Author: ریحان خان

  • پاکستان میں پہلا روزہ کب ہوگا؟

    پاکستان میں پہلا روزہ کب ہوگا؟

    رحمتوں اور برکتوں والے مہینے رمضان المبارک شروع ہونے میں چند ہفتے ہی باقی رہ گئے ہیں پاکستان میں پہلا روزہ کب ہوگا محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کر دی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق دنیا بھر میں رحمتوں اور برکتوں والے ماہ رمضان المبارک شروع ہونے میں صرف چند ہفتے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ پاکستان میں رمضان کا چاند کب نظر آئے گا اور پہلا روزہ کس دن ہوگا اس حوالے سے محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی ہے۔

    محکمہ موسمیات نے رواں سال 22 مارچ کو رمضان المبارک 1444 ہجری کا چاند نظر آنے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں پہلا روزہ جمعرات 23 مارچ کو ہوسکتا ہے۔

    محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق پاکستان میں نیا چاند 21 مارچ کی شب 10 بج کر 23 منٹ پر پیدا ہوگا اور فلکیاتی پیرا میٹرز کے مطابق رمضان المبارک 1444 ہجری کا چاند نظر آنے کا امکان 22 مارچ 2023 کی شام یعنی 29 شعبان 1444 ہجری کو ہے۔

    پی ایم ڈی نے کہا ہے کہ موسمیاتی ریکارڈ کے مطابق 22 مارچ کی شام ملک کے بیشتر حصوں میں موسم صاف یا جزوی طور پر ابر آلود رہنے کی توقع ہے۔

    اگر پی ایم ڈی کی پیش گوئی کے مطابق رمضان کا ماہ مقدس شروع ہوتا ہے تو پہلا روزہ 23 مارچ جمعرات کو ہوگا۔

  • آج سنڈے بنے گا فن ڈے، پی ایس ایل کے 2 میچز ہوں گے

    آج سنڈے بنے گا فن ڈے، پی ایس ایل کے 2 میچز ہوں گے

    شائقین کرکٹ کے لیے آج کا سنڈے بن رہا ہے فن ڈے کیونکہ ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ 8 کے دو میچز کھیلے جائیں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ سیزن 8 کے سنسنی خیز مقابلے جاری ہیں۔ آج ایونٹ کے دو بڑے میچز کھیلے جائیں گے جس کے باعث آج کا سن ڈے شائقین کرکٹ کے لیے فن ڈے بن جائے گا۔

    کراچی کنگز اپنے ہوم گراؤنڈ پر ملتان سلطانز کی رواں ایونٹ میں پہلی بار میزبانی کرے گی۔ نیشنل اسٹیڈیم میں دونوں ٹیموں کا ٹاکرا دوپہر 2 بجے شروع ہوگا۔

    آج کا دوسرا میچ دفاعی چیمپیئن لاہور قلندرز کا ہوگا۔ قلندرز اپنے ہوم گراؤنڈ پر پشاور زلمی سے مقابلہ کریں گے۔ قذافی اسٹیڈیم میں یہ میچ شام 7 بجے شروع ہوگا۔

    پی ایس ایل 8 کے تمام میچز اے اسپورٹس پر براہ راست دکھائے جا رہے ہیں۔

  • منی بجٹ بمقابلہ حکومتی بچت پروگرام، کتنی حقیقت اور کیا افسانہ!

    منی بجٹ بمقابلہ حکومتی بچت پروگرام، کتنی حقیقت اور کیا افسانہ!

    صدرِ مملکت نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں پر مشتمل منی بجٹ (فنانس سپلیمنٹری بل 2013) کی منظوری دے دی ہے اور اس کے ساتھ ہی پہلے سے مہنگائی کی چکّی میں پستے ہوئے عوام مزید بوجھ تلےدب گئےہیں۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کا بچت پروگرام بھی پیش کیا ہے جس میں وفاقی کابینہ کے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے سمیت کئی خوش کن اعلانات کیے گئے ہیں، لیکن یہ اعلانات منی بجٹ کے عوام پر پڑنے والے اثرات کو کم کرسکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔

    وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو 4 سال بیمار رہنے کے بعد بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اچانک صحت یاب ہو کر وطن واپس آئے تھے، یہاں ان کے اقدامات سے عوام کی نبض ڈوبنے لگی ہے۔ وزیر خزانہ کبھی کبھی ٹی وی پر آتے ہیں اور جب بھی آتے ہیں عوام کے لیے ان کی تقریر اور کوئی اعلان بھیانک خواب ثابت ہوتا ہے۔ ایسا ہی گزشتہ ہفتے بھی ہوا۔ انہوں نے فنانس سپلیمنٹری بل 2023 المعروف منی بجٹ پیش کیا جس کے ذریعے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا راستہ نکالا گیا ہے۔

    غریب اور منہگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کی خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے اس بار نئے بوجھ تلے عوام کو یوں دبایا ہے کہ ان میں درد سے کراہنے کی سکت بھی ختم ہوچکی ہے۔ اس منی بجٹ پر صدر مملکت کے منظوری نے گویا عوام کے زندہ درگور کیے جانے کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔

    دوسری طرف منی بجٹ پیش ہوتے ہی اپوزیشن اور عوامی سطح پر کیا خود حکومتی حلقوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور ن لیگ کے اندر اپنے ہی وزیر خزانہ کو ہٹانے کے مطالبات کی گونج سنائی دینے لگی۔ اسی دوران ملکی اور سوشل میڈیا پر حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور مراعات پر بھی انگلی اٹھائی جانے لگی۔ یہ اس کا اثر تھا یا کچھ اور کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کی بچت کا پروگرام پیش کیا، لیکن کیا اس پر واقعی عمل بھی کیا جائے گا؟ ماضی میں‌ بھی حکومتیں ایسے اعلانات کرتی رہی ہیں، مگر ان کے ایوانِ اقتدار سے جانے کے بعد عوام کے سامنے آیا کہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی اور تمام اعلانات دھوکا اور فریب تھے۔

    گزشتہ ادوار کے ان اعلانات سے قطع نظر شہباز شریف کی حالیہ پریس کانفرنس میں جو بظاہر امید افزا باتیں‌ کی گئی ہیں، ان کے مطابق وفاقی وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے۔ جب کہ بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ کابینہ اراکین سے لگژری گاڑیاں واپس لینے اور انہیں نیلام کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزرا کے معاون عملے کو بیرون ملک ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام ممنوع جب کہ اندرون ملک سفر اکانومی کلاس میں کیا جائے گا۔ ناگزیر ہو تو سرکاری افسران بیرون ملک دوروں میں‌ شامل ہوں گے۔ تمام وزارتوں، محکموں اور ذیلی اداروں کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی۔ جون 2024 تک تمام پرتعیش اشیا، ہر قسم کی نئی گاڑیوں کی خریداری اور کابینہ اراکین پر لگژری گاڑی استعمال کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین یا حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں ہوگا، دو سال تک کوئی نیا شعبہ نہیں بنایا جائے گا، سرکاری تقریبات میں سنگل ڈش پر اکتفا کیا جائے گا، تاہم غیر ملکی مہمانوں کی شرکت کی صورت میں یہ پابندی نہیں ہوگی۔

    وزیراعظم نے گرمیوں میں بجلی اور گیس کی بچت کیلیے سرکاری دفاتر صبح ساڑھے 7 بجے کھولنے کا فیصلہ، مارکیٹیں رات ساڑھے 8 بجے تک بند نہ کرنے پر ان کی بجلی منقطع کرنے، بینظر انکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافے سمیت کئی دیگر اعلانات بھی کیے۔ یہ سب اعلانات قابلِ ذکر ہیں‌ مگر کیا 170 ارب روپے کے بجٹ کی صورت گرائے گئے مہنگائی کے ایٹم بم کے اثرات سے غریب عوام بچ سکیں‌ گے اور انہیں کوئی ریلیف ملے گا؟ اس کا رد تو خود وزیراعظم کے اپنی پریس کانفرنس میں ادا کردہ ان جملوں سے ہورہا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ’’غربت میں یقیناً اضافہ ہوا ہے جب کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے پر یقیناً مہنگائی ہوگی کیونکہ جو شرائط طے کی ہیں ان کو بھی پورا کرنا ہے۔ غریب عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کے لیے ٹیکسز بڑی کمپنیوں پر لگائے گئے ہیں۔‘‘

