Author: ریحان خان

  • دہشتگردی کا عفریت، مہنگائی، سیاسی دھینگا مشتی اور عوام

    دہشتگردی کا عفریت، مہنگائی، سیاسی دھینگا مشتی اور عوام

    گزشتہ دنوں پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ پولیس لائنز کی مسجد میں دوران ادائیگی نماز خودکش دھماکے میں 80 سے زائد افراد جان سے گئے جب کہ کئی زخمی اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ چند سال کے دوران بھی دہشتگردی کےبڑےواقعات ہوئے لیکن پچھلے تین ماہ میں ایک بار پھر اس عفریت نے سر اٹھایا ہے اور جہاں ملک میں سیکیورٹی اداروں‌ کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں وہیں مہنگائی کے بے قابو جن اور سیاستدانوں کی دھینگا مشتی نے بھی غریب عوام کو کچل کر رکھ دیا ہے۔

    پاکستان جو پہلے ہی اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ہر طرف یہ باتیں ہورہی ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے بلکہ چند معاشی ماہرین نے تو دعویٰ بھی کیا ہے کہ ملک تیکنیکی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے حکمراں جہاں سخت شرائط پر قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایم ایف کی منت سماجت میں لگے ہوئے ہیں، وہیں کاسہ گدائی بھی دنیا کے سامنے پھیلایا ہوا ہے جس سے قوم کا وقار ملیا میٹ ہو رہا ہے۔ ایسے میں دہشتگردی کے پھیلتے سائے نے صورتحال مزید سنگین کردی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاستدان ملک دشمنوں کے مقابلے کے لیے یک جان ہوتے مگر روایتی مذمت کے ساتھ حکمراں اتحاد اور اپوزیشن کے بے سر و پا بیانات اور اقدامات نے صورتحال کو مزید گمبھیر کر دیا ہے۔

    اپوزیشن نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے ماتحت وزارت خزانہ کی جاری کردہ ماہانہ آؤٹ لک رپورٹ میں پاکستان کا مالی خسارہ بڑھنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ظاہر کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچ چکا ہے اور اس کے حکومتی عہدیداروں سے مذاکرات بھی شروع ہوچکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے سخت ترین مذاکرات ہیں جس کے بعد عوام پر مہنگائی شکنجہ مزید کس دیا جائے گا۔ حکومتی وزرا ایک جانب غریب عوام کو ریلیف دینے اور دوسری جانب معاشی حالات میں بہتری کے لیے عوام سے مزید مشکلات برداشت کرنے کے متضاد بیانات دے رہے ہیں۔

    عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات شروع ہونے سے ایک روز قبل حکومت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اچانک اضافے کی سلامی آئی ایم ایف کو دے چکی ہے جب کہ آنے والے دنوں میں مزید اضافے کی بازگشت عوام کے کانوں سے ٹکرا رہی ہے اور حکومتی و غیرحکومتی حلقوں کی جانب سے انہیں ایک نئے امتحان کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ لگتا ہے کہ عوام کے تن پر جو چیتھڑے رہ گئے ہیں، حکومت اب عوام سے اس کی قربانی بھی چاہتی ہے۔ کیونکہ سیاست کے حمام میں تو سب پہلے ہی ننگے ہیں۔

    یہ وہ ملک ہے جس کے حکمرانوں، سیاستدانوں، با اختیار افراد کے بیانات سن کر لگتا ہے کہ 75 سال سے ملک کسی نازک موڑ پر کھڑا ہے اور اب تک اس موڑ سے نکلنے کی اسے راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ ایک جانب آئی ایم ایف کے سامنے سخت شرائط پر قرض کے لیے جھولی پھیلی ہے تو دوسری جانب حکومت کا کشکول بھی دنیا بھر میں حرکت میں ہے۔ چین، سعودی عرب، یو اے ای جیسے دوست ممالک گاہے بگاہے ہمیں سہارا دیتے رہے ہیں لیکن مستقل پھیلا کشکول دوست تو کیا بھائی کو بھی برا لگتا ہے اور یہ بات ہمارے ارسطو دماغوں کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔

    پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے ملک میں ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے پھر چاہے کچھ عرصے بعد پٹرول کی قیمت کچھ کم ہوجائے لیکن مہنگائی کم نہیں ہوتی۔ ایسے میں حکومتی زعما کا رٹا رٹایا یہ بیان کہ اس کا بوجھ غریب عوام پر نہیں پڑے گا سن کر اب تو ہنسی آنے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمراں طبقہ خود کو ہی ملک کی غریب عوام سمجھتا ہے کیونکہ اسے پٹرول، بجلی، گھر کا کرایہ، کھانا، سفر، علاج سب کچھ تو مفت ملتا ہے تو پھر اس کا بوجھ ان پر کیسے پڑ سکتا ہے۔ قسمت کے مارے تو عوام ہیں کہ وہ آٹا لائیں تو دال کی فکر ستانے لگتی ہے۔ بچے کو دوا دلا دیں تو اسکول کی فیس کا مسئلہ اس کے سامنے پھن پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔

    ایک جانب عوام کو بنیادی ضروریات کھانے کو آٹا، پینے کو پانی، علاج کے لیے دوا میسر نہیں ہے۔ باقی ضروریات زندگی تو نہ جانے کب کی ان کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عملاً عوام سے مزید قربانی مانگنے کے بجائے حکومت خود اپنی شاہ خرچیاں ختم کرتی اور سادگی اختیار کرتی، لیکن یہ ہمارے حکمراں طبقے کی بے حسی کہہ لیں کہ عوام پر جیسے جیسے عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے حکمرانوں کی عیاشیوں کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جا رہا ہے۔

    یہ ایک مذاق ہی ہے کہ دنیا کے مقروض اور ڈیفالٹ کے قریب کھڑے ملک کی کابینہ سب سے بڑی ہے جس کی وزرا، مشیروں کی تعداد 75 سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور ان تمام کی مراعات بھی ایسی ہیں کہ جو دیگر امیر ممالک کی اشرافیہ کی آنکھیں کھول دیتی ہیں۔ اس پر کمال یہ کہ جب یہ حکمراں قرض لینے یا امداد کی امید لیے کسی ملک کا دورہ بھی کرتے ہیں تو شاہی لاؤ لشکر کے ساتھ جایا کرتے ہیں جہاں ان کا قیام وطعام بھی شاہانہ ہوتا ہے اور ان کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی تصاویر جب قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر نشر یا پرنٹ ہوتی ہیں تو وہ عوام کے ادھڑے زخموں پر مزید نمک پاشی کرتی ہیں۔

    زیادہ دور نہ جائیں صرف موجودہ حکومت کے ابتدائی 9 ماہ ہی دیکھ لیں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ کیا وزیراعظم، کیا وزیر خارجہ، کیا اسپیکر قومی اسمبلی اور کیا دیگر وزرا کے علاوہ وزرا کی فوج ظفر موج سے باہر حکومت کے اتحادی سیاسی رہنما، سب ہی ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ چاہے عمرے کی ادائیگی جیسا قطعی ذاتی مذہبی معاملہ ہو یا پھر قطر، یو اے ای، امریکا، جنیوا امداد کے لیے دورے ہوں حکومتی لاؤ لشکر لازمی ہوتا ہے۔

    ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی کینیڈا جاتے ہیں تو قوم کے خرچے پر درجن بھر سے زائد وزرا کو فیملی کے ہمراہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ مہنگے ہوٹلوں میں قیام وطعام ہوتا ہے، نیاگرا فال کی سیر و تفریح ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ جن کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں وہ سرکاری خرچ پر یعنی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ترکی کا کئی روزہ دورہ کرتے ہیں اور شاہانہ فیری میں سیر وتفریح کرتے ہیں۔ بے حس سیاسی رہنماؤں کی یہ تصاویر گزشتہ سال قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں اور یہ تو صرف چند بڑی مثالیں ہیں ورنہ تفصیل میں گئے تو بات کہیں کی کہیں نکل جائے گی۔ رہی بات ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی تو وہ شاید وزیر بنے ہی عوامی خرچ پر بیرون ملک دوروں کے لیے ہیں کہ 9 ماہ کی حکومت میں شاید وہ 9 ہفتے بھی ملک میں نہیں رہے ہوں گے۔

    بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان کے دو درجن سے زائد بیرونی دوروں پر غریب عوام کی خطیر رقم خرچ ہوچکی ہے لیکن قوم خوش ہوجائے کہ ان بیرونی ممالک کے دوروں کا فائدہ عوام کو ہی ہوتا ہے یہ ہم نہیں ہمارے وزیر خارجہ خود کہتے ہیں، جنہوں نے ڈیڑھ دو ماہ قبل اپنے گزشتہ دورہ امریکا میں کہا تھا کہ اگر حکومت میرے بیرون ملک دوروں کا خرچ اٹھاتی ہے تو یہ میرا حق ہے میں وزیر خارجہ ہوں اور میرے دوروں سے ملک کے عوام کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔ موصوف اب خیر سے پھر امریکا کے دورے پر ہیں اور آئندہ دو ماہ کے دوران مزید دو بار امریکا جائیں گے۔

    ملک میں سیاسی افراتفری اور سیاسی دھینگا مشتی بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ایک جانب اپوزیشن ہے جس نے عام انتخابات کے لیے تمام حربے استعمال کر ڈالے اور شہر شہر سڑکوں پر بھرپور احتجاج کے باوجود آرزو بر نہ آنے پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں تک ختم کر دیں تو دوسری جانب حکومت اور اس کے اتحادی ہیں جو نئے الیکشن سے مسلسل بھاگ رہے ہیں۔ کبھی معاشی حالات کا بہانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی بڑھتی دہشتگردی کا بیانیہ سامنے لے آتے ہیں۔ پہلے مطالبات پر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے استعفے منظور نہیں ہوتے تھے پھر جب نئے الیکشن کی راہ ہموار کرنے اور نگراں وفاقی حکومت پر مشاورت کے لیے عمران خان نے اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا تو صرف چند دن میں ہی تحریک انصاف کے باقی 113 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے گئے جن میں سے 33 عام حلقوں پر الیکشن کمیشن 16 مارچ کو ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کرچکا ہے۔

    قومی اسمبلیوں کے 33 حلقوں پر ضمنی الیکشن کے شیڈول پر قوم کے ذہن میں یہ سوال بھی کُلبلا رہا ہے کہ جب پی ٹی آئی کے ملک بھر میں عام انتخابات کرانے کے مطالبے سے بچنے کیلیے حکومتی اتحادی اور ادارے بڑھتی دہشتگردی کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے بعد اب تک ان صوبوں میں بھی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوسکا ہے اور دہشتگردی کو جواز بنا کر ان انتخابات کے التوا کی بھی باتیں سامنے آ رہی ہیں تو کیا دہشتگردی کا خطرہ قومی اسمبلی کے 33 حلقوں میں آئندہ ماہ شیڈول ضمنی الیکشن پر نہیں پڑے گا؟

    پھر ملک کے بدترین معاشی حالات میں پی ٹی آئی کی جانب سے تمام 33 حلقوں پر عمران خان کے الیکشن لڑنے کے اعلان نے ایک مضحکہ خیز صورتحال پیدا کردی ہے۔ عمران خان جو بلاشبہ ملک میں اس وقت مقبول ترین سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں اور گزشتہ سال اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد قومی اسمبلی کے 6 ضمنی انتخابات تنہا جیت کر اس کو ثابت بھی کردیا۔ مگر ان 6 میں سے انہوں نے ایک ہی حلقہ اپنے پاس رکھنا ہے۔ اگر چند لمحوں کے لیے یہ تصور بھی کرلیا جائے کہ عمران خان ان تمام 33 حلقوں پر اپوزیشن کو ناک آؤٹ کرتے ہوئے فتح یاب ہوں گے تو وہ تمام حلقے تو اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے۔ انہیں ایک ہی رکھنا ہوگا اور 33 پھر خالی ہوں گے تو کچھ سوچا ہے کہ ڈیفالٹ کی بازگشت میں ملک و قوم کے ساتھ یہ سیاسی مذاق کیا رنگ لائے گا۔

    حالات کا تقاضہ ہے کہ سیاسی اختلافات رکھتے ہوئے ملک اور قوم کی بہتری اور معاشی استحکام کے لیے حکومت، اپوزیشن قومی مفاد میں تمام نہیں تو چند متفقہ نکات پر ایک پیج پر آئے جو مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں کہ حکومتیں تو بنتی رہیں گی، اور اس کے لیے عوام کی خوشحالی اور پاکستان کی بقا ناگزیر ہے۔

  • انگلش بیٹر معین علی کی عجیب وغریب شاٹ لگانے کی کوشش، ویڈیو

    انگلش بیٹر معین علی کی عجیب وغریب شاٹ لگانے کی کوشش، ویڈیو

    جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلے گئے ایک روزہ میچ میں انگلینڈ کے بیٹر معین علی نے عجیب وغریب انداز میں سوئپ شاٹ کھیلنے کی کوشش کی اور ناکامی پر خود ہی ہنس پڑے۔

    انگلینڈ کی ٹیم جنوبی افریقہ کے دورے پر ہے جہاں تین ایک روزہ میچوں پر مشتمل تیسرے اور آخری میچ کے دوران انگلش بیٹر نے ایک ہاتھ سے سوئپ شاٹ مارنے کی عجیب وغریب کوشش کی تاہم اس میں وہ ناکام ہوئے اور گیند ان کے بلے کو چھوئے بغیر وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ انوکھا شاٹ کھیلنے میں ناکامی پر معین علی خفت کی ہنسی ہنستے بھی دیکھے گئے۔

    انگلینڈ نے اس میچ میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کپتان جوز بٹلر اور ڈیوڈ میلان کی سنچریوں کی بدولت حریف ٹیم کو 346 رنز بنا کر 347 رنز پہاڑ جیسا ہدف دیا جس کے تعاقب میں میزبان جنوبی افریقہ 287 رنز پر ہمت ہار گئی۔

    یہ میچ گوکہ انگلینڈ کے نام رہا تاہم سیریز دو صفر سے جنوبی افریقہ نے اپنے نام کی۔

    اس میچ کا سب سے قابل ذکر لمحہ معین علی کا ایک ہاتھ سے ریورس سوئپ شاٹ کھیلنے کی کوشش کرنا تھا جس میں وہ ناکام رہے اور آؤٹ ہونے سے بھی بال بال بچے کیونکہ گیند ان کے بلے کے انتہائی قریب سے گزرتی ہوئی وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں محفوظ ہوگئی تھی۔

    معین علی کے اس انداز سے ایک ہاتھ سے شاٹ کھیلنے کی کوشش نے صرف اسٹیڈیم میں موجود شائقین ہی نہیں بلکہ گراؤنڈ میں موجود کھلاڑیوں کو بھی حیران کردیا۔

    معین علی نے باقی میچ میں دوبارہ یہ جسارت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اس میچ میں 23 گیندوں پر 41 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انگلش کھلاڑی غیرمعمولی شاٹ لگانے میں تو ناکام رہے تاہم ان کی قدرے مختصر اننگ 4 بلند وبالا چھکوں اور دو چوکوں سے سجی ہوئی تھی۔

  • شاہد آفریدی نے ہونیوالے داماد کے چھکے چھڑا دیے، ویڈیو

    شاہد آفریدی نے ہونیوالے داماد کے چھکے چھڑا دیے، ویڈیو

    شاہین شاہ کل شاہد آفریدی کی بیٹی کے ساتھ نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں گے لیکن شادی سے قبل بوم بوم آفریدی نے ہونے والے داماد کے چھکے چھڑا دیے۔

