Author: رفیع اللہ میاں

  • ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انتالیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    بس اسپیکر سے رینجر کی آواز گونج اٹھی: ’’ہم وائٹ ہارس پہنچ گئے ہیں، ہمارے ساتھ سفر کا لطف اٹھانے کا بہت شکریہ۔‘‘
    ایک ایک کر کے سب بس سے اترنے لگے۔ ڈریٹن کے خراٹوں نے بتایا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ فیونا نے شین سے کہا کہ وہ یاد رکھیں کہ کل گلیشیئرز دکھانے لے جانا ہے۔ شین نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔ فیونا نے ڈریٹن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’کاش یہ اگلے سال تک یوں ہی سوتا رہے!‘‘
    تینوں بس اسٹیشن سے نکل کر ٹاؤن کی طرف چل پڑے۔ ’’میرا خیال ہے کہ حسب معمول سب سے پہلے کوئی بینک تلاش کرنا چاہیے۔‘‘ دانیال نے خیال ظاہر کیا تو فیونا نے کہا کہ کینیڈا ہونے کی وجہ سے یہاں برطانوی کرنسی چل سکتی ہے، اگر ضرورت پڑی تو بعد میں تبدیل کر لیں گے۔ اس لیے سب سے پہلے ہوٹل تلاش کرنا ہوگا، کیوں کہ آج رات یہیں گزارنی ہوگی۔ جبران کے پوچھنے پر کہ آج کون سا دن ہے، فیونا نے کہا: ’’اسکاٹ لینڈ میں اس وقت جمعہ کی سہ پہر ہے تو یہاں یوکان میں جمعہ کی صبح۔‘‘ انھوں نے وہاں ایک قطار میں کئی ہوٹل دیکھے لیکن اب ان میں انتخاب کا مرحلہ باقی تھا۔ تینوں ایک کے بعد ایک ہوٹل دیکھنے لگے لیکن کسی نے بھی انھیں متاثر نہیں کیا۔ جبران نے منھ بنا کر کہا: ’’میرا خیال ہے کہ ہماری عادتیں بگڑ گئی ہیں، سیچلز میں اتنا شان دار ہوٹل دیکھنے کے بعد شاید ہی ہمیں کوئی دوسرا پسند آ جائے۔ چلو، ان میں سے ایک چُن کر اسے اندر سے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیونا نے ایک سائن بورڈ کی طرف اشارہ کیا: ’’یہ کیسا رہے گا؟ ریورز ایج اِن!‘‘
    تینوں اندر گئے، کاؤنٹر پر فیونا نے برطانوی کرنسی دی تو معلوم ہوا کہ کرنسی کارآمد ہے، تینوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انھیں ایک کمرے کی چابی دی گئی تو وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگے۔ جبران نے کاؤنٹر سے اٹھایا ہوا بروشر دکھا کر کہا کہ اس میں وائٹ ہارس سے متعلق کچھ حقائق درج ہیں۔ فیونا نے کہا کہ اسے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی دل چسپ بات ہوگی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئے تو یہ دو بستروں پر مشتمل ایک درمیانے سائز کا کمرہ تھا۔ جبران ایک بیڈ پر بیٹھ کر بولا: ’’یہ یوکان کا کیپیٹل ہے اور یہاں کی آبادی صرف 28 ہزار ہے۔‘‘ فیونا دوسرے بیڈ پر چھلانگ مار کر بیٹھ گئی اور کہا: ’’حیرت ہے اتنی پیاری جگہ ہے اور لوگ اتنے کم!‘‘
    ’’آگے تو سنو۔‘‘ جبران بتانے لگا: ’’یہاں کا پرندہ بڑے سائز والا پہاڑی کوا ہے اور یہاں سونے کی تلاش کرنے والوں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ میمتھ یعنی عظیم الجثہ قدیم ہاتھی اور نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز اسی علاقے میں گھومتے پھرتے تھے۔‘‘
    ’’ہاں، یہ ہوئی نا بات۔‘‘ دانیال اچھل کر بولا: ’’میں تو نوکیلے دانتوں والے ٹائیگرز سے ملنا چاہوں گا۔‘‘
    فیونا نے ہوٹل سے باہر نکل کر گھومنے کی رائے دی تو باقی دونوں بھی فوراً تیار ہو گئے۔ وہ دریائے یوکان کے کنارے چلنے لگے، دانیال نے دیکھا کہ دریا میں سالمن مچھلی بہاؤ کی مخالف سمت میں تیر رہی ہے، وہ حیران ہوا تو جبران نے بتایا کہ سالمن ہمیشہ الٹی سمت تیرتی ہے۔ جبران نے ان کے سامنے اپنا ایک عجیب تصور بیان کر دیا: ’’میں تصور کر رہا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی جسامت والا میمتھ کھڑا ہے، اس کے لمبے لمبے بال لہرا رہے ہیں اور وہ اپنی سونڈ پانی میں ڈال کر پانی پی رہا ہے۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اڑتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اڑتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن اس کے قریب سے تیزی کے ساتھ گزرا تھا، اور اس نے کالر اٹھایا ہوا تھا تاکہ فیونا اسے ٹھیک طور سے نہ دیکھ سکے۔ وہ فیونا کے ساتھ آنکھیں بھی ملانا نہیں چاہ رہا تھا اس لیے بس میں سر جھکا کر چڑھا تھا۔ جب ایک نوجوان جوڑا اس کے برابر میں بیٹھنے کے لیے آیا تو اس نے انھیں گھورا اور ہلنے سے انکار کر دیا۔ وہ مجبوراً دوسری سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے۔ ڈریٹن نے آنکھیں بند کر لیں اور وائٹ ہارس تک کا یہ سفر برداشت کرنے لگا۔