    حکومت کا یہی کہنا ہے کہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا گیا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جی ایس ٹی جو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کیا گیا ہے کیا وہ غریب ادا نہیں کرتا؟ وزیراعظم کے غریب پر بوجھ نہ ڈالنے والی بات کے غبارے سے ہوا تو ایف بی آر کی وہ دستاویز ہی نکال دیتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کون کون سی اشیاء ہیں جو مہنگی ہوں گی، بلکہ یوں کہا جائے کہ اس فہرست میں ایسی کیا چیز رہ گئی جو مہنگی نہیں ہوگی۔ ٹیکس کی کوئی بھی شکل ہو اور وہ کسی بھی نام سے ہو اور کسی بھی پر عائد کیا جائے، اس کا بوجھ ہمیشہ عوام ہی پر پڑتا ہے۔

    دستاویز کے مطابق اس منی بجٹ کی منظوری اور اطلاق کے بعد کولڈ ڈرنکس، مشروبات، ڈبہ پیک فروٹ جوسز، شوگر فری جوسز، ڈبہ پیک دیگر اشیا میں خوردنی تیل، بسکٹ، جام، جیلی، نوڈلز، بچوں کے کھلونے، سگریٹ، چاکلیٹ، ٹافیاں، خواتین کے میک اَپ کا سامان، شیمپو، کریم، لوشن، صابن، ٹوتھ پیسٹ، ہیئر کلر، ہیئر جیل، شیونگ فوم، شیونگ جیل، شیونگ کریم اور شیونگ بلیڈز تک کے دام بڑھ جائیں‌ گے۔ کیا یہ سب اشیا ملک کے غریب عوام استعمال نہیں کرتے یا یہ پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی ہی ضرورت ہے؟

    شادی ہالز اور ہوٹلوں پر ایڈوانس ٹیکس لگا ہے۔ اس کی وصولی شادی ہال مالکان صارفین سے ہی کریں گے اور ان میں اکثریت متوسط طبقے کی ہو گی۔ موبائل فونز پر ٹیکس بڑھنے سے بھی غریب ہی متاثر ہوں گے۔ اسٹیل کی قیمتوں میں تاریخی اضافے کے بعد ملک میں تعمیراتی صنعت جو پہلے ہی برے حال میں تھی، اس پر مزید برا اثر پڑے گا۔ سیمنٹ پر فی کلو ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ اگر وزیراعظم کے دعوے کو لمحہ بھر کے لیے درست مانا جائے تو سوال تو اٹھے گا کہ ملک میں کیا صرف امرا کے بنگلے اور کوٹھیاں بنتے ہیں؟ کیا غریب ایک دو کمرے کے گھر اور فلیٹ نہیں بناتے؟

    اس منی بجٹ کے ساتھ ہی گیس کی قیمتوں میں 16 سے 113 فیصد اضافے تک کا نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا ہے جب کہ بجلی کی قیمتیں بھی مرحلہ وار بڑھائی جائیں گی۔ یہ تو گرانی کے وہ منفی اثرات ہیں جو عوام مستقل برداشت کریں گے جب کہ آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہر سطح پر ہونے والی مہنگائی، بجلی کے بلوں میں ہر ماہ کبھی فیول تو کبھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھاری وصولی کا سلسلہ تو جاری ہی رہتا ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق حکومتی نااہلی اور کوتاہیوں کا بوجھ عوام برداشت کریں‌ گے۔

