اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنمانے آپکے اورچیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ کیخلاف پریس کانفرنس کی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا بولا انہوں نے ؟ اٹارنی جنرل نے بتایا پی ٹی آئی کے رؤف حسن نے پریس کانفرنس میں ایسے الفاظ استعمال کیے جو میں دہرا نہیں سکتا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا وہ الفاظ اتنے خوبصورت ہیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے کہا جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے اور استفسار کیا یہ فواد حسن کے بھائی ہیں؟ ہم نے تو فواد حسن فواد کو ریلیف دیا تھا، کیا ان کو اس بات سے تکلیف ہے کہ ان کے بھائی کو ریلیف کیوں دیا۔؟
اسلام آباد : سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں 28 میڈیا ہائوسز کو شوکاز جاری کرتے ہوئے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو توہین عدالت کارروائی کا شوکاز نوٹس واپس لے کر اٹھائیس میڈیا ہائوسز کو شوکاز جاری کر دیا۔
عدالت عظمی کی جانب سے جاری نوٹس کے مطابق جسٹس عقیل عباسی نے کہا کیا ٹی وی چینلز غیر مشروط معافی مانگیں گے، چیف جسٹس نے کہا نہیں رہنے دیں اس سے لگے گا ہم انہیں معافی کا کہہ رہے ہیں۔
جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا میں نیا بیان دینا چاہ رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا نہیں اب ہمیں آرڈر لکھوانے دیں۔
چیف جسٹس نے حکمنامہ لکھوا دیا ، حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو جاری شوکاز واپس لیا جاتا ہے توقع ہے دونوں رہنما اپنے جمع کرائے گئے جواب پر قائم رہیں گے اگر دوبارہ کچھ ایسا ہوا تو صرف معافی قابل قبول نہیں ہو گی۔
عدالت عظمی نے چینلز کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے دوہفتوں میں جواب دینے کاحکم جاری کردیا۔
اسلام آباد: فوجی عدالتوں کا کیس جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست دائر کردی گئی، جس میں کہا عدالتی حکم کے باوجود کیس آج تک سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوسکا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کا کیس جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست دائر کر دی گئی۔
درخواست ایڈوکیٹ لطیف کھوسہ کی جانب سے دائر کی گئی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجودکیس آج تک سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوسکا ہے اور 13 دسمبر سے ابتک کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔
دائر درخواست میں کہا گیا کہ 103 زیر حراست ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ سپریم کورٹ کارروائی کی وجہ سے رکا، استدعا ہے کیس کویکم جولائی سے شروع ہونیوالے ہفتےمیں مقرر کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے مقدمے کو جنوری2024 کے تیسرے ہفتے میں مقررکرنے کی ہدایت کی تھی۔
یاد رہے سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے کہا تھا صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نےملٹری کورٹس سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہرکرتے ہوئے کہا تھا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ملزمان کی رہائی کےلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایاجانادوسرا اس کی توثیق ہوگی اور تیسرامرحلہ کم سزاوالوں کوآرمی چیف کی جانب سےرعایت دینا ہوگا۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس دکھانے پر ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کردیئے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سےمتعلق توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ بینچ میں جسٹس عرفان سعادت،جسٹس نعیم افغان شامل ہیں ، سپریم کورٹ کےطلب کرنےپر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں ، ٹی وی چینل کہہ دیتےہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے ،فیصل واوڈا کی کانفرنس کو تمام ٹی وی چینلز نے چلایا، کیا اب ٹی وی چینلز کو بھی توہین عدالت کا نوٹس کریں، جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ میرے خیال میں نوٹس بنتاہے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا نے عجیب قانون بنا دیاہے کہ عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی، یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹی وی چینلزکی ذمہ داری ہے کہ اپنےپلیٹ فارم کوتوہین کیلئےاستعمال نہ ہونےدیں ، ٹی وی چینلز نے اپناپلیٹ فارم مہیا کرنا چھوڑ دیا تو معاملہ ختم ہو جائے گا ،دو ججز کے بارے میں ایسی باتیں بولی گئیں اور ٹی وی چینلز نے نشر کیا۔
سپریم کورٹ نےعدالتی رپورٹنگ پر پابندی سے متعلق پیمرا نوٹیفکیشن طلب کرتے ہوئے توہین عدالت سےمتعلق مواد نشرکرنے پر پابندی کے پیمرا نوٹیفکیشن پر جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایسی پریس کانفرنس نشر ہوتی ہیں توکوئی مسئلہ نہیں مگرعدالتی کارروائی سے مسئلہ ہے؟ وکیل پیمرا نے بتایا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں تو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے کھڑے ہو کربات کرتے، مجھ سے متعلق جو کچھ کہا گیا کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا ، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کر رہے ہیں ، کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی ، آپ نےکس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی ، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا۔
چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کرجاتے ہیں ، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تونہ بولیں ،صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آئے اور کہا کہ پیمرا عدالتی رپورٹنگ پرپابندی نہیں لگا سکتا ،پیمرا کو ٹی وی پروگرامزمیں بے بنیاد باتوں کودیکھناچاہیے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کئی لوگ فیصلوں پراعتراض کرتےہیں، پوچھا جائےفیصلہ پڑھاتوجواب ہوتا ہے،نہیں۔
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے پر تمام ٹی وی چیلنز کو نوٹسز جاری کردیا۔
عدالت نے تمام ٹی وی چینلز سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 28 جون تک ملتوی کردی
اسلام آباد: توہین عدالت کیس میں ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کی معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصل واوڈا سے شوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سےمتعلق توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ بینچ میں جسٹس عرفان سعادت،جسٹس نعیم افغان شامل ہیں ، سپریم کورٹ کےطلب کرنےپر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگ لی گئی، صرف ایک صفحہ کے جواب میں معافی مانگی ہے۔
فروغ نسیم نے مصطفیٰ کمال کا معافی کا بیان پڑھ کر سنادیا اور کہا کہ مصطفیٰ کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پرمعافی مانگی، انھوں نے پریس کانفرنس زیر التوا ربا کی اپیلوں سے متعلق کی تھی، ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا ربا کی اپیلیں کہاں زیر التوا ہیں،فروغ نسیم نے بتایا کہ ربا اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں زیر التوا ہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر وہ ایک الگ ادارہ ہے، شریعت اپیلٹ بینچ کے جج جسٹس غزالی وفات پاگئےتھے۔
فروغ نسیم نے استدعا کی عدالت غیرمشروط معافی قبول کرکےتوہین عدالت کارروائی ختم کردے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے میرا خیال ہے میں نے توہین عدالت کا نوٹس پہلی بار کیاہے، فیصل واوڈا تو سینیٹ میں ہیں وہاں مزید سلجھے لوگ ہونےچاہئیں، ارکان پارلیمنٹ عدلیہ پر حملہ کرےگاتویہ ایک آئینی ادارے کا دوسرے پر حملہ ہوتا ہے۔
وکیل رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ میرے خیال میں مصطفیٰ کمال کی باتیں توہین عدالت کےزمرےمیں نہیں آتیں تو چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ توہین نہیں تھی تومعافی کس بات کی مانگ رہے ہیں ،قوم کو ایسی پارلیمنٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو، آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی، پارلیمنٹ میں بات کرتےتب بھی کچھ تحفظ حاصل ہوتا، پریس کلب میں بات کریں ،میڈیا دکھائے تومعاملہ الگ ہے۔
توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مصطفیٰ کمال سمجھتے ہیں توہین عدالت نہیں کی تو پھر معافی قبول نہیں کرینگے، قوم کا تقاضاہے پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنےامور کی انجام دہی کرے، پارلیمنٹ نے آرٹیکل270میں ترمیم کی ہم نے کوئی بات نہیں کی، ہمیں پارلیمنٹ کا احترام ہے، پاکستان کی خدمت کےلئے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں ، اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پرتنقید کرے
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفیٰ کمال نے معافی اس لیے مانگی کیونکہ عدالتوں کی بہت عزت کرتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معافی کی گنجائش دین اسلام میں قتل پربھی ہےمگرپہلےاعتراف لازم ہے تو وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام تو اور بھی بہت کچھ کہتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروغ نسیم سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے پریس کلب میں جا کر معافی نہیں مانگی تو وکیل کا کہنا تھا کہ پریس کلب میں معافی مانگناشرط ہےتومصطفیٰ کمال ایساکرنےپربھی تیارہیں۔
چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے استفسار کیا آپ تو سینیٹر ہیں؟ فیصل واوڈا نے جواب میں کہا کہ جی مائی لارڈ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سینیٹ تو ایوان بالا ہوتاہے، سینیٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتےہیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا ججز کی دوہری شہریت کی آئین میں ممانعت نہیں تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا ججز کی دہری شہریت کی بات پریس کانفرنس میں کی گئی، ججز کے کنڈکٹ پربات کرناتوہین عدالت میں آتا ہے، ارکان پارلیمنٹ کو بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔
عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھی ججزکے کنڈکٹ کو زیربحث نہیں لایا جاسکتا، عدالت کوبھی اس طرح ایوان کی کارروائی کا اختیار نہیں، دونوں ملزمان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں، رکن پارلیمنٹ دہری شہریت نہیں رکھ سکتا جو پارلیمنٹ کا ہی بنایاگیا قانون ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارےسامنےدہری شہریت کا معاملہ نہیں توہین عدالت کاکیس ہے، آئین پاکستان دیکھیں، کتنےخوبصورت الفاظ سے شروع ہوتا ہے، ہمیں کسی کو توہین کا نوٹس دینے کا شوق نہیں، امام نے فرمایا تھا کسی سے اختلاف ایسے کریں کہ اس کے سر پر چڑیا بیٹھی ہو تو بھی نہ اڑے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیاہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے پربٹھایاہے؟ ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے فیصلوں پرتنقید نہ کریں، فیصل واوڈا کے وکیل کی بڑی شرعی شکل ہے، اللہ کرے ہمارے اعمال بھی شرعی ہوجائیں۔
فیصل واوڈا کے وکیل معیزاحمدروسٹرم پر آئے ، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں ، ٹی وی چینل کہہ دیتےہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے ، فیصل واوڈا کی کانفرنس کو تمام ٹی وی چینلز نے چلایا، کیا اب ٹی وی چینلز کو بھی توہین عدالت کا نوٹس کریں، جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ میرے خیال میں نوٹس بنتاہے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا نے عجیب قانون بنا دیاہے کہ عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی، یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ نےعدالتی رپورٹنگ پر پابندی سے متعلق پیمرا نوٹیفکیشن طلب کرتے ہوئے توہین عدالت سے متعلق مواد نشرکرنے پر پابندی کے پیمرا نوٹیفکیشن پر جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایسی پریس کانفرنس نشر ہوتی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں مگر عدالتی کارروائی سے مسئلہ ہے؟ وکیل پیمرا نے بتایا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں تو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے کھڑے ہو کربات کرتے، مجھ سے متعلق جو کچھ کہا گیا کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا ، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا۔
وکیل فیصل واوڈا نے کہا کہ میرے موکل پیمرا سےمتعلق بات کرنا چاہتے ہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی نہیں آپ کوسننا ہے، آپ وکیل ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل معیزاحمد سے استفسارکیا آپ معافی نہیں مانگنا چاہتے؟ تو وکیل کا کہنا تھا کہ جواب جمع کرایا ہے ، عدالت میں پڑھنا چاہتا ہوں تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کلائنٹ نے کہا کیا؟ پہلے دیکھتے ہیں توہین عدالت بنتی یانہیں، جس پر وکیل معیزاحمد نے کہا کہ میں اس پریس کانفرنس کے بعدہونے والے سوال جواب پڑھناچاہتا ہوں۔
جسٹس عرفان سعادت نے مکالمے میں کہا کہ آپ نے صحافی کے جواب میں کہا دوججز کیخلاف بات کرنے آیا ہوں، آپ نے پریس کانفرنس پاکستان کےلوگوں کے بارےمیں نہیں کی،آپ نے دو انتہائی قابل احترام ججزپر بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے، کیا آپ نے کوئی قانون بدلنے کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا ، ہم نے کبھی کہا فلاں سینیٹر نے اتنے دن اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کر رہے ہیں ، کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی ، آپ نےکس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی ، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا۔
چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کرجاتے ہیں ، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تونہ بولیں ،صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی۔
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت پر سزا کے ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک بیان میں کوئی 10بار توہین کرے تو جرمانہ 10 لاکھ ہوگا ؟ جس پر وکیل فروغ نسیم نے پوچھا کہ جرمانہ ایک لاکھ روپے ہی ہوگا۔
فروغ نسیم نے بتایا کہ 16مئی کے بعدسےاس گفتگو کےحق میں ایک لفظ نہیں بولا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کو اشارہ مل گیا ہے وہ پریس کانفرنس کریں گے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہ آپ پراسکیوٹر ہیں ایسی بات نہ کریں ، کیا فیصل واوڈا ،مصطفیٰ کمال نے ندامت دکھانے کیلئےکوئی اور پریس کانفرنس کی تو وکیل مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ ایسی کوئی بھی پریس کانفرنس نہیں کی گئی،
چیف جسٹس نے وکیل حافظ عرفان کو قرآن و حدیث کے حوالوں سےمعاونت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو وقت دیتے ہیں اس بارے میں سوچ لیں ، جھوٹ بولنےسےڈالرملتے ہیں ،سارے صحافیوں کو ہم نے بچایا، اگر آپ کو مزید وقت درکار ہے بتا دیں، عدالتی فیصلوں پرضرور تنقید کریں اڑا کر رکھ دیں، سی نے میرے فیصلے پر تنقید کرنی ہے تو پڑھ کر کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کیا فیصل واوڈا معافی مانگ رہے ہیں یا نہیں؟ وکیل نے بتایا کہ مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔
