Author: راجہ محسن اعجاز

  • ججز کے خط کا معاملہ:  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فل کورٹ بنانے کا عندیہ

    ججز کے خط کا معاملہ: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فل کورٹ بنانے کا عندیہ

    اسلام آباد : ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دے دیا اور کہا روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے اس کو نمٹائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کےججز کے خط پر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میں کسی کے دباؤ میں نہیں آتا ہوں،فیصلوں کو دیکھ کر ہرآدمی اپنی رائے دیتا ہے ، جو وکیل کہے کہ ازخود نوٹس لیا جائے اسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے، اکثر دیکھتا ہوں کہ وکیل ازخود نوٹس کے مطالبے کر رہے ہیں ، وکیلوں کے نمائندے موجود ہیں تو آجائیں سامنے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو مچھلی بازار نہیں بنانا چاہیے، پاکستان میں درجنوں بار ایسوسی ایشنز ہیں ہم سپریم کورٹ سے ہیں، ہمارا تعلق سپریم کورٹ بار سے ہوتا ہے ، بار کونسل کے لوگ بھی منتخب لوگ ہیں، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ اس کو بھی مان لیں جو آپ کا مخالف ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس میں کہا کہ میں کسی وکیل سے انفرادی طورپر ملتاہی نہیں ہوں،پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں سے بات ہوئی ہے، سماعت کا ابھی آغاز کیا ہے سب چیزوں کو دیکھیں گے۔

    اٹارنی جنرل اور پی ٹی آئی وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے، وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نے کل ایک درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ سے بہتر کون قانون جانتا ہے، آپکی درخواست ابھی ہمارے پاس نہیں آئی، جب درخواست آجائے تو انتظامی کمیٹی اس پر فیصلہ کرتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد چیف جسٹس اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔

    حامد خان نے مزید کہا کہ ہمیں بھی کیس میں سناجائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ سینئر وکیل ہیں، اب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی طےکرتی ہے، کمیٹی ناعدالت کا اختیار استعمال کر سکتی ہے نہ عدالت کمیٹی کا، چیف جسٹس

    ججز کو موصول ہونے والے خطوں پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 26تاریخ کو اسلام آبادہائیکورٹ کے ججز کا خط موصول ہوا، اسی دن افطاری کے بعد چیف جسٹس سمیت تمام ججز سے ملاقات ہوئی، اس ڈھائی گھنٹےکی ملاقات میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ بھی موجود تھے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے جوڈیشری کی آزادی کے معاملے پر زیرو ٹالرنس ہے ،ہمیں اپنا کام تو کرنے دیں ،یہ دیکھنا ہے کس رفتار سے کام ہورہاہے، سماعت کا آغاز کیسے کریں، پہلے پریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں، اب وہ زمانے گئے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی ہے، کیسز فکس کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ میرے آنے کے بعد  18دسمبر 2023کو فل کورٹ کی پہلی میٹنگ کی ، اس سے قبل 4 سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی ،کہاں تھے سارے وکیل ، ادارےکی اہمیت چیف جسٹس سے نہیں بلکہ تمام ججز سے ہوتی ہے، آزاد عدلیہ پر کوئی بھی حملہ ہوگا تو سب سے آگے میں کھڑاہوں گا، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو صدر سپریم کورٹ بار بن جائےیا چیف جسٹس ، ہم کوئی دباؤ برداشت نہیں کرتے۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل معاملے میں اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں، اس وقت وکلاکے جمہوری نمائندے وہی ہیں۔

    وزیراعظم سے ملاقات کے حوالے  سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات انتظامی نوعیت کی تھی، آفیشل انتظامی میٹنگ کا درجہ دینا چاہتے تھے، وزیراعظم سے ملاقات جوڈیشل نوعیت کی نہ تھی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ سے رجوع کیا تو آپ نے اچھا کردار ادا کیا ، اب اس معاملے کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے عدالتی فیصلہ ہائیکورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے، ہائیکورٹ ججز نے خط میں لکھا کہ بہنوئی داماد وغیرہ پر دباؤ ڈالا گیا، خط میں یہ نہیں بتایا گیا کس نے براہ راست ججز پر دباؤ ڈالا،ہائیکورٹ ججز کے پاس توہین عدالت کا اختیار ہے وہ بھی استعمال ہوسکتا تھا، آئین پاکستان ججز کو توہین عدالت کا اختیار دیتا ہے، کسی اور عدالت کی توہین عدالت کی پاور میں استعمال نہیں کرسکتا۔