    اکثر ماہرینِ معیشت یہ کہتے نظر آرہے ہیں‌ کہ پاکستان اس وقت ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے اور اگر وفاقی وزیر دفاع کے بیان پر یقین کیا جائے جو انہوں نے سیالکوٹ میں ایک تقریب کے دوران دیا تو ’’پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔‘‘ اس بیان کی وضاحت وزیر خارجہ کو بیرون ملک یہ کہہ کر کرنی پڑی کہ پاکستان کے دیوالیہ کرجانے کا وزیر دفاع کا بیان سیاسی بیان ہے۔ بہرحال ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ جانے والا پاکستان اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ رکھتا ہے جب کہ معاشی طور پر خوشحال اور ہم سے کہیں بڑی آبادی والے ممالک کی کابینہ اراکین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔

    اس وقت ملک میں 87 رکنی وفاقی کابینہ ہے جب کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہزار سے زائد اراکین ہیں۔ ان عوامی نمائندوں پر غریب عوام کی جیب سے کتنا خرچ ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس عوام کو 5 کروڑ روپے کا پڑتا ہے۔ اجلاس جاری رہنے پر ہر رکن کو روزانہ کنوینس الاؤنس 2000، ڈیلی الاؤنس کی مد میں 4800، ہاؤسنگ الاؤنس کے 2 ہزار جو یومیہ 8800 بنتے ہیں۔ فری ٹریول اس کے علاوہ ہے۔

    ایک رکن قومی اسمبلی عوام کو ماہانہ 2 لاکھ 70 ہزار میں پڑتا ہے جس میں ان ممبران کو بنیادی تنخواہ کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے، اعزازیہ 12700، سنچوری الاؤنس 5000 ، آفس مینٹیننس 8000 روپے، ٹیلیفون الاؤنس 10، ایڈہاک ریلیف کی صورت 15 ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فری ٹریول ہے۔ مفت سفر کے مد تین لاکھ کے سفری واؤچر یا 90 ہزار روپے کیش بھی سالانہ دیا جاتا ہے۔ بزنس کلاس کے ہر سال ریٹرن 25 ٹکٹ بھی ان کے حلقہ انتخاب سے قریبی ایئرپورٹ سے اسلام آباد تک دیے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں رہائش، 1300 کار، 300 لیٹر پٹرول ان تمام مراعات کے علاوہ، تخفیف یا والی چیزیں یہ تھیں کیونکہ پارلیمنٹ میں جو لوگ موجود ہیں وہ سب یہ افورڈ کرسکتے ہیں۔

    جب یہ اراکین پارلیمنٹ کے رکن نہیں رہتے تب بھی گریڈ 22 کے سرکاری افسر کے مساوی میڈیکل سہولیات، خود اور اہلیہ کے لیے بلو پاسپورٹ بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس ملک کے غریب عوام 503 ارب روپے سالانہ اشرافیہ کی پنشن کی مد میں بھی ادا کر رہے ہیں۔

    وزیراعظم کے تمام خوش رنگ اور امید افزا اعلانات سر آنکھوں پر لیکن اشرافیہ کی مراعات میں‌ تخفیف یا پابندی کے لیے انہوں نے حکومت کی جانب سے کوئی پلان نہیں دیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی وہ شرائط جو غریب کا گلا گھونٹنے کے لیے ہوتی ہیں ہر دور حکومت میں انہیں‌ فوری طور پر اور من وعن تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن یہی آئی ایم ایف جب بیوروکریٹس کے اثاثہ جات پبلک کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس پر چپ سادھ لی جاتی ہے۔ جس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ ہمارے ساست داں اور حکومتیں عوام کی خیر خواہ ہونے کا لاکھ دعویٰ کریں لیکن ان کی ساری ہمدردیاں اور مفادات اس ملک کی اشرافیہ کے ساتھ ہوتی ہیں، مگر یہ سسلسلہ آخر کب تک چلے گا؟

  • وہ لمحہ جب کراچی اور ملتان کے میچ کا پانسہ پلٹ گیا!

    وہ لمحہ جب کراچی اور ملتان کے میچ کا پانسہ پلٹ گیا!

