Author: ریحان خان

  • ٹی 20 ورلڈ کپ فائنل، انگلینڈ کا ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ

    ٹی 20 ورلڈ کپ فائنل، انگلینڈ کا ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ

    میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا ہے۔

    فائنل میچ کے لیے دونوں ٹیموں نے کوئی تبدیلی نہیں کی ہے اور اپنے سیمی فائنلز کے فاتح اسکواڈز کو برقرار رکھا ہے۔

    ٹاس کے بعد انگلش کپتان جوز بٹلر نے کہا کہ ورلڈ کپ کا فائنل ہمارے لیے مشکل چیلنج ہے اور آج کے لیے ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

    قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے کہا کہ ہم ٹاس جیتتے تو پہلے بولنگ ہی کرتے، مومینٹم اچھا ہے جس کی وجہ سے فائنل میں پہنچے، کوشش کریں گے کہ انگلینڈ کو بڑا ہدف دیں، امید ہے تاریخ خود کو دہرائے گی۔

    فائنل کے لیے پاکستانی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، اسکواڈ میں کپتان بابر اعظم، محمد رضوان، شان مسعود، محمد حارث، افتخار احمد، شاداب خان، محمد نواز، وسیم جونیئر، شاہین آٖفریدی، حارث رؤف، نسیم شاہ شامل ہیں۔

    خبر اپ ڈیٹ کی جا رہی ہے

  • ٹی 20 ورلڈ کپ: ٹرافی ایک میچ کی دوری پر ، تاریخ خود کو دہرا رہی ہے!

    ٹی 20 ورلڈ کپ: ٹرافی ایک میچ کی دوری پر ، تاریخ خود کو دہرا رہی ہے!

    آسٹریلیا میں کھیلا جانے والا ٹی 20 ورلڈ کپ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس بار کون ورلڈ کپ کی ٹرافی تھامے گا اور کون خالی ہاتھ گھر واپس جائے گا، یہ فیصلہ صرف ایک میچ کی دوری پر ہے۔

    اتوار 13 نومبر کو میلبرن میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے فائنل کا سب کو شدت سے انتظار ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC T20 World Cup (@t20worldcup)

    اگر مگر کی صورتحال میں قوم کی دعاؤں اور پرفارمنس سے پاکستان کی ٹیم ایک بار پھر 1992 کی تاریخ دہرانے کیلیے میلبرن میں اترے گی۔ میدان بھی 30 سال پرانا ہے، ٹیم بھی وہی انگلینڈ کی ہے، قوم کو امیدیں ہیں کہ پاکستانی ٹیم ایک بار پھر پورے ملک اور قوم کا سر فخر سے بلند کرے گی لیکن کرکٹ بائی چانس ہے اور یہ کھیل اتنا غیر متوقع ہے کہ بعض اوقات جب تک آخری گیند نہ پھینک لی جائے تب تک کچھ بھی کہنا مشکل ہوتا ہے جیسا کہ ٹورنامنٹ کے آغاز میں پاکستان اور بھارت کا سنسنی خیز میچ ہوا۔

    آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے ٹورنامنٹ کے دوران اگر مگر کی صورتحال اور کشمکش کی فضا میں جس طرح اپنی محنت اور قوم کی دعاؤں کی بدولت ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور سیمی فائنل میں با آسانی نیوزی لینڈ کو زیر کرکے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ نے بھارت کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے اسے خالی ہاتھ اپنے وطن واپس لوٹنے پر مجبور کردیا۔ یوں بھارت پاکستان کو ٹورنامنٹ سے باہر کرنے کے لیے اپنے بنائے گڑھے میں خود ہی گر گیا ہے، ایسے ہی موقعوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    ٹی ٹوئنٹی کے سپر 12 مرحلے کے آغاز سے قومی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے قوم نے جس طرح دعائیں کیں، اس سے 1992 کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ ہوگئیں اور سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف فتح نے ان یادوں کو مزید تقویت بخشی، کیونکہ 92 کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان نے نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں شکست دی تھی اور میدان بھی آسٹریلیا کا تھا، اب جب کہ ٹرافی صرف ایک ہاتھ یعنی ایک میچ دور ہے اور مدمقابل بھی تو قوم میں بھی ایک بار پھر وہی جوش و ولولہ اور وہ اضطراب نظر آرہا ہے جو آج سے 30 سال قبل فائنل سے قبل دیکھا گیا تھا اور اب پاکستانیوں کی ہر بیٹھک میں یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم 1992 کی تاریخ دہرا کر آسٹریلیا سے ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے گی۔

