Author: ریحان خان

  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کراچی والوں کو اپنا میئر چننے کا حق مل گیا

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کراچی والوں کو اپنا میئر چننے کا حق مل گیا

    سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں 15 جنوری 2023 کو بلدیاتی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلدیاتی الیکشن متعدد بار ملتوی کیے گئے اور عدالتی حکم نے حکومت سندھ اور اتحادیوں کی التوا کے لیے تدبیروں کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں صوبے کے 16 اضلاع میں رواں سال مئی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اور دوسرے مرحلے میں کراچی، حیدرآباد میں 24 جولائی کو الیکشن ہونا تھے۔ تاہم طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث الیکشن ملتوی کر کے نئی تاریخ 28 اگست دی گئی لیکن پھر 23 اکتوبر کو بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کردیا گیا اور اس تاریخ سے قبل ہی ایک مرتبہ پھر الیکشن ملتوی کر دیے گئے۔

    اس دوران سندھ حکومت نے بھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے جان چھڑانے کیلیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ساتھ اپنے اتحادیوں کو ملا لیا اور یکے بعد دیگرے پی پی پی اور اتحادیوں (بشمول ایم کیو ایم) کے اقدامات سے ایسا لگا کہ ان میں چاہے اندرونی لاکھ اختلافات ہوں لیکن کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے فیصلے پر یہ تمام جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔

    پہلے وفاقی حکومت نے کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے لیے سیکیورٹی دینے سے معذرت کر لی جس کے بعد اکتوبر میں ہونے والے الیکشن ملتوی ہوئے لیکن پھر سندھ حکومت نے اپنے داؤ پیچ کھیلے۔ پی پی کی سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں تین ماہ تک الیکشن نہ کرانے کا جواب دیا اور جواز دیا کہ اس وقت سندھ پولیس کی نفری سیلاب زدہ علاقوں اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے وہاں مصروف ہے اور الیکشن کے لیے 37 ہزار نفری چاہیے جو دستیاب نہیں۔ جب کہ اسی دوران ایم کیو ایم بھی حلقہ بندیوں اور بلدیاتی قانون میں ترامیم اور با اختیار میئر کے نام پر میدان میں رہی اور اس کا موقف رہا کہ حلقہ بندیوں کی درستی اور بلدیاتی قوانین میں ترامیم کے بغیر الیکشن بے سود ہوں گے۔

    ایک طرف پی پی کی سندھ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے تاخیری حربے جاری تھے تو اس کے خلاف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کھڑی تھیں جو بلدیاتی انتخابات کے بار بار التوا پر سندھ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے فیصلے کے خلاف عدالت پہنچ گئیں۔ اس میدان میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو کامیابی ملی اور سندھ ہائیکورٹ نے ان کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے کراچی، حیدرآباد ڈویژن میں الیکشن کمیشن کو 3 دسمبر تک بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا۔ عدالت کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے سندھ حکومت کی بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 15 جنوری 2023 کو کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیکرٹری داخلہ اور آئی جی سندھ کو بلدیاتی انتخابات کیلئے سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی مکمل ہدایت کردی۔

    سندھ حکومت نے تو اپنی پوری کوشش کی کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے جتنا دور رہا جائے وہی اس کے لیے سیاسی طور پر بہتر ہوگا۔ اسی لیے تو کبھی سیلاب اور کبھی انتظامات نہ ہونے کے جواز گھڑے۔ پولیس کی نفری میں کمی، اسلام آباد میں پولیس نفری بھیجے جانے کا بہانہ کیا اور جب اس کو اندازہ ہوا کہ مزید یہ بہانے نہیں چلیں گے تو ایک قدم اور آگے آتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کے التوا کے حوالے سے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کرکے الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھنے کی کوشش کی اور اس کی کابینہ سے منظوری بھی لے لی گئی۔ بلدیاتی ایکٹ کی شق 34 کے تحت 120 دن کے اندر الیکشن کرانا تھے، سندھ حکومت کی جانب سے نئی ترمیم کے بعد یہ شق ہی ختم کردی گئی۔

    پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر من وعن عمل کا بیان تو سامنے آیا ہے لیکن یہ سیاست ہے جہاں سامنے کچھ اور پس پردہ کچھ ہوتا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ سندھ حکومت اپنے اعلان پر قائم رہتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کراتی ہے یا پھر کچھ نئی تاویلیں، بہانے تراش کر اسے پھر ملتوی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر جہاں سندھ حکومت نے بظاہر سر تسلیم خم کیا ہے وہیں ایم کیو ایم نے حسب سابق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے الیکشن ملتوی کیے جانے کی درخواست سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں تو اس معاملے پر ایم کیو ایم کا عدالت جانے کا پھر کیا جواز بنتا ہے؟

    یہ درست ہے کہ بلدیاتی قانون میں میئر با اختیار نہیں اور نہ ہی متعلقہ ادارے اس کے پاس ہیں جب کہ حلقہ بندیوں پر بھی ایم کیو ایم کا اعتراض جائز ہے کہ کہیں چند ہزار تو کہیں لاکھ کے لگ بھگ ووٹرز پر حلقہ بندیاں من پسند حلقوں میں کی گئی ہیں لیکن سوال تو یہی ہے کہ یہ حلقہ بندیاں کسی باہر والے نے تو نہیں کیں پی پی نے ہی کی ہیں میئر کے اختیارات کا گلا بھی پی پی نے گھونٹا ہے تو پھر ایم کیو ایم پی پی کے ساتھ کیوں بیٹھی ہے بے شک اس کے پاس سندھ کی وزارتیں نہیں لیکن کہلائے گی تو وہ اتحادی ہی۔ بلدیاتی معاملات پر روز مذاکرات اور روز ناکامی کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت سے نکلنے کے بیانات آئے روز دہرائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل ہوتا نہ دیکھ کر اب اس کے ووٹرز بھی ایم کیو ایم کے تحفظات پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے کیونکہ ایم کیو ایم کا ووٹرز چند ماہ قبل یہ تماشا بھی دیکھ چکا تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ بننے سے صرف چند روز قبل ہی ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے خلاف سخت سراپا احتجاج تھی اور یہاں کی پوری قیادت وہاں کی پوری قیادت کو ملامت کر رہی تھی پھر اچانک راتوں رات موقف کی تبدیلی اور یوٹرن نے عوام کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔

    الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی بلدیاتی میدان میں موجود جماعتوں نے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں اور آئندہ چند روز یا اگلے ماہ تک بلدیاتی الیکشن کے لیے شہر کا سیاسی ماحول گرم ہونے کی توقع ہے اب کس کے سر میئر کراچی کا تاج سجے گا یہ فیصلہ تو 15 جنوری کو ہی ہوگا لیکن اس سے پہلے جو شور مچے گا عوام کو اس کی تیاری کرنی چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں میدان میں ہوں گی اور عوام کو دینے کے لیے لالی پاپ ہوں گے۔ اس مرحلے پر شہر کراچی کے باسیوں کو بھی سیاسی نعروں کے فریب میں آنے کے بجائے دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا ہوگا۔

    اس وقت کراچی بے شمار مسائل کا شکار ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حکومتوں کی عدم توجہی، سیاسی منافرت اور بندر بانٹ نے روشنیوں کے شہر کو مسائلستان بنا دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی شہ رگ کی یہ حالت ہے کہ شہر کی تقریباً ہر سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور کئی علاقے کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ صفائی کا نظام تو لگتا ہے کہ یہاں سے ختم ہی کیا جاچکا ہے ہر سڑک اور گلی کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہے۔ ناقص سیوریج نظام سے آئے دن کوئی نہ کوئی سڑک یا علاقہ جوہڑ میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ پارکس، بچوں کے کھیل کے میدان، ٹریفک کے نظام بھی توجہ کے طالب ہیں۔

    کراچی کو درپیش مسائل اس وقت حل ہوں گے جب بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ یہاں رہنے والے تمام شہری ذاتی غرض کے دائرے سے نکل کر اجتماعی بہبود کے لیے سوچیں گے اور اس شہر کو اپنا شہر سمجھیں گے۔ شہر کراچی کے باسی 15 جنوری کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے قبل اپنے شہر کے مذکورہ تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کا حق استعمال کریں گے تب ہی وہ کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں، رنگوں اور امنگوں کا شہر بنانے کی کوشش میں کامیاب ہوں گے۔

  • فیفا ورلڈ کپ، پرتگال نے پری کوارٹر فائنل میں جگہ بنا لی

    فیفا ورلڈ کپ، پرتگال نے پری کوارٹر فائنل میں جگہ بنا لی

    قطر میں فیفا ورلڈ کپ میں سنسنی خیز مقابلے جاری ہیں اور برازیل کے بعد پرتگال نے بھی عالمی کپ کے ناک آؤٹ مرحلے کیلیے کوالیفائی کرلیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ میں پیر کے روز پرتگال نے یوروگوئے کو دو صفر سے شکست دے کر ناک آؤٹ مرحلے کے لیے کوالیفائی کرلیا۔

    میچ کے ہیرو پرتگال کے برونو فرنانڈس رہے جنہوں نے دونوں بار گیند کو گول پوسٹ میں پہنچایا۔

    برونو فرناڈس نے میچ کے 54 منٹ میں پہلا گول اسکور کیا جب کہ دوسرا گول فاؤل کے نتیجے میں ملنے والی پنالٹی پر بنایا۔

    برونو نے اس کے بعد بھی مخالف یورگوئے کے گول پوسٹ پر حملے کیے اور کئی بار فٹبال کو جال میں پہنچانے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ مل سکی جس ک باعث وہ اس ورلڈ کپ میں پہلی ہیٹ ٹرک کرنے کے اعزاز سے محروم رہے۔

    پرتگال کی جیت کے نتیجے میں اس نے 6 پوائنٹس کے ساتھ ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ بنالی ہے۔
    ٹورنامنٹ کے نویں روز کے ایک اور میچ میں کیمرون اورسربیا کا سنسنی خیز مقابلہ تین تین گول سے برابر رہا۔

    گروپ جی کا دوسرا میچ کیمرون اور سربیا کے درمیان سنسنی خیز ثابت ہوا، کیمرون کے کیسٹیلیٹو نے 29 ویں منٹ میں پہلا گول کرکے ٹیم کو برتری دلائی۔ سربیا نے زبردست کم بیک کرتے ہوئے پہلے ہاف کے انجری ٹائم میں پولووچ کی گول کی بدولت مقابلہ برابر کردیا۔

    دو منٹ بعد سیووچ نے دوسرا گول داغ دیا اور پہلا ہاف سربیا کی 1-2 کی برتری کے ساتھ ختم ہوا۔ میچ کے 53 ویں منٹ میں آغاز میں سربیا کے الیگزینڈر میٹرووچ نے گول کرکے کیمرون پر 1-3 کی برتری قائم کردی۔

    پھر کیمرون کا شو شروع ہوا اور 4 منٹ میں 2 گول کرکے یورپین سائیڈ کے خلاف مقابلہ 3-3 سے برابر کردیا۔ پہلے ابوبکر نے 63 ویں منٹ میں گول کرکے خسارہ کم کیا، پھر 3 منٹ بعد ایرک میکسم کیمرون نے تیسرا گول کرکے میچ برابری پر پہنچا دیا۔

    پیر کے روز کھیلے گئے دیگر میچز میں برازیل نے سوئٹزر لینڈ کو ایک صفر سے شکست دے کر ناک آؤٹ مرحلے میں جگہ پکی کرلی جب کہ گھانا نے دلچسپ مقابلے کے بعد جنوبی کوریا کو شکست سے دوچار کیا۔

  • ایک اوور میں 7 چھکے، بیٹر کا منفرد ریکارڈ، ناقابل یقین ویڈیو دیکھیں

    ایک اوور میں 7 چھکے، بیٹر کا منفرد ریکارڈ، ناقابل یقین ویڈیو دیکھیں

    بھارت میں جاری علاقائی کرکٹ ٹورنامنٹ وجے ہزارے ٹرافی کے میچ میں بیٹر رتو راج گائیکواڈ نے ایک اوور میں 7 چھکے لگا کر منفرد کارنامہ انجام دے دیا۔

    یہ میچ تھا وجے ہزارے ٹرافی کا سیمی فائنل جس کو مہاراشٹر کے کپتان رتو راج گائیکواڈ نے اپنی ناقابل یقین کارکردگی کی بدولت یادگار بنا لیا اور ساری دنیا اس نوجوان کی صلاحیتوں کی معترف ہوگئی اور اس ریکارڈ ساز کارنامے پر بیٹر کا نام سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہوگیا۔

    پیر کو وجے ہزارے ٹرافی کے سیمی فائنل میں مہاراشٹر کے کپتان رتو راج گائیکواڈ نے اتر پردیش کے خلاف ڈومیسٹک ون ڈے میچ کے 49 ویں اوور کے شیوا سنگھ کو مسلسل سات چھکے مارے۔ اس اوور میں شیوا سنگھ نے ایک نو بال بھی کرائی تھی جس کی وجہ سے اس اوور میں سات بار گیند پھینکی گئی۔