    جبران نے کیمرہ واپس فیونا کے بیگ میں رکھتے ہوئے کہا کہ وہ لیٹ گیا ہے لیکن اس میں عجیب بات کیا ہے؟ فیونا نے کہا: ’’مجھ پر ریچھ کا حملہ کوئی اتفاق نہیں تھا، ڈریٹن نے ضرور اسے مجھ پر حملے کا حکم دیا ہوگا۔‘‘
    ’’ڈریٹن … کیا وہ یہاں ہے؟‘‘ دانیال اس کا نام سن کر چونک اٹھا۔ ’’اس کی شکل و صورت کیسی ہے؟‘‘ فیونا بتانے لگی کہ اس کے بال لمبے سیاہ ہیں اور کانوں میں بالیاں لٹکی ہوئی ہیں۔ دانیال نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا کہ اس نے تو بالیاں نہیں پہنیں، اور بال بھی چھوٹے ہیں۔ جبران بولا کہ ہو سکتا ہے اس نے بال ترشوا لیے ہوں اور بالیاں بھی اتار دی ہوں، اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ دانیال نے پوچھا کہ اب وہ کہاں جا رہے ہیں، تو جبران نے جواب دیا: ’’یوکان کے کیپیٹل وائٹ ہارس، جو ایک بڑا شہر ہے اور جنوبی یوکان میں الاسکا ہائی وے پر واقع ہے۔‘‘
    فیونا نے رینجر کو جبران کے قریب بیٹھتے دیکھ کر مسکرا کر کہا: ’’ایکسکیوز می سر!‘‘
    رینجر نے مسکرا کر کہا: ’’میرا نام شَین جَینکن ہے۔‘‘
    ’’تو مسٹر شین، کیا یہاں آس پاس گلیشیئرز ہیں؟‘‘
    ’’گلیشیئرز ۔۔۔‘‘ شین نے حیران ہو کر دہرایا: ’’یہ ملک ہی گلیشیئرز کا ہے۔‘‘
    ’’آپ مجھے فیونا پکار سکتے ہیں، اور یہ جبران اور دانی ہے۔‘‘
    ’’تم تینوں کہاں سے آئے ہو؟ تمھارا لہجہ برطانوی طرز کا ہے۔‘‘
    ’’جی ہم اسکاٹ لینڈ سے آئے ہیں۔‘‘
    ’’اسکاٹ لینڈ … بہت خوب۔‘‘ شین بولا: ’’تو تمھارے والدین کہاں ہیں؟ اکثر والدین اپنے بچوں کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اکیلے وحشی ریچھوں کو دیکھنے نکل پڑیں۔‘‘
    یہ سن کر تینوں کے پیٹ میں مروڑ شرو ہو گیا۔ یہ سوال ان کے لیے ہمیشہ بڑا پریشان ہوتا تھا، فیونا نے جلدی سے بات بنائی: ’’دراصل انھیں پیٹ میں کچھ گڑبڑ محسوس ہو رہی تھی، اس لیے وہ نہیں آئے اور ہمیں اس لیے آنے دیا کیوں کہ وہ ہم پر بہت بھروسا کرتے ہیں۔‘‘
    ’’او کے، تم گلیشیئرز کے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھی؟ یوکان میں یوں تو بہت سارے ہیں لیکن یہاں سے دور ایک جگہ ہے جسے کلونی نیشنل پارک کہا جاتا ہے، یہ وادئ گلیشیئر کے نام سے مشہور ہے۔‘‘
    فیونا نے کوئی جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر لیا: ’’کیا آپ کچھ اضافی رقم کمانا چاہیں گے؟‘‘ شین کے چہرے پر یہ سن کر خوشی کا رنگ بکھر گیا اور بولا: ’’کیوں نہیں، ضرور، بتاؤ تمھیں کیا چاہیے۔‘‘
    ’’ہمیں کلونی لے جائیں، ہم گلیشیئرز دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے والدین برا نہیں منائیں گے، وہ ہمیشہ ہمیں اکیلے جانے دیتے ہیں۔‘‘
    ’’جی ہاں، میں تم تینوں کو لے جا سکتا ہوں۔‘‘ شین نے جواب دیا۔ ’’مجھے ایک جیپ کرائے پر لینی پڑے گی، اچھا خاصا کرایہ لگے گا۔‘‘
    اس کے بعد وہ خاموشی سے وائٹ ہارس کی طرف سفر طے کرنے لگے۔ بس کے شیشوں سے باہر کے خوب صورت مناظر دیکھ کر وہ تعریف پر مجبور ہوتے رہے۔ انھیں برفانی ہرن، بارہ سنگھے، جنگلی بھینسے، پہاڑی بکرے اور اکا دکا سفید سر عقاب بھی نظر آیا۔ جبران کو سڑک کے کنارے جھاڑیوں کے درمیان بیری جیسے پھل کے درخت بھی نظر آئے، جب اس نے شین سے اس کا ذکر کیا تو وہ بولا: ’’یہ بیری ہی ہے، یوکان بیری کے حوالے سے ایک مشہور جگہ ہے، تم نے جو بیری دیکھی یہ گوز بیری کہلاتی ہے۔‘‘
    ’’ہم نے کبھی گوز بیری نہیں کھائی، یا کم از کم میں نے تو نہیں کھائی۔‘‘ جبران بولا۔ اس نے فیونا کی طرف دیکھا تو اس کی توجہ ڈریٹن کی طرف تھی۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی: میں اس شیطان کو خوب پہچانتی ہوں، وہ سوچ رہا ہے کہ وہ خود کو ڈرپوک ظاہر کر رہا ہے لیکن میں اس کی مکاری سے واقف ہوں۔ بے وقوف ڈریٹن۔ وہ ضرور سوچ رہا ہو گا کہ ہم اتنے احمق ہیں کہ اسے پہچانا بھی نہیں ہو گا … ہونہہ ۔۔۔
    (جاری ہے….)
  • ایک سو سینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو سینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    جب رینجر نے ٹرینکولائزر ڈارٹ (بے ہوشی کے تیر) کے ذریعے ریچھ کو مار گرایا تو ڈریٹن کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا۔ لیکن وہ بھی یہ سوچ کر باقی لوگوں میں شامل ہو گیا تاکہ لاپروا دکھائی دے، اور کسی کی نظروں میں نہ آ جائے۔ قریب آ کر اس نے دیکھا کہ فیونا بالکل ٹھیک ہے تو جھنجھلا کر سوچنے لگا کہ یہ منحوس لڑکی ہر بار کسی نہ کسی طرح بچ ہی جاتی ہے۔
    دانیال پر خوف کے مارے بدحواسی طاری ہو گئی تھی۔ وہ بولا: ’’تم ٹھیک ہو نا فیونا؟‘‘ پھر اس نے ریچھ کی طرف دیکھ کر پوچھا: ’’ریچھ نے اچانک تم پر حملہ کیوں کر دیا؟‘‘ اسی وقت قریب ہی کھڑی ایک عورت نے تبصرہ کیا: ’’یہ ضرور بہت قریب چلی گئی ہو گی اور ریچھ نے سمجھا ہوگا کہ کہیں یہ اس کے بچوں کو نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘
    ’’ریچھ کے بچے …‘‘ جبران کے منھ سے نکلا اور اس نے جلدی سے آس پاس دیکھا تو بے ہوش ریچھ کے دو بچے ماں کی طرف دوڑتے آ رہے تھے۔ قریب آ کر وہ اس کے بال سہلانے لگے۔ جبران نے پھر کیمرہ سنبھالا اور ان کی تصاویر کھینچنے لگا۔
    رینجر نے فیونا کو ہاتھ سے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا: ’’تم ٹھیک ہو نا، یہ ریچھ عموماً کسی کو کچھ نہیں کہتے، پتا نہیں اس نے تم پر حملہ کیوں کیا!‘‘
    ایسے میں اچانک فیونا کا خیال ڈریٹن کی طرف چلا گیا تو وہ آس پاس موجود لوگوں میں اسے تلاش کرنے لگی۔ اس کی نظریں ایک لڑکے پر جم گئیں، اس نے اونی ٹوپی سے سر اور گردن کو چھپایا ہوا تھا اور اسے گھور رہا تھا لیکن وہ اس کا چہرہ صاف طور پر نہ دیکھ سکی۔
    ’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ فیونا نے کہا اور اپنے کپڑوں سے مٹی اور ٹہنیاں ہٹانے لگی۔ ’’میں بھیگ گئی ہوں، کیا آپ کے پاس کمبل ہوگا؟‘‘ لوگ وہاں سے چھٹنے لگے اور اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہونے لگے۔ رینجر نے کہا کہ اس کے پاس کمبل نہیں ہے اور وہ وائٹ ہارس واپس جا رہے ہیں اگر وہ بھی ان کے ساتھ جائیں تو ہیٹر کے قریب بیٹھ سکیں گے۔ رینجر نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے ان تینوں کو بس میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔
    فیونا نے رینجر کا مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور وہ تینوں بس میں چڑھ کر سب سے آگے بیٹھ گئے، باقی مسافر ایک ایک کر کے چڑھنے لگے تو فیونا ہر ایک کو بہ غور دیکھنے لگی۔ جب ڈریٹن چڑھا تو اس نے گردن جھکائی ہوئی تھی۔ فیونا اسے دیکھتی رہی، وہ بس کی پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا اور سیٹ پر اس طرح ٹانگیں پھیلا کر لیٹا کہ دور سے نظر نہیں آ رہا تھا، فیونا نے جبران کو اشارہ کیا: ’’یہ لڑکا کچھ عجیب سا لگ رہا ہے، وہ جو پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا ہے۔‘‘ جبران اور دانیال دونوں نے مڑ کر اس طرف دیکھا تو فیونا بڑبڑائی: ’’یہ ڈریٹن ہے، میں اسے خوب جانتی ہوں۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو چھتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چھتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن کو سردی کے جھونکے نے موسم کا مزاج سمجھا دیا۔ اس نے کوٹ کی جیب سے اونی ٹوپی نکال کر ایسے جمائی کہ گردن بھی اس میں چھپ گئی۔ اس نے نگاہیں دوڑائیں تو کچھ فاصلے پر توقع کے عین مطابق وہ تینوں اسے نظر آ گئے۔ اس کے ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے سوچا، چلو فیونا کو ذرا یہ تو سمجھا دوں کہ یہاں اس کے ساتھ کیا کچھ پیش آسکتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اب اس کو بھی جانوروں سے باتیں کرنے والی طاقت مل چکی ہے، اس لیے اس نے ایک وحشی ریچھ کو فیونا پر حملہ آور کروانے کا سوچا۔ اس نے دیکھا کہ ایک ریچھ فیونا کی طرف بڑھنے لگا ہے، اس نے ریچھ کو حکم دیا کہ جاؤ اور اس لڑکی کی آنکھیں اپنے پنجوں سے نکال کر پھینک دو!
    فیونا اُس وقت گلیشیئرز کا تصور کر کے گھاس پر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی اور گال سہلا رہی تھی جس پر مچھروں نے جا بہ جا کاٹ لیا تھا۔ وہ دریا کی طرف گئی اور ٹھنڈے، برفیلے پانی سے چہرہ دھویا تاکہ کاٹنے سے ہونے والی کھجلی کچھ کم ہو جائے۔ وہ جیسے ہی جھکی، اسے اپنے پیچھے لوگوں کے چلانے کا شور سنائی دیا۔ اس نے جلدی سے سر اٹھا کر دیکھا، ایک وحشی ریچھ اس کی طرف دوڑتا چلا آ رہا تھا اور اس کے دانتوں میں ایک سالمن مچھلی پھنسی ہوئی جھول رہی تھی۔ قریب آ کر وہ رکا اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر بھیانک آواز میں دھاڑنے اور گرجنے لگا۔
    اسے جبران کی آواز سنائی دی: ’’فیونا، بھاگو وہاں سے!‘‘ یہ کہہ کر وہ کیمرہ آنکھ سے لگا کر تصویر اتارنے لگ گیا۔ دوسری طرف فیونا جہاں کھڑی تھی وہاں بت بن گئی تھی۔ ریچھ کسی بھی لمحے اسے اپنے پنجوں میں جکڑ سکتا تھا۔ فیونا کو لگا کہ موت اس سے چند قدموں کے فاصلے پر آ گئی ہے اور اس بار وہ اپنا بچاؤ کرنا بھی بھول گئی۔ یکایک ریچھ نے دھاڑنا بند کر دیا اور وہ جھول کر پانی میں جا گرا۔ فیونا کو لگا کہ ریچھ اس پر آ رہا ہے، اس لیے وہ خوف کے مارے پیچھے کی طرف جا گری۔ دور کھڑا پارک رینجر، جس نے بے ہوش کرنے والا تیر پھینک کر ریچھ کو بے ہوش کر دیا تھا، دوڑتا ہوا آ گیا۔ اس کے ساتھ جبران اور دانیال اور دیگر لوگ بھی دوڑتے ہوئے آ رہے تھے۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو پینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھیں‌
    فیونا کے پیر دریا کے برفیلے پانی میں بھیگ گئے تھے۔ بھورے بالوں والے ریچھ، جن میں سے کچھ کا قد چھ فٹ اونچا تھا اور چند چھوٹے، ننھے بچے دکھائی دے رہے تھے، تیز رفتار پانی کے درمیان کھڑے تھے اور سالمن مچھلیوں کا انتظار کر رہے تھے کے پانی میں بہتے ہوئے آ کر ان کے کھلے منھ میں پہنچ جائیں۔
    فیونا نے سردی محسوس کی تو شکر ادا کیا کہ وہ کوٹ لے کر نکلے تھے۔ وہ تینوں دریا سے دور جاتے ہوئے سرکنڈے کی جھاڑیوں کی طرف بڑھے۔ ایسے میں دانیال بولا: ’’ہم الاسکا میں ہیں، میں نے ایک تصویر میں ریچھ کو منھ میں مچھلی پکڑے دیکھا تھا، اور یہ الاسکا کی تھی۔‘‘ جبران نے کہا کہ وہ الاسکا میں نہیں ہو سکتے، کیوں کہ فہرست میں جن جگہوں کا ذکر ہے یہ ان میں سے ہے ہی نہیں، یہ شاید الاسکا کے قریب کی کوئی جگہ ہے۔ فیونا بولنے لگی: ’’ہم یوکان میں ہیں جو الاسکا کے ساتھ ہی ہے۔ اس علاقے کا نام اسی دریا کے نام پر ہے یعنی یوکان، جو الاسکا کی زبان وِچِن کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے سفید پانی کا دریا، اور یہ یوکان اور الاسکا دونوں جگہ بہتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اچانک اپنے گال پر تھپڑ مار دیا۔ ’’اُف، ان مچھروں کا کیا کریں، یہ تو کروڑوں کی تعداد میں ہیں، ہمارے ہاں کے مچھر تو ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔‘‘
    جبران نے بھی بھنبھناتے مچھروں کے غول پر ہاتھ مار کر اسے منتشر کرنے کی ناکام کوشش کی اور کہا: ’’پانی کو دیکھو، یہ دریا ہے یا مچھروں کی چادر تنی ہوئی ہے!‘‘
    ان تینوں سے کچھ فاصلے پر سیاح اپنے کیمروں سے ریچھ کی تصاویر لے رہے تھے۔ جبران نے فیونا سے کیمرہ لیا اور کہا: ’’میں ذرا جنگلی پھولوں کی تصاویر لے لوں۔‘‘
    ’’کیا مطلب ہے تمھارا!‘‘ دانیال تیز لہجے میں بولا: ’’پھولوں کی تصویر تو تم گھر پر بھی لے سکتے ہو، جب کہ یہ بھورے بالوں والے ریچھ ہم پھر نہیں دیکھ پائیں گے۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ جبران نے منھ بنا کر کہا اور ریچھوں اور مچھلیوں کی چند تصاویر بنانے کے بعد پھولوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ’’یہ دیکھو، یہ بالکل بنفشہ کی طرح کے پھول ہیں۔‘‘ وہ ایک پھول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: ’’یہ دراصل روغنی پھول ہے جس کے پتوں پر لیس دار مادہ ہوتا ہے اور یہ حشرات کو پکڑ لیتے ہیں، یہی حشرات ان پودوں کی غذا ہے۔‘‘
    دانیال یہ سن کر حیران ہوا: ’’تمھارا مطلب ہے کہ یہ پودے کیڑے کھاتے ہیں؟‘‘ وہ دل چسپی سے ان کیڑے خور پودوں کو دل چسپی سے جھک کر قریب سے دیکھنے لگا۔ جبران نے بتایا کہ یہ بٹروارٹ کہلاتے ہیں۔ فیونا نے انھیں ٹوکا کہ زمّرد ڈھونڈنے جانا ہے۔ جبران نے وہاں موجود پیلے رنگ کے قطبی گل لالہ کی ایک تصویر بنائی۔ دانیال ریچھوں کو دیکھنے کے لیے دریا کی طرف چلا گیا جب کہ فیونا خشک گھاس والی ایک جگہ دیکھ کر وہاں گئی اور بیٹھ گئی۔ اس نے آنکھیں موند لیں تو تصور میں ایک بہت بڑا گلیشیئر نظر آیا۔ نیلی برف میں سے بڑے بڑے ٹکڑے ٹوٹ کر الگ ہو رہے تھے، اور تب اس نے ان کی تہہ میں زمرد کو دیکھ لیا۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو چونتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چونتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    ڈریٹن کو ہوش آیا تو اس نے خود کو غار کے فرش پر پایا۔ وہ بیٹھنے لگا تو درد کے مارے اس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔ اس نے آہستہ آہستہ پہلے دایاں ہاتھ اٹھایا، پھر بایاں اور دونوں ٹانگیں۔ پھر خوش ہوا کہ بدن میں کچھ ٹوٹا نہیں تھا۔ اس نے غار کے سرے کی طرف دیکھا تو یہ ایک ڈھلوان راستہ تھا۔ وہ اٹھنے لگا تو اس کے ساتھ ہی تمام بدن سے ٹیسیں بھی اٹھنے لگیں۔ ہر ٹیس پر اس کے منھ سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکلتیں۔ اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر دوڑائی تو پتا چلا کہ اسے بے ہوش ہوئے دو گھنٹے گزر چکے ہیں۔

