Author: راجہ محسن اعجاز

  • مخصوص نشستوں کے کیس کا  فیصلہ : متاثرہ 3 لیگی ارکان کی نظرثانی درخواست دائر

    مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ : متاثرہ 3 لیگی ارکان کی نظرثانی درخواست دائر

    اسلام آباد : مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے سے متاثرہ تین لیگی ارکان نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے 3 ارکان نے مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائرکردی، ہما اختر چغتائی، ماہ جبین عباسی اور سیدہ آمنہ بتول نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پورا کیس سنی اتحاد کونسل کی مخصوص سیٹوں سے متعلق تھا، پارٹی تبدیلی کیلئے 15 دن دینا آئین دوبارہ تحریرکرنے کے مترادف ہے۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ قانون میں طےکردہ اصول سے ہٹ کر نیا طریقہ نہیں اپنایا جاسکتا، استدعا ہے کہ 12 جولائی کے مختصر اکثریتی فیصلے کو کالعدم قراردیا جائے۔

    درخواست میں سنی اتحاد کونسل اورالیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • جسٹس طارق مسعود اور جسٹس مظہر میاں کو ایک سال کیلیے ایڈہاک جج لگانے کی منظوری

    جسٹس طارق مسعود اور جسٹس مظہر میاں کو ایک سال کیلیے ایڈہاک جج لگانے کی منظوری

    اسلام آباد: جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر میاں خیال کو ایک سال کے لیے ایڈہاک جج لگانے کی منظوری دے دی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایڈ ہاک ججز کی تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ختم ہوگیا جس میں جسٹس منیب اختر نے جسٹس سردار طارق مسعود کی بطور ایڈہاک جج تقرری پر اختلاف کیا۔

    ذرائع کا بتانا ہے کہ جسٹس طارق مسعود کے نام کی منظوری 1، 8 کے تناسب سے دی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ جسٹس مشیر عالم کے بعد جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے بھی سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بننے سے معذرت کرلی تھی۔

    پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں 4 ایڈہاک ججز تعیناتی کی مخالفت کی تھی۔

    چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 4 ایڈہاک ججز کی ایک ساتھ تقرر ی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

    ان کا کہنا تھا 2015 سے سپریم کورٹ میں کسی ایڈہاک جج کی تقرری نہیں کی گئی، اس سے کیسز کا بوجھ کم نہیں ہو گا بلکہ خدشہ ہے اس اقدام کا مقصد پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق ہے، چیف جسٹس کو ایسے نازک وقت میں عدالتی تنازعات سے گریز کرنا چاہیے۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج 19 جولائی کو طلب کیا گیا تھا جس میں ایڈہاک ججز کےلیے 4 ناموں پر کیا گیا۔

  • جسٹس (ر) مقبول باقر نے بھی ایڈہاک جج بننے سے معذرت کرلی

    جسٹس (ر) مقبول باقر نے بھی ایڈہاک جج بننے سے معذرت کرلی

    اسلام آباد : جسٹس (ر) مقبول باقر نے بھی ایڈہاک جج بننے سے معذرت کرلی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے 4 ججز کے نام ایڈہاک ججز کیلئے تجویز کئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس (ر) مقبول باقر نے بھی ایڈہاک جج بننےسے معذرت کرلی اور کہا ایڈہاک جج کی تعیناتی غیر آئینی نہیں ہے لیکن ذاتی مصروفیات کی وجہ سے معذرت کرتا ہوں۔

    ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نیک نیتی سے یہ کام کر رہے ہیں، چیف جسٹس کا یہ اقدام 100 فیصد آئینی اور قانونی ہے، ہزاروں مقدمات زیرالتوا ہیں، التوا کو ختم کرنے کیلئے ایڈہاک ججز کی تقرری کی جارہی ہے۔

    ریٹائر جج نے کہا کہ جسٹس طارق مسعود اور جسٹس مطہرعالم میاں خیل ایماندار ججز ہیں۔

    خیال رہے مقبول باقر سپریم کے جج اور نگراں وزیر اعلیٰ سندھ بھی رہے ہیں۔

    یاد رہے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے 4 ججزکے نام ایڈہاک ججز کیلئے تجویز کئے تھے ، گذشتہ روز جسٹس (ر) مشیر عالم نے ایڈ ہاک جج بننے سے معذرت کی تھی۔

  • ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن نے طلبہ کو احتجاج سے دور رہنے کا مشورہ دے دیا

    ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن نے طلبہ کو احتجاج سے دور رہنے کا مشورہ دے دیا

    اسلام آباد: بنگلادیش میں جاری مظاہروں کے پیش نظر ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن نے بنگلادیش میں مقیم پاکستانی طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی حفاظت کے لیے ہر ممکن احتیاط برتیں اور احتجاج سے دور رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بنگلادیش کے دارالحکومت میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن نے بنگلادیش کی سرکاری ملازمتوں میں کوٹا سسٹم کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے سبب کیمپس میں رہنے والے پاکستانی طلبہ کو اپنے ہاسٹل کے کمروں میں رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

    آج صبح نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بنگلادیش میں پاکستانیوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر سفیر سید معروف سے بات کی تھی، سفیر نے نائب وزیر اعظم کو سیکیورٹی کی صورت حال اور بنگلادیش میں پاکستانیوں کی خیریت کو یقینی بنانے کے لیے ہائی کمیشن کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔

    بنگلادیش میں سرکاری نوکریوں میں کوٹا سسٹم کے خلاف احتجاج میں 6 طلبہ جاں بحق

    سفیر سید معروف نے بتایا کہ سفارت خانے نے مصیبت میں مبتلا افراد کی سہولت کے لیے ایک ہیلپ لائن کھولی ہے۔

    نائب وزیر اعظم نے پاکستان کے ہائی کمشنر کو بنگلادیش میں مقیم پاکستانیوں بالخصوص ڈھاکا کے کیمپس میں مقیم طلبہ کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنے کی ہدایت کی، اور کہا کہ سفیر پاکستانی طلبہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مقامی حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں رہیں۔

  • عمان میں مسجد کے قریب فائرنگ، 2 پاکستانیوں سمیت 5 افراد جاں بحق

    عمان میں مسجد کے قریب فائرنگ، 2 پاکستانیوں سمیت 5 افراد جاں بحق

    عمان کے دارالحکومت مسقط میں وادی کبیر میں مسجد کے قریب فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد جاں بحق ہوگئے جن میں دو پاکستانی بھی شامل ہیں۔

    عرب میڈیا کے مطابق مطابق یہ واقعہ گزشتہ روز امام علی مسجد میں رونما ہوا۔ فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد جاں بحق جب کہ کئی کے زخمی ہونے کے اطلاعات ہیں۔
    رپورٹ کے مطابق فائرنگ کے وقت مسجد میں مجلس عزا جاری تھی اور 700 سے زائد افراد موجود تھے جن میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ صورتحال سے نمٹنے کیلیے تمام ضروری حفاظتی اقدامات اور طریقہ کار اختیار کیے گئے ہیں۔ تحقیقات جاری ہیں اور واقعے کی وجوہات پتہ لگانے کیلیے شواہد جمع کر رہے ہیں۔

    دوسری جانب عمان امام بارگاہ پر دہشتگردی کے واقعے میں دو پاکستانی شہریوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔

    عمان میں پاکستانی سفیر علی عمران چوہدری نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا عمان کی حکومت نے اس واقعے میں 4 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے جن میں دو پاکستانی شامل ہیں۔

    پاکستانی سفیر نے کہا کہ سفارتی عملہ گزشتہ رات اسپتال میں موجود تھا جب کہ وہ خود عمانی حکام سے رابطے میں ہیں۔ حکومت امام بارگاہ پر حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

  • مخصوص نشستوں کا کیس : سپریم کورٹ کے ججز کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے

    مخصوص نشستوں کا کیس : سپریم کورٹ کے ججز کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے

    اسلام آباد : مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں کے کیس مین سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کردہ ہے ، جسٹس منصور علی شاہ نے ہی اکثریتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

    جسٹس منیب اختر،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس عائشہ ،جسٹس شاہد وحید ،جسٹس حسن اظہررضوی ، جسٹس عرفان سعادت اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرنیوالےججز میں شامل ہیں۔

    جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان نے الیکشن کمیشن ،پشاور ہائیکورٹ کافیصلہ برقرار رکھا لیکن جسٹس امین الدین خان ،جسٹس نعیم اختر افغان نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں خارج کردیں۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے علیحدہ فیصلہ دیا جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں مستردکردیں۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ الیکشن کمیشن ریکارڈ کے مطابق کچھ ممبران تحریک انصاف سے وابستہ رہے، وابستہ رہنے والوں کےتناسب سےتحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دی جانی چاہئیں۔

    چیف جسٹس اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آئین میں نئے الفاظ شامل کرنا ترمیم کےمترادف ہیں ، سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کااضافہ نہیں کر سکتی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئینی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرناآئین دوبارہ تحریر کرنےکے مترادف ہے۔

    دونوں ججز کی جانب سے اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی، چیف جسٹس ، سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں۔

    اختلافی نوٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کےپاس سیاسی جماعت کےامیدواران کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں، الیکشن کمیشن فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ ،ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا۔

  • سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں ؟ فیصلہ آج  سنایا جائے گا

    سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں ؟ فیصلہ آج سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ آج سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سنی اتحادکونسل کو مخصوص نشستیں ملنے یا نہ ملنے سے متعلق فیصلہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ سنائے گا۔

    فیصلہ سنانے کا وقت اور بینچ تبدیل کردیا گیا ہے اور رجسٹرار سپریم کورٹ نے نئی کازلسٹ جاری کردی۔

    جس کے مطابق تیرہ رکنی بینچ دوپہر بارہ بجے فیصلہ سنائے گا، اس سے پہلے جاری کی گئی کاز لسٹ میں کہا گیا تھا تھا کہ محفوظ شدہ فیصلہ چیف جسٹس کے ریگولر تین رکنی بینچ میں صبح نو بجے سنایا جائے گا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تیرہ رکنی فل کورٹ نے نو جولائی کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    جس کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں دو مشاورتی اجلاس بھی ہوئے تھے۔

    مخصوص نشستوں کے کیس میں کب کیا ہوا؟

    الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دیں، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔

    بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔ جس پر سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ابتدائی سماعت پر پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو معطل کر دیا۔

    جس پر وفاقی حکومت کی جانب سے آئینی تشریح کا نکتہ اٹھایا گیا اور تین رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے سپریم کورٹ میں دستیاب تیرہ ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔

    سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سپریم کورٹ میں کل سات سماعتیں ہوئیں، چھ مئی کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایک سماعت کی، اس کے بعد فل کورٹ نے چھ سماعتیں کیں، فل کورٹ نے پہلی سماعت تین جون کو کی تھی۔

    <strong>مخصوص نشستوں کی تقسیم</strong>

    الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیں۔

    خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو ایک ایک مخصوص نشست الاٹ کی ہے۔

    سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان اور پیپلز پارٹی کو خواتین کے لیے مختص نشستیں دی گئیں، جس پر پیپلز پارٹی کی سمیتا افضل اور ایم کیو ایم پی کی فوزیہ حمید مخصوص سیٹوں پر منتخب ہوئیں۔

    مزید برآں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سادھو مل عرف سریندر والسائی نے اقلیتی نشست حاصل کی۔

    ای سی پی نے مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی ف کو اقلیتوں کے لیے تین مخصوص نشستیں الاٹ کیں ، جن کا دعویٰ سنی اتحاد کونسل نے کیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کی نیلم میگھواڑ، پیپلز پارٹی کے رمیش کمار اور جے یو آئی ف کے جیمز اقبال اقلیتی سیٹوں پر منتخب ہوئے۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: ملزمان سے غیر انسانی سلوک نہ کرنے کا حکم

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: ملزمان سے غیر انسانی سلوک نہ کرنے کا حکم

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ نے ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ملاقاتوں میں آئندہ تعطل نہیں ہوناچاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف فیصلہ پر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے۔

    جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا آپ ملزمان کے ساتھ سلوک تو انسانوں والا کریں، جسٹس عرفان سعادت نے کہا اٹارنی جنرل صاحب انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہوسکتا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ پہلے بتاتے تھے ہر ہفتہ ملزمان کی فیملی سے ملاقات ہوتی ہے، آپ اس کو جاری کیوں نہیں رکھتے؟ اٹارنی جنرل آپ کا بیان عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

    لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ایک ملزم کو فیملی سے نہیں ملنے دیا گیا، اس کا پانچ سالہ بچہ فوت ہوگیا۔

    ملٹری کورٹس میں ملزمان سے ملاقاتوں کے فوکل پرسن برگیڈیر عمران عدالت میں پیش ہوئے، اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل دیئے۔

    جسٹس امین الدین خان نے کہا زیر حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کے روبرو کہا متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ ملاقات کرانے کا حکم عدالت کا ہے، تسلیم کرتا ہوں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں رکنا چاہیے تھا، آج دو بجے زیرحراست افراد کو اہلخانہ سے ملوایا جائے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جن سے تفتیش مکمل ہوچکی وہ جیلوں میں کیوں نہیں بھیجے گئے؟ تفتیش کیلئے متعلقہ اداروں کے پاس ملزم رہے تو سمجھ آتی ہے، تفتیش مکمل ہوچکی تو ملزمان کو جیلوں میں منتقل کریں۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جیلوں میں منتقلی میں کچھ قانونی مسائل بھی ہیں، جس پر جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا انسانوں کیساتھ غیرانسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے، ہم چاہتے ہیں کم از کم آج اس کیس کی میرٹ پر سماعت شروع کریں۔

    جسٹس محمد علی مظہرنے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہااپیل میں عدالت نے اصل فیصلہ میں غلطی کو دیکھنا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل آپ کو ہمیں اصل فیصلہ میں غلطی دکھانا ہوگی۔

    جسٹس شاہد وحید نے کہاہم اپیل میں آپ کو سن رہے ہیں، ساتھی جج نے آپ کو جواب دیا ہے، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ میں نے کوئی جواب نہیں دیا، ایک قانونی نکتے کی بات کی ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل دیں ہم جو ہوا فیصلے میں دیکھ لیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا عدالتی حکم پر آج ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ ملاقاتیں رکی کیوں اٹارنی جنرل نے کہا صرف لاہور میں ملاقاتوں کا ایشو بنا ایسا دوبارہ نہیں ہوگا، ملاقات کیلئے ہر مرتبہ حکم دینا مناسب نہیں ہوگا۔

    جسٹس جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے تحقیقات مکمل ہو چکی تو ملزمان جیل میں کیوں ہیں ملزمان اگر جیل میں ہوتے تو ملاقاتوں کو مسئلہ پیدا نہ ہوتا تو اٹارنی جنرل نے کہا آرمی رولز میں ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ کا ذکر نہیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا سزا کے بعد جو ہولیکن رویہ انسانوں والا ہونا چاہیے جبکہ جسٹس عرفان سعادت نے کہا بھی انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا استفسار کیا ہفتے میں کتنی مرتبہ ملاقاتیں ہوتیں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا ہر ہفتہ میں ایک ملاقات کروائی جا رہی ہے تو جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہرمرتبہ 25-20 منٹ کیس انہی باتوں پر چلتا ہے، مرکزی کیس چل ہی نہیں رہا ملاقاتوں میں آئیندہ تعطل نہیں ہونا چاہیے۔

    دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے بات کرنے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ نے لطیف کھوسہ کو بات کرنے سے روک دیا۔

    جسٹس عرفان سعادت نے کہا کھوسہ پلیز کیس چلنے دیں، ہم ججز کی خواہش ہے کہ آج کیس کو چلائیں، لطیف کھوسہ صاحب پلیز مناسب نہیں اج مقدمہ چلنے دیں، جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا میاں عباد کا پانچ سالہ بیٹا فوت ہوا ملنے نہیں دیا گیا۔

    بریگیڈیئر عمران نے کہا میں فوکل پرسن ہوں تمام ملزمان کے وارثان کو نمبر بھی دیا گیا ہے، عدالت نے ہدایت کی کہ جس ملزم کا بچہ فوت ہوا اس کی ترجیحی بنیاد پر ملاقات کروائی جائے۔

    جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر کے درمیان پھر جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس شاہد وحید نے کہا جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ ہمیں غلطی دکھائے بغیر ہم سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں، اپیل میں اگر کیس آیا ہے، تو کھر سب کچھ کھل گیا ہے، یہ نکتہ نظر میرے ساتھی کا ہوسکتا ہے میرا نہیں، اگر اپیل میں سب کچھ ہوسکتا ہے تو کیا ہم کیس ریمانڈ بیک بھی کرسکتے ہیں؟

    جسٹس عرفان سعادت کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل آپ ایک جواب دے سکتے ہیں کہ یہ نظر ثانی نہیں اپیل ہے۔

    جسٹس جمال خان مندو نے کہا اٹارنی جنرل آپ یہی کہہ رہے ہیں نا کہ اپیل کا اسکوپ وسیع ہے، بس آگے چلیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی یہاں عدالت کے سامنے ایک قانون کا دفاع کرنے کھڑا ہے، عدالت کو اس بات کو سراہنا چاہیے، جس قانون کو کالعدم کیا گیا وہ ایسا تنگ نظر قانون نہیں تھا جیسا کیا گیا۔

    اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ کی کالعدم شقوں سے متعلق دلائل دیئے، جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کیا اپیل کا حق ہر ایک کو دیا جا سکتا ہے؟ ہر کسی کو اپیل کا حق دیا گیا تو یہ کیس کبھی ختم نہیں ہوگا۔

    جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کل کو عوام میں سے لوگ اٹھ کر آجائیں گے کہ ہمیں بھی سنیں، ایک قانون سارے عوام سے متعلق ہوتا ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے متاثرہ فریق ہونا ضروری ہے، اپیل دائر کرنے کے لیے جسٹس محمد علی مظہر نے کہااس حد تک جسٹس شاہد وحید سے متفق ہوں، متاثرہ فریق ہونا لازم ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کیا اس کیس میں اپیل دائر کرنے کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری ضروری نہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ منظوری لازم نہیں ہے۔

    اٹارنی جنرل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سننے کی استدعا کی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے۔

    جسٹس امین الدین نے کہا خواجہ صاحب ایک دو چیزیں پہلے نوٹ کر لیں، بظاہر یہ کیس عدالت میں 9 مئ واقعات پر آیا، اس کیس میں کیا قانونی شقیں چیلنج ہوسکتی تھی۔

    فیصل صدیقی ایڈوکیٹ وڈیو لنک پر پیش ہوئے، فیصل صدیقی نے کہا.میں نے متفرق درخواست دائر کر رکھی ہے کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے نہیں آسکتا، خواجہ حارث کے دلائل سے پہلے میری درخواست نمٹائیں ورنہ غیر موئثر ہوجائے گی۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا پہلی بار تو نہیں ہوا کہ پرائیویٹ وکیل حکومت کی جانب سے آیا ہو، فیصل صدیقی نے کہا عدالت کی بار اس پریکٹس کی حوصلہ شکنی کر چکی ہے، نجی وکیل کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بطور جج دیا تھا، فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل کے پاس متعلقہ کیس پر مہارت نہ ہو تو ہی نجی وکیل کیا جا سکتا ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کو لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ ان کے پاس متعلقہ مہارت نہیں ہے، موجودہ کیس آئینی نکات کا جس پر اٹارنی جنرل خود پیش ہو رہے ہیں، اٹارنی جنرل کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا وکیل پیش نہیں ہو سکتا، جس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا اٹارنی جنرل کو اختیار ہے جس وکیل سے چاہے معاونت لے سکتا ہے، عدالت نے خواجہ حارث کو وزارت دفاع کی جانب سے دلائل دینے کی اجازت دے دی۔

    سپریم کورٹ نے ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ملاقاتوں میں آئندہ تعطل نہیں ہوناچاہیے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

  • سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں؟ فیصلہ آج سنائے جانے  کا امکان

    سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملیں گی یا نہیں؟ فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان

    اسلام آباد : مخصوص نشستوں کے لئے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر پر فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان ہے،سپریم کورٹ نے منگل کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ کا فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان ہے۔

    گذشتہ روز مخصوص نشستوں کے کیس سے متعلق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا تھا ، اجلاس میں چیف جسٹس سمیت فل کورٹ کے تیرہ ججز شریک ہوئے، جس میں محفوظ کردہ فیصلے پر مشاورت مکمل کی گئی۔

    یاد رہے منگل کے روز سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    کیس کا پس منظر

    واضح رہے کہ عام انتخابات کے بعد مارچ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 1-4 کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں کیونکہ اس جماعت نے انتخابات سے قبل مخصوص سیٹوں کے لیے امیدواروں کی فہرستیں جمع نہیں کرائیں، الیکشن کمیشن نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ یہ نشستیں پارلیمنٹ میں موجود دوسری جماعتوں کو تقسیم کردی جائیں گی۔

    علاوہ ازیں 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی استدعا مسترد کردی تھی، جس کے بعد سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے اپریل میں اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

    بعد ازاں 6 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص سیٹوں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا تھا۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے دیگر سیاسی جماعتوں کو مخصوص سیٹوں کی الاٹمنٹ سے متعلق فیصلہ معطل کیا تھا۔

    مخصوص نشستوں کی تقسیم

    الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیں۔

    خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے جمعیت علمائے اسلام پاکستان، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو ایک ایک مخصوص نشست الاٹ کی ہے۔

    سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان اور پیپلز پارٹی کو خواتین کے لیے مختص نشستیں دی گئیں، جس پر پیپلز پارٹی کی سمیتا افضل اور ایم کیو ایم پی کی فوزیہ حمید مخصوص سیٹوں پر منتخب ہوئیں۔

    مزید برآں سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے سادھو مل عرف سریندر والسائی نے اقلیتی نشست حاصل کی۔

    ای سی پی نے مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور جے یو آئی ف کو اقلیتوں کے لیے تین مخصوص نشستیں الاٹ کیں ، جن کا دعویٰ سنی اتحاد کونسل نے کیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کی نیلم میگھواڑ، پیپلز پارٹی کے رمیش کمار اور جے یو آئی ف کے جیمز اقبال اقلیتی سیٹوں پر منتخب ہوئے۔

  • میڈیکل کالجز کی بھاری فیس: طلبا کے لئے اہم خبر

    میڈیکل کالجز کی بھاری فیس: طلبا کے لئے اہم خبر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے میڈیکل کالجز کی بھاری فیسوں کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں میڈیکل کالجز کی بھاری فیسوں کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس منصورعلی شاہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    درخواست گزار وکیل ذوالفقاراحمد ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا میڈیکل کالجز کی فیس پر کون سا قانون لگتاہے؟ سپریم کورٹ ایسے تو کیس نہیں سن سکتا۔

    جسٹس محمدعلی مظہر نے بھی استفسار کیا کہ کیا آپ نےپی ایم سی سےفیس کےحوالے سے رابطہ کیا؟ جس پر درخواست گزار وکیل ذوالفقاراحمد نے بتایا کہ وزیراعظم، صدر مملکت کو میڈیکل فیس سےمتعلق خط لکھا ، ہمارے بچوں نے تو لاکھوں فیس ادا کرکے پڑھ لیا ہے، آنے والے طلباکے مستقبل کامعاملہ ہے۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ ان سے بات کریں جو فیس کی ریگولیٹری کون کرتاہے؟ وکیل ذوالفقاراحمد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان میڈیکل ڈینٹل ایکٹ بنایاگیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط لیاگیا۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے ریگولیٹری کےپاس جائیں، سپریم کورٹ کا میڈیکل فیس دیکھنےسےمتعلق کیاکام؟ فیس ریگولیٹری جب بنا ہوا ہےتوکیا وہاں گئے ؟ کیا ہم کمیشن بنا سکتےہیں؟ جسٹس محمدعلی مظہر نے بھی وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کاذاتی مسئلہ ہے تو ریگولیٹری سے رجوع کریں۔

    سپریم کورٹ نےمیڈیکل کالجز کی بھاری فیسز کیخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