    اگر ہم آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کے پورے ٹورنامنٹ میں گرین شرٹس کے سفر پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر اس کا سفر شروع کیا، سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہار گیا۔ اگلا میچ زمبابوے سے تھا اور سب کو یقین تھا کہ پاکستان حریف کو باآسانی پچھاڑ کر اپنی فتح کے سفر کا آغاز کرے گا لیکن غیر متوقع اور اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کر دیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔

    ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا، قومی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے بھاری مارجن سے جیت کے ساتھ دیگر ٹیموں کے میچوں کے حسب منشا نتائج بھی ضرورت بن گئے، پھر قومی ٹیم بیدار ہوئی اور مسلسل تین میچز میں مخالف ٹیموں کو پچھاڑتی ہوئی اگر مگر کے ساتھ ہی سیمی فائنل میں پہنچی اور وہاں بھی نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی اور یہی سب کچھ تو 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی ہوا تھا تو قوم کو لگا کہ یہ 92 کے ورلڈ کپ کا ہی ری پلے ہے پھر قوم نے اس بار وہی امیدیں وابستہ کرلی ہیں کہ جہاں کھلاڑی میدان میں اپنی جان ماریں گے وہیں شائقین اسٹیڈیم میں ان کا جوش بڑھائیں گے اور قوم ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر میچ دیکھنے کے ساتھ دعائیں بھی کرے گی جب کہ بعض بزرگ تو میچ شروع ہوتے ہی مصلیٰ سنبھال لیں گے۔

    جس طرح 25 مارچ 1992 کو ایک شکستہ ٹیم جس کے بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم پوزیشن ون ڈاؤن پر کوئی قابلِ ذکر بلے باز دستیاب نہیں تھا، دو فاسٹ بولرز کے بعد تیسرا کوئی فاسٹ بولر نہیں تھا، 50 اوورز کے کوٹے کو جزوقتی بولر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا، اس ٹیم نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔

    جس طرح 1992 میں پاکستان کے کپتان عمران خان جو اپنے سخت اور انوکھے فیصلوں کے لیے مشہور تھے اس ورلڈ کپ میں ایک ایسی بیٹنگ لائن لے کر گئے تھے جس میں جاوید میاں داد کے علاوہ کوئی قابلِ اعتماد بلے باز نہ تھا، اسی طرح موجودہ ٹیم میں بھی کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی مستند بلے باز نہ تھا اور مڈل آرڈر پر سب نے سوالات اٹھا دیے تھے جب کہ سب سے زیادہ پریشان کن بات اس کامیاب اوپننگ پیئر بالخصوص کپتان بابر اعظم کا آؤٹ آف فارم ہونا بھی تھا جو سیمی فائنل کے قبل 5 میچوں میں صرف 39 رنز ہی اسکور کر سکے تھے۔ جس طرح 92 میں ایئن چیپل اور رچی بینو جیسے ماہرین نے ایک دو میچوں میں ہی کامیابی کی پیشگوئی کی تھی، اسی طرح موجودہ زمانے کے ماہرین کرکٹ نے بھی بابر اعظم کی زیر قیادت ٹیم کے پہلے مرحلے سے آگے نہ بڑھنے کی پیشگوئی کی تھی لیکن دونوں بار یہ پیشگوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔

    ایک اور مماثلت کہ 92 میں قومی ٹیم جب آسٹریلیا روانہ ہوئی تو سوائے جاوید میانداد کے کوئی قابل بھروسا بلے باز نہیں تھا لیکن جب ٹیم کپ کے ساتھ واپس آئی تو اپنے ساتھ انضمام الحق، عامر سہیل، عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے جوہرِ قابل لے کر آئی جو بعد میں ٹیم کے اہم ستون بن گئے۔

    اس بار بھی بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی مستند بلے باز نہیں تھا لیکن ٹیم واپس آئے گی تو امید ہے کہ ٹرافی کے ساتھ محمد حارث، افتخار احمد جیسے مستقبل کے ہیروز ساتھ لے کر آئے گی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC T20 World Cup (@t20worldcup)

