Author: راجہ محسن اعجاز

  • کوئی ٹائم لائن نہیں دیں گے، چیف جسٹس پاکستان

    کوئی ٹائم لائن نہیں دیں گے، چیف جسٹس پاکستان

    ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے سے متعلق درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی چیف جسٹس نے رولنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی ٹائم لائن نہیں دیں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت عیدالفطر کی تعطیلات کے بعد آج دوبارہ شروع ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت عظمیٰ میں پیش ہوکر حکومتی موقف پیش کیا جب کہ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور، پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے وکلا کے دلائل اور فریقین کے موقف سننے کے بعد رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت مذاکرات کے لیے مزید کوئی ٹائم لائن نہیں دے گی۔ آج کی سماعت کا مناسب حکم جاری کریں گے جس کے بعد سماعت کو ملتوی کر دیا گیا۔

    اس سے قبل سماعت شروع  ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ 19 اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا اور 26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا۔  اس سلسلے میں 25 اپریل کو وفاقی وزرا ایاز صادق اور سعد رفیق کی پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر سے ملاقات ہوئی تاہم انہوں نے کہا کہ وہ مذاکرات کے لیے با اختیار نہیں ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ روز حکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں۔ دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا لیکن راستہ نکالا گیا۔ چیئرمین سینیٹ نے ایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں اور دونوں سے مذاکرات کے لیے چار چار نام مانگے گئے ہیں۔

    اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اسد قیصر کے بعد کیا کوشش کی گئی کہ کون مذاکرات کے لیے با اختیار ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ منگل کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کے لیے با اختیار ہیں۔

    چیف جسٹس نے یہ بھی استفسار کیا کہ چیئرمین سینیٹ نہ حکومت کے نمائندے ہیں اور نہ اپوزیشن کے ان سے کس حیثیت میں رابطہ کیا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ وفاق کی علامت ہیں اس لیے ان سے کہا گیا۔

    اس موقع پر پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ سہولت کاری کریں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگے گا۔ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی۔ مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی۔ عدالت تو صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تا کہ تنازع کا حل نکلے۔ عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے صرف حل بتائیں۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سےمذاکرات پر آمادہ ہیں اور سینیٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔ چیئرمین سینیٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا کرنا ہے، مذاکرات سیاسی جماعتوں کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ سیاسی ایشو ہے اس لیے سیاسی قائدین کو ہی مسئلہ حل کرنے دیا جائے اور سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے۔

    اس موقع پر پی ٹی آئی کے مرکزی سینیئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اصرار پر عدالت نے سیاسی اتفاق رائے کیلیے موقع دیا تھا اور تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت عدالت میں پیش ہوئی تھی۔

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عدالتی حکم کو پی ٹی آئی نے سنجیدگی سے لیا لیکن پی ڈی ایم میں آج بھی مذاکرات پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ عدالت نے قومی مفاد میں سیاسی جماعتوں کو موقع فراہم کیا لیکن تحریک انصاف کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے لیے مجھے، فواد چوہدری اور علی ظفر کو نامزد کیا تھا۔ اسد قیصر نے حکومت کو مجھ سے رابطہ کرنے کا کہا تھا لیکن آج تک مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔

    پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ روز فون پر کہا کہ وزیراعظم کے اصرار پر رابطہ کر رہا ہوں جس پر میں نے ان سے کہا کہ سپریم کورٹ میں جوتجاویز دی تھیں وہ کہاں ہیں۔

    انہوں نے عدالت سے کہا کہ سینیٹ کی کمیٹی صرف تاخیری حربہ ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کررولز کی خلاف ورزی کی گئی۔ زیر سماعت معاملے کو پارلیمان میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ پارلیمان میں دھمکی آمیز لہجے اور زبان سن کرشرمندگی ہوئی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سیاسی باتیں ہیں، ہم کیس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے شاہ محمود قریشی سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ سنجیدگی سے رابطہ نہیں کیا گیا؟ جس پر پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں حکومت سنجیدہ ہے تو ابھی مذاکرات پر بیٹھنے کو تیار ہیں۔

    پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا کہ آئین اور پارلیمنٹ کو کون نیچا دکھا رہا ہے، اس پر نہیں جانا چاہتا تاہم شاہ محمود قریشی نے جو تقریر کی ایسے اتفاق رائے نہیں ہو سکتا۔ مولانا فضل الرحمان کو سینیٹ نے مذاکرات پر آمادہ کیا۔ چیئرمین سینیٹ کو نام دیں کل ہی بیٹھنے کو تیار ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا کوئی حکم نہیں صرف تجویز ہے۔ نام دینے میں کیا سائنس ہے، کیا حکومت نے اپنے 5 نام دیے ہیں؟ مذاکرات کے معاملے میں صبر اور تحمل سے کام لینا ہوگا۔ قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کیلئے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسے ہی چلے گا۔

