Author: ریحان خان

  • حکومت کی نیت میں فتور ہے، شاہ محمود قریشی

    حکومت کی نیت میں فتور ہے، شاہ محمود قریشی

    پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سینیئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم مذاکرات سے نہیں کتراتے مگر حکومت کی نیت میں فتور ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پارٹی چیئرمین عمران خان کی پیشی سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے ہیں۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے کتراتے نہیں مگر حکومت کی نیت میں خلل ہے۔ ایک طرف مذاکرات تو دوسری طرف ہمارے لوگ گرفتار کیے جا رہے ہیں۔

    شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ الیکشن کے التوا کا جو بہانہ بنایا گیا ہے وہ انتہائی کمزور ہے۔ آئین میں واضح ہے کہ الیکشن کب ہوں گے۔ امید ہے عدلیہ آئین کا تحفظ کرے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے، ہمارے کارکنان کو پنجاب میں گرفتار کیا گیا، مگر اب خوف کا بت ٹوٹ چکا ہے

    پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ سینیٹ میں اسحاق ڈار کے بیان سے ایک ہیجان پیدا ہو گیا ہے۔ انتخابات کے لیے مل بیٹھ کر چل سکتے ہیں۔

  • افغانستان سے پہلی بار سیریز میں شکست، کپتان شاداب خان کی قوم سے اہم اپیل

    افغانستان سے پہلی بار سیریز میں شکست، کپتان شاداب خان کی قوم سے اہم اپیل

    ٹی 20 انٹرنیشنل سیریز میں افغانستان سے پہلی بار شکست کے بعد پاکستانی کپتان شاداب خان نے قوم سے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی اپیل کی ہے۔

    شارجہ میں کھیلی جا رہی تین ٹی 20 میچوں پر مشتمل سیریز کے ابتدائی دو میچز جیت کر افغانستان سیریز میں نہ صرف فیصلہ کن برتری بلکہ پاکستان سے پہلی بار سیریز جیتنے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس شکست کے بعد پاکستانی کپتان شاداب خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرے۔

    شاداب خان نے افغانستان کے خلاف دوسرے میچ اور سیریز میں شکست کی وجہ ناکام بیٹنگ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ کم رنز اسکور کیے جو شکست کی وجہ بنے۔ پاور پلے میں اگر تین وکٹیں گر جائیں تو پھر میچ میں واپسی کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ افغانستان کی ٹیم ان کنڈیشنز میں مضبوط حریف ہے۔

    کپتان کا کہنا تھا کہ سب کہتے تھے کہ نوجوان کھلاڑیوں کو چانس دینا چاہیے۔ نئے کھلاڑی غلطیاں بھی کریں گے وہ آتے ہی بابر اعظم کی طرح تو نہیں کھیل سکتے۔ اس کے لیے تھوڑا وقت لگتا ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں پر تنقید نہ کی جائے۔ یہی مستقبل میں پرفارم بھی کریں گے۔ ان کھلاڑیوں کو بیک کرنا ہوگا پورے ملک سے گزارش ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرے۔

    سیریز کا تیسرا اور آخری میچ آج شارجہ میں کھیلا جائے گا۔

    واضح رہے کہ مذکورہ سیریز کے لیے ریگولر قومی کپتان بابر اعظم، ان فارم محمد رضوان، لاہور قلندرز کو چیمپئن بنانے والے اسٹار فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی اور جارح مزاج اوپنر فخر زمان کو آرام دیا گیا تھا اور ٹیم میں ان کی جگہ پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے چار نئے کھلاڑیوں صائم ایوب، احسان اللہ، زمان خان اور طیب طاہر کا ڈیبیو کرایا تھا۔ تاہم اب تک کھیلے گئے دو میچز میں سوائے احسان اللہ کے کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکا۔

  • ویڈیو: شارجہ میں قومی ٹیم کا فوٹو شوٹ، کھلاڑیوں کے دلچسپ پوز

    ویڈیو: شارجہ میں قومی ٹیم کا فوٹو شوٹ، کھلاڑیوں کے دلچسپ پوز

    پاکستان اور افغانستان کے درمیان تین ٹی 20 میچوں کی سیریز شروع ہونے سے قبل شارجہ میں قومی ٹیم کا فوٹو شوٹ ہوا جس میں کھلاڑیوں نے دلچسپ پوز بنائے۔

    پاکستان اور افغانستان کے درمیان تین ٹی 20 میچوں پر مشتمل ایکشن سے بھرپور سیریز آج سے شارجہ میں شروع ہو رہی ہے سیریز سے قبل گرین شرٹس کا فوٹو شوٹ ہوا جس میں قومی کھلاڑیوں نے اسٹائلش انداز اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ گیند اور بلے کے ساتھ دلچسپ پوز بھی بنوائے اور ساتھ خوب ہلا گلا بھی کیا۔

    فوٹو شوٹ کے لیے ٹیم شاداب خان کی قیادت میں پہنچی جس میں اسکواڈ کے تمام کھلاڑی عبداللہ شفیق، اعظم خان، فہیم اشرف، افتخار احمد، احسان اللہ، عماد وسیم، محمد حارث، محمد نواز، زمان خان، نسیم شاہ، محمد وسیم جونیئر، صائم ایوب، شان مسعود، طیب طاہر، ابرار احمد، اسامہ میر، حسیب اللہ شامل تھے۔

    فوٹو شوٹ شروع ہوا تو کھلاڑیوں نے اسٹائلش انداز میں تصاویر بنوائیں اسی دوران کھلاڑی گیند بلے کے ساتھ بھی دلچسپ پوز دیتے رہے۔ کہیں محمد حارث گیند کو بلے سے ہٹ کرنے کے انداز میں نظر آئے تو دوسری جانب زمان خان بھی گیند کو انگلیوں سے گھماتے دکھائی دیے۔