    تاہم سنسنی خیز فائنل سے قبل آسٹریلوی محکمہ موسمیات نے فائنل کے روز میلبرن میں بارش کی پیشگوئی کی ہے یعنی پاکستان کا مدمقابل صرف انگلینڈ نہیں بلکہ موسم بھی ہوگا، میچ کے لیے ریزرو ڈے بھی ہے لیکن اگر دونوں دن میچ مکمل نہ ہوسکا تو پھر دونوں فائنلسٹ ٹیموں کو مشترکہ فاتح قرار دیا جاسکتا ہے۔

    پاکستان کی ٹیم نے جس طرح سیمی فائنل جیتا، اور قوم کو خوشیاں منانے کا موقع دیا، اس کے بعد اب کرکٹ کے پاکستانی شائقین ہی کی نہیں بلکہ پوری قوم آرزو مند ہے کہ فائنل کی فاتح بن کر ہماری ٹیم ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے۔ ہم سب کی دعائیں قومی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ:  کیا آسٹریلیا میں تاریخ خود کو دہرائے گی؟

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: کیا آسٹریلیا میں تاریخ خود کو دہرائے گی؟

    کرکٹ کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی غیر متوقع کارکردگی کے باعث کسی بھی میچ میں اس کی فتح اور شکست کی پیش گوئی بھی مشکل رہی ہے یہ وہ ٹیم ہے جو ایک میچ میں اگر کسی مضبوط حریف کو ہرا سکتی ہے تو اگلے ہی میچ میں ایک کمزور کرکٹ ٹیم سے شکست کھا کر دنیا کو حیران کر دیتی ہے۔

    آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے یہی کیا۔ کھیل کے دوران کشمکش کی فضا میں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔

    ٹی ٹوئنٹی کے سپر 12 مرحلے کے آغاز سے قومی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے قوم نے جس طرح دعائیں کیں، اس سے 1992 کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ اُس ایک روزہ ورلڈ کپ اور حالیہ مقابلے میں اتنی مماثلت پیدا ہو گئی ہے کہ قوم میں بھی ایک بار پھر وہی جوش و ولولہ اور وہ اضطراب نظر آرہا ہے جو آج سے 30 سال قبل دیکھا گیا تھا۔ اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم 1992 کی تاریخ دہرا کر آسٹریلیا سے ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے گی۔

    آسٹریلیا میں گزشتہ ماہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہوا تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر اس کا سفر شروع کیا، سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہار گیا۔

    اگلا میچ زمبابوے سے تھا اور سب کو یقین تھا کہ پاکستان حریف کو باآسانی پچھاڑ کر اپنی فتح کے سفر کا آغاز کرے گا لیکن غیر متوقع اور اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کر دیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔ ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا۔قومی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے بھاری مارجن سے جیت ضروری تھی جس کے لیے قوم دل کی گہرائیوں سے دعا گو تھی اور اس موقع پر 1992ء کے ورلڈ کپ کی یاد تازہ ہوگئی۔

    اگلے میچز میں شاہین بیدار ہوئے اور فتوحات کی ہیٹ ٹرک کے ساتھ سیمی فائنل کا ٹکٹ بھی کٹوا لیا، پہلے جنوبی افریقہ کو ہرایا، پھر نیدر لینڈز کو پچھاڑا۔ اتوار کی صبح نیدر لینڈز نے جنوبی افریقہ کو اپ سیٹ شکست دے کر پاکستانی قوم کو ایک خوشی سے ہمکنار کردیا۔

    جنوبی افریقہ کی اس شکست نے پاکستان کا اگلے مرحلے کے لیے سفر مزید آسان کر دیا اور رن ریٹ کا گورکھ دھندا ختم ہوگیا اب صرف پاکستان نے بنگلہ دیش کو شکست دینا تھی اور سیمی فائنل میں پہنچنا تھا اور یہ کام قومی ٹیم نے باآسانی کرلیا جس کے ساتھ ہی وہ کچھ ہوا جس کی بہت سارے لوگوں نے امیدیں چھوڑ دی تھیں اور ایسا ہی کچھ 1992 میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا۔

