پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے ایک اور وضاحت جاری کر دی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی درخواست پر سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے ایک اور وضاحت جاری کر دی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے 8 ججز کی جانب سے جاری وضاحت میں ایک بار پھر اس موقف کو دہرایا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے 12 جولائی کا فیصلہ غیر موثر نہیں ہو سکتا۔
اس وضاحت میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا پابندی ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا ماضی سے اطلاق نہیں ہوسکتا اور نہ ہی الیکشن ایکٹ ترمیم کے ماضی سے اطلاق کو وجہ بنا کر فیصلہ غیر مؤثر کیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے اپنی وضاحت الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا حکم دیا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اکثریتی رائے سے 12 جولائی کو اپنے فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا اہل قرار دیا تھا جس کا تفصیلی فیصلہ گزشتہ ماہ جاری کیا گیا تھا جس میں مذکورہ فیصلے کی توثیق کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد حکومت اور اس کی اتحادی ہم خیال جماعتوں کی ایوان میں دو تہائی اکثریت ختم ہوگئی تھی۔
تاہم عدالت عظمیٰ کے 12 جولائی کے مختصر فیصلے کے بعد حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2024 منظور کرا لیا تھا۔
آج اسی حوالے سے الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس ہوا جس میں قانونی ماہرین نے پارلیمنٹ سے منظور شدہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر عملدرآمد کی تجویز دی ہے۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ نے مجوزہ 26 ویں آئینی ترامیم کیخلاف درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی شامل ہیں۔
درخواست گزاران کی جانب سے حامد خان پیش ہوئے اور مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف دائردرخواست واپس لینے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمے میں کہا کہ کیا آپ کو صرف درخواست واپس لینے کیلئے وکیل کیا گیا، عابد زبیری خود بھی درخواست واپس لے سکتے تھے،
اعتراضات کیساتھ دوسری درخواست بھی مقررہے۔
وکیل حامد خان نے بتایا کہ ہم دونوں درخواستیں واپس لیتے ہیں، چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمے میں کہا آپ کی خدمات صرف درخواست واپس لینے کیلئے لی گئی، درخواست چھ وکلاء نے دائرکی تھی، وہ خود بھی کہہ سکتے تھے واپس لینا چاہتے ہیں، حامد خان صاحب مجھے یقین ہےآپ کی خدمات باضابطہ طور پرلی گئی ہوں گی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ صرف اعتراضات کیخلاف اپیل واپس لے رہے ہیں یا اصل درخواست بھی؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ درخواست اوراعتراضات کیخلاف اپیل دونوں واپس لے رہے ہیں۔
جس پر سپریم کورٹ نے مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نےعابد زبیری سے بھی مکالمے میں کہا آپ کی ایک اوردرخواست بھی تھی، میں نےبطورچیف جسٹس اس درخواست کوسماعت کیلئے مقررنہیں کیا، ہوسکتا ہےاب وہ درخواست بعد میں لگے، حامد خان نے جواب دیا آپ کی بڑی مہربانی ہے
چین کے وزیراعظم لی کیانگ تین روزہ دورے پر کل پاکستان پہنچیں گے وہ وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر یہ دو طرفہ دورہ کر رہے ہیں۔
دفتر خارجہ کے جاری بیان کے مطابق چین کے وزیراعظم لی کیانگ 14 سے 17 اکتوبر تک پاکستان کا دورہ کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر چینی ہم منصب دو طرفہ دورہ کر رہے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ چینی وزیراعظم کے ہمراہ تجارت، نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے حکام، چائنا انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کو آپریشن ایجنسی کے وزرا سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی وفد میں شامل ہوں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور چینی وزیراعظم لی کیانگ اپنے اپنے وفود کی قیادت کریں گے۔ اس موقع پر اقتصادی، تجارتی تعلقات اور سی پیک کے تحت تعاون پر بات کی جائے گی جب کہ دونوں فریقین علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
چینی وزیراعظم صدر آصف علی زرداری، اعلیٰ عسکری قیادت اور پارلیمانی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
اس کے علاوہ چینی وزیراعظم لی کیانگ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ پاکستان اور چین کی جانب سے "آل ویدر اسٹریٹجک کو آپریٹو پارٹنر شپ” کی اہمیت کا اظہار ہے۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آئینی ترامیم کیخلاف نئی درخواست دائر کردی گئی ، جس میں استدعا کی گئی کہ ایگزیکٹو کو عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم سے روکا جائے۔
تفصیلات کے مطابق آئینی ترامیم کیخلاف نئی درخواست دائر کردی گئی ، درخواست ایڈووکیٹ صائم چوہدری کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔
