Author: راجہ محسن اعجاز

  • سپریم کورٹ کا 63 اے نظرثانی کیس سماعت کیلیے لارجر بینچ تشکیل

    سپریم کورٹ کا 63 اے نظرثانی کیس سماعت کیلیے لارجر بینچ تشکیل

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے شرکت کی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ ججز کمیٹی اجلاس میں شرکت کیے بغیر چلے گئے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے جو 30 ستمبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آرٹیکل 63 اے نظرثانی بینچ کی سربراہی کریں گے۔

    جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مظہر عالم میاں خیل بینچ میں شامل ہیں۔

    آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا جس کے مطابق پارٹی پالیسی کے خلاف رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، وہ نااہل بھی ہوجائے گا۔

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے تحت ججز کمیٹی کے اجلاس میں کیس کی سماعت کا فیصلہ کیا گیا۔

  • مخصوص نشستوں کے کیس کا  تفصیلی فیصلہ ، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کا عمل منصب کے منافی قرار

    مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ ، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کا عمل منصب کے منافی قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے مخصوص نشستوں کے کیس کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر کا عمل منصب کے منافی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیاہے ، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے۔

    فیصلے میں سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے دو ججوں کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججوں کے منصب کے منافی قرار دیا۔

    تفصیلی فیصلے میں کہا دونوں ججوں نے بارہ جولائی کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا، اکثریتی فیصلے پر جس انداز میں اختلاف کیا گیا وہ سپریم کورٹ کےججوں کو زیب نہیں دیتا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ حکم نامہ میں ہم نے مینڈیٹ کو نظرانداز کیا، وہ وجوہات بھی بتائیں کہ دوسرےججوں کی رائے میں غلط کیا ہے۔۔ دونوں ججوں کا اختلاف کا انداز سپریم کورٹ کے ججوں کیلئے درکار شائستگی اور تحمل سے کم ہے۔

    عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اختلافی نوٹ میں دونوں ججوں نے اسّی کامیاب امیدواروں کو وارننگ دی، رائے دیتے ہوئے حدود سے تجاوز کرگئے۔۔ دونوں ججوں کا یہ عمل عدالتی کارروائی اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے
    GFX

  • پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

    پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، آئین وقانون کسی شہری کوانتخاب لڑنےسےنہیں روکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیاہے ، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے۔

    جس میں کہا گیا ہے کہ پشاورہائیکورٹ کےمخصوص نشستوں سےمتعلق فیصلےکوکالعدم قراردیتےہیں، الیکشن کمیشن کایکم مارچ کوفیصلہ آئین سےمتصادم ہے، الیکشن میں بڑااسٹیک عوام کاہوتاہے، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلےکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

    سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ اردومیں بھی جاری کرنے کا حکم دیا اور فیصلے میں کہا کہ آئین یاقانون سیاسی جماعت کوانتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، انتخابی نشان نہ دیناسیاسی جماعت کےانتخاب لڑنےکےقانونی وآئینی حق کو متاثر نہیں کرسکتا۔

    تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے2024کےانتخابات میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتیں، الیکشن کمیشن نےپی ٹی آئی کے80 میں سے39 ایم این ایز کوپی ٹی آئی کاظاہرکیا اور الیکشن کمیشن کوحکم دیاکہ باقی41 ایم این ایز کے 15روز  کے اندر دستخط شدہ بیان لیں۔

    عدالت نے کہا کہ عوام کی خواہش اورجمہوریت کےلیےشفاف انتخابات ضروری ہیں، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتاہے، یہ سمجھنےکی بہت کوشش کی کہ اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں تاہم اس سوال کاکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کےامیدوارتھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ دیا۔

    عدالت نے بتایا کہ 8 ججز نے تفصیلی فیصلے میں 2 ججز کے اختلافی نوٹ پرتحفظات کااظہاربھی کیا اور جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان نے12جولائی کےفیصلےکوآئین سے متصادم قرار دیا، جس انداز میں 2 ججز  نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔

