Author: راجہ محسن اعجاز

  • الیکشن ٹریبونلز کیس : جسٹس جمال مندوخیل کا اضافی نوٹ سامنے آگیا

    الیکشن ٹریبونلز کیس : جسٹس جمال مندوخیل کا اضافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : پنجاب الیکشن ٹریبونلز کیس میں جسٹس جمال مندوخیل کا 3 صفحات کا اضافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن ٹریبونلز کیس کاتحریری فیصلہ جاری کردیا ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔

    جس میں کہا کہ الیکشن ٹریبونلزکی تشکیل کالاہورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتےہیں، الیکشن کمیشن وکیل کےمطابق ہائیکورٹ نے الیکشن ایکٹ کی دفعات کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن مطابق ہائیکورٹ نے آئین میں ترمیم سے پہلے کے فیصلوں پرانحصار کیا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے،ہائیکورٹ کےچیف جسٹس بھی آئینی دفترکا رکھوالاہے، الیکشن کمیشن اورہائیکورٹ کےچیف جسٹس کا بہت احترام ہے، دونوں فریقین میں اگر براہ راست ملاقات وقوع پذیرہوتی تو معاملات اس نہج پر نہ پہنچتے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سےبامعنی مذاکرات ہوئے، چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کے مابین اتفاق ہو گیا ہے، الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس میں معاملہ حل ہوگیا، کیس کےفیصلے کی ضرورت نہیں۔

    فیصلے کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہتے ہیں، ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کے مذاکرات کافقدان ملحوظ خاطر نہ رکھا، اگر ہائیکورٹ کے جج مذاکرات کے فقدان کو ملحوظ رکھتےتو یہ فیصلہ ہی نہ جاری کرتے، ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے،الیکشن کمیشن کی اپیلیں منظور کی جاتی ہیں۔

    تحریری فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل کا 3 صفحات کا اضافی نوٹ بھی شامل ہیں ، جس میں کہا کہ سیکشن 140الیکشن کمیشن کو ججز پینل طلب کرنےکااختیار نہیں دیتا، مقننہ کی اس قانون میں سوچ واضح ہے، مقننہ نے الیکشن کمیشن کو ججز کاپینل مانگنے اور ان انتخاب کااختیار نہیں دیا۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوہر جج پر اعتماد کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن ایک ٹریبونل کیلئےایک ہی جج کے نام کا مطالبہ کرسکتا ہے ، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ اور ججز آئینی عہدیدار ہیں۔

    اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ ہرمعاملے میں الیکشن کمیشن اورججز کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن اورہائیکورٹ ججز کے درمیان باقاعدہ مشاورت نہیں ہوئی ، چیف جسٹس ہائیکورٹ اورکمیشن کی مشاورت کا نتیجہ ہمارے سامنے اتفاق کی صورت میں آیا۔

    جسٹس جمال نے کہا کہ امید ہےاب الیکشن کمیشن ٹربیونلزتشکیل کیلئے اقدامات کرےگا، امید ہے الیکشن ٹریبونلز قانون کی دی گئی مہلت میں فیصلے ہوں گے۔

  • چیف جسٹس  کا جسٹس منیب اختر کے خط کو عدالتی کارروائی کے ریکارڈ کا حصہ بنانے  سے انکار

    چیف جسٹس کا جسٹس منیب اختر کے خط کو عدالتی کارروائی کے ریکارڈ کا حصہ بنانے سے انکار

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کے خط کو عدالتی کارروائی کے ریکارڈ کا حصہ بنانے سے انکار کردیا اور کہا ایسے خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی روایت نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کے خط کو عدالتی کارروائی کےریکارڈکاحصہ بنانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس پر مزید سماعت کل کرے گی۔

    چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ یہ ایک اہم آئینی معاملہ ہے ، یہ مقدمہ حکومتی معاملات کو متاثر کرتا ہے ، کسی جج کو کسی مقدمات کی سماعت کیلئےزورنہیں دیا جا سکتا، آج کی تکلیف کےلئے سب سے معذرت خواہ ہوں۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ایسے خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی روایت نہیں ہے، جسٹس منیب کا خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا، مناسب ہوتا جسٹس منیب بینچ میں آکر اپنی رائے دیتے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ میں نے اختلافی رائے کو ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے، نظر ثانی کیس 2سال سے زائد عرصہ سے زیر التواہے، جج کا مقدمہ سننے سے انکار عدالت میں ہوتا ہے،چیف جسٹس

