Author: راجہ محسن اعجاز

  • ملزم کا میڈیا کو دیا گیا اعترافی بیان ناقابل قبول قرار، سزائے موت پانے والا بری

    ملزم کا میڈیا کو دیا گیا اعترافی بیان ناقابل قبول قرار، سزائے موت پانے والا بری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کراچی میں بچے کے قتل کیس میں گرفتار ملزم کو بری کردیا، ٹرائل کورٹ نے ملزم کو موت کی سزاسنائی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پولیس تحویل میں ملزم کے میڈیا کو دئیے گئے اعترافی بیان کو ناقابل قبول قراردے دیا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے 25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ، جس میں عدالت نے کراچی میں بچے کے قتل کیس میں گرفتار ملزم کو بری کردیا۔

    ٹرائل کورٹ نے بچے کے قتل کےالزام میں ملزم کو موت کی سزا سنائی تھی اور سندھ ہائیکورٹ نے واقعاتی شواہد، ٹی وی انٹرویومیں اعتراف جرم کی بنیاد پر سزا کی توثیق کی تھی۔

    عدالت نے کہا پولیس تحویل میں دیاگیا بیان بطورثبوت استعمال نہیں ہوسکتا،مجسٹریٹ موجودگی لازم ہے، رپورٹر کو ملزم تک رسائی دینا اور بیان ریکارڈ کر کے پھیلانا کوئی معمولی بات نہیں۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ تھانہ انچارج ، آئی اونےجسمانی ریمانڈ کے دوران ملزم کےانٹرویو کی اجازت دی، افسوس سےکہنا پڑتا ہےملزم کے بیان کا ترمیم شدہ حصہ بعد میں ٹی وی چینل پر نشرکیاگیا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ یہ پہلا کیس نہیں کہ جس میں زیر حراست ملزم سےایسا رویہ اپنایاگیاہو، ایسا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے اور بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے، ایسا رویہ روارکھنا نہ صرف ملزم بلکہ متاثرین کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔

    جرم کی خبریں لوگوں کیلئے دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں خاص طورپرہائی پروفائل کیس، ایسے کیسز میں عوام کی غیر معمولی دلچسپی میڈیا ٹرائل کا باعث بن سکتی ہے، میڈیا ٹرائل نتائج نہ صرف ملزمان بلکہ دیگر متاثرین کیلئے بھی ناقابل تلافی ہو سکتےہیں۔

    فوجداری نظام انصاف ہر معاملے میں منصفانہ ٹرائل کے حق کو یقینی بنانا ہے، میڈیا پر نشر کیا گیا ملزم کا بیان قابل قبول نہ تھا ، بیان نہ کسی مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا اور نہ قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے، ایسا اقدام شاید اپنی کارکردگی دکھانے یا عوامی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہو ، ایسا اقدام کسی طور پر عوامی مفاد میں نہیں تھا۔

    فیصلے کی کاپی سیکریٹری وزارت داخلہ،سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات کو بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے کہا فیصلےکی کاپی چیئرمین پیمرا، صوبائی چیف سیکرٹریز کوبھی بجھوائی جائے، ہر ملزم کو اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک منصفانہ ٹرائل سے مجرم ثابت نہ کر دیا جائے۔

  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا نیا پروسیجر 2025 جاری

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا نیا پروسیجر 2025 جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا نیا پروسیجر 2025 جاری کر دیا گیا جس کی منظوری چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں کمیٹی نے دی، ایکٹ 2023 کے تحت نئے ضوابط اب نافذ العمل ہوں گے۔

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی سربراہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کر رہے ہیں جبکہ کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین شامل بھی ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: سروسز چیفس کی مدت ملازمت اور پریکٹس اینڈ پروسیجر سمیت بلز کا نوٹیفکیشن

    جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق چیف جسٹس پاکستان فزیکل یا ورچوئل کسی بھی طریقے سے کمیٹی کا اجلاس بلا سکتے ہیں، کمیٹی کے اجلاس کیلیے کم از کم دو ارکان کا موجود ہونا لازمی ہے، کمیٹی بینچوں کی تشکیل ماہانہ یا ہر 15 روز میں کرے گی۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق ایک بار تشکیل بینچ میں ترمیم ممکن نہیں جب تک یہ طریقہ کار اجازت نہ دے، کمیٹی میں چیئرمین یا رکن کی تبدیلی بینچ کی تشکیل کو غیر قانونی نہیں بنائے گی، جب چیف جسٹس پاکستان ملک سے باہر یا دستیاب نہ ہوں تو خصوصی کمیٹی تشکیل دے سکتے ہیں، خصوصی کمیٹی جج کی بیماری، وفات، غیر موجودگی یا علیحدگی پر بینچ میں تبدیلی کر سکتی ہے۔

    مزید یہ کہ ہنگامی فیصلوں کو تحریری طور پر ریکارڈ کرنا اور وجوہات درج کرنا لازمی ہوگا، ایسی تبدیلیاں کمیٹی کے اگلے اجلاس میں پیش کی جائیں گی، رجسٹرار ہر اجلاس، فیصلے اور تبدیلی کا مکمل ریکارڈ محفوظ رکھے گا۔

    اس میں کہا گیا کہ کمیٹی کو اختیار ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً ان ضابطوں میں ترمیم کر سکتی ہے، یہ ضابطے دیگر قواعد پر بالادست ہوں گے جب تک یہ مؤثر ہیں۔

  • صدر نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا سینئر ترین جج قرار دے دیا

    صدر نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا سینئر ترین جج قرار دے دیا

    اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی کا تعین کر دیا جس میں جسٹس سرفراز ڈوگر سینئر ترین جج قرار دیے گئے۔

    صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سینیارٹی فہرست جاری کی گئی جس میں جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا مستقل تبادلہ کیا گیا۔

    آصف علی زرداری نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی کا جائزہ لیا اور جسٹس سرفراز ڈوگر کو سنیارٹی میں اول قرار دیا۔

    یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے ججز کو بیرون ملک جانے کیلئے چیف جسٹس سے این او سی لینا ہوگا

    انہوں نے تینوں ججز کو مستقل طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ منتقل کر دیا۔ ہائیکورٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر پہلے اور جسٹس محسن اختر کیانی کا دوسرا نمبر ہے جبکہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر آگئے۔

    اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔

    ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ

    19 جون 2025 کو سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں۔ کیس کا فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے پڑھ کر سنایا جو 2-3 کے تناسب سے تھا۔

    جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور نے اکثریتی فیصلہ سنایا جبکہ جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

    فیصلے میں ججز سینیارٹی کا معاملہ صدر پاکستان کو واپس ریمانڈ کیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ججز تبادلے کیلیے صدر پاکستان کا اختیار باقاعدہ طریقہ کار کے تحت استعمال ہوتا ہے، وہ ججز کا تبادلہ متعلقہ جج، چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سے کرتے ہیں۔

    آئین کے آرٹیکل 200 اور 175 دونوں علیحدہ ہیں، آرٹیکل 200 صدر مملکت کو ٹرانسفر کا اختیار دیتا ہے، سنیارٹی کے فیصلے تک جسٹس سرفراز ڈوگر بطورقائمقام چیف جسٹس فرائض جاری رکھیں گے، آئین کے آرٹیکل 175 ججز کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تقرری سے متعلق ہے۔

  • تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

    تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا

    سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی ۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے اور سپریم کورٹ کا گزشتہ سال 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل (پاکستان تحریک انصاف) کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔ اس کے کوٹہ کی نشستیں ن لیگ، پیپلز پارٹی سمیت قومی اسمبلی میں موجود دیگر جماعتوں کو ملیں گی۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےپی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 17 سماعتوں کے بعد اس کا فیصلہ سنایا۔ اپنے مختصر فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کرنے کے ساتھ الیکشن کمیشن کو 80 ارکان کی درخواستیں دوبارہ سننے کی ہدایت بھی کی۔

    سپریم کورٹ کے 3 کے مقابلے میں 7 کی اکثریت سے نظر ثانی درخواستیں منظور کیں۔ جسٹس امین الدین، جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامر فاروق، جسٹس علی باقر نجفی آئینی بینچ کے اکثریتی ججز میں شامل تھے۔ فیصلہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے پڑھ کر سنایا۔