    اپنی جارحانہ بلے بازی سے دنیا کے بڑے بڑے بولرز کے چھکے چھڑانے والے سابق کپتان شاہد آفریدی نے اپنے ہونے والے داماد کے جس میدان میں چھکے چھڑائے وہ کوئی بین الاقوامی کرکٹ گراؤنڈ نہیں بلکہ کسی علاقے کا ایک میدان ہے جہاں پریکٹس کے دوران شاہد آفریدی نے شاہین شاہ کی بالنگ پر بلند وبالا چھکا رسید کردیا۔

    سسر اور داماد کے اس ٹکراؤ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس کو دیکھ کر صارفین محظوظ ہو رہے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ شاہد آفریدی اور شاہین ایک میدان میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ اس دوران سابق کپتان پیڈ اور ہیلمٹ پہننے ہوئے شاہین کی گیند کا سامنے کرتے ہیں اور نوجوان فاسٹ بولر نے جیسے ہی گیند کروائی آفریدی نے لمحوں میں اسے ایک بلند وبالا چھکے میں تبدیل کردیا۔

    شاہد آفریدی نے سوشل میڈیا پر پریکٹس کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ‘شاہین شاہ فارم میں لگ رہے ہیں مگر میں نے پھر بھی اُن کو چھکا جڑ دیا ‘۔

    سسر کے اس انداز تخاطب کا ہونے والے داماد نے انتہائی مودب اور محبت بھرے انداز میں جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ‘ آپ کے ساتھ کھیلنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے مگر یہ آؤٹ تھا’۔

    یاد رہے کہ شاہین شاہ آفریدی تین فروری کو شاہد آفریدی کی بیٹی انشا سے نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں: شاہین شاہ آفریدی اپنی شادی میں کس کس کو بلائیں گے؟ پیسر نے بتا دیا

    خاندانی ذرائع کے مطابق نکاح کی یہ سادہ مگر پروقار تقریب کراچی میں ہوگی جب کہ رخصتی بعد میں ہوگی۔

  • بھارت میں ٹی 20 کرکٹ کی دلچسپ انہونی

    بھارت میں ٹی 20 کرکٹ کی دلچسپ انہونی

    مختصر دورانیے کی ٹی 20 کرکٹ اصل شہرت اس میں لگائے جانے والے بلند وبالا چھکے ہوتے ہیں لیکن بھارت میں پہلی بار کوئی ٹی 20 میچ بغیر چھکے لگائے کھیلا گیا۔

    بھارت اور نیوزی لینڈ کے خلاف جاری مختصر دورانیے کی سیریز کے دوسرے ٹی 20 انٹرنیشنل میں یہ انہوںی ہوئی جس میں دونوں ٹیموں میں بڑے بڑے جارح مزاج بلے باز شامل ہونے کے باوجود کوئی بیٹر اپنے بلے کے زور پر ہوا میں گیند بلند کرکے اس باؤنڈری کے پار نہ پہنچا سکا۔

    بھارت کی فتح کے ساتھ ختم ہونے والا یہ ایک لو اسکورنگ میچ تھا جس میں 39.5 اوورز کا کھیل ہوا اور دونوں ٹیموں کی جانب سے مجموعی طور پر 200 رنز اسکور کیے گئے۔ جب کہ مجموعی طور پر 12 وکٹیں گریں۔

    مہمان کیوی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر صرف 99 رنز بنا کر مخالف ٹیم بھارت کو سنچری بنانے کا ہدف دیا تھا۔

    بھارت کے لیے 100 رنز کا ہدف حاصل کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ میزبان ٹیم کی ہدف کے حصول میں وکٹیں تو صرف چار ہی گری تھیں لیکن 19.5 اوورز کھیل کر ہدف حاصل کیا تھا۔

    نیوزی لینڈ کے بلے باز پوری اننگ میں صرف 6 چوکے لگانے میں کامیاب رہے جب کہ بھارتی بیٹرز نے 8 بار گیند کو باؤنڈری پار پہنچایا۔

    اس میچ کی خاص بات یہ تھی کہ نیوزی لینڈ نے بھارتی بلے بازوں کے خلاف اپنے 8 بولرز کا استعمال کیا۔

    بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان تین ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز ایک ایک سے برابر ہے۔ تیسرا اور فیصلہ کن میچ آج احمد آباد میں کھیلا جائے گا۔

    واضح رہے کہ ٹی 20 عالمی مقابلوں میں یہ اس نوعیت کا دوسرا واقعہ ہے تاہم بھارت کی سر زمین پر یہ انہونی پہلی بار ہوئی ہے۔

    اس سے قبل کینیا اور آئرلینڈ کے درمیان 2012 میں کھیلا گیا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل بغیر کوئی چھکا لگائے کھیلا گیا تھا۔ اس کے علاوہ علاقائی لیگز میں تین ایسے میچز ہوئے ہیں جس میں بھی بیٹرز چھکے لگانے میں ناکام رہے تھے۔

  • نسیم شاہ کی چھیڑ چھاڑ پر اعظم خان کا ردعمل؟ دلچسپ ویڈیو

    نسیم شاہ کی چھیڑ چھاڑ پر اعظم خان کا ردعمل؟ دلچسپ ویڈیو

    بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں گزشتہ روز ایک میچ میں نسیم شاہ نے اعظم خان سے دلچسپ چھیڑ چھاڑ کی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق بنگلہ دیش پریمیئر لیگ جاری ہے جس میں پاکستانی کرکٹ کے ستارے بھی جگمگا رہے ہیں اور آئے روز ان کے حوالے سے کبھی ریکارڈ بنانے تو کبھی کوئی دلچسپ خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

    گزشتہ روز کھیلے گئے کومیلا وکٹورینز اور کھلنا ٹائیگرز کے ایک میچ میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو کھلاڑیوں کے درمیان دلچسپ چھیڑ چھاڑ اور نوک جھونک کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کھلنا ٹائیگرز کے بیٹر اعظم خان بیٹنگ کے لیے میدان میں آ رہے ہیں کہ اسی دوران مقابل ٹیم کومیلا وکٹورینز نے فاسٹ بولر نسیم شاہ نے ان سے دلچسپ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔

    نوجوان قومی فاسٹ بولر نسیم شاہ نے سینہ تان کر اعظم خان کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور نقل اتارنے لگے۔ اس چھیڑ چھاڑ کا اعظم خان نے بھی خوشگوار موڈ میں جواب دیا اور مسکراتے ہوئے انہیں ہاتھ سے دھکیل دیا۔

    یہ بھی پڑھیں: بھارت میں ٹی 20 کرکٹ کی دلچسپ انہونی

    اعظم خان کے اس ردعمل کے بعد دیکھا جاسکتا ہے کہ نسیم شاہ عقب میں جاکر مسکراتے ہوئے ان کے چلنے کے اسٹائل کی نقل کرتے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کو دیکھنے والے صارفین بہت پسند کر رہے ہیں۔

  • پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری ، کیا حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ؟

    پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری ، کیا حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ؟

    ملک کے متزلزل سیاسی منظر نامے میں پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے ساتھ زبردست ہلچل پیدا ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ کر مستقبل کی پیش بندی شروع کر دی ہے۔

    گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کے خاتمے اور شہباز شریف کے وزیراعظم بنتے ہی پاکستان تحریک انصاف کے تمام اراکین قومی اسمبلی نے 11 اپریل کو اسمبلی فورم پر ہی اپنی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اپنے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی کو ارسال بھی کردیے تھے لیکن ان استعفوں کو منظور کرنے میں مسلسل لیت ولعل سے کام لیا جا رہا تھا۔ بعد ازاں جولائی میں منتخب 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے تھے جن میں 9 جنرل اور دو مخصوص نشستوں کے اراکین تھے۔ ان میں سے 7 نشستوں پر ضمنی الیکشن میں سے 6 پر پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کامیابی حاصل کر کے ملک کے مقبول سیاسی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا تھا۔