    تفصیلی فیصلے کے مطابق ساتھی ججزدوسرےججزکی رائےپرکمنٹس دےسکتےہیں، رائے دینے کیلئے وہ وجوہات بھی دیں کہ دوسرےججزکی رائےمیں کیاغلط ہے، جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان کاعمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ بھاری دل سےبتاتےہیں 2 ساتھی ججز نے ہمارے فیصلےسےاتفاق نہیں کیا، بطوربینچ ممبران قانونی طورپرحقائق اورقانون سےاختلاف کرسکتےہیں، جس طریقے سے ججز نے اختلاف کیا وہ سپریم کورٹ کے ججز کے تحمل اورشائستگی سے کم ہے۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 2ججزکایہ عمل عدالتی کارروائی اورفراہمی انصاف میں رکاوٹ ڈالنےکی کوشش ہے،  2ججز نے80 کامیاب امیدواروں کووارننگ دی اور پریشان کن بات یہ ہےکہ ججز اپنی رائے دیتے ہوئے حدود سے تجاوز کرگئے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کاضامن اورحکومت کاچوتھاستون ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پرپی ٹی آئی کےامیدواروں کونوٹیفائی کرے، پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدارہے، آئین وقانون کسی شہری کوانتخاب لڑنےسےنہیں روکتا۔

    فیصلے کے مطابق عوام کی خواہش اور جمہوریت کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہیں، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ اپنانے کا اختیار دیتاہے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کیلئےاہم ہے، پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، عمومی طورپرفریق بننےکی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔

  • مخصوص نشستیں: چیف جسٹس نے 8 ججز کی وضاحت پر سوالوں کا جواب مانگ لیا

    مخصوص نشستیں: چیف جسٹس نے 8 ججز کی وضاحت پر سوالوں کا جواب مانگ لیا

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں 14 ستمبر کو 8 اکثریتی ججز کی وضاحت پر سوالوں کا جواب مانگ لیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سپریم کورٹ جزیلہ سلیم کو خط لکھا جس میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ الیکشن کمیشن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وضاحت کی درخواست کب دائر کی؟ پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کی درخواستیں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں کیوں نہیں بھیجی گئیں؟

    قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ متفرق درخواستیں کاز لسٹ کے بغیر کیسے سماعت کیلیے فکس ہوئیں؟ کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا؟ کس کمرہ عدالت یا چیمبر میں درخواستوں کو سنا گیا؟

    خط میں چیف جسٹس سے سوال کیا کہ درخواستوں پر فیصلہ سنانے کیلیے کاز لسٹ کیوں جاری نہیں کی گئی؟ آرڈر کو سنانے کیلیے کمرہ عدالت فکس کیوں نہ کیا گیا؟ اوریجنل فائل اور آرڈر سپریم کورٹ رجسٹرار میں جمع ہوئے بغیر آرڈر کیسے اپلوڈ ہوا؟ آرڈر کو سپریم کورٹ ویب سائٹس پر اپلوڈ کرنے کا حکم کس نے کیا؟

    14 ستمبر کو مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججز نے وضاحت جاری کی تھی کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن کی درخواست عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کے راستے میں رکاوٹ ہے۔

    وضاحت میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست درست نہیں، الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا تھا، الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا۔

    ججز نے وضاحت میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن ہے پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، اقلیتی ججز نے بھی پی ٹی آئی کی قانونی پوزیشن کو تسلییم کیا۔

    اس میں مزید کہا گیا تھا کہ سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، عدالتی فیصلے پر عمل کے تاخیر کے نتائج ہوسکتے ہیں، سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، الیکشن کمیشن نے 41 ارکان سے متعلق وضاحت کیلیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    وضاحت میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش ہے۔

  • پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

    اسلام آباد: پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے متعلق سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ جاری کر دیا گیا، ٹیکس سے متعلق مقدمے میں 41 صفحات کا فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمان کا قانون سازی کا اختیار آئین میں دی گئی حدود کے تابع ہے، پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو آرٹیکل 142 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی بھی کر سکتی ہے جس کا ماضی سے اطلاق ہوتا ہو۔

