Author: راجہ محسن اعجاز

  • ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کو فٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے خود کو ایکسپوز کررہے ہیں،  جسٹس اطہر من اللہ

    ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کو فٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے خود کو ایکسپوز کررہے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم کیس میں ریمارکس دیئے کہ ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کوفٹبال بنائیں گے، ایسا کہنے والے درحقیقت خود کو ایکسپوز کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت  کی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس حسن رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سےمکالمہ آپ کہیں جا رہےہیں تو خواجہ حارث نے جواب دیا میں ادھر ہی ہوں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ مرکزی درخواست گزاربھی کہیں نہیں جا رہےکیونکہ وہ اڈیالہ میں قیدہیں، جسٹس اطہرمن اللہ کے ریمارکس پرکمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہمیں کہاجا رہا ہےکہ پگڑیوں کوفٹبال بنائیں گے، ایساکہنے والےدرحقیقت خود کو ایکسپوز کررہے ہیں، کیا آپ اپنی پراکسیز کے ذریعے ہمیں دھمکا رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہ ایساہو رہا ہےاورنہ ہی ایسا ہونا چاہیے، عدالت نے آئندہ سماعت پربھی بانی پی ٹی آئی کو ویڈیولنک کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے کہا کہ کیس کی سماعت کی آئندہ تاریخ کا اعلان بینچ کی دستیابی کی صورت میں ہوگا۔

  • نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

    نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

    اسلام آباد : نیب ترایم کیس میں بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کا آغاز ہوگیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت  کی، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس حسن رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔

    بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن کر پیش

    بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیاگیا، نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف اپیلوں پر سماعت براہ راست نشر نہیں کی جارہی، سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ سماعت براہ راست دکھانے کا فیصلہ کرے گا۔

    اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں ، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کےکورٹ روم میں وکلا کا داخلہ بند کردیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوگئے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست سماعت کیلئے منظور ہوچکی؟ کیا نیب ترامیم کیخلاف ہائیکورٹ میں درخواست اب بھی زیر التوا ہے؟

    چیف جسٹس نے سوال کیا اٹارنی جنرل صاحب کیا ویڈیو لنک قائم ہوگیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا جی بالکل ویڈیو لنک چل رہا ہے۔

    حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کل میں نے چیک کیا تھا، درخواست اب تک زیر التوا ہے۔

    بانی پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے ہلکے نیلے رنگ کی شرٹ پہن کرموجود ہیں، خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

    بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے استفسار

    چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کیا بطور وکیل آپ نے فیس کا بل جمع کرایا؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مجھے فیس نہیں چاہیے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تمام وکلاسے سینئر ہیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس پر سماعتوں کاحکم نامہ طلب

    وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کا معاملہ زیرالتواہے، جی اسے قابل سماعت قرار دے دیا گیا تھا، جس کے بعد عدالت نے اسلام آبادہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیس پرسماعتوں کاحکم نامہ طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نیب ترامیم کیخلاف کیس کا مکمل ریکارڈ منگوا لیں ، مخدوم علی خان صاحب اونچی آواز میں بولیں تاکہ بانی پی ٹی آئی بھی سن سکیں۔

    یب ترامیم کیس کی بانی پی ٹی آئی کے سابقہ وکیل خواجہ حارث بھی روسٹرم پر آگئے ، چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ آپ اصل کیس میں وکیل تھے ، آپ کے نہ آنے پر مایوسی تھی ، ہم آپ کے مؤقف کو بھی سننا چاہیں گے۔

    مخدوم علی خان نے عدالت میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست کی گراؤنڈ پڑھیں

    مخدوم علی خان نے عدالت میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست کی گراؤنڈ پڑھیں اور کہا کہ 19جولائی 2022 کو درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری ہوئے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا مرکزی کیس کی کل کتنی سماعتیں ہوئیں؟ تو وکیل مخدوم علی نے بتایا کہ مرکزی کیس کی مجموعی طور پر 53 سماعتیں ہوئی تھیں۔

    چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا،چیف جسٹس

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اتنا طویل عرصے تک کیس کیوں چلا، کیا آپ نے کیس کو طول دیا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ زیادہ وقت دلائل میں درخواست گزار نے لیا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے 1999میں نیب قانون بنانے میں کتنا وقت لگا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مارشل لا کے فوری بعدایک ماہ کے اندر نیب قانون بن گیاتھا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بڑے تعجب کی بات ہےکہ نیب ترامیم کیس 53  سماعتوں تک چلایا گیا، چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا، مخدوم علی خان آپ کیس میں موجودتھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا۔

