Author: ریحان خان

  • آٹو گراف کہیں کھو گیا…

    آٹو گراف کہیں کھو گیا…

    آٹوگراف پلیز…. یہ وہ آواز تھی جو اب سے چند دہائی قبل ہر اس تقریب میں سنائی دیتی تھی جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی مشہور ہستیاں شریک ہوتی تھیں اور مداح اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ان سے آٹو گراف لینے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے، لیکن بدلتے وقت کے ساتھ شاید یہ سلسلہ ماند پڑچکا ہے، آٹو گراف کی روایت گو اب بھی زندہ ہے مگر اس کے لیے اب ہم وہ پُرجوش انداز اور وہ اشتیاق نہیں‌ دیکھتے جو ماضی میں‌ دیکھا۔

    وہ لوگ جنہوں نے اس دور میں آنکھ کھولی جب سوشل میڈیا اور موبائل فون تو دور کیبل اور ٹیلیفون بھی ہر گھر میں نہیں ہوتا تھا وہ اس امید بھری خوش کن آواز ’’آٹو گراف پلیز‘‘ سے ضرور مانوس ہوں گے۔ ہمارا آٹوگراف بُک سے تعلق تو اپنے اسکول کے بالکل آخری سال میں جڑا جب ہم دسویں جماعت کے طالبعلموں کو نویں جماعت کے طلبہ نے الوداعی پارٹی دی۔ ان لمحات کو یادگار بنانے اور گزرے 10 سال کی یادوں کو سینے سے لگائے رکھنے کے لیے ہم نے آٹوگراف بُک کا سہارا لیا۔

    اپنے اساتذہ سے اس آٹوگراف بُک پر ان کے آٹوگراف لیے تو دستخطوں کے ساتھ کچھ نصیحتوں اور کچھ شفقت بھرے پیغامات پر مبنی پند و نصائح کا ایک مجموعہ گویا ہمارے ہاتھ لگا جو ہماری آنے والی زندگی میں ہماری رہنمائی کرتا رہا۔ ہماری زندگی میں آنے والی دوسری آٹوگراف بُک تو واپس ہمارے ہاتھ ہی نہ آئی کیونکہ وہ نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد میں سچن ٹنڈولکر کا آٹوگراف لینے کے لیے گراؤنڈ کے جنگلے کے ساتھ کھڑے چوکیدار کو دی تھی (اس وقت ٹنڈولکر کے کیریئر کا آغاز تھا اور حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں دورۂ پاکستان کے سلسلے میں وہ سائیڈ میچ کھیل رہے تھے) یہ تو خیر ہمارے ذاتی تجربات تھے جو تعلیم کے ابتدائی دور میں آٹوگراف بُک کے ساتھ جڑے تھے۔

    اب ہم ماضی سے نکل کر حال میں آتے ہیں تو جناب نئی نسل نے تو خود کو آٹو گراف بُک خریدنے کی جھنجھٹ اور اس پر آٹو گراف لینے کی خواہش سے سمجھو کہ آزاد ہی کرلیا ہے کیونکہ اب تو سیلفی کا زمانہ ہے جو آٹو گراف کا متبادل بن گئی ہے بلکہ آٹوگراف بک دکھاتے ہوئے آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ یہ کسی مشہور شخصیت کا ہی آٹوگراف ہے اور آپ اس سے واقعی ملاقات کرچکے ہیں یا یونہی دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے آٹو گراف بک پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر اسے کسی بھی مشہور شخصیت سے منسوب کر دیا۔ لیکن تصویر تو خود بولتی ہے، اور سارا احوال بتا دیتی ہے تاہم جیسے جیسے زمانہ میں‌ جدّت آرہی ہے اب فوٹو شاپ اور دیگر تیکنیک سے من چاہی شخصیات کے ساتھ فیک تصاویر بنانا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے۔

    جس طرح پہلے آٹوگراف لینا بہت بڑی کامیابی تصور کی جاتی تھی اسی طرح آج سیلفی لینا بھی کسی کارنامے سے کم نہیں سمجھا جاتا اور پھر سوشل میڈیا پر مختلف پلیٹ فارم کے ذریعے اس کی نمائش کرکے داد وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جو بات سادہ سے آٹوگراف اور اس کے ساتھ لکھے پیغام میں ہوتی ہے وہ آج کی رنگا رنگ تصویر میں عنقا ہے۔ آٹوگراف اتنا مقبول عام ہے کہ ایک مشہور شاعر مجید امجد نے اس پر ایک پوری نظم ہی لکھ ڈالی جس پر مختلف مکاتب فکر کی جانب سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے مگر وہ ایک الگ بحث ہے۔

    پہلے کسی مشہور شخصیت سے خواہ وہ کسی بھی شعبے میں نامور ہوتی، اس کے چاہنے والے اس سے دستخط لینے کے لیے بھرپور کوشش کیا کرتے تھے۔ لوگوں کے ہجوم میں مداح کے لبوں سے آٹو گراف پلیز کی آواز ابھرتی۔ پھر وہ ملک کی مشہور ہستی ہو یا دنیا بھر میں مقبول ہو اس کے دستخط کے لیے قلم آگے بڑھا دیا جاتا۔ وہ کھلاڑی ہوتا، اداکار ہوتا، سیاستدان ہوتا یا دیگر شعبے سے تعلق رکھتا ہوتا قلم تھام کر اپنا دستخط ثبت کر دیتا۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا جن کے پاس آٹوگراف بُک نہ ہوتی وہ اپنے کالر، آستین، نوٹ بک، کرنسی نوٹ، رومال حتیٰ کہ ہتھیلی پر آٹوگراف لینے کی کوشش کرتے تھے۔ اب آٹو گراف دینے والا چاہے تو پورا دستخط کرے یا آٹوگراف کے نام پر بے ربط لکیر کھینچ دے یہ اس کی مرضی اور موڈ پر منحصر ہوتا لیکن مداح کے لیے وہ کسی گوہر نایاب سے کم نہ ہوتا بعض تو ایسے پرستار تھے جنہوں نے اپنی آئیڈیل شخصیات کے آٹو گراف کو فریم یا کوٹنگ کراکے محفوظ کرلیا۔ پچھلی نسل کے بہت سے لوگوں کے پاس اپنی اپنی آٹو گراف بک پڑی ہے۔ جس میں ان کے زمانے کی نامور شخصیات کے دستخط موجود ہیں۔ یہ ساری شوق کی باتیں ہیں۔ وہ بھی ایک دور تھا، اب تو سیلفی نے سب کچھ بدل دیا ہے۔

    آٹوگراف ادب و ثقافت سے وابستہ ہستیوں کے لیے کیا اہمیت رکھتا تھا اس حوالے سے نامور ادیب اشفاق احمد کی کتاب زاویہ سے اقتباس ملاحظہ کرتے چلیں۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ میں نوجوانوں کی طرح اس عمر میں اپنی آٹوگراف بُک لے کر گھومتا ہوں اور ایسے لوگوں کے آٹوگراف حاصل کرنا چاہتا ہوں جو آسائش اور آسانی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو اداکاروں یا گانے والوں کے آٹوگراف لینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے آٹوگراف لینے کا خواہشمند ہوں جن پر دنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں۔ میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں اس میں دستخط تو کم لوگوں کے ہیں جب کہ انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں۔ کسی لکڑہارے کا انگوٹھا ہے، کسی ترکھان کا ہے، کسی قصائی کا ہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں۔ ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر یا منڈی مصطفیٰ آباد للیانی سے لگوایا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بلاتفریق اور بغیر کسی غرض کے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرتے ہیں۔

    آٹو گراف کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ آپ کو پاکستان کے نامور شاعر فیض احمد فیض اور شہنشاہ جذبات دلیپ کمار سے متعلق ایک واقعے سے بھی ہو جائے گا۔ یہ آج سے لگ بھگ نصف صدی سے بھی پہلے کی بات ہے جب دلیپ کمار کے عروج کا دور تھا اس وقت پاکستان سے فیض احمد فیض ایک مشاعرے اور ادبی کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت جا رہے تھے تو ان کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے اپنے والد نے فرمائش کی کہ وہ ان کے لیے دلیپ کمار کا آٹوگراف ضرور لے کر آئیں۔ فیض احمد فیض جب دورہ مکمل کرکے بھارت سے واپس آئے اور سلیمہ نے ان سے آٹوگراف کا پوچھا جس پر وہ گھبرا گئے۔ بیٹی نے پوچھا کہ کیا آپ کی وہاں دلیپ کمار سے ملاقات نہیں ہوئی تو فیض احمد فیض نے کہا کہ ایک بار نہیں کئی بار ملاقات ہوئی لیکن اس نے تو مجھ سے خود آٹوگراف لے لیا تو پھر میں کیا اس سے فرمائش کرتا۔

    کچھ شوقین ایسے بھی ہیں جن کے آٹوگراف لینے کی انوکھی داستان دنیا بھر میں مشہور ہوجاتی ہے جیسا کہ ہمارے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے ساتھ ہوا جب انہیں ان کی ایک خاتون پرستار نے سوشل میڈیا پر آٹو گراف لینے کے لیے نکاح نامہ پیش کر دیا تھا اور بابر اعظم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس نکاح نامے کی تصویر بھی شیئر کی تھی۔