     

    گائیکواڈ نے اس میچ میں اپنی جارحانہ بلے بازی کی دھاک بٹھائی اور 159 گیندوں پر 220 رنز کی ناقابل شکست اننگ کھیلی جس میں 16 چھکے اور 10 چوکے شامل تھے۔ اس کے ساتھ ہی نوجوان کھلاڑی کسی بھی فارمیٹ میں ایک ہی اوور میں 43 رنز بنانے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی بھی بن گئے ہیں۔

     

    یاد رہے کہ 25 سالہ رتو راج گائیکواڈ بھارتی قومی اسکواڈ کا بھی حصہ رہے ہیں اور وہ اب تک ایک ون ڈے اور ایک ٹی 20 انٹرنیشنل میچ کھیل چکے ہیں جب کہ انڈین پریمیئر لیگ میں وہ چنائی سپر کنگ کی نمائندگی کرتے ہیں۔

  • عمران خان نے سرپرائز دے دیا، کیا نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

    عمران خان نے سرپرائز دے دیا، کیا نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

    پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے پنڈی میں بڑے پاور شو میں تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا بڑا اعلان کیا جو سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں‌ حیران و

    پریشان ہیں۔

    عمران خان نے ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے اکتوبر کے آخر میں لاہور سے حقیقی آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کیا تھا تاہم لانگ مارچ کے آغاز کے چند روز بعد ہی وزیر آباد کے ایک مقام پر قاتلانہ حملے میں ان کے زخمی ہونے کے بعد یہ لانگ مارچ مؤخر کردیا گیا۔ پھر پروگرام کو تبدیل کرتے ہوئے لانگ مارچ کے دوسرے مرحلے میں اسے دو مختلف مقامات سے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی زیر قیادت آگے بڑھایا گیا جس کے شرکا سے عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرکے ان کے جذبے کو ممہیز کرتے رہے۔

    نومبر شروع ہوا تو شہر اقتدار سمیت ملک بھر میں نظریں پاکستان میں دو اہم تعیناتیوں اور عمران خان کے لانگ مارچ پر لگی ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا تھا چہ می گوئیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں اور غیر یقینی کی فضا اور صورت حال گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ ان معاملات بالخصوص فوج میں کمان کی تبدیلی اور افسران کی ترقی کا معاملہ جس طرح میڈیا پر اٹھایا جا رہا تھا اس سے ایسا لگنے لگا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور باقی عوامی مسائل حل ہوچکے ہیں۔

    اسی بے یقینی کی فضا میں عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان اور وہاں آکر سب کو سرپرائز دینے کا اعلان کیا۔ ایسے وقت میں جب آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تقرری کا معاملہ ملک کے سیاسی افق پر چھایا ہوا تھا تو لوگوں کی اکثریت نے اس سرپرائز دینے کے اعلان کو بھی اسی تناظر میں‌ دیکھا جب کہ 24 نومبر کو فوج میں‌ تقرری کے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادیوں سے طویل مشاورت کے بعد لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا اور سمری منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجی۔ اس موقع پر صدر مملکت کے اچانک لاہور جانے اور عمران خان سے ملاقات نے افواہوں اور بے یقینی کو تقویت بخشی تاہم ملاقات کے بعد صدر کی جانب سے سمریوں پر دستخط سے تمام افواہوں نے دم توڑ دیا اور پھر سب کی نظریں عمران خان کے لانگ مارچ کی جانب مبذول ہوگئیں۔

    اگر مگر، دہشتگردی کے خدشات و خطرات، پی ٹی آئی کی سیاسی چالوں اور حکومتی دعوؤں اور لانگ مارچ کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کے باوجود عمران خان 26 نومبر کی شام پنڈی پہنچ گئے جہاں عوام ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    پنڈی میں جتنا بڑا جلسہ تھا اتنا ہی طویل خطاب بھی تھا۔ عمران خان نے ایک گھنٹے سے زائد خطاب کیا جس میں حسب سابق اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ساتھ ہی اپنی حکومت کے حاصل کردہ اہداف اور موجودہ حکومت کی معاشی ناکامیوں کے اعداد وشمار عوام کے سامنے پیش کیے۔ یہ سب اعداد و شمار لوگوں کے لیے نئے نہیں تھے لیکن ان کے خطاب کے آخری چند منٹ ہی انتہائی اہم تھے جس میں انہوں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ بدلتے ہوئے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

    عمران خان کے اس سرپرائز اعلان نے صرف مخالف پی ڈی ایم حکومت ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں کے ساتھ اپنے سخت ناقد صحافیوں کو بھی حیران کردیا اور تجزیہ کار یہ کہتے نظر آئے کہ عمران خان نے سیاسی چال سے حکومت کو بیک فٹ پر کر دیا ہے اور حکومت جو کئی ماہ سے نئے الیکشن کے مطالبے پر ان سے پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں توڑنے کا مطالبہ کرتی تھی اب عمران خان کے اعلان نے اسے امتحان میں ڈال دیا ہے۔

    عمران خان کے اس اعلان کے بعد حکومتی نمائندوں کے بیانات اور باڈی لینگویج سے ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت کو پنڈی اجتماع میں ایسے کسی اعلان کی توقع نہیں تھی بلکہ سابق وزیراعظم کے پنڈی پہنچنے سے ایک دن قبل تک سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش میں تھیں کہ عمران خان پنڈی میں جلسہ کرکے واپس چلے جائیں گے اور آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی میں بھی واپس آجائیں گے جہاں تین فریق آئندہ الیکشن پر مذاکرات کریں گے لیکن بجائے اسمبلی واپس جانے کے پنجاب، کے پی اور گلگت بلتستان اسمبلیوں سے نکلنا یا دوسرے معنوں میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ اپنی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد اس بارے میں جلد تاریخ کا اعلان کریں گے۔

    حکومت کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کا اندازہ حکومتی نمائندوں کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ بلاول بھٹو، رانا ثنا اللہ و دیگر حکومتی وزرا کی جانب ایک بڑے عوامی جلسے کو فلاپ شو قرار دینا اسی پریشانی کی ایک جھلک لگتی ہے۔ ایک جانب رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی والے اسمبلیوں سے باہر جائیں گے تو ضمنی الیکشن کرا دیے جائیں گے جس کی توثیق بعد ازاں الیکشن کمیشن نے بھی کر دی اور ادارے کے باخبر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل استعفے ہوئے تو ضمنی الیکشن ہوں گے کیونکہ آئین کے مطابق نصف اسمبلی بھی خالی ہو تو ضمنی انتخاب ہوگا اور 2 نشستیں بھی اسمبلی میں ہوں تو اسمبلی بحال رہتی ہے۔

