلموں کی تصویر اتاری اور کیمرہ واپس گلے میں لٹکا لیا۔ فیونا نے اوپر دیکھا تو دراڑ سے روشنی چھن کر اندر آ رہی تھی۔ برف کی قلمیں چونے کے پتھر جیسے سبز، سبز مائل نیلے، نہایت ہلکے سبز رنگ، نیلے آسمانی رنگ، سرخ مائل پیلے رنگ، خاکستری اور جامنی رنگ کی دکھائی دے رہی تھیں۔ سارے ہی رنگ بہت دل کش تھے۔ دانیال اِدھر اُدھر گھوم کر مزید رنگ تلاش کرنے لگا اور جلد ہی اسے ہلکے گلابی اور انگوری رنگ کی قلمیں بھی نظر آ گئیں۔ وہ بولا: ’’یہ نظارہ خوب صورت اور دل کش تو بہت ہے لیکن پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے، میرا دل اچانک گھبرانے لگا ہے۔‘‘
    وہ چپ ہوا تو دونوں میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔ اسے اچانک کچھ یاد آیا تو فیونا کی طرف مڑا۔ ’’فیونا، یاد ہے، میں نے تمھیں تحفے میں ایک نیکلس دیا تھا۔‘‘
    ’’ہاں …‘‘ وہ حیران ہوئی، پھر مسکرا کر شرٹ سے نیکلس نکال کر دکھایا: ’’یہ رہا۔‘‘
    نیکلس دیکھ کر دانیال کی آنکھوں میں سکون اتر آیا۔ ’’پتا ہے، یہ چھوٹا سا چوہا بہت لکی ہے، ہو سکتا ہے ہمیں آج اس کی ضرورت پڑے۔‘‘
    ’’ارے دانی، تم تو برف کے اس غار میں داخل ہونے سے پہلے بہت بہادر بن رہے تھے، اب کیا ہو گیا تمھیں!‘‘ فیونا نے دونوں ہاتھ پہلوؤں میں رکھ کر اسے چھیڑنے کے لیے کہا۔ جبران پاس آ کر بولا: ’’تم دونوں کیا باتیں کر رہے ہو، مجھے تو یہ جگہ بہت جادوئی سی لگتی ہے، کتنی پراسرار جگہ ہے یہ۔‘‘
    فیونا ہنس پڑی۔ ’’جادوئی … پر اسرار … ہاہاہا!‘‘ ہنستے ہنستے وہ گھومی اور پھر یکایک نہ صرف اس کا جسم ایک جگہ ٹھہر گیا بلکہ ہنسی بھی رک گئی۔ وہ دونوں سوالیہ نگاہوں سے اس کی دیکھنے لگے۔ ’’مم … میرے چہرے سے کچھ ٹکرایا تھا ابھی۔‘‘ وہ ہکلا کر بولی۔
    ’’کک … کیا …؟‘‘ دانیال نے بالکل اسی کے انداز میں مذاق اڑایا اور ہنسا۔
    ’’میں مذاق نہیں کر رہی ہوں۔‘‘ فیونا واقعی سنجیدہ نظر آ رہی تھی۔ ’’دیکھو، دیکھو!‘‘ وہ اچھل کر بولی۔ ’’ابھی میرے سامنے سے کچھ گزرا ہے، کیا تم دونوں نے نہیں دیکھا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں پریشانی کی جھلک نمایاں ہو گئی تھی۔
    ’’ارے ہاں، میں نے بھی دیکھا۔ یہ تو کسی پری کی طرح تھی۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا: ’’میرا خیال ہے ہمیں یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے اب۔ میں نے اندر آنے سے پہلے کہا تھا کہ کوئی عجیب بات ہو جائے تو غار سے نکلیں گے۔‘‘
    ’’یہ تم دونوں کیا پری پری کر رہے ہو۔ گلیشیئر کے اندر پری کہاں سے آ گئی؟‘‘ دانیال کو لگا وہ دونوں مذاق کر رہے ہیں۔
    ’’اُدھر دیکھو، وہ کیا ہے؟‘‘ جبران نے ایک طرف اشارہ کیا اور تینوں ایک قطار میں کھڑے ہو کر اُس طرف دیکھنے لگے۔ ان کے سامنے ہوا میں ایک ننھی پری اپنے برف ایسے پر پھڑپھڑا رہی تھی، اور اس پھڑپھڑاہٹ سے ہلکی ہلکی آواز پیدا ہو رہی تھی۔
    ’’برف کی پری!‘‘ دانیال کے منھ سے ایسے نکلا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ ’’اف میرے خدا، برف کی بھی پری ہوتی ہے، اور ایسے ہوتی ہے!‘‘
    وہ دیکھ رہے تھے کہ پری خود بھی سفید تھی اور اس کے کپڑے اور لمبے بال بھی سفید اور چمک دار تھے۔ اس کے سر پر برف سے بنا ایک ننھا سا چمک دار تاج سجا ہوا تھا۔ وہ اڑ کر ان کے قریب آئی اور پھر انھیں پری کی آواز سنائی دی: ’’میرا نام کرسٹل فیری ہے۔‘‘
    وہ تینوں ایسے چونکے جیسے خواب سے جاگے ہوں۔
    (جاری ہے۔۔۔)
  • جی 20 یا مودی کا ’سفارتی ورلڈ کپ‘ جس میں خطے کے دو اہم پلیئرز نے شرکت سے انکار کیا

    جی 20 یا مودی کا ’سفارتی ورلڈ کپ‘ جس میں خطے کے دو اہم پلیئرز نے شرکت سے انکار کیا

    سیاست میں نہایت متعصبانہ اور متشدد نظریہ رکھنے والے بھارتی ہندو رہنما نریندر دامودرداس مودی ایک طرف ’انڈیا‘ کا نام ’جمہوریہ بھارت‘ سے بدلنا چاہتے ہیں، دوسری طرف خطے میں سفارتی طاقت کے حصول کے بھی شدت سے متمنی ہیں۔