    پاکستان تحریک انصاف اس دوران اپنے تمام اراکین کے استعفوں کی منظوری کے لیے متعدد بار آواز بھی اٹھاتی رہی۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکٹایا گیا لیکن حکومت سمیت تمام اداروں نے پی ٹی آئی اراکین کو واپس اسمبلی میں آنے کا ہی مشورہ دیا۔ اسی دوران استعفوں کی منظوری کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے دباؤ بڑھانے پر اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ استعفے منظوری کے لیے آئین اور قانون کا طے شدہ راستہ اپنایا جائے گا۔ جب تک پی ٹی آئی اراکین انفرادی طور پر پیش ہو کر استعفوں کی تصدیق نہیں کرتے اور استعفے ہاتھ سے لکھے نہیں ہوتے تب تک استعفے منظور نہیں کیے جائیں گے۔

    گزشتہ ماہ پی ٹی آئی کے وفد نے اسپیکر چیمبر میں راجا پرویز اشرف سے استعفوں کی منظوری کے لیے ملاقات کی تھی تاہم اس وقت بھی اسپیکر اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے اور پی ٹی آئی کو نامراد لوٹنا پڑا تھا۔ اس تمام صورتحال میں ایسا اچانک کیا ہوا کہ برسات کی تیزی کے مثل پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کیے جانے لگے اور صرف دو روز کے وقفے سے 70 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے جن میں سے 64 جنرل نشستوں پر منتخب اراکین اور 6 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔

    اب تک جن اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں علاوہ عمران خان پی ٹی آئی کی تمام صف اوّل کی قیادت شامل ہے جن میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری، مراد سعید، عمر ایوب، اسد قیصر، پرویز خٹک، شہریار آفریدی، علی امین گنڈاپور، نورالحق قادری، عامر محمود کیانی، مخدوم خسرو بختیار، ملیکہ بخاری، عندلیب عباس کے علاوہ حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کے ساتھ استقامت سے کھڑے سینیئر سیاستدان شیخ رشید بھی شامل ہیں۔ عمران خان کو اس لیے قومی اسمبلی سے باہر نہیں کیا جاسکتا کہ جس نشست پر انہوں نے استعفیٰ دیا تھا اس پر تو الیکشن کمیشن نااہل قرار دے چکا جب کہ ضمنی الیکشن میں حاصل نشستوں پر استعفوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔

    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس تیزی سے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی اراکین کے استعفے دو روز کے دوران منظور کیے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہنے کا قومی امکان ہے تو کیا استعفوں کی منظوری کے لیے اسپیکر کے بتائی گئی شرائط مکمل ہوگئیں؟ کیا تمام اراکین نے انفرادی طور پر اسپیکر کے سامنے پیش ہوکر اپنے استعفوں کی تصدیق کر دی؟ کیا جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے انہوں نے اپنے استعفے آئین اور قانون کے مطابق ہاتھ سے لکھ کر دے دیے؟ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تو پھر حکومت نے استعفوں کی منظوری پر یوٹرن کیوں لیا؟

    یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ عمران خان جب سے اقتدار سے باہر ہوئے ہیں تب سے ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک فوری شفاف عام انتخابات کرائے جائیں اور عوام جس کو بھی منتخب کریں وہ حکومت سنبھالے۔ پی ڈی ایم کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں تو شاید پی ڈی ایم میں بھی اس حوالے سے سوچ واضح تھی۔ کچھ ضروری قانون سازی کرکے الیکشن کرا دیے جائیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوچ ایک شکست کے خوف میں تبدیل ہوکر کہیں ہوا ہوچکی ہے۔

    دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کی بنیاد پر بڑھتی مہنگائی، عوامی مسائل سے دور پی ڈی ایم حکومت کی اپنی کیسز ختم کرانے کیلیے صرف احتساب قوانین کے خاتمے میں دلچسپی اور پھر بڑے کرپشن کیسز میں ریلیف ملنا، شدید معاشی بحران اور ملک دیوالیہ کے قریب پہنچ جانے کے باوجود جہازی سائز کابینہ میں مسلسل اضافہ، وزیراعظم اور وزرا کے شاہانہ غیر ملکی دورے نے جہاں پی ڈی ایم کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ وہیں عمران خان کا غیر ملکی مداخلت سے ان کی حکومت ختم کرنے کا بیانیہ عوام میں مقبولیت اختیار کرگیا جس کو حکومت کے ہی بعض اقدامات نے مزید تقویت دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 13 جماعتی اتحاد مقبولیت کے بجائے غیرمقبولیت کی انتہا کی طرف بڑھ گیا جب کہ عمران خان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔

    گزرے سال کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات بالخصوص پنجاب میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین سے خالی ہونے والی 20 صوبائی نشستوں میں سے 16 پر پی ٹی آئی کامیابی اور پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری سے قومی اسمبلی خالی 7 نشستوں میں 6 پر عمران خان کی تنہا کامیابی نے حکومتی اتحاد کی مقبولیت میں سمجھو آخری کیل ٹھونک دی۔ پی ٹی آئی نے یہ کامیابیاں پنجاب میں ن لیگ کا گڑھ کہلائے جانے والے لاہور اور ایم کیو ایم کے گڑھ کراچی میں اس صورتحال میں حاصل کیں کہ ایک جماعت کے مقابلے میں 13 جماعتوں کا ایک مشترکہ امیدوار میدان میں تھا۔

    اس تمام عرصے کے دوران پی ٹی آئی نے سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے بھی حکمران اتحاد کی نیندیں حرام کیے رکھیں۔ انتخابات کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں جس کے بعد تو ملک میں عام انتخابات کا ماحول بننے لگا اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں سمیت بااختیار حلقوں میں بھی باقاعدہ نئے انتخابات کے حوالے سے غور و خوض اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور سیاسی حلقوں میں قبل از وقت اپریل میں عام انتخابات کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔

    ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی اور عام انتخابات کی افواہوں اور چہ می گوئیوں کے ماحول میں مہینوں سے استعفوں کی منظوری کے لیے زور دینے اور موجودہ اسمبلی میں واپس نہ آنے کا واضح موقف رکھنے والے پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اچانک گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا اور کہا کہ وہ سوچ رہے ہیں اسمبلیوں میں واپس جائیں تاکہ عام انتخابات کے اعلان سے قبل نگراں حکومت کا قیام پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی سے منحرف ہوکر موجودہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کے پاس نہ رہے اور وہ اکثریتی اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے اس مشاورت کا حصہ بنیں۔

    عمران خان کے اس اعلان نے ہچکولے کھاتی پی ڈی ایم حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے اور حکومتی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سابق وزیراعظم کے اس بیان کے صرف چند گھنٹے بعد ہی پی ٹی آئی کے 35 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے اور اگلے روز الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔ حکومت نے پھرتی دکھاتے ہوئے ایک روز کے وقفے کے بعد ہی پھر دوبارہ 35 اراکین کے استعفے منظور کرکے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ہے۔

    ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں پی ٹی آئی کی بڑھتی مقبولیت اور اپنی سیاسی ناکامیوں کا شکار پی ڈی ایم حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے کہ عام انتخابات ناگزیر ہوچکے ہیں اور سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ حکومت کی استعفوں پر یوٹرن اور پھرتیاں بھی اسی لیے ہیں کہ وہ نگراں سیٹ اپ میں پی ٹی آئی قیادت بالخصوص عمران خان سے کوئی مشاورت نہیں کرنا چاہتی ہے۔