    حالیہ کچھ عرصے میں سیاسی شخصیات کا آٹو گراف خاصامقبول ہوا . جب پی ٹی آئی حکومت جانے کے بعد سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی مقبولیت کا گراف بڑھا۔ اور اسی دوران انہوں نے ملاقات کے لیے آنے والے کم عمر بچوں اور نوجوانوں کو ان کی شرٹس پر آٹو گراف دیے جس کے بعد سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں پی ٹی آئی کے مخالف سیاستدان مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، حمزہ شہباز بھی بچوں اور نوجوانوں کو ان کی شرٹس پر آٹو گراف دیتے نظر آئےاور یہ ٹرینڈ بن گیا تھا۔

    آٹو گراف اصل میں انگریزی کا لفظ ہے جو اپنی اصل حالت اور معنوں کے ساتھ ہی اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ آج آٹوگراف کی روایت اتنی ہی زندہ رہ گئی ہے کہ کسی چیریٹی تقریب میں یا سرکاری تقریب میں کھلاڑی، فنکار یا کسی شعبہ زندگی میں نامور شخصیات کے دستخط سے مزین کوئی چیز مہنگے داموں فروخت کرکے اس کو فلاحی کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے جو کہ ایک اچھا مصرف ہے لیکن جو عوامی آٹو گراف ہے وہ کہیں کھوگیا ہے۔

  • ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل ہارنے کے بعد بھارتی کھلاڑیوں کیلیے ایک اور بُری خبر

    ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل ہارنے کے بعد بھارتی کھلاڑیوں کیلیے ایک اور بُری خبر

    ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ 2023 کا فائنل آسٹریلیا نے جیت لیا مگر سلو اوور ریٹ پر دونوں ٹیموں پر بھاری جرمانہ عائد ہوا جب کہ بھارتی کھلاڑیوں کو میچ فیس نہیں ملے گی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ 2023 کا فائنل آسٹریلیا کی حکمرانی کے ساتھ گزشتہ روز اختتام پذیر ہوا تاہم میچ کے بعد آئی سی سی نے سلو اوور ریٹ پر دونوں ٹیموں پر بھاری جرمانے عائد کر دیے ہیں۔

    بھارت پر میچ فیس کا 100 فیصد جب کہ آسٹریلیاں پر 80 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا ہے کیونکہ بھارت نے میچ کے دوران مقررہ وقت میں 5 جب کہ آسٹریلیا نے 4 اوورز کم کرائے تھے۔

    آئی سی سی کے فیصلے کے مطابق کسی بھی بھارتی کھلاڑی کو میچ فیس نہیں ملے گی۔
    اس کے علاوہ بھارتی اوپنر شبھمن گل پر علیحدہ سے میچ فیس کا 15 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ انہوں نے آؤٹ ہونے کے بعد امپائر کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔

    شُبھمن گِل آئی سی سی کے آرٹیکل 2.4 کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار پائے گئے ہیں، اس لیے اان پر میچ فیس کا 15 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

  • ’ملک میں 10 کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں‘

    ’ملک میں 10 کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں‘

    سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ ملک میں 10 کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں۔

    سابق وزیر خزان حفیظ پاشا نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں 10 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ بجٹ میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے کوئی پلان یا اسٹریٹیجی نہیں دی گئی۔

    ان کا کہنا تھا کہ بجٹ جس انداز میں پیش کیا گیا امید تھی کہ پاکستان کے لوگوں کو مطمئن کیا جائیگا، ہم امید کرتے تھے کہ اسحاق ڈار آغاز میں ہی بتاتے کہ ہم دیوالیے کا دلدل سے نکل چکے ہیں انہیں بجٹ کے آغاز میں ہی اسٹریٹیجی یا کوئی پلان پیش کرنا چاہیے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

    حفیظ پاشا نے کہا کہ وزیر خزانہ کو پاکستان کے تاجروں اور کاروباری شخصیات کو مطمئن کرنا چاہیے تھا، بجٹ دستاویز میں جو کچھ بتایا گیا کم از کم اس سے ہی عوام کو آگاہ کرنا چاہیے تھا۔

    سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ بی آئی ایس پی کیلیے فنڈز کو صرف 50 ارب روپے بڑھایا ہے جب کہ نتخواہوں میں جو اضاف کیا گیا اس پر 600 ارب خرچ ہوں گے، یعنی حکومت نے 30 لاکھ لوگوں کے لیے 600 ارب کا اضافہ کیا گیا جب کہ دوسری طرف 10 کروڑ لوگوں کے لیے اضافہ 50 ارب کیا گیا ہے۔

    انہوں نے ایف بی آر ریونیو بڑھانے کا جو ٹاسک رکھا گیا ہے وہ رسکی ہے جو پورا نہیں ہوگا۔ پی ڈی ایل کا ہدف بھی بڑھایا گیا ہے، ایسا لگتا ہے پی ڈی ایل کو 50 روپے سے 75 روپے تک بڑھایا جائیگا۔

  • ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل، آسٹریلیا کی گرفت مضبوط

    ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل، آسٹریلیا کی گرفت مضبوط

    اوول میں جاری ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل میں آسٹریلیا کی گرفت مضبوط نظر آ رہی ہے آج تیسرے دن بھارت کو فالو آن سے بچنے کے لیے 158 رنز درکار ہیں اور اس مستند بیٹرز سمیت آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی ہے۔

    اوول کرکٹ گراؤنڈ میں ٹیسٹ کرکٹ پر عالمی حکمرانی کی جنگ جاری ہے جس میں اب تک آسٹریلیا کی گرفت مضبوط نظر آرہی ہے۔ آج تیسرے دن بھارت 151 رنز 5 کھلاڑی آؤٹ پر اپنی پہلی نامکمل اننگ کا آغاز کرے گا اور اسے فالو آن سے بچنے کے لیے مزید 158 رنز درکار ہیں۔

    فائنل ٹیسٹ میں پہلے آسٹریلوی بیٹرز نے دکھایا کمال تو بولرز نے بھارتی بلے بازوں کو پویلین بھیج کر ڈال دیا دھمال یوں بھارتی ٹیم کا اس اہم میچ میں برا حال ہے۔

    فائنل ٹیسٹ کے دوسرے روز جب آسٹریلیا کی ٹیم 469 رنز بنا کر آؤٹ ہوئی اور بھارتی بلے باز میدان میں اترے تو وہ مثل ایک بار پھر درست ثابت ہوئی کہ گھر کے شیر باہر ڈھیر ہوگئے۔

    پھر چاہے بھارت کے سب سے مستند بلے باز ویرات کوہلی ہوں یا کپتان روہت شرما، شبھمن گل ہوں یا پوجارا کسی کا بلا نہ گھوما بلکہ تمام موجودہ بھارتی ٹیم کے یہ تمام بڑے نام کچھ دیر میں ہی پویلین واپس چلتے بنے۔ ایسے میں جدیجہ نے کچھ ہاتھ کھولنے کی کوشش کی لیکن 48 رنز پر وہ بھی ہمت ہار گئے۔

    آج ٹیسٹ کے تیسرے روز بھارتی ٹیم اپنی پہلی نامکمل اننگ کا آغاز 151 رنز 5 کھلاڑی آؤٹ پر کرے گی اور اس کو فالو آن سے بچنے کے لیے ابھی بھی 118 رنز کا پہاڑ عبور کرنا ہے جب کہ اننگ کا 318 رنز کا خسارہ ہے ۔ کریز پر بھارتیوں کی آخری امید اجنکے رہانے کی صورت موجود ہے جو 29 رنز پر کریز پر موجود ہیں۔

    واضح رہے کہ بھارت دوسری بار ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیل رہا ہے اس سے قبل  2021 میں نیوزی لینڈ نے فائنل جیت کا بھارت کے ٹیسٹ کرکٹ میں حکمرانی کا خواب چکنا چور کر دیا تھا۔

  • وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا

    وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا

    آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا بجٹ کا مجموعی حجم 13 ہزار 800 ارب سے زائد ہوگا جس میں خسارہ 6 ہزار ارب سے زائد ہوگا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آئندہ مالی سال 2023-24 کے لیے وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا بجٹ اجلاس سہ پہر 4 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوگا، وزیر خزانہ اسحاق ڈار بجٹ پیش کریں گے۔ ذارئع کے مطابق بجٹ کا حجم 13 ہزار 800 ارب روپے سے زائد ہوگا۔ بجٹ کا خسارہ 6 ہزار ارب سے زائد ہوگا جب کہ 7300 ارب روپے قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے۔

    بجٹ کے خدوخال سے متعلق ذرائع نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکس آمدن کا تخمینہ 9200 ارب روپے رکھے جانے کا امکان ہے جب کہ نان ٹیکس آمدن کا تخمینہ 2800 ارب روپے ہوسکتا ہے۔ 1300 ارب روپے سبسڈی کے لیے مختص ہوسکتے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال ترقیاتی بجٹ 1150 ارب روپے ہوگا، صوبوں کو قومی محاصل سے 5244 ارب روپے ملنے کا تخمینہ ہے جب کہ دفاع کے لیے 1800 ارب روپے سے زائد خرچ ہونے کا تخمینہ ہے۔

    آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 20 سے 30 فیصد بڑھنے کا امکان ہے جب کہ پنشن میں بھی 20 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ ا بجٹ میں پنشن کے لیے 700 ارب روپے سے زائد رکھے جانے کا امکان ہے۔