    نئی دہلی میں آج ہفتہ 9 ستمبر سے شروع ہونے والے جی 20 اجلاس نے یکایک مودی کو عالمی سطح پر نمایاں کر دیا ہے، اسی لیے اسے مودی کا ’سفارتی ورلڈ کپ‘ بھی قرار دیا جا رہا ہے، جس میں خطے کے دو اہم پلیئرز نے شرکت سے انکار کر دیا ہے، تاہم امریکی صدر اور سعودی ولئ عہد اور وزیر اعظم کی شرکت بلاشبہ اہم واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

    گزشتہ 40 برسوں میں یہ بھارت کا ایک بڑا سفارتی ’میچ‘ ہے، جس میں عالمی رہنما شرکت کر رہے ہیں اور جس نے مودی سرکار کو خبروں کی زینت بنا دیا ہے، پچھلی بار 1983 میں نئی دہلی میں دولت مشترکہ کا سربراہی اجلاس اور غیر وابستہ ممالک کی تحریک (NAM) کے اجلاس کا انعقاد ہوا تھا۔

    مہینوں کی تیاری کے بعد 19 ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل اس ’’گروپ آف ٹوینٹی‘‘ کے اجلاس کا انعقاد تو عمل میں آ گیا ہے، اور اگر چہ اس کا اپنا ایک ایجنڈا ہے، جس میں موسمیاتی مالیات اور قرضوں کی معافی سے لے کر فوڈ سیکیورٹی اور صحت عامہ تک سب کچھ شامل ہے، تاہم مودی سرکار کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی سفارتی طاقت کا مظاہرہ کرے۔

    تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو ایسی عالمی توجہ اور کسی صورت نہیں مل سکتی تھی، جتنی توجہ انھیں اس سمٹ کے ذریعے مل رہی ہے، جس میں انھیں یہ ہدف ملا ہے کہ وہ گروپ کے لیے اگلے برس کے ایک روڈ میپ کی خاطر تمام ممالک کو سربراہی اجلاس کے اختتام پر کسی مشترکہ معاہدے پر راضی کرے۔

    اس گروپ کے اجلاس کی میزبانی ملنا بلاشبہ بھارت اور بالخصوص مودی سرکار کے حق میں ایک لاٹری جیسا ہے، لیکن کیا واقعی یہ لاٹری جیسا غیر متوقع عمل ہے؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اگرچہ مودی سرکار سفارتی طاقت سے مدہوش نظر آ رہے ہیں، اور طاقت کی اس فراوانی میں انھوں نے دارالحکومت نئی دہلی کو ایک چھاؤنی میں بدل ڈالا ہے، کچی آبادیاں خالی کرا دیں، اسکول اور دفاتر بند کر دیے، سڑکوں پر دکانیں بند کروائی گئیں، اور انسان تو انسان، مودی سرکار کے ’مضطربانہ‘ اقدامات کی زد میں بندر اور کتے بھی آ گئے، اور انھیں شہر میں نکلنے پر ’پابندی‘ عائد کر دی گئی۔ اس سب کے باوجود یہ سارا عمل ایک بڑے علاقائی تزویراتی صورت حال کی غمازی کر رہا ہے۔

    اگر ایک طرف نریندر مودی کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ شہر میں ہر سڑک اور چوراہے پر بڑی بڑی تصاویر میں وہ نمایاں ہو رہے ہیں تو دوسری طرف امریکا اور یورپ کی نگاہیں اس وقت اس خطے کی بدلتی سیاسی اور تزویراتی صورت حال پر مرکوز ہیں۔ جس میں گزشتہ برس کے روس کے یوکرین پر حملے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس تناظر میں جی ٹوینٹی سمٹ میں امریکی و یورپی رہنماؤں کی ذوق و شوق سے شرکت ایک واضح معنی کی حامل ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ طاقتیں اب بھارت کے ذریعے خطے کی سیاست اور روس اور چین جیسی طاقتوں پر اثر انداز ہونا چاہتی ہیں۔

    چناں چہ، مودی سرکار جتنی خوش ہو رہی ہے، اتنا یہ معاملہ اس کے لیے اتنا بھی آسان نہیں ہے۔ یہ سربراہی اجلاس مودی کے لیے دو دھاری تلوار کی مانند ہے، کیوں کہ خود اس گروپ میں ایک گہری تقسیم پیدا ہو چکی ہے، جس میں متعدد طاقتوں کے اپنے مسابقتی ایجنڈے ہیں۔ اسی طرح یوکرین جنگ نے بھارت کو ایک مشکل دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے، جب امریکا اور برطانیہ کی جانب سے بھارت پر شدید دباؤ تھا، تب اس نے یہ دباؤ مسترد کرتے ہوئے روس سے سستے تیل کی خریداری کا اٹل فیصلہ کیا۔ اس تناظر میں یہ سوال بہت نازک ہے کہ کیا اتوار کو مودی سرکار کسی مشترکہ معاہدے پر پہنچ سکے گی، یا مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں ناکام رہنے والا یہ پہلا G20 سربراہی اجلاس بن جائے گا؟