    تحریری فیصلے کے مطابق قوانین کا ماضی سے اطلاق ہونا آئین سے مشروط ہے، لفظ آئین سے مشروط کا مطلب واضح ہے کہ قانون سازی آئینی حدود کے مطابق ہی ممکن ہے، آئین پارلیمان پر پابندی عائد کرتا ہے کہ آرٹیکل 9 اور 28 میں دیے حقوق ختم نہیں کیے جا سکتے، آرٹیکل 12 کے مطابق فوجداری معاملات میں قوانین کے ماضی سے اطلاق نہیں ہو سکتا، صرف آئین شکنی سے متعلق فوجداری معاملے پر قانون سازی ماضی سے ہو سکتی ہے۔

    ’سول حقوق کو ماضی سے لاگو کرنے کا پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کو اختیار نہیں۔ قانون کے ماضی سے اطلاق سے فریقین کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔ شہریوں کو موجودہ قوانین کا علم ہوتا ہے جس کے مطابق وہ امور انجام دیتے ہیں۔ مستقبل میں اگر کوئی قانون بنے تو اس کا ماضی کے اقدامات پر اطلاق کیسے ممکن ہے؟‘

    اس میں مزید لکھا گیا کہ عدالتوں کو سمجھنا ہوگا قوانین کے ماضی سے اطلاق سے حتمی معاملات دوبارہ کھل سکتے ہیں، کسی قانون کی دو تشریحات ممکن ہوں تو وہی کرنی چاہیے جو لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے، جتنی زیادہ ناانصافی ہوگی مقننہ کا کردار بھی اتنا ہی واضح ہونا چاہیے۔

    ’عدالت ماضی میں قرار دے چکی کہ قانون میں ترمیم یا قانون ختم کرنا ایک ہی جیسا ہے۔ کوئی بھی ترمیم دراصل کسی نہ کسی انداز میں قانون یا کسی شق کا خاتمہ ہی ہوتا ہے۔ ماضی سے اطلاق صرف ان ہی قوانین کا ممکن ہے جو پہلے سے دیے حقوق کو ختم نہ کرے۔‘

    عدالت نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے نجی کمپنیوں کی اپیلیں جزوی منظور کیں۔

  • پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر عملدرآمد، جسٹس منیب اختر ججز کمیٹی سے باہر

    پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر عملدرآمد، جسٹس منیب اختر ججز کمیٹی سے باہر

    اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر عملدرآمد شروع ہوگیا اور یوں جسٹس منیب اختر 3 رکنی ججز کمیٹی سے باہر ہوگئے۔

    چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی رکن نامزد کر دیا۔ جاری کردہ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ جسٹس امین الدین خان سنیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر ہیں۔

    یاد رہے کہ 3 رکنی ججز کمیٹی بینچز کی تشکیل اور انسانی حقوق کے مقدمات کا جائزہ لیتی ہے۔

    قبل ازیں، صدر مملکت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس 2024 پر دستخط کیے جس کے بعد اب یہ قانون بن گیا ہے۔ اس سے قبل وفاقی کابینہ نے سرکولیشن سمری کے ذریعے آرڈیننس کی منظوری دی تھی۔

    اس آرڈیننس کے مطابق اب چیف جسٹس، سپریم کورٹ کا سینئر جج اور چیف جسٹس کا مقرر کردہ جج کیس مقرر کرے گا جبکہ اس سے قبل قانون میں چیف جسٹس، 2 سینئر ترین ججز کا 3 رکنی بینچ مقدمات مقرر کرتا تھا۔

    ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بینچ عوامی اہمیت اور بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمات کو دیکھے گا۔ ہر کیس کو اس کی باری پر سنا جائے گا ورنہ وجہ بتائی جائے گی۔

    اس کے علاوہ ہر کیس اور اپیل کو ریکارڈ کیا جائے گا اور اس کا ٹرانسکرپٹ بھی تیار کیا جائے گا۔ تمام ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ عوام کیلیے دستیاب ہوں گی۔

    گزشتہ روز وزارت قانون نے سپریم کورٹ ترمیمی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس وزیر اعظم شہباز شریف اور کابینہ کو بھجوایا تھا جس کی آج منظوری دی گئی۔

