Author: رفیع اللہ میاں
-
ایک سو اڑتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
دریائے ڈِنجک تک جانے والی سڑک سانپ کی مانند بل کھاتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ شَین نے انھیں سینٹ الیاس پہاڑی سلسلے اور کینیڈا کی اونچی چوٹی ماؤنٹ لوگان کے بارے میں بتایا، پھر کہا: ’’میں نے تمھارے سامان میں چھوٹے کیمرے بھی رکھے ہیں، انھیں نکال کر یہ خوب صورت مناظر اپنے پاس محفوظ کر سکتے ہو، تم نے ایسی جگہیں پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔‘‘
دانیال نے جبران سے اینگس والا کیمرہ مانگا تو اس نے سامان سے نکال کر دے دیا۔ دانیال نے گاڑی کے فرنٹ کے شیشے سے سامنے دیکھا، گاڑی نے ابھی ابھی ایک موڑ لیا تھا۔ ’’کیا یہ گلیشیئر ہے؟‘‘ وہ برف کے ایک بہت بڑے ٹکڑے کو مگن ہو کر دیکھنے لگا۔ ’’ہاں ڈِنجک گلیشیئر، کتنا شان دار ہے نا!‘‘ یہ کہہ کر اس نے گاڑی روک دی اور وہ سب باہر نکلے۔ تینوں کے منھ سے بے ساختہ حیرت کے کلمات نکلے۔ شَین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، اس نے کہا کہ اب اپنا اپنا سامان سنبھال لو کیوں کہ آگے چڑھائی چڑھنی تھی۔ جبران نے نیلی برف کو حیرت سے دیکھا جو بہت خوب صورت دکھائی دے رہی تھی لیکن اس پر گندگی بھی نظر آ رہی تھی۔ شین نے بتایا کہ جب گلیشیئرز حرکت کرتے ہیں تو گندگی اس پر جمع ہونے لگتی ہے۔ شَین برف کے دریا کے کنارے ایک چٹان پر چڑھا اور کہا: ’’ہمیں ایک طویل راستے پر چڑھتے جانا ہے اس لیے سب پانی پی لیں۔‘‘
فیونا ایک چٹان پر بیٹھ گئی اور بوتل نکال کر پانی پی لیا، پھر آنکھیں بند کر کے جیسے مراقبے میں چلی گئی۔ بند آنکھوں کے سامنے اسے تصور میں زمرّد ایک گلیشیئر کے اندر دکھائی دینے لگا۔ اس جگہ پتھروں سے بنی ایک نشانی بھی موجود تھی۔ ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر جبران اور دانیال کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہی۔ وہ اٹھ کر جبران کے پاس آئی اور سرگوشی میں کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ زمرّد کہاں ہے، جب ہم اس کے قریب پہنچیں گے تو تم اور دانی مل کر شَین کی توجہ کہیں اور کر دینا اور اس دوران میں اسے کھود کر نکال لوں گی۔‘‘
جبران نے کن اکھیوں سے شین کی طرف دیکھ کر جوابی سرگوشی کی: ’’فیونا، کیا تم جان لیوا پھندوں کو بھول گئی ہو؟ کیا وہ ان کا شکار نہیں ہو سکتا؟‘‘
’’ارے ہاں میں تو بھول گئی تھی۔‘‘ فیونا کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔ ’’ایک ہی راستہ ہے، ہمیں اس سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ہم آرام کرنے کے بہانے رک جائیں گے، پھر جیسے ہی اس کی آنکھیں بند ہوں گی، ہم دوڑ کر اس سے چھپ جائیں گے۔ جب تک وہ ہمیں ڈھونڈ نکالے گا، ہم اپنا کام کر چکے ہوں گے۔‘‘
جبران کو اس کی یہ ترکیب کچھ زیادہ کارگر نہیں لگی تاہم اس نے ہامی بھرلی۔ اس کا خیال تھا کہ شَین بہت ہوشیار شخص معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر اس نے آنکھیں ہی بند نہیں کیں تو ایسی صورت میں کیا کرنا ہوگا؟ فیونا نے کندھے اچکا کر کہا: ’’تب پھر مجبوری ہوگی!‘‘ یہ سن کر جبران چونک اٹھا اور اس بات کا مطلب پوچھنے لگا۔ فیونا نے کہا: ’’ظاہر ہے مجھے اسے ضرب لگا کر بے ہوش کرنا پڑے گا، بھلا ہم اس کا اور کیا علاج کریں گے؟‘‘
(جاری ہے….)