    ایچ بی ایل پی ایس ایل 8 میں گزشتہ شب ملتان سلطانز نے اعصاب شکن مقابلے کے بعد کراچی کنگز کو 3 رنز سے ہرا دیا ایک رن آؤٹ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ رہا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ 8 کے سنسنی خیز مقابلے جاری ہیں۔ ایسا ہی ایک مقابلہ گزشتہ شب دیکھنے میں آیا جب ملتان سلطانز نے ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد کراچی کنگز کو 3 رنز سے شکست دے کر ہوم گراؤنڈ پر اپنی فتوحات کا سلسلہ برقرار رکھا۔

    پی ایس ایل کے اس بڑے میچ میں ملتان سلطانز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کپتان محمد رضوان کی جارحانہ سنچری اور شان مسعود کی نصف سنچری سے تقویت پاتے ہوئے 2 وکٹوں کے نقصان پر 196 رنز بنائے۔

    بڑے ہدف کے تعاقب میں کراچی کنگز کا آغاز بھی متاثر کن تھا۔ بالخصوص انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے آل راؤنڈر جیمز ونس بھرپور فارم میں نظر آئے اور رواں پی ایس ایل کی تیز ترین نصف سنچری بھی جڑی۔

    یہ کراچی کنگز کی اننگ کا دسواں اوور تھا۔ شیر کھلاڑی ایک وکٹ کے نقصان پر ہدف کا نصف سے زائد عبور کرچکے تھے اور 105 رنز بن گئے تھے۔ جیمز ونس 33 گیندوں پر 75 رنز کے ساتھ کریز پر موجود اور ہدف کے تعاقب کے ساتھ سنچری کی جانب بھی گامزن تھے کہ ایسے میں وہ ہوا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔

    اس اہم مرحلے پر جیمز ونس نے کور میں شاٹ کھیلا۔ سامنے کریز پر موجود حیدر علی نے رنز لینے کی غلط کال دی۔ جیمز ونس رنز لینے کے لیے دوڑے لیکن فیلڈر کے ہاتھ میں گیند دیکھتے ہی واپس کریز کی جانب ہوئے تاہم اس وقت تک دیر ہوچکی تھی اور وکٹ کیپر محمد رضوان فلیڈر سے گیند ملنے کے فوری بعد بیلز اڑا چکے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: بابر اعظم کب دولہا بنیں گے؟ پتہ چل گیا

    اس وکٹ کے ساتھ ہی میچ کا پانسہ پلٹ گیا اور کراچی کنگز فتح سے صرف چند قدم ہی دور رہ کر ہار گئی۔

     

  • ’’ٹیپو سلطان‘‘ کے خاندان کا عدالت جانے کا فیصلہ مگر کیوں؟

    ’’ٹیپو سلطان‘‘ کے خاندان کا عدالت جانے کا فیصلہ مگر کیوں؟

    انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور بھرپور مزاحمت کرنے والے میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کے خاندان نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاست کرناٹک میں ان دنوں انتخابات سر پر ہیں اور اسی انتخابی مہم کے دوران مرکز میں حکمراں جماعت بی جے پی اور اپوزیشن پارٹی کانگریس ایک دوسرے پر برتری لے جانے کے لیے شہید حکمران ٹیپو سلطان کا نام استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث ان کے خاندان نے ان سیاسی جماعتوں پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ٹیپو سلطان کے خاندان کی ساتویں نسل کے وارث صاحبزادہ منصور علی خان کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک مقدمہ درج کروائیں گے اور اس پر حکم امتناع بھی لیں گے کہ ٹیپو سلطان کا نام سیاسی مفاد کے لیے استعمال نہ کیا جائے کیونکہ ان کے اس اقدام سے خاندان اور ٹیپو سلطان کے چاہنے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔

    صاحبزادہ منصور علی خان نے مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے ٹیپو سلطان کے خاندان کا رکن ہونے کی وجہ سے اپنی قانونی ٹیم سے بات کی ہے جس کے بعد ہی ہم نے ہتک عزت اور حکم امتناعی کیلیے کیس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    واضح رہے کہ کرناٹک کے بی جے پی چیف نلین کمار قتیل نے کہا تھا کہ اس بار ریاستی اسمبلی کے انتخابات کانگریس اور بی جے پی کے بیچ نہیں بلکہ ساورکر اور ٹیپو سلطان کے نظریات کے بیچ لڑے جا رہے ہیں۔