    پی ایس ایل میں جارح مزاجی سے سب کے دل جیتنے والے بیٹر اعظم خان نے کیمرے کے سامنے اپنے بلے کا معائنہ کیا اور نسیم شاہ نے حارث کی گیند پر شاٹ مارنے کی کوشش کی۔

    کھلاڑیوں نے مزید کئی دلچسپ پوز بھی دیے اور فارغ وقت میں خوش گپیاں اور ہلا گلا بھی کیا۔

     

    فوٹو شوٹ کی اس دلچسپ ویڈیو کو پی سی بی نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیا ہے جس کو صرف چند گھنٹوں میں ہزاروں صارفین دیکھ اور پسندیدگی کا اظہار کرچکے ہیں اور کئی تو کھلاڑیوں کے انداز پر دلچسپ تبصرے بھی کر رہے ہیں۔

  • کچے منصوبے، ادھورا ریلیف ووٹ بینک کو پکا کرنے کی ‘پوری’ کوشش ؟

    کچے منصوبے، ادھورا ریلیف ووٹ بینک کو پکا کرنے کی ‘پوری’ کوشش ؟

    وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان المبارک کے دوران غریب عوام میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر عمل بھی کیا جا رہا ہے اور بظاہر یہ منصوبہ خوش آئند ہے لیکن اسے صرف دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا تک محدود رکھا گیا ہے جس نے حکومت کے اس غریب پرور منصوبے کو مشکوک بنا دیا ہے۔

    گزشتہ دنوں اجلاس میں وزیراعظم نے آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں رمضان پیکیج کے تحت غریب عوام کو مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان کیا تھا، جس کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں میں مفت آٹا تقسیم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے ایک لاکھ 85 ہزار مستحق خاندان بھی اس سے مستفید ہوسکیں گے اور اس اسکیم میں خیبرپختونخوا کے عوام کو بھی شامل کیا گیا۔

    یہ اسکیم صرف دو صوبوں کے لیے ہے جب کہ سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان کے عوام کو مہنگا آٹا ہی خریدنا پڑے گا۔ ہماری نظر میں وفاقی حکومت کی یہ ‘غریب پروری’ ناقابل فہم ہے اور سوال اٹھتا ہے کہ شہباز شریف پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں یا صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا کے؟ اس کے ساتھ ہی اس فیصلے میں‌ پوشیدہ سیاسی مفاد بھی اس سارے عمل کو مشکوک بنا رہا ہے۔

    یوں تو ملک میں غربت اتنی ہے کہ بلا تفریق سب کو ہی مفت آٹے کی یہ سہولت ملنی چاہیے، لیکن سب سے پہلے کون اس کا حق دار ہوتا ہے، اس کے لیے منصوبہ بندی کمیشن کی پاکستان میں غربت سے متعلق یہ رپورٹ ملاحظہ کرتے ہیں جو پورے پاکستان میں غربت کی مجموعی شرح تو 38.8 فیصد بتاتی ہے لیکن اس میں ملک کے صوبوں میں علیحدہ علیحدہ غربت کی شرح بھی بتائی گئی ہے، اس کے مطابق پاکستان کا سب سے غریب صوبہ بلوچستان ہے جہاں غربت کی شرح 71.2 فیصد ہے، خیبرپختونخوا میں یہ تناسب 49.2 فیصد، گلگت بلتستان 43.2، سندھ 43.1 فیصد جب کہ پنجاب میں یہ شرح 31.4 فیصد ہے۔

    غربت کسی بھی صوبے میں ہو غریب پاکستانی ہی ہے، لیکن یہ رپورٹ چشم کشا ہی نہیں یہ بھی بتا رہی ہے کہ اگر غربت کی بنیاد پر کوئی کام کرنا ہے تو کون سا صوبہ سب سے پہلے مفت آٹے کا حق دار ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ اس طرح کے فیصلے صوبوں اور ان کے عوام کے درمیان احساس محرومی بھی پیدا کرتے ہیں اور ایسے اقدامات سے زخم خوردہ عوام کی اشک شوئی نہیں ہوتی بلکہ ان کے زخم رسنے لگتے ہیں۔
    اس وقت پاکستان میں سب سے مہنگا آٹا کراچی کے شہری خرید رہے ہیں اور یہ کوئی سنی سنائی اور بے پَر کی بات نہیں بلکہ شہباز حکومت کے ماتحت وفاقی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں۔ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر قائد کے باسی اس وقت 155 روپے کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ سندھ کے دیگر شہروں کے بعد بلوچستان کے شہری مہنگا ترین آٹا خرید رہے ہیں لیکن افسوس ان دو صوبوں کے عوام ہی مفت آٹے کی سہولت سے محروم رہ گئے جب کہ اسی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے سوائے چند ایک شہر چھوڑ کر باقی تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آٹا 60 سے 70 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔

    ملکی اداروں کی ان رپورٹوں نے تو سب کی آنکھیں کھول دی ہیں لیکن شاید حکومت کی آنکھیں بند ہیں یا وہ حقائق سے چشم پوشی کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ روز نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے گویا متوسط طبقہ تو ختم ہی کردیا ہے۔ اب اس ملک میں دو ہی طبقے رہ گئے ہیں، ایک وہ جو امیر ترین ہے اور اسے تمام سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں جب کہ دوسرا غریب جو بنیادی ضروریات، بھوک مٹانے کے لیے دو وقت کی روٹی، بیماری میں مناسب علاج سے بھی محروم ہے۔

    سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے بجائے اگر حقیقت کا سامنا کریں تو آج ہر طرف بھوک اور افلاس برہنہ رقص کرتی نظر آئے گی اور اس کے سائے میں کہیں والدین اپنے بچّوں کو بیچتے نظر آئیں گے تو کہیں بنتِ حوا کی چادر میلی کرنے کی کوششں نظر آئے گی۔ اور کہیں تو حالات کا جبر اتنا ہے کہ ماں باپ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو موت کے حوالے کر کے خود بھی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ ایسی دل سوختہ خبریں ہم آئے دن مختلف اخبارات اور نیوز چینلوں پر دیکھ رہے ہیں۔

    چلیں، دو صوبوں کے عوام کی خاطر باقی صوبوں کے عوام صبر کر بھی لیں تو حکومت مفت آٹا تقسیم کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی تو بنائے۔ پنجاب میں مفت آٹے کی تقسیم کے ابتدائی تین روز کے دوران بدنظمی اس قدر ہوئی ہے کہ آٹا لینے کے لیے آنے والے زخم لے کر خالی ہاتھ گھروں کو واپس گئے جب کہ تین ضعیف افراد مفت آٹے کی خاطر موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت مفت آٹا اسکیم کو ختم ہی کر رہی ہے۔

    ابھی مفت آٹے کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے غریب عوام کو پٹرول 50 سے 100 روپے لیٹر سستا فراہم کرنے کے منصوبے کا اعلان کردیا لیکن اس پر کب سے عمل کیا جائے گا اس کا ہنوز اعلان نہیں کیا ہے۔ لگتا ہے کہ دو صوبوں میں جو الیکشن ہونا تھے، اس سے قبل یہ سب عوام کو رجھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

    ویسے حکومت نے سستا پٹرول اسکیم کے جو خدوخال بتائے ہیں اس سے یہ ریلیف کم اور مذاق زیادہ لگتا ہے۔ وزیر پٹرولیم مصدق ملک کے مطابق موٹر سائیکل، رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کے لیے فی لیٹر 50 روپے ریلیف دینے کی تجویز ہے جس کے مطابق موٹر سائیکل سوار ماہانہ 21 لیٹر اور رکشا یا چھوٹی گاڑیاں 30 لیٹر تک پٹرول رعایتی قیمت پر حاصل کرسکیں گی۔ اگر اس کو ریلیف دینا کہتے ہیں تو اس کی مثال تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی ہوگی کیونکہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف موٹر سائیکل سوار کا روزمرہ کام کاج نمٹانے میں دو ڈھائی لیٹر پٹرول کم از کم خرچ ہوتا ہے جب کہ رکشا تو ایسی عوامی سواری ہے جس میں شاید یومیہ 30 لیٹر پٹرول کھپتا ہو۔ تو کیا اس کو ریلیف دینا کہا جائے گا یا مذاق؟

    اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ ملک کی لگ بھگ 50 فیصد سے زائد آبادی ایسی ہے جو بڑی پبلک ٹرانسپورٹ بسوں، منی بسوں اور کوچز میں سفر کرتی ہے۔ حکومت کے مجوزہ ریلیف پیکیج میں اس ٹرانسپورٹ کو شامل ہی نہیں کیا گیا تو اسے کیسے مکمل عوامی ریلیف قرار دیا جا سکتا ہے۔

    حکومت سے یہی استدعا ہے کہ اگر وہ عوام سے مخلص اور ان کی ہمدرد ہونے کے دعوؤں میں سچی ہے تو ریلیف کے نام پر لیپا پوتی کرکے وقت گزارنے کے بجائے حقیقی معنوں میں ان کی امداد کرے اور ایسا ریلیف دے کہ غربت کے مارے عوام کی داد رسی ہوسکے۔ یہ خود موجودہ حکومت کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ جلد یا بدیر الیکشن تو ہونے ہیں اور یہ معرکہ وہی جیت سکتا ہے جو خود کو عملی طور پر عوام کا ہمدرد اور غم گسار ثابت کرے گا۔

  • کراچی میں صبح بجلی کڑکی، بادل گرجے اور پھر برسے

    کراچی میں صبح بجلی کڑکی، بادل گرجے اور پھر برسے

    کراچی کے اکثر علاقوں میں اچانک موسم تبدیل ہوا اور صبح کے وقت بجلی زور زور سے کڑکی، بادل بھی گرجے اور اس کے بعد برس پڑے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پہلے روزے کو کراچی کے شہریوں کو خوشگوار حیرت ہوئی جب وہ سحری کرنے کے بعد کچھ خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے کہ اچانک بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج سے ان کی آنکھ کھلی تو جاگنے پر تیز بارش نے ان کا استقبال کیا۔

    شاہراہ فیصل، گلشن حدید، گلشن اقبال، سرجانی ٹاؤن، نیو کراچی، نارتھ ناظم آباد، سعدی ٹاؤن، صفورا، اورنگی ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا، صدر، کھارادر، لیاقت آباد، ایم اے جناح روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ سمیت شہر کے اکثر علاقوں میں تیز بارش ہوئی اور کہیں کہیں ہلکی بارش نے انٹری دی۔ گرج چمک کے ساتھ دھواں دھار بارش کا سلسلہ مختصر رہا تاہم اس بارش نے شہریوں کا پہلا روزہ خوشگوار بنا دیا۔

    محکمہ موسمیات نے بارش کے اعداد وشمار جاری کردیے ہیں جس کے مطابق سب سے زیادہ بارش پی اے ایف بیس پر 12 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی، اورنگی ٹاؤن میں 2.4 ملی میٹر، گلشن حدید میں ایک ملی میٹر ریکارڈ کی گئی

    شہر قائد میں موسم ابر آلود ہے اور کہیں ہلکی تو کہیں تیز بارش کا سلسلہ جاری ہے۔

  • آسمان سے سفید موتی کی صورت برستے اولوں سے پاکستانی شہر یورپ بن گئے، ویڈیو اور تصاویر

    آسمان سے سفید موتی کی صورت برستے اولوں سے پاکستانی شہر یورپ بن گئے، ویڈیو اور تصاویر