-
ایک سو سینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
جبران اُبلے ہوئے انڈے کا ایک ٹکڑا منھ میں رکھتے ہوئے بولا: ’’مجھے تو اب بھی بڑی تھکن محسوس ہو رہی ہے۔‘‘
’’میں بھی تھکی ہوئی ہوں۔‘‘ فیونا نے بتایا: ’’ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ جب ٹھندا پانی ڈریٹن کے منھ پر پڑا ہوگا تو اس کی کیا حالت ہوئی ہوگی، کاش ہم دیکھ سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی۔
’’مجھے لگتا ہے اب وہ ہمارے ساتھ کچھ اور برا کرے گا، میں نے نوٹ کیا ہے کہ وہ ہم سے بہت خار کھاتا ہے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا اور کیک کا ٹکڑا منھ میں ڈالا۔
’’ہاں، وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن وہ مجھ سے زیادہ قوتیں نہیں رکھتا۔‘‘ فیونا نے کہا۔ وہ تینوں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ دانیال نے کہا کہ یہ بات تو ہے کہ اگر اس کی مدد ایک شیطان جادوگر کر رہا ہے تو ہمارے مدد کے لیے بھی کچھ اچھے لوگ موجود ہیں۔ فیونا نے اپنا خیال پیش کیا کہ کنگ کیگان کا جادوگر زرومنا بھی ان کی مدد کر رہا ہے لیکن کس طرح، یہ بھی واضح نہیں ہے۔ ناشتہ کر کے وہ اٹھے تو آٹھ بج رہے تھے۔ جب وہ مقررہ مقام پر پہنچے تو شَین ایک نیلے رنگ کی فور وھیل ایس یو وی کے ساتھ کھڑا ان کا منتظر تھا۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی چہکا: ’’تم بالکل وقت پر پہنچے ہو، میں تینوں کے لیے الگ الگ سامان تیار کرا دیا ہے۔ اس میں اسنیکس، فلش لائٹس، رسیاں، پانی اور ضرورت کی چند دوسری چیزیں شامل ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم تینوں موسم کے مطابق لباس پہنا ہے یہ اچھا ہے، آج موسم کی پیش گوئی اگرچہ ہمارے حق میں ہے تاہم سردی بڑھ سکتی ہے۔‘‘
تینوں نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ فیونا نے بٹوہ نکال کر پوچھا: ’’اس پر کتنا خرچہ آئے گا، مجھے امید ہے کہ آپ کو برطانوی کرنسی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، ہمارے پاس اس وقت یہی کرنسی ہے۔‘‘’’نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘‘ شین نے اسے رقم بتائی جو فیونا نے ادا کر دی اور پھر گاڑی کلونی نیشنل پارک کی طرف چل پڑی۔
ڈریٹن نے انھیں جاتے دیکھ لیا تھا لیکن ان کا پیچھا کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اسے پتا تھا کہ وہ تینوں قیمتی پتھر حاصل کر کے لے آئیں گے۔ اس نے سوچا کہ یہ وقت کیسے گزارا جائے، تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے دریائے یوکان کے کنارے سونا چھاننے کا فیصلہ کیا لیکن سردی بہت تھی اس لیے اس نے ایک مقامی دکان کا رخ کر لیا تاکہ دستانے، بوٹ اور ضرورت کی چند دوسری چیزیں چرائی جا سکیں۔ اسے خریدنا نہیں آتا تھا، بس چوری کرنے ہی کی عادت تھی ہمیشہ سے یا چھیننے کی۔
(جاری ہے)
-
ایک سو چھیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
وہ تینوں گھنٹہ بھر بیٹھے رہے پھر کمرے میں چلے آئے۔ انھیں نیند آ رہی تھی اور اگلے دن انھیں بہت مصروف گزارنا تھا، اور پتا نہیں کیا واقعات پیش آئیں، جب کہ ڈریٹن کی طرف سے بھی خطرہ موجود تھا، تاہم انھیں یہ امید بھی تھی کہ ڈریٹن اب ان کے راستے میں مزید نہیں آئے کیوں کہ ایک بار اس نے ان کے کمرے میں تباہی مچا کر اپنے نفس کو تسکین پہنچا دی تھی۔ وہ بستر پر لیٹتے ہی سو گئے۔ رات کا کوئی پہر تھا جب دانیال کی نیند ٹوٹی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں اچانک تیز ہو گئی تھیں، اس نے گھبرا کر جبران اور فیونا کو آوازیں دے کر جگا دیا۔
’’اٹھو … جبران، فیونا … اٹھو، میں نے کچھ عجیب آوازیں سنی ہیں۔‘‘ وہ دونوں گہری نیند سے اٹھے اور آنکھیں ملنے لگے۔ ’’کیا ہوا دانی؟ تم نے اتنی رات گئے کیوں جگا دیا؟‘‘ فیونا بولی اور تکیے سے ٹیک لگا لیا۔
دانیال نے بتایا کہ اس نے ایک آواز سنی تھی، جیسے کوئی کھڑکی کھرچ رہا ہو۔ جبران نے یہ سن کر اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کر دیکھا۔ اس نے کھڑکی بھی کھول کر نیچے دیکھا لیکن کچھ نہیں تھا۔
