Author: راجہ محسن اعجاز

  • سپریم کورٹ کا کچی آبادیوں سے متعلق بڑا حکم

    سپریم کورٹ کا کچی آبادیوں سے متعلق بڑا حکم

    سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے کچی آبادی کیس میں وفاق سے کچی آبادیوں سے متعلق پالیسی رپورٹ دو ہفتوں میں طلب کر لی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے کچی آبادی کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاق سے کچی آبادی سے متعلق رپورٹ دو ہفتوں میں طلب کر لی ہے۔

    آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے کہا ہے کہ کچی آبادی کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار صوبوں اور مقامی حکومتوں کا ہے۔

    جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا ہے کہ صوبائی اختیارپر وفاقی حکومت کیا قانون سازی کر سکتی ہے؟ پہلے تو یہ بتایا جائے کہ کچی آبادی کیا ہوتی ہے؟ بلوچستان میں تو سارے گھر ہی کچے ہیں۔

    جسٹس رضوی نے کہا کہ قبضہ گروپ ندی نالوں کے کنارے کچی آبادی بنا لیتے ہیں۔ عوامی سہولتوں کے پلاٹ پر کچی آبادی او مکانات بن جاتے ہیں۔ حکومت بتائے کہ اس نے کچی آبادی کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟

    وکیل سی ڈی اے نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھاڑی نے 10 کچی آبادیوں کو نوٹیفائی کر رکھا ہے۔ سب سے پہلے تو کچی آبادی کی تعریف طے کی جائے۔

    جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر ان کچی آبادی کے علاوہ کوئی قبضہ ہے تو کارروائی کریں۔ غیر قانونی قبضہ چھڑانے کے قوانین موجود ہیں۔ اس پر وکیل سی ڈی اے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالت نے ہی قبضہ چھڑانے کے خلاف حکم امتناع دے رکھا ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر حکم امتناع ہے، تو عدالت سے اس کو ختم کرائیں۔ تجاوزات کیسے بن جاتی ہیں۔ سب سے پہلے چھپرا ہوٹل بنتے ہیں اور پھر وہاں آہستہ آہستہ آبادی بن جاتی ہے۔ تجاوزات کی تعمیر ادارے کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں۔

  • اسحاق ڈار نے 2024 میں کتنے غیر ملکی دورے کیے؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    اسحاق ڈار نے 2024 میں کتنے غیر ملکی دورے کیے؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    اسلام آباد: رواں برس 11 مارچ کو وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے والے سینیٹر اسحاق دار نے 2024 میں کل 22 غیر ملکی دورے کیے، جن میں سعودی عرب کے 5، ایران کے 3، اور چین کے 2 دورے شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق رواں برس گیارہ مارچ کو وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے والے اسحاق ڈار کو 28 اپریل کو نائب وزیر اعظم بھی مقرر کیا گیا تھا، 2024 میں اسحاق ڈار نے کل بائیس غیر ملکی دورے کیے۔

    انھوں نے عرب ممالک میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر کے دورے کیے، وزیر خارجہ نے سب سے زیادہ 5 دورے سعودی عرب کے کیے، اکتوبر میں وہ وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کا حصہ نہیں تھے، اکتوبر میں دورہ قطر کے دوران بھی وہ وزیر اعظم کے ہمراہ نہیں تھے۔

    رواں برس اسحاق ڈار نے ایران کے 3 دورے کیے، پہلا دورہ سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی تعزیت جب کہ دوسرا دورہ ایران جولائی میں ایرانی صدر کی حلف برداری کے موقع پر تھا، وزیر خارجہ نے ای سی او کے سلسلے میں ایران کا تیسرا دورہ کیا۔

    2024 میں اسحاق ڈار 2 مرتبہ چین گئے، مئی میں انھوں نے 5 ویں پاک چین وزرائے خارجہ تزویراتی مزاکرات کے لیے چین کا دورہ کیا، جب کہ جون میں اسحاق ڈار وزیر اعظم کے دورہ چین کا حصہ تھے، 2024 میں انھوں نے امریکہ کا واحد دورہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس جب کہ واحد دورہ برطانیہ ستمبر میں کیا۔

    خواجہ آصف کے بیان پر پی ٹی آئی سیخ پا

    2024 میں وزیر خارجہ نے وسطی ایشیائی ممالک کے کل 4 دورے کیے، مئی میں جمہوریہ کرغیز، جولائی میں تاجکستان اور قازقستان اور نومبر میں آذربائیجان کے دورے کیے، مئی میں کرغیزستان میں مقامی افراد و غیر ملکی طلبہ کے درمیان جھڑپوں کے بعد کرغیز جمہوریہ کا دورہ کیا۔