    بجٹ میں وزارتوں کے لیے 650 ارب روپے سے زائد رکھنے کی تجویز ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کو 90 ارب روپے ترقیاتی اسکیموں کے لیے ملیں گے، وزیراعظم کی اسکیموں کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے گئے۔

    ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئندہ مالی سال کیلیے وفاقی بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کا 6.4 فیصد رہ سکتا ہے، وفاق اور صوبوں کا بجٹ خسارہ 4.8 سے 5 فیصد تک رکھنے کا تخمینہ لگایا گیا۔

    آج پیش کیا جانے والا بجٹ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا دوسرا بجٹ ہوگا۔ بجٹ اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگا جس میں کابینہ بجٹ کی منظوری دے گی۔

    قومی اسمبلی اجلاس کے بعد شام 6 بجے سینیٹ کا اجلاس ہوگا جس میں وزیر خزانہ بجٹ دستاویزات پیش کریں گے۔ سینیٹ اجلاس میں بجٹ سفارشات کے لئے قائمہ کمیٹی خزانہ کو بھجوا دیا جائے گا تاہم بجٹ کے حوالے سے سینیٹ سفارشات پر حکومت عمل درآمد کی پابند نہیں ہوتی۔

    یہ بھی پڑھیں: آئندہ بجٹ میں 700 ارب سے زائد کے نئے ٹیکسز عائد کرنے کا فیصلہ

    اس کے علاوہ بجٹ میں 700 ارب سے زائد کے نئے ٹیکسز عائد کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو آج فنانس بل پارلیمنٹ میں پیش کرے گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بجٹ تقریر میں فنانس بل کی کچھ نکات سے ایوان کو آگاہ کریں گے۔

    ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف مشاورت سے ایف بی آر کیلیے آئندہ مالی سال کیلئے 9200 ارب ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں 510 ارب کے ٹیکسز منی بجٹ سے وفاقی بجٹ کا حصہ بنیں گے جب کہ 200 ارب کے مزید نئے ٹیکسز لگائے جائیں گے۔

  • پی ٹی آئی کے زوال کے بعد نئی سیاسی صف بندی

    پی ٹی آئی کے زوال کے بعد نئی سیاسی صف بندی

    پاکستان تحریک انصاف کو ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے بطن سے ایک نئی سیاسی جماعت جنم لے سکتی ہے۔ اس زوال کا سامنا ہماری بیشتر مقبول سیاسی جماعتیں ماضی میں کرچکی ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں 9 مئی کو ہونے والے واقعات کے بعد جس تیزی سے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور بڑے سیاست داں اپنی راہیں پارٹی سے جدا کررہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی پر خزاں آچکی ہے۔ ایسے میں حسب روایت نئے سیاسی گھونسلے بن رہے ہیں اور سیاسی پرندے ان کی جانب اڑان بھر رہے ہیں۔

    9 مئی کے واقعات کی ہر مکتب فکر نے سخت مذمت کی ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ نے بھی اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جب کہ پارٹی کی جانب سے مذمت کی گئی ہے لیکن کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی محمود مولوی کے بعد پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ ہنوز جاری ہے۔ اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آرہی ہے جس میں‌ پارٹی کے بڑے اور فعال اراکین بھی شامل ہوچکے ہیں۔

    اب تک پی ٹی آئی کے اہم پارٹی عہدوں سمیت حکومت میں وفاقی وزرا کی ذمے داریاں نبھانے والی شخصیات جن میں اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری، پرویز خٹک، علی زیدی، عامر کیانی، عمران اسماعیل، جمشید چیمہ، ملیکہ بخاری، فیاض چوہان سمیت درجنوں نام شامل ہیں وہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ کچھ نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا تو کسی نے بیماری یا دیگر وجوہات کو جواز بنا کر اپنی راہیں جدا کیں جب کہ بیشتر رہنما منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔ پارٹی ترک کرنے والے جن لوگوں کے ناموں کا اوپر ذکر کیا گیا ان میں سے بیشتر کے بارے میں تو کسی کے گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ وہ خزاں کی ہوا چلتے ہی زرد پتوں کی مانند پی ٹی آئی کے درخت سے یوں جھڑ جائیں گے۔ یہ تمام پارٹی کی انتہائی فعال شخصیات تھیں اور چیئرمین پی ٹی آئی کی کچن کیبنٹ میں شامل تھیں جو خود کو عمران خان کا سایہ کہتے تھے لیکن سیانے کہہ گئے ہیں کہ مشکل وقت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور پاکستان کا سیاسی منظر نامہ آج اسی کی عکاسی کر رہا ہے۔ ان میں اسد عمر اور پرویز خٹک نے گو کہ باضابطہ طور پر صرف پارٹی عہدے چھوڑنے کا اعلان کیا پارٹی کو الوداع نہیں کہا لیکن بعض اوقات ان کہی کہانیاں بہت کچھ سنا جاتی ہیں اور آگے چل کر کئی ان کہی کہانیاں بھی سامنے آسکتی ہیں۔

    ملک کی موجودہ صورتحال میں پاکستان میں نئی سیاسی صف بندی شروع ہوچکی ہے جس کے نتائج آئندہ چند دنوں میں آنا شروع ہو جائیں گے تاہم جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پاکستان کے سیاسی مستقبل سے دھند آہستہ آہستہ چھٹتی نظر آ رہی ہے۔ ملک کی روایت کے مطابق ایک بار پھر سیاسی جماعت کے بطن سے نئی پارٹی کے جنم لینے کے امکانات قوی ہوگئے ہیں اور اس کے لیے پی ٹی آئی کے سابق رہنما جنہیں اس وقت کی اپوزیشن عمران خان کی اے ٹی ایم مشین کہتی تھی یعنی جہانگیر ترین وہ سرگرم ہوگئے ہیں۔

    ماہرین سیاسیات سیاسی جماعتوں کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ یہ ایسی تنظیمیں ہوتی ہیں جو کچھ اصولوں کےتحت قائم کی گئی ہوں اور جس کا مقصد آئینی اور دستوری طریقے سے حکومت حاصل کر کے ان اصولوں کو بروئے کار لانا ہو جن کے لئے ان تنظیموں کو منظّم کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کا شمار بدقسمتی سے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں سیاست کا سب سے بڑا اصول ذاتی مفاد اور موقع پرستی ہے، جہاں سیاستدان فائدہ سمیٹنے کے لیے موقع کے منتظر رہتے ہیں اور انہیں ایک بار پھر یہ موقع 9 مئی کے واقعات کے بعد مل گیا جس کے بعد جہانگیر ترین ہی نہیں بلکہ خود کو سب سے بڑی جمہوری جماعتیں کہنے والی جماعتیں بھی سرگرم ہوچکی ہیں۔ جہانگیر ترین تو اپنی نئی سیاسی جماعت بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ گزشتہ تین ہفتوں سے وہ اس کے لیے سرگرم اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور میں اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ ان کی مجوزہ نئی پارٹی کے کئی نام بھی میڈیا میں گردش کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ عنقریب وہ نئی جماعت کا اعلان کر دیں گے۔ ان کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والے 70 اراکین کی انہیں حمایت حاصل ہوگئی ہے اور جب یہ تعداد 100 تک جا پہنچے گی تب وہ اعلان کریں گے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے جو لوگ ان کے ساتھ مل گئے ہیں جن میں ایک نام فواد چوہدری کا بھی لیا جا رہا ہے جنھوں نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتے وقت کچھ وقت کے لیے سیاست سے وقفہ لینے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ وقفہ ایک ہفتے کا بھی نہ رہا اور گزشتہ دنوں وہ اڈیالہ جیل دیگر منحرف کارکنوں کے ہمراہ شاہ محمود سے ملنے جا پہنچے لیکن یہ گروہ انہیں پی ٹی آئی چھوڑنے پر راضی نہ کرسکا۔ عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی (نااہلی) کی صورت میں شاہ محمود قریشی پارٹی کی قیادت کریں گے تاہم کل کس نے دیکھی ہے جو رہنما پارٹی چھوڑ گئے ان کے بارے میں بھی کسی نے ایسا گمان نہیں کیا تھا تو ہوسکتا ہے کہ شاہ محمود بھی آنے والے دنوں میں پریس کانفرنس کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ تاہم کئی روز گزر جانے کے باوجود جہانگیر ترین کا پارٹی کا باضابطہ اعلان نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی مراد بَر نہیں آرہی اور بڑے نام ان کا ساتھ دینے میں ہچکچا رہے ہیں۔

    پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر آنے والے سیاستدانوں کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے صرف جہانگیر ترین ہی سرگرم نہیں ہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی انہیں گلے لگانے کو تیار ہیں اور انہوں نے اپنی پارٹی کے دروازے پی ٹی آئی کے گھونسلے سے اڑ کر آنے والے پرندوں کے لیے وا کر دیے ہیں۔ پی پی پی اس حوالے سے خاصی سرگرم ہے جنوبی پنجاب سے کئی لوگ اس میں شامل ہوچکے ہیں اور اس کی جانب سے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں تاہم ن لیگ کی جانب سے دو رائے پائی جاتی ہیں۔ اکثریت پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والے یا جہانگیر ترین گروپ سے آنے والوں کو پارٹی میں لینے کو خسارے کا سودا قرار دے رہی ہے اور اس کا جواز وہ گزشتہ سال جولائی میں پنجاب کے 20 حلقوں میں ہونے والی ضمنی الیکشن کو بتا رہی ہے جس میں پی ٹی آئی کے منحرف لوگوں کو ٹکٹ دیے تو ن لیگ کا صفایا ہوگیا تھا۔ دوسرا ن لیگ کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ وہ پی ٹی آئی والوں کو خوش آمدید کہتی ہے تو اپنے پرانے ورکرز کو کیا کہے گی کہ جو ایک دوسرے کے خلاف گند اچھالتے رہے وہ اب کیسے ہم نوالہ ہم پیالہ ہوں گے۔ لیکن یہ سیاست ہے اور سیاست میں کون کب دوست سے دشمن اور دشمن سے دوست بن جائے اس کا فیصلہ مفادات کرتے ہیں جیسا کہ موجودہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کی تشکیل ہے۔

