Author: ریحان خان

  • 9 مئی کو عمران خان کی منصوبہ بندی پر دہشتگردی کی گئی، مریم نواز کا الزام

    9 مئی کو عمران خان کی منصوبہ بندی پر دہشتگردی کی گئی، مریم نواز کا الزام

    مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے الزام عائد کیا ہے کہ 9 مئی کو عمران خان کی منصوبہ بندی پر اس کے غنڈوں اور مسلح جتھوں نے دہشتگردی کی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق حکومتی اتحادی جماعت پی ڈی ایم کی جانب سے گزشتہ روز دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر سپریم کورٹ کے خلاف احتجاج اور دھرنا دیا گیا۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے گزشتہ روز شاہراہ دستور پر سپریم کورٹ کے خلاف احتجاج میں آنے والے کارکنوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین اور سیاسی کارکنوں کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔

    مریم نواز نے خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاہراہ دستور پر ہزاروں مظاہرین نے جمہوری احتجاج کی روشن مثال قائم کی اور ہزاروں کی تعداد میں مرد، خواتین اور نوجوانوں نے بتایا پُر امن احتجاج کیا ہوتا ہے۔ ایک شاخ یا گملا نہیں ٹوٹا اور نہ ہی کوئی عمارت جلی، گاڑی یا ایمبولینس روکی گئی اور نہ ہی کسی پولیس اہلکار کا سر پھٹا۔

    ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے یوم سیاہ اور15 مئی کے عوامی احتجاج میں فرق پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ 9 مئی کو دہشتگردی کیسے ہوتی ہے اور ایک دن کی کال پر عوام خود کیسے باہر آتی ہے، فرق سامنے آ گیا۔ چوری چھپانے کی خاطر پاکستان کو جلانے میں کیا فرق ہے؟ یہ بھی دنیا نے دیکھ لیا۔

    مریم نواز نے مزید کہا کہ 9 مئی کو عمران خان کی منصوبہ بندی پر اس کے غنڈوں اور مسلح جتھوں نے دہشتگردی کی۔ اسکول، مساجد، سرکاری املاک جلائیں گئیں، شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی اس کے برعکس 15 مئی کو شاہراہِ دستور پر احتجاج میں میڈیا کی گاڑیوں کو توڑا گیا نہ کسی صحافی پر تشدد ہوا۔ 9 مئی وطن دشمنی اور 15 مئی حب الوطنی کی دو مثالیں، دو موازنے اور دو رویے ہیں

    ان کا کہنا تھا کہ عارف علوی کے خلاف اشتعال کے باوجود کسی کارکن نے ایوان صدر کا رخ نہیں کیا۔ عوام جانتے ہیں یہ حلف کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کا گھر نہیں بلکہ ایوان صدر ہے۔

  • ایشیا کپ، کب، کہاں اور کیسے کھیلا جائے گا؟ فیصلہ رواں ہفتے ہونے کا امکان

    ایشیا کپ، کب، کہاں اور کیسے کھیلا جائے گا؟ فیصلہ رواں ہفتے ہونے کا امکان

    پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے ہائبرڈ ماڈل پر پیش رفت ہوئی ہے اور ایشین کرکٹ کونسل کے ورچوئل اجلاس میں نیا ماڈل تسلیم کرنے پر بات ہوگی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایشیا کپ رواں سال ستمبر میں پاکستان میں شیڈول ہے تاہم بھارت کی جانب سے اس میں شرکت کے لیے پاکستان آنے سے انکار کے بعد ایونٹ کے انعقاد پر غیر یقینی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اس حوالے سے پی سی بی نے ہائبرڈ ماڈل بھی پیش کیا تھا تاہم کئی ممالک نے اس کی توثیق نہیں کی۔

    اس صورتحال کے بعد ایشیا کپ ہوگا یا نہیں؟ ہوگا تو کب ہوگا اور کہاں ہوگا اور کیا ہائبرڈ ماڈل پر ہوگا؟ یہ تمام سوالات شکوک وشبہات کو تقویت دے رہے تھے تاہم اطلاعات کے مطابق اب پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے پیش کردہ نئے ہائبرڈ ماڈل پر پیش رفت ہوئی ہے اور رواں ہفتے ایشین کرکٹ کونسل کے ورچوئل اجلاس میں نیا ماڈل تسلیم کیے جانے کے حوالے سے بات چیت ہوگی اور دوسرے وینیو کا بھی فیصلہ ہوگا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ایشیا کپ کے انعقاد کے حوالے سے کوئی بھی حتمی فیصلہ رواں ہفتے ہونے کا امکان ہے۔

    چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی نجم سیٹھی نے گزشتہ اے سی سی میٹنگ میں نیا ہائبرڈ ماڈل پیش کیا تھا جس کے تحت پانچ ٹیمیں پہلے راؤنڈ کے مقابلے پاکستان میں کھیلیں گی جس کے بعد باقی تمام میچز نیوٹرل وینیو پر کرائے جائیں گے۔

    واضح رہے کہ پاکستان روز اول سے اصولی مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے اور سربراہ پی سی بی نجم سیٹھی کئی انٹرویوز میں برملا کہہ چکے کہ ایشیا کپ کی میزبانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

    نجم سیٹھی نے گزشتہ روز بھی بھارت کو خبردار کر دیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ہم ایشیا کپ کے ساتھ ورلڈ کپ کا بھی بائیکاٹ کر دیں۔

  • احتجاج کرنا ہمارا حق ہےانتشار پھیلانا نہیں

    احتجاج کرنا ہمارا حق ہےانتشار پھیلانا نہیں

    سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ملک بھر میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کارکنوں میں پایا جانے والا غم و غصّہ کم اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے، جس کی آڑ میں‌ شدید ہنگامہ آرائی کی گئی اور پُرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ دنیا بھر میں ان واقعات کو میڈیا نے کور کیا اور اب نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے کر انھیں پولیس لائنز میں رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ردعمل سامنے آیا جس میں مشتعل افراد کی جانب سے قومی اداروں اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور اس کی خبریں صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں میڈیا کی زینت بنیں۔ اس سے دیارِ غیر میں جہاں پہلے ہی پاکستان کا امیج اچھا نہیں بن رہا تھا، وہ مزید خراب ہوا۔

    عمران خان کو نیب کی جانب سے بنائے گئے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کی صف اول قیادت جن میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری ودیگر شامل ہیں انہیں بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے حامی سمجھے جانے والے صحافیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے اور عمران ریاض خان اور آفتاب اقبال کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

    عمران خان کی گرفتاری اور گرفتاری کے طریقہ کار پر کچھ لوگوں یا طبقے کو تحفظات اور اعتراضات ہوسکتے ہیں لیکن اس کے بعد جس طرح کا ردعمل پورے ملک میں دیکھنے میں آیا اس نے ہر سنجیدہ اور باشعور پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ یہ درست ہے کہ اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا کسی بھی جمہوری معاشرے میں ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن اس کی آڑ میں اگر بے قصور کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جائے، قومی اداروں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جائے اور صورتحال ایسی بنا دی جائے جس سے لگے کہ پورے ملک میں آگ لگ گئی ہو تو پھر یہ احتجاج نہیں انتشار پھیلانا ہوتا ہے اور کوئی مہذب معاشرہ اور امن پسند شہری اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔

    سابق وزیراعظم کی گرفتاری کے فوری بعد جس طرح حساس ادارے کے دفتر اور کور کمانڈر لاہور کی رہائشگاہ پر حملے کیے گئے وہ انتہائی شرمناک ہیں۔ فوج کسی بھی ملک کے لیے انتہائی ضروری اور آخری دفاعی لائن ہوتی ہے۔ اختلاف رائے ہر معاشرے میں ہوتا ہے اور اختلاف کا ہونا ہی جمہوریت کا حسن ہے، لیکن چند افراد سے اختلاف پر پورے ادارے سے نفرت پر مبنی رویے کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسی سوچ کا پنپنا خواہ کسی بھی طبقے اور حلقے کی جانب سے ہو وہ کسی طور پر قومی مفاد قرار نہیں دی جاسکتی۔

    احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کا عمل صرف کسی ایک ادارے یا شہر اور صوبے تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے ملک میں پھیلا اور ایسا پھیلا کہ ملک کے بڑے حصے میں نظام زندگی کو مفلوج کرگیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک گیر احتجاج کی آڑ میں مختلف شہروں میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، پرتشدد کارروائیاں کی گئیں۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی 5 منزلہ عمارت کو جلا دیا گیا، خواتین ملازمین تک پر تشدد کیا گیا اور ایک ایمبولینس تک نذر آتش کردی گئی۔ الیکشن کمیشن آفس سمیت ملک کے مختلف شہروں میں کئی پولیس تھانوں، موبائلوں سمیت پبلک ٹرانسپورٹ کو نذر آتش کرکے عام عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔

    اس خونیں احتجاج میں دو روز کے دوران حکومتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق 10 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں جب کہ زخمیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے جن میں 150 سے زائد پولیس افسران و اہلکار شامل ہیں۔ اگر کسی کے نقطۂ نظر کے مطابق عمران خان کی گرفتاری زیادتی ہے تو کیا اس کے ردعمل میں بے قصور عوام اور سرکاری افسران واہلکاروں پر ہونے والا یہ ظلم انصاف پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ انصاف کا نعرہ لگانے والوں کو سوچنا ہوگا کیونکہ جو لوگ بھی شرپسندوں کے غیظ وغصب کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہارے یا زخمی ہوئے ان کا عمران خان کی گرفتاری سے کوئی لینا دینا یا ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں فوج کو طلب کرلیا گیا۔ بہرحال ہنگامہ آرائی کے واقعات کے بعد ریاست حرکت میں آئی ہے اور اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور حکام کے مطابق ان کی سی سی ٹی وی اور موبائل فوٹیجز کے ذریعے نشاندہی ہوئی ہے۔