’’دانی، کھڑکی پر ہوا کی وجہ سے آوازیں پیدا ہوئی ہوں گی۔ کچھ نہیں ہے، سو جاؤ۔‘‘ جبران نے کہا اور واپس بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ فیونا نے بھی سونے کے لیے کہہ دیا۔ انھیں سوئے ہوئے بھی چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ دانیال کی آنکھ ایک بار پھر کھل گئی۔ آواز اب کہ بہت واضح طور پر سنائی دی تھی، اس نے پھر فیونا کو جگا دیا۔
’’میں نے آواز سنی ہے، میں کوئی خواب نہیں دیکھ رہا، کھڑکی کے باہر ضرور کچھ ہے۔‘‘
’’اوہو، دانی تم ہمیں سونے نہیں دو گے، تمھیں وہم ہو رہا ہے۔‘‘ فیونا نے اس بار جھنجھلا کر کہا۔ لیکن دانیال بہ ضد تھا، اس نے تجویز بھی دی کہ فیونا کچھ دیر یوں ہی لیٹی رہی اور سوئے نہ، وہ آواز ضرور سن لے گی۔ فیونا نے ہامی بھر لی اور تکیے سے ٹیک لگا کر انتظار کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد کھڑکی پر کھرچنے کی آواز آئی تو وہ اچھل کر بیٹھ گئی۔ اس کا دل بھی تیز تیز دھڑکنے لگا۔ آدھی رات کو کھڑکی پر کوئی پراسرار آواز کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ بستر سے اترتے ہوئے بولی: ’’جیسے ہی آواز دوبارہ آئے گی ہم کھڑکی کھول کر باہر دیکھیں گے، آؤ تم بھی۔‘‘وہ دونوں کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ جبران کی نیند بھی دوبارہ ٹوٹ گئی تھی، وہ انھیں کھڑکی کے پاس کھڑے دیکھ کر وجہ پوچھنے لگا۔ فیونا نے بتایا کہ دانی کا کہا ٹھیک تھا۔ جبران کا خیال فوری طور پر بھوت کی طرف چلا گیا، اس نے بھوت کا ذکر کیا تو فیونا نے اسے گھور کر کہا چپ رہا، یہ ڈریٹن کی حرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن دانیال نے حیرت سے پوچھا کہ اتنی اونچائی پر دانیال کیسے کھڑکی تک پہنچ سکتا ہے۔ فیونا نے اسے یاد دلایا کہ وہ بھی قد بڑھا سکتا ہے، اور وہ ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے۔ ایسے میں فیونا کو اچانک خیال سوجھا۔ اس نے جبران سے باتھ روم سے برف کے پانی والی بالٹی منگوا لی۔ وہ تیار کھڑے تھے، جیسے ہی شیشے پر کھرچنے کی آواز سنائی دی، دانیال نے کھڑکی کھول دی۔ وہاں واقعی ڈریٹن تھا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، جبران نے اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی بالٹی الٹ دی۔
انھیں ڈریٹن کی بے ساختہ چیخ سنائی دی۔ ٹھنڈا پانی اس کے چہرے پر پڑا تو وہ ایک دم حواس باختہ ہو گیا اور فوراً سکڑ کر اپنی اصلی حالت میں آ گیا۔ دانیال نے کھرکی پھر بند کر دی اور تینوں خوشی سے کمرے میں ناچنے لگے۔ ’’واؤ، ہم نے اس شیطان کو مزا چکھ ا دیا!‘‘ جبران اور فیونا قہقہے لگانے لگے۔ انھیں اطمینان ہوا کہ اب ڈریٹن انھیں پریشان کرنے کی مزید جرات نہیں کرے گا۔ کچھ دیر بعد وہ پھر بستروں میں گھس گئے۔ رات کے تین بج رہے تھے، کچھ ہی دیر میں تینوں نیند کی وادی میں گم ہو گئے۔
(جاری ہے)
-
ایک سو پینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
ڈریٹن نے ایک اور ریستوران میں کھانا کھایا تھا اور پھر تیز رفتاری سے واپس ہوٹل آ کر اپنے کمرے میں ڈیرا جما لیا تھا۔ وہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ جب فیونا اور اس کے دوست اپنے کمرے میں آئیں گے تو ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ اس لیے وہ دونوں کمروں کے درمیان دروازے سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا تاکہ آوازیں واضح طور پر سن سکے۔ اسی دوران اسے انگھ آگئی، کچھ دیر بعد جب وہ ہڑبڑا کر جاگا تو اسے تیز آواز میں باتیں سنائی دینے لگیں، کوئی بات بات پر قہقہے لگا رہا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس گیا تو دیکھا کہ ہوٹل کے نیچے کچھ لوگ کھڑے باتیں کر رہے ہیں۔ ڈریٹن ان پر غصے سے چیخا: ’’دفع ہو جاؤ یہاں سے اور کہیں اور جا کر شور مچاؤ۔‘‘
ان لوگوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھااور پھر گفتگو میں مگن ہو گئے۔ کسی نے اس کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ ڈریٹن بہت تلملایا اور بڑبڑایا کہ اچھا ایسی بات ہے تو ابھی بتاتا ہوں!
