Author: راجہ محسن اعجاز

  • لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 26 ویں آئینی ترمیم چیلنج  کردی

    لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 26 ویں آئینی ترمیم چیلنج کردی

    اسلام آباد : لاہورہائیکورٹ بارایسوسی ایشن نے26ویں آئینی ترمیم چیلنج کردی ، جس مین ترمیم کے مختلف سیکشنز غیر آئینی قراردینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائر کر دی، حامد خان نے ترمیم کیخلاف آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ آئینی ترمیم کے سیکشن 7، 9، 10، 12، 13، 14 کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

    مزید پڑھیں : 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    حامد خان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ ترمیم کے سیکشن 16، 17اور 21 ، آئینی ترمیم کے سیکشنز کے تحت اقدامات کو بھی غیر آئینی قرار دیا جائے۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ درخواست زیر التوا ہونے تک جوڈیشل کمیشن و دیگر کو اقدامات سے روکا جائے۔

    آئینی درخواست میں وفاق،جوڈیشل کمیشن، قومی اسمبلی، سینیٹ،اسپیکرقومی اسمبلی اورصدرمملکت کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    اسلام آباد : 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی ، جس ترمیم کو غیرآئینی قرار
    دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری سمیت چھ وکلا نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    درخواست میں ترمیم کو آئین کے بنیادی حقوق اور آئینی ڈھانچہ کے منافی قرار دینے اور ججزتقرری پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست میں آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرارد ینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کیلئے ارکان سے زبردستی ووٹ کی منظوری نہیں لی جا سکتی۔

    درخواست میں کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نامکمل ہےاور اس کی آئینی حیثیت پر قانونی سوالات ہیں، عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے آئینی ترمیم سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

    درخواست گزار نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کےذریعےچیف جسٹس کی تعیناتی مداخلت کے مترادف ہے، آئینی بینچز کا قیام سپریم کورٹ کے متوازی عدالتی نظام کا قیام ہے۔

    عابد زبیری سمیت 6 وکلا نے درخواست میں وفاق اورصوبوں کو فریق بنایا ہے۔

  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا سپریم کورٹ کی تمام عدالتوں سے متعلق اہم فیصلہ

    چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا سپریم کورٹ کی تمام عدالتوں سے متعلق اہم فیصلہ

    اسلام آباد: پاکستان کے نئے چیف جسٹس تحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کی تمام عدالتوں کو لائیو اسٹریمنگ فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    ذرائع نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس حوالے سے سپریم کورٹ کے جج محمد علی مظہر کو ٹاسک دے دیا۔ عدالت عظمیٰ کی تمام کورٹ رومز میں لائیو اسٹریمنگ سروس فراہم کی جائے گی۔

    براہ راست اسٹریمنگ سروس سائلین کی رضامندی کے ساتھ مشروط ہوگی جبکہ خاتون سائل کی رضامندی کے تحت کیس کی سماعت میں رازداری برتی جائے گی۔

    سروس کے تحت عدالت کی کارروائی تک دنیا بھر سے رسائی حاصل ہوگی جبکہ اوورسیز پاکستانی سائلین بھی اپنے مقدمات کی سماعت براہ راست دیکھ سکیں گے۔

    براہ راست اسٹریمنگ کیلیے مطلوبہ کیمرے سمیت دیگر آلات کی خریداری کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایک کمیٹی پروپوزل تیار کر کے حتمی منظوری کیلیے چیف جسٹس کو بھجوائے گی۔

    واضح رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کے صرف کمرہ عدالت نمبر ایک میں لائیو اسٹریمنگ سروس دستیاب ہے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰی نے بھی کچھ مقدمات کی سماعت کو براہ راست نشر کروایا تھا۔

    فل کورٹ اجلاس طلب

    دوسری جانب چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیمبر سنبھالتے ہی 28 اکتوبر کو ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کر لیا ہے۔

    نئے چیف جسٹس کے حلف اٹھانے کے بعد سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اپ ڈیٹ کر دی گئی۔ ویب سائٹ پر یحییٰ آفریدی کا نام چیف جسٹس پاکستان کے طور پر اپ ڈیٹ کر دیا گیا۔ ان کے بعد سینئر موسٹ جج جسٹس منصور علی شاہ ہیں۔