    25 مارچ 1992 کو ایک شکستہ ٹیم، جس کے بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم پوزیشن ون ڈاؤن پر کوئی قابلِ ذکر بلے باز دستیاب نہیں تھا، دو فاسٹ بولرز کے بعد تیسرا کوئی فاسٹ بولر نہیں تھا، 50 اوورز کے کوٹے کو جزوقتی بولر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا، جس کے لیے ایئن چیپل اور رچی بینو جیسے ماہرین نے ایک دو میچوں میں ہی کامیابی کی پیشگوئی کی تھی، اس ٹیم نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔

    پاکستان کے کپتان عمران خان جو اپنے سخت اور انوکھے فیصلوں کے لیے مشہور تھے اس ورلڈ کپ میں ایک ایسی بیٹنگ لائن لے کر گئے تھے جس میں جاوید میاں داد کے علاوہ کوئی قابلِ اعتماد بلّے باز نہ تھا۔ آخری پانچ میچوں میں تو وہ خود بیٹنگ کا بوجھ اٹھاتے رہے، بولنگ میں سارا بوجھ وسیم اکرم کے کاندھوں پر تھا لیکن یہ ٹیم جب واپس آئی تو صرف ورلڈ کپ لے کر نہیں آئی بلکہ اپنے ساتھ انضمام الحق، عامر سہیل، عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے جوہرِ قابل لے کر آئی جو بعد میں ٹیم کے اہم ستون بن گئے۔

    اس ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر مایوس کن تھا۔ اپنے افتتاحی میچ میں قومی ٹیم ویسٹ انڈیز سے شکست کھا گئی جس کا ذمے دار ٹیم اوپنر (موجودہ چیئرمین پی سی بی) رمیز راجا کی سست بیٹنگ کو قرار دیا گیا تھا۔ اگلا میچ بھارت کے ساتھ تھا اور کسی بھی عالمی کپ میں یہ دونوں روایتی حریف پہلی بار مدمقابل آ رہے تھے، یہ میچ بھارت نے جیتا اور اگلے میچ میں جنوبی افریقہ نے بھی پاکستان کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔

    ابتدائی دو میچز ہارنے کے بعد قومی ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی ناممکن دکھائی دے رہی تھی لیکن عمران خان کی قیادت اور کھلاڑیوں کی انتھک محنت اور خوش قسمتی سے پاکستان کی یہ منزل کچھ اس طرح آسان کی کہ سب حیران رہ گئے۔

    پاکستان نے اگلے میچ میں آسان حریف زمبابوے کو شکست دے کر ٹورنامنٹ میں پہلی فتح حاصل کی، لیکن ٹورنامنٹ کا ٹرننگ پوائنٹ پاکستان اور انگلینڈ کے خلاف کھیلا گیا میچ تھا جو بارش کے باعث نامکمل رہا اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دیا گیا اور یہی ایک پوائنٹ آخر میں اتنا اہم ہوا کہ پاکستان بڑی ٹیموں کو روندتا ہوا عالمی چیمپئن بن گیا۔

    اس کو خوش قسمتی کی انتہا نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ پاکستان کی پوری بیٹنگ لائن انگلینڈ کے خلاف 74 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی اور انگلینڈ آسان ہدف کے تعاقب میں بیٹنگ بھی شروع کرچکا تھا کہ اچانک بارش آسمان سے پاکستان کے لیے رحمت بن کر اتری اور اس وقت تک واپس نہ لوٹی جب تک میچ ختم کرنے کا اعلان نہیں کر دیا گیا۔

    اس کے بعد پاکستانی شاہین اسی طرح جاگے جیسے حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں مسلسل دو شکستوں نے ان کو بیدار کیا، 92 کے ورلڈ کپ میں پاکستان نے پہلے آسٹریلیا اور سری لنکا کو زیر کیا اور پھر راؤنڈ میچ میں اپنا آخری میچ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا جو کہ اس وقت تک ٹورنامنٹ کی ناقابل شکست ٹیم تھی اور جس کو ورلڈ کپ میں دیگر 7 ٹیمیں نہیں ہرا سکی تھیں اسے قومی ٹیم نے زیر کرلیا۔ پاکستان نے اپنے مجموعی پوائنٹ 9 کر لیے۔