اس نے برف کی ایک چھوٹی بالٹی اٹھائی، اس میں اپنا شیمپو ڈالا، پھر سرخ مشروب جو اس نے منگوایا تھا بالٹی میں انڈیلا۔ ایک چھوٹے پیالے میں گرم پانی سے تین صابن پگھلائے اور اسے بھی شیمپو میں ملا دیا۔ پھر اس میں پانی ڈال کر اچھی طرح ملایا اور پھر یہ جھاگ بھرا رنگ دار پانی کھڑکی سے ان لوگوں پر انڈیل دیا۔ جب اس نے لوگوں کے چہرے، سر اور کپڑے خراب ہوتے دیکھا اور صابن کے بلبلے اڑتے دیکھے تو خوب قہقہے لگانے لگا: ’’سبق سکھا دیا نا میرے کمرے کے قریب شور مچانے پر۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کھڑکی بند کی اور پلٹا۔ اسی وقت اسے فیونا کے کمرے سے آوازیں سنائی دیں۔ وہ جلدی سے دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ اندر سے آنے والی خوف اور دکھ سے بھری ہر آواز پر وہ بے تحاشا خوش ہوتا رہا۔ اور جب منیجر نے آ کر ان سے تاوان کا مطالبہ کیا تو اس وقت وہ خوشی کے مارے فرش پر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ جب وہ نئے کمرے میں منتقل ہونے لگے تو اس نے ان کا تعاقب کیا تاکہ دیکھ سکے کہ وہ کس کمرے میں ٹھہرنے جا رہے ہیں۔ اور اس کے بعد وہ چھت پر جا کر روشنیوں کا نظارہ کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔’’روتھ نے ٹھیک ہی کہا تھا، کتنا شان دار اور خوب صورت نظارہ ہے یہ۔‘‘ فیونا نے دور افق پر پھیلے تیز چمکیلے لال، پیلے اور سبز رنگ کی دھاریاں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تو یہ دیکھ کر رینبو یاد آ گئی۔‘‘ جبران بولا۔ دانیال آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر رنگین روشنی کی دھاریوں کو آسمان میں ادھر ادھر رقص کرتے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’لیکن یہ نظارہ قوس قزح سے کہیں زیادہ شان دار ہے۔‘‘ دانیال نے ایسا نظارہ کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان رنگوں کے پیچھے آدھی رات کے آسمان میں ستارے جھلمل رہے تھے۔ تینوں یہ نظارہ دیکھنے میں کھو گئے تھے۔ فیونا کی آواز سنائی دی: ’’یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے آسمان میں پینٹنگ کی ہو۔‘‘ دانیال نے کہا: ’’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے نیلے اور سبز شعلوں کے ساتھ آسمان میں لگ گئی ہو۔‘‘ جبران نے مداخلت کی، ہاں لیکن یہ کبھی کبھی یہ شعلے سرخ اور پرپل بھی ہو جاتے ہیں۔ تینوں آسمان پر نظریں جمائے اسی طرح کی گفتگو میں مگن تھے۔
ان سے چند قطار پیچھے بیٹھا ڈریٹن بور ہو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ سب لوگ احمق ہیں جو یہاں بیٹھے عجیب و غریب جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، حالاں کہ یہ صرف روشنی ہی ہے اور اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ پھر اسے خیال آیا کہ وہ اس کے بارے میں پہلان جادوگر سے پوچھے گا کہ کیا اس میں کچھ جادو ہے؟ یہ سوچ کر وہ اٹھا اور نیچے جانے لگا۔
(جاری ہے)
-
ایک سو چوالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
منیجر غصے سے چلایا: ’’یہ تم لوگوں نے کمرے کا کیا حشر کر دیا ہے، اتنی گندگی … اُف … مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔‘‘ اس نے باتھ روم میں بھی جا کر دیکھا۔ وہ سخت حیران بھی تھا اور اسے شدید غصہ بھی آ رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’میں نے اپنی زندگی میں اس قسم کی خوف ناک بے ہودگی نہیں دیکھی، تم لوگوں کو اس کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔‘‘