عدالت نے توہین عدالت کیس میں فیصل واوڈا سےشوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتےمیں جواب طلب کر لیا، فروغ نسیم نے کہا کہ ہم قانون بدلنا چاہتے تھے ، اس پر شورپڑجاناتھا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شور کیوں پڑنا تھا، جس پر فروغ نسیم نے مزید کہا کہ اس معاملے پر فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتا ،مصطفیٰ کمال کی حد تک نوٹس واپس لےلیں ، مصطفیٰ کمال صرف رباکو اللہ کیساتھ جنگ کہتےہیں ،اس کیس کا فیصلہ چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مجھے تولگا تھا وہ مذہبی جماعتوں کاکیس ہے ، پہلی بار پتا چلا ایم کیو ایم بھی شریک ہے اور سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا، بعد ازاں کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے توہین عدالت کے نوٹس پر ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال اور سینیٹر فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا۔
جس میں مصطفیٰ کمال نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معذرت کی تھی جبکہ سینیٹر فیصل واوڈا نے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا۔
اسلام آباد : سینیٹر فیصل واوڈا نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا اور پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر فیصل واوڈا نے توہین عدالت نوٹس پر سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا، جس میں انھوں نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا۔
جواب میں کہا گیا کہ پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا، پریس کانفرنس کامقصدملک کی بہتری تھا۔
سینیٹر نے جواب میں کہا کہ عدالت توہین عدالت کی کاروائی آگےبڑھانےپرتحمل کامظاہرہ کرے، استدعا ہے توہین عدالت کا نوٹس واپس کیا جائے۔
فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا مبینہ ملزم عدالت کی عزت کرتا ہے، کسی بھی طریقے سے عدالت کا وقار مجروح کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، ملزم سمجھتا ہے عدالت کا امیج عوام کی نظروں میں بے داغ ہونا چاہیے، پاکستان کے تمام مسائل کا حل ایک فعال اور متحرک عدالتی نظام میں ہے۔
جواب میں کہنا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ سے متعلق معلومات کیلئے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جواب موصول نہیں ہوا۔
سینیٹر نے مزید کہا کہ پاکستان کے مضبوط دفاع کیلئے فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی ضروری ہے، عدلیہ کے ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی کا انحصار عوامی تائید پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کیخلاف مہم زور پکڑ رہی ہے، حال ہی میں چیف جسٹس نے کہاعدلیہ کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہئیں، اپریل 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کیخلاف توہین آمیزمہم چلی۔
سینیٹر نے رؤف حسن، فضل الرحمان اور شہباز شریف کی تقریروں کے ٹرانسکرپٹ بھی پیش کردیے ہیں۔
اس سے قبل ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بیان حلفی جمع کرائا تھا۔
جس میں ایم کیو ایم رہنما نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ججز بالخصوص اعلی ٰعدلیہ کے ججز کا دل سے احترام کرتا ہوں۔
رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ عدلیہ اورججز کےاختیارات ، ساکھ کو بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، عدلیہ سے متعلق بیان بالخصوص 16مئی کی نیوزکانفرنس پرغیرمشروط معافی کا طلبگار ہو۔
یاد رہے سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا ، مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کانوٹس جاری کیاتھا ، سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہوگی۔
اسلام آباد : ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معافی مانگ لی اور کہا معززعدالت سے معافی کی درخواست اور خود کرعدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہوں۔
تفصیلات کے مطابق ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بیان حلفی جمع کرادیا۔
جس میں ایم کیو ایم رہنما نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ججزبالخصوص اعلی ٰعدلیہ کے ججز کا دل سے احترام کرتا ہوں۔
رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ عدلیہ اورججز کےاختیارات ، ساکھ کو بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، عدلیہ سے متعلق بیان بالخصوص 16مئی کی نیوزکانفرنس پرغیرمشروط معافی کا طلبگارہو۔
بیان حلفی میں کہا گیا کہ معززعدالت سے معافی کی درخواست اورخودکرعدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہوں۔