    ملک میں افراتفری کے بعد انٹرنیٹ مکمل یا جزوی طور پر بند کر دیا گیا اور اس کے نتیجے میں جہاں عوام کے لیے خبروں تک رسائی مشکل بنی اور افواہوں کا بازار گرم ہوا وہیں ٹیلی کام سیکٹر اور حکومتی خزانے کو بھاری مالی نقصان ہوا ہے۔

    اس تمام صورتحال پر پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ قومی اداروں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے والے شرپسندوں کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم صرف یہ بیان کافی نہیں ہوگا کیونکہ اسی دوران ایسی آڈیو بھی سامنے آئی ہیں جن میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے املاک پر حملے کی بات کی جا رہی ہے۔

    اس وقت جب ملک جل رہا ہے تو کچھ حلقوں کی جانب سےاس آگ کو ہوا دینے جیسے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم یہ وقت ہے کہ طرفین جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کیا جائے جس سے ملک کی فضا مزید مکدر ہو اور انارکی بڑھے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ عوام کو زبان مل جائے تو پھر کسی کے لیے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ وقت احتیاط اور صبر کے ساتھ دور اندیشی سے فیصلے کرنے کا ہے۔

  • سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر ‘پاکستان’ کا سوچیں…

    سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر ‘پاکستان’ کا سوچیں…

    ان دنوں پاکستان کی شہرت کا ڈنکا چہار سُو بج رہا ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا پر پاکستان کی خبریں جگہ پا رہی ہیں اور یہ سب کسی کارنامے اور نیک نامی کی وجہ سے نہیں بلکہ ملک میں شدید سیاسی اور آئینی بحران، معاشی ابتری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کرپشن، ایوان اقتدار میں جاری چوہے بلی کے کھیل اور عوامی کی بدحالی کی خبریں ہیں جس سے پاکستان کا منفی تأثر پختہ ہوتا جا رہا ہے۔

    کچھ عرصے سے ہمارے روایتی حریف پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا پر تو پاکستان کے سیاسی اور معاشی حوالے سے تسلسل کے ساتھ منفی خبروں کا سلسلہ جاری تھا لیکن جب بحران پر قابو پانے والوں نے اس سے صرفِ نظر کیا تو یہ معاملہ اتنا پھیلا کہ اب امریکا، برطانیہ، یورپ، ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ غرض دنیا کا کون سا ایسا خطہ ہے جہاں پاکستان کے سنگین حالات کا ذکر نہ ہو رہا ہو۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کو ایشین ٹائیگر، ریاست مدینہ، خود مختار اور خودکفیل ملک بنانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے آج ان ہی کے اعمال اور افکار کے باعث دنیا پاکستان کے حالات کو ایتھوپیا، یوگنڈا، سری لنکا جیسی صورتحال کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔

    اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے باعث سسکتی اور دم توڑتی انسانیت ہے لیکن کسی سیاستدان کو سن لیں‌ یا کسی ٹی وی چینل پر نظر ڈالیں تو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ الیکشن مئی میں ہوں گے یا اکتوبر میں۔ سنتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہماری سیاست دل کے ساتھ دماغی صلاحیتیں بھی کھوچکی ہے۔ سب کا زور الیکشن پر ہے لیکن جس عوام کے ووٹوں کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار حاصل کرنے کی یہ ساری تگ و دو ہے ان کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔

    پاکستان یوں تو بانی پاکستان قائداعظم کی وفات کے بعد سے ہی سیاسی محاذ آرائی اور چپقلشوں کا شکار ہو کر حقیقی جمہوریت کی راہ سے دور ہوتا چلا گیا لیکن موجودہ سیاسی صورتحال تو اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ سنجیدہ طبقے کے لیے سیاست ایک گالی بنتی جا رہی ہے۔ جو لوگ 90 کی دہائی کی سیاسی چپقلش اور دشمنی پر مبنی انتقامی کارروائیاں بھول گئے تھے انہیں اب وہ بھی اچھی طریقے سے یاد آگئی ہے۔

    پی ڈی ایم کی درجن بھر جماعتوں پر مشتمل اس حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے جو اپنے ساتھ عوام کی امیدوں، معاشی استحکام، سیاسی برداشت، مساوات اور نہ جانے کیا کچھ بہا کر لے گیا ہے اور اب تو ہر طرف جمہوریت اور سیاست کے نام پر مخالفین پر رکیک اور شرمناک الزام تراشیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