    اختلاف کرنے والوں میں جسٹس جمال مندوخیل نے 39 نشستوں کی حد تک اپنی رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جب کہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظر ثانی درخواستیں منظور کیں۔

    اقلیتی ججز نے فیصلہ دیا کہ 80 نشستوں تک کا معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہیں۔ الیکشن کمیشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کہ کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔

    مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس کے لیے ابتدا میں 13 رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم جسٹس صلاح الدین پنہور نے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جب کہ جسٹس عائشہ ملک، جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں درخواستیں خارج کر دی تھیں۔

    مخصوص نشستوں کا کیس کیا ہے اور اس میں اب تک کیا کیا ہوا؟

    گزشتہ برس 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے عائد پابندی کے باعث آزاد امیدواروں کو میدان میں اتارا اور کامیابی حاصل کی۔

    قانون کے مطابق آزاد ارکان مخصوص نشستوں کے اہل نہیں ہوتے، اس لیے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی اور مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے 21 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔

    الیکشن کمیشن نے 28 فروری کو سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا اور 4 مارچ کو مخصوص نشستوں کی درخواست پر چار ایک کے تناسب سے فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلیے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا، لیکن پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواستوں کو

    14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کیا۔

    سنی اتحاد کونسل نے اس کے بعد 2 اپریل 2024 کو مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

    جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 6 مئی کو اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا۔ تاہم آئینی معاملہ ہونے کے باعث لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھیج دیا۔

    فل کورٹ نے 3 جون کو مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی پہلی سماعت کی اور 9 سماعتوں کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا، جو 12 جولائی کو سنایا گیا۔

    سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ 8 ججز کی اکثریت نے دیا جب کہ پانچ نے اس سے اختلاف کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلہ تحریر کیا۔

    اکثریتی فیصلہ کے ساتھ اختلاف کرنے والے ججز میں سے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندوخیل نے ایک نوٹ تحریر کیا جب کہ جسٹس امین الدین خان، جسٹس نعیم اختر اعوان اور موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ الگ نوٹ تحریر کیے۔

    سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کے خلاف ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے نظر ثانی درخواستیں دائر کیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13رکنی بینچ نے نظر ثانی درخواستوں پر 17 سماعتیں کیں۔

    بعد ازاں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اگلی سماعت پر نظر ثانی درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد دیگر 11 ججز نے سماعت جاری رکھی۔

    آج جسٹس صلاح الدین پنہور کی بینچ سے علیحدگی کے بعد سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے سماعت کو جاری رکھتے ہوئے کچھ دیر پہلے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس میں 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا

    مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس میں 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس میں 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا، جسٹس صلاح الدین پنہور نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا۔

    جسٹس صلاح الدین پنہور نے اپنے بیان میں کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس کی کئی سماعتوں میں بیٹھا ہوں، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے بینچ پر اعتماد کا اظہار کیا، گزشتہ سماعت پر وکیل حامد خان کے ریمارکس پر دکھ ہوا، ان سے 2010 میں مل کر کام بھی کر چکا ہوں۔

    مئی میں مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کا نیا 11 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا جس میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی کو بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، دونوں ججز نے نظر ثانی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔

    جسٹس امین الدین کو 11 رکنی بینچ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد بلال پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نظر ثانی پر فیصلہ جاری کیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں: مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس سے پہلے جسٹس منصور علی شاہ کا اہم فیصلہ جاری

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نظر ثانی آرٹیکل 188 اور رولز کے تحت ہی ہو سکتی ہے، اس کیلیے فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی لازم ہے۔

    اس میں کہا گیا تھا کہ محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظر ثانی کی بنیاد نہیں ہو سکتا، نظر ثانی کیس میں فریق پہلے سے مسترد ہو چکا نکتہ دوبارہ نہیں اٹھا سکتا، نظر ثانی کی بنیاد یہ بھی نہیں بن سکتی کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظر بھی شامل ہو سکتا تھا۔