درخواست میں کہا گیا کہ ججزکی ریٹائرمنٹ کی عمر سےمتعلق آرٹیکل 179کوبنیادی آئینی ڈھانچہ قراردیاجائے ، قراردیاجائےحکومت عدلیہ کی آزادی اورغیر جانبداری میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
درخواست میں آئینی ترامیم کوبنیادی حقوق ،آئین ،عدلیہ کی آزادی کےمنافی ہونے پرکالعدم قراردینےکی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایگزیکٹو کو عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم سے روکا جائے۔
درخواست میں وفاقی حکومت، اسپیکر ،چیئرمین سینٹ اوروزارت قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔
یاد رہے حکمران اتحاد نے آئینی ترامیم بل پر جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو منانے سے ناکامی پر آئینی ترامیم کا بل دس سے بارہ دن کے لیے موخر کردیا تھا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کا بل 10سے 12روز بعدقومی اسمبلی میں پیش ہوگا، حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ آئینی بل پی ٹی آئی اراکین کے ووٹ کے بغیر پاس کرائیں گے، بل کافی عرصے سے زیر بحث تھا لیکن مولانا فضل الرحمان نےیو ٹرن لیا۔
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کیا جج بننے کے بعد آئین و قانون کے تقاضے ختم ہوجاتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مارشل لاء کے نفاذ سے متعلق اہم ریمارکس دیے اور محکمہ آبادی پنجاب کے ملازم کی نظرثانی درخواست خارج کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلہ آئین و قانون سے بالاتر نہیں ہوسکتا، لگتا ہے وقت آگیا ہے کہ ججز کی کلاسز کروائی جائیں، وکلا کو آئین کی کتاب سے الرجی ہوگئی ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کی مثالوں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے، عدلیہ کبھی مارش لاء کی توثیق کردیت یہے، کیا ججز آئین کے پابند نہیں، ججز کی اتنی فراخدلی غیرآئینی اقدام کی توثیق کردیتی جاتی ہے۔
دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں یہی ہورہا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا مارشل لاء آجاتا ہے، غیر آئینی اقدام کی توثیق کا اختیار ججز کے پاس کہاں سے آجاتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کا حوالہ وہاں آئے جہاں آئین و قانون کا ابہام ہو، وکلا اب آئین کی کتاب اپنے ساتھ عدالت میں نہیں لاتے، کہا جاتا ہے نظرثانی درخواست جلدی لگادی، کہا جاتا ہے ڈھائی سال پرانی نظرثانی درخواست کیوں لگائی؟
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نظر ثانی کی درخواست منظور کر لی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کی اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نظر ثانی کی درخواست منظور کر لی ہے۔
چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں ہی مختصر فیصلہ سنایا اور کہا کہ فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بینچ کی تشکیل کو غلط قرار دیتے ہوئے سماعت کا بائیکاٹ کرتے ہوئے خود کو سماعت سے علیحدہ کر لیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اس عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے اور درخواست واپس لے لی۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت آپ کیلیے آئینی ترمیم اور جوڈیشل پیکیج لا رہی ہے۔ اگر آپ نے فیصلہ دیا تو یہ ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہو گی۔
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ حد کو عبور کر رہے ہیں اور فیصلے سے قبل توہین آمیز باتیں کر رہے ہیں، ہم آپ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جانب سے یہ بڑا بیان ہے اور اسی بات کی اجازت نہیں دیں گے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے رہے ہیں؟ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ ہماری عزت کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے؟ آپ کو ہم بتائیں تو آپ کو شرمندگی ہوگی۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ ہارس ٹریڈنگ کو روکتا ہے۔ اس کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ ختم کی گئی تھی۔ اب اس فیصلے سے دوبارہ سب کچھ اوپن ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو چلنے دیں، آپ ایک فیصلے سے کیوں گھبرا رہے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مجھے بانی پی ٹی آئی کی ہدایات ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار ایک ہی نام کیوں لے رہے ہیں۔ آپ ہوں یا کوئی اور، سب ایک جیسے ہیں۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظر ثانی اپیلوں کی سماعت ہوئی بانی تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے سماعت سے خود کو الگ کر لیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے بینچ کی تشکیل کو غلط قرار دیتے ہوئے سماعت کا بائیکاٹ کرتے ہوئے خود کو سماعت سے علیحدہ کر لیا۔
سماعت کا آغاز ہوا تو بیرسٹر علی ظفر نے بانی پی ٹی آئی کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی استدعا کی۔ عدالت نے یہ استدعا مسترد کر دی اور چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی ان سے ملاقات ہوگئی ہے؟