    اس سیاسی تماشے کے دوسری جانب غربت کے پہاڑ تلے دبی وہ عوام ہے جو آٹا خریدنے کے بدلے میں موت پا رہی ہے۔ آٹا، چینی، دال، سبزی، گوشت سب اس کی دسترس سے دور ہوچکا ہے۔ دو وقت تو دور اکثریت کو ایک وقت کی روٹی بھی سکون سے دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں جب وہ سیاسی دنگل دیکھتی ہے۔ اپنے پیسے پر پرتعیش ہوٹلوں میں وزرا کا قیام و طعام، ترکی میں فیری اور نیاگرا فال کی تفریح کرتی تصاویر اس کے سامنے آتی ہیں تو اس کے پاس سوائے اپنے آنسو پینے اور سرد آہ بھرنے کے کچھ نہیں ہوتا۔

    آخر میں‌ اقتدار کی لڑائی لڑنے والے سیاست دانوں کے گوش گزار یہ کرنا ہے کہ حکومت کسی زمین کے خالی ٹکڑے پر حکمرانی کرنے کا نام نہیں ہے۔ اصل حکمرانی عوام کے دلوں پر حکمرانی ہوتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے ان کو ہی دل کے تخت پر بٹھایا ہے جنہوں نے ان کے حقوق کا پاس کیا ہے۔ آج بھوک اور افلاس سے بلکتی عوام منتظر ہے کہ اقتدار کی لڑائی سے ہٹ کر کوئی ان کی جانب بھی نظر کرم کرے۔ ایسے میں سیاستدان نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈر پر لازم ہے کہ ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑے ملک اور مصیبت کی ماری عوام کو بچانے کے لیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں فیصلے کریں تاکہ تاریخ میں ان کا بھی اچھے الفاظ میں ذکر ہوسکے۔

  • بلدیاتی انتخابات:  روایتی گہماگہمی کا فقدان،’ منقسم’ ایم کیو ایم کے اتحاد کی کوششیں

    بلدیاتی انتخابات: روایتی گہماگہمی کا فقدان،’ منقسم’ ایم کیو ایم کے اتحاد کی کوششیں

    سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق 15 جنوری یعنی آئندہ اتوار کو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن ہو رہے ہیں تاہم اس مرتبہ انتخابی سیاست کے لیے روایتی گہما گہمی نظر نہیں‌ آرہی ہے۔

    بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں گزشتہ سال جون میں اندرون سندھ الیکشن ہوچکے اور دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں گزشتہ سال 24 جولائی کو الیکشن ہونے تھے۔ تاہم طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے نئی تاریخ 28 اگست دی گئی اور اس کے بعد پھر متعدد بار الیکشن ملتوی کیے گئے۔ حکومت سندھ کے اس اقدام کے خلاف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی عدالت گئیں اور عدالتی حکم پر اب 15 جنوری کو الیکشن متوقع ہے۔ لیکن اب بھی ایم کیو ایم کی جانب سے التوا کی درخواست الیکشن کمیشن میں ہے جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے اور پیر کے روز سنایا جائے گا۔ اب تک اس فیصلے کو نہ سنائے جانے کے باعث بھی ابہام پیدا ہو رہا ہے۔

    کراچی جو کہنے کو تو ملک کا سب سے بڑا شہر معاشی حب ہے جو پاکستان کو 65 فیصد سے زائد ریونیو فراہم کرتا ہے لیکن ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس شہر کو ہر دور میں نظر انداز کرتے ہوئے اس کا جائز حق نہیں دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روشنیوں کا شہر کراچی آج ان گنت مسائل سے دوچار ہے اور ان تمام مسائل کا تعلق بلدیاتی اداروں سے ہی جڑا ہے۔

    گزشتہ بلدیاتی دور ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر کا دور تھا لیکن بدقسمتی سے وہ دور شہر کراچی کی فلاح و بہبود کے لیے موثر اور عملی اقدامات کے بجائے صرف اقتدار اور اختیار نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے گزار دیا گیا اور کوئی میگا پراجیکٹ اس شہر کو نہیں دیا گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جس جماعت پر شہر کراچی کے حقوق غصب اور بلدیاتی اداروں کو بے اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ایم کیو ایم نے گزشتہ سال اسی سیاسی جماعت سے پانچویں بار اتحاد کیا۔

    بلدیاتی نمائندوں کی مدت 2020 میں ختم ہوگئی تھی جس کے بعد سے ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی کو بغیر منتخب نمائندوں کے عارضی بنیادوں ایڈمنسٹریٹرز تعینات کر کے چلایا جا رہا تھا۔ اب جب کہ عدالتی حکم پر الیکشن کے انعقاد میں 7 دن باقی رہ گئے ہیں لیکن لگ ہی نہیں رہا ہے کہ کراچی میں آئندہ ہفتے کوئی بڑا انتخابی معرکہ ہونے جا رہا ہے۔ ایسا غالباً پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں بلدیاتی الیکشن ہونے جا رہے ہوں اور ان میں سات دن سے بھی کم کا وقت ہو لیکن روایتی انتخابی گہما گہمی کہیں نظر نہیں آ رہی ہو۔ اگر کسی حد تک کوئی انتخابی سرگرمیاں نظر آرہی ہیں تو وہ صرف جماعت اسلامی کی ہیں جب کہ شہر کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعوے دار ایم کیو ایم کی سرگرمیاں صرف الیکشن کے التوا کے لیے کمیشن میں درخواست تک ہیں۔

    بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے دوران ہی دو ماہ قبل ایم کیو ایم کے نامزد گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالنے والے کامران ٹیسوری سیاسی طور پر بہت سرگرم ہیں اور ان کی تمام کوششیں ایم کیو ایم کے منقسم دھڑوں کو متحد کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ سال کے آخر میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ نیا سال شروع ہوتے ہی کراچی کے عوام اس حوالے سے خوشخبری سنیں گے لیکن اب تک رابطوں، ملاقاتوں اور رسمی بیانات کے علاوہ کوئی بڑی پیش رفت نظر نہیں آئی۔

    ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران گورنر سندھ ایم کیو ایم پاکستان سمیت پی ایس پی، ڈاکٹر فاروق ستار، آفاق احمد سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور گزشتہ کئی سال سے ایک دوسرے کے خلاف ان جماعتوں کے رہنما بھی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن جس اتحاد کی بازگشت گزشتہ ماہ سنائی دی تھی اور خوشبری سال شروع ہوتے ہی ملنے کی نوید دی گئی تھی وہ خوشخبری اب تک سنائی نہیں دی ہے۔

    شہری سیاست کے واقفان حال کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے کچھ رہنما اس ادغام کے خلاف ہیں جو کھل کر سامنے نہیں آ رہے لیکن انہیں ایک بھی نہیں ہونے دے رہے جس کے باعث اب تک کوئی حتمی منظر نامہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ادھر مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شہری مسائل اور حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں لیکن وہ متحدہ قومی موومنٹ کا حصہ نہیں بن رہے ہیں۔ یعنی اتحاد کی بیل ابھی منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔

    پیپلز پارٹی جو کچھ عرصہ پہلے تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے کترا رہی تھی اور اس حوالے سے سندھ اسمبلی سے قانون سازی سمیت کئی اقدامات بھی کیے اور الیکشن کے التوا کے لیے کمیشن کو خطوط بھی لکھے لیکن اب نہ جانے چند دن میں کیا کایا پلٹ ہوئی کہ وہ مقررہ تاریخ پر الیکشن کرانے کی سب سے بڑی داعی بن کر سامنے آئی ہے اور اس معاملے پر پی پی پی اور ایم کیو ایم میں تلخیاں مزید بڑھتی جا رہی ہیں۔