’’مسٹر براؤن، یہ ہم نے نہیں کیا، ہم باہر سے ابھی کچھ دیر پہلے ہی آئے ہیں۔‘‘ فیونا نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بتایا۔ لیکن منیجر غرا کر بولا: ’’مجھے بے وقوف مت سمجھو، میں روم سروس سے بات کر چکا ہوں، تم نے کھانے کے لیے آرڈر دیا تھا۔ جس ویٹر نے کھانا پہنچایا تھا اس نے کہا تھا کہ تمھارے بڑے بھائی نے آرڈر دے کر یہاں اس کمرے میں کھانا وصول کیا۔‘‘
’’میرا کوئی بڑا بھائی نہیں ہے۔‘‘ فیونا نے غصے میں آ کر پیر فرش پر مارا۔ ’’کوئی یہاں اندر آیا تھا اور اس نے دھوکے سے کھانا منگوایا اور یہ سب کیا اس نے۔‘‘
’’کچھ بھی ہو، یہ کمرہ تم لوگوں کی ذمہ داری ہے، تمھیں جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ میں تم لوگوں کو ایک اور کمرہ دے دوں گا لیکن رش بہت ہے، صرف ایک کمرہ ہی رہ گیا ہے جو کہ سوٹ ہے اور اس کا کرایہ دگنا ہے۔‘‘
’’مسٹر براؤن!‘‘ دانیال نے غصے سے کہا: ’’یہ گندگی ہم نے نہیں پھیلائی ہے لیکن ہم اس کی ادائیگی کر دیں گے، مگر اچھی طرح سنیں کہ آپ اچھا نہیں کر رہے ہیں ہمارے ساتھ۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ منیجر نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ’’آئیں میرے ساتھ، جو جو چیز خراب ہو گئی ہے، اس کی فہرست بنا کر میں تمھیں جرمانے کی رقم بتاؤں گا اور پھر تم نے نئے کمرے کا کرایہ ادا کرنا ہے۔‘‘
وہ تینوں اس کے پیچھے چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد وہ نئے کمرے میں موجود تھے۔ یہ سوٹ تھا اور انھیں پسند آ گیا تھا لیکن تینوں کا دل خراب ہو رہا تھا، ان کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی تھی۔
’’چلو، چھت پر جا کر آرورا بوریلس دیکھتے ہیں اور اس شام کو جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، اسے بھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ جبران نے کہا تو انھوں نے خاموشی سے اپنا اپنا کوٹ اٹھایا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو تینتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک کو کھولیں
تینوں نے نورِ فجر دیکھنے سے قبل کمرے میں جا کر غسل لینے کا فیصلہ کیا اور میز پر بل کے ساتھ ویٹرس کے لیے ٹپ بھی چھوڑ دی اور اوپر آ گئے۔ فیونا نے دروازے کے تالے میں چابی گھمائی اور دروازہ جیسے ہی کھلا، سڑی بد بو کا ایک جھونکا آیا اور وہ تینوں اچھل پڑے۔
’’یہ کیسی بد بو ہے؟‘‘ فیونا پریشان ہو گئی۔ ’’ارے یہ آوازیں کیسی ہیں؟‘‘ دانیال تیزی سے باتھ روم کے بند دروازے کی طرف بڑھا: ’’ایسا لگتا ہے کہ اندر پرندے ہوں۔‘‘
انھوں نے کمرے میں چاروں طرف دیکھا، بہت ہی برا حشر بنا تھا کمرے کا۔ بد بو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ وہ چٹکی سے ناک دبانے پر مجبور ہو گئے تھے، اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد انھیں سانس لینے کے لیے ناک کھولنی پڑ رہی تھی۔ دانیال نے باتھ روم کے دروازے سے کان لگا کر سننے کی کوشش کی اور کہا: ’’مجھے لگتا ہے اندر کبوتر بند ہیں، غٹر غوں کی آوازیں آ رہی ہیں، کیا میں یہ دروازہ کھول دوں؟‘‘ اس نے دونوں کی طرف دیکھا۔
جبران نے حیران ہو کر کہا: ’’لیکن کبوتر اندر کیسے آ گئے! کیا تم دونوں میں سے کسی نے کھڑکی کھلی چھوڑ دی تھی؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ بستر پر بچھے ہوئے کمبل پر بیٹھ گیا لیکن بیٹھتے ہی فوراً اچھل پڑا۔ ’’اس میں کچھ ہے، مجھے چپچپا سا محسوس ہوا۔‘‘