    آئین کی شق اپنی جگہ لیکن اگر پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں ہی تحلیل ہو جاتی ہیں یعنی نصف سے زائد پاکستان میں کوئی منتخب ادارے نہیں رہتے تو کیا پھر بھی حکومت کا یہی مؤقف رہے گا کیونکہ ملک بھر کے منتخب نمائندوں کے مجموعی فورم کا 50 فیصد سے زائد حصہ پی ٹی آئی ہے۔ اگر تحریک انصاف کے استعفوں سے ملک کا 50 فیصد حصہ منتخب نمائندوں سے محروم ہوگا تو کیا اتنی زیادہ نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانا ممکن رہے گا؟ اگر کرانے کی کوشش کی تو کروڑوں روپے خرچ ہوں گے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب آئین کے مطابق اسمبلیوں کی مدت میں صرف چند ماہ ہی باقی رہ جائیں گے۔

    پی ٹی آئی کے پی اور گلگت بلتستان میں بلا شرکت غیرے اقتدار میں ہے تاہم پنجاب کا معاملہ مختلف ہے جہاں اکثریتی پارٹی بے شک پی ٹی آئی ہے لیکن حکومت ق لیگ کے چوہدری پرویز الہٰی کی ہے۔ عمران خان کے اعلان کے فوری بعد اس حوالے سے چہ می گوئیاں بھی ہوئیں تاہم مونس الہٰی نے اس پر مثبت ردعمل دے کر ان کا فوری گلا گھونٹ دیا اور اپنے ٹوئٹ میں واضح کر دیا کہ ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں عمران خان کا اشارہ ملتے ہی پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔

    ماہر قانون کی اکثریت بھی اس بات پر متفق ہے کہ اگر عمران خان اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہیں اور پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں اس کے ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے بھی پی ٹی آئی ایم پی ایز مستعفی ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑا سیاسی بحران ہوگا۔ اس صورت میں یہ بحران صرف ضمنی الیکشن سے ختم نہیں ہوگا بلکہ لامحالہ نئے عام انتخابات کی طرف جانا پڑے گا۔

    پاکستان میں قومی اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 859 نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی کی 123 نشستیں پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کے باعث خالی ہیں۔ اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی نہ ہوں تو پی ٹی آئی ایم پی ایز کے استعفوں سے پنجاب کی 297 نشستیں، کے پی کی 115، سندھ کی 26 اور بلوچستان کی 7 نشستیں خالی ہوں گی جو مجموعی طور پر 567 ہوں گی۔

    صرف مریم نواز اور ن لیگ کے دیگر رہنما ہی نہیں بلکہ پی پی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی اس سے قبل کئی بار عمران خان کے نئے الیکشن کے مطالبے پر کہتے تھے کہ وہ پہلے اپنی صوبائی حکومتیں توڑیں تو قومی اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن کرا دیں گے۔ عمران خان کا یہ ماسٹر اسٹروک بھی حکومت کے لیے امتحان بن گیا ہے۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نے اپنے پتوں کو بروقت کھیل کر سیاست کے میدان کا شاطر کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا ہے تاہم اسمبلیوں سے نکنے کے اعلان پر فوری عمل کرنے کے بجائے پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کے اعلان نے اس پر سوالات بھی اٹھا دیے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ عمران خان کا یہ اعلان اپنے سامنے موجود قوتوں اور مخالفین کو نئے الیکشن کے لیے سنجیدہ اور فیصلہ کن مذاکرات کے لیے سوچنے کا وقت دینے کی ایک اور کوشش ہے۔

    اگر پی ڈی ایم حکومتی آپشنز کی جانب نظر دوڑائیں تو اس کے پاس اس بحران سے بچنے کے لیے صرف تین آپشنز بچتے ہیں۔ ایک یہ کہ فوری طور پر پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے جو کہ کے پی میں تو یقینی ناکام ہوگی جب کہ پنجاب کے بارے میں ابھی کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی اور یہی سب سے بڑا بونس پوائنٹ ہوسکتا ہے۔ اگر دونوں جگہوں پر تحریک عدم اعتماد ناکام رہتی ہیں تو وفاقی حکومت گورنر راج جیسا آپشن بھی استعمال کرسکتی ہے اس کے علاوہ اس کے پاس خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کی چوائس بھی ہے۔

    عمران خان نے ایک پر ایک سیاسی چال چلتے ہوئے تُرپ کا پتہ بھی پھینک دیا ہے۔ اگر اس پر سنجیدہ مذاکرات کے بجائے وفاقی حکومت بحران سے نمٹنے کے لیے مذکورہ بندوبست کرتی ہے تو یہ عارضی ہی ثابت ہوں گے۔ ملک پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار اور ماہرین معیشت کے مطابق ڈیفالٹ کی دہلیز پر کھڑا ہے ایسے میں سیاسی بحران سے نمٹنے اور اپنے چند ماہ کے باقی اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی عارضی اقدام سیاسی تناؤ کو مزید ہوا دے کر بحران کے شعلوں کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔

    عمران خان نے یہ اعلان کرکے وفاقی حکومت کو نئے انتخابات پر مذاکرات کے لیے راستہ دے دیا ہے۔ صائب مشورہ یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کر وہ فیصلے کریں کہ جس سے ملک میں جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔ معاشی استحکام آئے اور غریب عوام کی زندگی بہتر ہوسکے۔ اس کے لیے چند ماہ قبل سہی نئے الیکشن کا اعلان کر دینے میں‌ کوئی مضائقہ نہیں اور تاکہ نئی منتخب حکومت پورے اعتماد سے ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کرسکے۔

  • فیفا ورلڈ کپ: عربی زبان میں خوبصورت کمنٹری، ’’اللہ اللہ‘‘ کا ورد، ویڈیو وائرل

    فیفا ورلڈ کپ: عربی زبان میں خوبصورت کمنٹری، ’’اللہ اللہ‘‘ کا ورد، ویڈیو وائرل

    فیفا ورلڈ کپ میں گزشتہ روز ارجنٹینا اور سعودی عرب میچ کے دوران عربی زبان میں خوبصورت کمنٹری کی ویڈیو نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے۔