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کل ملاقات ہوئی مگر علیحدہ نہیں ہوئی، پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔ اس لیے یہ کوئی وکیل اور موکل کی ملاقات نہیں تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے کون سی خفیہ بات کرنا تھی، صرف آئینی معاملے پر ہی بات کرنا تھا۔
اس موقع پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ بینچ کی تشکیل درست نہیں اور عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس کے بعد بیرسٹر ظفر نے سماعت کا بائیکاٹ کرتے ہوئے عدالتی کارروائی سے خود کو الگ کر لیا اور بانی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے اپنی درخواست واپس لے لی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب آپ سینئر وکیل اور بار کے سابق صدر رہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے عدالتی کارروائی کیسے چلتی ہے لیکن آپ بلا جواز قسم کی استدعا کر رہے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرے موکل بانی پی ٹی آئی کو بینچ پر کچھ اعتراضات ہیں۔ اجازت نہیں دیتے تو انہوں نے کچھ باتیں عدالت کے سامنے رکھنے کا کہا ہے۔ میں نے اپنے موکل سے ہی ہدایات لینی ہیں اور ان ہی ہدایت کے مطابق چلنا ہے۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف موکل کے وکیل نہیں بلکہ آفیسر آف دی کور ٹبھی ہیں جب کہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم بھی وکیل رہ چکےہیں، اپنے کلائنٹ کی ہر بات نہیں مانتے تھے۔ جو قانون کے مطابق ہوتا تھا وہی مانتے تھے۔
علی ظفر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کو اجازت نہیں دیں گے تو پیش نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کچھ ترامیم لانا چاہتی ہے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آپ نے بات کرنی ہے تو آج سے نہیں بلکہ شروع سے کریں جس پر علی ظفر نے کہا کہ میں جو بات کرنا چاہ رہا ہوں وہ آپ کرنے نہیں دے رہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سیاسی گفتگو کر رہے ہیں تاکہ کل سرخی لگے جس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ آج بھی اخبار کی سرخی ہے کہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے قبل لازمی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس بات کا معلوم نہیں۔
بانی تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کے سماعت سے بائیکاٹ کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو عدالتی معاون مقرر کر دیں، آپ کو اعتراض تو نہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر کوئی اعتراض نہیں جس کے بعد سپریم کورٹ نے علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ حکومت آپ کیلیے آئینی ترمیم اور جوڈیشل پیکیج لا رہی ہے۔ اگر آپ نے فیصلہ دیا تو یہ ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہو گی۔
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ حد کو عبور کر رہے ہیں اور فیصلے سے قبل توہین آمیز باتیں کر رہے ہیں، ہم آپ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جانب سے یہ بڑا بیان ہے اور اسی بات کی اجازت نہیں دیں گے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے رہے ہیں؟ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ ہماری عزت کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کیا ہوتی ہے؟ آپ کو ہم بتائیں تو آپ کو شرمندگی ہوگی۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ ہارس ٹریڈنگ کو روکتا ہے۔ اس کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ ختم کی گئی تھی۔ اب اس فیصلے سے دوبارہ سب کچھ اوپن ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو چلنے دیں، آپ ایک فیصلے سے کیوں گھبرا رہے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ مجھے بانی پی ٹی آئی کی ہدایات ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار ایک ہی نام کیوں لے رہے ہیں۔ آپ ہوں یا کوئی اور، سب ایک جیسے ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اس عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے اور درخواست واپس لے لی۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آرٹیکل تریسٹھ اے نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بدتمیزی کرنے پر وکیل پی ٹی آئی مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے نکال دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل63 اے کی تشریح کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست پرسماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس امین الدین ،جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس نعیم اختر ،جسٹس مظہر عالم بینچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے دوران وکیل سید مصطفین کاظمی روسٹرم پر آئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس کی طرف سےہیں تو وکیل مصطفین کاظمی نے بتایا کہ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہاہوں، چیف جسٹس کی بیٹھنے کی ہدایت کردی اور کہا آپ نہیں بیٹھ رہے تو پولیس اہلکار کو بلالیتے ہیں، جس پر وکیل مصطفین کاظمی نے کہا کہ آپ کربھی یہی سکتےہیں۔
وکیل سید مصطفین کاظمی نے بینچ میں شریک 2ججز جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس مظہر عالم میاں خیل پر اعتراض اٹھا دیا۔