    ’’پتا نہیں کون سی سرنگ محفوظ ہے ۔‘‘ وہ بڑبڑانے لگا: ’’میں یہاں سے نکل کر سب سے پہلے اس چڑیل اور اس کے تمام دوستوں کو موت کے گھاٹ اتاروں گا۔‘‘ غصے سے اس کی ناک کے نتھنے پھول پچک رہے تھے اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ اسے جزیرے کے کنارے پہنچنے کے لیے ایک گھنٹہ لگا۔ جھیل پر پہنچ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا لیکن کشتی نظر نہیں آئی۔ اس نے غصے کے عالم میں پیر پٹخے اور پہلان کا نام لے کر چلایا: ’’اب تم بتاؤ پہلان، میں اس جزیرے سے کس طرح نکلوں؟‘‘
    اگلے لمحے غیر متوقع طور پر جھیل کے گہرے پانیوں سے ایک گونجتی آواز اٹھی: ’’تیر کر جاؤ!‘‘
    ڈریٹن بہت تلملایا لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس سے بہ مشکل چلا جا رہا تھا، بہرحال وہ پانی میں اتر گیا، کمر تک پانی آیا تو اس نے غوطہ لگایا۔ پانی بہت ٹھنڈا تھا لیکن مرتا کیا نہ کرتا، تیرتے ہوئے جھیل پر کرنی پڑی۔ پانی سے نکل کر وہ بری طرح کپکپانے لگا، عادت کے مطابق اس کے منھ سے بڑبڑاہٹ نکلی: ’’ہائے یہ ٹیسیں … اب میں سیدھا اینگس کے گھر جاؤں گا اور ان سب کو موت کی نیند سلا دوں گا، اور وہاں بیٹھ کر گرم گرم چائے پیوں گا۔‘‘
    وہ اینگس کے گھر کی طرف چل پڑا، اس کے قدموں تلے خشک پتے کڑکڑا رہے تھے اور خزاں کی ہواؤں نے اس کے گیلے کپڑے اس کے بدن کے ساتھ چپکا دیے تھے۔ جب وہ کھڑکی کے پاس پہنچ کر جھانک رہا تھا تو عین اسی وقت وہ تینوں منتر پڑھنے کے بعد نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔
    ’’یہ تو نکل گئے۔‘‘ اس نے دانت کچکچائے۔ اس نے دیکھا کہ وہ سب آپس میں ہنسی مذاق کرنے لگے ہیں اور کیک اور پیسٹری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس نے سوچا اگر میں اس گھر کو آگ لگا دوں اور ان سب کو جلا کر راکھ کر دوں تو ان کے ساتھ وہ جادوئی گولہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ نہیں مجھے صبر سے کام لینا چاہیے، وہ وقت بھی آ جائے گا جب میں سب سے پہلے اس لڑکی فیونا کا تیاپانچہ کروں گا۔ وہ سوچتی ہے کہ میرا مقابلہ کر سکتی ہے، ہونہہ …!‘‘
    اسی طرح کی باتیں سوچتا، وہ جون اور سوزان مک ایلسٹر کے گھر واپس پہنچ گیا۔ پچھلا دروازہ ایک لات سے کھولا اور اندر پہنچ کر گیلے کپڑے اتار کر پھینکنے لگا۔ نہانے کے بعد وہ کپڑوں کی الماریاں دیکھنے لگا تاکہ کچھ پہن سکے، اور جینز اور براؤن ٹی شرٹ کے ساتھ ساتھ ہائیکنگ بوٹ پسند کر کے پہن لیے۔ جون مک ایلسٹر کا سائز اس پر پورا آ گیا تھا۔ باتھ روم سے قینچیاں بھی مل گئیں، جن کی مدد سے اس نے بال تراش کر چھوٹے کر دیے اور کٹے ہوئے بال سِنک میں ڈال دیے۔ اس کے بعد کانوں سے بالیاں نکال کر آئینے میں اپنا سراپا دیکھا اور سوچنے لگا کہ اب وہ لوگ اسے نہیں پہچان سکیں گے۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ تینوں اس بار کس جگہ پہنچے ہوں گے، کوئی ٹھنڈی جگہ نہ ہو، مجھے کوٹ بھی لے لینا چاہیے، دیکھنا تو چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ سوچ کر اس نے ایک کوٹ کا انتخاب کیا، اسے پہنا اور جیب تھپتھپا کر رقم کی موجودگی کو محسوس کیا اور پھر منتر پڑھا۔ اگلے لمحے وہ غائب ہو گیا اور اس نے خود کو ایک دریا کے بیچ میں کھڑے پایا۔ اس نے کناروں پر نگاہیں دوڑائیں، وہاں شمال مغربی امریکا کے نہایت وحشی، بھورے بالوں والے ریچھ ادھر ادھر پھر رہے تھے!
    (جاری ہے…)
  • وہاڑی میں ریکوری کے دوران زیر حراست ملزمان کی تواتر سے ہلاکتیں سوالیہ نشان بن گئیں