    انہوں نے بعد میں ایک تقریر کے دوران متنازع بات کی تھی کہ رام اور ہنومان کو ووٹ دے کر ٹیپو سلطان کی نسلوں کو بھگا دیں۔

    یہاں قارئین کی معلومات کے لیے میسور کے حکمراں ٹیپو سلطان کے بارے میں کچھ بتاتے چلیں وہ حیدر علی کے سب سے بڑے فرزند تھے جو 20 نومبر 1750 کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے دور حکمرانی میں متعدد انتظامی اختراعات متعارف کرائیں جن میں سکوں کا نیا نظام اور نیا زمینی محصول نظام شامل ہیں اور اسی وجہ سے میسور کی ریشم کی صنعت نے ترقی کا آغاز کیا۔

    ٹیپو سلطان کو انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور بھرپور مزاحمت کا استعارہ مانا جاتا ہے جنہوں نے دوسری اینگلو میسور جنگوں کے دوران برطانوی افواج اور ان کے اتحادیوں کے خلاف راکٹوں کو استعمال کیا اور کئی اہم فتوحات حاصل کیں۔ اپنی اسی بہادری کے باعث انہیں شیر میسور کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    ٹیپو سلطان برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک ناقابل تسخیر دشمن بھی رہے۔ انوہں نے سلطنت عثمانیہ، افغانستان اور فرانس سمیت دیگر غیر ملکی ریاستوں میں سفیر بھیجے تاکہ برطانیہ کے مخالفین کو اکٹھا کیا جاسکے۔

    چوتھی اینگلو میسور جنگ جو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجیوں کی ایک مشترکہ قوت نے مراٹھوں اور نظام حیدرآباد کی حمایت سے لڑی۔ اس میں ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی اور وہ 4 مئی 1799 کو اپنے سرنگاپٹم کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔

    ان کا یہ قول آج بھی بہادری کیلیے مثال کے طور پر دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔‘‘

  • سرفراز احمد نے شکست کا ذمے دار کس کو ٹھہرایا؟

    سرفراز احمد نے شکست کا ذمے دار کس کو ٹھہرایا؟

    ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ 8 میں گزشتہ روز لاہور قلندر نے کوئٹہ گلیڈیئٹرز کو با آسانی زیر کرلیا کپتان سرفراز نے شکست کی وجہ بھی بتا دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایچ بی ایل پاکستان سپر لیگ 8 کے سنسنی خیز مقابلے جاری ہیں۔ گزشتہ روز ایونٹ کے دسویں میچ میں دفاعی چیمپئن لاہور قلندرز نے سابق پی ایس ایل چیمپئن کوئٹہ گلیڈیئٹرز کو با آسانی زیر کرلیا۔ یہ رواں سیزن میں کوئٹہ کی کھیلے گئے چار میچز میں تیسری شکست تھی۔

    میچ کے بعد کوئٹہ گلیڈیئٹرز کے کپتان سرفراز احمد نے شکست کی وجہ بھی بتا دی اور کہا کہ ہسارانگا کے نہ آنے سے ٹیم کا پورا کمبی نیشن خراب ہوگیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیم ہسارانگا پر انحصار کر رہی تھی لیکن سری لنکن بورڈ نے انہیں این او سی نہیں دیا جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل: سری لنکن اسپنر کی شرکت کے امکانات ختم

    واضح رہے کہ پی ایس ایل 8 کے گزشتہ روز کھیلے گئے میچ میں لاہور قلندرز نے کوئٹہ گلیڈیئٹرز کو یکطرفہ مقابلے کے بعد 63 رنز سے شکست دی تھی۔ لاہور کے 198 رنز کے جواب میں کوئٹہ کی ٹیم مقررہ 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 135 رنز تک محدود رہی تھی۔

  • انگلینڈ سے شکست، ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کا سفر تمام

    انگلینڈ سے شکست، ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کا سفر تمام