    ایم کیو ایم جس کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات سے نہیں بھاگ رہی اور نہ ہی کسی کے لیے میدان خالی چھوڑے گی بلکہ وہ حلقہ بندیوں پر معترض ہے کیونکہ حلقہ بندیاں پی پی کی سندھ حکومت نے اپنے ذاتی سیاسی مفادات کو مدنظر رکھ کر کی ہیں تاکہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ ایم کیو ایم کے اس الزام کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ بلاول بھٹو سمیت کئی یی پی سیاسی رہنما ببانگ دہل یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اس بار کراچی کا میئر جیالا ہوگا اگر ایسا ہوا تو یہ کراچی کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا۔

    نئی حلقہ بندیوں تک بلدیاتی الیکشن کے التوا پر ایم کیو ایم کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے جب کہ ایم کیو ایم نے 11 جنوری کو اس حوالے سے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے جس میں اس نے شرکت کے لیے پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کو بھی دعوت دی تاہم پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ نے تو شرکت کی یقین دہائی کرائی تاہم جماعت اسلامی نے اس معاملے پر ایم کیو ایم کو ہرا جھنڈا دکھانے کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں متحدہ رہنماؤں کو آئینہ بھی دکھا دیا۔

    بلدیاتی انتخابات کے حوالے اب تک جماعت اسلامی ہی متحرک نظر آنے والی ہی واحد سیاسی جماعت نظر آ رہی ہے باقی سب جماعتیں زبانی کلامی باتیں کرتی سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے شہر بھر میں بلدیاتی الیکشن کے لیے سیاسی دفتر کھلے ہوئے ہیں۔ انتخابی مہم بھی جاری ہے۔ اس کے نمائندے عوام سے رابطے بھی کر رہے ہیں جب کہ یہ بلاگ لکھے جانے تک جماعت اسلامی نے شہر قائد کے لیے اعلان کراچی کے نام سے ایجنڈا جاری کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

    اس کے برخلاف گزشتہ عام انتخابات میں کراچی سے ایم کیو ایم کو بڑا نقصان پہنچانے والی پاکستان تحریک انصاف بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے اس طرح سرگرم نظر نہیں آتی جس طرح کہ یہ بلدیاتی انتخابات تقاضہ کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے عدالت ضرور گئی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان انتخابات کے لیے اس کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے اور اس کی توجہ صرف اعلیٰ ایوانوں کی سیاست پر مرکوز ہے۔

    پیپلز پارٹی کے پاس بھی صرف سیاسی دعوے اور بیانات ہیں یا پھر سندھ کی حکومت باقی زمینی حقائق کے مطابق پی پی پی بھی باضابطہ سیاسی طور پر انتخابی سرگرمی شروع نہیں کرسکی ہے۔

    ایم کیو ایم جو خود کو شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہتی رہی ہے اور ماضی کے انتخابی نتائج اٹھا کر دیکھا جائے تو یہ بات 100 فیصد درست بھی ہے لیکن ایم کیو ایم کا حال اب ماضی جیسا قطعی نہیں اور اس کا بھرپور اندازہ اور مشاہدہ خود ایم کیو ایم کو بھی ہے۔ ایم کیو ایم رہنماؤں کی جانب سے کسی بھی امیدوار کے لیے میدان کھلا نہ چھوڑنے کے اعلانات کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کا انتخابی مہم چلانے کے حوالے سے جو خاصہ رہا ہے وہ اس بار کہیں نظر نہیں آ رہا ہے اور اس کا اولین خواہش تو الیکشن کا التوا ہے۔

    تحریک لبیک پاکستان جو کراچی کی سیاست میں چند سال سے فعال نظر آ رہی ہے اور سندھ اسمبلی میں بھی اس کے نمائندے موجود ہیں۔ گزشتہ سال قومی اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں بھی اس نے ایم کیو ایم کو کافی ٹف ٹائم دیا تھا لیکن اس کیمپ میں بھی ہنوز خاموشی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ باقی دیگر جماعتیں جس میں پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ، ڈاکٹر فاروق ستار ودیگر شامل ہیں تو گزشتہ انتخابات میں ان کی کارکردگی دیکھ کر ان کا سرگرم ہونا نہ ہونا برابر محسوس ہوتا ہے۔

    دوسری جانب صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں اس بار کراچی کے شہری بھی گم سم لگتے ہیں اور ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ شہر قائد کے باسی الیکشن کے بارے میں اس قدر لاعلم ہیں کہ انہیں اپنے حلقوں سے کھڑے ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کے بارے میں بھی علم نہیں ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ بلدیاتی انتخابات کے کئی بار التوا نے ان کی دلچسپی ختم کر دی لیکن اکثریت کی رائے ہے کہ ہر روز بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری نے عوام کو ان معاملات سے دور کر دیا ہے اور جس طرح سے خاص طور پر گزشتہ 8 ماہ میں ملک کے سیاسی معاملات چلائے گئے ہیں اس سے عوام کی اکثریت سیاست اور سیاستدانوں سے بدظن نظر آتی ہے۔

    سیانے کہتے ہیں خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ انتخابی میدان میں اس طرح کی خاموشی کیا رنگ لائے گی اس کا نتیجہ تو آئندہ ہفتے 15 جنوری کی شام کو ظاہر ہو گا۔ تاہم شہر قائد کے باسی اب نعروں کے بجائے اپنی اور شہر کی حالت کی بہتری کے لیے عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کس قیادت کا انتخاب کرتے ہیں؟

  • فلمی انداز میں دلہن کی حقیقی رخصتی، دلچسپ ویڈیو دیکھیں

    سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں دولہا اپنی دلہن کو فلمی انداز میں موٹر سائیکل پر رخصت کرکے لے جا رہا ہے۔

    نئے دور میں ہر چیز میں جدت کو پسند کیا جاتا ہے۔ بات شادی بیاہ کی تقریبات کی ہو تو ہر شخص اس میں کچھ نیا اور انوکھا کرنا چاہتا ہے۔ کچھ عرصے سے شادی میں دلہا اور دلہن کی انٹری مقبول ہوئی ہے جس میں دلہا دلہن منفرد انداز میں شادی ہال یا بینکوئٹ میں انٹری دیتے ہیں۔

    آپ نے بھی ایسی کئی شادی کی تقریبات میں شرکت کی ہوگی جس میں دلہا اپنی دلہن کو ہال میں بگھی میں لے کر آتا ہے یا اسپورٹس کار، بائیک پر لاتا ہے لیکن ان دنوں سوشل میڈیا پر دلہن کی رخصتی کی ایک منفرد فلمی انداز کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔

    شہر قائد کے مضافاتی علاقے سرجانی ٹاؤن میں بنائی گئی اس ویڈیو میں دولہا اپنی دلہن کو موٹر سائیکل پر رخصت کرکے لے جا رہا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ہچکولے کھاتی موٹر سائیکل پر دلہا اور دلہن انتہائی شاداں وفرحاں نظر آ رہے ہیں۔

    ویڈیو کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس منفرد انداز کی فلمی رخصت دلہن کے من کو کچھ زیادہ ہی بھائی ہے جس کی خوشی اس کے چہرے اور انداز سے نمایاں ہے۔

     

    اس انوکھی رخصتی کی ایک باراتی عقب میں رہتے ہوئے ویڈیو بناتا ہے جس کے بعد یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر ’’سرجانی بوائز، ذرا ہٹ کے‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ وائرل ہوئی ہے۔

  • 2022: ملکی سیاست میں یوٹرن اور بدتہذیبی  کا سال!

    2022: ملکی سیاست میں یوٹرن اور بدتہذیبی کا سال!