    قطر میں جاری دنیا کے سب سے مقبول کھیل فٹبال کے ورلڈ کپ میں گزشتہ روز سعودی عرب نے ٹورنامنٹ فیورٹ ارجنٹینا کو اپ سیٹ شکست دے کر تاریخی فتح حاصل کی جس کے بعد اس میچ کی عربی میں ہونے والی خوش الہان کمنٹری سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور صارفین کو کمنٹیٹر کے جوش نے دیوانہ بنا دیا۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وائرل اس ویڈیو میں دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ میچ کے سنسنی خیز لمحات میں جب سعودی کھلاڑی گول پوسٹ کے قریب ارجنٹائن پر حاوی ہوتے ہیں تو عربی زبان میں کمنٹری کرنے والے کمنٹیٹرز کا جوش بھی کھلاڑیوں کی حرکت کے ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے۔

    ایک موقع پر فٹبال سعودی کھلاڑی کے پاس سے نکل جاتی ہے تو پرجوش کمنٹیٹر کی آواز میں دھیما پن آتا ہے لیکن جیسے ہی دوبارہ گیند سعودی کھلاڑی کے پاس آتی ہے تو کمنٹیٹر کے جوش و جذبے میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور جیسے ہی گول ہوتا ہے تو کمنٹیٹر والہانہ انداز میں کئی بار اللہ، اللہ، اللہ کے متبرک نام کا ورد کرتا ہے اور اس آواز سے اسٹیڈیم گونج اٹھتا ہے۔

    ارجنٹینا کے خلاف گول اسکور کرنے پر کمنٹیٹر کی عرب زبان میں کمنٹری کو صارفین کی جانب سے خوب پسند کیا جارہا ہے جب کہ دنیا بھر کے میڈیا نے بھی اسے سرخیوں میں جگہ دی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز کھیلے گئے میچ میں سعودی عرب نے ارجنٹینا کو ایک مقابلے میں دو گولز سے ہرادیا تھا۔ اس تاریخی فتح پر میچ کے بعد سعودی کھلاڑیوں کی میدان میں سجدہ ریز ہونے کی تصاویر بھی وائرل ہوئی تھیں جبکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی میچ دیکھنے کی تصاویر اور بارگاہ الہٰی میں سجدہ شکر کی تصاویر نے میڈیا میں خوب جگہ سمیٹی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں: فٹبال ورلڈ کپ، ٹرافی کی تاریخ، ساخت اور قیمت جان کر حیران رہ جائیں

    فٹبال ورلڈ کپ کی 88 سالہ تاریخ میں پہلی بار کھیلوں کے اس عالمی میلے میں اسلامی رنگ نمایاں ہے۔ افتتاحی تقریب میں قرآن پاک کی تلاوت، نماز کے لیے افتتاحی تقریب روکنا، غیر اسلامی لباس پہننے اور شراب پر پابندی جیسے اقدامات نمایاں ہیں۔

  • تصویر میں کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے، کیا آپ بھی اسے دیکھ سکتے ہیں؟

    تصویر میں کوئی آپ کو دیکھ رہا ہے، کیا آپ بھی اسے دیکھ سکتے ہیں؟

    روسی مصور کی کلاسک پینٹنگ آپ کے سامنے ہے۔ آپ کو دھوکے میں ڈالتی تصویر میں ایک آدمی بھی موجود ہے جس کا چہرہ 5 سیکنڈ میں تلاش کرنا ہے۔

    بصری وہم مختلف اقسام کا ہوتا ہے جیسے کہ لغوی، جسمانی یا علمی سطح پر دھوکا یعنی جو نظر آئے وہ حقیقت نہیں ہوتا سچائی جاننے کے لیے بعض اوقات پس منظر کو بہت گہرائی سے جاننا پڑتا ہے اور ہماری آج کی پہیلی بھی ایسی ہی ہے کہ جو نمایاں ہے حقیقت میں وہ پس منظر اور جو پس منظر ہے وہی تصویر کی حقیقت ہے۔

    یہ نادر اور نایاب پینٹنگ روسی مصور ایگور لیسینکو کی ونٹیج پینٹنگ ہے، جو حقیقت پسندانہ فن کے ماہر تھے۔ تصویر کو دیکھیں تو پہلی نظر میں آپ کو ایک خوبصورت وادی میں پیلے لباس میں خاتون درخت کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی۔

    سبز، دھانی، پیلے اور نیلے رنگ کے امتزاج سے یہ تصویر آنکھوں کو ایک لطیف احساس بخش رہی ہے لیکن اس وقت ہم کہیں کہ دل و دماغ کو پرسکون کرتی اس تصویر کی حقیقت یہ نہیں بلکہ کچھ اور ہے تو پرسکون دماغ الجھنے لگے لگا۔

    اگر آپ کا دماغ الجھ رہا ہے تو اسے دوبارہ پرسکون اور پرلطف کرنے کے لیے نظروں کو دھوکا دیتی اس تصویر کی حقیقت جاننے کے کھیل کا حصہ بنیں اور 5 سیکنڈ میں ایک آدمی کا چہرہ تلاش کریں۔

    Jagranjosh

    تصویر کو غور سے ہر زاویے کے ساتھ پرکھیں تو ایک آدمی کا چہری اس کلاسک پینٹنگ میں ہی چھپا ہوا ہے۔ آپ ایک باصلاحیت ہیں تو صرف آپ 5 سیکنڈ میں چھپے ہوئے آدمی کے چہرے کو دیکھ سکتے ہیں۔

    مان لیں کہ مصوری کے شاہکاروں میں سے یہ ایک شاہکار آپ کی ذہانت اور مشاہدے کی مہارت کو چیلنج کر رہی ہے۔

    وقت ختم ہوگیا۔ آپ میں سے کتنے لوگوں کو اس آدمی کا چہرہ ملا؟

    اگر آپ چہرہ تلاش نہیں کرسکے تو اسکرول کریں نیچے آپ کا مطلوبہ جواب ہے لیکن جواب دیکھ کر آپ کے ذہن میں سب سے پہلے جو بات آئے گی وہ یقیناً یہی ہوگی کہ ’’میں تصویر میں چھپا آدمی کا چہرہ نہیں دیکھ رہا تھا لیکن وہ مجھے دیکھ رہا تھا‘‘۔

    Jagranjosh

    اگر آپ تصویر یا موبائل کو الٹا گھمائیں تو آدمی کا چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی آپ تصویر کو گھماتے ہیں تو آپ کا زاویہ نظر بدلتا ہے اور دلفریب منظر اور پیلے لباس میں نظر آتی عورت پر مبنی پینٹنگ فوری طور پر ایک مرد کے چہرے میں بدل جاتی ہے۔

    تو کیسا رہا آج نظروں کا دھوکا؟ کتنے لوگ سرخرو ہوئے اور کتنے اسی دھوکے کا شکار رہے؟ کمنٹس سیکشن میں ضرور جواب دیں۔