    نومبر میں کوپ 29 کے سلسلے میں وزیر خارجہ وزیر اعظم کے ہمراہ باکو گئے، وزیر خارجہ نے مئی میں بنجول، گیمبیا اور دسمبر میں قاہرہ مصر، اور افریقی ممالک کے دورے کیے، اکتوبر 2024 میں اسحاق ڈار جزائر سیموا کا سرکاری دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی راہنما بن گئے جو کہ دولت مشترکہ سربراہان مملکت اجلاس کے لیے تھا۔

  • سپریم کورٹ سال 2024 میں کن حوالوں سے بہت زیادہ اہم رہا؟

    سپریم کورٹ سال 2024 میں کن حوالوں سے بہت زیادہ اہم رہا؟

    سپریم کورٹ 2024 کئی حوالوں سے بہت زیادہ اہم رہا اور کئی اہم مقدمات کی سماعت کرنے کے لیے مقرر ججز کمیٹیاں بار بار تبدیل ہوتی رہیں۔

    سپریم کورٹ 2024 کئی حوالوں سے بہت زیادہ اہم رہا۔ انتخابی نشان بلے سے متعلق کیس، ججز کے استعفے، مخصوص نشستوں سے متعلق کیس سمیت مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے والی ججز کمیٹی میں بار بار تبدیلیاں ہوتی رہیں۔

    سپریم کورٹ میں سال 2024 کا آغاز دو ججز کے اوپر تلے استعفوں سے ہوا۔ مظاہر علی نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے بچنے کیلیے 10 جنوری کو استعفی دیا، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن جنہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی

    ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس بننا تھا انہوں نے بھی 11 جنوری کو عہدہ چھوڑ دیا۔
    2024 میں اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں بینچ نے تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ دیا جس کے نتیجے میں پارٹی کو 8 فروری کا الیکشن بلے کے نشان کے بغیر لڑنا پڑا۔

    اسی برس ارکان اسمبلی تاحیات نا اہلی کیس، پرویز مشرف غداری کیس، نیب ترامیم انٹرا کورٹ اپیل ، ذولفقارعلی بھٹو ریفرنس جیسے اہم مقدمات کے فیصلہ سامنے آئے۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی دیا۔

    سال 2024 سپریم کورٹ میں تبدیلی کا سال بھی ثابت ہوا۔ پارلیمنٹ نے 26 آئینی ترمیم کے ذرئعے چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کر دیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائرڈ ہوئے تو پارلیمانی کمیٹی نے 26 آئینی ترمیم کی روشنی میں تین رکنی پینل سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا۔ 26 اکتوبر کو نئے چیف جسٹس نے ایوان صدر میں عہدہ کا حلف اٹھایا۔

    26 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں 6 نومبر کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں سال 2024 میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 58 ہزار تک پہنچ گئی۔

  • جوڈیشل کمیشن رولز 2024 منظوری کے بعد پبلک کر دیے گئے

    جوڈیشل کمیشن رولز 2024 منظوری کے بعد پبلک کر دیے گئے

    اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن رولز 2010 منسوخ کر کے جوڈیشل کمیشن رولز 2024 منظوری کے بعد پبلک کر دیے گئے۔

    نئے جوڈیشل کمیشن رولز کے مطابق کمیشن کا ایک سیکریٹریٹ ہوگا، جو سپریم کورٹ بلڈنگ اسلام آباد میں یا چیئرپرسن کے طے کردہ مقام پر قائم ہوگا، اور اس کے ریکارڈز کو محفوظ کیا جائے گا، جب کہ دیگر امور چیئر پرسن کے عام یا خاص احکامات میں بیان کردہ انداز میں چلائے جائیں گے۔

    رولز کے مطابق جج تقرری کے لیے میرٹ کا تعین آئین کے تحت جج کے حلف کے مطابق کیا جائے گا، جائزہ لیتے وقت پیشہ ورانہ قابلیت، تجربہ، قانونی مہارت، اور پیشہ ورانہ رویہ دیکھا جائے گا، کسی فرد کو جج نامزد کرتے وقت اس کی کارکردگی، ابلاغی مہارت اور دیانت داری کو دیکھا جائے گا۔