    ملک کی تاریخ میں پہلی بار عوام نے مہنگا اور خونیں رمضان گزارا ہے۔ دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ روزے میں بزرگ مرد و خواتین 10 کلو آٹے کے تھیلے کے لیے ہزاروں کی بھیڑ میں اپنی عزت نفس گنواتے اور جانیں لٹاتے رہے۔ اس سال تو زکوٰۃ کی تقسیم جیسا فریضہ بھی خونریز ثابت ہوا اور کراچی میں ایک مل کے گیٹ پر چند ہزار روپوں کے لیے درجن بھر جانیں قربان ہوگئیں۔

    ایک سال میں عوام کا سکھ چین سب ختم ہوگیا لیکن سیاسی خلفشار، عدم اطمینان، بے چینی ختم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی۔ حکومت بدلی لیکن 75 برسوں سے وعدوں پر ٹرخائی جانے والی عوام کی قسمت پھر بھی نہ بدل سکی اور اس کی جھولی میں سوائے وعدوں اور نام نہاد دعوؤں پر مبنی سکوں کے کچھ نہیں گرا۔

    آج صورتحال یہ ہے کہ مہینوں تک ترلے منتیں کرنے اور سخت شرائط مان کر عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر قرض کا معاہدہ نہیں ہو پا رہا ہے اور روز نت نئی شرائط عائد کر رہا ہے۔ دوست ممالک لگتا ہے کہ دہائیوں سے ایک ہی ڈرامے کا ری پلے بار بار دیکھ کر اتنے تنگ آچکے ہیں اور وہ بھی کوئی خاص مدد کے لیے آگے نہیں آرہے ہیں۔

    اگر ہم اپنے چاروں طرف پڑوسی ممالک اور خطے کے دیگر ملکوں پر نظر دوڑائیں تو ہمارا ازلی دشمن قرار دیے جانے والا بھارت اپنے سیٹلائٹ خلا میں بھیج رہا ہے اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا ہی حصہ ہوا کرتا تھا آج وہاں ترقی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہماری معیشت سے کافی آگے نکل چکا ہے، 20 سال امریکی جنگ سے نبرد آزما افغانستان کی معیشت ایک اعتبار سے ہم سے بہتر ہے۔ ایران مسلسل کئی دہائیوں سے امریکی عتاب کا شکار ہے مگر وہاں خاص سطح پر معاشی استحکام نمایاں ہے جب کہ ہمارا قومی کشکول دراز ہوتا جا رہا ہے۔

    اس وقت ملک کی سوئی الیکشن پر اٹکی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے دوسری بار واضح حکم دیا کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن ہونے ہیں لیکن جنہوں نے اس پر عملدرآمد کرنا ہے وہ اس کو ماننے کو تیار نہیں ہیں بلکہ نئی نئی تاویلیں گھڑ کر لائی جاتی رہی ہیں۔ اب عدالت عظمیٰ میں ملک میں بیک وقت الیکشن کے حوالے سے درخواستیں زیر سماعت ہیں اور عدالت عظمیٰ بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تجویز دے چکی ہے۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کی تین نشستیں کسی تصفیے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئیں جس پر حکومت نے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالتے ہوئے عدالت نے مزید مہلت طلب کی ہے تاہم سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تو عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔

    اب گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں ہے لیکن یہاں اناؤں کی بلا اتنی حاوی ہے کہ کوئی جھکنے اور ملک و قوم کی خاطر رویوں میں نرمی لانے پر تیار نہیں ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ عوام پر حکمرانی کریں لیکن عوام کو اس کے بدلے میں دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے دلاسوں کے۔

    ہمارے سیاستدان شاید اپنی اپنی اناؤں کو ملکی وقار، سلامتی معاملات اور عوامی مفاد سے افضل سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے باوجود ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے اور مذاکرات کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس پی ڈی ایم سے اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کے مذاکرات ہو رہے ہیں اس کے سربراہ فضل الرحمان ان مذاکرات کے سخت خلاف اور مذاکراتی عمل سے مکمل طور پر باہر ہیں جب کہ حکومت کو لندن سے کنٹرول کرنے والے نواز شریف بھی ان مذاکرات کے لیے رضامند نہیں ہیں۔

    مذاکرات جو اب تک ناکام ہی نظر آتے ہیں اس میں دونوں فریقین کے مطابق قومی اسمبلی توڑنے کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ بہرحال فریقین بے شک ان مذاکرات کے بارے میں کچھ بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ خدشات، بے یقینی، بدگمانی کے ساتھ جھوٹی اناؤں کا خول بھی ہے جو تمام معاملات پر حاوی ہے۔

