Author: راجہ محسن اعجاز

  • توہین عدالت کیس  : حکومت کا  جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ

    توہین عدالت کیس : حکومت کا جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومت نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کے خلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کے فل کورٹ تشکیل سے متعلق آرڈر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی مین سات رکنی آئینی بنچ نے کسٹم ریگولیٹرڈیوٹی کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل نے آئینی بینچ کو جسٹس منصورعلی شاہ توہین عدالت کیس کا فیصلہ چیلنج کرنےکے فیصلہ سے اگاہ کیا اور بتایا جسٹس منصورعلی شاہ کا 13اور16جنوری کے آرڈرزپرنظرثانی دائرکرنے کا فیصلہ ہوا ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ جسٹس منصورعلی شاہ نے کسٹم ڈیوٹی کا کیس اپنےبینچ میں لگانےکاحکم دیا ہے،کیا اس آرڈرکی موجودگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کی فکرصرف چندکونہیں سب کوہے، جوکام کریں وہ تو ڈھنگ سے کریں، کونسی قیامت آگٸی تھی ، یہ بھی عدالت ہی ہے۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے 13جنوری کوآرڈردیا کہ سماعت 27جنوری کوہوگی ، پھرسماعت اچانک اگلے روزکیلٸے کیسے مقرر ہوگٸی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا تین رکنی بنچ سے ایک جج الگ ہوگٸے، کیا وہ جج یہ آرڈردے سکتا تھا کہ یہ کیس مخصوص بنچ کے سامنے لگے؟ جبکہ جسٹس حسن اظہررضوی نے بھی استفسار کیا کہ کیا بنچ دوبارہ قاٸم کرنے کا اختیاراسی جج کے پاس تھا؟

    جسٹس نعیم افغان نے بیرسٹرصلاح الدین سے مکالمہ کرتےہوئے کہا ہمیں لگتا ہے اس سارے معاملے کے ذمہ دارآپ ہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہربولے عدالتی حکمنامہ کے مطابق آپکا اصرار تھا یہ ریگولر بنچ یہ کیس سن سکتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا آپکو ہم ججز پر اعتماد نہیں؟ میں نااہل ہویا مجھے قانون نہیں آتا تومجھے بتا دیں؟ تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا میرے پاس 13 جنوری کے دوحکمنامے موجود ہیں، ایک میں کہا اگلی تاریخ 27 جنوری ہے جبکہ دوسرے میں کہا کیس کی اگلی تاریخ سولہ جنوری ہے۔

    جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آرہی اٹارنی جنرل کونوٹس دیے بغیرکہاگیا کیس سنا ہوا سمجھا جائے۔

    جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کل کے فیصلے میں کہا گیا کیس اسی بنچ کے سامنے سماعت کیلئے مقررکیا جائے اورفیصلے میں توججزکے نام تک لکھ دیے، غلط یا صحیح لیکن جوڈیشل آرڈرہے، کیا ہم یہاں کیس سن سکتے ہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے یہ بدقستمی ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے، جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ آپ بتا دیں کہ کیس کس بنچ کے سامنے چلے گا؟ ہماری بھی عزت ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بیرسٹر صلاح الدین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہو ہم آپکے جذبات کا احترام کرتے ہیں، نام تو بدنام ویسے ہی ہے۔

    آئینی بینچ نے جسٹس منصورعلی شاہ کا 13 اور 16 جنوری کے آرڈر واپس لیتے ہوئے توہین عدالت کیس کا ریکارڈ کسٹم ڈیوٹی کیس کیساتھ منسلک کرنے کا حکم دے دیا۔

    جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے اس کے پابند ہیں، جو مقدمہ ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے اس میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے ، بعد ازاں عدالت نے کسٹم ڈیوٹی کیس کی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔

  • ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

    ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

    سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ کی تشکیل کیلیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے پر فل کورٹ کی تشکیل پر معاملہ غور کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو بھجوا دیا ہے جب کہ ایڈیشننل رجسٹرار نذر عباس کو جاری شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا ہے۔

    یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے پڑھ کر سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس پروسیجر کمیٹی کے پاس اختیار نہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے بعد کیس کو واپس لے سکیں۔ انتظامی سطح پر جوڈیشل احکامات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب کہ ججز آئینی کمیٹی کو بھی اختیارنہیں تھا کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر سے کیس واپس لے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں توہین عدالت کی کارروائی ججز کمیٹیوں کیخلاف ہوتی ہے لیکن ججز کمیٹیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ججز کمیٹیوں کے پاس اختیار نہیں کہ زیر سماعت مقدمہ بینچ سے واپس لیں۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کی کوئی غلطی نہیں اور نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی اور ان کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ذاتی مفاد بھی نہیں تھا۔

    عدالت نے کہا کہ نذر عباس کے اقدام میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہو رہی اور ان کا یہ اقدام توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس لیے ایڈیشنل رجسٹرار کی وضاحت قبول کر کے توہین عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی نے کیس واپس لیا، جو اسکا اختیار ہی نہیں تھا۔ ججز آئینی کمیٹی نے بھی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے 14 رکنی بنچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دے کر معاملے کو دیکھیں۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے اور کسٹمز ایکٹ سے متعلق کیس غلط انداز میں ہم سے لیا گیا۔ کسٹمز کیس واپس اسی بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے جس 3 رکنی بنچ نے پہلے سنا تھا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ دائرہ اختیار سے متعلق مرکزی کیس فروری کے پہلے ہفتے میں مقرر کیا جائے۔ ریگولر اور آئینی بینچز کی کمیٹی کے پاس جوڈیشل آرڈر ختم کرنے کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیٹی کو فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ نہیں بھیج رہے کیونکہ فل کورٹ تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے۔

    واضح رہے کہ اس معاملے پر گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ نذر عباس سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو اس معاملے کی جانچ پڑتال کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

    سپریم کورٹ کے جاری اعلامیہ میں مزید کہا گیا تھا کہ نذر عباس نے آئینی بینچ کا مقدمہ غلطی سے ریگولر بینچ میں سماعت کیلیے مقرر کیا۔ اس عمل سے سپریم کورٹ اور فریقین کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا۔ نذر عباس کو جسٹس منصورعلی شاہ کے بینچ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر رکھا ہے اور انہیں ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم بھی دے چکی ہے۔

    اعلامیہ کے مطابق کسٹم ایکٹ سے متعلق کیس کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا تھا، لیکن اس کو سپریم کورٹ کے معمول کے بینچ کے سامنے کیس لگا دیا گیا۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ جوڈیشل برانچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت معمول کی کمیٹی سے رجوع کیا اور کمیٹی نے 17 جنوری کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں اجلاس منعقد کیا۔ اس کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ آئین کے مطابق یہ مقدمات آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور کمیٹی نے مقدمات معمول کے بینچ سے لے کر آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔

    اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ آئندہ آرٹیکل 191 اے کے تحت آنے والے مقدمات کو آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ریگولر ججز کمیٹی نے رجسٹرار کو ہدایت دی کہ تمام زیر التوا مقدمات کی جانچ پڑتال تیز کریں جب کہ کمیٹی نے نئے داخل مقدمات کی مکمل چھان بین کی بھی ہدایت کی تھی۔

    اعلامیے کے مطابق آئینی بینچ کمیٹی نے بھی 17 جنوری کو اجلاس کیا اور 26 ویں ترمیم اور قوانین کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والے تمام مقدمات سماعت کیلیے مقرر کیے۔ 8 رکنی آئینی بنچ نے 26 ویں ترمیم کیخلاف 27 جنوری کو سماعت کرے گا۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا تھا کہ جسٹس منصور کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرارکیخلاف توہین عدالت کی سماعت کی۔ تاہم ایڈیشنل رجسٹرار کی بیماری کی رخصت کے باعث رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت پیش ہوئے اور عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ مقدمات کی شیڈولنگ میں غلطی ہوئی تھی اور اس کی جانچ کر رہے ہیں۔