    ہائیکورٹس میں ججوں کی تقرری کے لیے وکلا اور عدالتی افسران کی مناسب نمائندگی یقینی بنائی جائے گی، طے شدہ قابلیت اور معیار کے ساتھ ساتھ سینیارٹی کو بھی مدنظر رکھا جا سکتا ہے، نامزدگی کے لیے متعلقہ چیف جسٹس کے علاوہ کوئی رکن رجسٹرار سے معلومات، منسلک کیا جانے والا مواد حاصل کرے گا، متعلقہ ہائیکورٹ سے عدالتی افسر کے سروس ریکارڈ کی رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔

    رولز کے مطابق متعلقہ چیف جسٹس کے علاوہ کوئی رکن عدالتی افسر سے رابطہ نہیں کرے گا تاکہ اس کی نامزدگی کا آغاز کیا جا سکے، ججز تقرری کے لیے اراکین مقررہ معیار کے مطابق، جنس، علاقہ اور مذہب کے لحاظ سے مناسب تنوع کو یقینی بنائیں گے، ایڈیشنل جج کنفرم کرنے کے لیے فیصلوں کی تعداد، معیار، اخلاقیات، دیانت داری، غیر جانب دار رویے کا جائزہ لیا جائے گا۔

    جوڈیشل کمیشن ایسے معاملے کو بھی دیکھ سکتا ہے جو ابتدائی تقرری کے وقت سامنے نہیں آئے، جوڈیشل کمیشن ججوں کی تمام متوقع اور خالی آسامیوں کا مکمل ریکارڈ رکھے گا اور کمیشن کو ان سے آگاہ رکھے گا، متوقع خالی آسامیوں سے مراد وہ آسامیاں ہیں جن کے 3 ماہ کے اندر خالی ہونے کی توقع ہو، سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے چیئرپرسن آسامیوں کی تعداد کا تعین کرے گا، اور نامزدگیاں طلب کی جائیں گی۔

    ہائیکورٹس یا وفاقی شرعی عدالت میں تقرری کے لیے چیئرپرسن متعلقہ چیف جسٹس سے مشاورت کرے گا، نامزدگیاں طلب کیے جانے پر کمیشن کا کوئی بھی رکن تقرری کے لیے کمیشن میں نامزدگیاں دے سکتا ہے، سپریم کورٹ تقرری کے لیے نامزدگی متعلقہ ہائیکورٹ کی منصفانہ نمائندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے گی، سپریم کورٹ میں جج کی تقرری کے لیے نامزدگیاں متعلقہ ہائیکورٹ کے 5 سب سے سینئر ججوں میں سے کی جائیں گی۔

    رولز کے مطابق ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نامزدگیاں 3 سب سے سینئر ججوں میں سے کی جائیں گی، کوئی رکن دوسرے یا تیسرے سب سے سینئر جج کو نامزد کرتا ہے تو اسے خط میں وجوہات بیان کرنی ہوں گی، کمیشن سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس مقرر نہیں کرتا تو کمیشن کو اس بات کی وجوہات بتانی ہوں گی، نامزدگیاں اُس تاریخ کے 15 دن میں سیکریٹریٹ کو جمع کرائی جائیں گی جس دن نامزدگیاں طلب کی گئی ہوں۔

    مقررہ وقت کے بعد موصول نامزدگیاں کمیشن کے سامنےغور کے لیے پیش نہیں کی جائیں گی، کمیشن فیصلہ دے کہ کوئی دوبارہ غور کے لیے موزوں نہیں تو وہ دوبارہ نامزدگی سے نااہل ہو سکتا ہے، جوڈیشل کمیشن سیکریٹریٹ نامزدگی فارم میں معلومات کے بارے میں رپورٹس حاصل کرے گا، کمیشن 2 سول انٹیلی جنس ایجنسیوں سے نامزد افراد کے عمومی پس منظر کی رپورٹس بھی حاصل کرے گا، رپورٹس میں کوئی منفی تبصرے شامل ہوں تو افسر کو معاون مواد فراہم کرنا ہوگا، حاصل کردہ رپورٹس غور و فکر اور نامزدگیوں کو حتمی شکل دینے کے لیے پیش کی جائیں گی۔

    رولز کے مطابق سیکریٹریٹ کمیشن کے غور و فکر کے لیے نامزدگیوں کی دو مجموعی فہرستیں تیار کرے گا، پہلی فہرست وکلا اوردوسری عدالتی افسران کے ناموں پر مشتمل ہوگی، اجلاس کے لیے کورم کمیشن کے کل اراکین کی اکثریت پر مشتمل ہوگا، چیئرپرسن کمیشن یقینی بنائے گا کہ تمام ارکان کو اپنی رائے کے اظہار کا مساوی موقع دیا جائے، غور و خوض کے بعد، نامزدگیوں پر ووٹنگ شو آف ہینڈ کے ذریعے کی جائے گی۔