    چیف جسٹس نے بتایا سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ججز پر دباؤکا خط آیا، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نہ مجھ سے مشاورت کی نہ بتایا گیا، میرے سیکرٹری نے کہا ہائیکورٹ ججز آئے ہیں تو میں نے فوری ملاقات کی، میں ایگزیکٹو نہیں مگر پھر بھی ملاقات کر کے ججز کی بات سنی ، ججز توہین عدالت کا نوٹس کریں تو وضاحت کیلئے سب کو پیش ہونا ہوتا ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ  نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے مرزا افتخار کی بات کی ، آپ نے کہا مرزا افتخار نے چیف جسٹس کو دھمکیاں دیں، کیا آپ نے یہ دیکھا کہ منطقی انجام تک پہنچا کہ نہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا بھی کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک ریفرنس دائر ہوا جس پراسوقت کےوزیراعظم نے تسلیم کیا ، اس وقت کے وزیراعظم نے تسلیم کہ غلطی تھی، اس پرکیا کارروائی ہو۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں، ہم نے اپنا احتساب کر کے دکھایا ہے۔

    سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت روسٹرم پر آئے اور کہا ہم انکوائری کمیشن کی حمایت کر رہے تھے، انکوائری کمیشن ہی بہترین طریقہ ہے ، کوئی انکوائری کمیشن سے بہتر راستہ نہیں بتا رہا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیا ججز کے خط کے معاملے پر ایگزیکٹو نامزد ہیں، کیا خط کی انکوائری بھی ایگزیکٹو کریں گے ؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے دوران سماعت کہا کہ چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس آیا تھا سابق وزیراعظم نے کہا غلطی ہوئی تھی، کیا یہ بھی عدالتی کام میں مداخلت نہیں تھی؟ اس پر حکومت نے کیا کیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے آیا تھا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ہم نے اپنا احتساب کیا حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورے کرے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے  شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کرنہیں بیٹھ سکتے، سول جج سے سپریم کورٹ تک اس معاملے پر پورا نظام بنایا ہوگا، عدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کےلئے بند کرنا ہوگا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور ریمارکس دیے سپریم کورٹ نے ضمانت دی اوراس فیصلے کو ہوا میں اڑے دیا گیا، چھہتر سال سے یہی ہورہا ہے، چھ ججوں کے خطوط بھی اسی طرز کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ، جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیے حکومت ایم پی اوکا سہارا لے کر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کررہی ہے

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالت میں نہیں بلاسکتے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا آج آئین کی کتاب کھول کر لوگوں کو بتائیں، حکومت کو نوٹس دینگے تو اٹارنی جنرل یا سیکرٹری قانون آ جائیں گے، جب سے عہدے پر آیا ہوں کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا نہ کروں گا، کسی کو بے عزت کرنا ہمارا کام نہیں، پارلیمان، صدر اور حکومت سب کی عزت کرتے ہیں بدلے میں احترام چاہتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا  عدالتی فیصلوں پرعملدرآمد میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہیں ہوئی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روک دیا اور کہا یہ بات نہ کریں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا موجودہ حکومت کی بات کر رہا ہوں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے لوگ شرط لگا رہے تھے کہ الیکشن نہیں ہونگے، الیکشن کا کیس سنا اور بارہ دن میں تاریخ کا اعلان ہوگیا، سب سے ان کا کام کرائیں گے، کسی کا کام خود نہیں کرینگے۔

    چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا تصدق جیلانی پر ذاتی حملے کیے گئے، ایسا ماحول بنایا گیا کہ کون شریف آدمی خدمت کرے گا، ان کا نام تجویز کرکے افسوس اور شرمندگی ہوئی، اگر کسی وکیل کو اعتراض تھا تو متعلقہ فورم کو لکھتا، سرکار یا چیف جسٹس کو وجوہات لکھتا، شریف آدمی پر حملے ہوں تووہ تو چلا جائے گا، وہ کہے گا آپ سنبھالیں۔

    سٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل سےمکالمے میں سخت ریمارکس دیے اور  کہا باتیں سب کرتے ہیں کام کوئی کرنا نہیں چاہتا ، آپ کی حکومت کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی توآپ بات کرتے ، سب جانتے ہیں کیا ہورہا ہے لیکن تاثر دے رہے ہیں جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا، یہاں کھڑے ہو کر کیسے بیان دے سکتے ہیں؟ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  یہ بات میرے متعلق ہے، نہیں چاہتا تاثر جائے کہ دباؤڈال رہا ہوں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا مجھے بات پوری کرنےدیں ، اٹارنی جنرل آپ نے درست کہا سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے، ججوں کا خط بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا سپریم کورٹ خودکسی مسڑ ایکس کو مداخلت کاذمہ دار قرار دے سکتی ہے؟ ہم کیسے تفتیش کریں گے کسی نہ کسی سے انکوائری کرانا ہوگی، تو صدر سپریم کورٹ بار  نے بتایا اسی لئے سپریم کورٹ بار انکوائری کمیشن کی حامی تھی،کسی اور نے کوئی متبادل راستہ بھی نہیں بتایا۔

    چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ اسلام آباد میں دستیاب  7ججز کو بینچ میں شامل کیا، کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں موجود ہیں ، عید کے بعد تمام ججز دستیاب ہوسکتے ہیں، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ بنا دیں، فل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججز کی عدم دستیابی تھی، ججز کی دستیابی دیکھ کر  29یا 30 اپریل سےروزانہ سماعت کر سکتے ہیں۔

    سپریم کورٹ نے معاونت کے لئے تحریری معروضات مانگ لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ  روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے اس کو نمٹائیں گے، بعد ازاں کیس کی سماعت ملتوی دی گئی۔

  • ججز خط کیس پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس، لارجر بینچ تشکیل

    ججز خط کیس پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس، لارجر بینچ تشکیل

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر ازخود نوٹس لیتے  ہوئے سماعت کے لیے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔

    لارجر بینچ کی سربراہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود کریں گے جب کہ اس م یں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

    یہ لارجر بینچ بدھ 3 اپریل کو صبح ساڑھے گیارہ بجے ازخود نوٹس کی سماعت کرے گا۔

    واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے گزشتہ ماہ 26 مارچ کو عدالتی کیسز میں انٹیلیجنس ایجنسیز کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل میں خط بھیج دیا۔

    ججز کے جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثر انداز ہونے پر جوڈیشنل کنونشن بلایا جائے جبکہ خط جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا تھا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے اس خط پر جوڈیشل کمیشن کے لیے سپریم کورٹ میں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے درخواست بھی دائر کی جا چکی تھی جب کہ سپریم کورٹ کے 300 وکلا نے بھی عدالت عظمیٰ کو خط لکھ کر اس حوالے سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا

    وفاقی کابینہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی تشکیل دینے کی دوسری منظوری دے چکی ہے جس کا سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کو مقرر کیا گیا ہے۔

  • ’عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو بطور ادارہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے‘

    ’عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو بطور ادارہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے‘

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو بطور ادارہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کو 26 مارچ کو ہائیکورٹ کے 6 ججز کا خط ملا جس میں الزامات کی سنگین کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس نے ججز سے ملاقات کی۔

    اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر ججز سے ملاقات کی، چیف جسٹس نے اڑھائی گھنٹے کی ملاقات میں ججز کو انفرادی طور پر سنا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی، عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت کو بطور ادارہ بالکل برداشت نہیں کیا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فل کورٹ اجلاس کے نتیجے میں چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی جس میں وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی موجود تھے، ملاقات میں سینئر ترین جج نے بھی شرکت کی۔

    ’چیف جسٹس نے عدلیہ کے امور میں مداخلت برداشت نہ کرنے کا مؤقف اپنایا، چیف جسٹس اور سینئر جج کا موقف تھا عدلیہ کی آزادی مضبوط جمہوریت کی بنیاد پر ہے، قانونی کی حکمرانی آزاد عدلیہ کی ضامن ہے۔‘

    اعلامیے کے مطابق وزیراعظم سے ملاقات میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کروائی گئی، شہباز شریف  سے ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق ہوا، فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

  • سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی اور کہا صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کی رہائی کےلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایاجانادوسرا اس کی توثیق ہوگی اور تیسرامرحلہ کم سزاوالوں کوآرمی چیف کی جانب سےرعایت دینا ہوگا۔

    اٹارنی جنرل نےفوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی ، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اجازت دی بھی تواپیلوں کے حتمی فیصلے سےمشروط ہوگی۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب تک فوجی عدالتوں سےفیصلے نہیں آتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہےانہیں رعایت دےدی جائے گی۔

    وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے،جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگریہ ملزمان عام عدالتوں میں ہوتےتواب تک باہر آچکے ہوتے توجسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلوانا چاہتے ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت میں تو14سال سے کم سزا ہے ہی نہیں۔

    وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ اے ٹی اےعدالت ہوتی تو اب تک ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہوتیں، ان مقدمات میں تو کوئی شواہد ہیں ہی نہیں، جسٹس شاہدوحید نے استفسار کیا ایف آئی آر میں کیادفعات لگائی گئیں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں ہیں۔

    جس پرجسٹس شاہدوحید کا کہنا تھا کہ پھر ہم ان ملزمان کوضمانتیں کیوں نہ دےدیں، ہم ان ملزمان کی سزائیں کیوں نہ معطل کردیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی سزا معطل کرنے کیلئے پہلے سزا سنانی ہوگی، ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب عدالت کہے قانون لاگونہیں ہو سکتا۔

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانےکی مشروط اجازت دے دی اور کہا کہ صرف ان کیسزکےفیصلےسنائےجائیں جن میں نامزدافرادعید سے پہلے رہاہوسکتے ہیں، اٹارنی جنرل نےیقین دہانی کرائی کہ کم سزا والوں کوقانونی رعایتیں دی جائیں گی تاہم فیصلےسنانےکی اجازت اپیلوں پرحتمی فیصلےسےمشروط ہوگی۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل کو عمل درآمد رپورٹ رجسٹرارکوجمع کرانےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مزید سماعت اپریل کے آخری ہفتے میں ہوگی، جس پر ،فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ایسا نہ ہو رہائی کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتاری ہوجائے۔

    سپریم کورٹ نے خیبرپختونخواحکومت کی اپیلیں واپس لینےکی استدعا منظور کر لی ، کےپی حکومت نےسویلنز کاٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلیں واپس لینےکی استدعا کی تھی۔

  • فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

    فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں چھ رکنی لاجر بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ملزمان کی رہائی کےلئے تین مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایاجانادوسرا اس کی توثیق ہوگی اور تیسرامرحلہ کم سزاوالوں کوآرمی چیف کی جانب سےرعایت دینا ہوگا۔

    اٹارنی جنرل نےفوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلے سنانے کی اجازت کی استدعا کر دی ، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اجازت دی بھی تواپیلوں کے حتمی فیصلے سےمشروط ہوگی۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب تک فوجی عدالتوں سےفیصلے نہیں آتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہےانہیں رعایت دےدی جائے گی۔

    وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے،جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگریہ ملزمان عام عدالتوں میں ہوتےتواب تک باہر آچکے ہوتے توجسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ آپ مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلوانا چاہتے ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت میں تو14سال سے کم سزا ہے ہی نہیں۔

    وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ اے ٹی اےعدالت ہوتی تو اب تک ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہوتیں، ان مقدمات میں تو کوئی شواہد ہیں ہی نہیں، جسٹس شاہدوحید نے استفسار کیا ایف آئی آر میں کیادفعات لگائی گئیں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں ہیں۔

    جس پرجسٹس شاہدوحید کا کہنا تھا کہ پھر ہم ان ملزمان کوضمانتیں کیوں نہ دےدیں، ہم ان ملزمان کی سزائیں کیوں نہ معطل کردیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی سزا معطل کرنے کیلئے پہلے سزا سنانی ہوگی، ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب عدالت کہے قانون لاگونہیں ہو سکتا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر جوڈیشل کمیشن بنانے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط پر جوڈیشل کمیشن کےلیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی، درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی۔

    درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط میں عمومی نوعیت کے الزام لگائے گئے ہیں، تاثر دیا گیا کہ خفیہ ایجنسی اورایگزیکٹو تحریک انصاف کے مقدموں پر اثرانداز ہورہی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہےکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کئی مرتبہ پی ٹی آئی کو ریلیف دیا، عدالتی روایت ہے جب کسی جج کو اپروچ کیا جائے تو وہ کیس سننے سے معذرت کرلیتا ہے، کئی مرتبہ پی ٹی آئی چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامرفاروق اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پرعدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے۔

    درخواست گزار میں کہنا تھا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کاخط ’’ڈیزائن اقدام‘‘لگتا ہے، جیسے ہی خط منظرعام پر آیا سوشل میڈیا پرچیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف مہم شروع ہوگئی۔

    درخواست میں ججوں کے پچیس مارچ کےخط میں لگائے گئے الزامات پر اعلیٰ سطح جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن انکوائری میں جو بھی مس کنڈیکٹ کا مرتکب پایا جائے اس کےخلاف سخت ایکشن لیا جائے۔

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے عدالتی کیسز میں انٹیلیجنس ایجنسیز کی مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل میں خط بھیج دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ججز کے جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثر انداز ہونے پر جوڈیشنل کنونشن بلایا جائے جبکہ خط جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس ثمن رفعت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا ہے۔

    خط لکھنے والے ججز نے دباؤ کی کوششوں پر 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں۔

    ججز نے خط میں کہا ہے کہ خط لکھنےکا مقصد سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی لینا ہے، یہ معاملہ جج شوکت عزیز صدیقی برطرفی  کیس کے بعد اٹھا ہے، شوکت صدیقی کیس میں ثابت ہوا فیض حمیدعدالتی امورمیں مداخلت کررہے تھے جبکہ خط میں 2023 میں جج کے کمرے سے کیمرہ نکلنے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

    خط کے متن کے مطابق اس وقت کے آرمی چیف اور وفاقی حکومت نے جسٹس شوکت صدیقی کیخلاف کیس کیا تھا، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کےعدالتی امور میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائیں، انہوں نے خود بھی اپنے اوپر عائد لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کی درخواست کی۔

    ’عدالتی امور اور عدلیہ کی کارروائی میں مداخلت کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے، عدالتی امور میں اس طرح کی مداخلت کو دھمکی کے طور پرلیتے ہیں، ایس جے سی کی گائیڈ لائنز میں اس طرح کی مداخلت کےخلاف کوئی رہنمائی نہیں ملتی، کیا ججز کو دھمکیاں، دباؤ میں لانا یا بلیک میل کرنا حکومتی پالیسی ہے۔‘

    ججز نے خط میں لکھا ہے کہ کیا سیاسی معاملات میں عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونا حکومتی پالیسی ہے، ججزپر دباؤ، سیاسی معاملات میں فیصلوں پر اثراندازی کی تحقیقات ہونی چاہیے، بانی پی ٹی آئی کیخلاف کیس کو ناقابل سماعت قرار دینے والے 2 ججوں پر دباؤ ڈالا گیا۔

    خط میں کہا گیا ہے کہ ایجنسیوں کی مداخلت، ججز پراثر اندازی سراسر توہین عدالت کے زمرےمیں آتی ہے، آرٹیکل 204، توہین عدالت آرڈیننس کے تحت فوری کارروائی شروع کی جائے۔

  • 9 مئی کے کتنے لوگ فوجی عدالتوں  میں بے قصور نکلے؟ تفصیلات طلب

    9 مئی کے کتنے لوگ فوجی عدالتوں میں بے قصور نکلے؟ تفصیلات طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نو مئی مقدمات میں بے قصور افراد کی تفصیلات طلب کرلیں، عدالت نے قرار دیا جو ملزمان بری ہوسکتے ہیں ان کی بریت کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نےسماعت کی۔

    درخواست گزاروں کے وکیل فیصل صدیقی نےعدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی استدعا کی، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا لائیونشریات کی درخواست پر فیصلہ جاری کریں گے۔

    جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا ملزمان میں کسی کی رہائی ہوئی یا ہوسکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا ٹرائل مکمل ہوچکا لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائےگئے تو جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے آپ نے کہا تھا کچھ کیسز بریت کے ہیں اور کچھ کی سزائیں مکمل ہوچکیں۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا حکم امتناع کےباعث بریت کے فیصلے نہیں ہوسکے، درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا بریت پرکوئی حکم امتناع نہیں تھا۔