    کراچی سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں بارش اور ژالہ باری جاری ہے کچھ شہروں میں تو برفیلے اولوں نے تو یورپ کا نظارہ پیش کردیا جب کہ تھرپار میں بارش بہار لے آئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اس وقت کراچی سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں بارش اور ژالہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ موسم بہار میں کہیں بارش سے جل اور تھل ایک ہو رہے ہیں تو کہیں شہری ہلکی بارش سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ جہاں اولے بڑے بڑے سفید موتی کی صورت آسمان سے گرے تو وہاں موسم اور بھی حسین ہوگیا۔

    ملک کے بیشتر شہر ایسے بھی ہیں جہاں بارش کے ساتھ ژالہ باری نے دھوم مچا دی ہے۔ گزشتہ دنوں میں کراچی، حیدرآباد سمیت متعدد شہروں کے مختلف علاقوں میں کہیں ہلکی اور کہیں تڑتڑاتی ژالہ باری ہوئی ہے۔

     

    بعض شہر تو ایسے ہیں جہاں شدید ژالہ باری کے باعث اولوں کا قالین بچھ گیا ہے۔ پنجاب کے شہر منڈی بہاؤ الدین تو یورپ جیسا نظر آ رہا ہے جہاں گھر، سڑک، میدان، کھیت، کھلیان ہر جگہ اولوں نے سفید قالین بچھا دیا ہے۔ یہ نظارہ منڈی بہاالدین کی تاریخ میں اس سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

     

    ایسے میں جہاں یہ نظارے دیکھ کر شہری لطف اندوز ہوئے وہیں کسانوں کو بڑے پیمانے پر نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

    منڈی بہاؤالدین میں تاریخ کی شدید ژالہ باری سے گندم، مکئی، چنا، آلو اور مونگ پھلی کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے منڈی بہاالدین میں پہلی مرتبہ اتنی ژالہ باری دیکھی ہے جس نے انہیں تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    واضح رہے کہ منڈی بہاؤالدین کے علاقے ست سرا، پھالیہ، سوہاوہ، شوگر مل روڈ پر شدید ژالہ باری ریکارڈ کی گئی۔شہریوں کی جانب سے ٹوئٹر پر ژالہ باری کی تصاویر اور ویڈیوز بھی شیئر کی گئی ہیں جو خوب وائرل ہو رہی ہیں۔

    ملتان میں بھی تیز بارش اپنے ہمراہ آسمان سے اولے لے کر آئی۔ اس کے علاوہ لیہ، میلسی، جلال پوربھٹیاں، پھالیہ اور جہانیاں سمیت کئی شہروں میں موسلا دھار بارش کے ساتھ ژالہ باری نے رُت ہی بدل دی۔ تربت میں بھی خوب اولے گرے اور ہر طرف سفیدی ہی سفیدی چھا گئی۔

    سندھ کے صحرائی علاقے تھرپار میں بارش بہار لے آئی ہے اور وہاں کے پہاڑ اور میدان ہرے بھرے ہوکر بہترین تفریحی مقام بن گئے ہیں جہاں مقامی سمیت اطراف کے علاقوں سے جہاں لوگ تفریح کے لیے آ رہے اور محظوظ ہو رہے ہیں، وہیں مور بھی پنکھ پھیلائے اس مسحور کن موسم میں رقصاں نظر آنے لگے ہیں۔

    مانسہرہ میں بھی بادل جم کر برسے اور تیز ہوائیں چلیں جس سے نظارے نکھر گئے۔ جڑواں شہر پنڈی میں جل تھل ایک ہوا جس سے موسم تو خوشگوارہوا لیکن نشیبی علاقے پانی میں ڈوبنے سے شہریوں کی مشکلات بڑھ گئیں۔

  • بھارت کی ون ڈے ورلڈ کپ کیلیے پاکستان کو بڑی یقین دہائی

    بھارت کی ون ڈے ورلڈ کپ کیلیے پاکستان کو بڑی یقین دہائی

    بھارت نے رواں برس اپنے ملک میں شیڈول آئی سی سی ایک روزہ عالمی کپ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کو ویزے دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے زیر اہتمام ایک روزہ عالمی کپ کا میلہ رواں سال بھارت میں شیڈول ہے۔ اس حوالے سے میزبان ملک نے روایتی حریف پاکستان کو پوری ٹیم کے ویزے دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

    اس سے قبل بھارت روایتی تعصب اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرکے پاکستان کو کئی عالمی ایونٹ میں ویزے دینے سے انکار کرکے اسے ایونٹ سے بغیر کھیلے باہر کرنے کی سازش کرچکا ہے۔

    کھیلوں میں بھارتی تعصب کی تاریخ یوں تو بہت طویل ہے لیکن ہم یہاں گزشتہ چند سال کے ان عالمی ایونٹس کے بارے میں جانتے ہیں جب بھارت نے پاکستانی ٹیموں کو ویزے دینے سے انکار کرکے اسے بغیر کھیلے ایونٹ سے باہر کیا۔

    2015 میں بھارتی ہائی کمیشن نے پاکستان انڈر سیون ٹین ریسلنگ ٹیم کو ویزا دینے سے انکارکر دیا تھا۔

    2016 میں بھارت نے پاکستان کی جونیئر ہاکی ٹیم کو ویزے جاری نہیں کیے تھے اور پاسپورٹ بھی دبا لیے تھے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان جونئیر ہاکی ورلڈ کپ سے باہر ہوگیا تھا۔ اسی طرح 2017 میں ایشین اسکواش چیمپئن شپ میں پاکستانی ٹیم کو ویزا نہیں دیا گیا جس کے باعث قومی ٹیم ایونٹ سے باہر ہوگئی۔ بھارتی ہاکی کمیشن نے اس کے علاوہ بغیر کوئی وجہ بتائے پاکستان انڈر سیون ٹین ریسلنگ ٹیم اور آفیشلز کے پاسپورٹ ویزا لگائے بغیر ہی واپس کر دیے تھے۔