    اس سے قبل ایوان صدر میں نامزد چیف جسٹس کی تقریب حلف برداری ہوئی، تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔

    تقریب میں یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وہ پاکستان 30ویں چیف جسٹس ہیں۔

  • بانی پی ٹی آئی سے متعلق امریکی کانگریس کا خط، پاکستان نے سفارتی آداب کی خلاف ورزی قرار دے دیا

    بانی پی ٹی آئی سے متعلق امریکی کانگریس کا خط، پاکستان نے سفارتی آداب کی خلاف ورزی قرار دے دیا

    دفتر خارجہ نے 60 امریکی کانگریس کی جانب سے صدر جو بائیڈن کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے خط لکھنے کے معاملے پر ردعمل دیا ہے۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے 60 امریکی کانگریس ارکان کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کے لیے صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے۔

    ترجمان کے مطابق پاکستان اور امریکا کے درمیان دیرینہ تعاون پر مبنی تعلقات ہیں اور ایسے خطوط پاک امریکا تعلقات اور باہمی احترام کے ساتھ مماثل نہیں۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان رابطوں پر پیش رفت کو دیکھ رہے ہیں۔

    امریکی کانگریس کے باسٹھ ارکان نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے صدر بائیڈن کو خط لکھا تھا۔

    خط میں سابق وزیراعظم عمران خان سمیت سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ عمران خان کی حفاظت کیلئے پاکستانی حکام سےگارنٹی لیں۔

    خط مین کہنا ہے کہ امریکی سفارتکار بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کریں اور امریکی پالیسی میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پرفوکس کیا جائے

    امریکی کانگریس کے 62 ارکان کا عمران خان کی رہائی کیلئے صدر بائیڈن کو خط

  • نیب ترامیم کیس :  جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ سامنے آگیا

    نیب ترامیم کیس : جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی کا اضافی نوٹ سامنے آگیا ، جس میں انھوں نے کہا فیصلے سے متفق ہوں لیکن وجوہات کی توثیق پر خود کو قائل نہیں کرسکا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی نے نیب ترامیم کیس میں اضافی نوٹ جاری کردیا، اضافی نوٹ بائیس صفحات پر مشتمل ہے۔

    اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ فیصلے سے متفق ہوں لیکن وجوہات کی توثیق پر خود کو قائل نہیں کرسکا۔

    جسٹس حسن اظہر کا کہنا تھا کہ فیصلے میں اصل مدعے پر خاطر خواہ جواز فراہم نہیں کیا گیا اور فیصلے میں سابق ججز کے حوالے سے غیر مناسب ریمارکس دیے گئے،عدالتی وقار کا تقاضا ہے کہ اختلاف تہذیب کے دائرے میں رہ کر کیا جائے۔

    اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ تنقید کا محور قانونی اصول ہوں نا کہ فیصلہ لکھنے والوں کی تضحیک کی جائے، عدالتی وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کی اپنی الگ وجوہات تحریر کررہا ہوں۔

    جسٹس حسن اظہر نے مزید کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت انٹرا کورٹ اپیل روایتی اپیلوں سے منفرد ہے،سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل اپنے ہی فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کیلئے ہے،سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل کسی ماتحت عدالت کےفیصلے کیخلاف نہیں ہوتی،انٹرا کورٹ اپیل سننے والے بینچ کو مقدمے کے حقائق کو متاثر نہیں کرنا چاہیے۔

  • 26ویں آئینی ترمیم :  برطرف ملازمین کی بحالی کی درخواستیں آئینی بینچز کو بھیج دی گئیں

    26ویں آئینی ترمیم : برطرف ملازمین کی بحالی کی درخواستیں آئینی بینچز کو بھیج دی گئیں