  • نادرا کی لاپروائی، نوجوان نے عدالت کا رُخ کرلیا

    نادرا کی لاپروائی، نوجوان نے عدالت کا رُخ کرلیا

    نادرا نے کراچی کے ایک شہری کے ریکارڈ پر دو نام درج کردیے ہیں ریکارڈ کی درستگی کیلیے نادرا دفتر کے چکر لگا کر جوتیاں گھسانے کے بعد متاثرہ شخص عدالت پہنچ گیا۔

    نادرا حکام کے کارنامے آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں نیا کارنامہ یہ ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے کراچی کے ایک یتیم نوجوان کے ریکارڈ پر دو نام مختلف نام درج کردیے ہیں جس کی درستگی کے لیے وہ کئی ماہ سے نادرا دفاتر کے چکر کاٹ رہا تھا شنوائی نہ ہونے پر اس نے عدالت کا رُخ کرلیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق نادرا کی غیر ذمے داری کا شکار کراچی کا نوجوان شہری ہے اور سرکاری ریکارڈ میں نام کی تصیح اس یتیم نوجوان کے لیے درد سر بن گئی۔ ایف آر سی میں نانی کے نام کی تصیح میں 8 ماہ میں بھی نہ ہوسکی ہے۔

    متاثرہ نوجوان نے اپنی شکایت کے ازالے کے لیے متعلقہ دفتر کے چکر کاٹ کاٹ کر چپلیں گھسانے کے باوجود ناکامی کے بعد سرکاری ریکارڈ میں اپنے نام کی تصیح کے لیے عدالت سے رجوع کیا جس پر کراچی کی سول عدالت نے نادرا حکام کو درخواست گزار کی نام کی تصیح کا حکم دیا ہے۔

    متاثرہ نوجوان کی جانب سے سول کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ نادرا حکام نے ایف آر سی میں انگریزی میں حاجرہ بیگم اور اردو میں صفیہ لکھ دیا۔ نادرا حکام سے متعدد بار رابطے اور دفاتر کے چکر کاٹنے کے باوجود نام کی تصیح نہیں ہوئی۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نادرا کی چھوٹی سی غلطی سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نادرا حکام اپنی ٹائپنگ کی غلطی ماننے کے بجائے اس کے موکل کو بھی چکر لگواتے رہے لیکن درستگی نہیں کی گئی۔ نام کی غلطی کی بنا پرمستقبل میں قانونی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    سول جج نے نادرا حکام کو نوجوان کا ریکارڈ درست کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔

  • چٹانی زمین پر’’چیتا‘‘ کہاں چھپا ہوا ہے؟ دھوکا دیتی حقیقی تصویر

    چٹانی زمین پر’’چیتا‘‘ کہاں چھپا ہوا ہے؟ دھوکا دیتی حقیقی تصویر

    اس بار آپ کے سامنے ایک چٹانی ناہموار زمین کی تصویر ہے جس میں چھپے چیتے کو تلاش کرنا ہی آج کا چیلنج ہے تو کون ہے جو یہ چیلنج قبول کرے گا۔

    کچھ تصویری مناظر آنکھوں کو تسکین بخشتے اور دل کو لبھاتے ہیں لیکن کچھ تصویریں دل و دماغ کو الجھن میں مبتلا کردیتی ہیں۔ نظروں کو دھوکا دینے والی تصویریں ہی آج کل انٹرنیٹ پر بہت مقبول ہیں اور روزانہ نت نئی تصویریں سامنے آکر آپ کی بصارت اور مشاہدے کی صلاحتیوں کو نیا چیلنج دیتی ہیں اور یہ چیلنج ہی نوجوان طبقے میں تصویری پہیلیوں کو مقبول بنا رہا ہے۔

    آپ کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے آج ہم ایک اور نئی تصویری پہیلی آپ کے لیے لائے ہیں۔ جو مصنوعی طور پر نہیں بنائی گئی بلکہ حقیقی منظر ہے جس کو ایک نوجوان نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا۔ اگر کوئی اب تک اس کھیل کا حصہ نہیں بنا ہے تو اس چلینج کو قبول کرکے اپنے مشاہدے کی صلاحیتوں سے روشناس ہوسکتا ہے۔

    یہ تصویر بظاہر دیکھنے میں ایک چٹانی اور ناہموار زمینی میدان کی تصویر ہے جس میں کچھ خشک گھاس پھوس اگی نظر آ رہی ہے، لیکن نظروں کو دھوکا دیتی حقیقت ہے اور اس میں ایک چیتا بھی چھپا ہے جو پہلی نظر میں کسی کو بھی نظر نہیں آتا لیکن جس کی نظریں عقاب کی طرح تیز ہیں وہ یہ چیلنج صرف 10 سیکنڈ میں پورا کرسکتے ہیں۔

    اس تصویر کو بھارتی فوٹوگرافر سدھیر شیو رام نے اس وقت کیمرے کی آنکھ میں قید کیا تھا جب وہ راجھستان کے ایک چھوٹے قصبے بیرا سے گزر رہا تھا۔

    یہ چیلنج پورا کرنے کی صرف ایک ہی شرط ہے کہ 10 سیکنڈ میں چیتا ڈھونڈنا ہے اور یہ ایسا مشکل بھی نہیں اگر آپ پورا فوکس تصویر پر کریں۔ نظروں اور دماغ میں تال میل پیدا کریں تو آسانی سے تلاش کرلیا جائے گا۔

    اگر آپ تیار ہیں تو تصویر دوبارہ دیکھیں اور اس کے بعد آپ کا وقت شروع ہوتا ہے یاد رہے کہ صرف 10 سیکنڈ ہیں اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ چیتا اپنی قدرتی رنگت کے باعث چٹانوں میں گھل مل سا گیا ہے۔

    آپ 10 سیکنڈ سے جتنے کم وقت میں چیتے کو تلاش کرلیں گے وہ ثابت کرے گا کہ آپ کے نظر اور مشاہدے کی صلاحیتی کتنی تیز ہیں۔

    10
    9
    8
    7
    5
    4
    3
    2
    1

    آپ کا وقت ختم ہوا۔

    اس کھیل کا حصہ بننے والے کتنے افراد چیتے کو تلاش کرنے میں کامیاب رہے؟ کمنٹس سیکشن میں ضرور بتائیں۔

    جو لوگ چیتے کو تلاش نہیں کرسکے وہ بھی پریشان نہ ہوں اور اس نوعیت کی دیگر پہیلیوں کو بوجھتے رہیں تو آپ بھی اس میں مہارت حاصل کرلیں گے۔ اب صرف اسکرول کرکے اپنی آنکھوں سے چٹانوں میں چھپے چیتے کو دیکھ لیں۔