    جنوبی افریقہ میں کھیلے جا رہے ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ میں انگلینڈ سے شکست کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کا ٹورنامنٹ کے پہلے راؤنڈ میں ہی سفر تمام ہوگیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جنوبی افریقہ میں کھیلے جا رہے ویمنز ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی اور تیسری شکست کے بعد قومی ٹیم کا ٹورنامنٹ کے پہلے راؤنڈ میں ہی سفر تمام ہوگیا۔ ٹیم خالی ہاتھ وطن واپس لوٹے گی۔

    گزشتہ روز کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے میچ میں انگلینڈ نے یکطرفہ مقابلے کے بعد قومی ٹیم کو 114 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دی۔

    انگلینڈ کی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور 5 وکٹوں کے نقصان پر 212 رنز بنائے۔ نیٹ سیور نے 81 جب کہ ڈینی وائٹ نے 59 رنز کی شاندار اننگز کھیلیں۔ قومی ٹیم کی جانب سے فاطمہ ثنا نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جب کہ سعدیہ اقبال، ندا ڈار اور طوبیٰ حسن نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

    ہدف کے تعاقب میں پاکستان ٹیم کی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور مقررہ 20 اوورز میں صرف 99 رنز ہی بنا سکی۔ قومی بیٹر طوبیٰ حسن 29 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہیں باقی کوئی کھلاڑی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکا۔

    انگلش ٹیم کی جانب سے کیتھرین اور چارلی ڈین نے دو دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ 81 رنز کی شاندار اننگ کھیلنے پر نیٹ سیور کو میچ کی بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

    واضح رہے کہ پاکستان نے گروپ بی میں چار میچز کھیلے جن میں سے تین میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ پھر ویسٹ انڈیز نے ڈھیر کیا اور گزشتہ روز انگلینڈ نے چاروں شانے چت کردیا۔ قومی ٹیم کو ٹورنامنٹ میں واحد فتح آئرلینڈ کے خلاف حاصل ہوئی۔

  • ویڈیو: ناکارہ چیزوں سے بنے نایاب فن پارے

    ویڈیو: ناکارہ چیزوں سے بنے نایاب فن پارے

    فن کسی کی میراث نہیں بلکہ عطائے خداوندی ہے جو آئے روز مختلف انداز میں دنیا میں منظر عام پر آتا رہتا ہے اور لوگ اسے دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس کی جگہ تو معلوم نہیں مگر یہ کسی آرٹ گیلری کی لگتی ہے جہاں ایک ایسے فنکار کے فن پارے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں جس نے ناکارہ سمجھ کر کچرے میں پھینک دی جانیوالی چیزوں کو کارآمد بناتے ہوئے ناقابل یقین فن پارے تشکیل دیے ہیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک فنکار نے مختلف پورٹریٹ بنائے ہیں جس کے لیے کسی مخصوص کینوس یا رنگ کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ان چیزوں کا استعمال کیا گیا ہے جو عموماً لوگ استعمال کے بعد ناقابل استعمال ہونے پر ناکارہ یا فالتو سمجھ کر ڈسٹ بن میں ڈال دیتے ہیں۔

    اس فنکار نے ٹوٹی ہوئی فالتو زپ، بوتلوں کے غیر استعمال شدہ ڈھکن، کپڑوں کی کترن، جینز کی پینٹ کے بیلٹ کے لوپس، کیپسول وٹیبلیٹ پر مشتمل ادویات اور بجلی کے کٹے ہوئے ناکارہ تاروں کا استعمال کرتے ہوئے ایسے ایسے فن پارے تشکیل دیے ہیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔

    ان فن پاروں کی خاص بات یہ ہے کہ دور سے دیکھنے ایسا لگتا ہے کہ ان تصاویر کو بنانے میں رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے جب قریب جاکر دیکھا جائے تو حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہ رنگ نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔

     

  • ’’پٹھان‘‘ نے وہ کر دکھایا جو بھارت میں آج تک کسی نے نہیں کیا؟

    ’’پٹھان‘‘ نے وہ کر دکھایا جو بھارت میں آج تک کسی نے نہیں کیا؟

    بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے کنگ شاہ رخ خان کی فلم پٹھان نے وہ کر دکھایا جو آج تک بھارت میں کوئی اور فلم نہیں کرسکی ہے۔