    فاروق نائیک نے کہا کہ حکومت کے نام تین سے چار گھنٹے میں فائنل ہو جائیں گے پی ٹی آئی چاہے تو 3 نام دے دے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے تجویز دی کہ فاروق نائیک کو بھی مذاکرات میں رکھا جائے تاکہ معاملہ ٹھنڈا رکھا جائے۔

    شاہ محمود قریشی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ چیئرمین سینیٹ نے صرف سینیٹرز کے نام مانگے ہیں۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکومت نے نیک نیتی دکھانے کیلیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے۔ آج توقع تھی کہ دونوں فریقین کی ملاقات ہوگی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوشش ہوگی کہ دونوں کمیٹیوں کی آج پہلی ملاقات ہوجائے۔

    درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ دونوں فریقین متفق ہوں تو حل نکل آئے گا۔

    پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ پارلیمان اور عدالت نہیں سپریم صرف آئین ہے۔ آئین نہ تو سپریم کورٹ تبدیل کرسکتی ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے اسے تبدیل کر سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ملنا چاہیے۔ ایسا ہوا تو کوئی بھی حکومت الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کرے گی۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مذاکرات تو پہلے ہی ہو جانے چاہیے تھے۔ اس حوالے سے عدالتی فیصلے، آئین اور قانون موجود ہے۔ ہم نہ کوئی ہدایت کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن جاری کر رہے ہیں۔ اس کیس کا تحریری فیصلہ جاری کریں گے اور عدالت مناسب حکم نامہ جاری کرے گی۔

     

    اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ماحول سازگار ہو گا تو مذاکرات ممکن ہوں گے۔ مذاکرات کے لیے وقت مقرر کرنا لازمی ہے، تاخیر سے مقصد سے فوت ہو جائے گا۔

    پی پی کے وکیل نے کہا کہ بیٹھیں گے تو بات ہوگی، گلےشکوے ہوں گے تو حل بھی نکلے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1977 میں سیاسی حالات اتنےکشیدہ نہیں تھے جتنے آج ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سیاستدانوں کو خود سے مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ سازگار مذکرات کے ذریعے حل نہ نکلا تو آئین بھی موجود ہے اور ہمارا فیصلہ بھی جس کے بعد انہوں نے سماعت ملتوی کردی۔

    واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سماعت میں حکومت کو پنجاب اور کے پی میں انتخابات کیلیے27 اپریل تک 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیا تھا اور سپریم کورٹ نے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم تاحال واپس نہیں لیا ہے۔

  • کیوی کپتان نے پاکستان ٹیم سے متعلق کیا کہا؟

    کیوی کپتان نے پاکستان ٹیم سے متعلق کیا کہا؟

    نیوزی لینڈ کے کپتان ٹام لیتھم نے پاکستان ٹیم کو متوازن اور بہترین قرار دیا ہے۔

    ون ڈے سیریز سے قبل راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ٹام لیتھم نے کہا کہ پوری توجہ پاکستان سے ون ڈے سیریز پر ہے پاکستان ایک کوالٹی ٹیم ہے۔

    کیوی کپتان کا کہنا تھا کہ مارک چیپمین بہترین فارم میں ہیں وکٹ کو دیکھ کر بہترین ٹیم میدان میں اتاریں گے، ون ڈے سیریز میں اچھا کھیل پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

    ٹام لیتھم نے کہا کہ پاکستان کی بہترین ٹیم ہے پاکستان کو بہترین کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل ہے ون ڈے سیریز کے حوالے سے پرجوش ہیں۔

    قبل ازیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امام الحق نے کہا کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئینٹی کرکٹ میں بہت فرق ہے پچھلے ڈیڑھ سال میں ہمارا ون ڈے ریکارڈ بہت زبردست ہے ہم نے 12 میں سے 9 ون ڈے میچز جیتے ہیں۔

    نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے امام الحق نے کہا کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئینٹی کرکٹ میں بہت فرق ہے پچھلے ڈیڑھ سال میں ہمارا ون ڈے ریکارڈ بہت زبردست ہے ہم نے 12 میں سے 9 ون ڈے میچز جیتے ہیں۔