    Jagranjosh

    چیتے کو چٹانوں پر آرام کرتے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کا چٹانوں نے بہت مشابہہ رنگ اس خطرناک جانور کو انسانی نظروں سے اوجھل رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

  • ورلڈ کپ:جیت کے جنون اور فتح کی لگن سے  قومی ٹیم نے شکست کو مات دے دی

    ورلڈ کپ:جیت کے جنون اور فتح کی لگن سے قومی ٹیم نے شکست کو مات دے دی

    پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل جیت کر اس تاریخی فتح کی یاد تازہ نہیں کرسکی جس کا جشن قوم نے آج سے تیس سال قبل منایا تھا، لیکن ٹیم نے جس شان سے اس ٹورنامنٹ کا اختتام کیا، اس نے کروڑوں پاکستانیوں اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کے دل جیت لیے ہیں۔

    آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستانی ٹیم کے سامنے انگلینڈ کے کھلاڑی تھے اور ان کی ٹیم ورلڈ کپ کی فاتح بنی، لیکن ٹورنامنٹ کے فائنل سے قبل پاکستان جس طرح کھیلا اور سیمی فائنل تک پہنچا، اس نے دنیا بھر میں شائقینِ کرکٹ کو 1992ءکے ون ڈے ورلڈ کپ کی یاد دلا دی۔ اس ون ڈے اور حالیہ ٹورنامنٹ میں مماثلت ایک دل چسپ موضوع بن گیا اور ہر طرف اس پر بات ہونے لگی۔ پھر جب سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ٹاکرا ہوا تو قومی ٹیم کی کام یابی سے ان میچوں میں مماثلت کی باتوں کو مزید تقویت ملی۔ دوسرے روز جب انگلینڈ نے آسان فتح کے ساتھ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو پاکستانی شائقین کی توقعات اور ان کی خوش امیدی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    اتوار کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل بھی اسی میدان میں‌ کھیلا گیا جس میں‌ 1992ء میں پاکستان نے فتح حاصل کی تھی بلکہ حریف ٹیم بھی اسی ملک کی تھی جس کا سامنا پاکستانی کھلاڑیوں نے 30 سال پہلے کیا تھا۔ یعنی میلبرن میں ایک بار پھر پاکستان اور انگلینڈ آمنے سامنے تھے۔ قوم توقع کررہی تھی کہ جس طرح 1992ء میں عمران خان نے انگلینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھامی تھی، اسی طرح بابر اعظم بھی ٹرافی لے کر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ شاداں و فرحاں وطن لوٹیں گے۔

    میدان میں اترنے سے قبل قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پوری ٹیم میدان میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور تاریخ دہرانے کی کوشش کرے گی۔ پاکستانی ٹیم کی یہ کوشش نظر بھی آئی، لیکن قسمت میں فتح نہیں لکھی تھی۔ انگلینڈ کے ہاتھوں شکست سے پاکستانی شائقین کے دل ضرور ٹوٹے ہیں لیکن سب نے دیکھا کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے حریف ٹیم کا خوب مقابلہ کیا اور شکست کے باوجود سَر اٹھا کر میدان سے باہر آئے۔

    اس میچ میں‌ ٹاس جیت کر انگلینڈ نے پاکستان کو بیٹنگ کا موقع دیا تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل سمیت سپر 12 مرحلے میں جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف بیٹنگ اور کپتان بابر اعظم کی فارم میں واپسی کو مدنظر رکھتے ہوئے شائقینِ کرکٹ کو قومی ٹیم سے اچھے اسکور کی امید تھی لیکن انھیں مایوسی ہوئی۔ پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کو جیت کے لیے 138 رنز کا ہدف دیا جو مختصر طرز کے اس تیز ترین کرکٹ فارمیٹ میں قابلِ‌ ذکر ہدف نہیں تھا۔ بلّے بازوں کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بلّے باز نصف سنچری نہ بنا سکا اور نہ ہی کوئی 50 رنز کی پارٹنر شپ ہوسکی۔ رہی سہی کسر بیٹسمینوں نے 48 ڈاٹ بالز کھیل کر پورا کر دی۔ دوسرے لفظوں میں 8 اووروں میں گرین شرٹس کوئی رن نہ بنا پائی۔ بیٹنگ میں شاہینوں کی یہ کارکردگی اور انگلینڈ کے اوپننگ بلّے بازوں کی بھارت کے خلاف طوفانی بیٹنگ دیکھتے ہوئے فائنل میں شائقینِ کرکٹ ناامید ہو چلے تھے اور دوسری اننگ سے قبل یہ یکطرفہ مقابلہ لگ رہا تھا لیکن پاکستانی بولروں نے اس موقع پر دنیائے کرکٹ میں اپنی صلاحیتیوں کا بہترین مظاہرہ کیا اور اپنا نام اونچا کیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    پاکستانی بولروں نے 138 رنز کے آسان ہدف کا حصول انگلینڈ کے بلّے بازوں کے لیے ناکوں چنے چبوانے کے مترادف بنا دیا۔ انگلش اوپنرز جوز بٹلر اور ایلکس ہیلز جنھوں نے سیمی فائنل میں بھارتی بولروں کی خوب دھنائی کی تھی انھیں ابتدا ہی میں پویلین لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ ایک موقع پر 84 رنز پر انگلینڈ کے 4 باصلاحیت بلّے باز آؤٹ ہوچکے تھے اور انگلش ٹیم کے لیے رنز کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔ پھر قسمت نے انگلینڈ کا ساتھ اس طرح دیا کہ پاکستانی بولر شاہین شاہ آفریدی زخمی ہو کر میدان سے باہر ہوگئے۔ ان کے جانے سے جہاں قومی ٹیم کو دھچکا لگا وہیں انگلش بلّے بازوں کی جان میں جان آئی کیوں کہ ابھی ان کے دو اوورز باقی تھے۔

    شاہین شاہ آفریدی کا زخمی ہونا میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ کیوں کہ ان کی میدان میں موجودگی کے وقت فتح کے لیے انگلش ٹیم کو 30 گیندوں پر 48 رنز درکار تھے لیکن شاہین شاہ میدان سے کیا لوٹے پاکستان کی تمام امیدوں اور خوشیوں نے بھی منہ موڑ لیا اور بظاہر ایک مشکل ہدف کو انگلش بلّے بازوں نے ایک اوور قبل ہی حاصل کرلیا۔