    رجسٹرار کا کہنا تھا کہ مقدمات کو معمول کے بینچ سے ہٹانے کا فیصلہ ایڈیشنل رجسٹرار کی بدنیتی نہیں تھی۔ معمول کی کمیٹی کی ہدایات کی تعمیل میں یہ اقدام کیا گیا تھا۔

    گزشتہ جمعرات کو ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور عدالتی معاون حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکم نامہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ بعد ازاں عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

    دوسری جانب ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا جس میں نوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا تھا  کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی۔ عدالتی آرڈر پر بینچ بنانے کے معاملے پر نوٹ بنا کر پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

    دوسری جانب انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ آج ایک بجے سماعت کرے گا۔

    https://urdu.arynews.tv/justice-mansoor-raises-objections-on-intra-court-appeal-bench/

  • پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

    پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے26ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    تحریک انصاف نے درخواست سمیرکھوسہ ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر کی۔

    تحریک انصاف نے درخواست پر فیصلے تک قائم جوڈیشل کمیشن کو ججز تعیناتی سے روکنے کی استدعا کی ہے۔

    درخواست میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی خدوخال کوتبدیل نہیں کر سکتی، عدلیہ کی آزادی آئین کابنیادی جزو ہے۔

    دائر درخواست میں کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی کےخلاف کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی، آئینی ترمیم اختیارات کی تقسیم کےآئینی اصول کےخلاف ہے۔

    تحریک انصاف نے 26ویں آئینی ترمیم کالعدم قراردینےکی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ترمیم کےتحت ہونے والے تمام اقدامات کالعدم قراردیےجائیں۔

  • شہباز شریف کا ڈونلڈ ٹرمپ کو خط، امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد

    شہباز شریف کا ڈونلڈ ٹرمپ کو خط، امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کر دی۔

    دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف 20 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد کا خط لکھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری 2025 کو ایک بار پھر امریکی صدر کے عہدے کا حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب میں دنیا بھر سے مہمانوں نے شرکت کی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں: ’ٹرمپ پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہاں ہیں‘

    حلف برداری کی تقریب میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی شرکت کی تھی۔ بعدازاں انہوں نے امریکا میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کانگریس مین تھامس رچرڈ سوازی اور جیک برگمین سے اہم ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ بھی موجود تھے۔

    ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کی گئی تھی اور پاک امریکا تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ 30 اپریل کو پاکستانی کاکس کانفرنس واشنگٹن ڈی سی میں منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔

    محسن نقوی نے تھامس سوازی اور جیک برگمین کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ آپ کے دورہ پاکستان سے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔

    وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ امریکا پاکستان کا انتہائی اہم معاشی اور دفاعی شراکت دار ہے اور ہم سماجی شعبوں کی بہتری کیلیے امریکی تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکا کےساتھ دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور امریکا کے ساتھ تمام شعبوں میں مزید اشتراک چاہتا ہے۔

    اس موقع پر ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے تھامس سوزی نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط بنانے کیلیے پر عزم ہیں، جلد پاکستان کا دورہ کروں گا۔

  • بینچز اختیارات کا کیس، جسٹس منصور نے کیس مقرر نہ ہونے کو توہین عدالت قرار دے دیا

    بینچز اختیارات کا کیس، جسٹس منصور نے کیس مقرر نہ ہونے کو توہین عدالت قرار دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں بینچز اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کو جسٹس منصور علی شاہ نے توہین عدالت قرار دے دیا۔