    رولز کے مطابق نامزد فرد کو کمیشن کی کل رکنیت کی اکثریت کے ووٹ حاصل کرنا ہوں گے، مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرنے پر کمیشن ایک اضافی ووٹنگ کا عمل منعقد کرے گا، ہدایات تک تمام کارروائیاں رازداری کو برقرار رکھنے کے لیے بند کمرے میں منعقد ہوں گی، کمیشن کے فیصلے کو مختصر شکل میں آفیشل ویب سائٹ یا ویب پیج پر شائع کیا جائے گا، اور ارکان کمیشن کے اجلاسوں میں ہونے والی بحث و مباحثہ کے مواد کو ظاہر نہیں کریں گے۔

  • سعودی حکومت نے جرمن حکومت کو حملہ آور ماہر نفسیات سے متعلق پہلے ہی خبردار کر دیا تھا

    سعودی حکومت نے جرمن حکومت کو حملہ آور ماہر نفسیات سے متعلق پہلے ہی خبردار کر دیا تھا

    ماکدے برگ: جرمنی میں کرسمس مارکیٹ میں ہجوم پر کار چڑھانے والے سعودی شہری ماہر نفسیات سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ سعودی حکومت نے جرمن حکومت کو اس حملہ آور سے متعلق پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔

    روئٹرز کے مطابق ایک سعودی ذریعے نے خبر ایجنسی کو بتایا کہ جب حملہ آور نے اپنے X اکاؤنٹ پر انتہا پسندانہ خیالات پوسٹ کیے تو سعودی عرب نے جرمن حکام کو اس مشتبہ شخص کے بارے میں خبردار کیا تھا کہ اس سے امن اور سلامتی کو خطرہ ہے۔

    ایک جرمن سیکیورٹی ذریعے نے بتایا کہ سعودی حکام نے 2023 اور 2024 میں کئی انتباہات بھیجی تھیں جو کہ متعلقہ سیکیورٹی حکام کو بھجوا دی گئی تھیں۔ تاہم ویلٹ اخبار کی رپورٹ کے مطابق جرمن ریاست اور وفاقی فوجداری تفتیش کاروں کی جانب سے جب گزشتہ سال جائزہ لیا گیا، تو انھوں نے رپورٹ دی کہ اس شخص (جس کی شناخت حکام نے ’طالب عبدالمحسن‘ کے نام سے ظاہر کی ہے) سے کوئی خاص خطرہ نہیں‌ ہے۔

    اب جرمنی کی ملکی اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس تحقیقات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے، ریاست اور وفاقی فوجداری تحقیقاتی دفاتر نے بھی روئٹرز کی تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے جرمنی میں کرسمس بازار پر حملے کی مذمت کی گئی ہے، جرمنی کے شہر ماکدے برگ میں ایک شخص نے ہجوم پر کار چڑھا دی تھی، جس سے 5 افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوئے، جن میں سے 41 شدید زخمی ہیں، حملے میں ملوث 50 سالہ سعودی شہری کو موقع پر ہی گرفتار کیا گیا، سعودی شہری ایک عشرے سے جرمنی میں مقیم تھا اور ماہر نفسیات ہے۔

    اس واقعے کی سعودی عرب نے مذمت کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا، سعودی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں جرمن عوام اور متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ غم اور یک جہتی کا اظہار کیا گیا۔

  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو 6 ماہ کیلیے توسیع دے دی گئی

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو 6 ماہ کیلیے توسیع دے دی گئی

    اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو 6 ماہ کیلیے توسیع دے دی گئی جبکہ آئینی بینچ کی تشکیل برقرار رکھنے کا فیصلہ 7-6 کے تناسب سے ہوا۔

    ذرائع نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس جمال مندوخیل نے سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئینی بنچ میں شامل کرنے کی تجویز دی، ووٹنگ میں 7 ممبران نے بنچ برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا۔

    ذرائع نے مزید بتایا کہ جوڈیشل کمیشن نے نئے رولز کے تحت ایڈیشنل ججز کیلیے نامزدگیاں 3 جنوری تک طلب کر لیں، نامزدگیاں متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ذریعے بھیجی جائیں گی۔