    شکست کے باوجود پوری قوم اور ہمارے سابق کھلاڑیوں سمیت دنیا کے مشہور کرکٹروں نے پاکستانی بولروں کی کارکردگی کو سراہا ہے اور اسے کھیل کی دنیا کا سب سے خطرناک بولنگ اٹیک قرار دیا ہے۔

    اگر ہم آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کے پورے ٹورنامنٹ میں گرین شرٹس کے سفر پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر سفر شروع کیا۔ سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہارا ساتھ ہی اگلے میچ میں کمزور زمبابوے سے غیرمتوقع شکست کا زخم سہنا پڑا۔ اس اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کردیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔

    ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا لیکن اسی فضا میں قومی ٹیم نے اپنی محنت اور دعاؤں کی بدولت ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور بلاشبہ پوری ٹیم کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے۔

    ٹورنامنٹ اب ختم ہوچکا ہے۔ ٹرافی نہ جیتنے کا دکھ اپنی جگہ لیکن یہ کم نہیں کہ ہماری ٹیم دنیا کی 16 ٹاپ کرکٹ ٹیموں میں سے دوسری بہترین ٹیم ہے جس نے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ جہاں لوگ قومی ٹیم کی ستائش کر رہے ہیں وہیں ٹیم کے کپتان اور کھلاڑیوں کے لیے وہی آوازیں دوبارہ بلند ہونے لگی ہیں جو سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے سے قبل سنائی دے رہی تھیں۔

    دیکھنا چاہیے کہ فتح اور شکست کی نوعیت کیا ہے۔ شرم ناک شکست وہ ہوتی ہے جہاں سپاہی لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیں لیکن جہاں مقابلہ برابر کا ہو وہاں فتح و شکست نہیں جذبہ دیکھا جاتا ہے اور اس ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم آخری لمحے تک جیت کے لیے جان لڑاتی نظر آئی۔

    اس ٹورنامنٹ سے ہمیں محمد حارث جیسا جارح مزاج بلّے باز ملا جس نے جنوبی افریقہ کے اہم میچ میں فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ہی کے ہم نام حارث رؤف اپنی ایک شناخت بنائی اور امید ہے کہ جس طرح 1992ء کے ورلڈ کپ میں نو آموز انضام الحق، مشتاق احمد، عامر سہیل بعد میں پاکستانی کرکٹ کے اہم ستون رہے، اسی طرح آج کے نو آموز کھلاڑی بھی وقت کی بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ بلاجواز تنقید کے بجائے تعمیری رویّہ اپناتے ہوئے ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور کمزوریوں کودور کرنے کی بات کی جائے۔

    سب سے پہلے تو قومی ٹیم کو بیٹنگ لائن پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں‌ ایسے بہترین بلّے بازوں کی ضرورت ہے جو مستقل مزاجی سے پاکستان کے لیے رنز اسکور کریں۔ اس وقت بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی ایسا بلّے باز قومی ٹیم میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح ڈاٹ بال کھیلنے کی عادت ترک کرنا ہوگی۔ یہ اعتراف تو کپتان بابر اعظم بھی کرچکے ہیں کہ ہم نے فائنل میں بہت ڈاٹ بالز کھیلیں اور 20 رنز کم بنائے۔

    ہماری ٹیم میں اس وقت شاداب خان کے علاوہ کوئی مستند آل راؤنڈر نہیں ہے۔ ہماری ٹیم کو ایسے مزید آل راؤنڈرز کی ضرورت ہے جو کسی بھی پوزیشن پر پاکستان کے لیے اچھی پرفارمنس دے سکیں۔ اکھاڑ پچھاڑ اور غیر ضروری تبدیلیوں کے بجائے ٹیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشش کرنا ہو گی، کیوں کہ آئندہ سال پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کرنی ہے۔ ایشیا کپ کے بعد اگلا بڑا مقابلہ ون ڈے ورلڈ کپ ہوگا جو بھارت میں کھیلا جائے گا اور اس کے لیے ابھی سے سوچنا ہوگا۔

  • خوبصورت گاؤں برائے فروخت، وہ بھی صرف 2 کروڑ روپے میں

    خوبصورت گاؤں برائے فروخت، وہ بھی صرف 2 کروڑ روپے میں

    دنیا بھر میں زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہے لیکن اسی خطہ زمین پر ایک ایسا خوبصورت گاؤں بھی ہے جو صرف 2.1 کروڑ روپے میں برائے فروخت ہے۔

    انسان نے جب سے گھر بسانا اور زمین پر کھیتی اگانا شروع کی ہے تب سے ہی زمین کی ملکیت اس کا خواب رہی ہے۔ فی زمانہ پراپرٹی میں سرمایہ کاری سب سے محفوظ سرمایہ کاری سمجھی جاتی ہے۔ زمین کی بڑھتی طلب نے دنیا بھر میں پراپرٹی کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا ہے اور ہزار گز کا بنگلہ بھی دو کروڑ میں ملنا مشکل ہے لیکن اسی خطہ زمین پر ایک گاؤں ایسا بھی ہے جو صرف 2.1 کروڑ روپے میں آپ کی ملکیت بن سکتا ہے۔

    یہ خوبصورت گاؤں اسپین کے سالٹو ڈی کاسترو صوبہ زمورا میں پرتگال کی سرحد کے قریب واقع ہے جو میڈرڈ اور اسپین سے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے۔ یہ 30 سال سے زائد عرصے سے غیر آباد ہے اور اب صرف 2.1 کروڑ روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ گاؤں پر فضا مقام پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے جہاں سے Arribes del Duero قدرتی پارک کا خوبصورت نظارہ ہوتا ہے۔ اس گاؤں میں 44 گھر، ایک ہوٹل، ایک چرچ، ایک اسکول، میونسپل سوئمنگ پول اور ایک بیرک کی عمارت شامل ہے۔

    مذکورہ گاؤں کو 1950 کی دہائی میں ایک بجلی پیدا کرنے والی کمپنی نے تعمیر کیا تھا جس کا مقصد ڈیم کے قریب مزدوروں کے خاندانوں کو رہائش فراہم کرنا تھا۔ تاہم 1980 کی دہائی میں اسے مکمل طور پر خالی کر دیا گیا تھا۔

    گاؤں کی مالک کمپنی رائل انویسٹمٹ کے نمائندے رونی روڈریگس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس گاؤں کے مالک کا یہاں ہوٹل بنانے کا خواب تھا جو بوجہ پورا نہ ہوسکا۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل سکاٹ لینڈ کا ایک پورا جزیرہ 3 کروڑ روپے میں فروخت ہوا تھا جو 28 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