    ان تمام ایونٹس میں متعلقہ کھیلوں کی عالمی تنظیموں نے بھارت کے اس متعصبانہ رویے پر اس کو سزا دینے کے بجائے گرین شرٹس کو ہی ایونٹس سے باہر کرکے بھارتی تعصب کی مبینہ طور پر پشت پناہی کی۔

    2019 میں بھی بھارت اپنی پاکستان دشمنی سے باز نہ آیا اور روایتی ہٹ دھرمی کو دہراتے ہوئے پاکستان کو ٹینس کے دو عالمی ایونٹس سے باہر کرنے کی سازش کی لیکن اس بار یہ سازش اس کے اپنے گلے پڑ گئی اور بھارت کو دو عالمی ایونٹس کی میزبانی سے ہاتھ دھونا پڑے۔

    پہلے اپریل 2019 میں ہونے والے ٹینس جونیئر ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی ٹیم کو ویزے نہ دینے پر اس سے میزبانی واپس لے کر ایونٹ تھائی لینڈ میں کرایا گیا تاہم بھارت پھر بھی باز نہ آیا اور جونیئر فیڈریشن کپ کے لیے بھی گرین شرٹس کو ویزے جاری نہ کیے جس پر اسے اس کی میزبانی سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔

    2019 میں دو عالمی ایونٹس سے ملنے والی سزا بھی بھارت کی تعصب پرستی دور نہ کرسکی اور گزشتہ سال دسمبر 2022 میں اس نے پاکستان کی بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ کے لیے ویزے جاری نہیں کیے اور یوں متعدد بار کی بلائنڈ ورلڈ کپ کی عالمی چیمپئن گرین شرٹس اس بار بغیر کھیلے ایونٹ سے باہر ہوئی تھی۔

  • ایشیا کپ کیلیے پاکستان ٹیم بھیجنے کا معاملہ، بھارتی وزیر کھیل کا بڑا یوٹرن

    ایشیا کپ کیلیے پاکستان ٹیم بھیجنے کا معاملہ، بھارتی وزیر کھیل کا بڑا یوٹرن

    رواں سال پاکستان میں ہونے والے ایشیا کپ میں اپنی کرکٹ ٹیم بھیجنے سے متعلق بھارتی وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے اپنے سابقہ بیان سے یوٹرن لے لیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارتی کرکٹ بورڈ پاکستان میں ٹیم بھیجنے کے حوالے سے گیند ہمیشہ حکومت کے کورٹ میں ڈالتا رہا ہے کہ حکومت اجازت دے گی تو ٹیم پاکستان جائے گی ورنہ نہیں اور رواں برس پاکستان میں شیڈول ایشیا کپ کے لیے بھی بی سی سی آئی نے یہی حربہ استعمال کیا۔

    دوسری جانب بھارتی حکومت بھی سیکیورٹی کو جواز بنا کر اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کرتی آئی ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں گزشتہ برس اکتوبر میں وزیرکھیل انوراگ ٹھاکر نے کہا تھا کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے کھلاڑیوں کے پاکستان جانے کا فیصلہ وزارت داخلہ کرے گی۔

    تاہم اب یہی وزیر کھیل سوال بھی وہی لیکن جواب میں انہوں نے اپنے سابقہ بیان سے مکمل یوٹرن لے لیا اور بھارتی کرکٹ ٹیم بھیجنے کا معاملہ بی سی سی آئی کے کورٹ میں ڈال دیا۔
    ناگپور میں میڈیا سے بات چیت کے دوران جب وہ مختلف حکومتی پالیسیز پر بات کر رہے تھے تو ان سے بھارتی ٹیم کے ایشیا کپ کیلیے پاکستان جانے سے متعلق سوال کیا گیا۔ اس سوال پر انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ پہلے بھارتی کرکٹ بورڈ کو اس ٹورنامنٹ میں شرکت کے حوالے سے اپنا فیصلہ کر لینے دیں، اس کے بعد ہی وزارت کھیل اور داخلہ اس بارے میں حتمی فیصلہ کرے گی۔

    پی سی بی کی جانب سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگر بھارتی ٹیم ایشیا کپ کیلیے پاکستان نہیں آتی تو پھر اکتوبر میں شیڈول ورلڈ کپ کیلیے گرین شرٹس کو بھی بھارت نہیں بھیجا جائے گا۔

    یاد رہے کہ بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شا نے از خود ہی ایشیا کپ کو پاکستان سے کسی نیوٹرل وینیو پر منتقل کرنے کا فیصلہ سنادیا تھا، اس پر نہ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا بلکہ اس کے مطالبے پر ایشین کرکٹ کونسل کی میٹنگ بلائی گئی جس میں معاملے پر غور مارچ تک موخر کیا گیا تھا اور یہ معاملہ ابھی تک ہوا میں ہی معلق ہے۔

     پی سی بی سربراہ نجم سیٹھی اس حوالے سے دوٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ وہ آئی سی سی اور اے سی سی میٹنگز میں اس حوالے سے ٹھوس موقف پیش کریں گے۔

  • زلمی اور قلندرز کے ایلیمینیٹر میچ میں کھیل کو الٹ پلٹ کرنے والے لمحات

    زلمی اور قلندرز کے ایلیمینیٹر میچ میں کھیل کو الٹ پلٹ کرنے والے لمحات

    پی ایس ایل 8 کے پہلے ایلیمینٹر میں پشاور زلمی نے لاہور قلندر کو شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کردیا کھیل کے کچھ لمحات نے پورے میچ کو الٹ پلٹ کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ سیزن 8 کامیاب انعقاد کے ساتھ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ روز کھیلے گئے پہلے ایلیمینٹر میں پشاور زلمی نے ایونٹ کی مضبوط ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ کو دلچسپ مقابلے کے بعد شکست دے کر ایونٹ سے ہی باہر کر دیا۔