    مخدوم علی خان نے بتایا کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا، چیف جسٹس نے استفسار کیا ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسےقابل سماعت ہوا ؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نےاس سوال کاجواب دیا تھا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکرکیا تھا۔

    حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ کر سنایا

    حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے 2023 میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پرہم دو ججز نے ناقابل سماعت کردیاتھا ، ہم نے کہا تھا جو کیس ہائیکورٹ میں زیر التواہےاس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، لاہور ہائیکورٹ بار نے جو الیکشن کافیصلہ دیا اس کے خلاف انٹراکورٹ حکم جاری نہیں ہواتھا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اس کا آرڈر آف کورٹ کہاں ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ میرا خیال ہے کہ وہ آرڈر اسی نکتے پر اختلاف کی وجہ سے جاری نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس کا جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمہ

    چیف جسٹس نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمے میں کہا کہ آپ جب میرے ساتھ بینچ میں بیٹھے ہم نے تو 12  دن میں الیکشن کرادیئے، آپ جس بینچ کی بات کررہے ہیں اس میں خوش قسمتی یابدقسمتی سے میں نہیں تھا۔

    بانی پی ٹی آئی کی اپنے چہرے پرتیزروشنی پڑنے کی شکایت

    بانی پی ٹی آئی نے ساتھ موجود پولیس اہلکاروں کو پاس بلایا اور اپنے چہرے پرتیزروشنی پڑنے کی شکایت کی ، جس پر ویڈیو لنک پر پولیس اہلکاروں نے لائٹ کو ایڈجسٹ کر دیا۔

    وکیل مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ بینظیر بھٹو کیس جیسے مختلف فیصلے بھی موجود ہیں، ہائیکورٹ میں زیرسماعت درخواست سپریم کورٹ نہیں سن سکتی، نیب ترامیم کیس بھی سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھا، ہم نے کیس ناقابل سماعت ہونے کا معاملہ عدالت میں اٹھایا تھا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کمرہ عدالت میں سرگرشیوں پر اظہار برہمی

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں سرگرشیوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ جس نےباتیں کرنی ہیں وہ کمرہ عدالت سے باہر چلے جائیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پربیٹھنے کی ہدایت

    ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ سر عدالتی کارروائی براہ راست نشر نہیں ہورہی ، جس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو اپنی جگہ پربیٹھنے کی ہدایت کردی۔

    پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد نیب ترامیم کی کتنی سماعتیں ہوئیں، چیف جسٹس کا سوال

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا نفاذ کب ہوا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد نیب ترامیم کی کتنی سماعتیں ہوئیں، وکیل مخدوم نے بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعدکافی سماعتیں ہوئیں۔

    دوران سماعت ایک وکیل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ کارروائی براہ راست نشر نہیں کی جارہی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں اس وقت دلائل چل رہے ہیں تو وکیل کا کہنا تھا کہ ہم صرف آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے تھے، چیف جسٹس نے وکیل کو واپس بیٹھا دیا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا، پریکٹس اینڈ پروسیجرمعطل کرنادرست تھایاغلط ،اس عدالت کے حکم سےمعطل تھا۔

    مجھے کوئی قانون پسندنہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے ، چیف جسٹس

    چیف جسٹس کا بھی کہنا تھا کہ قوانین کو اس طرح سے معطل کیا جاتا رہا تو ملک کیسے ترقی کرے گا، ہم کب تک اس بے وقوفانہ دور میں رہتے رہیں گے، مجھے کوئی قانون پسندنہیں تو اسے معطل کردوں کیا یہ دیانتداری ہے، کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟ ایک قانون معطل کر کے پھر روزانہ کیس کو سن کرفیصلہ تو کرتے، کیا قانون معطل کرکےبینچ اسکے خلاف بناکردیگر مقدمات سنتے رہنا کیا یہ استحصال نہیں، ہم قانون توڑیں یا ملٹری توڑے ایک ہی بات ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بل کی سطح پر قانون کو معطل کرناکیا پارلیمانی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اچھا تھا یا برا لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کوعدالت نے معطل کر رکھا تھا، ایکٹ معطل ہونے کے  سبب کمیٹی کاوجود نہیں تھا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجرپررائے دی ، انھوں نے رائےدی پریکٹس اینڈ پروسیجر طے کئےبغیر نیب کیس پرکارروائی آگے نہ بڑھائی جائے۔