    وہاڑی میں ریکوری کے دوران زیر حراست ملزمان کی تواتر سے ہلاکتیں سوالیہ نشان بن گئیں

    وہاڑی: ملتان ڈویژن بالخصوص ضلع وہاڑی میں ریکوری کے دوران زیر حراست ملزمان کی تواتر سے ہلاکتیں سوالیہ نشان بن گئی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ضلع وہاڑی میں گزشتہ کئی ماہ سے تواتر کے ساتھ ریکوری کے لیے لے جائے جانے والے زیر حراست ملزمان کی ہلاکتیں سامنے آ رہی ہیں۔

    مارچ، اپریل اور جون میں مجموعی طور پر ضلع وہاڑی میں 9 زیر حراست ملزمان کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا، جب کہ ملتان میں دو دن قبل ایک زیر حراست ملزم کو گولیاں ماری گئیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ریکوری کے دوران فائرنگ کے تمام واقعات میں کوئی بھی حملہ آور گرفتار نہ ہو سکا، اور واردات کے بعد وہ بہ آسانی فرار ہونے میں کامیاب رہے، جب کہ تمام ملزمان موقع ہی پر ہلاک ہوئے۔

    حالیہ واقعے میں وہاڑی کے علاقے تھانہ میلسی کی حدود میں ملزم عثمان کو ریکوری کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ پولیس حکام کے بیان کے مطابق اس کے ساتھیوں نے حملہ کر دیا، اور عثمان اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہو گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ عثمان ڈکیتی، اقدام قتل سمیت 52 مقدمات میں ریکارڈ یافتہ تھا۔

    پیر 19 جون کو ضلع ملتان کے علاقے تھانہ نیو ملتان کی حدود بوعہ پور کے قریب پولیس مقابلے کا دعویٰ کیا گیا، پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ملزم عاقب کو ریکوری کے لیے جایا جا رہا تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار اس کے ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آ کر عاقب ہلاک ہو گیا، ساتھی فائرنگ کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، ان دونوں واقعات میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ علاقے کی ناکہ بندی کر کے فرار ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی گئی۔