    جس طرح ہم اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کشمکش اور تذبذب کا شکار رہے اور اگر مگر کی کشتی میں ڈولتے ہوئے پاکستانی ٹیم کی جیت کے ساتھ دیگر ٹیموں کے لیے بھی من چاہے نتائج کی دعائیں کرتے ہوئے دن گزارے یہ سب کچھ نوے کی دہائی میں بھی ہوا تھا۔ اس وقت راؤنڈ میچ میں پاکستان نو پوائنٹس کے ساتھ اسی روز ہونے والے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے آخری میچ پر انحصار کر رہا تھا۔ آسٹریلیا کے 6 پوائنٹ اور ویسٹ انڈیز کے 8 پوائنٹس تھے، پاکستان اسی صورت سیمی فائنل میں پہنچ سکتا تھا کہ جب آسٹریلیا کالی آندھی کو زیر کر لے۔ دوسری صورت میں ویسٹ انڈیز 10 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل پہنچتا اور پاکستان خالی ہاتھ گھر واپس آتا۔

    92 کا ورلڈ کپ اپنے مکمل ہوش و حواس میں دیکھنے والوں کو یاد ہوگاکہ اس میچ میں آسٹریلیا گویا پاکستانیوں کی قومی ٹیم بن گئی تھی جس کی فتح کے لیے ہر پاکستانی دعائیں کررہا تھا جو قبول ہوئیں اور میچ کا نتیجہ آسٹریلیا فتح کی صورت نکلا۔

    پھر کیا تھا پاکستان سیمی فائنل میں گیا، دوبارہ نیوزی لینڈ مدمقابل تھا اور پاکستان نے یہ میچ جیت کر اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ ٹیم نے فائنل میں انگلینڈ کو 22 رنز سے ہرا کر ایک تاریخ رقم کی اور دنیا نے پاکستانی ٹیم کے کپتان عمران خان کو ورلڈ کپ کی ٹرافی تھامے دیکھا۔

    آج دیکھیں تو کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ یہ ٹورنامنٹ اُس ورلڈ کپ کی طرح آسٹریلیا میں کھیلا جا رہا ہے، میزبان آسٹریلوی ٹیم پہلے کی طرح فائنل فور سے قبل ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی ہے، پاکستانی ٹیم بھی تاریخ دہراتے ہوئے اگر مگر کے کانٹوں سے الجھتی اس مرحلے تک پہنچی ہے، اس وقت بھی پاکستان کا سیمی فائنل نیوزی لینڈ سے تھا اور اس بار بھی سیمی فائنل میں یہی دونوں ٹیمیں مدمقابل ہیں۔

    اگر سیمی فائنل میں پاکستان نیوزی لینڈ کو ہرا دے اور دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ بھارت کو پچھاڑ دے تو پھر فائنل بھی 30 سال قبل کھیلے گئے ورلڈ کپ کا ری پلے ثابت ہو سکتا ہے اور ٹرافی کے لیے مقابلہ پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ہوگا۔

    کھیلوں کی دنیا میں حالیہ مقابلے اور 1992ء کے ورلڈ کپ میں اس قدر مماثلت نے قوم کی امیدوں کو بھی دو چند کردیا ہے۔ ٹرافی کے حصول کے لیے چار ٹیمیں میدان میں ہیں اور تین میچوں کے بعد فیصلہ ہو جائے گا کہ کون یہ ٹرافی اٹھا کر اپنے وطن لے جائے گا۔

    صرف کرکٹ کے پاکستانی شائقین ہی کی نہیں، پوری قوم کی آرزو ہے کہ ہماری ٹیم تاریخ کو دہراتے ہوئے میدان مار لے اور ہمارے کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ٹرافی لے کر وطن لوٹیں۔ ہماری دعائیں قومی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

  • پاکستان نے تمام اندازے غلط ثابت کیے، آئی سی سی بھی معترف

    پاکستان نے تمام اندازے غلط ثابت کیے، آئی سی سی بھی معترف

    آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کا سپر 12 مرحلہ اپنے تمام سنسنی خیزی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا اور پاکستان نے بھی سیمی فائنل میں جگہ بنا لی۔

    پاکستان کے ٹورنامنٹ کے فائنل فور مرحلے میں جگہ بنانے پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھی قومی ٹیم کے جذبے کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی اور اپنے آفیشل ٹوئٹر پیج پر کئی تعریفی ٹوئٹس کی ہیں

    آئی سی سی نے لکھا ہے کہ پاکستان نے سیمی فائنل میں پہنچ کر تمام اندازے غلط ثابت کردیے۔

    ایک اور ٹوئٹ میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا کہنا تھا کہ ٹی 20 ورلڈ کپ کی تاریخ میں سب سے زیادہ ڈرامائی کہانیوں میں سے ایک، پاکستان نے یہ کیسے کیا؟