  • پاکستان بار کونسل کا مجوزہ آئینی ترامیم کی رازداری پر تحفظات کا اظہار

    پاکستان بار کونسل کا مجوزہ آئینی ترامیم کی رازداری پر تحفظات کا اظہار

    اسلام آباد: پاکستان بار کونسل نے مجوزہ آئینی ترامیم کی رازداری پر تحفظات کا اظہار کردیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں 26ویں مجوزہ آئینی ترامیم کا شق وار جائزہ لیا گیا جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی نے مجوزہ ترامیم کی رازداری پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

    پاکستان بار کونسل کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق مجوزہ آئینی مسودے میں ترامیم تجاویز کی گئی ہیں۔

    اعلامیے کے مطابق مجوزہ ترامیم کا مزید جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مزید غور و خوض کے لیے اجلاس مؤخر کردیا گیا ہے۔

    پاکستان بار کونسل کا کہنا ہے کہ ترامیم بہت اہم ہیں جس کی مزید تفصیلات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل کا آئندہ اجلاس 25 ستمبر بروز بدھ کو ہوگا۔

    اس سے قبل پاکستان بار کونسل کے ممبر شفقت محمود چوہان نے کہا تھا کہ مجوزہ آئینی ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہیں، غلط مقاصد کے لیے متبادل عدالتی نظام متعارف کرایا جا رہا ہے جو قابل تشویش ہے.عدلیہ کی آزادی کے لیے عوام ججز اور وکلاء کو متحد ہونا ہوگا۔

    پاکستان بار کونسل کے ممبر عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کا مقصد عدلیہ کی ازادی کو سلب کرنا ہے، ترامیم کی منظوری کی تمام مشق ربڑ اسٹیمپ کارروائی دکھائی دے رہی ہے۔

  • ڈبےکھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، چیف جسٹس

    ڈبےکھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، چیف جسٹس

    اسلام آباد : جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی بی 14 میں دوبارہ گنتی کی درخواست پر ریمارکس دیئے ڈبے کھلنے کے بعد فارم45ہویا75اس کی حیثیت نہیں رہتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی بی 14سےپیپلزپارٹی کے غلام رسول کی دوبارہ گنتی اورریٹرننگ افسران کی جانبداری کے الزامات سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی، پی بی 14 میں دوبارہ گنتی اورریٹرننگ افسران کی جانبداری کے الزامات کی درخواست مسترد کردی۔

    سپریم کورٹ نے پی بی 14 سے پیپلزپارٹی کے غلام رسول کی درخواست مستردکردی اور ن لیگ کے محمود خان کی کامیابی کوبرقرار رکھا۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 96 میں سے7پولنگ اسٹیشنز پردوبارہ گنتی کی درخواست دائرکی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کو کیسے پتہ چلا کہ غلط رزلٹ تیار کیاگیا تو وکیل غلام رسول کا کہنا تھا کہ فارم 45 کے مطابق یہ رزلٹ نہیں تھےافسران جانبدار تھے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ڈبےکھلنےکےبعدفارم 45 ہویا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، انتخابات میں سب سے اہم شواہد ووٹ ہوتے ہیں، فارم 45 تو پریذائیڈنگ افسر بھرتا ہے۔

    جسٹس نعیم افغان کا کہنا تھا کہ پریذائیڈنگ افسران نے اصل ریکارڈ پیش کیا، آپ کاپیوں پر کیس چلا رہے ہیں ، آپ کے گواہان نے پریذائیڈنگ افسران کانام تک غلط بتایا ،جسٹس نعیم افغان
    اپ کے گواہ تو خود کوپولنگ ایجنٹس بھی ثابت نہیں کرسکے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ یا تو دوبارہ گنتی پر اعتراض کریں کہ ڈبے کھلے ہوئے تھے، یا کہتے کہ پریذائیڈنگ افسران میرےساتھ تعصب رکھتے۔

    جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیئے کیس بہت سادہ ہے ،ریکارڈ سے آپ کے الزامات ثابت نہیں ہوتے، جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جج صاحب نے بغیر شواہد مجھے فیصلےمیں جھوٹا کہہ دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹا سچا اللہ جانتا ہے ہم حقائق پر فیصلہ کرتے ہیں، یہ میاں بیوی کا کیس نہیں جو جھوٹ سچ کا فیصلہ ہو ، اس کا فیصلہ ریکارڈ پر ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پریزائیڈنگ افسران کی جانبداری ثابت کریں ،بتائیں کیا وہ رشتہ دار تھے ؟ دوبارہ گنتی پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا، پریذائیڈنگ افسر جانی دشمن بھی ہوتوفیصلہ ووٹ سےہوتا ہے ، ووٹوں کے سامنے 45 فارم کی کوئی اہمیت نہیں۔