    پیر یکم مئی کو وہاڑی میں تھانہ تھنگی کے علاقے میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران قتل اور ڈکیتی جیسی سنگین وارداتوں میں مبینہ مطلوب ریکارڈ یافتہ بین الاضلاعی 2 ڈاکوؤں کی بھی اسی طرح ہلاکت ہوئی تھی، پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ ملزمان کو ریکوری کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ 159 ڈبلیو بی کے قریب ملزمان کے ساتھیوں نے حملہ کر دیا، 4 نامعلوم موٹر سائیکل سوار ساتھیوں نے ملزمان کو پولیس کی حراست سے چھڑوانے کے لیے سیدھی فائرنگ کر دی، جس سے رضوان اور قربان موقع ہی پر ہلاک ہو گئے۔ جوابی فائرنگ سے ملزمان کے ساتھی موٹر سائیکل چھوڑ کر اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے مبینہ ڈاکوؤں کو ایک روز قبل لڈن میں گھر میں ڈکیتی، موٹر سائیکل چھیننے اور شہری کو قتل کرنے کی تین وارداتوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    وہاڑی میں تھانہ تھنگی کی حدود میں جمعرات 27 اپریل کو ایک مبینہ پولیس مقابلہ ہوا تھا، پولیس اہل کار زیر حراست ملزم ہارون کو ریکوری کے لیے لے کر جا رہے تھے کہ ساتھیوں نے حملہ کر دیا اور ان کی فائرنگ سے ہارون مارا گیا، پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ہارون 50 سے زائد قتل، اقدام قتل، اور ڈکیتیوں کے مقدمات میں مطلوب تھا۔

    اتوار 9 اپریل کو وہاڑی میں دانیوال کے علاقے میں بھی نفیس نامی ایک زیر حراست ملزم اس وقت قتل ہوا جب اہل کار اسے ریکوری کے لیے لے جا رہے تھے، پولیس حکام کے بیان کے مطابق شبیر آباد کے قریب ملزم نفیس کے ساتھیوں نے پولیس پر فائرنگ کر دی، جس سے نفیس موقع ہی پر ہلاک ہو گیا، ملزم پر ایک دن قبل جی او آر چوک کے قریب ڈکیتی کی واردات کا الزام تھا۔

    مارچ کے مہینے میں ہفتے کے دن 25 تاریخ کو وہاڑی کی تحصیل بورے والا میں تھانہ ساہوکا کی حدود میں بھی مبینہ پولیس مقابلے میں ایک ریکارڈ یافتہ ڈاکو مارا گیا، پولیس حکام کا کہنا تھا کہ تھانہ گگو پولیس ڈاکو رمضان عرف رمضانی کھرل کو ریکوری کے لیے لے جا رہی تھی کہ چک نمبر37 کے بی کے قریب ملزم کے 3 ساتھیوں نے پولیس پر حملہ کر دیا، رمضان اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا، اور ملزمان اپنی موٹر سائیکل چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ہلاک ملزم ضلع وہاڑی، بہاولنگر، اور پاکپتن کے مختلف سنگین مقدمات میں ملوث تھا، پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم 3 مقدمات میں اشتہاری اور ایک میں عدالتی مفرور بھی تھا۔

    بدھ 22 مارچ کو بھی وہاڑی میں ساہوکا کے قریب مبینہ پولیس مقابلے میں 3 ڈاکو ہلاک ہو گئے تھے، ملزمان ڈکیتی، اور زیادتی کے مقدمات کے بین الاضلاعی ریکارڈ یافتہ تھے، پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ملزمان کو ریکوری کے لیے لے جایا جا رہا تھا، کہ ساہوکا کے قریب پولیس کا ملزمان کے ساتھیوں سے سامنا ہو گیا، اور انھوں نے فائرنگ کر دی، جس سے تینوں ڈاکو موقع ہی پر ہلاک ہو گئے اور فائرنگ کے بعد ساتھی فرار ہو گئے۔

  • ایک سو تینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تینتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابلِ ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ’’مجھے نہیں لگتا اینگس، کہ یہ سب ٹھیک ہے۔‘‘ مائری تشویش کے عالم میں کہنے لگیں: ’’یہ بہت خطرناک لگتا ہے۔ اگر انھیں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا؟ اگر میں نے انھیں جانے دیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔‘‘
    فیونا، جس کا منھ ونیلا کیک سے بھرا ہوا تھا، جلدی جلدی کیک نگل کر بولی: ’’ممی، ہمیں کچھ نہیں ہوگا، میں کتنی مرتبہ آپ سے کہہ چکی ہوں۔ انکل، آپ انھیں وہ جادوئی گولا کیوں نہیں دکھاتے!‘‘
    ’’ہاں، تم نے ٹھیک کہا۔‘‘ اینگس نے سَر ہلاتے ہوئے کہا اور جادوئی گولا لا کر مائری کو دکھایا۔ ’’یہ دیکھو، یہ ہے رالفن کا گولا، کیا یہ شان دار نہیں ہے!‘
    مائری نے حیرت کے ساتھ جادوئی گیند ہاتھوں میں لے کر دیکھی۔ ’’شان دار، یہ بہت خوب صورت ہے، اس میں لگے قیمتی پتھر تو دم بہ خود کر دیتے ہیں، اور ان کے اندر جو ڈریگن بنے ہوئے ہیں، ان کا تو جواب نہیں، لیکن یہ کیسے ممکن ہوا؟‘‘
    اس بار جونی نے لب کشائی کی: ’’ایسا کرتے ہیں کہ بچوں کو جانے دیتے ہیں، اس دوران ہم آپ کو اس گیند سے متعلق سب کچھ بتا دیتے ہیں۔ انھیں جانے کے بعد بس چند ہی منٹ لگیں گے اور یہ واپس بھی آ جائیں گے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ جمی نے بچوں کی طرف دیکھ کر کہا: ’’بھئی، اس بار ہو سکتا ہے کہ تم لوگ کسی ٹھنڈے مقام پر پہنچو، اس لیے اپنے کوٹ ساتھ لے کر جاؤ۔ یاد ہے نا کہ ہائیڈرا گرم مقام تھا، آئس لینڈ ٹھندی جگہ تھی اور سیچلز پھر گرم جگی تھی، تو اب ٹھنڈے مقام کی باری ہے۔‘‘
    اینگس بھی ان کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بولے: ’’ٹھہرو، تم لوگوں کو بھوک بھی لگ سکتی ہے، اس لیے بیگ میں بسکٹ ڈال کر جاؤ، اور تمھارے پاس رقم بھی ہے یا نہیں؟‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے جیب سے نوٹ نکال کر فیونا کی طرف بڑھائے۔ ’’یہ بھی رکھ لو، اور یہ کیمرہ بھی، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تمھاری مہم کی تصویری جھلکیاں بھی دیکھ سکیں۔‘‘
    مائری نے فیونا کے بیگ میں پانی کی بوتل بھی رکھ دی۔ ایسے میں جونی بھی پیچھے نہیں رہا، اس نے جیب سے قیمتی بریسلٹ نکال کر کہا: ’’فیونا، یہ ملکہ عالیہ کا پسندیدہ کڑا تھا۔ یقیناً وہ جان کر خوش ہوں گی کہ اسے تم نے پہنا، کیوں کہ تم ان کا خون ہو۔‘‘ جونی نے کڑا فیونا کی کلائی میں پہنا دیا۔ ’’دیکھو، کتنا پیارا لگ رہا ہے۔‘‘
    فیونا نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور بولی: ’’اب ہمیں مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جا رہے ہیں، اور ممی پریشان مت ہونا، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
    ایسے وقت جبران اور دانیال اس کے دونوں اطراف میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ ان کے چہروں پر عجیب تاثرات تھے۔ وہ پُر جوش بھی تھے اور ان جانے خدشات میں گرفتار بھی۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑے تھے اور سب کی نظریں ان پر ایسے جمی تھیں جیسے وہ دنیا کی عجیب و غریب مخلوق ہوں۔
    یکایک فیونا چیخی: ’’ممی، ہم جا رہے ہیں!‘‘ تینوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے۔ مائری کو لگا کہ وہ کوئی بھیانک سپنا دیکھ رہی ہیں۔ یکایک وہ جاگ پڑی اور انھیں روکنے والی تھیں لیکن ان کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ مائری نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے رنگا رنگ تارے جگمگا رہے ہیں۔ ان کی سماعت سے جو آخری الفاظ ٹکرائے تھے، وہ کسی ان جانی زبان میں بولا گیا منتر تھا۔
    دالث شفشا یم! اور پھر ان کی اکلوتی بیٹی اپنے غیر ملکی دوستوں کے ساتھ وہاں سے غائب ہو چکی تھی!
    (جاری ہے….)
  • ایک سو بتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    فیونا بلونگڑی کے پاس جا کر بولی: ’’ڈرو مت، یہ بوبی تمھیں اب کچھ نہیں کہے گا۔‘‘