    وکیل مخدوم علی خان نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے بطور سینئرترین جج یہ نقطہ اٹھایاتھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان آپ اسے چھوڑیں کیا آپ کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں مزید کہا کہ اپیل متاثرہ فریق دائرکرسکتا ہے اوروہ کوئی بھی شخص ہوسکتا ہے، حکومت اس کیس میں متاثرہ فریق کیسے ہے؟ پریکٹس اینڈپروسیجر کےتحت اپیل صرف متاثرہ شخص لائے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا بھی کہنا تھا کہ صرف متاثرہ شخص نہیں قانون کہتاہے متاثرہ فریق بھی لاسکتاہے، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ دو تشریحات ہو سکتی ہیں کہ اپیل کا حق صرف متاثرہ فریق تک محدود کیا گیا، متاثرہ فریق میں پھربل پاس کرنیوالے  حکومتی بینچ کے ممبران بھی آسکتےہیں، اگر اس طرح ہوا تو ہمارے سامنے 150درخواست گزار کھڑے ہوں گے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ کوئی مقدمہ عدالت آیا تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے اور قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے، قانون معطل کرنے کے بجائے روزانہ سن کر فیصلہ کرنا چاہے تھا، جس پرجسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 2کے تحت اپیل متاثرہ شخص کرسکتا ہے جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی۔

    حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ بالکل حکومت اپیل کرسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر آگے بڑھیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ 2022کے فالو اپ پر2023 کی ترامیم بھی آئیں تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دی۔

    بانی پی ٹی آئی نکات نوٹ کر لیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھارہے ہیں تو مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجودہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی سےجواب لیں گے، بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں۔

    بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیئے

    بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیئے، مخدوم علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگرآرڈیننس لائے، نیب ترامیم کامعاملہ پارلیمانی تنازع تھاجسےسپریم کورٹ لایا گیا، یہ ملی بھگت سےمعاملہ سپریم کورٹ لایاگیا۔

    عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کسی بل پرکوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلےکیخلاف ووٹ دےسکتا ہے تو چیف جسٹس کا کہنا گتھا کہ اس معاملے پر نظرثانی درخواست موجود ہے۔

    مخدوم صاحب کرپشن کیخلاف مضبوط پارلیمان،آزاد عدلیہ ، بے خوف لیڈر ضروری ہے، جسٹس اطہر من اللہ

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مخدوم صاحب کرپشن کیخلاف مضبوط پارلیمان،آزاد عدلیہ ، بے خوف لیڈر ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کیلئےکوئی اور آرڈیننس لایا جارہا ہے۔

    آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈیننس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں، کیا آرڈیننس کے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہئیں۔

    پارلیمان کیساتھ بدنیتی منسوب نہیں کی جاسکتی، جسٹس اطہر من اللہ

    جسٹس اطہر من اللہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ پارلیمان کیساتھ بدنیتی منسوب نہیں کی جاسکتی، آئین پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، صدر اور آرڈیننس دونوں ہی پارلیمان کوجواب دہ ہیں، آرڈیننس منظوری کیلئے پارلیمان کو ہی بھیجا جاتا ہے۔

    اگر صدر کہے مجھے رولز رائس چاہئے تو گاڑی فراہم کر دی جائے گی، چیف جسٹس

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر صدر کہے مجھے رولز رائس چاہئے تو گاڑی فراہم کر دی جائے گی، پارلیمان بعد میں مسترد کر دے تب بھی گاڑی توخریدی جا چکی ہوگی۔

    بعد ازاں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پرسماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔

  • بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ، تحقیقات شروع

    بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ، تحقیقات شروع

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیب ترامیم کیس میں ویڈیو لنک کے زریعے پیش ہونے والے بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    عمران خان وائرل

     

    سپریم کورٹ پولیس نے بانی پی ٹی آئی کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

    مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس : بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی تصویرکمرہ عدالت کےبائیں جانب بیٹھےافرادمیں سےکسی نےبنائی، کمرہ عدالت کی بائیں جانب موجود افراد سےپوچھ گچھ شروع کر دی گئی۔