  • ’رینکنگ میں نمبر 3 ہوں، بابر نمبر ون لیکن ٹیم نمبر ون نہیں‘

    ’رینکنگ میں نمبر 3 ہوں، بابر نمبر ون لیکن ٹیم نمبر ون نہیں‘

    قومی ٹیم کے اوپنر امام الحق نے کہا ہے کہ رینکنگ میں نمبر 3 ہوں، بابر اعظم نمبر ون ہے لیکن ٹیم نمبر ون نہیں یہ اچھی چیز نہیں اگر ہم نیوزی لینڈ کو کلین سویپ کریں گے تو ہم رینکنگ میں پہلے نمبر پر آجائیں گے۔

    نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے امام الحق نے کہا کہ ون ڈے اور ٹی ٹوئینٹی کرکٹ میں بہت فرق ہے پچھلے ڈیڑھ سال میں ہمارا ون ڈے ریکارڈ بہت زبردست ہے ہم نے 12 میں سے 9 ون ڈے میچز جیتے ہیں۔

    امام الحق نے کہا کہ کوئی بھی انٹرنیشنل شرٹ پہنتا ہے تو وہ جیتنے آتا ہے بی ٹی بھی اتنی ہی تگڑی ہوتی ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ میں بھرپور مقابلہ ہوتا ہے ٹی ٹوئینٹی سیریز میں ہم سے غلطیاں ہوئیں، ون ڈے سیریز میں غلطیاں دور کرنے کی کوشش کریں گے اگر ہم نیوزی لینڈ کو کلین سویپ کریں گے تو ہم رینکنگ میں پہلے نمبر پر آجائیں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ورلڈکپ سے پہلے یہ ون ڈے سیریز انتہائی اہم ہے پانچ میچز کی سیریز میں اچھا پرفارم کر کے اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے انٹرنیشنل کرکٹ کا پریشر تو ہوتا ہے پانچ چھ سال سے ون ڈے میں اوپننگ کر رہا ہوں، ورلڈکپ کی تیاری کے لیے ہمارے پاس 8 ون ڈے میچز ہیں ایشیاء کپ اور ورلڈکپ میں زیادہ ٹائم نہیں ہے یہ پانچ میچز اہم ہیں، انفرادی کارکردگی سے ٹیم کی جیت اہم ہے۔

    بائیں ہاتھ کے بلے باز کا کہنا تھا کہ فخر زمان کے ساتھ اوپننگ کرتے ہویے آرام دہ اور پر اعتماد ہوتا ہوں اس وقت ہمارا کپتان بابر اعظم ہے تو مکمل اسپورٹ اس کے ساتھ ہے پچھلے چار سال میں ون ڈے کرکٹ کم کھیلی ہے۔

  • ایک ساتھ انتخابات کی درخواستوں پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی

    ایک ساتھ انتخابات کی درخواستوں پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کی درخواستوں پر مزید سماعت 27 اپریل تک ملتوی کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق ایک ساتھ انتخابات کی درخواستوں پر سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت 27 اپریل تک ملتوی ہو گئی، اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک نے چیف جسٹس سے ان کے چیمبر میں ملاقات کر کے مزید وقت طلب کیا تھا۔

    ملاقات میں جسٹس اعجازالاحسن بھی موجود تھے، اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو مذاکرات سے متعلق اب تک کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔

    سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت سہ پہر چار بجے شروع ہونا تھی، تاہم چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی مزید وقت کی استدعا منظور کر لی، اور سماعت ایک ہفتے تک متلوی کر دی۔

    ایک ہی دن الیکشن سے متعلق درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 14 مئی کو انتخابات کا فیصلہ واپس نہیں ہوگا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔

    عمران خان سے بات کر نے کے عدالتی فیصلے کو نہیں مانتے: فضل الرحمان

    چیف جسٹس نے کہا گزارش ہے کہ سیاسی قائدین عید کے بعد نہیں آج ہی بیٹھیں، پنجاب میں فصلوں کی کٹائی اور حج کے بعد کی تاریخ رکھ لیں، مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی، دوطرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔

    سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی، توقع ہے کہ مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے۔

  • ملک میں بیک وقت انتخابات کیس، سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں کیا موقف پیش کیا؟

    ملک میں بیک وقت انتخابات کیس، سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ میں کیا موقف پیش کیا؟