    ’’نہیں، میں آگے نہیں آؤں گی۔‘‘ بلونگڑی نے جواب دیا۔ ’’تم نے دیکھا نہیں، کتنا بڑا کتا ہے، اس کے دانت اتنے بڑے بڑے ہیں، یہ تو ایک ہی حملے میں مجھے کاٹ ڈالے گا۔ مجھے اس کے پنجوں سے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

    فیونا اسے حوصلہ دینے لگی: ’’تم گھبراؤ مت، میں نے کتے سے بات کر لی ہے، اس کا نام بوبی ہے اور اب یہ تمھیں نہیں کاٹے گا۔‘‘ یہ کہہ کر فیونا نے مڑ کر کتے کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے، میں اس وقت بلی کو جانے دے رہا ہوں۔‘‘ جبران نے کہا: ’’فیونا، تم اب بلی سے بھی بات کر رہی ہو، آخر یہ جانور کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘

    فیونا ان دونوں کو کتے اور بلی کے جھگڑے کے بارے میں بتانے لگی، پھر بلونگڑی سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے جواب میں کہا ٹمبل۔ فیونا اچھل کر بولی: ’’ارے یہ کیا احمقانہ نام ہے، تمھارا نام فلفّی، جنجر، مارملیڈ یا اسی طرح کا کچھ ہونا چاہیے تھا نا … ٹمبل … ہش !‘‘
    اس نے منھ بنا کر بوبی کی طرف دیکھا تو اس کے ہونٹ اس طرح گول ہوئے جیسے ہنس رہا ہو۔

    ’’کیا یہ کتا ہنس رہا ہے؟‘‘ دانیال نے دل چسپی سے آگے آ کر پوچھا، وہ جھک کر دونوں جانوروں کو قریب سے دیکھنے لگا تھا۔ ’’اے لڑکے، زیادہ قریب مت آؤ، فاصلہ رکھو۔‘‘ بوبی غرّایا تو دانیال جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ فیونا نے بلونگڑی سے کہا: ’’اب ہم جا رہے ہیں، تم جھاڑیوں سے نکل کر میرے پاس آؤ۔ میں تمھیں انکل اینگس کے ہاں لے جاؤں گی، وہاں اور بھی بلیاں ہیں اس لیے تمھاری آمد پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، تم وہاں محفوظ رہو گی۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، میں آ رہی ہوں لیکن اس کتے کو مجھ سے دور رکھو۔‘‘ بلونگڑی بولی اور رینگ رینگ کر جھاڑیوں سے نکلنے لگی۔ ایسے میں دانیال نے سکون کا لمبا سانس لیا اور بولا: ’’چلو اچھا ہوا، اب ہم اس سے زیادہ اہم کام کر سکیں گے یعنی دنیا کو شیطان سے بچانے کا کام۔‘‘

    وہ تینوں مسز بٹلر کے گھر سے ہوتے ہوئے کچھ ہی دیر میں انکل اینگس کے دروازے پر پہنچ گئے۔ انھوں نے خود دروازہ کھولا: ’’تو تم تینوں ہو، نہیں بلکہ ایک عدد بلی بھی ہے، یقیناً میرے لیے لائی ہوگی۔‘‘

    اسی لمحے فیونا کو بلونگڑی کی باتیں سنائی دینے لگیں، وہ کہہ رہی تھی: ’’یہ کیا بے ہودگی ہے، کیا میں بلی ہوں؟ کیا اس شخص کو اتنا بھی نہیں پتا کہ میں بلی ہوں یا نہیں۔ میں تو مشکل میں پڑ جاؤں گی یہاں۔‘‘