    پولیس ذرائع نے کہا ہے کہ کمرہ عدالت میں جانیوالے افراد کی تلاشی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔

    دوسری جانب کہا جارہا ہے کہ رہنما پی ٹی آئی شوکت بسرا نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی تصویر انھوں نے بنائی ہیں۔

    خیال رہے سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے، بانی پی ٹی آئی کوبذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں موجود ہیں اور حکومتی وکیل دلائل دے رہے ہیں۔

    اس موقع پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی بڑی تعدادسپریم کورٹ میں موجود ہے،  فیصل جاوید،اعظم سواتی ،شبلی فراز ،علی محمد خان ، بانی پی ٹی آئی کی بہنیں علیمہ خانم اور عظمی خانم ، نعیم حیدرپنجوتھا،بابراعوان،فیصل چوہدری ،بیرسٹر علی ظفر کمرہ عدالت میں ہیں۔

  • بانی پی ٹی آئی آج  ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

    بانی پی ٹی آئی آج ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے

    اسلام آباد : بانی پی ٹی آئی آج نیب ترامیم کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قراردینےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت آج ہوگی۔

    چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 5رکنی لارجربینچ سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ،جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

    سماعت ساڑھے11بجےکمرہ عدالت نمبرایک میں ہوگی، جس میں بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیولنک کے ذریعے پیش ہوں گے۔

    جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں آج پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی وڈیو لنک سے پیشی کے انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔

    اڈیالہ جیل انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی کو وڈیو لنک کے ذریعے پیشی سے متعلق آگاہ کردیا، سپریم کورٹ عملے اور جیل اتھارٹیزکے مابین وڈیو لنک کنکشن سے متعلق رابط بھی کیاگیا، بانی پی ٹی آئی کی پیشی سے قبل وڈیو لنک کا ٹیسٹ بھی کیا جائے گا۔

    نیب ترامیم کیس میں آج پاکستان تحریک انصاف کے بانی وڈیو لنک کے ذریعے دن 11:30 بجے پیش ہوں گے، گزشتہ روز وہ   وکیل خواجہ حارث،انتظار پنجوتھاجیل میں ملاقات کرچکےہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی  کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑی عجیب صورت حال ہے کہ درخواست گزار اپیل میں ریسپانڈنٹ ہیں اور ان کی نمائندگی نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا پاکستان تحریک انصاف کے بانی کا خط پہلے ہمارے نوٹس میں نہیں لایا گیا، پہلے بتایا جاتا تو اس حوالے سے مشاورت کر کے انتظامات کرتے، پاکستان تحریک انصاف کے بانی اس کیس میں فریق ہیں، ان کی نمائندگی ہونی چاہیے، اس لیے ان کی ویڈیو لنک پر حاضری کے لیے انتظامات کیے جائیں۔

  • گالم گلوچ کے اعدادوشمار جاری ہوں تو پاکستان پہلی پوزیشن پرآئے گا، چیف جسٹس

    گالم گلوچ کے اعدادوشمار جاری ہوں تو پاکستان پہلی پوزیشن پرآئے گا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سرکاری جامعات سےمتعلق رپورٹ پر ریمارکس دیئے منظم طریقے سے پاکستان کے مستقبل کو تباہ کیا جارہا ہے، گالم گلوچ کے اعدادوشمار جاری ہوں تو پاکستان پہلی پوزیشن پرآئے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ملک بھر کی سرکاری جامعات میں مستقل وائس چانسلرکی تعیناتیوں کے کیس کی سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، ہائرایجوکیشن کی جانب سےجامعات سےمتعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کل 154 سرکاری جامعات ہیں، 66 جامعات میں وی سی کیلئے اضافی چارج دیا گیا یاعہدے خالی ہیں۔

    اسلام آبادکی 29 جامعات میں سے 24 پر مستقل وی سی تعینات ہیں ، بلوچستان کی 10میں سے 5جامعات میں میں وی سی تعینات،5میں ایکٹنگ وی سیزہیں جبکہ کے پی کی 32 جامعات میں سے 10 پر مستقل وی سی،16پراضافی چارج ،6 خالی ہیں۔