    عدالت نے کہا تھا کہ پاکستان میں اس وقت 22 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں، ان زیر التوا کیسز میں بڑا حصہ نظر ثانی درخواستوں کا بھی ہے۔

    عدالتی فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ من گھڑت قسم کی نظر ثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

  • جسٹس منصور علی شاہ کی آئینی بینچ کی مدت میں توسیع کی مخالفت، خط سامنے آگیا

    جسٹس منصور علی شاہ کی آئینی بینچ کی مدت میں توسیع کی مخالفت، خط سامنے آگیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے آئینی بینچ کی مدت میں توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے 26ویں ترمیم کے فیصلے تک تمام ججز کو آئینی بینچ ڈکلیئر کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا 19 جون 2025 کے اجلاس سے پہلے کا لکھا گیا خط منظر عام پر آگیا جو جوڈیشل کمیشن ممبران کو پہنچایا گیا۔

    خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ 26ویں ترمیم کیس کے فیصلے تک توسیع نہ کی جائے، پیشگی بتا دیا تھا 19 جون کے اجلاس کیلیے پاکستان میں دستیاب نہیں ہوں، توقع تھی عدم دستیابی پر اجلاس مؤخر کیا جائے گا کیونکہ ماضی میں ایگزیکٹو ممبران کی عدم موجودگی پر اجلاس مؤخر ہو چکا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل کمیشن نے آئینی بینچ کے ممبران میں توسیع کر دی

    انہوں نے لکھا کہ عدلیہ ممبران اقلیت میں ہیں اس لیے شاید مؤخر نہیں کر پائے، 26ویں ترمیم فیصلے سے پہلے توسیع بحران کو مزید گہرا کرے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ تنازع ادارے کی ساکھ اور اس پر عوامی اعتبار کو تباہ کر رہا ہے لہٰذا 26ویں ترمیم کے فیصلے تک تمام ججز کو آئینی بینچ ڈکلیئر کیا جائے اور آئینی بینچ میں شمولیت کا معیار اور پیمانہ بھی طے کیا جائے۔

    واضح رہے کہ فروری میں ججز کی تقرری کیلیے قائم سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا تھا جس نے آئینی بینچ کے ممبران میں توسیع کی تھی۔

    جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس عامر فاروق، جسٹس اشتیاق ابراہیم آئینی بینچ میں شامل ہیں جبکہ جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس شکیل احمد بھی آئینی بینچ کے رکن نامزد کیے گئے۔

    ذرائع نے بتایا تھا کہ آئینی بینچ میں مزید 5 ججز کو شامل کرنے کی منظوری اکثریت سے دی گئی جبکہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس منصور علی شاہ نے مخالفت کی۔

    پی ٹی آئی کے دو ممبران علی ظفر اور بیرسٹر گوہر نے بھی مخالفت کی اور رائے دی کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئینی بینچ میں شامل کیا جائے۔

    راجہ غضنفر علی، طارق باجوہ کو لاہور ہائیکورٹ کا ایڈیشنل جج بنانے، عبہر گل اور تنویر احمد شیخ کو بھی لاہور ہائیکورٹ کا ایڈیشنل جج بنانے کی منظوری دی گئی۔

    راجہ غضنفر علی خان کو 14، عبہر گل کو 11، تنویر احمد شیخ کو 10 اور طارق محمود باجوہ کو 12 ووٹ ملے۔ عبہر گل، تنویر احمد شیخ کو بھی لاہو رہائیکورٹ کا ایڈیشنل جج بنانے کی منظوری دی گئی۔

    سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ کیلیے 3 مزید ججز نامزد کر دیے گئے، جسٹس ریاضت سحر، جسٹس نثار بھمبھرو اور جسٹس عبدالحامد سندھ ہائیکورٹ آئینی بینچ کا حصہ ہوں گے۔

  • ’جنگ بندی کی درخواست بھارت نے کی تھی‘، پاکستان کی بھارتی میڈیا کے دعوؤں کی سختی سے تردید

    ’جنگ بندی کی درخواست بھارت نے کی تھی‘، پاکستان کی بھارتی میڈیا کے دعوؤں کی سختی سے تردید

    اسلام آباد: پاکستان نے بھارتی میڈیا کے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کر دی جس میں کہا گیا کشیدگی کے دوران اسلام آباد کی جانب سے جنگ بندی کی درخواست کی گئی تھی۔

    ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کے بعد جنگ بندی کی کوئی درخواست نہیں کی، اس متعلق بھارتی میڈیا کا دعویٰ بے بنیاد اور گمراہ کن ہے۔

    پاکستان نے واضح کیا کہ نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ہمیشہ پاکستان کے حق دفاع کا مؤقف پیش کیا، اسلام آباد نے بھارتی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا۔

    یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی کی خواہش بھارت کی تھی، ڈی جی آئی ایس پی آر

    بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب سمیت دوست ممالک نے جنگ بندی کیلیے کردار ادا کیا جبکہ اس کیلیے پیشکش بھارت کی طرف سے ہوئی تھی۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ 10 مئی 2025 کو صبح 8:15 بجے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جنگ بندی کی پیشکش کی تو اسحاق ڈار نے پاکستان کی جانب سے قبول کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ صبح 9 بجے سعودی وزیر خارجہ نے بھی بھارتی جنگ بندی مؤقف کی تصدیق کی، اسلام آباد نے سیز فائر پر آمادگی امریکی و سعودی رابطے کے بعد ظاہر کی۔

  • سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ سنا دیا

    سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ سنا دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نےججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ سنا دیا ،جسٹس محمد علی مظہر نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں، فیصلہ 2-3 کے تناسب سے سنایا گیا۔

    جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس شاہد بلال ،جسٹس صلاح الدین پنہورنےاکثریتی فیصلہ سنایا جبکہ جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شکیل احمد نےاکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

    سپریم کورٹ نے ججز کی سنیارٹی کا معاملہ صدر پاکستان کو واپس ریمانڈ کردیا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ججز تبادلے کیلئےصدر پاکستان کا اختیارباقاعدہ طریقہ کار کےتحت استعمال ہوتاہے، صدر ججزکا تبادلہ متعلقہ جج، چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سےکرتے ہیں۔

    سپریم کورٹ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 200 اور 175 دونوں علیحدہ ہیں، آرٹیکل 200 صدر مملکت کو ٹرانسفر کا اختیار دیتا ہے، سنیارٹی کے فیصلے تک جسٹس سرفراز ڈوگر بطورقائمقام چیف جسٹس فرائض جاری رکھیں گے، آئین کے آرٹیکل 175 ججز کی جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تقرری سے متعلق ہے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر کیس میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    دوران سماعت پیٹرن انچیف تحریک انصاف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ آرٹیکل دوسو اور آرٹیکل ایک سو پچھہتر میں ٹکراؤ ہے۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیے تھے جوڈیشل کمیشن کے پاس تبادلہ کا کوئی اختیارنہیں، جج کی سیٹ پر مستقل تبادلہ نہیں ہوسکتا، ججز ٹرانسفر کا پورا طریقہ آرٹیکل دوسو میں دیا گیا ہے۔

    جسٹس محمد علی نے سوال کیا درخواست میں ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ لکھا گیا ہے، ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کیسے کہاں جاسکتا ہے؟

    جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا تھا کہ کبھی نہیں کہا تبادلہ پر آئے ججز ڈیپوٹیشنسٹ ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ماضی میں ججز ٹرانسفر کی کوئی مثال نہیں۔ججز ٹرانسفر میں صدر اور وزیراعظم کا کردار محدود ہے، ججز ٹرانسفر کے عمل میں چیف جسٹس صاحبان بھی شامل ہیں، وزیر اعظم کی ایڈوائس اور بزنس رولز کیخلاف کوئی استدعا نہیں کی گئی۔

  • جسٹس منصور علی شاہ  کا سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ جاری

    جسٹس منصور علی شاہ کا سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ جاری

    اسلام آباد : جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلے میں کہا کہ تاریخ ان ججوں کو بری نہیں کرے گی جواپنی آئینی ذمہ داری ترک کر دیتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے سروس کیس میں عدلیہ سے متعلق اہم فیصلہ جاری کردیا۔

    جس میں کہا ہے کہ ججز کا فرض ہے اپنی صفوں میں طاقت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والوں کی نشاندہی کریں، ججز اخلاقی وضاحت اور ادارہ جاتی جرأت کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں۔