دانیال اور فیونا بستر کے قریب آ گئے: ’’تم کمبل اٹھا کر دیکھو، نیچے کیا ہے؟‘‘ دانیال نے کہا۔’’نن … نہیں۔‘‘ جبران گھبرا کر بولا: ’’پپ … پتا نہیں اندر کوئی لاش نہ ہو۔‘‘ فیونا نے منھ بنا کر کہا یہاں کسی لاش کا کیا کام، بستر میں کوئی لاش ہو ہی نہیں سکتی۔ ایسے میں دانیال کی آواز آئی، تو پھر باتھ روم میں کبوتر کہاں سے آ گئے؟ فیونا کو یہ سن کر غصہ آ گیا، اور انھیں ڈرپوک کا طعنہ دے کر آگے آئی اور کمبل کا ایک کونا پکڑ کر اسے الٹ دیا۔ اس کے نیچے کھانا پھیلا کر پورے بستر اور تکیوں کا ستیاناس کیا گیا تھا۔ فیونا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ ’’اب سمجھ آ گیا، یہاں کوئی داخل ہوا تھا اور کھانا بستر پر ڈال کر گندگی پھیلا کر چلا گیا، میں ابھی منیجر سے بات کرتی ہوں۔‘‘
ٹھہرو فیونا، پہلے باتھ روم کا جائزہ تو لیں۔‘‘ دانیال نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی کبوتر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے اور وہ تینوں خود کو ان سے بچانے لگے۔ انھوں نے دیکھا کہ باتھ روم کے فرش اور دیواروں پر شیمپو، ٹوتھ پیسٹ اور کبوتر کی بیٹ جا بہ جا پڑی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر فیونا کا غصہ عروج پر پہنچ گیا۔ ’’میں سمجھ گئی ہوں، یہ سب اس خبیث ڈریٹن کی حرکت ہے، اسی نے آ کر یہ سب کیا ہے۔‘‘
’’لیکن فیونا، تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو، کیا پتا کہ یہاں ہمارے کسی نادیدہ دشمن نے ایسا کیا ہو۔‘‘ دانیال بولا۔
’’میں ابھی معلوم کرتی ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور کبوتروں کو ٹیلی پیتھی کے ذریعے مخاطب کیا: ’’کبوترو، تم جہاں سے آئے ہو، وہاں واپس چلے جاؤ، اور یہ بتاتے جاؤ کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
ایک کبوتر نے جواب دیا کہ انھیں ڈریٹن نے حکم دیا تھا، اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ڈریٹن اپنی شیطانی قوت سے انھیں نقصان پہنچا دیتا۔ کبوتر نے فیونا کا نام لے کر معذرت بھی کی، جس پر فیونا حیران ہوئی کہ اسے نام کیسے معلوم ہوئے۔ کبوتر نے کہا پرندے فطرت کا حصہ ہوتے ہیں، جب کوئی ان سے بات کرتا ہے تو فطرت انھیں اس کا نام بتا دیتی ہے، اور یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا برا اور ڈریٹن مکمل شیطان ہے۔ فیونا نے یہ سن کر سر ہلایا اور پھر کھڑکی کھول دی، سارے کبوتر اڑ کر باہر چلے گئے۔
وہ تینوں اس واقعے سے سخت غصے میں تھے، فیونا انٹرکام پر ہوٹل کے منیجر کو اطلاع دینے لگی۔
(جاری ہے)
-
ایک سو بیالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
سارے دن کے سیر سپاٹے کے بعد تینوں خوب تھک گئے تھے۔ بھوک زوروں پر تھی، فیونا نے پوچھا کہ پہلے کمرے میں جا کر نہایا جائے یا پیٹ کا مسئلہ حل کیا جائے۔ دانیال نے کہا کہ اس کے پیٹ میں تو چوہوں نے تیسری عالمی جنگ برپا کر دی ہے، اس لیے یہ مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ جبران نے بھی تائید کر دی اور ساتھ میں امید ظاہر کی کہ ہوٹل کا ریستوران کچھ ڈھنگ کا ہوگا۔ تینوں ہوٹل کی لابی سے گزر کر ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے۔ یہ ایک کمرہ نما جگہ تھی جہاں دس میزیں ادھر ادھر لگائی گئی تھیں۔ ہر میز پر ایک ایک موم بتی روشن تھی اور ساتھ ایک ننھا مسالہ بھرا بارہ سنگھا رکھا ہوا تھا۔ دیواروں پر بارہ سنگھے اور ریچھوں کے بڑے بڑے سر نکلے ہوئے تھے۔ جبران نے انھیں دیکھ کر برا منھ بنایا اور کہا: ’’کوئی بارہ سنگھا یا ریچھ مرا ہوگا تو انھوں نے اس کی کھال کے اندر چیزیں بھر کر انھیں یہاں لٹکا دیا۔‘‘
’’میرے خیال میں یہ حقیقی نہیں ہیں، مینو دیکھ کر اپنے لیے ڈش پسند کرو۔‘‘ فیونا نے کہا۔