    جسٹس امین الدین نے قرار دیا جن ملزمان کی بریت ہوسکتی ہے انھیں توبری کریں، جس کو چھ ماہ کی سزا ہے وہ ایک سال گرفتار نہیں رہنا چاہیے، جس پر اٹارنی جنرل نے وضاحت پیش کی کہ کچھ ملزمان ایسےہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصورہوگا۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے فوجی عدالتوں کادائرہ اختیارہی تسلیم نہ کریں توبات ختم ہوگی۔

    دوران سماعت درخواست گزاروں نے بینچ اور نجی وکلا پر اعتراض کیا، جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل نے نورکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے پہلے نو رکنی بینچ بن جاتا توآج اپیلوں پرسماعت ممکن نہ ہوتی۔

    سماعت کے دوران کےپی حکومت نےسویلنزٹرائل کالعدم قراردینے کیلئے اپیلیں واپس لینے کا کہا تو عدالت نے قرار دیا کے پی حکومت اپیلیں واپس لینےکیلئے باضابطہ درخواست دے۔

    جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے یہ وفاق کا کیس ہے،صوبائی حکومتیں کیسےاپیل دائرکرسکتی ہیں، جس پر بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا صوبائی حکومتیں ضرورت سے زیادہ تیزی دکھارہی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے کہا بتایا جائے نو مئی کےکتنےلوگ ملٹری کورٹس میں بے قصور نکلے؟ کتنے ملزمان بری ہوسکتے ہیں کتنے نہیں اور کتنے ملزمان ہیں جنھیں کم سزائیں ہونی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے اٹھائیس مارچ تک تفصیلات طلب کرلیں اور فوجی عدالتوں میں محفوظ شدہ فیصلوں کی سمری بھی پیش کرنے کی ہدایت کردی ساتھ ہی عدالت نے قرار دیا حکم امتناع میں سمری کے مطابق ترمیم ہوگی۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت آج ہوگی

    فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت آج ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلین کےٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت آج ہوگی ، سپریم کورٹ میں آج دن 11بجے سماعت شروع ہوگی۔

    جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا ، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہدوحید بینچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ میں کا حصہ ہیں۔

    سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ،اعتزازاحسن سمیت دیگر نے سپریم کورٹ سےرجوع کیا تھا۔

    جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے اپیلوں کی جلد سماعت اور 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کر رکھی ہے، ان کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ 6 رکنی بینچ نے فریقین کو نوٹس دیئے بغیر ملزموں کا ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ میڈیا رپورٹس سے معلوم ہوا کہ 6 رکنی بینچ ٹوٹ چکا، فوجی عدالتوں میں ٹرائل مکمل ہو چکا، بری ہونے والے کسی ملزم کو رہا نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے ملزموں کی رہائی سے نہیں روکا تھا لہٰذا فوجی عدالتوں سے متعلق اپیلوں کو آئندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔

    یاد رہے اکتوبر 2023میں 5رکنی بینچ نے 9 مئی واقعات کے 103 ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل خلاف آئین قرار دیا جبکہ وفاقی حکومت سمیت دیگر کی اپیلوں پر 6 رکنی بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو فیصلہ پانچ ایک سے معطل کیا تھا۔

  • پی سی بی نے موجودہ سلیکشن کمیٹی کو تحلیل کر دیا

    پی سی بی نے موجودہ سلیکشن کمیٹی کو تحلیل کر دیا

    لاہور: پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے موجودہ سلیکشن کمیٹی کو تحلیل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان پی سی بی کا بتانا ہے کہ موجودہ سلیکشن کمیٹی کو تحلیل کر دیا گیا ہے اور نئی سلیکشن کمیٹی کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔

    ترجمان پی سی بی کے مطابق نئی سلیکشن کمیٹی ٹیم کے انتخاب کیلئے میرٹ پر آزادانہ فیصلے کریگی، اور وہ فیصلے سب کے سامنے ہوں گے۔

    خیال رہے کہ موجودہ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ سابق ٹیسٹ کرکٹر وہاب ریاض تھے جبکہ کمیٹی ممبرز میں سابق ٹیسٹ کرکٹر وجاہت اللہ واسطی، توصیف احمد، وسیم حیدر، کامران اکمل شامل تھے۔