    پنجاب کی 49 میں سے 20 جامعات پرمستقل ، 29 پر قائم مقام وی سیزہیں، سندھ کی 29 سرکاری جامعات میں سے 24 پر مستقل ، 5 پر اضافی چارج دیاگیاہے، رپورٹ پر چیف جسٹس نے استفسار کیا محکمہ تعلیم میں بیٹھے افسران کیا مکھیاں مار رہے ہیں؟ یونیورسٹیاں پاکستان کا مستقبل ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ منظم طریقے سے پاکستان کے مستقبل کو تباہ کیا جارہا ہے، ملک میں سب کچھ آہستہ آہستہ زمین بوس ہورہا ہے،ٹی وی میں بیٹھ کر سیاسی مخالفین کا غصہ نظر آتا ہے لیکن تعلیم کے معاملےپر چینلز میں کوئی پروگرام نہیں ہوتے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا کہ گالم گلوچ کے اعدادوشمار جاری ہوں تو پاکستان پہلی پوزیشن پرآئے گا، کچھ لوگ اسکولوں کو تباہ کر کے کہہ رہے ہیں ہم اسلام کی خدمت کررہے ہیں، اسکولوں کو تباہ کرنے والے ایسے لوگوں سے حکومتیں پھر مذاکرات بھی کرتی ہیں، جس طرح پی آئی اےمیں تباہی ہوئی اسی طرح جامعات میں بھی تباہی ہورہی ہے۔

    سرکاری جامعات میں مستقل وی سیزکی تعیناتیوں کےکیس کی سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔

  • سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت دے دی

    سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت دے دی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں بانی پی ٹی آئی کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق آج منگل کو سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس سے متعلق اپیلوں پر سماعت کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑی عجیب صورت حال ہے کہ درخواست گزار اپیل میں ریسپانڈنٹ ہیں اور ان کی نمائندگی نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا بانی پی ٹی آئی کا خط پہلے ہمارے نوٹس میں نہیں لایا گیا، پہلے بتایا جاتا تو اس حوالے سے مشاورت کر کے انتظامات کرتے، بانی پی ٹی آئی اس کیس میں فریق ہیں، ان کی نمائندگی ہونی چاہیے، اس لیے بانی پی ٹی آئی کی ویڈیو لنک پر حاضری کے لیے انتظامات کیے جائیں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وہ کب تک انتظامات کرلیں گے؟ اٹارنی جنرل کی ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے کہا ہم بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا ایک اپیل وفاق کی ہے، دوسری اپیل پرائیویٹ ہے، متاثرہ فرد ہی اپیل دائر کر سکتا ہے، وفاق کیسے متاثرہ فریق ہے؟ وکیل وفاقی حکومت نے کہا وفاقی حکومت کی نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا اس لیے ہم متاثرہ فریق ہیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے اس پر کہا کہ سپریم کورٹ نے کئی کیسز میں اصول طے کیا کہ فیڈریشن متاثرہ فریق نہیں ہو سکتی، عدالت متاثرہ فریق کی تشریح کر چکی کہ حکومت متاثرہ فریق نہیں ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اگر کوئی مرکزی کیس میں فریق ہے تو وہ متاثرہ ہوتا ہے، جس کے خلاف بھی فیصلہ ہو اسے اپیل کا حق ہوتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کسٹمز ایکٹ کیس میں عدالت قرار دے چکی کہ کوئی متاثرہ فریق نہیں ہو سکتا۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ کسٹمز کے کیس میں اپیل ایک افسر نے دائر کی تھی، کیا وفاق کو حق نہیں کہ اپنے بنائے ہوئے قانون کا دفاع کر سکے؟ نیب ترامیم سے بانی پی ٹی آئی کو کوئی ذاتی نقصان نہیں ہوا تھا، چیف جسٹس نے کہا مناسب ہوگا آپ اپنے بنیادی نکات ہمیں لکھوا دیں، بنیادی نکات عدالتی حکم کے ذریعے بانی پی ٹی آئی تک پہنچ جائیں گے تاکہ وہ جواب دے سکیں، کیوں کہ اس وقت وہ آپ کے دلائل نہیں سن رہے۔

  • ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکےجاؤ، چیف جسٹس برہم

    ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکےجاؤ، چیف جسٹس برہم

    اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس میں ریمارکس دیئے پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا ، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھرپھینکے جاؤ۔

    تفصیلات کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے کےخلاف سپریم کورٹ میں ازخودنوٹس پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    چکوال سے تعلق رکھنے والے راجہ شیر بلال،ابرار احمد، ایم آصف ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے ، دوران سماعت چکوال سےتعلق رکھنےوالے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائرکرنے سے مکر گئے۔

    سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دینے کی 2022 میں دائر کی گئی تھی، درخواست گزاروں نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہی نہیں کی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کئے، کیا بغیر اجازت درخواست دائر کرنیوالوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے تو ،درخواست گزار ایم آصف کا کہنا تھا کہ آپ کی سر پرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوا دیں گے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا ہم کیوں سرپرستی کریں؟ تو ایڈووکیٹ رفاق شاہ نے کہا کہ جس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے درخواست دائر ہوئی انکا انتقال ہو چکا۔

    چکوال سے تعلق رکھنے والے درخواست گزاروں کےوکیل حیدر وحید سے چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا کہ آپ کو صرف چکوال والے کلائنٹ ہی کیوں ملتے ہیں، ٹی وی پر بیٹھ کرہمیں درس دیا جاتا ہے کہ عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا، ملک کو تباہ کرنے کیلئے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ وکیل کو اپنا ایڈووکیٹ آن ریکارڈ خود کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کون سا مشہور آدمی چکوال میں بیٹھا ہواہے، گالیاں دینا ہوں تو ہر کوئی شروع ہوجاتا ہے، کوئی سچ نہیں بولتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا، کوئی غلط خبر پر یہ نہیں کہتا ہم سے غلطی ہو گئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے بس فون اٹھایا اور صحافی بن گیا کہ ہمارےذرائع ہیں، کسی کے کوئی ذرائع نہیں، ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھرپھینکےجاؤ، باہر کے ملک میں ایسا ہوتاتو ہتک عزت کیس میں جیبیں خالی ہوجاتیں۔

  • پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس: جسٹس عائشہ ملک  کا بھی اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس: جسٹس عائشہ ملک کا بھی اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد :پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس شاہد وحید کے بعد جسٹس عائشہ ملک کا بھی اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس عائشہ ملک نے بھی اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔

    جسٹس عائشہ ملک نے روسکوئے پاؤنڈ کے 1926 کے جملے سےاپنے فیصلے کا آغاز کیا اور کہا کہ روسکوئے پاؤنڈ نے کہا تھا ہم چاہتے ہیں عدلیہ کچھ کرےتو آزادی بھی دیناہوگی، روسکوئےپاؤنڈ کے مطابق عدلیہ کے کام میں قانون سازی کرکےرکاوٹ پیدانہیں کی جا سکتی۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ سادہ قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق نہیں دیا جا سکتا، آرٹیکل 184تھری میں اپیل کا حق دینےکیلئے آئینی ترمیم ضروری ہے۔

    آرٹیکل191کے تحت آئین سپریم کورٹ کورولز بنانے کا اختیار دیتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سپریم کورٹ کےآئینی اختیار کو ختم نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ رولزمیں ترمیم فل کورٹ ہی کر سکتی ہے۔

    اصل سوال یہی ہے فل کورٹ بینچ تشکیل پراپیل کا حق غیرمؤثرہوجائے گا، فل کورٹ کی تشکیل سے کسی فریق کا اپیل کا حق ختم نہیں کیا جا سکتا، فل کورٹ تشکیل سے 184تھری میں اپیل کاحق دینےکامقصدہی فوت ہوجائے گا۔

  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس: جسٹس شاہد وحید کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس: جسٹس شاہد وحید کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس شاہد وحید کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔

    جس میں کہا ہے کہ آرٹیکل191 کا سہارا لینےکی اجازت ملی تو عدالتی امورمیں بذریعہ آرڈیننس بھی مداخلت ہو سکے گی، عدالتی دائرہ اختیارمیں اضافہ صرف آئینی ترمیم کےذریعے ہی ممکن ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ سادہ قانون سازی سےعدالت کوکوئی نیادائرہ اختیارتفویض نہیں کیاجاسکتا، ججز کمیٹی اپنے رولز پریکٹس اینڈ پروسیجر کےمطابق ہی بناسکے گی، ججز کی 3رکنی کمیٹی پریکٹس اینڈ پروسیجر میں موجود خامیوں کو رولز بناکردرست نہیں کرسکتی۔

    جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ ججز کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اس کی جگہ کون لےگا؟ قانون خاموش ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق کوئی دوسراجج کمیٹی ممبرکی جگہ نہیں لے سکتا، کمیٹی کے  دو ارکان چیف جسٹس کو صوبائی رجسٹری بھیجنے کا فیصلہ کریں تو کیا ہوگا؟۔

    اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے انتظامی سربراہ ہوتےہیں انھیں دوسرے صوبے بھیجنے کے نتائج سنگین ہونگے، کمیٹی کاایک رکن بیمار اور دوسرا ملک سے باہر ہو تو ایمرجنسی حالات میں بینچز کی تشکیل کیسے ہوگی؟ قانون میں ان سوالات کےجواب نہیں اورنہ ہی ججز کمیٹی ان کاکوئی حل نکال سکتی ہے۔

    سپریم کورٹ کے جسٹسس نے کہا کہ آرٹیکل 184تھری کی درخواستیں قابل سماعت ہونےکافیصلہ عدالت میں ہی ممکن ہے، ججز کمیٹی انتظامی طور پر کسی درخواست کےقابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔

    نوٹ کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سیکشن 3اور 4آپس میں متضادہیں، سیکشن تین کے مطابق 184 تھری کے بنیادی حقوق کا کیس 3رکنی بینچ سن سکتا ہے، سیکشن 4کے مطابق بنیادی حقوق کےمعاملےکی تشریح 5رکنی بینچ ہی کر سکتا ہے، سیکشن 3سماعت اور آئینی تشریح کی اجازت دیتاہےجبکہ سیکشن 4پابندی لگاتا ہے۔

    جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ہر دوسرے مقدمہ میں آئین کی تشریح درکار ہوتی ہے، ہر کیس پر  5رکنی بینچ بننے لگ گئے تو زیر التوا50 ہزار مقدمات کےفیصلےکیسے ہونگے؟ اس نکتے سےواضح ہےپریکٹس اینڈ پروسیجر قانون فراہمی انصاف میں کتنی بڑی رکاوٹ بنےگا۔

    اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ قانون کی حکمرانی کیلئے نظام انصاف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے عدلیہ کو آزادی سےبغیرمداخلت کام کرنےدیا جائے۔

    نوٹ میں کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے، بینچ کی اکثریت غلط نتیجہ پر پہنچی جو آئین کے مطابق درست نہیں۔

    جسٹس شاہد وحید نے مزید کہا کہ اختلافی نوٹ کا مقصدمستقبل میں اس ہونیوالی غلطی کی اصلاح کرنا ہے، پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کا مقصد عدلیہ کی آزادی اور امور پرقدغن لگانا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184تھری کا دائرہ اختیار آئین میں دیا گیا ہے، آرٹیکل 175ٹوپارلیمان کو کسی بھی قسم کا قانون بنانے کی اجازت نہیں دیتا، آرٹیکل 175ٹو عدالتی دائرہ اختیار کے حوالے سے ہے۔

    اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ کوئی قانون آئین میں عدالت کو دیا گیا رولز بنانے کے حق پرحاوی نہیں ہوسکتا، پارلیمان کو بھی آئین سے متصادم قوانین بنانے کا اختیار نہیں، انتظامی امور پر پارلیمان کو مداخلت کی اجازت دینا اختیارات کی آئینی تقسیم کیخلاف ہے، حکومت مخصوص مقدمات میں مرضی کے بینچز بنائے تو عدلیہ کی آزادی کیخلاف ہوگا۔

  • امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی عمر ایوب سے اہم ملاقات

    امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی عمر ایوب سے اہم ملاقات

    اسلام آباد : امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان سے ملاقات کی، جس میں دو طرفہ تعلقات کے لیے اہم مسائل کی ایک وسیع رینج پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان امریکی سفارتخانہ کی جانب سے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی آج قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور اپوزیشن کے دیگر سینئر ارکان سے ملاقات ہوئی۔

    ترجمان امریکی سفارتخانہ کا کہنا تھا کہ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے لیے اہم مسائل کی ایک وسیع رینج پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    ترجمان نے بتایا کہ ڈونلڈ بلوم نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ اس کے اصلاحاتی پروگرام پر تعمیری انداز میں شمولیت کے لیے امریکہ کی حمایت پر زور دیا۔

    اس موقع پر سفیر نے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کی اہمیت اور ہمارے مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے بہت سے مواقع پر روشنی ڈالی۔

    ترجمان کے مطابق ڈونلڈ بلوم نے پاکستان کیلئےآئی ایم ایف پروگرام پر امریکا کی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