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جسٹس منیب اختر رائے کا احترام ہے، کوشش کریں گے جسٹس منیب بینچ میں شامل ہو۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ جسٹس منیب اختر نے خط کیا فائل میں رکھنے کا لکھا ہے، میرے حساب سے ججز کے خطوط فائل کا حصہ نہیں ہوتے،شفافیت کے تقاضےکو مدنظر رکھتے ہوئے جسٹس منیب کوبینچ کا حصہ بنایا، اکثریتی فیصلہ دینے والے دو ججز ریٹائر ہوچکے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے، خط کے مطابق جسٹس منیب اختر فی الوقت بینچ کا حصہ نہیں بن سکتے، وہ کہتے ہیں ان کے خط کو سماعت سےمعذرت نہ سمجھاجائے، بینچ سے الگ ہونا ہو تو عدالت میں آ کر بتایا جاتا ہے، جسٹس منیب اختر کو منانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ راضی نہ ہوئے تو کل نیا بینچ سماعت کرے گا۔

    خیال رہے سپریم کورٹ کے جج جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار کو خط میں کہا تھا کہ پریکٹس اینڈپروسیجر کمیٹی نےبینچ تشکیل دیا ہے، کمیٹی کےتشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں سکتا، بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کررہا، بینچ میں شامل نہ ہونے کا غلط مطلب نہ لیاجائے، میرے خط کو نظر ثانی کیس کےریکارڈکاحصہ بنایا جائے۔

  • آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس : جسٹس منیب اختر کا 5  رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار

    آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس : جسٹس منیب اختر کا 5 رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار

    اسلام آباد : آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت میں جسٹس منیب اختر نے پانچ رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنےسے انکار کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے کی تشریح سےمتعلق نظر ثانی درخواست کی سماعت کا آغاز ہوا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 4رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    بینچ جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس مظہر عالم بینچ میں شامل ہیں تاہم 5رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر سماعت کیلئے کمرہ عدالت نہیں آئے۔

    جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا ، جس میں انھوں نے پانچ رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔

    سپریم کورٹ کے جج نے خط میں کہا کہ پریکٹس اینڈپروسیجرکمیٹی کی تشکیل نوپرتحفظات ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے جسٹس منیب کے خط کا آخری پیراگراف پڑھ کرسنایا اور جسٹس منیب کو بینچ میں شامل ہونے کی درخواست کردی۔

    چیف جسٹس نے بتایا کہ کچھ دیر پہلے جسٹس منیب کا ایک خط ملا ہے، انھوں نے خط میں لکھا ہے وہ آج کیس میں شامل نہیں ہوسکتے، میرے خط کو نظرثانی کیس میں ریکارڈکاحصہ بنایا جائے۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم ابھی اٹھ رہے ہیں اور جسٹس منیب کو درخواست کررہےہیں کہ وہ بینچ میں شامل ہوں، اگر وہ میں شامل نہیں ہوتے تو پھر نیا بینچ تشکیل دیا جائے گا، ان سے درخواست ہے اس عدالتی کاروائی میں شامل ہوں ، آج انہوں نے دیگر بینچز میں مقدمات سنے ہیں۔

    بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آرٹیکل 63 اے کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

  • الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل،   لاہور ہائیکورٹ  کا فیصلہ کالعدم قرار

    الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار

    اسلام آباد : الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ جاری کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونلز کیس کا محفوظ فیصلہ سنادیا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےفیصلہ سنایا۔

    سپریم کورٹ نے ٹریبونلزتشکیل کالاہورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلی۔

    فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا 12 جون 2024 کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا لاہور ہائیکورٹ سنگل بینچ کا فیصلہ بطور عدالتی نظیر بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔

    سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ جاری کیا ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عقیل عباسی کا اضافی نوٹ بھی فیصلے کا حصہ ہیں، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس عقیل عباسی نےفیصلے سےاتفاق کرتے ہوئےاضافی نوٹ لکھا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کےجج نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کی ملاقات نہ ہونامدنظر نہیں رکھا، اگر ملاقات نہ ہونا مدنظر رکھتے تو ایسا فیصلہ نہ کیا جاتا، تنازع جب آئینی ادارے سےمتعلق ہو تو محتاط رویہ اپناناچاہیے۔

    یاد رہے 24 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ آج مختصر فیصلہ جاری نہیں ہو سکے گا، الیکشن کمیشن ٹریبونلز کے نوٹیفکیشن کا آغاز آج سے شروع کردے۔