    سپریم کورٹ میں ملک بھر میں بیک وقت عام انتخابات سے متعلق درخواست کی سماعت پر سیاسی جماعتوں کے نمائندے پیش ہوئے اور اپنا اپنا موقف پیش کیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ملک بھر میں بیک وقت عام انتخابات سے متعلق درخواست کی سماعت دوسرے روز بھی جاری ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ اب تک کی سماعت میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، مسلم لیگ عوامی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندے پیش ہوئے اور عدالت کے سامنے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی کے سینیئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے استفسار کیا کہ جو ہماری تجویز ہے کیا آپ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری جماعت نے ہمیشہ آئین کی بات کی ہے اور ہمیں آپ کے ہر لفظ پر اعتماد ہے۔ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا، اس کا ایک سیاسی پہلو ہے اور دوسرا قانونی۔ آئین 90 روز کے اندرا نتخابات کرانے کے حوالے سے واضح ہے اور ہم کسی کی خواہش نہیں بلکہ آئین کے تابع ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دیا۔ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین کا تحفظ کیا۔ آج ہم تلخی کے بجائے آگے بڑھنے کیلئے آئے ہیں۔ سیاسی قوتوں نے ہی مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ آئینی اور جمہوری راستہ انتخابات ہی ہیں جب طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو پھر انتخابات ہونے چاہیئں۔ ن لیگی قیادت نے کہا الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں، قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔ لیکن ن لیگ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد اپنے ہی فیصلے سے مُکر گئی۔

    شاہ محمود نے کہا کہ اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا اور حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ عدالت نے زمینی حقائق کے مطابق 14 مئی کی تاریخ دی۔ عدالت نے 27 اپریل تک فنڈز فراہمی کا حکم دیا ہے۔ عدالتی حکم پر پہلے بھی فنڈز ریلیز نہیں کیے گئے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتی۔

    ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے لیکن مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہوسکتے۔ مذاکرات تو کئی ماہ اور سال چل سکتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل نسلوں سے زیر بحث ہیں۔ اعتماد کا فقدان ہے کہ کہیں مذاکرات حکومت کا تاخیری حربہ تو نہیں ہے۔ انتشار چاہتے ہیں اور نہ ہی آئین کا انکار۔ حکومت اپنی تجاویز دے جائزہ لیں گے۔ مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے۔ عمران خان کی طرف سے یہاں کہتے ہیں کہ راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی قیادت سے مشورے کے بعد وہ عدالت حاضر ہوئے ہیں۔
    ماحول مشکل ہے لیکن 22 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ الیکشن پورے ملک میں ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔ انتخابات پر مذاکرات کیلئے پوری طرح تیار ہیں۔ پارٹی سربراہان کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا ہے۔ ریاستی اداروں کا وقت ضائع کرنے کے بجائے سیاستدانوں کو خود بات کرنی چاہیے۔ عدالت میں بھی اپوزیشن کے ساتھ بغل گیر ہوئے ہیں۔ میڈیا پر جھگڑے اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے لگتے ہیں۔

    سعد رفیق کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے، مل بیٹھیں گے تو سوال جواب کرینگے، عدلیہ اور ملک کے لیے جیلیں کاٹی اور ماریں بھی کھائی ہیں۔ آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں۔

    پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر قمر الزماں کائرہ نے کہا کہ سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں کرنا چاہتے۔ آئین بنانے والے اسکے محافظ ہیں اور آئین سے باہر جانے والوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ ماضی میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے اور مقررہ تاریخ سے بھی آگے گئے۔ یقین دہانی کراتے ہیں طول دینے کی کوشش نہیں کرینگے۔

    امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ آج بھی آئین ہی ملک کو بچا سکتا ہے۔ آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے۔ دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کیے گئے اور احتجاج شروع ہو گیا۔ اس وقت سعودی اور امریکی سفیروں نے مذاکرات کی کوشش کی تھی لیکن ناکام ہوئے اور مارشل لا لگ گیا۔ 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی لڑائی سے مارشل لا لگا۔

    امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آج بھی ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے۔ امریکا، ایران اور سعودی عرب اب پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اپنا گھر سیاستدانوں نے خود ٹھیک کرنا ہے۔ پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں بنا کسی جنرل نے نہیں بنایا۔ آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ پی ٹی آئی کیساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کیساتھ ہیں۔ ہمارا مؤقف کبھی ایک کو اچھا لگتا ہے کبھی دوسری جماعت کو لیکن سیاسی لڑائی کانقصان عوام کو ہے جو ایک کلو آٹے کے لیے محتاج ہیں اور ٹرکوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ان کے چہرے سے مسکراہٹ ختم ہوچکی ہے۔

    اس موقع پر سراج الحق نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں جس پر چیف جسٹس نے پشتو میں جواب دیا کہ میں پشتو سمجھتا ہوں لیکن ہم پر کوئی لیبل نہ لگائیں، ہم پاکستانی ہیں۔

    سراج الحق نے کہا کہ گندم کی کٹائی اور حج کا سیزن گزرنے دیا جائے۔ بڑی عید کے بعد مناسب تاریخ پر الیکشن ہونا مناسب ہوگا۔ عدالت یہ معاملہ سیاستدانوں پر چھوڑے اور خود کو سرخرو کرے۔ عدالت پنجاب میں الیکشن کا شیڈول دے چکی ہے۔

    امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ میں نے وزیراعظم شہباز شریف اور عمران خان سے ملاقات کی۔ عمران خان کو کہا کہ نہیں چاہتا کہ ملک میں دس سال مارشل لا لگے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ بھی ایسا نہیں چاہتے۔ مسائل کا حل صرف الیکشن ہیں اور کوئی راستہ نہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں لیکن کسی کی ذاتی خواہش پر الیکشن نہیں ہوسکتے۔ 90 دن سے الیکشن 105 دن پر آگئے ہیں تو 205 دن پر بھی ہوسکتے یہں۔ ہر کسی کو اپنے موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔ میرا مؤقف ہے عدلیہ، افواج اور الیکشن کمیشن کو سیاست سے دور ہونا چاہیے۔ مسائل کی وجہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے غیر سیاسی نہیں ہوئے۔

    پاکستان مسلم لیگ عوامی کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے عدالت میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیاستدان مذاکرات سےکبھی نہیں بھاگتا مگر یہ بامعنی ہوں۔ دیکھیے گا کہ مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عید اکٹھی نہ ہوجائیں۔ قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے اور عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہوگا۔ ایک قابل احترام شخصیت نے آج بائیکاٹ کیا ہے۔

    مسلم لیگ ق کی جانب سے طارق بشیر چیمہ عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ پہلے دن سے چاہتے تھے کہ مذاکرت کا عمل شروع ہو۔ ملک میں ایک ہی دن الیکشن ہونا چاہئیں، یہ بہت سے اختلافات کو ختم کر دیگا۔ یقین دلاتا ہوں کہ ایک دن الیکشن کرانے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ آپ فیصلہ کرینگے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اگر ہم کرینگے تو پھر سب کیلئے بہتر ہوگا۔

    وفاقی وزیر اور ن لیگی رہنما ایاز صادق میں عدالت میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی والے چاغی میں تھے اس لیے مجھے پیش ہونے کا کہا گیا۔ پی ٹی آئی سے ذاتی حیثیت میں رابطہ رہتا ہے اور آئندہ بھی رہے گا
    عدالت میں ایم کیو ایم کے صابر قائمخانی، اسرار ترین اور دیگر نے بھی اپنی اپنی جماعتوں کا موقف پیش کیا۔

  • جولائی میں ملک بھر میں انتخابات ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس

    جولائی میں ملک بھر میں انتخابات ہو سکتے ہیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ جولائی میں ملک بھر میں انتخابات ہو سکتے ہیں پنجاب میں فصلوں کی کٹائی اور حج کے بعد انتخابات کی تاریخ رکھ لیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ملک بھر میں بیک وقت عام انتخابات سے متعلق درخواست کی سماعت دوسرے روز بھی جاری ہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے اور عدالت نے سماعت میں آج شام چار بجے تک وقفہ کیا ہے۔ اب تک کی سماعت میں ملک کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے عدالت میں پیش ہوکر اپنا موقف پیش کیا۔ اس کے علاوہ اٹارنی جنرل عثمان انور، درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور اور سیاسی جماعتوں کے وکلا بھی پیش ہوئے۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 14 مئی ہے۔ عدالتی فیصلے کو اگنور نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے۔ عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی۔ عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے وہ 30 دن بھی گزر گئے۔ کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔ آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا اور اور یقین ہے کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلےکے خلاف نہیں جانا چاہتا ۔

    چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کو آج شام 4 بجے تک سیاسی جماعتوں کو انتخابات سے متعلق مشاورت کر کے عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ 4 بجے دوبارہ کیس کی سماعت کریں گے۔ مشاورت کرکے چار بجے تک عدالت کو آگاہ کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایک تجویز ہے کہ عدالت کارروائی آج ختم کر دے۔ تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ہے۔ آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی۔ آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اسکی تشریح نہیں کی گئی۔ 1970 اور 1971 کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے۔ سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے۔ اسمبلی میں ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی۔ حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی لیکن یاد رکھنا چاہیےکہ عدالتی فیصلہ موجود ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی۔ دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے لیکن گزارش ہو گی پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں۔ جولائی میں بڑی عید ہوگی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں اور عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔

    جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عید کے دوران بھی مولانا فضل الرحمان سے بات کریں گے۔