چیف جسٹس نے سول کپڑوں میں پولیس اہلکاروں کوہدایت کی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں اور وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر نکالنے کا حکم دے دیا۔
جس پر سید مصطفین کاظمی نے کہا یہ سب غیر قانونی بینچ ہے، یہ سب کیا ہورہا ہے؟ سپریم کورٹ بار کا اس کیس سے کیا تعلق ہے؟ جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ اگر یہ نہیں بیٹھتے تو ہم پولیس کوبلاتے ہیں۔
سیدمصطفین کاظمی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلائیں آپ پولیس کو اور کر بھی کیاسکتےہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ تمیز سےبات کریں، چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمے میں کہا بیرسٹر علی ظفر صاحب یہ کیا ہورہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں؟ ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
وکیل علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں تو بڑے آرام سے بحث کررہا تھا اور آپ بھی آرام سےسن رہے رہے تھے، اس سب میں میرا کیا قصور ہے؟تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل ہیں اور آپ بھی سینیٹرہیں۔
سید مصطفین کاظمی دوبارہ روسٹرم پر آئے اور کہا یہ پانچ رکنی بینچ غیر قانونی ہے،ہم دیکھتے ہیں یہ فیصلہ کیسے ہوتا ہے، ہم 300 وکیل باہر کھڑے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے علی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ یہ سب ہمیں دھمکارہے ہیں، جس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل کو کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا۔
اسلام آباد : آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس منیب اخترکی جگہ جسٹس نعیم اختر افغان شامل کرلیا گیا،لارجربینچ ساڑھے 11 بجے کیس کی سماعت کرے گا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پرنیا بینچ تشکیل دے دیا، نئے بینچ میں جسٹس منیب اخترکی جگہ جسٹس نعیم اخترافغان شامل کرلیا گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں لارجربینچ ساڑھے 11 بجے کیس کی سماعت کرے گا ، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس مظہر عالم خیل بھی بینچ میں شامل ہیں۔
اس سے قبل پریکٹس پروسیجر کمیٹی کا اجلاس آج 9بجےہوا ، جس میں سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ شریک نہ ہوئے، چیف جسٹس اور جسٹس امین الدین خان جسٹس منصور علی شاہ کا انتظار کرتے رہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نےجسٹس منصور علی شاہ کا نام تجویز کیا تاہم جسٹس مصور علی شاہ کے کمیٹی اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ میں شامل کرلیا گیا تھا۔
گذشتہ روز سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو 5رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر سماعت کیلئے کمرہ عدالت نہیں آئے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا، جس میں انھوں نے پانچ رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔
سپریم کورٹ کے جج نے خط میں کہا تھا کہ پریکٹس اینڈپروسیجرکمیٹی کی تشکیل نوپرتحفظات ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے جسٹس منیب کے خط کا آخری پیراگراف پڑھ کرسنایا اور جسٹس منیب کو بینچ میں شامل ہونے کی درخواست کی تھی۔
چیف جسٹس نے بتایا تھا کہ کچھ دیر پہلے جسٹس منیب کا ایک خط ملا ہے، انھوں نے خط میں لکھا ہے وہ آج کیس میں شامل نہیں ہوسکتے، میرے خط کو نظرثانی کیس میں ریکارڈکاحصہ بنایا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم ابھی اٹھ رہے ہیں اور جسٹس منیب کو درخواست کررہےہیں کہ وہ بینچ میں شامل ہوں، اگر وہ میں شامل نہیں ہوتے تو پھر نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا، ان سے درخواست ہے اس عدالتی کاروائی میں شامل ہوں۔
بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 63 اے کی سماعت ملتوی کردی تھی۔
اسلام آباد: 63 اے نظرثانی کیس کے آج کے حکم نامے کو جسٹس منیب اختر نے غیرقانونی قرار دے دیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق جسٹس منیب اختر نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ایک اور خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس 5 رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر تھا۔ 4 ججوں نے بیٹھ کر کیسے حکم نامہ جاری کردیا۔
خط کے متن کے مطابق 4 رکنی بینچ آرٹیکل 63 اے سے متعلق نظرثانی کیس نہیں سن سکتا، آج کی سماعت کا حکم نامہ مجھے بھیجا گیا جس میں میرا نام لکھا ہے مگر آگے دسختط نہیں۔
جسٹس منیب نے خط میں کہا ہے کہ بینچ کے 4 ججز قابل احترام مگر آج کی سماعت قانون و ضوابط کے مطابق نہیں، سماعت کا حکم نامہ قانونی طور پر درست نہیں سمجھا جاسکتا۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ اپنا موقف پہلے خط میں تفصیل سے بیان کرچکا ہوں، آج کی سماعت کے حکم نامے پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتا ہوں، یہ حکم نامہ جوڈیشل آرڈر نہیں۔
جسٹس منیب نے خط میں مزید لکھا کہ 63 اے کی تشرح کے لیے نظرثانی کیس کے حکم نامے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