    دنیا کا اصول ہے کہ جب بھی کسی گمبھیر مسئلے پر بات چیت کی جاتی ہے تو کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے فریقین کے درمیان بدگمانی اور بداعتمادی کی فضا دور کی جاتی ہے اور جو صاحب اختیار اور اقتدار ہوتا ہے اس پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ ماحول پیدا کرے لیکن یہاں تو معاملات ہی الٹے رہے۔

    مذاکرات کے لیے دونوں فریقین نے کمیٹیاں بنائیں لیکن مذاکرات شروع ہوئے تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف آپریشن اور گرفتاریوں کا عمل شروع ہوگیا۔ جب سراج الحق عمران خان سے ملاقات کرکے اور انہیں ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے حکومت سے مذاکرات کا مشورہ دے کر آئے تھے تو اس کے فوری بعد پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کو گرفتار کیا گیا اور جب مذاکرات کی بات آگے کمیٹیوں تک پہنچی تو علی امین گنڈاپور کو حراست میں لے کر ملک بھر میں گھمایا گیا لیکن سب سے تشویشناک صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب رات کی تاریکی میں عدالتی حکم کے برخلاف پی ٹی آئی کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی رہائشگاہ پر چھاپہ بلکہ کئی چھاپے مارے گئے جو صورتحال کو سنبھالنے کے بجائے مزید بگاڑ کی جانب لے گئے۔

    وزیراعظم شہباز شریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو خادم اعلیٰ کے ساتھ شہباز اسپیڈ کے نام سے جانے جاتے تھے اور اس کی وجہ ن لیگ کا حلقہ احباب پنجاب میں تیز رفتار ترقیاتی کام بتاتا ہے، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد ان کی اسپیڈ دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ بنانے اور مخالفین پر مقدمات بنانے میں ہی نظر آتی ہے۔ ان کی 83 رکنی کابینہ نے جہاں دنیا کی سب سے بڑی کابینہ کا اعزاز پایا ہے اسی طرح سابق وزیراعظم پر چند ماہ میں 122 سے زائد مقدمات کا قائم ہونا بھی اپوزیشن رہنما کے خلاف مقدمات کے اندراج کا شاید عالمی ریکارڈ قائم کردے کیونکہ پی ٹی آئی رہنما خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ حکومت جلد عمران خان کے خلاف مقدمات کی ڈبل سنچری مکمل کرلے گی۔

    ملک میں جاری اس پُتلی تماشے کو عوام 75 سالوں سے دیکھ کر رہی ہے۔ پپٹ یعنی پتلیاں بدل جاتی ہیں لیکن کھیل معمولی رد وبدل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا کیا جمہوریت میں جمہور کے کچھ حقوق نہیں ہوتے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ملک کا ہر شخص صاحب اختیار و اقتدار کے مستقبل میں ان پر حکمرانی کے سہانے خواب دیکھنے والوں سے پوچھ رہا ہے۔ اگر کسی کو اس جمہور کا خیال ہے تو پھر انا کے خول کس لیے؟ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہ کہہ کر رہتی دنیا تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مثال قائم کر گئے کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھوک سے مر جائے گا تو اس کا ذمے دار عمر ہوگا‘‘ دنیا کے مختلف ممالک کا نظام دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کے اس طریقہ حکمرانی کو اغیار نے اپنا لیا لیکن آج ان کے نام لیوا کو کیوں اپنی عوام کی پروا نہیں اور کیوں ان کے ملک میں بھوک، غربت اور بیروزگاری کے باعث خودکشیاں بڑھتی جا رہی ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے جو باضمیر لوگوں کو ضرور کچوکے لگائے گا لیکن صاحب اختیار اور بااختیار میں ایسے کتنے ہیں؟

  • بابر اعظم آج ایک اور سنگ میل عبور کرلیں گے!

    بابر اعظم آج ایک اور سنگ میل عبور کرلیں گے!

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان اور عالمی ریکارڈ پر ریکارڈ بنانے والے بابر اعظم آج نیوزی لینڈ کے خلاف پانچویں ون ڈے انٹرنیشنل میں ایک اور سنگ میل عبور کریں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان اور عالمی ریکارڈ پر ریکارڈ بنانے والے بابر اعظم آج نیوزی لینڈ کے خلاف پانچواں میچ کھیل کر ایک اور سنگ میل عبور کرلیں گے۔ قومی کپتان آج اپنا 100 واں انٹرنیشنل ون ڈے میچ کھیلیں گے۔

    بابر اعظم نے اب تک 99 ویں ایک روزہ میچز کھیلے ہیں جس میں انہوں نے 5088 رنز بنا رکھے ہیں۔ قومی کپتان نے اس دوران 18 سنچریاں اور 26 نصف سنچریاں بھی اسکور کی ہیں۔