    ادھر صورتحال یہ ہے کہ جو پریس کانفرنس کرکے پی ٹی آئی پر تبرا بھیج کر اسے چھوڑنے کا اعلان کر رہا ہے وہ رہائی پا رہا ہے لیکن جو اس سے انکار کر رہا ہے وہ رہائی پانے کے بعد دوبارہ گرفتار ہو رہا ہے۔ شہریار آفریدی اس کی ایک مثال ہے جب کہ پی ٹی آئی کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الہٰی جو کچھ ماہ قبل ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت قانونی کارروائیوں میں بھی تیزی آگئی ہے۔ عدالت انہیں ایک کیس سے بری کرتی ہے تو پولیس دوسرے کیس کی فائل لیے عدالت کے باہر ان کی گرفتاری کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف حتیٰ کہ عمران خان کو چھوڑ کر نہ جانے والے پارٹی رہنماؤں کیلئے بھی حالات غیر یقینی ہیں۔ تاحال ان کے ساتھ کھڑے رہنماؤں کو اپنے چیئرمین کے نمایاں ووٹ بینک کا احساس ہے۔ یہ صورتحال پی ٹی آئی میں موجود کئی لوگوں کو اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ لوگ عمران خان کے ووٹ چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ مائنس عمران فارمولے کا نتیجہ کیا نکلے گا اور اس سے ان لوگوں کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

    اسی سیاسی کشمکش کی صورتحال میں سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 قانون بن گیا۔ اس ایکٹ کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت فیصلوں پر نظرثانی کا دائرہ کار آرٹیکل 185 کے تحت ہوگا اور نظرثانی درخواست کی سماعت فیصلے کرنیوالے بینچ سے بڑا بینچ کرے گا۔ مذکورہ بل کے تحت 184/3 کے تحت سابق فیصلوں پر کسی بھی ملزم کو دی گئی سزا پر نظرثانی کا اختیار مل جائے گا۔ ایکٹ کے اطلاق کے بعد ماضی کے فیصلوں پر نظرثانی درخواست 60 دن میں دائر ہوسکتی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی اپیل دائر کرسکیں گے۔موجودہ سیاسی تناظر میں اس ایکٹ کا قانون بننا بھی مستقبل کا منظر نامہ بنا رہا ہے اور لگتا ہے کہ مریم نواز جو لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتی رہی ہیں وہ لیول پلیئنگ فیلڈ انہیں ملنے والی ہے۔

    پی ٹی آئی میں جو آج ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے یہ پاکستان میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے اور تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ پاکستان۔ ماضی میں کئی مواقع پر تقریباً ہر سیاسی جماعت کے اندر سے نظریہ ضرورت کے تحت یا تو نئی جماعتیں نکالی گئیں یا پھر ان پارٹیوں میں رہنماوٗں کے باہمی اختلافات نے تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر عمل کرایا۔ اس کی واضح مثال ری پبلکن پارٹی کا قیام تھا، جو ملک میں ون یونٹ کے قیام کی راہ ہموار کرنے کیلئے راتوں رات تخلیق کے عمل سے گزری اور اگلے روز ایک ایسی حکومت قائم ہوتے دیکھی گئی جس نے ون یونٹ کے قیام کو ممکن بنایا۔

    ایوب خان کو اپنے آمرانہ دور حکومت کو دوام بخشنے کے لیے جب سیاسی حلقوں کی مدد کی ضرورت پڑی تو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو دو حصوں میں کنونشن لیگ اور کونسل لیگ کے نام سے تقسیم کیا گیا۔ جس کے بعد مسلم لیگ اتنی بار تقسیم ہوئی کہ شاید لیگیوں کو ہی معلوم نہ ہو کہ وہ کتنی تقسیم و ’’تطہیر‘‘ کے عمل سے گزری۔ ضیا الحق کے مارشل لا دور میں جب محمد خان جونیجو کو متحدہ مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ ہوا تو اس کے بطن سے مسلم لیگ فنکشنل نے جنم لیا اور جب ضیا الحق کی نواز شریف کو ملنے والی آشیرباد سے مسلم لیگ پر نواز شریف کا تسلط قائم ہوا تو جونیجو لیگ قائم ہوئی۔ ن لیگ بعد میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر چھا گئی اور اس وقت چوتھی بار وفاق میں حکومت کر رہی ہے۔ اس ن لیگ کو مشرف مارشل لا میں ٹوٹ پھوٹ کا سامنا رہا ہے اور اسے توڑ کر پہلے ہم خیال اراکین کے روپ میں ڈھالا گیا پھر ق لیگ بنائی گئی جو کنگ پارٹی کے نام سے مشہور ہوئی جبکہ پیپلز پارٹی کے بطن سے پیٹریاٹ نے جنم لیا۔ آج یہ جنم شدہ پارٹیاں کہاں ہیں اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کیا مقام رکھتی ہیں یہ سیاسی کھیل کھیلنے والوں کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے اگر حاصل کیا جائے تو۔ باقی مسلم لیگ کو جو گروپ ضیا لیگ، آل پاکستان مسلم لیگ، مسلم لیگ عوامی یا دیگر ناموں کے ساتھ سامنے آئے ان کی حیثیت تانگہ پارٹی سے زیادہ کچھ نہیں اور اگر سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں سوائے شیخ رشید کے کوئی اور سیاسی فوائد نہ سمیٹ سکا۔ صرف مرکزی دھارے میں موجود پارٹیاں ہی نہیں بلکہ عوام نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جے یو آئی، جے یو پی بھی تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزر چکی ہیں ملکی افق پر ایک واحد سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے جو تاحال کسی تقسیم کا شکار نہیں ہوئی اور ایک نظم و ضبط کے ساتھ سیاست کررہی ہے۔

    پاکستان کی تاریخ میں اب تک 21 وزیراعظم آئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے 5 سال کی مدت پوری کی ہو لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ بھی کئی اور سیاستدان ہیں جو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور اقتدار سے فیضیاب ہونے کے لیے غیر آئینی اقدامات کے ہم قدم ہو جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں تاریخ کا ذکر ضرور کرتی ہیں لیکن جب تاریخ سے سبق سیکھنے کا وقت آتا ہے تو مفادات کے حصول کے لیے سبق حاصل کرنے کے بجائے بغلیں جھانکنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا چلنا بہت مشکل کام نہیں ہے لیکن یہاں کی سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ملک نہ صرف دو لخت ہوا بلکہ اپنی درست سمت کھوتے ہوئے انتشار، افراتفری اور غربت کی طرف چلا گیا۔

    آج ملک کی جو بھی سیاسی صورتحال ہے پرانی نسل ری پلے دیکھ رہی ہے لیکن نئی نسل الجھن کا شکار ہے۔ صاحب اختیار جان لیں کہ وقت کا جبر زبان تو خاموش کرا سکتا ہے لیکن تاریخ کی آنکھ بند ہوتی ہے اور نہ قلم رُکتا ہے اور جب تاریخ کا یہ سچ سامنے آتا ہے تو بہت کم لوگوں کو ہضم ہوتا ہے۔ آج جو بھی اقتدار کے لالچ میں جھولیاں پھیلا رہے ہیں ان کا ماضی یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی جھولیوں میں ہمیشہ چھید ہوتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں جب اقتدار کے اولے برستے ہیں تو جھولی اس وقت بھر ضرور جاتی ہے لیکن جب وقت کی تپش ان کو پگھلاتی ہے تو ساری برف پانی بن کر ان چھیدوں سے بہہ جاتی ہے اور پھر جھولی خالی رہ جاتی ہے یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے لیکن تاریخ سے سبق کم ہی سیکھا جاتا ہے۔

  • امریکا میں محمد رضوان کی اذان اور سڑک کنارے نماز کی ادائیگی، ویڈیوز وائرل

    امریکا میں محمد رضوان کی اذان اور سڑک کنارے نماز کی ادائیگی، ویڈیوز وائرل

    قومی وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان امریکا میں دین اسلام کے سفیر بن گئے ان کی اذان دینے اور سڑک کنارے نماز پڑھنے کی ویڈیوز وائرل ہوگئیں۔

    قومی کپتان بابر اعظم اور وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان جو ان دنوں ہارورڈ بزنس اسکول کے ایگزیکٹو ایجوکیشن پروگرام کے سلسلے میں امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ اسٹار وکٹ کیپر بلے باز اپنے قیام کے دوران امریکا میں اسلام کے سفیر بن گئے ہیں۔

    محمد رضوان جنہوں نے گزشتہ دنوں ہارورڈ میں اپنی ٹیچر کو قرآن پاک کا تحفہ پیش کیا تھا اب سوشل میڈیا پر ان کے اذان دینے اور سڑک کنارے نماز پڑھنے کا چرچا ہے۔

    سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں ایک میں وہ اذان دیتے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں جب کہ دوسری ویڈیو میں وہ دوران سفر نماز کا وقت ہونے پر کار روک کر سڑک کنارے نماز کا فریضہ ادا کرتے نظر آ رہے ہیں۔

    امریکا میں قیام کے دوران دین اسلام کا سفیر بننے اور فرائض کی ادائیگی سمیت تبلیغ دین کرنے پر ان کے پرستاروں سمیت صارفین کی بڑی تعداد محمد رضوان کی گرویدہ ہوگئی ہے۔

    ان کی اذان دینے اور سڑک کنارے نماز کی ادائیگی کی ویڈیو کو صارفین کی بڑی تعداد دیکھ کر ان کے دینی جذبے کو سراہ رہی اور نوجوانوں کے لیے مشعل راہ قرار دے رہی ہے۔

     

    واضح رہے کہ اس سے قبل محمد رضوان نے ہارورڈ بزنس اسکول کی اپنی انگریز استانی کو قرآن پاک کا تحفہ بھی دیا تھا۔

  • بلدیاتی ایوان کو  قائد کاانتظار، عوام مسائل کے حل کے لیے پُرامید

    بلدیاتی ایوان کو قائد کاانتظار، عوام مسائل کے حل کے لیے پُرامید

    پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کئی سال کی تاخیر کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر سالِ رواں میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے جو چند دن قبل ضمنی انتخاب کے ساتھ ہی مکمل ہوگئے ہیں اب مرحلہ ہے شہر قائد پر کے میئر کے انتخاب کا!

    میئر کراچی کے لیے بالخصوص سندھ پر 15 سال سے مسلسل حکم رانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور تین بار کراچی میں اپنا ناظم و میئر لانے والی جماعتِ اسلامی سرگرم نظر آرہی ہیں۔ اس حوالے سے دونوں طرف سے سیاسی کوششوں کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری اور روایتی الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
    الیکشن کمیشن نے بلدیاتی الیکشن میں پارٹی پوزیشن کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس کے مطابق پیپلز پارٹی شہر قائد کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور کراچی کی 246 یونین کمیٹیوں میں سے 104 پر کامیاب ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی 87 یوسیز جیت کر دوسرے نمبر پر ہے جب کہ پی ٹی آئی 42 یوسی پر فتح حاصل کر پائی اور تیسرے بڑی پارٹی قرار پائی۔ ن لیگ 8، جے یو آئی (ف) 3 جب کہ ٹی ایل پی ایک نشست جیتنے میں کامیاب رہی۔

    کراچی میں نئے بلدیاتی ڈھانچے کے مطابق کے ایم سی کا ایوان 367 ارکان پر مشتمل ہے جس میں 246 ارکان براہ راست منتخب کیے گئے یوسی چیئرمین ہیں جب کہ 121 ارکان مخصوص نشستوں پر پارٹی نمائندگی کی بنیاد پر منتخب ہوں گے۔ ایوان میں خواتین کی 81، مزدوروں، اقلیتوں اور نوجوانوں کی 12، 12 اور خواجہ سرا اور خصوصی ارکان کے لیے 2، 2 نشستیں ہیں۔

    الیکشن کے نتائج یقینی طور پر حیران کن ہیں، کیونکہ پاکستان اور پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ میں کبھی اس شہر کے ووٹروں نے پیپلز پارٹی کو قبولیت کی اتنی بھاری سند نہیں دی ہے۔ ان نتائج پر جہاں شہری انگشت بدنداں ہیں وہیں جماعت اسلامی، پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں حتیٰ کہ وفاق میں اتحادی جے یو آئی ف نے بھی پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے اور پھر ووٹنگ کے وقت کی جو ویڈیوز ملکی ذرایع ابلاغ پر دکھائی گئیں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں ان کو دیکھتے ہوئے تو یہ الزامات غلط بھی نظر نہیں آتے۔

    چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری تو بلدیاتی الیکشن سے قبل ہی اپنا کراچی میئر لانے کے دعوے کرتے تھے۔ وہ واضح سادہ اکثریت تو نہ لاسکے لیکن پی پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ضرور سامنے آئی ہے ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ یہ کہہ چکے تھے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے میئر منتخب ہوں گے یعنی عملی طور پر پی پی کا راج نچلی سطح تک ہوگا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت تن تنہا اپنا میئر لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ کسی بھی جماعت کو اپنا میئر لانے کے لیے 184 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ پیپلز پارٹی گو کہ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے شہر قائد کے میئر کے لیے مرتضیٰ وہاب کو نامزد کیا ہے تاہم اگر وہ اپنی وفاق میں اتحادی ن لیگ، جے یو آئی ف کے علاوہ ٹی ایل پی کی ایک سیٹ کو بھی ساتھ ملا لے تب بھی اپنا میئر لانے کی پوزیشن میں نہیں جب تک کہ مخالف پارٹی میں اکھاڑ پچھاڑ کر کے اپنی منشا پوری نہ کی جائے جس میں 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے کوئی مشکل بھی نظر نہیں آتی۔

    دوسری جانب جماعت اسلامی جس کی جانب سے میئر کے امیدوار حافظ محمد نعیم ہیں وہ اگر پی ٹی آئی سے اتحاد کر لیتے ہیں تو ان کا ناظم باآسانی آسکتا ہے جیسا کہ میڈیا میں خبریں بھی آ رہی ہیں کہ دونوں جماعتوں میں اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔

    جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں لفظی گولہ باری جاری ہے اور دونوں جانب سے الزامات اور اپنا میئر لانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ شہر کراچی کی کنجی کس کے ہاتھ ہوگی، یہ وقت دور نہیں۔ ہم نظر ڈالتے ہیں کراچی میں بلدیاتی اداروں کی تاریخ پر جو قارئین کی دلچسپی کا باعث بنے گا۔

    شہر کراچی گوناگوں معاشی‘ صنعتی‘ تعلیمی‘ تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے سبب دنیا بھر میں اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے۔ اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ دنیا کے 78 ملکوں کی مجموعی آبادی اس شہر کی آبادی سے کم ہے۔

    برصغیر پاک و ہند میں بلدیاتی نظام کی ابتدا جن شہروں سے ہوئی کراچی ان میں سے ایک ہے۔ یہاں 176 سال سے زیادہ عرصہ سے بلدیاتی نظام قائم ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف ادوار میں 7 بلدیاتی نظام نافذ کیے گئے۔ 17 فروری 1843ء کو لیفٹیننٹ جنرل سر چارلس نیپئر کی قیادت میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا تو وہ سندھ کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے پھر انگریزوں نے 100 سال کے دوران بلدیات کے حوالے سے کئی اصلاحات کیں جن سے کراچی اس دور میں ایک جدید شہر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ شہر کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1939ء میں کراچی میں میئرز کانفرس کا انعقاد کیا گیا جس میں برما اور دوسرے ملکوں کے میئرز نے شرکت کی اور یہ کراچی میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں آنے والے میئرز نے کراچی کی ترقی کو سراہا اور شہریوں کے لیے نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا۔ تاہم شہر قائد میں باقاعدہ بلدیاتی حکومت کا آغاز 1933 سے ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہر بڑا ہوا تو نظام میں تبدیلی بھی کی جاتی رہی۔ کراچی بندرگاہ پر تجارتی سر گرمیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو 1933 میں انگریز حکمرانوں نے سٹی آف کراچی میونسپل ایکٹ نافذ کیا، برطانوی راج نے دیہی شہری تقسیم کو مقامی سطح پر متعارف کرایا۔ شہری کونسلیں میونسپل سروسز کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں جبکہ دیہی کونسلوں کو مقامی اشرافیہ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ جمشید نسروانجی کراچی کے پہلے میئرمنتخب ہوئے جو آج بھی جدید کراچی کے بانی کہلاتے ہیں۔ ابتدائی طور پر میونسپل کارپوریشن میئر، ڈپٹی میئر اور 57 کونسلرز پر مشتمل تھی ، اس نظام میں عملی طور پر ڈپٹی کمشنر انتظامی طور پر با اختیار تھا۔

    1947 میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہاں بلدیاتی نظام پہلے سے موجود تھا اس وقت کراچی کی آبادی 3 لاکھ کے قریب تھی اور بنیادی سہولتیں میسر تھیں، ہر صبح کراچی کی سڑکوں کو دھویا جاتا تھا۔ شام گئے روشنی کے لیے مٹی کے تیل سے چراغ روشن کیے جاتے تھے۔ سڑکوں پر بگھی‘ گھوڑا گاڑی‘ اونٹ گاڑی کے ساتھ ساتھ ٹرام سروس اور بسوں کا نظام بھی تھا۔

    قیام پاکستان کے وقت حکیم محمد احسن کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے بحیثیت میئر کراچی ایئرپورٹ پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا استقبال کیا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 1933ء کے ایکٹ کے تحت میئر کے عہدے کی مدت ایک سال مقرر تھی۔ اس وقت کراچی میں مسلمان ‘ ہندو اور پارسی رہائش پذیر تھے اور یہ طے کیا گیا تھا کہ ایک سال میئر پارسی‘ ایک سال ہندو اور ایک سال مسلمان ہوگا۔ تاہم جب قیام پاکستان کے بعد ہندوؤں کی بڑی تعداد بھارت ہجرت کرگئی تو یہ ایکٹ تبدیل کر دیا گیا۔