    بھارتی فلم انڈسٹری میں تین دہائیوں سے راج کرنے والے شاہ رخ خان جنہیں دنیا کنگ خان کے نام سے بھی جانتی ہے۔ ان کی فلم پٹھان گزشتہ ماہ بھارت سمیت دنیا بھر میں ریلیز ہوئی اور پھر اس فلم نے وہ کیا جو آج تک کوئی اور بھارتی فلم نہ کرسکی ہے۔

    شاہ رخ خان کی پٹھان ہندی سینما کی تاریخ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ہندی فلم بن گئی ہے اور اپنی ریلیز کے صرف 26 دن میں ہی دنیا بھر میں ایک ہزار کروڑ روپے کی کمائی کرلی ہے۔

    کنگ خان جنہوں نے پٹھان کے ذریعے 4 سال کے وقفے کے بعد فلم انڈسٹری میں انٹری دی تھی ایک بار پھر اپنا جادو جگا گئے ہیں اور فین تو فین ناقدین بھی فلم کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔

    اپنی ریلیز سے قبل ہی فلم کے گانے بے شرم رنگ کی وجہ سے تنازع اور پھر بائیکاٹ مہم کا شکار پٹھان نے ریلیز کے پہلے روز ہی بھارت میں 67. 86 کروڑ کا بزنس کرکے ناقدین کو چپ کرا دیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں: پٹھان نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا

    یش راج فلمز کے بینر تلے ریلیز اس فلم کی نمائش اب بھی جاری ہے اور مزید کئی ریکارڈ بننے کا امکان ہے۔ یش راج فلمز کی جانب سے اس حوالے سے ٹویٹ بھی کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پٹھان کا جشن جاری ہے۔

  • زلزلے سے بچ جانیوالا خاندان کیسے موت کا شکار ہوا؟

    زلزلے سے بچ جانیوالا خاندان کیسے موت کا شکار ہوا؟

    ترکیہ میں 6 فروری کو آنے والے ہولناک زلزلے میں ایک خاندان بچ گیا لیکن موت کا تعاقب جاری رہا اور بالآخر پورا خاندان لقمہ اجل بن گیا۔

    یہ دردناک داستان ترکیہ کے دیگر زلزلہ متاثرین سے کچھ منفرد یوں ہے کہ 7 افراد پر مشتمل یہ شامی خاندان 6 فروری کو آنے والے تباہ کن زلزلے سے کرشماتی طور پر بچ گیا تھا۔ ماں باپ اور 5 بچوں پر مشتمل یہ خاندان زلزلے سے تباہ ہونے والے شہر نورداگی کا رہائشی تھا۔ قسمت نے یاوری کی اور یہ خاندان اس تباہ کن زلزلے سے بچ نکلا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق زلزلے سے بچ جانے کے بعد یہ خاندان دیگر متاثرین کی طرح خود بھی قونیہ منتقل ہوگیا لیکن نہیں جانتا تھا کہ فرشتہ اجل اس کا یہاں منتظر ہے۔

    یہ خاندان جس گھر میں رہائش پذیر ہوا اس میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں پورا خاندان جھلس کر جاں بحق ہوگیا۔ مرنے والوں میں 4 سے 13 سال کی عمر کے پانچ بچے بھی شامل ہیں جب کہ ایک لڑکی کو زندہ بچا لیا گیا تاہم یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس کا تعلق اسی خاندان سے ہے یا نہیں؟

    علاقے کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ہم نے آگ دیکھی لیکن ہم کچھ نہ کر سکے۔ ایک لڑکی کو کھڑی سے نکالا گیا۔

    واضح رہے کہ ترکیہ میں 40 لاکھ کے قریب شامی آباد ہیں۔ ان میں اکثریت جنوب مشرقی علاقے میں رہتے ہیں جو زلزلے کی زد میں آیا۔

    یہ بھی پڑھیں: ترکیہ اور شام زلزلہ، اموات کی تعداد 46 ہزار سے تجاوز کر گئی

    ترکیہ اور شام میں 6 فروری کو آنے والے زلزلے سے اب تک 46 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