    اس تناظر کو دیکھا جائے تو اقلیتوں کے حوالے سے مودی سرکار کی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید کی آوازیں شاید ہی تشریف لانے والے عالمی رہنماؤں تک پہنچ سکیں۔ بھارت کی ممتاز صحافی اور عالمی شہرت یافتہ ناول نگار ارون دھتی رائے نے عین موقع پر یہ انتہائی اہم آواز اٹھائی ہے کہ ’’عالمی سربراہان جی ٹوینٹی میں شرکت تو کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا ’’بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر عالمی سربراہان کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ منی پور میں اقلیتی برادری کے ساتھ ہونے والے مظالم پوری دنیا نے دیکھ لیے، خواتین کو سرعام برہنہ کر کے اور تشدد کیے جانے کی آئے دن ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارتی افواج نے وادی کو ایک بدترین چھاؤنی میں بدلا، اور عالمی تنظیموں نے اس پر آواز اٹھائی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اقلیتوں کے لیے جہنم کا روپ بنے بھارت کے اس پہلو سے عالمی رہنما نگاہیں پھیر کر روس اور چین کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کو توجہ دیں گے۔

    امریکا اور یورپی ممالک کا فی الوقت ایک ہی ایجنڈا ہے کہ وہ روس کو کسی طرح قابو کر سکیں، یہی کوشش انھوں نے پچھلی بار انڈونیشیا کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کی، اگرچہ مشترکہ اعلامیہ تو جاری ہوا لیکن روسی حملے پر مکمل اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ بھارت چوں کہ اس وقت خطے میں اپنی بڑھتی ہوئی سفارتی طاقت دکھانے کی کوششیں کر رہا ہے، اس لیے عالمی رہنماؤں کی کوشش ہے کہ وہ مودی سرکار کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلا دیں اور اس معاملے پر مکمل اتفاق رائے پیدا کر دیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ سرے سے مشترکہ اعلامیہ ہی جاری نہ ہو، جو عالمی رہنماؤں کی بڑی ناکامی ہوگی۔

    بلاشبہ مودی سرکار اس اجلاس کو آئندہ انتخابات کے لیے سیاسی مہم کے طور پر کیش کر رہے ہیں، لیکن عالمی رہنما اپنی کوشش کی ناکامی کے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے بھی کیا انسانی حقوق کی شدید پامالی پر مبنی بھارت کے اندرونی حالات سے آنکھیں بند کرنا ضروری سمجھیں گے؟

  • ایک سو چھپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    انھوں نے دیکھا، دانیال نے سوراخ سے سر نکال کر انھیں چیختے ہوئے پکارا تھا: ’’دیکھو، یہ برف کتنا نیلا ہے، اور یہاں صرف پتھر اور درختوں کے ٹکڑے ہیں، آ جاؤ تم دونوں بھی۔‘‘

    ’’اوہ دانی، تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی۔‘‘ فیونا نے مٹھیاں بھینج کر غصے سے کہا اور دانیال دانت نکال کر ہنسنے لگا۔ فیونا اندر سے جانے سے جھجھک رہی تھی، بڑبڑا کر بولی کہ پتا نہیں اندر جانا ٹھیک ہوگا یا نہیں۔ جبران نے کہا: ’’ہم بھی اندر چلتے ہیں اگر کچھ پیش آتا ہے یا کوئی عجیب آواز سنائی دیتی ہے تو فوراً وہاں سے نکل آئیں گے۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، ہم ایسا ہی کریں گے۔‘‘ فیونا نے کہا اور وہ دونوں بھی اندر داخل ہو گئے۔ اندر نیلی برف کا نظارا دیکھ کر ان دونوں کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ جبران کے ہونٹ ہلنے لگے: ’’دانی، تم نے ٹھیک کہا تھا، یہ بہت زبردست ہے۔‘‘ پھر جبران نے وہاں موجود پتھروں اور درختوں کی شاخوں کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ گلیشیئر پہاڑوں سے پھسل کر نیچے آتے ہیں اور راہ میں آنے والی ہر شے کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اچانک فیونا بولنے لگی، اور اس کی آواز میں خوف تھا: ’’یہ تو بالکل غار جیسا ہے، ایک بہت بڑا غار۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ غار کا ہمارا تجربہ کبھی ٹھیک نہیں رہا ہے، چاہے وہ پتھر کا ہو یا برف کا، ہے تو غار ہی نا، اس لیے ہمیں یہاں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ لیکن دانیال اور جبران نے اس بار اس کی بات کو ان سنی کر دیا۔ جبران اکیلے ادھر ادھر مختلف کونوں اور دراڑوں میں گھس کر دیکھنے لگا، ایسے میں اس کی آنکھوں کے سامنے کوئی چیز چمکی۔