    پاکستان کی سیاست میں یہ سال انتہائی ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔اسے سیاسی افق پر انہونیوں، یوٹرنز اور اخلاقی قدروں کے زوال کا سال کہا جاسکتا ہے۔

    2022 کا سورج طلوع ہوا تو عمران خان وزیراعظم اور شہباز شریف اپوزیشن لیڈر تھے اور اب جب یہ سال ختم ہو رہا ہے تو شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور پی ٹی آئی ایوان سے باہر، لیکن عمران خان عملاً اپوزیشن لیڈر بن گئے ہیں۔

    2022 میں ملک میں سیاسی افراتفری اور جو ہیجان انگیزی دیکھی گئی، موجودہ نسل نے شاید اس سے قبل نہ دیکھی ہو۔ یہ سال سیاسی افراط و تفریط کا شکار تو رہا لیکن اس دوران ایسے ایسے اسکینڈلز، اقدامات سامنے آئے کہ الامان الحفیظ۔ مسلسل آڈیو اور ویڈیو اسکینڈلز سے ایسا لگنے لگا کہ شرافت نے کوچۂ سیاست کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے اور بدتہذیبی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ رواں برس سیاستدان ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟‘‘ پر دل و جان سے عمل پیرا نظر آئے اور ایک دوسرے پر شرمناک الزامات لگانے میں‌ بہت آگے نکل گئے۔ اس برس تحریک عدم اعتماد، توشہ خانہ ریفرنس، آڈیو ٹیپس، سیاستدانوں کی گرفتاریاں، نیب ترامیم کے بعد پی ڈی ایم رہنماؤں کو ریلیف، مقدمات کا خاتمہ، عمران خان کی مقبولیت اور عسکری قیادت کی تبدیلی کا معاملہ سیاسی منظر نامے میں نمایاں رہا۔

    ملک میں جہاں سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کے حصول کی کشمش جاری رہی وہیں عوام اس بات کے منتظر رہے کہ ہر وقت عوام کی فکر میں‌ ہلکان ہونے والے سیاستدان ان کے لیے بھی سوچیں گے لیکن عوام کا یہ خواب ہنوز خواب ہی ہے۔ رواں سال مہنگائی اور بیروزگاری نے ان پر عرصۂ حیات مزید تنگ کر دیا ہے۔

    اس سال کے آغاز پر سیاسی افق پر بے یقینی کے بادل چھانے لگے تھے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے عمران خان کو بھی اندازہ ہو چلا تھا کہ ان کا اقتدار ڈانوا ڈول ہو رہا ہے جس کا اظہار وہ اپنے بیانات میں کرتے رہے۔ پھر ماضی کی دو بڑی حریف سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے فضل الرحمٰن کی قیادت میں گٹھ جوڑ اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان نے تمام خدشات کو درست ثابت کر دیا۔

    سال کا آغاز پی ڈی ایم رہنماؤں کے مہنگائی مکاؤ مارچ اور احتجاج سے ہوا۔ ن لیگ تو سرگرم تھی ہی، بلاول بھٹو مہنگائی مارچ لے کر کراچی سے اسلام آباد کے لیے عازم سفر ہوئے اور جب لانگ مارچ لے کر 8 مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہوئے اور اسی روز متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرا دی۔ لیکن یہ کسی مذاق سے کم نہیں کہ آج جب سال اپنے اختتام پر ہے اور 13 جماعتی پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت ہے تو مہنگائی سال کے آغاز سے کئی گنا بڑھ چکی ہے اور اس کی پرواز مسلسل جاری ہے لیکن پی ڈی ایم یا ان کے سپورٹرز اس پر سیاسی بیانات تک محدودہیں جب کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی کے خاتمے کے لیے کوئی موثر عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ عمران خان کو مخالفین نے مسٹر یوٹرن کا نام دیا ہے لیکن سیاسی اقدامات میں یوٹرن لینے میں پی ڈی ایم جماعتوں کے رہنما بھی پیچھے نہیں ہیں۔

    پی ڈی ایم کی جانب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد ملک بالخصوص شہر اقتدار اسلام آباد میں ہر دن سیاسی درجہ حرارت بڑھتا رہا۔ اسی ہنگامہ خیزی میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا اور یہ محض اتفاق کہ جس دن وہ روس پہنچے اسی روز روس نے یوکرین پر چڑھائی کر دی تھی، یوں غیر معمولی صورتحال میں عمران خان کا دورہ روس دنیا بھر میں موضوع بحث بھی بنا۔

    قصہ مختصر عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن جماعتوں پر امریکی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا اور اعلان کیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ایک ماہ تک سیاسی جوڑ توڑ اور بیرونی دباؤ کے بعد ان کی اپنی پارٹی کے 20 اراکین منحرف ہو گئے جب کہ عمران خان کے حلیف بھی پل بھر میں حریف بن گئے اور ساڑھے تین سال تک حکومت اور وزارتوں کا مزا لینے والی ایم کیو ایم اور بی اے پی راتوں رات قبلہ تبدیل کر کے پی ڈی ایم میں شامل ہوگئیں، جس کے بعد سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔

    اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے تمام راستے بند ہوتے دیکھ کر عدم اعتماد روکنے کے لیے قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس صدر عارف علوی کو بھیجی۔ صدر مملکت نے بھی اس ایڈوائس پر عمل کرنے میں دیر نہ لگائی جس کے خلاف متحدہ اپوزیشن عدالت پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے رات گئے کھل کر اور الیکشن کمیشن نے آئندہ چند ماہ تک الیکشن کرانے سے معذوری ظاہر کر کے سابق وزیراعظم کی تمام تدابیر پر پانی پھیر دیا یوں انہیں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور ناکامی کے بعد اقتدار سے محروم ہوئے تاہم جاتے جاتے وہ اسمبلیوں سے استعفے دے گئے جو سوائے 11 کے اب تک قبول نہیں ہوسکے ہیں۔

    ایسا ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کرکے نیا وزیراعظم لایا گیا۔ اس سے قبل سابق وزرائے اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے خلاف تحاریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔

    اقتدار سے محرومی کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور عوام میں ان کا اینٹی امریکا اور بیرونی مداخلت بیانیہ یوں سر چڑھ کر بولا اور مقبول ہوا کہ وہ ملک کے سب سے مقبول سیاسی لیڈر گردانے گئے۔ جس کا ثبوت پنجاب اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جہاں ایک طرف پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی الیکشن میں 16 پر کامیابی حاصل کی وہیں کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں پی ٹی آئی کے استعفوں سے خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن میں عمران خان نے بیک وقت 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے اپنا ہی 5 نشستوں پر کامیابی کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ان ضمنی الیکشن میں کئی حلقے ایسے بھی تھے جو موروثی سیاست کی داعی جماعتوں کے گڑھ کہلاتے تھے وہاں بھی تحریک انصاف نے 13 جماعتی اتحاد کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔

    وفاق میں تبدیلی کیساتھ ہی تحریک انصاف کو پنجاب حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور سردار عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے پر حمزہ شہباز نئے وزیر اعلی ٰ پنجاب بن گئے۔ باپ کے وزیراعظم اور بیٹے کے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بننے کو سیاسی حلقوں سمیت عوامی حلقوں میں اچھے انداز میں نہیں دیکھا گیا تاہم حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ چند ماہ ہی چل سکی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ کا تاج چوہدری پرویز الٰہی کے سر سج گیا۔

    سیاسی داؤ پیچ کے جاری اس طویل میچ کے دوران عمران خان خود بھی سڑکوں پر سرگرم رہے اور عوام کو بھی متحرک رکھا۔ 25 مئی کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان پورا نہ ہوسکا لیکن اکتوبر کے آخر میں حقیقی آزادی مارچ کے نام سے لانگ مارچ نکالا جو لاہور سے وزیر آباد تک پہنچا تھا کہ وہاں سابق وزیراعظم کے قافلے پر فائرنگ کی گئی جس میں خوش قسمتی سے ان کی جان محفوظ رہی تاہم وہ اور ان کے کئی ساتھی زخمی ہوئے جب کہ ایک کارکن جاں بحق ہوا۔ مرکزی ملزم گرفتار کرلیا گیا تاہم اس حوالے سے اب تک تحقیقات کے ساتھ مخالفین کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