دانیال بولا: ’’میں تو بارہ سنگھے کی پسلیاں اور ہرن کا قورمہ اور اس کے ساتھ یوکان کے گولڈ پوٹیٹو، گرم ڈبل روٹی اور موزبیری جیلی کا آرڈر دوں گا۔‘‘ جبران آنکھیں دکھا کر بولا: ’’اس کے لیے انھیں ایک بارہ سنگھا اور ہرن مارنا پڑے گا۔‘‘فیونا نے ہنستے ہوئے کہا: ’’جبران، میں تو اود بلاؤ کی بُھنی ہوئی دم کھانے جا رہی ہوں۔ ہاں، مجھے پتا ہے کہ کسی غریب اود بلاؤ نے اپنی جان دی ہوگی، اس کے بعد کہیں جا کر اس کی دم میرے حصے میں آئے گی۔ لیکن یہ ہے دل چسپ۔ ویسے میں سوچ رہی ہوں کہ میں بھی یوکان کے گولڈ پوٹیٹو وِد ڈبل روٹی منگواؤں تو اچھا رہے گا۔ سائیڈ میں نرم بٹر مِلک بسکٹ اچھے رہیں گے۔‘‘
جبران نے منھ بنایا اور کہا: ’’میں صرف پوٹیٹو، بٹر ملک اور سلاد لوں گا۔‘‘ تھوڑی دیر جب ویٹرس آئی تو فیونا نے اس کے نام کا ٹیگ پڑھ کر اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’مس روتھ، کیا یہ موز بیری جیلی بارہ سنگھے کی ہے؟‘‘ ویٹرس نے جواب دیا: ’’نہیں، یہ کرابیری سے بنائی جاتی ہے، ہم اسے موز بیری اس لیے کہتے ہیں تاکہ سیاح اس میں دل چسپی لیں۔‘‘
ویٹرس آرڈر لے کر چلی گئی اور وہ تینوں خاموشی سے کمرے کا جائزہ لینے لگے۔ دیواروں پر سونے کی کانوں کے دنوں کی تصاویر لٹکی ہوئی تھیں۔ کھانا ختم کرنے کے بعد جب ویٹرس نے فیونا کو بل دیا تو پوچھنے لگی کہ کیا وہ تینوں پہلی بار وائٹ ہارس آئے ہیں۔ فیونا نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ اس سے قبل ہم یہاں کبھی نہیں آئے۔ اس نے مشورہ دیا کہ آج رات آرورا بوریلس ضرور دیکھیں، یہ ایک رنگین نظارہ ہوتا ہے۔ فیونا نے کہا کہ اس نے یہ نظارہ اسکاٹ لینڈ میں بھی دیکھا ہے لیکن ویٹرس کا کہنا تھا کہ اتنا روشن نظارہ اور کہیں نہیں ہوتا۔ روتھ نے بتایا کہ انھیں بس اتنا کرنا ہے کہ آج رات اس ہوٹل کی چھت پر پہنچ جانا ہے، جہاں ہوٹل کے مہمانوں کے لیے نشستیں رکھوائی گئی ہیں۔دانیال نے اس کے جاتے ہی آرورا بوریلس کے بارے میں پوچھ لیا۔ فیونا بتانے لگی کہ زمین پر شمال بعید کے علاقے میں جو نارتھ پول کہلاتا ہے، وہاں سورج سے برقی ذرات خارج ہو کر جمع ہو جاتے ہیں، جس سے روشنی کی رنگین پٹی بن جاتی ہے۔ یہ روشنیاں آرورا بوریلس یعنی انوارِ قطبی کہلاتی ہیں۔ اور اس کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آرورا قدیم روم کی ایک دیوی کا نام ہے جو فجر کی دیوی کہلاتی ہے۔
(جاری ہے….)
-
ایک سو اکتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
دوسری طرف ڈریٹن نے ان کا پیچھا جاری رکھا تھا؛ جب اس نے ان تینوں کو ہوٹل ریورزایج اِن میں کمرہ لیتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ تینوں رات یہیں گزاریں گے۔ اس نے بھی رات اسی ہوٹل میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے لیے کمرہ لیتے ہوئے جب اس نے فیونا کے کمرے کا نمبر دیکھا تو اس نے کلرک سے ساتھ والے کمرے کی درخواست کی۔ وہ کمرے کی چابی لے کر اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ آج رات ان تین شیطانوں کے ساتھ خوب کھیل کھیلے گا۔ کمرے میں پہنچ کر پہلے تو وہ سو گیا، پھر تین گھنٹے بعد اٹھ کر اس نے خود کو تیار کر لیا۔ اس کے اور فیونا کے کمرے کے درمیان صرف ایک دروازہ تھا۔ اس نے خود کو اتنا چھوٹا کر لیا کہ آسانی سے دروازے کے نیچے سے ہوتا ہوا اندر پہنچ گیا اور پھر اپنے نارمل سائز میں آ گیا۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس نے فون اٹھا کر روم سروس کے لیے آرڈر دیا: ’’مجھے تین عدد آئس کریم چاہیے، اس کے اوپر بہت ساری مکھن ملائی، بارہ سنگھے کی یخنی، روسٹ کی ہوئی اودبلاؤ کی دُم، اور ہاں اس کے ساتھ بہت سارا سان ضرور ہو۔‘‘