    دوران سماعت وکیل سلمان اکرم راجہ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کیا تھا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ٹریبونلز کی تعداد کا انحصار کیسز پر ہے، کیسز کو دیکھتے ہوئے ججز کی تعداد پر فیصلہ کریں، اگر ججز کی تعداد کیسز کو دیکھتے ہوئے کم ہوئی تو غیر منصفانہ ہوگا، مجھے نہیں معلوم بلوچستان یا پنجاب میں کتنے کیسز زیر التوا ہیں۔

  • 300 سے زائد وکلا کا سپریم اور ہائی کورٹ ججز کو خط

    300 سے زائد وکلا کا سپریم اور ہائی کورٹ ججز کو خط

    ملک کے 300 سے زائد وکلا نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کو خط لکھا ہے جس میں انہیں کسی بھی نئی عدالت کا حصہ نہ بننے کی اپیل کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ملک میں 26 ویں آئینی ترامیم کے معاملے پر نیا موڑ آیا ہے اور 300 سے زائد وکلا نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججز کو خط لکھ کر ان سے کسی بھی نئی عدالت کا حصہ نہ بننے کی اپیل کر دی ہے۔

    وکلا نے اپنے خط میں کہا ہے کہ مجوزہ ترامیم کا ڈرافٹ رات کی تاریکی میں سامنے آیا ہے۔ اس لیے نئی عدالت کا جج بننے والے پی سی او ججز سے مختلف نہیں ہوں گے۔

    وکلا کا موقف ہے کہ نمبر پورے کرنے والے منتخب نمائندے ڈرافٹ سے بھی نا واقف تھے اور ان مجوزہ آئینی ترامیم کو ہماری حمایت حاصل نہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مجوزہ آئینی ترامیم پر ملک میں موثر بحث نہیں کرائی گئی اور صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں آئینی عدالت کا ذکر ہے۔

    واضح رہے کہ 26 ویں آئینی ترامیم کے معاملے پر حکومت اور اس کے اتحادی ایک جانب جب کہ پی ٹی آئی اور اس کی ہم خیال اپوزیشن جماعتیں دوسری جانب ہیں اور ان سب کی نظریں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پر لگی ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/pakistan-politics-fazlurahman/

  • مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 8  ججوں کے وضاحتی فیصلے کو چیلنج کردیا گیا

    مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 8 ججوں کے وضاحتی فیصلے کو چیلنج کردیا گیا

    اسلام آباد :مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 8 ججوں کے وضاحتی فیصلے کو چیلنج کردیا گیا ، جس میں استدعا کی وضاحت پر نظرثانی کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں پر 14 ستمبرکی وضاحت پر نظرثانی درخواست کردی گئی ، اکثریتی ججز کی وضاحت پر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلے پر تاخیر کا ذمہ دار الیکشن کمیشن نہیں، 12 جولائی فیصلے کی وضاحت 25 جولائی کو دائر کی، سپریم کورٹ نے14ستمبرکووضاحت کاآرڈرجاری کیا۔

    درخواست میں کہنا تھا کہ عدالت نے تحریک انصاف کو جواب کیلئے کب نوٹس جاری کیا؟ پی ٹی آئی کی دستاویزپرعدالت نےالیکشن کمیشن کونوٹس جاری نہیں کیا، عدالت نے پی ٹی آئی دستاویز پر الیکشن کمیشن سےجواب طلب نہیں کیا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی پارلیمنٹ نے قانون سازی کردی،سپریم کورٹ 14ستمبرکی وضاحت پر نظرثانی کرے۔

    یاد رہے مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججز کی وضاحت جاری کی گئی  تھی، جس میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے۔

    مزید پڑھیں : مخصوص نشستوں کے کیس سے متعلق سپریم کورٹ کا وضاحتی فیصلہ

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست عدالتی فیصلے پرعملدرآمد کےراستے میں رکاوٹ ہے۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست درست نہیں، الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا تھا۔

    عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کرسکتا۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھ کہ الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن ہے، پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، اقلیتی ججز نے بھی تحریک انصاف کی قانونی پوزیشن کو تسلییم کیا۔

    وضاحتی فیصلے  کے مطابق سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، عدالتی فیصلے پر عمل کے تاخیر کے نتائج ہوسکتے ہیں، سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، الیکشن کمیشن نے 41 ارکان سے متعلق وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی آرڈیننس  سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیدیا۔

    ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا، اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو خط لکھ کر انہوں نے صدارتی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس منیب اختر کے کمیٹی سے اخراج پر سوال اٹھایا تھا، جسٹس منصور علی شاہ کے خط پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جوابی خط لکھا۔

    ذرائع کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط کے جواب میں لکھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو ججز کمیٹی میں شامل ہونے کا کہا گیا تھا لیکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے میٹی میں شامل ہونے سے معذرت کی، جسٹس یحییٰ کی معذرت پر جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس نے جسٹس منصور کو خط میں لکھا کہ سینئر ججز سے جسٹس منیب اختر کا رویہ انتہائی درشت تھا، ایسا جسٹس منصور آپ کے اصرار پر کیا گیا، میں ہمیشہ احتساب اور شفافیت کی حمایت کرتا رہا ہوں، میں وجوہات فراہم کروں گا کہ جسٹس منیب اختر کو کیوں تبدیل کیا گیا، جسٹس منصور یاد رہے وجوہات آپکے اصرار پر دے رہا ہوں ایسا نہ ہو کہ کوئی ناراض ہوجائے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں شامل نہ کرنےکی 11 وجوہات بتائیں، انہوں نے کہا کہ قانوناً آپ اس بات پر سوال نہیں اٹھا سکتے کہ چیف جسٹس کس جج کو کمیٹی میں شامل کرے، آپ یہ نہیں پوچھ سکتے میں کمیٹی کے تیسرے رکن کے طور پر کس کو نامزد کروں۔

    چیف جسٹس نے خط میں لکھا کہ جسٹس منیب اختر نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سخت مخالفت کی تھی، جسٹس منیب دو ججز میں سے تھے جنہوں نے مقدمات کے بوجھ سے لاپرواہ تعطیلات کیں، جسٹس منیب تعطیلات میں عدالت کا کام کرنے کے لیے دستیاب نہیں تھے، تعطیلات پر ہونے کے باوجود انہوں نے کمیٹی میٹنگز میں شرکت پر اصرار کیا۔

    چیف جسٹس نے جوابی خط میں لکھا کہ اگلے سینئر جج جسٹس یحییٰ پر ان کا عدم اعتماد ظاہر کرتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کہتا ہے ارجنٹ مقدمات 14 روز میں سماعت کیلئے مقرر ہونگے، جسٹس منیب اختر نے ارجنٹ آئینی مقدمات سننے سے انکار کیا اور چھٹیوں کو فوقیت دی۔

    چیف جسٹس نے لکھا کہ سپریم کورٹ کی روایت کے برعکس اپنے سینئر ججز (ایڈہاک ججز) کا احترام نہ کیا، سینئر ججز (ایڈہاک ججز) کو ایسے 1100 مقدمات کی سماعت تک ہی محدود کردیا، ایڈہاک ججز کو شریعت اپیلٹ بینچ کے مقدمات بھی سننے نہیں دیئے گئے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط کے جواب میں لکھا کہ جسٹس منیب اختر نے کمیٹی کے معزز رکن سے غیر شائستہ درشت اور نامناسب رویہ اختیار کیا، جسٹس منیب اختر محض عبوری حکم جاری کر کے 11 بجے تک کام کرتے ہیں، جسٹس منیب اختر کے ساتھی ججز نے ان کے رویے کی شکایت کی۔

    چیف جسٹس نے جوابی خط میں لکھا کہ آڈیولیک کیس پر حکم امتناع جاری کر کے وہ کیس سماعت کیلئے مقرر ہی نہ کرنے دیا گیا، جسٹس منیب اختر کا کمیٹی میں رویہ مناسب نہیں تھا، واک آؤٹ کر گئے تھے۔

  • مخصوص نشستیں: اکثریتی ججز کی وضاحت پر رپورٹ چیف جسٹس کو ارسال

    مخصوص نشستیں: اکثریتی ججز کی وضاحت پر رپورٹ چیف جسٹس کو ارسال

    اسلام آباد: رجسٹرار سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر اکثریتی ججز کی وضاحت کے حوالے سے رپورٹ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو ارسال کر دی۔

    ذرائع نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 اکثریتی ججز کی وضاحت پر رجسٹرار جزیلہ سلیم کو خط لکھ کر سوالات کے جوابات طلب کیے تھے جس پر اب انہیں رپورٹ ارسال کی گئی ہے۔

    رپورٹ میں رجسٹرار نے بتایا کہ وضاحتی حکمنامے کے معاملے پر کوئی کاز لسٹ جاری نہیں ہوئی جبکہ درخواستوں کیلیے فریقین کو نوٹس بھی نہیں بھیجے گئے۔