    اس مقابلے میں پشاور زلمی کی جانب سے دیے گئے 184 رنز کے ہدف کے تعاقب میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے 14 اوورز میں ایک وکٹ کے نقصان پر 128 رنز بنا لیے تھے۔ کریز پر ایلکس ہیلز 57 اور صہیب مقصود 60 رنز بنا کر موجود تھے اور دونوں بلے بازوں نے جارحانہ انداز اپنایا ہوا تھا۔

    اس مرحلے پر عامر جمال اور سلمان ارشاد کے اسپیل نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے بلے بازوں پر قہر ڈھا کر ان کے میچ جیتنے کے ارمان پر پانی پھیر دیا۔ دونوں بالرز نے صرف رنز بنانے کی رفتار پر ہی قابو نہیں پایا بلکہ جارحانہ بلے بازوں کو پویلین بھی بھیجا۔

    پہلے عامر جمال نے 60 رنز پر صہیب مقصود کو بولڈ کیا تو اگلے ہی اوور میں پی ایس ایل کے اسٹیج گروپ میں بولرز پر برسنے والے اعظم خان کو ہاتھ کھولنے سے قبل ہی سلمان ارشاد نے قابو کرلیا اور 2 رنز کے انفرادی اسکور پر ان کی وکٹ اڑا دی۔

    اس سے اگلے اوور میں عامر جمال نے ایلکس ہیلز کو آؤٹ کیا تو سلمان نے تن تنہا میچ جتوانے کی صلاحیت رکھنے والے کولن منرو کو چار رنز پر پویلین واپس بھیج دیا۔

    میچ میں زلمی کی بولنگ کی جاندار نہیں رہی بلکہ پھرتی اور عقل کے شاندار استعمال نے بھی ان کی جیت کی راہ ہموار کی۔ یونائیٹڈ کے کپتان شاداب خان کو کریز پر جوائن کرنے والے فہیم اشرف کو عامر جمال نے رن آؤٹ کرکے امیدوں کے چراغ مکمل بجھا دیے۔ شاداب خان دوسرے اینڈ پر اپنی ٹیم کے بلے بازوں کو پویلین سے آتا اور واپس جاتا دیکھتے رہے۔

    شاندار بولنگ کے ساتھ چابکدستی سے فیلڈنگ، یہ وہ لمحات تھے جنہوں نے میچ کا رخ پشاور زلمی کی طرف پلٹ دیا۔

  • توشہ  خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    توشہ خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    ملکی سیاست میں توشہ خانہ کی بازگشت ایک سال سے سنائی دے رہی ہے. اس کے ساتھ ہم ‘گھڑی چور’ کا شور بھی سن رہے تھے، مگر کیا ان شور مچانے والوں میں کوئی ایسا بھی ہے جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں؟ جی نہیں۔

    توشہ خانے کا22 سالہ ریکارڈ کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ یہ ریکارڈ پبلک ہوا تو عوام نے جانا کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ توشہ خانہ وہ جگہ ہے جہاں سرکاری شخصیات کو ملنے والے تحائف جمع کرائے جاتے ہیں۔ سربراہانِ وقت، اعلیٰ عہدے داروں اور سرکاری شخصیات کو بیرون ملک یا پاکستان میں جو تحائف دیے جاتے ہیں، وہ ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ سرکاری حیثیت میں دیے جاتے ہیں، اس لیے انہیں‌ سرکار کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے اور توشہ خانے میں جمع کرایا جاتا ہے۔ اس توشہ خانے کے کچھ اصول، ضابطے اور قوانین ہیں جن کے مطابق کسی بھی تحفے کی اصل مالیت کا کچھ فیصد دے کر تحفہ وصول کرنے والی شخصیت اس کی مالک بن سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اس تحفے کو نیلام کرکے اس سے حاصل کردہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان میں توشہ خانے سے تحائف کو نیلام کرنے کی نوبت کم ہی آئی ہے۔ زیادہ تر تحائف کو برسر اقتدار اور بااختیار افراد، جن میں بیورو کریٹس، عوامی نمائندے اور سیاسی شخصیات شامل ہیں ،انھوں نے اپنی ملکیت بنایا، اور اس کے لیے اصل قیمت کا کچھ فیصد ادا کرنے کے قانون کا سہارا لیا. ان میں سے اکثر تو تحائف کو مفت ہی میں اپنے گھر لے گئے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کسی بھی تحفے کی اصل قیمت کا تعین کیبنٹ ڈویژن مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں ذاتی فائدے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی اصول اور قاعدے پر مفاد کو ترجیح دی جاتی ہو یہ سب مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی طے پاتا ہے؟ عوام کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے۔

    پاکستان میں گزشتہ سال برسرِ اقتدار آنے والی نئی حکومت نے حسبِ روایت سابق حکم رانوں پر کئی الزامات لگائے جن میں‌ شہباز شریف اور اتحادیوں نے زیادہ زور توشہ خانہ پر لگایا اور سب سے زیادہ شور ’’گھڑی چور‘‘ کا مچایا۔ اس معاملے نے اس حد تک طول پکڑا کہ گزشتہ سال ہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کو توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن نے نااہل بھی قرار دے دیا جس کو حکومتی اتحاد نے اپنی فتح قرار دیا تھا۔ جب کہ اسی حوالے سے ایک کیس اسلام آباد کی عدالت میں بھی زیرسماعت ہے اور اسی پس منظر کے ساتھ گزشتہ کئی روز سے لاہور کی فضاؤں میں ہنگامہ برپا ہے۔

    پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت شہباز شریف کی زیرقیادت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے ہی وہ تنقید کی زد میں ہے۔ تاہم اس حکومت نے توشہ خانے کا ریکارڈ پبلک کرنے کا وہ کارنامہ انجام دیا جو اس سے قبل کوئی حکومت انجام نہ دے سکی۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے اور بعض رپورٹوں کے مطابق بھی اس ریکارڈ میں بعض باتیں مخفی اور کچھ مبہم ہیں تاہم اس کا کریڈٹ شہباز حکومت کو ضرور دینا چاہیے۔

    یوں تو گاہے گاہے توشہ خانہ عام کرنے کی آواز مختلف ادوار میں اٹھائی جاتی رہی ہے مگر اس پر شد و مد کے ساتھ آواز گزشتہ سال شہید صحافی ارشد شریف نے اٹھائی تھی. اس کے بعد نوجوان وکیل ابو ذر نیازی ایڈووکیٹ یہ معاملہ عدالت میں لے گئے اور عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کی تفصیلات عام کرنے کاحکم جاری ہوا تو حکومت نے گزشتہ 2 دہائیوں کے تحائف اور ان سے متعلق تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں۔ توشہ خانے کا یہ ریکارڈ 2002 سے 2023 تک کا ہے جو 466 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ریکارڈ کے بعدتو ملکی سیاست میں ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کی گردان ختم سمجھیے کیونکہ توشہ خانے کی بہتی گنگا میں سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔

    اس رپورٹ کے مطابق سابق اور موجودہ صدر، وزرائے اعظم، وفاقی وزرا، اراکین پارلیمنٹ، وزرائے اعلیٰ، بیورو کریٹس، حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی افسران سمیت کون نہیں ہے جو اس سے مستفید نہیں ہوا۔ وہ بھی جو خود کو صادق و امین کہتے نہیں تھکتے اور وہ بھی جو گھڑی چور گھڑی چور کی رٹ لگائے ہوئے ہیں بلکہ گھڑی چور کا شور مچانے والوں نے تو توشہ خانے سے کئی اور بعض نے درجنوں کے حساب سے گھڑیاں حاصل کیں۔

    توشہ خانے کی رپورٹ پر نظر ڈالیں‌ تو معلوم ہوتا ہے کہ 2002 سے 2022 کے دوران سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف، آصف علی زرداری، ممنون حسین، موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، عمران خان، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت حسین، میر ظفر اللہ جمالی کے علاوہ اسحاق ڈار، خواجہ آصف، شیخ رشید، چوہدری پرویز الہٰی سمیت کئی نام ہیں جنہوں نے سرکاری تحائف کو معمولی رقم کے عوض یا مفت میں ذاتی ملکیت بنایا۔

    ایسے میں سینیٹ اراکین نے توشہ خانہ کے تحائف کی مزید تفصیلات مانگ لی ہیں اور 1988 سے اب تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت یہ ہمّت کر لیتی ہے تو مزید نام سامنے آجائیں گے۔

    حالیہ فہرست میں کئی ایسی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے ان تحائف سے نہ صرف اپنے گھر بھرے بلکہ اپنی اولادوں کو نوازنے کے ساتھ دریا دلی دکھاتے ہوئے اپنے مہمانوں کو بھی قیمتی تحائف معمولی رقم کی ادائیگی پر دلوائے۔ ایسے نام بھی سامنے آئے جنہوں نے آج تک کوئی پبلک آفس ہولڈ نہیں کیا لیکن وہ بھی ‘مالِ غنیمت’ کے حق دار ٹھہرے۔ ذاتی ملازمین، ذاتی معالج، وزیراعظم کے آفس کے ملازمین کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

    توشہ خانہ سے فیض اٹھانے والوں کے ناموں کی فہرست کے ساتھ اس ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انتہائی مہنگی بلٹ پروف گاڑیاں، قیمتی گھڑیاں، ہیرے جواہرات، طلائی زیورات، انمول اور شاہکار تو ایک طرف توشہ خانہ کو ذاتی خانہ بنانے والوں نے گلدان، سیاہی، پین، بیڈ شیٹ، ڈنر سیٹ، اسکارف، کارپٹ، گلاس سیٹ، گلدان، پینٹنگ، مجسمے، پرس، ہینڈ بیگز، تسبیح، کف لنکس، صراحی، پیالے، خنجر، چاکلیٹ، خشک میوہ جات کے پیکٹ، انناس کے باکس، شہد، خالی جار، کافی اور قہوہ دان، کپڑے، پرفیومز، دسترخوان، بھینس اور اس کے بچّے کو بھی نہیں چھوڑا۔

    توشہ خانہ قوانین کے سیکشن 11 کے مطابق تحفے میں والے نوادر اور شاہکار اشیا یا گاڑی کو کوئی بھی اپنے پاس رکھنے یا لینے کا مجاز نہیں ہے۔ انٹیک آئٹم میوزیم یا سرکاری عمارات میں رکھے جائیں گے اور گاڑیوں کو کیبنٹ ڈویژن کے کار پول میں رکھا جائے گا لیکن ان قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے دو انتہائی قیمتی گاڑیاں اور سابق صدر آصف علی زرداری نے تین بلٹ پروف مہنگی ترین گاڑیاں اصل قیمت سے کہیں کم قیمت دے کر اپنی ملکیت بنا لیں جب کہ نادر و نایاب فن پاروں کی اکثریت کسی میوزیم یا سرکاری عمارت کے بجائے بڑی شخصیات کے گھروں پر سجائی گئیں۔

    ایک اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ گھڑیوں کے سب ہی شوقین نکلے۔ چند ماہ سے جن شخصیات نے سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کا شور ڈالا ہوا تھا وہی ایک نہیں کئی کئی بلکہ بعض تو درجنوں کے حساب سے توشہ خانہ سے گھڑیاں لینے والے نکلے۔ اب یہ گھڑیاں ان کے پاس ہیں۔ فروخت کیں یا کسی اور کو دے دیں۔مستقبل میں اس حوالے سے سوالات ضرورکھڑے ہوسکتے ہیں.