    تین ہفتے کے وقفے کے بعد عمران خان پھر متحرک ہوئے اور 26 نومبر کو پی ٹی آئی لانگ مارچ راولپنڈی پہنچا تو عمران خان نے اپنے خطاب میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا جو کہ تاحال نہیں ہوسکی ہیں۔ اس دوران پنجاب میں ایک بار پھر حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اور گورنر نے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کردیا لیکن عدالت سے وزیراعلیٰ کو چند گھنٹوں میں ہی ریلیف مل گیا اور وہ اپنے عہدے پر بحال کردیے گئے۔

    شہباز شریف کی حکومت بنتے ہی ایسا لگا کہ مہنگائی اور عوام کا درد دکھاوا تھا جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی 9 ماہ کی حکومت کے دوران مہنگائی کی کوکھ سے مزید کئی مہنگائیاں جنم لے چکی ہیں۔ سال بھر عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پستے رہے۔ سیلاب بھی غریبوں کا سب کچھ بہا کر لے گیا لیکن سیاستدان اقتدار، اقتدار کی آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ حکومتی اقدامات اور پھرتیوں سے تو عمران خان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکمراں اپنے کیسز ختم کرانے آئے تھے کیونکہ موجودہ حکومت کے کریڈٹ پر اگر کوئی نمایاں کام نظر آتا ہے تو وہ نیب قوانین میں ترامیم ہیں جس کے بعد پی ڈی ایم قیادت بالخصوص، وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز، سلیمان شہباز، صفدر اعوان، اسحاق ڈٓار سمیت ایک طویل فہرست ہے جو اس سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے کیسز سے جان چھڑا چکی ہے جب کہ مریم نواز تو ریلیف ملتے ہی لندن کوچ بھی کرچکی ہیں۔

    اس سال ملک کے لیے کوئی اچھی خبر رہی ہے تو وہ پاکستان کا فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی موجودہ حکومت خود لے رہی ہے اور وزیر خارجہ تو گزشتہ دنوں امریکا میں ببانگ دہل پاکستان کے فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے کو اپنی انتھک محنت کا ثمر قرار دے رہے ہیں، لیکن پی ڈی ایم حکومت کو شاید یاد نہیں کہ پاکستان فٹیف کی گرے لسٹ میں ن لیگ کے دور حکومت میں گیا تھا اور فٹیف نے اس درجے سے نکالنے کے لیے جو سخت شرائط عائد کی تھیں وہ 90 فیصد سے زائد پی ٹی آئی حکومت نے پوری کیں۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ عمران دور حکومت میں فٹیف سے متعلق ایک اجلاس میں موجودہ وزیر خارجہ سمیت حکمراں جماعتوں کے رہنما بائیکاٹ کر گئے تھے۔

    سال ختم ہو رہا ہے تو صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے نئے الیکشن کے مطالبے کے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا فی الوقت قبل از وقت الیکشن کے اعلان کا کوئی موڈ نظر نہیں آتا۔ سال بھر میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد حکومت میں شامل تمام جماعتیں خود بھی فوری الیکشن سے فرار چاہتی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی بدترین معاشی صورتحال کے باعث مشکل فیصلے کرنے کے لیے ملک میں طویل مدت کے لیے ٹیکنو کریٹ کی حکومت کی باتوں کی گردش سنائی دے رہی ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے؟

    حکومت کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو آج ہر طرف پاکستان کے دیوالیہ ہونے یا دیوالیہ کے قریب ہونے کی صدائیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔ معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کی سرگوشیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ گیس ناپید ہوتی جا رہی ہے تو بجلی بھی رُلا رہی ہے۔ بینک ایل سیز نہیں کھول رہے، کروڑوں ڈالر کی شپمنٹس پورٹ پر پڑی سڑ رہی ہیں۔ کئی بین الاقوامی کمپنیاں کاروبار وقتی اور مستقل بند کر رہی ہیں یا سوچ رہی ہیں۔ اس صورتحال میں بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ترجیح اقتدار سے چمٹے رہنا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، گھڑی کیوں بیچی، گھڑی میری مرضی میری، فلاں کی آڈیو اور ویڈیو کی ریلیز، اسمبلیوں کی تحلیل، استعفے اور بڑھکیں مارنا رہ گیا ہے۔ حکومت آرٹیفیشل اقدامات کے طور پر کبھی توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے کاروبار جلد بند کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے لیکن کیا یہ آرٹیفیشل اقدامات غربت کے سمندر میں غرق ہونے والے عوام کو کچھ ریلیف دے سکیں گے کہ جن کی دسترس سے آب آٹا بھی دور ہوگیا ہے۔

    زر مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر، ترسیلات زر کا انتہائی حد تک گرجانا اور افراط زر کا بڑھ جانا ملک کے سنجیدہ طبقے کو فکرمند کر رہا ہے جب کہ سال کے اختتام پر ملک میں بڑھتی دہشتگردی نے ایک اور خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ہم کئی خدشات اور سر پر لٹکتی خطرات کی کئی تلواروں کے ساتھ 2022 کو الوداع اور 2023 کو خوش آمدید کہیں گے۔ دعا ہے کہ ہمارا ملک اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رہے۔

  • قطر فٹبال ورلڈ کپ 21 ویں صدی کا بہترین عالمی کپ بن گیا

    قطر میں کھیلے گئے فٹبال ورلڈ کپ کے ناقدین کو منہ کی کھانی پڑی اور یہ ورلڈ کپ رواں صدی کا سب سے بہتری عالمی کپ بن گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق قطر میں منعقدہ ورلڈ کپ کی شہرت اپنے اختتام کے بعد بھی جاری ہے اور خلیجی ملک میں فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد کے سب سے بڑے ناقد برطانوی نشریاتی ادارے کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے نے رواں صدی کے سب سے بہترین عالمی کپ کے حوالے سے عوامی آرا جاننے کے لیے پول کا اہتمام کیا لیکن وہ اپنے پول پر من پسند نتائج حاصل نہ کرسکا۔

    بی بی سی کے عوامی پول میں رواں صدی کے بہترین عالمی کپ کے لیے پوچھے گئے سوال میں 78 فیصد لوگوں نے قطر میں منعقدہ میگا ایونٹ کو سب سے بہترین عالمی کپ قرار دیا۔ اس پول میں 6 فیصد ووٹ کے ساتھ جنوبی کوریا اور جاپان کا 2002 کا ایونٹ دوسرے نمبر پر رہا۔

    واضح رہے کہ قطر دنیا کے سب سے مقبول کھیل فٹبال کے عالمی کپ کی میزبانی کرنے والا پہلا اسلامی اور خلیجی ملک ہے۔

    ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل قطر میں اس عالمی کپ کے انعقاد اور پھر کچھ پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد تنقید کی ایک لہر اٹھی تھی۔ بالخصوص مغربی اور یورپی ممالک نے تو اس حوالے سے کڑی تنقید کی تھی۔ تاہم ورلڈ کپ کے اختتام کے ساتھ ہی تنقید تہنیت میں تبدیل ہوگئی۔

    یہ بھی پڑھیں: قطر نے فیفا ورلڈ کپ کی تاریخ بدل دی، دنیا حیران

    قطرنے دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں فینز کے لیے شاندار انتظامات کیے۔ ایک ماہ تک جاری رہنے والے ایونٹ میں شاندار میزبانی اور انتظامات نے ناقدین کو اپنی رائے بدل دینے پر مجبور کیا۔ شاندار انتظامات، دل موہ لینے والی افتتاحی اور اختتامی تقریبات سمیت سنسنی خیز میچوں سے شائقین بھرپور لطف اندوز ہوئے۔

    واضح رہے کہ قطر نے فیفا ورلڈ کپ کے میگا ایونٹ کے لیے شاندار انتظامات کرنے پر 220 ارب ڈالرز خرچ کیے تھے اور 8 نئے اسٹیڈیم بنائے تھے۔