    ’’شش… ‘‘ فیونا نے اسے چپ کرایا اور کہا کہ انکل اینگس بہت اچھے آدمی ہیں اور بلیوں سے بہت پیار کرتے ہیں۔ فیونا نے اسے اینگس کے حوالے کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ٹمبل ہے اور اسے انھوں نے جین بٹلر کے کتے سے بچایا ہے۔ اینگس نے اس سے بلی کا بچہ لے لیا اور انھیں اندر بھیج دیا جب کہ بلونگڑی کی دوسری بلیوں کے ساتھ جان پہچان کرانے کے لیے گھرے کے پچھواڑے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ تینوں اندر آئے تو سوائے فیونا کی ممی کے، سب موجود تھے۔ انھوں نے ٹھنڈا پانی پیا اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اتنے میں جانی اور جیک بھی کتاب لے کر آ گئے۔ جانی نے کتاب اینگس کے بستر پر رکھی اور باقی لوگوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اتنے میں مائری بھی پہنچ گئیں اور ان کے ہاتھوں میں ایک بڑا بیکری باکس تھا۔ انھوں نے آتے ہی کہا: ’’اگر کوئی بھوکا ہے تو میں کیک، اسکاؤن، ڈبل روٹی اور پیسٹریاں لائی ہوں۔‘‘

    یہ سن کر سب ہی خوش ہو گئے۔ جانی نے کہا اب تم سب لوگ بیٹھ جاؤ تو بہتر ہوگا۔ سب بیٹھ گئے تو اینگس بھی اندر چلے آئے اور فیونا کی طرف دیکھ کر بولے: ’’تو تم تینوں اپنی اگلی مہم کے لیے تیار ہو؟‘‘

    یہ سن کر مائری ایک دم اچھل کر کھڑی ہو گئیں۔

    (جاری ہے)

  • ایک سو اکتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اکتیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس ناول کی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھویں
    جبران اور دانیال بستے ہاتھوں میں لیے اسکول کے باہر فیونا کا انتظار کر رہے تھے، وہ کافی دیر بعد اسکول سے نکلی اور آتے ہی بولی کہ آج تو وقت ہی نہیں گزر رہا تھا۔ لیکن جبران نے کہا کہ اسے گھر جانا ہوگا کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ ممی کو کوئی ضروری کام ہو، اور دانیال نے کہا کہ وہ کچھ تھکاوٹ محسوس کر رہا ہے۔ فیونا یہ سن کر پریشان ہو گئی، کہنے لگی: ’’یہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو، آج اگلا قیمتی پتھر حاصل کرنے جانا ہے اور مجھے تم دونوں کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ٹھہری اور پھر بولی: ’’پتا ہے پچھلی رات بڑی خوف ناک تھی۔ ڈریٹن نے تو بس جیزے کو مار ہی ڈالا تھا۔ وہ زخمی ہے اور ہمیں وہاں جانا چاہیے۔‘‘
    فیونا کے لہجے میں التجا تھی، جبران نے کہا ٹھیک ہے لیکن امید ہے کہ وہ کسی مشکل میں نہیں پڑے گا، دانیال نے بھی کہا کہ ان دونوں میں سے کسی کو کچھ ہو گیا تو بلال انکل اور شاہانہ آنٹی برداشت نہیں کر پائیں گے۔ فیونا ان کو دلاسا دینے لگی کہ ان کے ساتھ خیر کی قوتیں ہیں جو اُن کی مدد کرتی رہتی ہیں اس لیے انھیں کچھ نہیں ہوگا۔ وہ تینوں چل پڑے اور راستے میں جِین بٹلر کے گھر سے گزرے تو فیونا نے دیکھا کہ نیم قطبی جزائر کا اسکاتستانی کتا شاہ بلوط کے قریب پنجے نکالے غرّا رہا تھا۔ درخت کے ساتھ بلی کا ایک بچہ پڑا خوف سے کانپ رہا تھا۔
    جبران غصے سے بولا: ’’ارے ایک ننھی بلونگڑی کو ڈرا رہا ہے یہ گندا کتا۔‘‘ وہ تینوں اس کی طرف دوڑ کر گئے۔ فیونا نے پاس پہنچ کر کہا: ’’گندے کتے، بلونگڑی کو جانے دو۔‘‘
    کتے نے پنجے گرا کر اس کی طرف دیکھا۔ فیونا کہہ رہی تھی: ’’تم کتے ہمیشہ بلیوں کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہو! تم ایک گندے کتے ہو، چلو بھاگو یہاں سے۔‘‘
    ’’کیوں … میں تو ایک کتا ہوں، اور کتے ہمیشہ بلیوں کا پیچھا کرتے ہیں۔‘‘ فیونا مزید قریب ہو کر بولی: ’’اگر میں تمھیں سہلاؤں تو تم مجھے کاٹو گے تو نہیں، نہیں ناں؟‘‘
    ’’نہیں میں تمھیں نہیں کاٹوں گا۔‘‘ کتے نے کہا تو فیونا اسے سہلانے لگی، کتا بولا: ’’تمھارے ہاتھ کا لمس مجھے اچھا محسوس ہو رہا ہے، اسی طرح سہلاتی رہو، تم بہت اچھی ہو۔‘‘
    فیونا اور کتے کے درمیان یہ گفتگو چل رہی تھی اور جبران دانیال حیران کھڑے تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ فیونا کی بات کے جواب میں کتا بھونک رہا ہے اور فیونا ایسے دکھائی دے رہی ہے جیسے اسے سمجھ رہی ہو۔ جبران نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا تم کتے کے ساتھ باتیں کر رہی ہو؟‘‘ دانیال بھی تجسس کے ساتھ قریب آ کر کتے اور فیونا کے درمیان ہونے والی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگا۔ ان دونوں کو تو صرف فیونا کی باتیں ہی سمجھ میں آ رہی تھیں۔ فیونا نے کہا: ’’ہاں، میں اس کے ساتھ باتیں کر رہی ہوں اور ہم خیال رسانی کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہیں۔ یہ کتا چاہتا ہے کہ میں اس کی پیٹھ سہلاؤں۔‘‘
    یہ کہہ کر فیونا نے کتے کے کان رگڑے، کتے نے کہا ہاتھ مت روکو، مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ فیونا نے پوچھا: ’’تمھارا نام کیا ہے پپی؟‘‘
    کتا بولا: ’’میرا نام بوبی ہے، گریفرائر کے بوبی کی طرح، لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ کوئی زیادہ تخلیقی نام نہیں ہے، اور تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
    ’’مجھے فیونا کہتے ہیں، یہ جبران اور یہ دانیال ہے، انھیں بھی مت کاٹنا، اور ہاں اس بے چاری بلونگڑی کو تم نے ڈرا کر تقریباً مار ہی ڈالا ہے۔ بتاؤ تم اسے تکلیف کیوں دے رہے ہو؟‘‘
    (جاری ہے…)