    ’’اوہ یہ کیا ہے؟‘‘ وہ اس چمک کے پیچھے جانے لگا لیکن پھر اس کے قدم رک گئے۔ سامنے برف کی شفاف دیوار تھی مگر برف کی اس دیوار پر ٹوٹنے جیسے بے شمار نشان نظر آ رہے تھے۔ جیسے اندر جمع شدہ پانی نے ٹکرا ٹکرا کر اسے توڑنے کی ناکام کوشش کی ہو۔ اس نے مڑ کر کہا: ’’دانی، فیونا، یہاں آ کر دیکھو، میرے خیال میں اس دیوار کے پیچھے ضرور کچھ ہے!‘‘
    دانیال تو فوراً اس کی طرف دوڑ پڑا تاہم فیونا جھجھک رہی تھی، وہ اندھا دھند اس کی طرف نہیں جانا چاہ رہی تھی۔ اسے دانیال کی آواز سنائی دی، وہ کہہ رہا تھا: ’’اس میں کیا خاص بات ہے، میں نے ایک بار ایک کار کا حادثہ دیکھا تھا، اس کے وَنڈ اسکرین پر بھی اسی طرح مکڑی کے جالے کی طرح جال بن گیا تھا۔‘‘
    اچانک فیونا نے کہا: ’’تم دونوں نے محسوس کیا، یہاں زیادہ سردی نہیں ہے، یہ جگہ گرم سی کیوں ہے؟‘‘ لیکن جبران نے اس کی بات نظر انداز کر دی اور اپنی بات دہرائی: ’’میں نے یہاں کسی چیز کو چمکتے دیکھا تھا، یہاں کچھ ہے۔‘‘
    فیونا بولی کہ شاید برف کی یہ دیوار آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہے، اور چوں کہ یہاں سے پانی نکل چکا ہے اس لیے اب یہ جگہ زیادہ ٹھنڈی بھی نہیں رہی ہے۔ اس نے برف کی دیوار کو انگلی سے چھو کر دیکھا۔ دانیال نے ہاتھ سے دباؤ ڈالنے کے لیے کہا، وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ دیوار ٹوٹے گی یا نہیں۔ فیونا نے بھی بغیر سوچے سمجھے دونوں ہتھیلیاں برف کی دیوار پر ٹکا کر زور سے دھکا دے دیا۔ اسے ایک جھٹکا لگا اور وہ بے اختیار اچھل کر پیچھے ہٹ گئی کیوں کہ برف کی دیوار یکایک ٹوٹ گئی تھی، اور برف کے چھوٹے چھوٹے ہزاروں ٹکڑے گر کر بکھر گئے۔ وہ چند لمحے برف کی ٹوٹی دیوار کی طرف دیکھتی رہی، پھر قدم اٹھا کر اندر چلی گئی۔ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ اندر برف کی چھت سے برف کی بڑی بڑی نوکیلی قلمیں لٹک رہی تھیں جو ہلکے زرد رنگ کی تھیں لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ایک دوسرے سے مختلف رنگ ہوں۔
    تینوں حیرت سے برف کے اندر اس جہانِ حیرت کو دیکھنے لگے۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو ترپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو ترپن ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    اس سے پہلے کہ ان کے قدم دوڑے کے لیے حرکت میں آتے، گلیشیئر کا ایک بہت ٹکڑا ان سے چند قدم کے فاصلے پر دھم سے آ گرا اور وہ تینوں خود کو اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بچا نہیں پائے۔ انھیں ایسا لگا جیسے انھیں پتھر آ کر لگے ہوں۔ ’’بھاگو، جان بچاؤ، ورنہ ہم یہیں دفن ہو جائیں گے۔‘‘ فیونا چلا کر بولی۔
    تینوں تکلیف کے باوجود دوڑنے لگے۔ برف ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگی تھی اور وہ دہشت سے آنکھیں پھاڑے ان سے بچ بچ کر کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہو رہے تھے اور برف کے تودے ان کے دونوں طرف گر رہے تھے۔ ایک جگہ انھیں اپنے قدم روکنے پڑ گئے، انھوں نے دیکھا کہ وہ برف کے دو بڑے تودوں کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ سامنے نکلنے کا تنگ راستہ تھا۔ وہ امید کا دامن تھام کر اس طرف لپکے۔ ایسے میں برف ٹوٹنے کی ایک اور دہشت ناک آواز سنائی دی، اس کے ساتھ ہی وہ واپس مڑے لیکن راستہ بند ہو چکا تھا۔ ابھی وہ آنے والی آفت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ گلیشیئر کی منجمد دیوار یک لخت پھٹ گئی اور ٹھنڈے یخ پانی کی ایک لہر ان پر چڑھ دوڑی۔