    فیصلے میں کہنا تھا کہ اندر سے تنقید آئین کی وفاداری کی جڑ ہے،بے وفائی نہیں، ایسے لوگوں کو للکارنا عدالتی ادارے کی خدمت کی اعلیٰ ترین شکل ہے، ججز کو دیانتداری اور جرأت کے ساتھ کام کرنا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ججز کو اندرونی اور بیرونی تمام تجاوزات کا مقابلہ کرنا ہے، ججز کو عدلیہ اورقانون کی حکمرانی پامال کرنے کے خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، ججز کو چھوٹے، قلیل مدتی فوائد کے لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

    جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ایسے فوائد محض وہم اور عارضی ہوتے ہیں، جج کا اصل اجر ادارے کے وقار اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے میں ہے، تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اصول کے دفاع میں ثابت قدم رہے۔

    فیصلے کے مطابق عدالتوں کو آئینی اخلاقیات کا مینارہ اور جمہوری سالمیت کا محافظ ہونا چاہیے، تاریخ ان ججوں کو بری نہیں کرے گی جواپنی آئینی ذمہ داری ترک کر دیتے ہیں۔

    سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ تاریخ ایسے ججز کو ناانصافی کے ساتھی کے طور پر یاد رکھے گی، سپریم کورٹ تنازعات کے حل کا فورم نہیں، قوم کا آئینی ضمیر بھی ہے۔

  • ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں،  تحریری فیصلہ جاری

    ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں، تحریری فیصلہ جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے  تحریری فیصلے میں کہا کہ ملزم ظاہر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

    سپریم کورٹ کا تفصیلی تحریری فیصلہ 13 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری مطابق بغیرعینی گواہ کےویڈیوثبوت قابل قبول ہیں، مستند فوٹیج خود اپنے حق میں ثبوت بن سکتی ہے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ریکارڈ شدہ ویڈیو یا تصاویر بطورشہادت پیش کی جا سکتی ہیں اور قابل اعتماد نظام سے لی گئی فوٹیج خود بخود شہادت بن سکتی ہے، بینک ڈکیتی کیس میں ویڈیو فوٹیج بغیرگواہ قبول کی گئی، امریکی عدالتوں میں سائلنٹ وِٹنس اصول کووسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ملزم ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں، دونوں لوئر کورٹس کا فیصلہ متفقہ طور پر درست قرار دیا جاتا ہے۔

    تحریری فیصلے میں کہا کہ ملزم کی جانب سے نور مقدم پر جسمانی تشدد کی ویڈیو ثبوت کے طور پر پیش کی گئی، سی سی ٹی وی فوٹیج ڈی وی آر اور ہارڈ ڈسک قابل قبول شہادت ہیں، ویڈیو ریکارڈنگ میں کوئی ترمیم ثابت نہیں ہوئی،ملزم کی شناخت صحیح نکلی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ڈی این اے رپورٹ سے زیادتی کی تصدیق ہوئی، آلہ قتل پرمقتولہ کا خون ہے، ملزم نور مقدم کی موجودگی کی کوئی وضاحت نہ دے سکا، ڈیجیٹل شواہد اب بنیادی شہادت تصور کئے جاتے ہیں۔

    فیصلے کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج مقررہ معیار پر پوری اترے توتصدیق کی ضرورت نہیں، ظاہر جعفر کی قتل میں سزائے موت برقرار رکھی اور زیادتی کی سزاعمرقید میں تبدیل کی۔

    عدالت کا مزید کہنا تھا کہ ظاہر جعفر کی نورمقدم کواغوا کرنے کے الزام کی سزا ختم کرکے بری کیاجاتا ہے تاہم غیر قانونی طور پراپنے پاس رکھنے پر ظاہر جعفر کی سزا برقرار رکھی گئی ہے جبکہ شریک ملزمان محمد افتخار اور محمد جان کی سزا برقرار ہیں۔

    عدالت نے شریک ملزمان کی سزا کم کرکے جتنی قید کاٹ لی اس کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس علی باقر نجفی فیصلے کے حوالے اپنا اضافی نوٹ دیں گے۔