یاد رہے 17 مئی کو سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا، مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کانوٹس جاری کیا تھا اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونےکا حکم دیا تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ فیصل واوڈا اور رہنما ایم کیو ایم اپنے بیانات کی وضاحت کریں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سینیٹر فیصل واوڈا توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہوگی۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے انسداد اسمگلنگ ایکٹ 1977 میں ترمیم کی سفارش کر دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے انسدادا اسمگلنگ ایکٹ 1977 جائزے کے لیے پارلیمنٹ کو بھجوا دیا، اور فیصلہ دیا کہ یہ قانون نقائص سے بھرپور ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ انسداد اسمگلنگ ایکٹ میں اپیل کا حق صرف ملزمان کو دیا گیا ہے، حکومت کو اپیل کا حق نہ ہونے کا مطلب ہے کہ انسداد اسمگلنگ ایکٹ ملزمان کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلے کی کاپی لا اینڈ جسٹس کمیشن، سیکریٹری قانون، اور اٹارنی جنرل کو بھجوا دی، 7 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس شاہد وحید نے تحریر کیا۔
انسداد اسمگلنگ ایکٹ میں اے این ایف کا کردار صرف اسپیشل جج کو اطلاع دہندہ کا ہے، ملزمان کا مؤقف سامنے آنے کے بعد معاملہ جج اور ملزمان کے درمیان رہ جاتا ہے، اور اس قانون کے تحت جج کو اطلاع دینے کے بعد شکایت کنندہ کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اے این ایف کا کردار شکایت کے بعد ختم ہونے پر وہ فیصلے سے متاثرہ فریق نہیں ہوگا، ایکٹ میں اے این ایف یا ریاست کو اپیل کا کوئی حق نہیں دیا گیا، اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق یعنی ملزمان کو ہی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اے این ایف کی اپیل متاثرہ فریق نہ ہونے پر ہی خارج کی، دنیا بھر میں ریاست اور حکومت کو انسداد اسمگلنگ قانون میں اپیل کا حق دیا گیا ہے، مناسب ہوگا پارلیمان قانون کا جائزہ لے تاکہ ریاست کو اپیل کا حق دیا جا سکے۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر اپیلوں کی سماعت کیلئے 13 رکنی فل کورٹ تشکیل دے دیا، جو 3 جون کو سماعت کرے گا۔
تفصیلات کے مطابق سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا، سپریم کورٹ کا 13 رکنی فل کورٹ 3 جون کوسماعت کرے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تمام دستیاب ججز پر مشتمل بینچ اپیلوں پر سماعت کرے گا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین بینچ کا حصہ ہونگے۔
اس کے علاوہ جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہوں گے جبکہ جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سادات خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی بینچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی علالت کے باعث دستیاب نہیں ہوں گی۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ گذشتہ سماعت پر معطل کیا تھا، معاملے پر لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ کمیٹی کو بھجوایا گیا تھا۔
سنی اتحاد کونسل پر فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیا۔
سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹوں پر الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کومعطل کررہے ہیں ، فیصلوں کی معطلی صرف اضافی سیٹوں کو دینےکی حدتک ہوگی، عوام نے جوووٹ دیااس مینڈیٹ کی درست نمائندگی پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے۔
اسلام آباد : نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کو مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل بینچ ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ میں شامل ہیں۔
بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیولنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے، ایڈووکیٹ جنرل کےپی نے سماعت براہ راست دکھانے کی استدعا کی۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ نہیں ہے، آخری سماعت پرتو آپ نے ایسی درخواست نہیں دی۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا اسےختم کریں اوربیٹھ جائیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے یہ کیس براہ راست دکھانا چاہیے کہ منفی تاثر نہ جائے۔
سماعت براہ راست دکھانے سے متعلق بینچ مشاورت کیلئے اٹھ کرچلاگیا، نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست دکھانے سے متعلق فیصلہ کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔
وقفے کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت براہ راست دکھانے کی درخواست مسترد کردی۔
عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو مقدمے کا تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیا اور خواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔
حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے خواجہ حارث جب ملنا چاہیں مل سکتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پچاس لوگ ساتھ لے کرنہ جائیں، ایک دو وکیل جب چاہیں مل سکتےہیں۔
حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تو اٹارنی جنرل نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لیے،اب آئندہ سماعت پر فاروق ایچ نائک ایک گھنٹہ دلائل دیں گے جبکہ خواجہ حارث نے دلائل کیلئے تین گھنٹے کا وقت مانگا ہے۔
سماعت کے آخرمیں بانی پی ٹی آئی اورچیف جسٹس کےدرمیان مکالمہ ہوا، چیف جسٹس کا کہنا تھا آئندہ سماعت کیلئے تاریخ کا اعلان شیڈول دیکھ کر کریں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس میں حکومتی اپیلوں پر سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی گئی۔