    ذرائع کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس اور جسٹس امین الدین خان کو ایک خط لکھا ہے، جس میں بینچ اختیارات سے متعلق کیس کا ذکر کیا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس عقیل عباسی کو 16 جنوری کو بینچ میں شامل کیا گیا، جسٹس عقیل عباسی سندھ ہائیکورٹ میں کیس سن چکے ہیں، خط میں 20 جنوری کو کیس سماعت کے لیے فکس نہ ہونے کی شکایت کی گئی ہے۔

    خط میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے 17 جنوری کے اجلاس کا ذکر کیا گیا، اور بتایا گیا کہ جسٹس منصور نے کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے، جسٹس منصور نے کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا۔

    جسٹس منصور نے کہا کہ انھیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کمیٹی پہلے والا بینچ تشکیل دے کر 20 جنوری کو سماعت فکس کر سکتی تھی، جسٹس منصور نے کہا کیس فکس نہ ہونا جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔

    جسٹس منصور نے کہا کہ جوڈیشل آرڈر نہ مان کر قانون سے انحراف کیا گیا ہے۔ خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے معاملے کو توہین عدالت قرار دیا۔

  • مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے 21 پاکستانیوں کے نام سامنے آگئے

    مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے 21 پاکستانیوں کے نام سامنے آگئے

    پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ مراکش کشتی حادثے میں 21 پاکستانی شہری زندہ بچ گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق دفترخارجہ نے مراکش کشتی حادثے میں 21 پاکستانیوں کے بچ جانے کی تصدیق کردی ہے جس کے نام بھی سامنے آگئے ہیں۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا رباط میں پاکستانی سفارتخانے کو فوری شہریوں کی مددکے لیے متحرک کردیا گیا ہے، سفارتخانے  نے خوراک، پانی، ادویات، ملبوسات کا فوری بندوبست کیا۔

    موریطانیہ کشتی حادثے کی تحقیقات میں اہم پیش رفت، 3 مقدمات درج

    مراکش بندرگاہ کے مقامی حکام پاکستانی شہریوں کو پناہ اور طبی امداد فراہم کر رہے ہیں، پاکستانی سفارتخانے کی قونصلر ٹیم بھی موجود ہے، ٹیم ریلیف آپریشن کی نگرانی کر رہی ہے۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان متعلقہ حکام سے ملکر شہریوں کو امداد اور ان کی واپسی کا طریقہ کار طےکررہی ہے، پاکستان بیرون ملک اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے پرعزم  ہے۔

    حادثے میں بچ جانے والوں کی فہرست

    حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی شہریوں کے نام بھی سامنے آگئے، جس میں مدثر حسین، وسیم خالد، محمد خالق، عبدالغفار، گل شاہ میر، تنویر احمد، سید محمد عباس کاظمی، غلام مصطفیٰ، سید بدر محی الدین، عمران اقبال، شعیب ظفر شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ علی حسن، سید مہتاب الحسن، عزیر بشارت، محمد آصف، مجاہد علی، عامر علی، محمد عمر فاروق، بلاول اقبال، ارسلان اور عرفان احمد حادثے میں محفوظ رہے۔

    یاد رہے کہ جمعرات کو افریقی ملک موریطانیہ سے غیرقانونی طور پر اسپین جانے والوں کی کشتی کو حادثہ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 تارکین وطن ہلاک ہوگئے۔

    خبرایجنسی کے مطابق 86 تارکین وطن کی کشتی 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی، کشتی میں کل 66 پاکستانی سوار تھے تاہم کشتی حادثے میں 36 افرادکو بچالیا گیا ہے۔

  • 9 مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کے ملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟ آئینی بینچ نے مزید سوالات اٹھا دیے

    9 مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کے ملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟ آئینی بینچ نے مزید سوالات اٹھا دیے

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیس میں آئینی بینچ نے مزید سوالات اٹھا دیے اور کہا نو مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کے ملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟ کیسے لوگ بغیر ہتھیاروں کے کور کمانڈر ہاؤس میں پہنچ گئے، کورکمانڈرہاؤس میں جاناتوسیکیورٹی کی ناکامی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت ہوئی ،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل میں کہا گیا کہ کسی فوجی کوکام سے روکنے پر اکسانے کا ٹرائل آرمی ایکٹ کےتحت ہوگا، سپریم کورٹ ماضی میں قراردےچکی ہے ریٹائرڈ اہلکار سویلینز ہوتےہیں۔

    جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے آپ کا ساراانحصارایف بی علی کیس پرہے، ایف بی علی کیس میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران دونوں ملوث تھے، موجودہ کیس میں کس پرفوج کوکام سے روکنے پر اکسانےکاالزام ہے؟ آرمی ایکٹ کے تحت تو جرم تب بنے گا جب کوئی اہلکار شکایت کرے یا ملوث ہو۔

    وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ فوج کاڈسپلن جو بھی خراب کرےگاوہ فوجی عدالت میں جائےگا، جس پرجسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا فوج کے قافلے پر حملہ کرنا بھی ڈسپلن خراب کرنا ہوگا؟آرمی ایکٹ کا دائرہ جتنا آپ وسیع کر رہے ہیں اس میں تو کوئی بھی آسکتا ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے بھی استفسار کیا کہ کسی فوجی کاچیک پوسٹ پرسویلین سےتنازع ہوتوکیایہ بھی ڈسپلن خراب کرناہوگا؟

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ اس پہلوکومدنظررکھیں کہ ایف بی علی کیس مارشل لادورکاہے، ذوالفقار علی بھٹو اُس وقت سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے، ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹانےکی کوشش میں ایف بی علی کیس بناتھا، مارشل لااس وقت ختم ہوا جب آئین بناتھا تو وکیل کا کہنا تھا کہ بات ٹھیک ہےلیکن عدالتی فیصلےمیں ایمرجنسی کے نفاذ کا ذکر موجود نہیں۔

    جسٹس حسن اظہررضوی نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب،آپ وزارت دفاع کےوکیل ہیں ایک اہم سوال کا جواب دیں، کیا9مئی کے واقعات میں کسی فوجی افسر کےملوث ہونے پر ٹرائل ہوا؟ 9 مئی کو کیسے لوگ بغیر ہتھیاروں کے کورکمانڈر ہاؤس میں پہنچ گئے؟ لوگوں کا کورکمانڈرہاؤس کے اندر جانا تو سیکیورٹی کی ناکامی ہے۔

    جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ مظاہرین پر الزام املاک کو نقصان پہنچانے کا ہے، 9مئی کےواقعےمیں کسی فوجی افسر کا ٹرائل نہیں ہوا، زمانہ امن میں بھی ملٹری امورمیں مداخلت پرسویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہی چلے گا۔

    جس پرجسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں آخرکوئی ماسٹرمائنڈبھی ہوگا، سازش کس نے کی ہوگی تو خواجی حارث نے بتایا کہ سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا، سویلین کا ٹرائل اچانک نہیں ہو رہا، 1967 سے قانون موجود ہے تو جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ایف بی علی کیس میں اپیلیں ریٹائرڈ افسران نے کی تھیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ایف بی علی پرالزام ادارےکےاندرکچھ لوگوں سےملی بھگت کاتھا، ادارے کے اندر سے کسی کی شراکت ثابت ہونا لازم ہے، ادارہ افراد پر ہی مشتمل ہوتا ہے اندر کے افراد سے تعلق کا بتائیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سےمکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب، میرا آپ سے ایک ویسےتعلق ہے، محض تعلق کا ہونا آپ کے کسی کیس میں ہماری ملی بھگت بھی نہیں بن جائےگا، جو جرم سر زد ہوا اس میں کیا ہم دونوں کا تعلق تھا یا نہیں وہ بتانا لازم ہوگا، یہ بہت اہم نکتہ ہے اس کو نوٹ کر لیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ اگرمیں کسی دفاع کے ادارے سے جا کر بندوق چرا لوں تو اس کا بھی ٹرائل وہیں ہوگا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا بندوق چوری میں پھر اندر سے کیا تعلق ثابت ہوگا؟ تو وکیل کا کہنا تھا کہ جس بندوق سےسپاہی نےجنگ لڑناتھی وہ چوری کر لینا اسکو کام سے روکنا ہی ہے۔