     

    ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ دو میچوں میں شکستوں کے بعد نیچے سے اوپر آنا ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کسی تیز سواری پر سوار تھا۔

     

    آئی سی سی نے اپنی دیگر ٹوئٹس میں بھی قومی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ پاکستان نے تمام تر مشکلات کے باوجود خود کو پرسکون رکھا، فائنل فور میں جگہ بنائی اور آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

  • پاکستان نے سیمی فائنل میں رسائی کے ساتھ ایک منفرد ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیا

    پاکستان نے سیمی فائنل میں رسائی کے ساتھ ایک منفرد ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیا

    ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں رسائی کے ساتھ پاکستان ٹیم نے ایک منفرد ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیا ہے اور وہ اب تک 6 مرتبہ سیمی فائنل کھیلنے والی واحد ٹیم بن گئی ہے۔

    ایڈیلیڈ میں کھیلے گئے ٹی 20 ورلڈ کپ کے سپر 12 مرحلے کے انتہائی اہم میچ میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو 5 وکٹوں سے شکست دے کر جیسے ہی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا ایک اور منفرد اعزاز قومی ٹیم کے نام کے ساتھ جُڑ گیا اور وہ کسی بھی ٹیم کا عالمی کپ میں چھٹی بار سیمی فائنل کے لیے رسائی حاصل کرنا ہے۔

    کرکٹ کی دنیا میں جب سے مختصر دورانیے ٹی 20 کرکٹ شروع ہوئی ہے اور عالمی کپ کا انعقاد ہونا شروع ہوا ہے تب سے ہی پاکستان اس فارمیٹ اور عالمی کپ کی اہم اور کامیاب ترین ٹیموں میں سے ایک رہی ہے اور 2007 سے 2021 تک کے 14 سالہ سفر میں نہ صرف ایک بار ورلڈ چیمپئن رہی بلکہ دو بار فائنل اور رواں 2022 کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل مرحلے تک رسائی حاصل کرکے 6 بار فائنل فور میں پہنچنے والی پہلی ٹیم بن گئی ہے۔

    اس سے ٹورنامنٹ سے قبل سب سے زیادہ سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز بھی قومی ٹیم کے پاس تھا اور 2021 تک 5 عالمی کپ کے سیمی فائنل کھیل چکی تھی، یوں رواں ورلڈ کپ میں پاکستان نے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔

    اگر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پہلا عالمی کپ 2007 میں ہوا، افتتاحی ایڈیشن میں ہی پاکستان کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی اور فائنل میں کرکٹ کی دو سپر پاورز پاکستان اور بھارت مدمقابل آئیں تاہم میدان بھارت نے مارا، دو سال بعد 2009 میں پاکستان ایک نئے عزم کے ساتھ یونس خان کی قیادت میں ٹورنامنٹ میں آئی اور ٹرافی لے کر واپس گئی، لارڈز کے تاریخی میدان میں کھیلے گئے فائنل میچ میں پاکستان نے سری لنکا کو شکست دے تاریخ رقم کی اور ٹرافی تھام کر قوم کا سر فخر سے بلند کیا، میچ کے ہیرو بوم بوم شاہد آفریدی رہے۔

    یہ بھی پڑھیں: ٹی 20 ورلڈ کپ کی تاریخ، پاکستان کامیاب ٹیموں میں سے ایک

    پاکستان جاری 8 ویں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں چھٹی بار سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی جہاں پہلی ٹیم بن گئی ہے اگر سیمی فائنل جیت جاتی ہے تو تیسری بار فائنل کھیلنے والی بھی پہلی ٹیم بن جائے گی۔

    پاکستان نے اس سے قبل سال2007، 2009، 2010، 2012 اور 2021 کے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا جب کہ 2014 اور 2016 میں ٹیم پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی تھی۔

    پاکستان کے علاوہ سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور بھارت کی ٹیمیں چار چار بار جب کہ آسٹریلیا نے تین مرتبہ سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز پایا۔