    ’’یہ پانی کہاں سے آیا؟‘‘ دانیال کی آواز میں خوف اور حیرت دونوں تھے۔ جبران جلدی سے بولا: ’’جہاں سے بھی آیا ہو، چلو راستہ تو بن گیا۔‘‘ جبران جلدی سے اس راستے کی طرف بڑھا لیکن فیونا نے لپک کر اسے بازو سے پکڑ لیا اور اسے گلیشیئر کے ایک بڑے تودے کی طرف کھینچتی ہوئی لے گئی۔ دانیال بھی جلدی سے تودے پر چڑھا۔ پانی کا تند و تیز ریلا بڑے بڑے پتھر لڑھکاتا ہوا نیچے جانے لگا۔ فیونا نے اپنی سانسوں پر قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’میں بتاتی ہوں کہ یہ پانی کہاں سے آ رہا ہے۔ پہلے اس تودے کے سب سے اوپری سرے پر چڑھتے ہیں۔ جبران تم تو موت کے منھ میں گرنے جا رہے تھے۔‘‘
    جب تینوں مزید اوپر چڑھ رہے تھے تو جبران کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا تھا۔ موت کا نام سن کر اس کی زبان حرکت کرنا ہی بھول گئی تھی۔ دانیال نے بہ مشکل کہا: ’’یہ کک … کیا ہو رہا ہے؟ مم … مجھے لگ رہا ہے کہ آج ہم زندہ نہیں نکل سکیں گے۔‘‘
    ’’مایوسی کی باتیں مت کرو دانی۔‘‘ فیونا ٹھنڈ سے ٹھٹھرتے ہوئے بولی۔ تینوں کے دانت بج رہے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس بار ان کا سامنا برفیلی آفت سے ہوگا۔ ایک ایسی آفت جس کا کوئی علاج انھیں نہیں سوجھ رہا تھا۔
    فیونا کہنے لگی: ’’شَین نے کہا تھا کہ کبھی کبھی گلیشیئر دریا کے اوپر ایک ڈیم بنا دیتا ہے۔ یہ ڈیم گلیشیئر کے نیچے آہستہ آہستہ ایک بہت بڑی جھیل کی صورت اختیار کر لیتا ہے، پھر جب دباؤ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو یہ پھٹ پڑتا ہے، جس طرح ابھی یہ پھٹا ہے۔ اگر جبران اس راستے کی طرف چلا جاتا تو پانی کا خوف ناک ریلا اسے بہا کر لے جاتا۔‘‘
    ’’لیکن یہ ریلا اب جا کہاں رہا ہے؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔
    ’’معلوم نہیں، دریائے ڈنجِک یا دریائے یوکان میں، لیکن جب یہ ریلا ان میں سے کسی بھی دریا سے ٹکرائے گا تو اس وقت وہاں کوئی نہ ہو، ورنہ لوگوں کی جانیں جانے کا خطرہ ہے۔‘‘ فیونا فکرمندی سے بولی۔
    ’’کیا یہ پانی اسی طرح بہتا رہے گا؟‘‘ بڑی دیر بعد جبران نے زبان کھولی۔ اس کی نظریں اب بھی پھٹی ہوئی برفیلی دیوار سے نکلتے پانی پر جمی ہوئی تھی۔
    ’’ہمیں کچھ دیر تک تو انتظار کرنا پڑے گا، کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔ وہ تینوں برف کی ایک بہت بڑی سِل کے سب سے اونچے سرے پر جا کر نیچے دیکھ رہے تھے۔ جہاں سے برف کی دیوار ٹوٹی تھی وہاں سے کچھ دیر تک پانی ریلا نکل کر نیچے بہتا رہا، پھر دھیرے دھیرے پانی نکلنا بند ہوا تو وہاں ایک جوہڑ بن گیا، جس میں پتھر اور برف کے ٹکڑے رہ گئے تھے۔
    ’’چلو اس سوراخ سے گلیشیئر کے اندر چلتے ہیں۔‘‘ دانیال بولا: ’’میرے خیال میں آج تک کوئی بھی گلیشیئر کے اندر نہیں گیا ہوگا، فوٹوگرافی بھی کر لیں گے۔‘‘
    ’’نہیں میرا خیال ہے کہ ہمیں اندر نہیں جانا چاہیے، اگر گلیشیئر ہمارے سروں پر آ گرا تو …‘‘ جبران نے نفی میں سر ہلایا۔
    ’’ڈرو مت، اوپر سے ہم پر برف نہیں گرے گی، یہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔‘‘ دانیال نے اس بار بہادر بنتے ہوئے کہا۔ لیکن فیونا نے اسے یاد دلایا کہ کیا پتا تیسرا پھندا اس کے اندر ہی ہو۔
    ’’ٹھیک ہے، تم دونوں یہیں ٹھہرو، میں اندر جا کر دیکھتا ہوں۔‘‘ دانیال نے کہا اور برف کی سِل سے نیچے اترا۔ وہ دونوں حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ دانیال واقعی بہادر دکھائی دے رہا تھا۔ جب وہ جوہڑ سے گزرا تو اس کے بوٹ گندے ہو گئے، نیچے اچھی خاصی کیچڑ بن گئی تھی جس سے اس کے بوٹ بھاری ہو گئے تھے۔ وہ برف کی دیوار میں بنے سوراخ کے پاس پہنچا تو اس نے دندانے دار ٹکڑے دیکھے جو شیشے کی نوکیلی کرچیوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ یہ برف کے ٹکڑے تھے، اگر ان میں سے کوئی ٹکڑا گر کر کسی کے جسم پر لگتا تو یقیناً تیر کی طرح آر پار ہو سکتا تھا۔ سوراخ اتنا بڑا تھا کہ تین آدمی اندر بہ یک وقت داخل ہو سکتے تھے۔ اندر داخل ہونے سے پہلے دانیال نے سوراخ کے کناروں پر بوٹ رگڑ کر صاف کیے اور پھر وہ اندر داخل ہو گیا۔ انھوں نے اوپر سے دیکھا کہ دانیال نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ فیونا اور جبران کے دلوں کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ ان کی آنکھوں میں خوف اتر آیا تھا۔ انھیں لگا، ابھی دانیال کی چیخ سنائی دے گی، اور پھر چند سیکنڈز کے بعد ہی اس کی چیخ سنائی دی، جسے سن کر ان کے دل زور سے دھڑکے۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو باون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو باون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    زمرد کو دیکھ کر تینوں کے چہرے خوشی سے دمکنے لگے تھے، فیونا نے انھیں بتایا کہ اس نے نوکیلے دانتوں والے ٹائیگر کے ساتھ کیا کیا، انھیں اب جلدی اس جگہ جانا تھا جہاں انھوں نے شَین کو چھوڑا تھا، ایسے میں فیونا قیمتی پتھر پر سے جمی برف ہٹانے لگی۔ انھوں نے اسے بغور دیکھا، نیلی برف کے اندر سبز زمرد جھلک رہا تھا۔ جبران نے کیمرہ نکال کر اس کی تصویر لی۔ فیونا نے ایک پتھر کی مدد سے برف توڑنے کی کوشش کرنے لگی تو دانیال نے اس کے ہاتھ سے زمرد لے کر کہا: ’’ارے تم اس برف کو آگ کے ذریعے پگھلا کیوں نہیں دیتی، یہ زیادہ آسان ہے۔‘‘
    فیونا نے اثبات میں سر ہلا دیا، اس کے بعد اُس نے آنکھیں بند کر کے آگ کا تصور کیا اور قریب پڑے ایک بڑے سے پتھر پر اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ یہ جادوئی آگ تھی۔ دانیال اب ایسے جادو کا عادی ہو گیا تھا اس لیے حیرت کا اظہار نہیں کیا اور جلدی سے اس نے برف کا چھوٹا سا گولا آگ میں ڈال دیا۔ چند ہی سیکنڈ میں برف پگھلی اور انھوں نے مل کر ہاتھوں میں بھری ہوئی برف آگ پر ڈال کر اسے بجھا دیا، جس کے لیے وہ پہلے سے تیار تھے۔ آگ بجھی تو فیونا نے زمرد اٹھا کر دیکھا اور کہا: ’’دیکھو کتنا خوب صورت ہے۔‘‘
    جبران نے انھیں یاد دلایا کہ اب واپس چلنا چاہیے کہیں شین نہ آ جائے۔ وہ تینوں جیسے ہی قدم اٹھانے لگے دانیال نے رک کر کہا: ’’ٹھہرو ذرا، یہ سب کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ تم دونوں باقی دو پھندوں کو شاید بھول گئے ہو، ہم خطرے سے ابھی نکلے نہیں ہیں۔‘‘
    یہ سن کر ان دونوں کے اٹھتے قدم بھی رک گئے۔ وہ دونوں دانیال کو پھٹی آنکھوں سے ایسے دیکھنے لگے جیسے یہ سب کچھ اسی کا کیا دھرا ہو۔
    ’’میں نے کیا کیا ہے؟ تم دونوں مجھے کیوں گھور رہے ہو؟‘‘ فیونا نے اچانک آنکھیں نکال کر کہا: ’’تم شیطان جادوگر ہو … میں نے تمھیں پہنچان لیا ہے … یہ سب تم کر رہے ہو!‘‘
    ’’مم … میں … یہ … تت … تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ دانیال حیرت اور صدمے کے مارے ہکلانے لگا۔ فیونا اور جبران اس کی یہ حالت دیکھ کر یکایک قہقہے لگانے لگے۔ دانیال پہلے تو کچھ نہیں سمجھا، پھر جیسے ہی سمجھ میں آیا، چیخ پڑا۔
    ’’شیطانو، تم میری پھرکی لے رہے تھے، میں تم دونوں کو نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مٹی میں برف لے کر ان کی طرف پھینکنے لگا۔ وہ دونوں اس سے دور بھاگنے لگے لیکن اچانک کچھ ٹوٹنے اور چٹخنے کی واضح آوازیں سن کر تینوں اپنی اپنی جگہ جم گئے۔ اور ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ پھر جبران سب سے پہلے چیخا: ’’خود کو بچاؤ … برف ٹوٹنے لگی ہے!‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اکیاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکیاون ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    فیونا نے دماغی رابطے کے ذریعے ٹائیگر کو مخاطب کیا: ’’ٹائیگر، اسے مت کھاؤ، وہ تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘ ٹائیگر دانیال کو چھوڑ کر فیونا کی طرف مڑا اور شعلہ بار نظروں سے اسے گھورنے لگا۔ جبران سے رہا نہ گیا، اس نے ایک بار پھر مداخلت کی: ’’فیونا کیا تم اس سے باتیں کر رہی ہو۔‘‘
    ’’ہاں، لیکن تم ذرا چپ رہو۔‘‘ فیونا نے کہا اور پھر ٹائیگر کو مخاطب کیا: ’’ہم تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتے اور نہ تم ہمیں نقصان پہنچاؤ۔ ہمیں صرف زمرد چاہیے اور میں جانتی ہوں کہ وہ یہاں گلیشیئر کے اندر ہے۔‘‘