    گھڑی چور، گھڑی چور کا شور مچانے والوں میں سے جن لوگوں نے خود گھڑیاں حاصل کیں ان میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، راجا پرویز اشرف اور ان کا خاندان، آصف زرداری، مریم اورنگزیب اور ان کی والدہ سابق ایم این اے طاہرہ اورنگزیب، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی، موجودہ چیئرمین نیب، خواجہ آصف، کئی دیگر ن لیگی اور پی پی پی راہ نما شامل ہیں جب کہ طویل فہرست میں چند صحافیوں کے نام بھی موجود ہیں۔

    توشہ خانہ کی فہرست جاری ہونے کے بعد تنقید شروع ہوئی تو اس کا زور توڑنے کے لیے وفاقی حکومت نے توشہ خانہ پالیسی 2023 جاری کرکے اس کا فوری نفاذ بھی کر دیا جس کے تحت اب توشہ خانہ سے 300 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ حاصل کرنے پر پابندی ہوگی اور صدر، وزیراعظم، کابینہ اراکین اور دیگر حکومتی نمائندے سب اس کے پابند ہیں۔ اس سے زائد مالیت کے تحائف ریاست کی ملکیت ہوں گے اور نیلامِ عام کے ذریعے عوام بھی اسے خرید سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ملکی و غیر ملکی شخصیات سے نقد رقم بطور تحفہ لینے پر بھی پابندی ہو گی۔ اگر تحفے کی صورت میں مجبوراً نقد رقم وصول کرنا پڑے تو یہ فوری طور پر قومی خزانے میں جمع کرانی ہوگی۔ سونے اور چاندی کے سکّے اسٹیٹ بینک کے حوالے کیے جائیں گے۔ توشہ خانہ پالیسی کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

    یہ پالیسی اعلان خوش کن ہے جس کے مطابق اب کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں، زیورات، گھڑیاں و دیگر قیمتی تحائف حاصل نہیں کیے جاسکیں گے لیکن اس پالیسی میں سوائے 300 ڈالر مالیت کی حد بندی کے علاوہ نیا کیا ہے؟ جو پہلے سے توشہ خانہ قوانین میں موجود نہیں تھا۔ یہاں مسئلہ قانون یا پالیسی بنانے کا نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں قانون تو بنتے رہتے ہیں لیکن اس کا اطلاق برسر اقتدار شخصیات اور بااختیار افراد پر نہیں ہوتا یا کم ہی ہوتا ہے۔ اگر توشہ خانہ کے قوانین پر عملدرآمد ہو رہا ہوتا تو قیمتی بلٹ پروف گاڑیاں آصف زرداری اور نواز شریف اپنی ملکیت میں نہ لیتے کیونکہ اس حوالے سے توشہ خانہ قانون کا سیکشن 11 بہت واضح ہے۔ رہی بات توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی تو گاڑیاں لے کر سابق صدر اور سابق وزیراعظم پہلے ہی اس قانون کی دھجیاں بکھیر چکے ہیں اور کیا موجودہ شہباز حکومت ان کے خلاف ’’سخت کارروائی‘‘ کرنے کی ہمّت کرے گی۔

    جو لوگ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق مفت یا کم قیمت پر توشہ خانہ سے تحائف ذاتی ملکیت بناتے رہے اور اس پر قوانین کا حوالہ دیتے رہے ہیں ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے مفتیانِ کرام کا جاری کردہ فتویٰ کافی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مطابق توشہ خانہ سے کم قیمت پر اشیا خریدنا جائز نہیں کیوں کہ یہ تحائف ملک اور قوم کی امانت ہیں، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ حکومتی ذمے داروں کا ان تحائف کو مفت یا کچھ رقم دے کر اپنی ملکیت میں لینا جائز نہیں۔ علما نے فتویٰ جاری کرنے کے ساتھ حل اور ایک تجویز بھی پیش کی ہے کہ اگر سربراہان اور عہدے داران ان تحائف کو اپنی ملکیت میں لانا چاہیں تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ان کی پوری قیمت ادا کی جائے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ ان تحائف کو نیلام کیا جائے اور نیلامی میں ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت ہو، اس نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کروایا جائے کیوں کہ یہ تحائف ریاست کی ملکیت ہیں۔

    آخر میں ہم سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ نقل کررہے ہیں، جو زندگی کا نوحہ ہے، اُس زندگی کا جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جارہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں. اُس زندگی کا نوحہ جسے پاکستان کے کروڑوں بدن دریدہ عوام گھیسٹے چلے جارہے ہیں ۔ اور یہ نوحہ مفادپرستی اور من مانی کی روشنائی کے ساتھ طاقت و اختیار ، شاہانہ کرّوفر اور امارت کے قلم سے لکھا گیا ہے!

    اس پوسٹ کے الفاظ ہیں: ’’کاش ملک کے غریبوں کے لیے بھی کوئی ایسا توشہ خانہ ہوتا جہاں‌ سے وہ 150 روپے کلو والا آٹا 15 روپے کلو، 200 روپے کلو والی پیاز 20 روپے کلو اور 1000 روپے کلو والا گوشت 100 روپے میں خرید سکتا۔‘‘

    اس پوسٹ پر کچھ لوگوں کا تبصرہ تھا کہ یہ الفاظ اربابِ اختیار کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ واقعی، ہم میں سے اکثر لوگ اچھے خاصے خوش گمان ہیں۔ البتہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ غالب نے یہ شعر اس بے حس معاشرے کی بے ضمیر اشرافیہ کے لیے ہی کہا تھا،

    کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