  • ٹی 20 ورلڈ کپ اختتام کی جانب گامزن، 8 ٹیموں‌ کیلیے ٹورنامنٹ اب بھی اوپن

    ٹی 20 ورلڈ کپ اختتام کی جانب گامزن، 8 ٹیموں‌ کیلیے ٹورنامنٹ اب بھی اوپن

    آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے تاہم اب تک فائنل فور کی فہرست خالی ہے اور اگر مگر کی صورتحال مزید دلچسپ ہوگئی ہے۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سپر 12 مرحلہ دو گروپوں پر مشتمل ٹیموں کے مقابلوں پر مبنی ہے اور اس کے صرف چار میچز باقی رہ گئے ہیں لیکن تاحال سیمی فائنل کے لیے کسی بھی گروپ کی جانب سے ایک بھی ٹیم نے حتمی طور پر کوالیفائی نہیں کیا ہے۔

    اگر بات کریں گروپ ون کی تو یہاں میزبان آسٹریلیا کے ساتھ نیوزی لینڈ، انگلینڈ، سری لنکا، افغانستان اور آئرلینڈ شامل ہیں، اس میں سے آئرلینڈ اور افغانستان تو ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی ہیں لیکن بقیہ چار ٹیموں میں سے کون سی دو ٹیمیں سیمی فائنل کا ٹکٹ کٹائیں گی یہ پیشگوئی فی الحال مشکل ہے۔

    اس گروپ میں نیوزی لینڈ اور آئرلینڈ نے اپنے تمام پانچ پانچ میچز کھیل لیے ہیں جب کہ آسٹریلیا اور افغانستان کے مابین میچ جاری ہے، انگلینڈ اور سری لنکا کل میدان میں اتریں گے۔

    نیوزی لینڈ آئرلینڈ کو شکست دینے کے بعد 7 پوائنٹ کے ساتھ سرفہرست ہوگیا ہے تاہم سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی نہیں کرسکا ہے جب کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا 5 پانچ پوائنٹ کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر اور سری لنکا چار پوائنٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔

    اگر انگلینڈ اور آسٹریلیا اپنے اپنے میچز جیت لیتی ہیں تو نیوزی لینڈ کے ساتھ یہ ٹیمیں بھی سات سات پوائنٹ حاصل کرلیں گی اس طرح معاملہ رن ریٹ پر چلا جائے گا اور جن دو ٹیموں کا رن ریٹ زیادہ ہوگا وہ سیمی فائنل میں پہنچ جائیں گی، تاہم آسٹریلیا اور انگلینڈ میں سے کوئی ایک ٹیم جیت جاتی ہے تو نیوزی لینڈ اور ان میں سے فاتح ٹیم اگلے مرحلے میں جائیں گی۔

    اگر افغانستان اپ سیٹ کرتے ہوئے آسٹریلیا کو شکست دے دیتا ہے تو نیوزی لینڈ سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا تاہم اگلی ٹیم کا فیصلہ کل انگلینڈ اور سری لنکا میچ کے بعد ہوگا اور وہ بہت دلچسپ ہوجائے گا کیونکہ اگر انگلینڈ یہ میچ ہار جاتا ہے تو سری لنکا 6 پوائنٹ کے ساتھ گروپ کی دوسری ٹیم بن جائیگی اور یوں نیوزی لینڈ اور سری لنکا سیمی فائنل کے ٹکٹ کٹا لیں گی۔

    اب اگر اپنی قومی ٹیم کے گروپ یعنی گروپ ٹو پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھارت 6 پوائنٹ کے ساتھ سرفہرست ہے، جنوبی افریقہ 5 پوائنٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، پاکستان اور بنگلہ دیش کے چار چار پوائنٹ ہیں لیکن رن ریٹ کے باعث پاکستان تیسرے اور بنگلہ دیش چوتھے نمبر پر ہے، دیگر دو ٹیمیں نیدر لینڈ اور زمبابوے ہیں جو پہلے ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی ہیں تاہم ہر ٹیم کا ابھی ایک ایک میچ باقی ہے۔

    اتوار کو جنوبی افریقہ اور نیدر لینڈ، پاکستان اور بنگلہ دیش جب کہ بھارت اور زمبابوے کے مابین میچز شیڈول ہیں اور ان کے نتائج ہی یہاں سے سیمی فائنل کی دو ٹیموں کا طے کریں گے۔

    اگر جنوبی افریقہ اور بھارت اپنے اپنے میچز جیت جاتے ہیں تو دونوں ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچ جائیں گی اور پاکستان فتح کے باوجود ٹورنامنٹ سے باہر ہو جائے گا۔