آدھے گھنٹے بعد ویٹر نے دروازے پر دستک دی تو ڈریٹن نے دروازہ کھول کر اسے بھاری ٹپ دی۔ اس کے جانے کے بعد ڈریٹن نے کھانوں کی ٹرے بستر پر الٹ دی، اور تکیے کمبل سمیت دونوں بستر بری طرح خراب کر دیے۔ ’’اب مزا آئے گا۔‘‘ اس نے ایک شیطانی قہقہہ لگایا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ پھر اس نے ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوبز اور شیمپو کی بوتلیں اٹھائیں اور پورے باتھ روم کی ایسی تیسی کر دی۔ دیواریں، دروازے، سنک، کچھ نہ چھوڑا۔ اس نے کھڑکی کھولی، ہوٹل سے ایک تار قریبی ٹیلی فون کھمبے تک گئی تھی، اس پر کبوتر بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کبوتروں سے کہا: ’’پرندو، اندر آؤ، یہاں گندگی پھیلاؤ۔‘‘
کبوتروں نے ان کے حکم کو سنا اور اندر باتھ روم میں اڑ کر آ گئے۔ پھر جہاں جہاں وہ بیٹ کر سکتے تھے انھوں نے کی۔ ڈریٹن نے کھڑکی بند کی اور تولیہ لے کر اسے کبوتروں کی طرف سے زور سے لہرایا، ان کے پر اڑ کر کمرے میں پھیل گئے۔ اس وقت اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ بڑبڑایا: ’’ریورز ایج اِن کے مہمانوں کے لیے خصوصی سرپرائز!‘‘
اس کے بعد خود کو دوبارہ ننھا منا کر کے وہ اپنے کمرے میں داخل ہو گیا، اور قصبے میں گھومنے پھرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
(جاری ہے…)
-
ایک سو چالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
اس ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
دانیال نے جلدی سے لقمہ دیا: ’’اور میں دیکھ رہا ہوں کہ نوکیلے دانتوں والا ایک ٹائیگر اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا اُسے گھور رہا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا۔ جبران نے غصے سے اسے گھور کر دیکھا اور ڈپٹ کر بولا: ’’تم میرا مذاق اڑا رہے ہو۔‘‘ دانیال نے جلدی سے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے سر نفی میں ہلا دیا اور پھر ہنسنے لگا۔ فیونا ان کے دونوں کے درمیان آ کر بولی کہ اب پھر سے جھگڑنے مت لگ جانا۔ اس نے انھیں ایک جگہ آثار قدیمہ کے لیے ہونے والی کھدائی کے بارے میں بتایا جسے اس نے آتے ہوئے دیکھا تھا، اس نے خیال پیش کیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں کچلی دار یعنی نوکیلے دانتوں والے قدیم شیر کی ہڈیاں دیکھنے کو مل جائیں۔ دونوں تیار ہو گئے، اور دس منٹ بعد ہی وہ آثار قدیمہ کی ایک سائٹ پر موجود تھے، جہاں کھدائی ہو رہی تھی۔ فیونا نے وہاں ایک شخص سے پوچھا: ’’کیا آپ ہمیں ہڈیا وغیرہ دکھا سکتے ہیں؟‘‘
وہاں موجود شخص نے بتایا کہ یہ جگہ ابھی عام لوگوں کے لیے نہیں کھولی گئی ہے، اگر انھیں پتھر میں بدلنے والی قبل از تاریخ کی باقیات یعنی فوسلز دیکھنے ہیں تو انھیں قریبی میوزیم جانا چاہیے۔ وہ وہاں سے میک برائڈ میوزیم پہنچ گئے۔ دانیال کو سیبر ٹوتھ ٹائیگر کے کرپان جیسے دانت دیکھنے کا شوق تھا، جبران کو میمتھ کی ہڈیاں دیکھنی تھیں جب کہ فیونا کو سونے سے بنی قدیم اشیا۔ تینوں اپنی اپنی پسند کی چیزیں دیکھنے لگے۔ فیونا کہنے لگی: ’’یہاں تو یوکان میں پائے جانے والے سونے کی پوری تاریخ موجود ہے، مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہاں گھڑ سوار شاہی پولیس ہوا کرتی تھی، اب معلوم ہو رہا ہے کہ کینیڈا کی پولیس گھڑ سوار پولیس کہلاتی ہے۔‘‘
وہ اس وقت ایسے لوگوں کی تصاویر دیکھ رہی تھی جو دریا کنارے گھٹنوں پر بیٹھے پراتوں کے ذریعے پانی میں مٹی چھان رہے تھے اور سونا الگ کر رہے تھے۔ جبران نے دیکھا کہ وہاں ایک ایسی لکڑی بھی ہے جو پتھر بن چکی ہے۔
(جاری ہے…)