    ’’اور میرا کام تمھیں اسے حاصل کرنے سے روکنا ہے۔‘‘ ٹائیگر نے غرا کر جواب دیا۔ ’’مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ فیونا کو اپنے دماغ کے اندر اس کی آواز گونجتی محسوس ہوئی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس نے ایک لمبا عرصہ انتظار کیا، اب آخرکار کوئی تو اس کی تلاش میں آ گیا ہے۔ فیونا نے بتایا کہ زمرد جس شخص نے چھپایا تھا وہ اس کا دوست ہے اور اسی نے بھیجا ہے، کیوں کہ کچھ شیطان قسم کے لوگ بھی اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اب وہ یہ قیمتی پتھر دنیا بچانے کے لیے نکالنے آئے ہیں۔
    فیونا کی باتیں نوکیلے دانتوں والے اس عظیم الجثہ درندے کو احمقانہ لگیں، اس نے کہا: ’’تم تو محض بچے ہو، اور دنیا کو بچانے کی باتیں کر رہے ہو۔‘‘
    فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے ہم بچے ہیں لیکن اگر تم اپنے دل سے پوچھو تو تمھیں جواب ملے گا کہ میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔‘‘ ٹائیگر آہستگی سے ان کے قریب آیا، جبران پر گبراہٹ طاری ہو گئی اور بولا: ’’فیونا یہ درندہ ہمیں کھانے آ رہا ہے، ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے۔‘‘
    فیونا نے سرگوشی کی: ’’چپ چاپ کھڑے رہو، حرکت بالکل مت کرنا، پلکیں بھی مت جھپکانا، بس زمین کی طرف دیکھتے رہو اور اس کی طرف توجہ مت کرو۔‘‘
    ٹائیگر تنگ آ کر بولا: ’’بہت باتیں ہو گئیں، مجھے حکم دیا گیا تھا کہ ہر حال میں قیمتی پتھر کی حفاظت کروں۔ میں کسی کو بھی اس کے قریب آنے نہیں دوں گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے، اور میں تمھیں بھی اسے لے جانے نہیں دوں گا۔‘‘
    یہ سن کر فیونا کا دماغ تیزی سے کوئی ترکیب سوچنے لگا۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ ٹائیگر ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے۔ اس دوران ٹائیگر ایک جست کے ساتھ جبران کے سامنے آیا اور اپنا بڑا سا منھ کھولا۔ فیونا کے لیے مزید سوچنے کا وقت نہیں رہا تھا، اس نے اپنی جسامت بڑھائی اور ذرا سی دیر میں دیو قامت بن گئی۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹائیگر کو گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور اپنے چہرے کے قریب لا کر بولی: ’’میں تمھیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتی کیوں کہ میں دوست ہوں، مجھے زمرد حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور تم نے مجھے یہ کرنے پر مجبور کیا۔ پھر بھی میں تمھیں جان سے نہیں ماروں گی لیکن تمھیں یہاں سے بہت دور لے جاؤں گی۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ جبران اور دانیال کی طرف جھک کر بولی: ’’تم دونوں زمرد کھود کر نکالو، میں ٹائیگر کو بہت دور لے جا کر چھوڑ دوں گی اور کچھ ہی دیر میں لوٹ آؤں گی۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ اسے لے کر گلیشیئر کی بلندی پر چلی گئی۔ وہاں اس نے ٹائیگر کو چھوڑ کر کہا:’’مجھے قیمتی پتھر ضرور حاصل کرنا ہے کیوں کہ بہت سارے لوگ خطرے میں پڑ جائیں گے، تم ایسا کرو کہ طرف کے زمانے میں لوٹ جاؤ، میں اس آئس ایج کی بات کر رہی ہوں جس سے تمھارا تعلق ہے۔‘‘
    لیکن ٹائیگر غصے کے مارے گرج رہا تھا اور بے بس تھا۔ وہ اسے وہاں چھوڑ کر واپس آئی تو ان دونوں نے ابھی وہ جگہ نہیں کھودی تھی۔ فیونا نے دونوں کو وہاں سے ہٹا کر زور سے ایک ہاتھ مارا اور برف توڑ دی۔ جب اس نے برف کے اندر سے ہاتھ باہر نکالا تو زمرد اس کی انگلیوں میں دبا ہوا تھا اور وہ پھر نارمل قد و قامت میں آ گئی۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو پچاس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پچاس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں اور دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا جیسے کسی بھی لمحے سینہ توڑ کر باہر نکل پڑے گا۔ اس نے تھر تھر کانپتے ہوئے دھیرے دھیرے گھوم کر دیکھا۔ اس کے اور ان دونوں کے درمیان نوکیلے دانتوں والا قدیم ٹائیگر کھڑا تھا۔ اتنا بڑا ٹائیگر اس نے کبھی تصویر میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ایک چھوٹی کار جتنا تھا اور اس کے جسم پر سیاہ اور نارنجی دھاریاں تھیں۔ اس کے سفید چمکتے دانت پینسل جتنے لمبے تھے اور اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکلتے محسوس ہوتے تھے۔