    جسٹس محمدعلی مظہر نے سوال کیا کہ پھریہ بتائیں بندوق چوری کی ایف آئی آرکہاں ہوگی؟ جسٹس مسرت ہلالی کا بھی کہنا تھا کہ 9 مئی کو کئی لوگ تو ویسے ہی چلے جا رہے تھے انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہاں جارہے ہیں تو وکیل نے کہا کہ اُن تمام لوگوں کو ٹرائل ملٹری کورٹ نہیں چلا، میں ملزمان کی تفصیل پیش کروں گا۔

    وکیل وزارت دفاع کا کہن اتھا کہ ڈسپلن کے بغیر فوج جنگ نہیں لڑسکتی، فوج کے فرائض میں رکاوٹ بھی ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہےایکٹ کےاطلاق کو کتنا پھیلایا جاسکتاہے، اے ٹی اےآرمی ایکٹ سےسخت قانون ہے، اے ٹی اے میں سزائیں زیادہ ہیں، رعایتیں بھی نہیں ملتیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ فوجی سے اس کی رائفل چوری کرلی جائےتوکیس کہاں چلےگا؟ وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ رائفل ایک فوجی کا جنگی ہتھیار ہوتا ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے اگرسویلین مالی فائدےکیلئےچوری کرتاہےتوکیس کہاں چلےگا؟ حالانکہ اُس سویلین کامقصدآرمی کوغیرمسلح کرنانہیں تھا تو وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایسی صورت میں حالات و واقعات کو دیکھا جائےگا۔

    جسٹس محمدعلی مظہر کا بھی کہنا تھا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ میں ذکرہےکہ کون سےجرائم دائرہ کارمیں آئیں گے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ 9اور10مئی واقعات میں ایسےمظاہرین بھی تھےجنہیں پتہ ہی نہیں تھا کیا ہو رہا ہے ، جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ جن کوپتہ ہی نہیں تھاان کاتوفوجی عدالتوں میں ٹرائل ہی نہیں ہوا۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینزکےٹرائل سےمتعلق انٹراکورٹ اپیل پرسماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

  • کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا ؟ آئینی بینچ نے  سوالات اٹھا دیے

    کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا ؟ آئینی بینچ نے سوالات اٹھا دیے

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے کہ کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

    آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ دائرہ اختیارکون طےکرتاکس کاٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگاکس کا نہیں؟۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے تمام ملزمان کی ایف آئی آر تو ایک جیسی تھی، یہ تفریق کیسے ہوئی کچھ کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں اور کچھ کا اے ٹی سی میں ہوگا؟

    جسٹس نعیم اختر افغان نے وزارت دفاع کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب 9 مئی کے کل کتنے ملزمان تھے ؟ جن ملزمان کوملٹری کورٹس بھیجا ان سے متعلق کوئی اے ٹی سی کا آرڈرتو دکھائیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا ملٹری کسٹڈی لینے کا پراسس کون شروع کرتا ہے؟ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کوئی مثال دیں جہاں آئین معطل کئے بغیر سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا ہو۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جی ایچ کیو،کراچی بیس سمیت مختلف تنصیبات پر دہشت گرد حملے ہوئے، ہمیں بتائیں ان حملوں کا کہاں ٹرائل ہوا؟ ایک آرمی چیف کاطیارہ ہائی جیک کرنےکی سازش کا کیس بنا تھا، خواجہ صاحب وہ کیس عام عدالت میں چلا آپ ایک فریق کے وکیل تھے، ان سب کا ٹرائل عام عدالتوں میں چلا تو 9 مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟ ان تمام مقدمات کی ایک ایک ایف آئی آر بھی ہمیں دیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ اے ٹی سی سے ملزم بری ہورہا اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی ہے، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشت گردی عدالتوں کوکیوں مضبوط نہیں بنایا جاتا؟ عدالتوں نےفیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کیا 9 مئی دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جوٹرایل فوجی عدالت میں ہورہا ہے؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ جہاں آئین معطل نہ ہووہاں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوسکتا؟ کون اور کیسے طے کرتا کونسا کیس ملٹری کورٹس میں کونسا سول کورٹس میں جائے گا۔

    جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 94 کے تحت کمانڈنگ افسر کا ذکر ہے اس پر تفصیل سے دلائل دوں گا، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس ضرور بنائیں، جسٹس جمال خان مندوخیملٹری کورٹس سمیت ہر عدالت کا احترام ہے، آئین کے اندر رہتے ہوئے ملٹری کورٹس بنائیں، محرم علی کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آئین سےمتصادم عدالت نہیں بنائی جاسکتی۔

    جسٹس امین الدین نے کہا کہ سزا یافتہ ملزمان سے متعلق کوئی آرڈر نہیں دےسکتے سب کی سیکیورٹی عزیز ہے، وکالت نامے پر دستخط سمیت کسی بھی شکایت پر متعلقہ عدالت سےرجوع کریں، جیل مینوئل کے تحت وکالت نامے پر دستخط کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔

    ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سےسپریم کورٹ رپورٹ منگوا لے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہم اپنے اسکوپ سے باہر نہیں جائیں گے۔

    ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ خواجہ حارث نے نیب ترامیم کیس میں 6 ماہ تک دلائل دئیے تھے، خواجہ حارث ٹیسٹ میچ کی طرح لمبا کھیلتے ہیں تو جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ ٹی ٹوئنٹی کی طرح کھیلنا چاہتے ہیں؟ انہیں اپنی مرضی سے دلائل دینے دیں۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ملتوی کردی گئی۔

  • ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی  کا سوال

    ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی کا سوال

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے کیس میں جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔

    جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی ، وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ جسٹس منیب کی ججمنٹ سے پیراگراف پڑھ رہے تھے وہیں سے شروع کریں، آرٹیکل 233 بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں، آرٹیکل 5 کے مطابق بھی رائٹس معطل نہیں ہوسکتے تو خواجہ حارث نے بتایا کہ آرٹیکل 233 کا ایک حصہ آرمڈفورسز اور دوسرا حصہ سویلینز کا ہے، عدالتی فیصلے کی بنیاد پر آرٹیکل 8 (5) اور 8 (3) مختلف ہیں یکجا نہیں کیا جاسکتا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کا نکتہ کل سمجھ آچکا، آگے بڑھیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں۔

    خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والافیصلہ پڑھا اور کہا ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یانہ کریں تو وکیل نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پرکہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے، فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے، اس لئے ان کا کیس الگ ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے، چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

    جسٹس جمال نے استفسار کیا سوال یہ ہے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حدتک ہو سکتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے بھی ریمارکس میں کہا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کیخلاف ٹرائل کیلئے تھا، کیا تمام سویلین سے وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے سانحہ اے پی ایس میں کیا گیا، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔

    وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بنیادی حقوق رہتے ہیں اس بارےمیں عدالتی فیصلے موجود ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں بتائیں ملٹری کورٹس سےمتعلق بین الاقوامی پریکٹس کیاہے، وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر میں مثالیں پیش کروں گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر فوجی جوان شہید ہو رہےہیں، ہمیں شہدا کا احساس ہے، سوال یہ ہے ان شہدا کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے، کوئی محض سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف بھی ملٹری کورٹس میں کیس چلےگا، سوال یہ ہے کونسے کیسز ہیں آرٹیکل 8 کی شق 3 کے تحت ملٹری کورٹس میں چلیں گے۔

    جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہےآپ کی تیاری مکمل نہیں ہے، 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، اگرہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہوگا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے۔