    ایڈیشنل ججز کیلیے پہلے سے بھیجے گئے نام متفقہ طور پر واپس لے لیے گئے۔

    آج سیکریٹری جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے ججوں کی تعیناتی میں انٹیلیجنس ایجنسی سے رپورٹ لینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلیجنس ایجنسی کو کردار دیا گیا تو اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے، جوڈیشل کمیشن میں پہلے ہی اکثریت ایگزیکٹو کی ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق اپنی پوزیشن واضح کر چکا ہوں، پہلے فل کورٹ بنا کر 26ویں ترمیم کا جائزہ لینا چاہیے۔

    انہوں نے تجویز پیش کی کہ آئینی بنچ کیلیے ججوں کی تعیناتی اور تعداد کا مکینزم ہونا چاہیے، آئینی بنچ میں ججز کی شمولیت کا پیمانہ طے ہونا چاہیے، کس جج نے آئین کی تشریح والے کتنے فیصلے لکھے یہ ایک پیمانہ ہو سکتا ہے۔

    خط میں معزز جج نے کہا کہ کمیشن بغیر پیمانہ طے کیے سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں آئینی بنچ تشکیل دے چکا ہے، رولز پر میری رائے اس ترمیم اور کمیشن کی آئینی حیثیت طے ہونے سے مشروط ہے، جج آئین کی حفاظت اور دفاع کرنے کا حلف لیتا ہے، ججز تعیناتی کے رولز بھی اسی حلف کے عکاس ہونے چاہئیں۔

  • جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط  کا جواب دے دیا

    جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط  کا جواب دے دیا

    اسلام آباد: جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس مصور علی شاہ کے خط کا جواب دے دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جسٹس جمال مندوخیل نے خط میں لکھا کہ آپ کا 12 دسمبر کو لکھا گیا خط موصول ہوا، 26ویں تمریم کے بعد جوڈیشل کمیشن دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے، کمیشن نے چیف جسٹس کو رولز بنانے کے لیے کمیٹی تشکیل کا اختیار دیا، چیف جسٹس رولز بنانے کے لیے میری سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ کمیٹی کے دو اجلاس پہلے ہی ہوچکے ہیں، آپ کی تجویز کردہ سفارشات پہلے ہی ڈرافٹ میں شامل کی جاچکی ہیں، مجوزہ ڈرافٹ آپ کے خط سے پہلے ہی میں آپ سے شیئر کرچکا ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ کمیٹی کی ذمہ داریاں قواعد کو تجویز کرتے ہوئے کمیشن کے سامنے رکھنا ہے، 21 نومبر کے اجلاس میں میری معلومات کے مطابق آپ نے بھی ججز کے لیے نام تجویز کیے، میری تجویز ہے کہ آپ اپنے نام قواعد کے بننے کے بعد تجویز کریں۔

    جسٹس جمال نے لکھا کہ آپ کی تجاویز کا خیر مقدم کرتا ہوں، آئین کی منشا ہے کہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار ہو، عدلیہ کے ممبران کا اہل اور ایماندار ہونا بھی آئینی منشا ہے، کمیٹی کاآئندہ اجلاس 16 دسمبر کوہوگا آپ کی تجاویز زیر غور لائیں گے۔

    انہوں نے خط میں مزید لکھا کہ آپ کے خط میں 26ویں ترمیم پر بھی بات کی گئی، 26ویں ترمیم زیر التوا ہونے کے باعث اس پر رائے نہیں دوں گا۔

  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کےفیصلے سنانے کی اجازت دے دی اور کہا جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت ہوئی ، 7 رکنی آئینی پینچ نے کیس کی سماعت کی، آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے سوا دیگر تمام مقدمات کی سماعت مؤخر کر دی، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آج صرف فوجی عدالتوں والا مقدمہ ہی سنا جائے گا۔

    وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھے ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے اس پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر شخص کو اس زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ یہ بھی مدنظر رکھیں آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا، جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔

    جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے عدالتی فیصلے کواتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں، تو خواجہ حارث نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ کل بھی کہا تھا کہ 9مئی کے واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہی ہے، کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو یہ بھی بتا دیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں، تفصیلات باضابطہ متفرق درخواست کے ذریعے جمع کراؤں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ان کے تحت ٹرائل کیا کیا ہوگا؟ 9 مئی سے پہلے بھی تو کسی کوان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہوگی۔

    خواجہ حارث نے بتایا کہ عمومی طور پر کالعدم ہونےسے پہلے متعلقہ دفعات پر فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ تو ان ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی، آرمی میں کوئی شخص زبردستی نہیں اپنی مرضی سے جاتا ہے، آرمی جوائن کرنیوالے کو علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کےقواعد اور ڈسپلن کیلئے گیا ہے۔

    وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اپیل میں عدالت صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے بھی ریمارکس دیئے فریقین اپنی معروضات تک محدودرہ سکتے ہیں عدالت نہیں۔

    سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی اور 26 ویں ترمیم کا کیس جنوری کےدوسرے ہفتے میں سننے کا عندیہ دے دیا۔

    جسٹس امین الدین نے کہا کہ سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کامقدمہ امیدہےجنوری میں مکمل ہو جائے گا، پہلے ہفتے یہ کیس ختم ہوا تو26ویں ترمیم کا کیس جنوری کےدوسرے ہفتے سنیں گے، ہمارے پاس 26 ویں آئینی ترمیم سمیت بہت سے مقدمات پائپ لائن میں ہیں۔

    جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ مزید کتنا وقت لیں گے تو وکیل نے بتایا کہ ابھی دلائل میں مزید کچھ وقت لگ جائے گا، جس پر جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک کیس ملتوی کردیتے ہیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی، عدالت نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے، فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

    عدالت نے مزید کہا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا ، انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

  • پریکٹس پروسیجر آرڈیننس کیخلاف دائر درخواستیں خارج

    پریکٹس پروسیجر آرڈیننس کیخلاف دائر درخواستیں خارج

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پریکٹس پروسیجرآرڈیننس کیخلاف دائردرخواستیں خارج کردیں ، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے پریکٹس پروسیجر آرڈیننس ختم ہو چکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پریکٹس پروسیجرآرڈیننس کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، آئینی بینچ نے پریکٹس پروسیجر آرڈیننس کیخلاف درخواستوں کو مسترد کرنے کا فیصلہ دیا۔

    جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے پریکٹس پروسیجر آرڈیننس ختم ہو چکا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرڈیننس کے بعد پریکٹس پروسیجر میں پارلیمنٹ نے قانون سازی کردی۔

    جس پر وکیل درخواست گزار نے استدعا کی آرڈیننس کے تحت کمیٹی کے ایکشن کو کالعدم قرار دیا جائے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون آجائے تو آرڈیننس خود بخود ختم ہو جاتا ہے، آئین صدر پاکستان کو آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کے تحت بنی کمیٹی ختم ہو گئی، کمیٹی کے فیصلوں کو پاس اینڈ کلوز ٹرانزیکشز کاتحفظ ہے۔

    یاد رہے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹرگوہر نےآرڈیننس کوچیلنج کیا تھا جبکہ افراسیاب خٹک ،احتشام الحق اوراکمل باری نےبھی درخواستیں دائر کی تھیں۔

  • وفاقی حکومت سے 9 اور 10 مئی کی ایف آئی آرز اور دیگر تفصیلات طلب

    وفاقی حکومت سے 9 اور 10 مئی کی ایف آئی آرز اور دیگر تفصیلات طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے وفاقی حکومت سے نو اور دس مئی کی ایف آئی آرز اور دیگر تفصیلات طلب کرلیں اور ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے رولز بھی مانگ لیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، عدالت نے وفاقی حکومت سے9اور 10 مئی کی ایف آئی آرزاوردیگرتفصیلات طلب کرلیں۔

    آئینی بینچ نے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے رولز بھی طلب کرلیے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے رولز کی کاپی بھی دے دیں۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 8 میں آرمی قوانین کا ذکر ان کے ڈسپلن کے حوالے سے ہے، چھاؤنی کا تصور سب سے پہلے حضرت عمرؓنے دیا تھا، حضرت عمرؓ نے سخت ڈسپلن کی وجہ سے ہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا۔

    جسٹس مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ فوج کا ڈسپلن آج بھی قائم ہے اور اللہ اسے قائم ہی رکھے، فوج نے ہی بارڈرز سنبھال کر ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے، فوج کے ڈسپلن میں عام لوگوں کو شامل کیا تو خدانہ خواستہ یہ تباہ نہ ہوجائے۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے فوجی کو قتل کرنے والے کا مقدمہ عام عدالت میں چلتا ہے،فوجی تنصیبات پرحملہ بھی توانسداد دہشتگردی ایکٹ کےتحت ہی جرم ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی کا بھی کہنا تھا کہ ذاتی عنادپر فوجی کاقتل الگ،بلوچستان طرزپرفوج پر حملہ الگ چیزیں ہیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