    25 اگست 1947 کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو شہری استقبالیہ دیا گیا جس میں وزیراعظم لیاقت علی خان اور مادر ملت فاطمہ جناح بھی شریک تھیں۔ اس موقع پر میئر حکیم محمد احسن نے بلدیہ کو درپیش خاص خاص مسائل قائداعظم کے سامنے پیش کیے تھے۔ رئیس بلدیہ کا یہ سپاس نامہ اپنے محبوب قائد اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل سے بلدیہ کراچی کے اختیارات میں توسیع کا مطالبہ تھا۔ اس کے بعد بھی آنے والے میئر کراچی بھی ان ہی اختیارات کا مطالبہ کرتے رہے۔

    1958 میں جنرل ایوب خان نے بیسک ڈیمو کریسی (بی ڈی) کا نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروائے گئے۔ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے ضلعی بیوروکریسی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ یہ نظام 2 اداروں پر مشتمل تھا۔ کراچی میونسپل کارپوریشن اور ڈویژنل کونسل تاہم 1973 میں یہ نظام ختم کر دیا گیا۔ 1973 میں سندھ حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1976 میں بڑھتی آبادی کے ساتھ ہی اس کو بلدیہ کراچی سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کا درجہ دے دیا گیا اور ایکٹ میں ایک ترمیم کے ذریعے کراچی کو ڈویژن قرار دیتے ہوئے 4 اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا جنہیں کراچی ضلع شرقی، ضلع غربی، ضلع جنوبی اور کراچی سینٹرل کے نام دیے گئے بعد ازاں 90 کی دہائی میں ملیر ضلع کے نام سے ایک اور ضلع کا اضافہ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے بلدیات میں بیورو کریسی کے کردار کو ختم کر دیا گیا تھا اور براہ راست انتخابات کے ذریعے اراکین کی نمائندگی فراہم کی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ اس نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہو سکے۔ 1979 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق مرحوم نے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس متعارف کروایا جو مشرف دور کے آغاز تک قائم رہا۔

    جنوری 2000 میں اس وقت کی جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے لوکل گورنمنٹ آرڈینس پاکستان نافذ کیا۔ اس نظام کے تحت کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ وجود میں آئی۔ کراچی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو 18 ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا اور اس نظام کے تحت میئر کراچی کو انتظامی حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا اور اس کا عہدہ ناظم میں تبدیل کیا گیا۔ اس نظام کے تحت پہلی بار ضلعی بیورو کریسی منتخب نمائندوں کے سامنے جوابدہ تھی۔ اس بلدیاتی نظام میں ٹاؤن اور یو سی کی سطح پر منتخب میونسپل انتظامیہ پانی، صفائی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور سڑکوں، پارکوں، اسٹریٹ لائٹس کی تعمیر و مرمت اور ٹریفک انجینئرنگ کی منصوبہ بندی کر سکتی تھی تاہم 14 فروری 2010 کو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس اور کراچی سٹی گورنمنٹ کو ختم کر دیا۔

    2013 طویل انتظار کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کرایا گیا اور عدالت عظمیٰ کے حکم پر ہی 2015 میں ایس ایل جی اے کے تحت کراچی میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں میئر اور ڈپٹی میئر اور شہر کے چھ اضلاع میں چیئرمین منتخب ہوئے۔ جن میں نیا ضلع کورنگی شامل تھا بعد ازاں کراچی میں کیماڑی کے نام سے ایک اور ضلع کا اضافہ کیا گیا جو تاحال آخری اضافہ ہے۔

    2013 کے اس بلدیاتی قانون میں متعدد بار ترامیم کی گئیں اور اسی کی بنیاد پر شہر کراچی کی بلدیاتی حد بندی بھی کی گئی جس پر ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے احتجاج کیا بلکہ ایم کیو ایم نے تو اس کو جواز بناتے ہوئے حالیہ بلدیاتی الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا جس کے باعث ملک کے سب سے بڑے شہر پر راج کرنے والی ایم کیو ایم کی آج کراچی کے بلدیاتی ایوان میں نمائندگی زیرو ہے اور چار دہائی بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کے ایم سی کا ایوان ایم کیو ایم کی نمائندگی کے بغیر ہوگا۔

    پیپلز پارٹی نے کراچی کے لیے مرتضیٰ وہاب کو میئر کا امیدوار نامزد کیا ہے تاہم وہ براہ راست منتخب ہوکر نہیں آئے ہیں اس لیے ان کے میئر کا انتخاب لڑنے کی گنجائش نکالنے کے لیے اب اس میں ایک اہم ترمیم اور کی گئی ہے اور پیپلز پارٹی نے جو مشرف کے بلدیاتی نظام 2002 کی سخت مخالف رہی ہے اب اسی قانون کے مساوی ایک ترمیم کر ڈالی جس کی سندھ کے ایوان نے منظوری دے دی جس کے تحت اب غیر منتخب شخص بھی میئر بننے کا اہل ہوگا۔

    1956 تک اس شہر کے 20 میئر منتخب ہوئے پھر اس کے بعد یہ سلسلہ طویل مدت تک رک گیا۔ 1979 میں عبدالستار افغانی جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا وہ دو بار میئر منتخب ہوئے۔ 1988 میں ایم کیوایم کے 28 سالہ ڈاکٹر فاروق ستار میئر کراچی منتخب ہوئے جن کو اس وقت کراچی کے کم عمر ترین میئر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، 1992 میں انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد 9 سال تک پھر کراچی بغیر بلدیاتی اداروں کے بیوروکریسی کے سہارے چلتا رہا، 9 سال بعد جب 14 اگست 2001 میں مشرف حکومت نے نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا تو کراچی کی قسمت سنور اٹھی۔ اس نظام کے تحت جماعت اسلامی کے نعمت اللہ ایڈووکیٹ شہر قائد کے پہلے ناظم اور 23 ویں میئر منتخب ہوئے اور ان کا دور ترقیات کے حوالے سے شہریوں کے ذہن ودلوں میں ہمیشہ خوشگوار یاد بن کر رہے گا۔ ان کے بعد 2005 میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال ناظم کراچی منتخب ہوئے تو ترقی کا سفر مزید تیزی سے جاری رہا اور کراچی شہر کا نقشہ بدل گیا۔ مصطفیٰ کمال کی صلاحیتوں کو بین الاقوامی طور پر بھی سراہا گیا اور ان کا شمار دنیا کے بہترین میئرز (ناظم) میں کیا گیا۔

    2010 میں جب مصطفیٰ کمال اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوئے تو 5 سال تک یہ شہر پھر بلدیاتی نمائندوں سے محروم رہا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن ہوئے اور متحدہ کے نامزد وسیم اختر نئے بلدیاتی قانون کے تحت میئر کراچی منتخب ہوئے لیکن یہ دور شہریوں کے لیے کوئی خوشگوار دور نہیں کہلائے گا کیونکہ اس دور میں شہر اور شہریوں نے ترقی کے بجائے صرف گلے شکوے، اپنے سابقہ اتحادیوں سے رنجشوں اور محرومیوں اور بے اختیاری کا رونا روتی پریس کانفرنسوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔

    سیاسی جوڑ توڑ ہو یا کوئی اتحاد، میئر پیپلز پارٹی کا ہو یا جماعت اسلامی کا، شہر کو ایسا میئر چاہیے جو سیاسی اور لسانی تعصب سے بالاتر ہوکر اس شہر کی وہ خدمت کرسکے کہ اس کا نام تاریخ میں درج ہوسکے لیکن یہ اس وقت تک سوال ہی رہے گا جب تک اہل کراچی اپنی آنکھوں سے کراچی کی تقدیر سنورتے نہ دیکھ لیں۔ شہریوں کے ذہنوں میں تو یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا کراچی کو دہائیوں سے درپیش مسائل جو مسلسل نظر انداز کیے جانے اور بلدیات سے متعلق اداروں کی تقسیم در تقسیم سے انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کرچکے ہیں وہ حل ہوسکیں گے۔ نیا میئر کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کا درجہ دلا سکے گا یا یہ دورانیہ بھی سابقہ ادوار کی کوتاہیاں گنتے اور اپنی مجبوریاں بیان کرتے ہی گزرے گا۔

  • دنیا کے مہنگے ترین برگر، قیمت جان کر ہوش ہی نہیں بھوک بھی اڑ جائے!

    دنیا کے مہنگے ترین برگر، قیمت جان کر ہوش ہی نہیں بھوک بھی اڑ جائے!