    قومی کپتان عالمی ریکارڈ پر ریکارڈ بنائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے ایک ہی اننگ میں دو عالمی ریکارڈ قائم کیے تھے۔ پہلے انہوں نے 96 ویں اننگ میں 5 ہزار رنز اسکور کرکے سب سے کم میچز میں 5 ہزار رنز بنانے کا سابق جنوبی افریقی بیٹر ہاشم آملہ کا ریکارڈ توڑا اس کے بعد اسی اننگ میں جب انہوں نے 18 ویں سنچری اسکور کی تو انہوں نے سب سے کم اننگز میں اتنی سنچریاں بنانے والے کھلاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا۔

    پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے تقریباً 8 سال قبل لاہور میں زمبابوے کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کے لیے ڈیبیو سے شاندار کیریئر کا آغاز کیا تھا اور آج وہ کرکٹ کے موجودہ دور کے کامیاب ترین بلے باز مانے جاتے ہیں۔

    انہوں نے اپنے کیرئیر میں کئی ریکارڈز توڑے ہیں۔ وہ 2 اپریل 2022 سے آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں نمبر ون بلے باز رہے ہیں اور گزشتہ سال آئی سی سی مینز کرکٹر آف دی ایئر اور آئی سی سی مینز او ڈی آئی کرکٹر آف دی ایئر کے لیے سر گارفیلڈ سوبرز ٹرافی کے اپنے نام کرچکے ہیں۔

    ان ہی کی قیادت میں گزشتہ میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کے خلاف مسلسل چوتھے میچ میں فتح حاصل کرکے تاریخ میں پہلی بار ون ڈے کی عالمی نمبر ایک ٹیم ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔

    وہ پہلے بلے باز ہیں جنہیں ون ڈے کرکٹ میں سنچریز کی دو بار ہیٹ ٹرک کی ہے۔

    انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے ناموں جن میں سابق ویسٹ انڈین کپتان سر ویوین رچرڈ، ہاشم آملہ، ویرات کوہلی سمیت کئی کھلاڑیوں کے ریکارڈ اپنے نام کیے ہیں۔

    ان کی اسی بے مثال کارکردگی کے باعث سابق کپتان اور سابق پی سی بی چیئرمین رمیز راجا نے ان کا موازنہ ڈان بریڈ مین سے کیا ہے۔

    رمیز راجا کا کہنا ہے بابر اعظم ڈان بریڈمین سے کم نہیں، وائٹ بال کرکٹ میں وہ اعدادوشمار کے لحاظ سے دنیا کے بہترین کھلاڑی بن چکے ہیں، میں نے اتنے خطرناک فارمیٹ میں کسی کھلاڑی کی اتنی مستقل مزاجی کبھی نہیں دیکھی جس کی بنیاد ان کی تکنیک اور مزاج ہے۔

  • ایک اور عالمی اعزاز، بابر اعظم نے ون ڈے میں تیز ترین 5 ہزار رنز بنا لیے

    ایک اور عالمی اعزاز، بابر اعظم نے ون ڈے میں تیز ترین 5 ہزار رنز بنا لیے

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نیوزی لینڈ کے خلاف چوتھے ون ڈے میں ایک اور عالمی اعزاز اپنے نام کرلیا اور وہ ایک روزہ میچوں میں تیز ترین 5 ہزار رنز بنانے والے کھلاڑی بن گئے۔

    پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پانچ ون ڈے میچوں پر مشتمل سیریز کا چوتھا میچ آج کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا جا رہا ہے۔ قومی کپتان بابر اعظم نے اس میچ میں ایک روزہ میچوں میں تیز ترین پانچ ہزار رنز بنانے والے کھلاڑی کا اعزاز بھی اپنے نام کر لیا ہے۔

    بابر اعظم نے آج کے میچ میں اننگ شروع کرنے سے قبل 98 میچز کی 96 اننگز میں 4981 رنز بنا رکھے تھے۔ آج جب انہوں نے اپنی اننگ میں 19 واں رنز بنایا تو نیا عالمی اعزاز اپنے نام کرلیا۔

    اس سے قبل یہ اعزاز سابق جنوبی افریقی کھلاڑی ہاشم آملہ کے نام تھا جنہوں نے 2015 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں انجام دیا تھا اور اپنی 101 اننگ میں پانچ ہزار رنز مکمل کیے تھے۔

    بابر اعظم ابھی 28 رنز کے ساتھ کریز پر موجود ہیں اور کئی مزید ریکارڈ ان کے منتظر ہیں۔

    واضح رہے کہ رواں سیریز میں ہی بابر اعظم نے ایک اور اہم سنگ میل عبور کیا اور انٹرنیشنل کرکٹ میں 12 ہزار رنز مکمل کیے ہیں۔