    اس میں مزید بتایا گیا کہ درخواست کے سلسلے میں کسی چیمبر میں ججز نہیں بیٹھے، فیصلہ ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے سے قبل فائل آفس کو نہیں بھیجی گئی۔

    یاد رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے رجسٹرار جزیلہ سلیم کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وضاحت کی درخواست کب دائر کی؟ پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کی درخواستیں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں کیوں نہیں بھیجی گئیں؟

    قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا تھا کہ متفرق درخواستیں کاز لسٹ کے بغیر کیسے سماعت کیلیے فکس ہوئیں؟ کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا؟ کس کمرہ عدالت یا چیمبر میں درخواستوں کو سنا گیا؟

    خط میں چیف جسٹس سے سوال کیا تھا کہ درخواستوں پر فیصلہ سنانے کیلیے کاز لسٹ کیوں جاری نہیں کی گئی؟ آرڈر کو سنانے کیلیے کمرہ عدالت فکس کیوں نہ کیا گیا؟ اوریجنل فائل اور آرڈر سپریم کورٹ رجسٹرار میں جمع ہوئے بغیر آرڈر کیسے اپلوڈ ہوا؟ آرڈر کو سپریم کورٹ ویب سائٹس پر اپلوڈ کرنے کا حکم کس نے کیا؟

    اکثریتی ججز کی وضاحت

    14 ستمبر کو مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججز نے وضاحت جاری کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن کی درخواست عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹ ہے۔

    وضاحت میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست درست نہیں، الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا تھا، الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا۔

    ججز نے وضاحت میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن ہے پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، اقلیتی ججز نے بھی پی ٹی آئی کی قانونی پوزیشن کو تسلییم کیا۔

    اس میں مزید کہا گیا تھا کہ سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، عدالتی فیصلے پر عمل کے تاخیر کے نتائج ہوسکتے ہیں، سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، الیکشن کمیشن نے 41 ارکان سے متعلق وضاحت کیلیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    وضاحت میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

  • مخصوص نشستوں کا کیس: جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ جاری کردیا

    مخصوص نشستوں کا کیس: جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ جاری کردیا

    اسلام آباد: مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے 26 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے جاری کردہ اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ایس آئی سی مخصوص نشستوں کے لیے آئینی تقاضوں پر پورا نہیں اترتی، سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں کیونکہ یہ جماعت نشستیں لینے کی اہل نہیں۔

    انہوں نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ’پاکستان تحریک انصاف سیاسی جماعت ہے، پی ٹی آئی مخصوص نشستیں کے لیے اہل جماعت ہے لیکن وہ اس عدالت کے سامنے فریق نہیں بنی، 3 جون سے کیس چل رہا ہے پی ٹی آئی نے 25 جون تک کوئی درخواست نہیں دی۔

    یہ پڑھیں: پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ ’26 جون کو پی ٹی آئی کی فریق بننے کی درخواست آئی، بیرسٹر گوہر نے جاری کیس میں معاونت کی درخواست دی جبکہ پی ٹی آئی نے اپنے حق میں کسی ڈیکلیریشن کی استدعا نہیں کی۔‘

    انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن کا دوبارہ جائزہ لے اور فریقین کو سن کر سات روز میں فیصلہ کرے۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔

  • جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو خط لکھ دیا

    جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو خط لکھ دیا

    اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو خط لکھ دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں جسٹس منصور علی شاہ شرکت کیے بغیر چلے گئے تھے اور آرڈیننس کے تحت قائم کمیٹی میں شمولیت سے انکار کردیا۔

    اب جسٹس منصور علی نے کمیٹی کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آرڈیننس سے کمیٹی کی تشکیل نو لازمی نہیں قرار دیتا، آرڈیننس آنے کے بعد ہی کمیٹی کی تشکیل نو کردی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ جسٹس منیب اختر کو کیوں ہٹایا گیا؟

    خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ’پہلے والی کمیٹی کی بحالی تک اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتا، فل کورٹ جب تک آرڈیننس کا جائزہ نہیں لیتا کمیٹی میں نہیں بیٹھ سکتا۔‘

    واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے شرکت کی تھی۔

    سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے جو 30 ستمبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرٹیکل 63 اے نظرثانی بینچ کی سربراہی کریں گے۔

    جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مظہر عالم میاں خیل بینچ میں شامل ہیں۔