    جسٹس نعیم کا مزید کہنا تھا کہ اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں2023 میں ترمیم بھی ہو چکی، ہمیں اس ترمیم کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے قانون بنائے کہ کیا کیا چیزجرم ہے، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہوگا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

  • کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا ؟ جسٹس جمال مندوخیل کا سوال

    کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا ؟ جسٹس جمال مندوخیل کا سوال

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی عدالتوں کے کیس میں سوال کیا کہ کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟کیا اس کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا؟

    تفصیلات سپریم کورٹ میں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت کی ، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا فوج کے ماتحت سویلینز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

    جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والاکون ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ اپیل وزارت دفاع کی جانب سے دائر کی گئی ہے تو جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے، ایگزیکٹو کیخلاف اگر کوئی جرم ہوتو کیا وہ خود جج بن کرفیصلہ کرسکتاہے؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے، آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، فوجی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے تو وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اورفورم دستیاب نہ ہوتو ایگزیکٹو فیصلہ کرسکتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ قانون میں انسداد دہشت گردی عدالتوں کا فورم موجود ہے، قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟ جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ آپ کی بات درست ہے، بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

    جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ کوئی شہری فوج کا حصہ بن جائے تو کیا بنیادی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، ملٹری کورٹس کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 175 سے الگ ہے، کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہوگا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟

    جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ تو آپ نے ایک صورتحال بتائی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے بھی ریمارکس میں کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے، وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا، صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہو گا، جس پر وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ ملٹری کورٹس ٹرائل پرآرٹیکل 175 کا اطلاق نہیں ہوتا۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کو فوج کے ڈسپلن میں لانے کیلئے لایا گیا، شہری آرمڈ فورسز میں شامل ہو تو بنیادی حقوق کے تحت عام عدالتوں میں معاملہ چیلنج نہیں کرسکتا، ہمارے ملک میں 14 سال تک مارشل بھی نافذ رہا تو وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ آرمڈ فورسز کے فرائض میں شہری مداخلت کرے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے مزید وکیل سے مکالمے میں کہا کہ فرض کریں ایک چیک پوسٹ پر عام شہری جانےکی کوشش کرتا ہے ، کیا یہ بھی آرمڈ فورسز کے فرائض میں خلل ڈالنے کے مترادف ہوگا، آپ کےدلائل سے تعریف اتنی وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ سب کو پھر شامل کر لیا جائے گا۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا بھی کہنا تھا کہ اس کیس کے دو حصے ہیں، ایک حصہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم قرار دینے سے متعلق ہے، دوسرا حصہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل کا سوال بہت اہم ہے، کسی چیک پوسٹ پر سویلین کا تنازع ہو جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا، اختیارات کو وسیع کرکے سویلین کا ٹرائل ہو رہا ہے، سوال یہ ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کا نفاذ کن جرائم پر ہوگا اس کا جواب آرمی ایکٹ میں موجود ہے۔

    وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کل بھی دلائل جاری رکھیں گے ، سماعت کے اختتام پر حفیظ اللہ نیازی روسٹرم پر آئے ، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیاسی بات کریں گے، جس پر ،حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ میں سیاسی بات بالکل نہیں کروں گا، ملزمان کو فیصلوں کے بعد جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے، ملزمان کوعام جیلوں میں دیگر قیدیوں کی طرح تمام حقوق نہیں مل رہے۔

    سپریم کورٹ نے جیلوں میں 9 مئی ملزمان سے رویے پر رپورٹ طلب کرلی اور کل سماعت کیلئے مقرر دیگر کیسز منسوخ کر دیے۔

    جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کل بھی صرف فوجی عدالتوں کا کیس ہی سنا جائے گا۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ نے توحکم بھی جیل مینول کے مطابق سلوک کا دیا تھا، پنجاب اور وفاقی حکومت عدالتی حکم کو نہیں مان رہے۔