  • ایک اور عالمی ریکارڈ آج بابر اعظم کا منتظر

    ایک اور عالمی ریکارڈ آج بابر اعظم کا منتظر

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم آج نیوزی لینڈ کے خلاف چوتھے ون ڈے میں ایک اور عالمی اعزاز اپنے نام کر سکتے ہیں۔

    پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پانچ ون ڈے میچوں پر مشتمل سیریز کا چوتھا میچ آج کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کھیلا جا رہا ہے۔ نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی ہے۔ قومی کپتان بابر اعظم آج ایک اور اہم سنگ میل عبور کرنے کے قریب ہیں۔

    بابر اعظم آج ون ڈے میں تیز ترین 5 ہزار رنز بنانے والے بیٹر کا اعزاز پا سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں صرف 19 رنز درکار ہیں۔

    قومی کپتان نے اب تک 98 میچز کی 96 ویں اننگ میں 4981 رنز بنا رکھے ہیں۔

    اس وقت سابق جنوبی افریقی بیٹر ہاشم آملہ کے پاس ون ڈے میں تیز ترین پانچ ہزار رنز بنانے کا ریکارڈ ہے۔ انہوں نے یہ ریکارڈ اپنی 101 ویں ون ڈے اننگ میں بنایا تھا۔

    ہاشم آملہ نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 2015 میں دنیا کے تیز ترین پانچ ہزار رنز بنانے والے بلے باز کا اعزاز حاصل کرکے سابق ویسٹ انڈین کپتان ویوین رچرڈ کا 28 سالہ ریکارڈ توڑا تھا۔

    واضح رہے کہ رواں سیریز میں ہی بابر اعظم نے ایک اور اہم سنگ میل عبور کیا اور انٹرنیشنل کرکٹ میں 12 ہزار رنز مکمل کیے ہیں۔

    وہ اس وقت آئی سی سی کی ون ڈے پلیئر رینکنگ میں بھی ٹاپ پوزیشن پر موجود ہیں۔

  • ویڈیو: ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی 500 ویں فتح کا جشن ٹیم نے کیسے منایا؟

    ویڈیو: ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کی 500 ویں فتح کا جشن ٹیم نے کیسے منایا؟

    پاکستان نے گزشتہ روز نیوزی لینڈ کو ون ڈے میچ میں شکست دی یہ ایک روزہ میچ میں 500 ویں فتح تھی جس کا قومی کھلاڑیوں نے شاندار جشن منایا۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے اس تاریخی فتح کا میچ کے اختتام پر پنڈی اسٹیڈیم کے ڈریسنگ روم میں جشن منایا اس موقع پر تاریخی جیت کا کیک کاٹا گیا۔

    کھلاڑیوں نے ایک دوسرے کو کیک کھلایا اور خوب ہلا گلا کیا۔

    پاکستان کرکٹ کی اس تاریخی جیت اور شاندار جشن کی ویڈیو پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کی جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔

     

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈریسنگ روم میں قومی کپتان بابر اعظم اور بولنگ کوچ سابق فاسٹ بولر عمر گل مل کر ٹیم کی 500 ویں فتح کا کیک کاٹتے ہیں جب کہ ان کے گرد ٹیم کے تمام کھلاڑی اکٹھا ہوتے ہیں۔

    کیک کاٹنے کے بعد کھلاڑی ایک دوسرے کو کیک کھلاتے خوش گپیاں اور ہلا گلا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صارفین کی جانب سے قومی ٹیم کو یہ سنگ میل عبور کرنے پر مبارکباد کے پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان کی ون ڈے کرکٹ میں 500 فتح میں 1992 میں ون ڈے کرکٹ کا عالمی چمپئن بننا، 2017 میں چیمپئنز ٹرافی جیتنا، 1986 میں شارجہ کے میدان میں روایتی حریف بھارت کے خلاف فائنل میں فتح اور جاوید میانداد کا تاریخی چھکا جیسے کئی ناقابل فراموش فتوحات شامل ہیں۔

  • وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا

    وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا

    وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے انہیں 180 اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے ان پر ایوان کے 180 اراکین نے اعتماد کا اظہار کیا۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے نتیجے کا اعلان کیا۔

    اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت شروع ہوا تو وزیر خارجہ اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی قرارداد پیش کی جس پر اسپیکر نے کہا کہ ایوان میں اعتماد کے ووٹ کی قرارداد پیش ہو چکی ہے اس لیے اراکین اعتماد کے ووٹ کیلیے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو جائیں۔

    قومی اسمبلی نے وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد منظور ہونے اور اسپیکر کی جانب سے نتیجے کا اعلان ہونے کے بعد شہباز شریف نے فرداً فرداً ہر رکن کی نشست پر جاکر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر راجا ریاض سے مصافحہ بھی کیا۔