    آپ نے ہوٹلوں میں مہنگے ترین کھانے کھائے ہوں گے لیکن ہم یہاں آپ کو دنیا کے وہ مہنگے ترین برگرز بتا رہے ہیں جن کی قیمت جان کر صرف ہوش ہی نہیں بلکہ آپ کی بھوک بھی اڑ جائے گی۔

    دنیا میں دو طرح کے لوگ موجود ہیں جن میں ایک کے لیے خوراک صرف ضرورت تو دوسرے طبقے کے لیے ضرورت کے ساتھ اسٹیٹس سمبل بھی ہے ایسے ہی لوگوں کے لیے مختلف ممالک میں آئے روز مہنگے ترین کھانے متعارف کرائے جاتے ہیں تو آج ہم بھی آپ کو دنیا میں فروخت کیے جانے والے ایسے مہنگے ترین برگرز کے بارے میں بتائیں گے جس کی قیمت سن کر ہمیں یقین ہے کہ نہ صرف آپ کے ہوش بلکہ بھوک بھی اڑ جائے گی۔

    ساڑھے 17 لاکھ روپے والا برگر:

    دنیا کا مہنگا ترین برگر فروخت کرنے کا آفیشل اعزاز ہالینڈ کو حاصل ہے جہاں وور تھوئزن میں واقع ’’ڈی ڈالٹنس‘‘ ریسٹورینٹ میں اس کو تیار اور فروخت کیا جاتا ہے۔ اس کی قیمت 6 ہزار امریکی ڈالر (پاکستانی لگ بھگ ساڑھے 17 لاکھ روپے) ہے۔

    قیمت کی طرح اس کا نام بھی منفرد ہے اور اس برگر کو ’’گولڈن بوائے‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ برگر بڑے کیکڑے (کنگ کریب)، وائٹ ٹرفل اور دیگر مزیدار اجزا سے بنایا جاتا ہے۔

    اس برگر کے خالق ریسٹورینٹ کے مالک رابرٹ جان ڈی وین ہیں جنہوں نے ایک نیک مقصد کے تحت اتنا مہنگا برگر بنایا اور وہ ہے اس برگر کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو فلاحی کاموں پر خرچ کرنا اور انہوں نے اس کی آمدنی غریب ممالک میں پانی کے منصوبوں کو عطیہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

    گولڈن بوائے نامی اس برگر میں مہنگے ترین اجزا شامل ہیں اس کو سونے کے ورق میں لپیٹا گیا ہے اس میں استعمال ہونے والا گوشت دنیا کا مہنگا ترین گوشت ہے جو جاپان سے درآمد کیا جاتا ہے، پھر بن کو شیمپین میں ڈبو کر سکھایا جاتا ہے اور اس پر زعفران بھی ڈالی جاتی ہے بعد ازاں تیاری پر بطخ کے انڈوں سے تیار کردہ مایونیز کا تڑکا لگایا جاتا ہے۔

     

    رپورٹ کے مطابق اس برگر کے کھانے کے خواہشمند افراد کو کم از کم دو ہفتے قبل گولڈن بوائے برگر کا آرڈر دینا ہوگا۔

    صرف 2 لاکھ روپے میں اس برگر کے مزے اڑائیں:

    امریکا کے ایک ریسٹورینٹ میں 700 ڈالر (پاکستانی دو لاکھ روپے سے زائد) میں ہیم برگر فروخت کیا جاتا ہے۔

    امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہر فلیڈیلفیا کے ڈروری بیئر گارڈن میں فروخت کیے جانے والے اس برگر کو بھی سونے کے ورق میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کا نام ویگیومیٹ برگر رکھا گیا ہے۔

    اس برگر کی تیاری میں مچھلی کے انڈوں کا اچار، تازہ سیاہ ٹرفل، لوبسٹر فلیم 700 بیڈ (ایک مخصوص طریقے سے بنایا گیا جھینگا) استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اس کو تیاری کے بعد آئرش پنیر اور شہد سے سجایا جاتا ہے جب کہ اس کے ساتھ فرائز بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

    ڈھائی لاکھ روپے کا برگر:

    جاپانی شہر ٹوکیو کے اوک ڈور اسٹیک ہاؤس میں بھی دنیا کے مہنگے ترین برگرز میں سے ایک برگر تیار کیا گیا جسے جاپان کے مشہور شیف پیٹرک شیماڈا نے تیار کیا ہے۔ اس برگر کی قیمت 700 برطانوی پاؤنڈ یا موجودہ پاکستانی مالیت ڈھائی لاکھ روپے ہے۔

    برگر کے بن میں سونے کے انتہائی باریک ذرات شامل ہیں اور پورے برگر کا وزن بھی ایک کلو سے زیادہ ہے۔ اس میں جاپانی نسل کی گائے کا مشہور ویگیو بیف استعمال کیا گیا ہے۔ ایک اور مہنگی شے بطخ کے جگر کا پیسٹ ہے جسے جاپان میں ایک مہنگا کھاجا سمجھا جاتا ہے۔ سجاوٹ کےلیے اس اعلیٰ معیاری سلاد، ٹماٹر، پیاز اور دیگر اشیا شامل کی گئی ہیں۔

    تاہم یہاں قارئین کو بتاتے چلیں کہ یہ بیش قیمت برگر ہر ایک کے لیے دستیاب نہیں بلکہ 2019 میں بطورِ خاص جاپانی ولی عہد پرنس ناروہیٹو کی رسمِ تاج پوشی کی خوشی میں تیار کیا گیا تھا۔

  • کراچی: کوئی نوحہ سننے کو تیار نہیں!

    کراچی: کوئی نوحہ سننے کو تیار نہیں!

    کراچی پاکستان کا سب سے بڑا، کثیر قومی اور کثیر ثقافتی شہر ہے۔ اس شہر میں پاکستان کے ہر گوشے کا عکس نظر آتا ہے اور اسی خصوصیت کے پیشِ نظر یہ منی پاکستان بھی کہلاتا ہے۔ یہ شہر عروسُ البلاد اور روشنیوں کا نام سے بھی ہر پاکستانی کے ذہن میں محفوظ ہے۔

    کراچی شہر جتنا بڑا ہے اس کی تاریخ بھی اتنی ہی وسیع ہے، یعنی اس کے پھلنے پھولنے اور عروج پانے اور پھر زوال کی جانب گامزن ہونے کی تاریخ۔ یہ لگ بھگ چار صدی پرانا قصہ ہے۔ ان چار صدیوں میں اس شہر نے ہر ایک کو اپنے دامن میں پناہ دی، روزگار دیا۔ کراچی سب کا بنا لیکن کراچی کا کوئی نہ بن سکا۔ کراچی ہمارا ہے کے دعویدار تو پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن اپنے دعوؤں کا پاس رکھنے اور اس کے لیے عملی اقدامات کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔

    کراچی آج جیسا نظر آتا ہے ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ مچھیروں کی بستی سے دنیا کا اہم ساحلی اور تجارتی شہر بننے میں کراچی نے زمانے کے کئی سرد و گرم سہے، تھپیڑے برداشت کیے، غیروں کی اپنائیت کو محسوس کیا تو اپنوں کا ظلم اور زیادتی بھی دیکھی۔ نظر انداز کیے جانے کا دکھ ہمیشہ اس کی کوکھ میں پلتا رہا۔ لگ بھگ چار صدی قبل بلوچ مائی ’’کولانچ‘‘ نامی علاقے سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی۔ اسی نسبت سے اس کو مائی کولاچی کہا جانے لگا اور یہی تعلق شہر کو کولاچی کا ابتدائی نام دے گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب دنیا کے نقشے پر کراچی کے نام سے موجود ہے۔

    1772 میں کولاچی کو بحرین اور مسقط کے ساتھ تجارت کرنے کیلیے بندرگاہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ یہ شہر جب آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تو یہاں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ شہر کی حفاظت کے لیے اس کے گرد فصیل تعمیر کی گئی جس پر نصب کرنے کے لیے دو توپیں مسقط سے درآمد کی گئیں۔ اس کے دو دروازے تھے، ایک سمندر کی طرف اور اس کے مخالف سمت اور یہ دونوں دروازے آج کے شہر کے مشہور علاقے کھارا در اور میٹھا در کے نام سے مشہور ہیں۔

    18 ویں صدی کے اختتام تک شہر کی بندرگاہ کی کامیابی کے بعد اس کی آبادی میں بھی اضافہ ہونے لگا اور اس کی ترقی نے ہر ایک کی نظریں اس پر مرکوز کردیں اور لوگ یہاں کھنچے آنے لگے۔ جب سب کی نظریں یہاں تھیں تو ایسا کیسے ہوتا کہ برصغیر پر قابض انگریز کی نظروں سے یہ محفوظ رہتا۔ انگریزوں نے اس پر بھی قبضہ جما لیا لیکن اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کام بھی کیا۔ 1839 میں اسے ایک ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔

    بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی اس شہر میں آنکھ کھولی تاہم ان کی پیدائش تک یہ شہر اپنے دور کا ایک ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا جس میں ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ تھی۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو برصغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اسی دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔

    کراچی اپنے محل وقوع، آب و ہوا اور ہر ایک کے لیے اپنی بانہیں وا کر دینے کی صفت کے باعث آہستہ آہستہ مچھیروں کی بستی سے ایک تجارتی مرکز بنتا گیا جس کے پاس ایک بڑی بندرگاہ تھی۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔ 1881 میں اس شہر کی آبادی 115407 تھی۔ 1936 میں سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا اور صوبے کا درجہ ملا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی کو دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس وقت اس کی آبادی 4 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔

    قیام پاکستان سے قبل کراچی تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اور اس کی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ڈینسو ہال، فریئر ہال، کراچی جم خانہ، این ای ڈی کالج، ڈاؤ میڈیکل کالج، ٹرام چلتی تھی۔ انڈر گراؤنڈ ریلوے کے لیے پلان اتنا منظم اور ترقی یافتہ تھا کہ مختلف ممالک کے سفیر اس بات پر شرط لگاتے تھے کہ کراچی، نیویارک اور لندن کون سا شہر تیزی ترقی کرے گا اور سب کا خیال تھا کہ کراچی سب سے زیادہ ترقی کرے گا اور وہ اس کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا مستقل مسکن بنانے کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ آج تو معمولی بارش سے کراچی کی سڑکیں دریا کا منظر پیش کرتی ہیں لیکن ان دنوں بارش کے آدھے پون گھنٹے میں پانی سڑکوں سے صاف ہوجاتا تھا۔