    اس سے قبل آج صبح جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قرآن پاک کی تلاوت سے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا اور کہا کہ مولا کریم ہمیں نیک لوگوں میں شامل کردیں اور پچھلے ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں انہوں نے اچھا اور نیک  کام شروع کیا۔ ہم اس کام میں آپ کے لیے دعاگو ہیں کہ کامیاب ہوں اور توقع ہے مولانا فضل الرحمان بھی لچک دکھائیں گے۔

    وزارت داخلہ کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی مضبوطی کیلیے ضروری ہے الیکشن ایک ہی دن ہوں۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے۔ مناسب ہو گا عدالت تمام قائدین کو سن لے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ صف اول کی سیاسی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے جس پر میں ان کا مشکور ہوں۔ قوم میں اس وقت اضطراب ہے، قیادت یہ مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔ کیونکہ عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں سیاسی قائدین افہام وتفہیم سے مسئلہ حل کرے تو برکت ہوگی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع کی بھی یہی استدعا ہے کہ الیکشن ایک دن میں ہوں۔ درخواست گزار بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ایک ساتھ الیکشن ہوں، اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ اٹھایا لیکن سیاست کی نذرہوگیا۔ فاروق ایچ نائیک بھی چاہتے تھے لیکن بائیکاٹ ہوگیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے قائد بھی مذاکرات کو سراہتے ہیں۔ ن لیگ نے بھی مذاکرات کی تجویز کو سراہا ہے۔

    اس موقع پر پیپلز پارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی سیاسی اتحاد کا مشترکہ مؤقف ہے کہ 90 دن میں انتخابات کا وقت گزر چکا ہے۔ عدالت دو مرتبہ 90 دن سے تاریخ آگے بڑھا چکی ہے۔ سیاسی جماعتیں پہلے ہی ایک ساتھ انتخابات پر کام شروع کرچکی ہیں۔ بلاول بھٹو نے اسی سلسلے میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ہے اور عید کے فوری بعد سیاسی ڈائیلاگ حکومتی اتحاد کے اندر مکمل کرینگے۔

    پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی سے پھر مذاکرات کرینگے تاکہ ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔ کوشش ہوگی کہ ان ڈائیلاگ سے سیاسی اتفاق رائے پیدا ہو۔ الیکشن ایک ہی دن اور جتنی جلدی ممکن ہو ہونے چاہئیں۔ ملک بھر میں نگراں حکومتوں کے ذریعے انتخابات ہونے چاہئیں جب کہ سیاسی معاملات پارٹیوں کے درمیان طے ہونے چاہئیں۔ سیاسی معاملے میں کسی ادارے کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

    فاروق نائیک ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کروانے کا آخری دن ہے۔ عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن تاریخ نہیں بڑھا سکتا۔ پارٹی ٹکٹ کے لیے وقت میں اضافہ کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ 13 دن کی تاخیر ہوئی تب عدالت نے حکم دیا۔ الیکشن کمیشن شیڈول میں تبدیلی کیلیے با اختیار ہے۔ پولنگ کا دن تبدیل کیے بغیر وہ شیڈول تبدیل کرسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن رجوع کرے تو عدالت اس موقف سن لے گی۔

  • مذاکرات کا موقع دینے کا مطلب یہ نہیں کہ 14 مئی کو انتخابات  کرانے کا حکم ختم ہوگیا، تحریری حکم نامہ

    مذاکرات کا موقع دینے کا مطلب یہ نہیں کہ 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم ختم ہوگیا، تحریری حکم نامہ

    اسلام آباد: پنجاب انتخابات کیس میں‌ آج کی سماعت سے متعلق تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے.

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست کے کیس سے متعلق سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کا عبوری تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔

    سپریم کورٹ کا حکم نامے میں کہنا ہے کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست پر مزید سماعت کل ہوگی ، مذاکرات کا موقع دینے کا ہر گز مطلب نہیں کہ 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم ختم ہوگیا ہے۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اعلیٰ عہدیداران کے ذریعے کل پیش ہوں، سپریم کورٹ کی جانب سے وفاق، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس بھیجا گیا ہے۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بادی النظر میں انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کا موقع دینے کی رائے درست ہے۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس میں الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کے تحفظات معقول نہیں الیکشن اسی صورت بہتر ہوں گے جب سیاسی جماعتوں کی مشاورت شامل ہو۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے نمائندے نامزد کریں۔

  • سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، چیف جسٹس

    سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آ جائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے، چیف جسٹس