    اسپیکر نے اعتماد کا ووٹ دینے والے اراکین کے نام قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر ڈالنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آج مرحوم مفتی عبدالشکور ہوتے تو اعتماد کے ووٹ کا فیگر 181 ہوتا۔

     

    واضح رہے کہ الیکشن سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے وزیراعظم کے پاس اکثریت نہ ہونے کی آبزرویشن دی تھی اور کہا تھا کہ وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کیلئے بھی سادہ اکثریت 172 اراکین کی ضرورت ہے، اعتماد کا ووٹ اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہوگا۔

    24 اپریل کو وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے الیکشن فنڈز بل کثرت رائے سے مسترد ہونے کے بعد ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

    جب کہ آج قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وزیراعظم کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے 176 سے زائد ایم این ایز نے شرکت کی تھی۔

    ظہرانے کی تقریب میں وزیراعظم شہبازشریف نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے اور اتحادی اراکین اسمبلی سے خطاب میں ملک کی مجموعی صورتحال پر کھل کر اظہار خیال کیا تھا۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں الیکشن ایک ہی روز ہوں گے، پارلیمنٹ سپریم ہے اس کا فیصلہ قبول کرنا ہو گا۔ حکومت ہر معاملے پر پارلیمنٹ کے فیصلوں پر عمل یقینی بنائے گی، پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

  • ویڈیو: افتخار احمد نے کھلاڑیوں میں عیدی تقسیم کی، لفافوں سے کیا نکلا؟

    ویڈیو: افتخار احمد نے کھلاڑیوں میں عیدی تقسیم کی، لفافوں سے کیا نکلا؟

    پاکستان کرکٹ ٹیم میں چاچا کے نام سے مشہور جارح مزاج مڈل آرڈر بلے باز افتخار احمد نے عید کے تیسرے روز کھلاڑیوں میں عیدی تقسیم کی۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم میں چاچا کے نام سے مشہور مڈل آرڈر جارح مزاج بلے باز افتخار احمد سے چاند رات کو کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان نے عیدی مانگی تھی۔ اس وقت تو افتخار احمد نے یہ مطالبہ ہنس پر ٹال دیا تاہم عید کے تیسرے روز راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے ڈریسنگ روم میں پانچواں ٹی ٹوئنٹی میچ شروع ہونے سے قبل ساتھی کھلاڑیوں میں عیدی تقسیم کی۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس یادگار محبت بھرے لمحات کی ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں افتخار احمد کے ہاتھ میں کئی لفافے ہیں جنہیں وہ کھلاڑیوں میں تقسیم کرتے نظر بھی آتے ہیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جس طرح گھر میں بزرگ بچوں سے کہتے ہیں کہ ایک ایک کرکے آؤ اور عیدی لیتے جاؤ، کچھ اسی طرح افتخار احمد لفافے گننے کے بعد تمام کھلاڑیوں کو کہتے ہیں کہ ایک ایک کرکے آؤ اور عیدی لیتے جاؤ۔

    وہ سب سے پہلے اوپنر فخر زمان کو لفافہ دیتے ہیں اس کے بعد شاداب خان، فہیم اشرف، بابر اعظم، عماد وسیم، صائم ایوب، محمد رضوان، محمد حارث، حارث سہیل، شاہین شاہ آفریدی، احسان اللہ سب کو عیدی کے لفافے تھماتے ہیں اور ساتھ ہی گلے مل کر عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔

    عیدی ملنے پر کھلاڑی بہت خوش نظر آتے ہیں۔ فہیم اشرف کو شرارت کرتے ہوئے ایک ساتھی کرکٹر کا لفافہ بھی لپک لیتے ہیں اور پھر کیمرے میں دکھاتے ہیں کہ ان کے پاس دو دو عیدی کے لفافے ہیں جب کہ شاداب خان، نسیم شاہ اور دیگر کھلاڑی لفافے کھول کر پانچ سو کا نوٹ کیمرے میں دکھاتے ہیں۔

    وکٹ کیپر بلے باز عیدی ملنے پر ڈریسنگ روم میں رکھی ایک شال ٹائپ کوئی چیز ازراہ مذاق افتخار احمد کو پہناتے ہیں جب کہ عماد وسیم کہتے ہیں کہ وہ اس عیدی کو زندگی بھر خرچ نہیں کریں گے بلکہ لفافے کو فریم کراکے یادگار کے طور پر رکھیں گے۔

     

    اس موقع پر ڈریسنگ روم کا ماحول انتہائی خوشگوار نظر آیا اور کھلاڑی آپس میں عید ملتے، خوش گپیاں کرتے نظر آئے۔ فخر زمان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ایسا بھائی سب کو دے۔