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین بحالی کی درخواستیں آئینی بینچزکو بھیج دیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 26ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا آئینی کیسزآئینی بینچزسنیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں برطرف ملازمین بحالی کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    وکیل درخواست گزار وسیم سجاد نے بتایا کہ پر سکون زندگی ہرشہری کا آئینی حق ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں آئینی سوال ہے، 26ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا آئینی کیسزآئینی بینچزسنیں گے، اعلیٰ بینچز بنیں گے وہی تعین کریں گے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ کیس اہم ہے آئینی بینچ ہی سنے گا، عدالت کا کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں آئینی سوال کے کیسز آئینی بینچز سنیں گے، درخواستیں آئینی بینچز کو بھیج رہے ہیں۔

    یاد رہے وزارت پیٹرولیم نیچرل ریسورس کے 7ملازمین نےہائیکورٹ فیصلے کیخلاف رجوع کیا تھا۔

  • 26 ویں  آئینی ترمیم  سپریم کورٹ میں چیلنج

    26 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کردیا گیا، جس میں آئینی ترمیم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائر کردی گئی، محمد انس نے وکیل عدنان خان کی وساطت سے آئینی درخواست دائر کی۔

    آئینی ترمیم کیخلاف درخواست میں وفاق کوفریق بنایا گیا اور سپریم کورٹ سے آئینی ترمیم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست گزار نے موقف میں کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے ، پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرسکتی ہے تاہم پارلیمنٹ کو عدالتی امور پر تجاوز کرنے کا اختیار نہیں۔

    درخواست میں کہا گیا کہ آئینی ترمیم آئین کےبنیادی ڈھانچے،اداروں میں اختیارات کی تقسیم کیخلاف ہے، آئینی ترمیم کےذریعےچیف جسٹس کی تعیناتی کاطریقہ کارتبدیل کردیاگیا، ترمیم کےبعدچیف جسٹس کی تعیناتی حکومت وقت کےپاس چلی گئی۔

    درخواست میں مزید کہنا تھا کہ ججزتقرری کےجوڈیشل کمیشن کی ہیت کوبھی تبدیل کردیاگیا، استدعا ہے کہ آئینی ترمیم کوبنیادی حقوق ، عدلیہ کی آزادی کےمنافی قراردےکرکالعدم قراردیں۔

  • انٹرا پارٹی الیکشن نظر ثانی کیس، پی ٹی آئی وکلا کا سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد

    انٹرا پارٹی الیکشن نظر ثانی کیس، پی ٹی آئی وکلا کا سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد

    انٹرا پارٹی الیکشن نظر ثانی درخواست کیس میں پی ٹی آئی وکلا نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے روسٹرم چھوڑ دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر 13 جنوری کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست کی سماعت کی اور درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اسے خارج کر دیا۔

    نظر ثانی درخواست کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پر پی ٹی آئی وکلا حامد خان اور بیرسٹر علی ظفر نے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے دلائل دینے سے انکار کر دیا اور روسٹرم چھوڑ دیا۔

    ایڈووکیٹ حامد علی خان نے کہا کہ میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو متعصب ہو، مجھے دلائل نہیں دینے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتا۔

    اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے تو انٹرا پارٹی انتخابات کیلیے نوٹس جاری ہوا لیکن نوٹس کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے گئے۔ ایسا تو نہیں کہ آپ لوگ انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے دلچسپی نہیں رکھتے؟

    جسٹس مسرت ہلالی نے مزید کہا کہ انتخابات کرانے کے لیے تو دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا جب کہ یہ تو ایک ہفتے کا کام ہے، پھر ایک جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں تاخیر کیوں کر رہی ہے؟ کیا ہمدردی لینا چاہتے ہیں؟

    چیف جسٹس نے کہا کہ بیرسٹر گوہر، نیاز اللہ نیازی، علی ظفر بھی تھے کوئی دلائل دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے۔

    حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ موجودہ بینچ کے سامنے دلائل دینا ہی نہیں چاہتا، جب نیا بینچ بنے گا تو دلائل دوں گا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں پھر گپ شپ کر لیتے ہیں، آپ کو سننے میں مزا آتا ہے۔

    اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 13 جنوری کو فیصلہ آیا۔ 8 فروری کو الیکشن تھے، تو انٹرا پارٹی انتخابات کیوں نہیں کرائے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت آپ الیکشن کمیشن سے درخواست کر سکتے تھے کہ انتخابات تک کا وقت دیں۔

    حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے یہ بات کی تھی تو مجھےعدالت نے کہا کہ التوا لینا ہے تو پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کریں گے۔ کسی جماعت سے انتخابی نشان چھین کر بنیادی حق سے محروم کرنا خلاف آئین ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ نے کبھی پھر الیکشن ایکٹ کی ان شقوں کو چیلنج نہیں کیا؟ پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ ہم نے پارٹی الیکشن کرایا ہی نہیں، ہم نے تو الیکشن کرایا لیکن جناب نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی پارٹی الیکشن کا آئین بہت شفاف ہے۔ آپ ایسے آئین کو بدل دیں یا اس کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرائیں۔

    اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آ گئے اور 26 ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بینچ اب یہ کیس سن ہی نہیں سکتا اور نہ ہم اس کے سامنے دلائل دیں گے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کسی ترمیم کا، ہمارے سامنے کچھ نہیں ہے۔ ہمیں نہ بتائیں کہ ہم کیا سن سکتے ہیں اور کیا نہیں۔

    اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر اور حامد خان ایڈووکیٹ نے روسٹرم چھوڑ دیا جب کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکم ناملہ لکھوانا شروع کر دیا جس پر حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکم نامہ لکھنا ہے تو میرا پورا مؤقف لکھیں کہ میں نے دلائل کیوں نہیں دیے۔ لکھیں کہ میں نے انتہائی متعصب جج کے سامنے دلائل سے انکار کیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کہاں لکھا ہے کہ ہم متعصب ہیں؟ حامد خان نے کہا کہ یہ بات میں نے اس عدالت کے سامنے کہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں نہ بتائیں کہ حکم نامے میں کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں۔ آخری سماعت پر التوا مانگا گیا تھا جب کہ لارجر بینچ کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔

    چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ حامد خان آپ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہونگے۔ پہلے وکیل سیاست عدالت سے باہر رکھ کر آتے تھے۔ تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، عدالت میں سیاست کو مت لائیں۔

    وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمارا اعتراض ہے کہ بینچ کا ایک جج متعصب ہے۔ اس موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج پر تعصب کی کوئی درخواست آپ نے نہیں دی جب کہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ متعصب کا الزام لگانے کی وجہ سامنے نہیں۔

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد اب یہ بینچ کیس کی سماعت نہیں کرسکتا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں، آپ انٹرا پارٹی انتخابات کرا لیتے، اس سے جمہوریت آتی ہے، ہمیں آج امیدواروں کی فیس کی بینک رسید دکھا دیں۔ حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ کون سی جمہوریت، یہاں جمہوریت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/supreme-court-revision-petition-against-pti-intra-party-election-decision-dismissed/

  • سپریم کورٹ: پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی درخواست خارج

    سپریم کورٹ: پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی درخواست خارج

    سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے خارج کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پر 13 جنوری کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست کی سماعت کی اور درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اسے خارج کر دیا۔

    عدالت عظمیٰ نے وکیل تحریک انصاف کی لارجر بینچ بنانے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔ چیف جسٹس نے اپنے حکمنامہ میں لکھوایا کہ عدالت نے فریقین کے وکلا کو ایک اور موقع دیا لیکن پی ٹی آئی وکلا کے کیس کے میرٹس پر دلائل نہیں دیے اور ہمارے 13 جنوری کے فیصلے میں کوئی غلطی ثابت نہیں کی جا سکی۔

    اس سے قبل سماعت کے موقع پر وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے استدعا کی کہ کیس لارجر بینچ کی تشکیل کیلیے کمیٹی کو بھیجا جائے۔ جس پر چیف جسٹس کا حامد خان ایڈووکیٹ سے مکالمہ ہوا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ نظر ثانی کا معاملہ ہے اور ہمیں قانون کو دیکھنا ہے۔ نظر ثانی درخواست میں عدالتی فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوالات ہوتے ہیں۔ آپ نے اس پوائنٹ کو پہلے کیوں نہیں اٹھایا؟

    پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ عدالت سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کیس کے فیصلے کا پیرا گراف دیکھ لے۔

    اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ فیصلہ ہم کیوں دیکھیں۔ یہ معاملہ اور ہے جب کہ وہ الگ معاملہ ہے۔

    حامد خان ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ موجودہ 3 رکنی بینچ کیس نہیں سن سکتا۔ سنی اتحاد کونسل کیس میں 13 رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں نظر ثانی زیر التوا ہے۔ ہم کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیکھیں گے، جس پر نظر ثانی زیر التوا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟

    پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ میں اب وہ کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں ٹی وی پر بات کرنے کے بجائے منہ پر بات کرنے والے کو پسند کرتا ہوں۔

    ایڈووکیٹ حامد علی خان نے کہا کہ میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو متعصب ہو، مجھے دلائل نہیں دینے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتا۔

  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ ، سرکاری ملازمین کے لیے اہم خبر آگئی

    سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ ، سرکاری ملازمین کے لیے اہم خبر آگئی

    اسلام آباد: سرکاری ملازمین کے حوالے سے سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ سامنے آگیا، پالیسیز اور پیکجز پر کوٹہ غیرآئینی قرار دے دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سرکاری ملازمین کے بچوں کے کوٹہ سے متعلق سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کردیا۔

    سپریم کورٹ کا11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس نعیم اختر افغان نے تحریر کیا، جس میں سرکاری ملازمین کے بچوں سے متعلق پالیسیز اور پیکجزپرکوٹہ غیرآئینی قرار دے دیا گیا۔

    سپریم کورٹ نےجی پی اوکی اپیل منظورکرکےپشاورہائیکورٹ کا2021 کا فیصلہ اور کوٹہ سے متعلق پرائم منسٹر پیکج فار ایمپلائمنٹ پالیسی اور اس کا آفس مینوریڈم کالعدم قرار دے دیا۔

    عدالت نے کوٹہ سے متعلق پرائم منسٹر پیکج فار ایمپلائمنٹ پالیسی اور اس کا آفس مینوریڈم ، سندھ سول سرونٹس رولز 1974 کے سیکشن 11 اے بھی کالعدم قرار دیا۔

    فیصلے میں خیبرپختونخوا سرول سرونٹس رولز 1989 کا سیکشن 10 زیلی شق 4 اور سپریم کورٹ نے بلوچستان سرول سرونٹس رول 2009 کی شق 12 بھی کالعدم قرار دے دی گئی۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ بغیراشتہار یا اوپن میرٹ بیوہ یا بچے کا کوٹہ آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ کوٹہ آرٹیکل 4،3، آرٹیکل 5 ذیلی شق 2 اور آرٹیکل 25 اور 27 سے متصادم ہے۔

    Currency Rates in Pakistan Today- پاکستان میں آج ڈالر کی قیمت 

    عدالت کا کہنا تھا کہ وفاق ،صوبائی حکومتیں بغیراشتہاریا اوپن میرٹ ملازمتوں کی پالیسی ختم کریں تاہم فیصلے کا اطلاق پہلے سے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملنے والے کوٹے پر نہیں ہوگا۔

    سپریم کورٹ کے مطابق فیصلے کا اطلاق دہشت گردی کے واقعات میں شہید افراد کے قانونی ورثا اور شہدا کے ورثا کو ملنے والے پیکجز اور پالیسیز پر نہیں ہوگا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ وزیراعظم کو بھی کوٹے سے متعلق رولز نرم کرنے کا اختیار نہیں ہے، اچھی طرز حکمرانی کا حصول غیر مساوی سلوک اپنا کر حاصل نہیں کیا جا سکتا، کوٹے پر ملازمتوں کا حصول میرٹ کے برخلاف ہونے کیساتھ امتیازی سلوک بھی ہے۔

    خیال رہے محمدجلال نامی شہری نےدرجہ چہارم کی ملازمت کے حصول کیلئے عدالت سے رجوع کیا تھا ، پشاور ہائیکورٹ نے محمد جلال کو کنٹریکٹ پر ملازمت کی ہدایت دی تھی ، بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف جی پی او نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