    سپریم کورٹ نے ملک میں بیک وقت الیکشن کرانے کے کیس میں تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیے اور کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے درخواست پر سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کی جانب سے ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کرانے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی اور اٹارنی جنرل سمیت وکلا کے دلائل سننے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردی ہے۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو زیادہ طول نہیں دیا جا سکتا۔ سیاسی جماعتیں ایک موقف پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔ 5 دن عید کی چھٹیاں آگئی ہیں۔ میرے ساتھی ججز کہتے ہیں کہ پانچ دن کا وقت بہت ہے۔

    اس موقع پر سرکاری شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کبھی ایک وجہ سے نافذ نہیں ہوسکا تو کبھی دوسری وجہ سے۔ لوگ کنفیوژ اور ٹینشن میں ہیں، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ضروری ہے۔ عوام کو ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے درخواست دائر کی ہے، انتخابات الگ الگ ہوئے تو کئی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ صوبوں میں منتخب حکومتیں الیکشن پر اثر انداز ہوں گی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جب بحث ہو رہی تھی تو اٹارنی جنرل نے یہ نکتہ کیوں نہیں اٹھایا؟ اٹارنی جنرل کو نہ جانے کس نے تین چار پر زور دینے کا کہا۔ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے ان کو یہ موقف اپنانے سے روکا؟

    شاہ خاور ایڈووکیٹ نے کہا کہ سیاسی جماعتیں ابھی بھی متفق ہو جائیں تو آئیڈیل حالات ہوں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مذاکرات کی بات ہے تو 8 اکتوبر پر ضد نہیں کی جا سکتی۔ یکطرفہ کچھ نہیں ہوسکتا، سیاسی جماعتوں کو دل بڑا کرنا ہوگا۔ آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات کرانا لازم ہیں اور 14 اپریل کو یہ مدت گزر چکی ہے۔ نگران حکومت 90 دن سے زیادہ برقرار رہنے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق یہ سیاسی انصاف کا معاملہ ہے۔ جس میں فیصلے عوام کرے گی۔ آپ کی تجویز ہے کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں۔ اس سے قبل عدالت نے یقین دہانی کرانے کا کہا تو حکومت نے جواب نہیں دیا آج پہلی بار حکومت نے مثبت بات کی ہے۔ عدالت ایک دن انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کر دیتی ہے۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو کل کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ تاریخ پر جماعتیں مطمئن ہوئیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گا۔ قوم کی تکلیف اور اضطراب کاعالم دیکھیں۔

    اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے استدعا کی کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو مہلت دے جب کہ عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کو روسٹرم پر بلالیا اور چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی مذاکرات پر آمادہ ہے جس پر فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق زمان پارک آئے اگلے دن ہی ہمارا سندھ کا صدر گرفتار ہوگیا۔ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے آپ سے بہت امید ہے۔

    اس سے قبل سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو وزارت خزانہ کی رپورٹ پڑنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا  کہ معاملہ بہت لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت نے اپنا ایگزیکٹیو کام پارلیمان کو دیا ہے یا نہیں۔ عدالت کو کہا گیا تھا سپلیمنٹری گرانٹ کے بعد منظوری لی جائے گی۔ اس کے برعکس معاملہ ہی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا گیا۔ کیا الیکشن کیلیے ہی ایسا ہوتا ہے یا عام حالات میں بھی ایسا ہوتا ہے؟

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کو ہدایت جاری کی تھیں۔ جس پر تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قائمہ کمیٹی میں حکومت کی اکثریت ہے۔ کومت کو گرانٹ جاری کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ وزیراعظم کے پاس اسمبلی میں اکثریت ہونی چاہیے۔ مالی معاملات میں تو حکومت کی اکثریت لازمی ہے۔ کیا آپ کو سپلیمنٹری بجٹ مسترد ہونے کے نتائج کا علم ہے؟

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارا نقطہ نظر سمجھ چکے ہیں۔ انتظامی امور قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں غیر اہم نہیں۔ حکومت کا گرانٹ مسترد ہونے کا خدشہ اسمبلی کے وجود کے خلاف ہے۔ توقع ہے کہ آپ ہمارا نقطہ نظر سمجھ چکے ہیں اور حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔ حکومت فیصلہ کرے یا اسمبلی کو واپس بھجوائے۔ اس معاملے کے نتائج غیر معمولی ہوسکتے ہیں فی الحال غیر معمولی نتائج پر نہیں جانا چاہتے۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو عدالتی احکامات پہنچا دیں۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہوسکتے۔ اس نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی اس بات سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ اس کی آبزرویشن کی بنیاد سیکیورٹی کی عدم فراہمی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی 1992 سے جاری ہے۔ ملک میں 1988، 1990، 1993، 1996، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے، سیکیورٹی مسائل ان انتخابات میں بھی تھے۔ سیکیورٹی مسائل تو ان انتخابات میں بھی تھے۔ 2007 میں بینظیر بھٹو کی شہادت ہوچکی تھی جس کی وجہ سے 2008 میں تو حالات بہت کشیدہ تھے، 2013 میں بھی دہشتگردی تھی۔ اس بار ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جو الیکشن نہیں ہوسکتے؟