    ایک بار پھر وہ زبردست گرج کے ساتھ غرایا۔ اس کا رخ فیونا اور جبران کی طرف تھا، وہ دونوں بھی پلٹ کر اسے دیکھنے لگے تھے۔ جبران کی ٹانگیں واضح طور پر کانپ رہی تھیں، فیونا کے ہاتھ سے بھی کدال گر گیا تھا اور اسے اس کا پتا بھی نہیں چلا، وہ تو دہشت زدہ ہو کر سیبر ٹوتھ ٹائیگر کو ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ ’’ہم م م م… خط … رے …‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن زبان نے ساتھ نہیں دیا۔ وہ اس سے قبل کبھی اتنی دہشت زدہ نہ ہوئی تھی۔ پھر ٹائیگر نے ان کی طرف چند قدم بڑھائے اور جبران فیونا کی طرف کھسک گیا۔ اس کے منھ سے نکلا: ’’تت … تم ٹائیگر کی آنکھوں میں مت دیکھو۔ مم … میں … نے کہیں پڑھا تھا کہ ٹائیگر اپنی آنکھوں کے ذریعے لوگوں کو جکڑ لیتے ہیں، اگر تم آنکھیں نہیں ملاؤ گی تو یہ حملہ نہیں کرے گا۔‘‘
    اس دوران فیونا نے خود کو کسی حد تک سنبھال لیا تھا، اس لیے وہ جبران کی بات پر جھنجھلا کر بولی: ’’لگتا ہے ٹائیگر کو دیکھ کر تمھاری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے، اگر میں اس کی طرف دیکھوں گی نہیں تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ وہ کب حملہ کر کے ہماری تِکا بوٹی کرنے آ رہا ہے!‘‘
    ’’فف … فیونا … جلدی کرو، تمھارے پاس قوتیں ہیں، تم آگ سے اس پر حملہ کر دو۔‘‘ جبران اس کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ لیکن فیونا نے کہا کہ آگ روشن ہونے سے ٹائیگر دانی کی طرف مڑ سکتا ہے۔ جبران نے اگلا مشورہ دیا کہ اپنی جسامت بڑھا کر اسے دم سے پکڑ کر دور پھینک دو۔ فیونا نے اس پر اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔ اس نے سوچا کیوں کہ ٹائیگر سے بات کی جائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ٹائیگر اچانک مڑا اور دانیال کی طرف دوڑ پڑا۔ جبران نے جبلی طور پر اطمینان کی سانس لی کیوں کہ خطرے کا رخ اب کسی اور کی جانب تھا، لیکن پھر وہ دانیال کی طرف چلا کر بولا: ’’دانی بھاگو۔ یہ تمھیں کھا جائے گا۔‘‘ لیکن دانیال نے جب ٹائیگر کو اپنی طرف رخ کرتے دیکھا تو وہ بھاگنا ہی بھول گیا۔ پتا نہیں ایک دم اسے کیا ہوا، زندگی بچانے کی بے پناہ خواہش اور قوت کی وجہ سے اسے ترکیب سوجھ گئی، اور اس نے خود سے کہا: ’’دانی، مر جاؤ!‘‘
    فیونا اور جبران دیکھ رہے تھے کہ ٹائیگر کسی بھی لمحے دانیال کے قریب پہنچ پر اس پر چھلانگ دے مارے گا لیکن وہ چونک اٹھے۔ دانیال اچانک برف پر گر پڑا تھا۔ دونوں حیرت میں پڑ گئے۔ جبران کے منھ سے گھبراہٹ میں نکلا: ’’یہ … یہ دانی کو کیا ہو گیا!‘‘
    ’’ٹھہرو۔‘‘ فیونا پوری توجہ سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ ٹائیگر اس کے پاس پہنچ کر رک گیا اور اپنی تھوتھنی سے دانیال کو ایک ٹہوکا مارا۔ وہ شاید دیکھنا چاہ رہا تھا کہ دانیال زندہ ہے یا مر گیا۔ دوسری طرف دانیال کو اس کی تھوتھنی سے اٹھنے والی بدبو محسوس ہوئی اور اس نے سمجھا کہ یہ اس کا آخری وقت ہے، اور وہ اللہ کو یاد کرنے لگا۔ ایسے میں جبران نے بے اختیار ہو کر فیونا کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا: ’’تم کچھ کرتی کیوں نہیں ہو، وہ دانی کو کھا جائے گا۔‘‘
    فیونا چپ چاپ ٹائیگر کو دیکھے جا رہی تھی، اس کے ہونٹ بند تھے لیکن آنکھیں چمک رہی تھیں، جیسے وہ کچھ کہہ رہی ہو۔ جبران اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
    (جاری ہے)