    وکیل نے کہا کہ پریذائیڈنگ افسران نے سارا فراڈ کیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یونہی الزام نہ لگائیں قانون یاکوئی فیکٹ بتائیں۔

  • مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    اسلام آباد : اپوزیشن لیڈرپنجاب ملک احمد خان بھچر اورصدرپی ٹی آئی لاہور نے مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اوردرخواست دائرکردی۔

    تفصیلات کے مطابق مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی، اپوزیشن لیڈرپنجاب ملک احمد خان بھچر اورصدر پی ٹی آئی لاہور نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جبکہ اظہرصدیق اورسول سوسائٹی کےصدربھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔

    درخواست میں وفاقی وزارت قانون اورچاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے جبکہ اسپیکرقومی اسمبلی،سینیٹ، پرنسپل سیکرٹریز ،وزیر اعظم اور صدر بھی فریقین میں شامل ہیں۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قرارداد مقاصد کے تحت عدلیہ کی آزادی آئین پاکستان کابنیادی جزو ہے، آرٹیکل 238 اور 239 میں ترامیم عدلیہ کی آزادی کو تباہ کردیں گی۔

    دائر درخواست میں کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آئین پاکستان کےبنیادی جزو میں ترامیم کرنےکا اختیار نہیں رکھتی، پارلیمنٹ ریاست کے ایک اہم ستون کو کمزور کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

    درخواست گزاروں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں اراکین پارلیمنٹ کی شمولیت اختیارات کی تقسیم کےاصول کےمنافی ہے، ججزکی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں توسیع بھی آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے، آئینی عدالت اورسپریم کورٹ کومتوازی طور پر چلانے سےانصاف کانظام مفلوج ہوگا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ تمام ترامیم خفیہ اور رات کے اندھیرے میں تیار کی گئیں جو بدنیتی کا ثبوت ہے، ان ترامیم کو آئین پاکستان کےبرخلاف قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے روکا جائے ساتھ ہی دونوں ایوانوں سےپاس ہونےکی صورت میں ترامیم کے نفاذ کو روکا جائے۔

  • مجوزہ آئینی ترمیم بل کو پذیرائی دینے کیخلاف سپریم کورٹ میں  درخواست دائر

    مجوزہ آئینی ترمیم بل کو پذیرائی دینے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    اسلام آباد : مجوزہ آئینی ترمیم بل کو پذیرائی دینے کیخلاف سپریم کورٹ درخواست دائر کردی گئی ، جس میں کہادرخواست کو پریکٹس اینڈپروسیجر کمیٹی میں دیکھاجائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم بل کو پذیرائی دینے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی ، سپریم کورٹ میں سینئر وکیل عابد زبیری نے متفرق درخواست دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ مجوزہ آئینی ترمیمی بل کیخلاف درخواست عدلیہ کی آزادی کےمنافی ہے، استدعا ہے درخواست کو پریکٹس اینڈپروسیجر کمیٹی میں دیکھاجائے۔

    یاد رہے مجوزہ آئینی ترامیم کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کردی گئی تھی ، سپریم کورٹ میں درخواست عابد زبیری،شفقت محمود،شہاب سرکی اوردیگرکی جانب سےدائرکی گئی۔

    درخواست میں وفاق،چاروں صوبوں،قومی اسمبلی، سینیٹ و دیگر کو فریق بنایا گیا تھا اور استدعا کی گئی تھی کہ ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو ترامیم سے روکا جائے۔

    درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ آئینی ترمیم کے بل کو پیش کرنے کے عمل کو بھی روکا جائے اور ترامیم کواختیارات کی تقسیم،عدلیہ کی آزادی کیخلاف قراردیاجائے۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدلیہ کی آزادی،اختیارات اور عدالتی امور کو مقدس قرار دیا جائے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارکو واپس یا عدالتی اختیارات میں ٹمپرنگ نہیں کر سکتی۔