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے ایک ساتھ تمام سکیورٹی فورسز نے فرائض سر انجام دیے تھے، اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا گارنٹی ہے 8 اکتوبر کو حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے۔ حکومت اندازوں پر نہیں چل سکتی۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کا کام بیرونی خطرات سےنمٹنا ہے۔ وہ 2001 سے سرحدوں پر مصروف ہیں۔میری درخواست پر ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بریفنگ دی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکرٹری دفاع بھی موجود تھے۔ ملاقات میں افسران کو بتایا تھا دوران سماعت یہ معاملہ نہیں اٹھایا گیا۔ سب کو بتایا کہ فیصلہ ہو چکا ہے اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ الیکشن کمیشن اور وزارت دفاع کی درخواستیں فیصلے واپس لینے کی بنیاد نہیں۔ الیکشن کمیشن نے پہلے کہا وسائل دیں الیکشن کروالیں گے اور اب کہتے ہیں ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ الیکشن کمیشن پورا مقدمہ دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ وزارت دفاع کی رپورٹ میں عجیب استدعا ہے۔ کیا وزارت دفاع ایک ساتھ الیکشن کروانے کی استدعا کرسکتی ہے؟ وزارت دفاع کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔ ٹی وی پر سنا ہے وزرا کہتے ہیں اکتوبر میں بھی الیکشن مشکل ہے۔

    اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو وزیراعظم سے ملے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی بھی شہباز شریف اور عمران خان سے ملے ہیں، کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی ڈائیلاگ شروع ہو۔ ایک کے علاوہ تمام حکومتی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ بلاول آج مولانا فضل الرحمان سے مل کر مذاکرات پر قائل کریں گے۔ معاملات سلجھ گئے تو شاید اتنی سیکیورٹی کی ضرورت نہ پڑے۔ دونوں فریقین نے مذاکرات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ عدالت کچھ مہلت دے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات میں وزن ہے۔ منجمد سیاسی نظام چلنا شروع ہو رہا ہے۔ 14 مئی بھی قریب آچکا ہے۔

  • وزارت دفاع نے ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی استدعا کردی

    وزارت دفاع نے ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کی استدعا کردی

    اسلام آباد: وزارت دفاع نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست دائر کردی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزارت دفاع کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی ہے جس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرائے جائیں۔

    رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع نے سپریم کورٹ سے چار اپریل کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کا حکم دے۔

    واضح رہے کہ آج انٹیلی جنس ایجنسیز کے اعلیٰ حکام نے سپریم کورٹ میں الیکشن کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کو سیکیورٹی پر چیف جسٹس کے چیمبر میں بریفنگ دی تھی۔

    بریفنگ میں چیف جسٹس عمرعطابندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر موجود تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے پی انتخابات کیس، انٹیلیجنس ایجنسیز کے اعلیٰ حکام کی سپریم کورٹ آمد

    ذرائع کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے چیمبر میں انٹیلیجنس حکام اور ججز کے درمیان ملاقات ڈھائی گھنٹے سے زائد جاری رہی اور اس ملاقات میں سیکریٹری دفاع بھی موجود تھے۔

    یاد رہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے چار اپریل کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے کو "غیر آئینی” قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہوں گے۔

  • پاک برطانیہ تجارت، وزیر اعظم کے معاون خصوصی کی برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات

    پاک برطانیہ تجارت، وزیر اعظم کے معاون خصوصی کی برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات

    اسلام آباد: پاک برطانیہ تجارت کے سلسلے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی جواد ملک نے برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی جواد ملک نے آج منگل کو اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشنر اینڈریو ڈیلگلیش سے ملاقات کی، جس میں باہمی دل چسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    معاون خصوصی جواد ملک نے بتایا کہ ملاقات میں پاکستان اور برطانیہ کے مابین تجارت سے متعلق تفصیلی بات چیت ہوئی، غیر ملکی سرمایہ کاروں کے جائز تحفظات دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

    معاون خصوصی نے کہا کہ ملاقات میں پاکستان کو تجارت دوست ملک بنانے کے لیے ممکنہ اقدامات بھی زیر غور آئے، انھوں نے کہا برطانیہ میں 16 لاکھ سے زائد پاکستانی نژاد شہری مقیم ہیں، ان شہریوں کے مسائل اور ان کے حل پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