    موجودہ کراچی میں سانس لینے والوں کو شاید یقین نہ آئے کہ یورپی خواہش رکھتے تھے کہ کراچی سے کنکٹنگ فلائٹ ہو اور جب کنکٹنگ فلائٹ کراچی میں لینڈ کرتی تو غیرملکی ایئرپورٹ سے کرائے پر سائیکلیں لے کر ایمپریس مارکیٹ صدر سے خریداری کا شوق پورا کرتے تھے۔ یہ اپنے دور کا اتنا معاشی ترقی یافتہ شہر تھا کہ قیام پاکستان کے بعد 1958 میں جنوبی کوریا نے سیول کو کیپیٹل معاشی حب ہل بنانے کا فیصلہ کیا تو کراچی کو آئیڈیل بنایا اور اس کے بزنس پلان کو اسٹڈی کیا لیکن آج سیول کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں یہ دیکھ کر صرف سرد آہ ہی بھر سکتے ہیں۔

    یہ نوحہ ہے کراچی کی تباہی اور بربادی کا جس کی ذمے داری قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کے علاوہ ملک کے تمام حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ذاتی، گروہی مفادات اور تعصب پر مبنی فیصلے کر کے دنیا کے نقشے پر تیزی سے ترقی کرتے شہر کے طور پر ابھرتے ہوئے کراچی کو اپنی ناقص منصوبہ بندی اور ذاتی و سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یوں تو یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور کماؤ پوت شہر ہے لیکن جس طرح گھر میں کسی بڑے کو مان دیا جاتا ہے اور کماؤ پوت کی قدر کی جاتی ہے 75 سالہ ملکی تاریخ میں یہ شہر اس سے محروم رہا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، صفائی کے ناقص انتظامات، صاف پانی کی عدم فراہمی، تفریحی سہولتوں سے محروم ہوتا یہ شہر اب انسانوں کا جنگل بنتا جا رہا ہے۔

    کراچی پاکستان کا واحد پورٹ سٹی اور تجارتی دارُالحکومت ہے جو آج بھی ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کی مجموعی آمدنی کا 64 فیصد سے زائد کما کر دے رہا ہے لیکن اس کے بدلے جو کچھ اسے مل رہا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

    غیر سرکاری اعداد و شمار اور بین الاقوامی اداروں کی کچھ رپورٹوں کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24 ملین ہے۔ جو 1947 کے مقابلے میں 37 گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں 10 لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔ شہر کی آباد 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں ایک بڑا تناسب دیہات سے شہروں کو منتقل ہونے والوں کا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ کئی افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔

    کراچی جس طرح کثیر قومی اور کثیر ثقافتی شہر ہے اسی طرح کثیر المسائل بھی ہے اور مسائل سے مسلسل چشم پوشی نہ صرف مسائل کے پہاڑ کھڑے کر رہی ہے بلکہ شہریوں میں ایک مسلسل مایوسی اور اضطرابی کیفیت بھی پیدا کر رہی ہے۔ جس کراچی شہر کی سڑکیں قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں روز دھلا کرتی تھی اور چمچاتی رہتی تھیں، وہی سڑکیں آج کھنڈر بن چکی ہیں۔ ایک زرا سی بارش لمحوں میں اس شہر کو بڑے دریا میں تبدیل کر دیتی ہے۔ نکاسی کا نظام مفلوج، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی، صاف پانی کی عدم فراہمی، پولیس سمیت مختلف اداروں میں غیر مقامی افراد کی بھرتی، کوٹہ سسٹم کے ذریعے کی جانے والی مسلسل حق تلفی سے اب اس شہر کے باسیوں میں احساس محرومی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔

    70 کی دہائی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کوٹا سسٹم متعارف کروانے کے بعد کراچی شہر کے باسی لسانی تفریق اور تعصب کا نشانہ بنے۔ شہر کی سب سے بڑی آبادی یعنی اردو بولنے والوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1979 میں اے پی ایم ایس او کے نام سے کراچی یونیورسٹی سے طلبہ سیاست کا آغاز کرنے والی تنظیم نے جب خود کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے 1984 میں ایم کیو ایم (مہاجر قومی موومنٹ) کو قائم کیا تو سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد سے اردو بولنے والوں کی اکثریت نے اس پر لبیک کہا اور اس پرچم تلے اپنے اور شہری علاقوں کے حقوق کے حصول کے لیے جمع ہوئے۔ عوام نے ایم کیو ایم کو وہ محبت اور پیار دیا جو بہت کم سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو نصیب ہوا۔ 30 سال تک شہر قائد میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا رہا۔

    ایک وقت تھا کہ جب بانی ایم کیو ایم کی آواز پر لاکھوں کے مجمع پر خاموشی چھا جاتی تھی لیکن جب اپنی جوانی اور زندگیاں لٹانے والوں کو اس جماعت سے سوائے چند معروف نعروں کے کچھ نہیں ملا بلکہ آئے دن کی ہڑتالوں، ہنگامہ آرائی، تعلیم کی تنزلی، کاروبار کی تباہی کے ساتھ کوٹہ سسٹم جیسے مسائل ہر حکومت میں رہتے ہوئے بھی حل نہ ہوئے بلکہ ایم کیو ایم کی جانب سے اپنی اتحادی جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور پھر ان سے دوبارہ گلے مل لینے پر عوام کی محبت آہستہ آہستہ بیزاری میں تبدیل ہوتی گئی اور یہ جماعت ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو کر اب بھولی بسری داستان بنتی جا رہی ہے۔

    آج کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ یہاں کے لوگوں کی گنتی پورا نہ ہونا ہے۔ 2017 کی مردم شماری میں بڑی ڈنڈی مارے جانے کے بعد جب دوبارہ رواں سال مردم شماری ہوئی تو ایک بار پھر دھوکا دیا گیا اور کراچی کی آبادی ایک کروڑ 89 لاکھ بتائی گئی۔ دوسری جانب نادرا ریکارڈ کے مطابق کراچی میں مستقل پتے پر شناختی کارڈ اور ب فارم جاری ہونے کی تعداد ایک کروڑ 91 لاکھ سے زائد ہے جب کہ لاکھوں افراد ایسے بھی ہیں جو برسوں سے کراچی رہ رہے ہیں لیکن کراچی کے شناختی کارڈ نہیں بنوائے۔ گورنر سندھ کا بھی کہنا ہے کہ کراچی کی آبادی کسی طور پر ڈھائی کروڑ سے کم نہیں جب کہ جماعت اسلامی کہتی ہے کہ ساڑھے تین کروڑ نفوس کراچی کی گود میں پل رہے ہیں لیکن نادرا ریکارڈ اور کراچی سے تعلق رکھنے والی دو بڑی جماعتوں کے دعوؤں کے برعکس ڈیجیٹل مردم شماری میں آبادی ایک کروڑ 89 لاکھ ظاہر کرنے کو کیا کہیں‌ گے؟ کیا یہ متعلقہ اداروں کی بدنیتی کو صاف ظاہر کرتا ہے۔

    صاف ظاہر ہے کہ کراچی کو اگر درست گنا گیا تو اندرون سندھ کے ووٹوں سے کراچی پر حکومت کرنے والی جماعت کی حکمرانی خطرے میں پڑسکتی ہے اس لیے کبھی کراچی کو درست نہیں گنا گیا۔ شہروں کی طرف مسلسل نقل مکانی کے باوجود دیہی سندھ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ اور کراچی میں دس فیصد سے بھی کم سالانہ اضافہ مردم شماری کے گورکھ دھندے کا پول کھول رہا ہے۔

    پیپلز پارٹی جو مسلسل 15 برس سے اس صوبے میں حکومت کر رہی ہے اس کے دور میں کراچی کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھے ہی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے گو کہ کوئی سیاسی جماعت اپنا میئر لانے کی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی لیکن پیپلز پارٹی کی اس طرح کی فتح کسی بھی شہری کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ سوشل اور قومی میڈیا پر بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی سے متعلق چلنے والی فوٹیجز چیخ چیخ کر سندھ کی حکمراں جماعت کے عزائم بتا رہی ہیں جس سے بلدیاتی الیکشن کے غیر جانبدار اور منصفانہ الیکشن پر سوال اٹھ گئے ہیں۔

    اپنوں اور غیروں سب کے دیے ہوئے زخموں سے چُور اور کرچی کرچی کراچی اب خود کسی لاوارث کی طرح چاروں جانب دیکھ رہا ہے اور پکار رہا ہے کہ کون ہے جو اس درد کا درماں کرے اور اس کی کوکھ میں پلنے والے کروڑوں لوگوں کا مسیحا بنے۔ کراچی اور کراچی کے باسیوں کو کچھ اور نہیں چاہیے، وہ صرف اپنا حق چاہتے ہیں۔ جتنا کما کر دیتے ہیں اسی کے مطابق سہولتیں چاہتے ہیں۔ صاف پانی، پختہ سڑکیں، محفوظ اور موثر ٹرانسپورٹ، بااختیار بلدیاتی نظام، تعلیم و صحت کی مناسب سہولیات اور یکساں حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