    اگر نیدر لینڈ جنوبی افریقہ کو زیر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، پاکستان اپنا میچ جیت لیتا ہے اور بھارت زمبابوے کو شکست دے دیتا ہے تو پوائنٹ ٹیبل پر بھارت 8 پوائنٹ کے ساتھ پہلے اور پاکستان 6 پوائنٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر آجائے گا اور یوں یہ روایتی حریف سیمی فائنل مرحلے میں داخل ہوجائیں گے، اگر ایسا ہوا تو فائنل میچ میں کرکٹ کی دو سپر پاور کے ایک بار پھر مدمقابل آنے کا امکان بھی پیدا ہو جائے گا جو ختم ہوتے ٹورنامنٹ میں نئی روح پھونک دے گا۔

    لیکن اگر مگر کا کھیل باقی ہے، جنوبی افریقہ جیت جاتا ہے اور بھارت ہار جاتا ہے تو جنوبی افریقہ سات پوائنٹ کے ساتھ گروپ کی پہلی ٹیم بن کر سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا جب کہ دوسری ٹیم کے لیے بھارت اور پاکستان میں رن ریٹ فیصلہ کرے گا، لیکن جنوبی افریقہ، بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی بنگلہ دیش سے اپنا میچ ہار جاتا ہے تو اس صورت میں بھارت اور بنگلہ دیش اگلے راؤنڈ میں پہنچ جائیں گے۔

    لیکن اگر مگر کا کھیل اب بھی ختم نہیں ہوا اگر ان میچز میں سے کسی میں بھی بارش ہو گئی تو یہ تمام کیلکولیشن دھری کی دھری رہ جائے گی اور پھر فیصلہ بارش کرے گی کہ کون اگلے مرحلے میں جاتا ہے اور کون اپنے ملک واپس آتا ہے۔

  • جنوبی افریقہ کیخلاف شاداب خان کا لاٹھی چارج، افتخار کا بھرپور ساتھ ویڈیوز دیکھیں

    جنوبی افریقہ کیخلاف شاداب خان کا لاٹھی چارج، افتخار کا بھرپور ساتھ ویڈیوز دیکھیں

    ٹی 20 ورلڈ کپ کے سپر 12 مرحلے میں جنوبی افریقہ کے خلاف اہم ترین میچ میں قومی ٹیم کے نائب کپتان شاداب خان نے بھرپور لاٹھی چارج کیا۔

    سڈنی میں کھیلے جا رہے میچ میں پاکستانی کپتان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا تاہم بیٹنگ بری طرح لڑکھڑا گئی، کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان ایک بار پھر ناکام ثابت ہوئے اور ڈبل فیگر میں بھی داخل نہ ہوسکے۔

    آدھی ٹیم صرف 95 کے مجموعے پر پویلین لوٹ چکی تھی اور اسٹیڈیم میں پاکستانی شائقین کے اسٹینڈز میں سناٹا طاری تھا، ایسے میں قومی ٹیم کے نائب کپتان شاداب خان بلا گھماتے ہوئے پویلین سے نمودار ہوئے اور پھر اسی بلے سے ایسا لاٹھی چارج کیا کہ جنوبی افریقی بولرز کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے جب کہ اسٹیڈیم میں پاکستانی شائقین کا جوش بڑھ گیا۔

    شاداب خان نے آتے ہی چاروں طرف خوبصورت اسٹروک کھیلے اور صرف 20 گیندوں پر طوفانی نصف سنچری اسکور کی جس میں 4 بلند و بالا چھکے اور تین چوکے شامل تھے، وہ 22 گیندوں پر 52 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے ان کا متاثر کن اسٹرائیک ریٹ 236.36 رہا۔

    اس موقع پر آل راؤنڈر کا استقامت کے ساتھ افتخار احمد نے بھی ساتھ دیا اور دونوں کے درمیان 82 رنز کی پارٹنر شپ ہوئی جس کے لیے دونوں بلے بازوں نے صرف 35 گیندیں کھیلیں، 177 کے مجموعے پر شاداب خان کے آؤٹ ہونے کے فوری بعد افتخار احمد بھی پویلین لوٹ گئے۔ انہوں نے آؤٹ ہونے سے قبل 35 گیندوں پر 51 رنز بنائے۔

     

    واضح رہے کہ پاکستان نے جنوبی افریقہ کو جیت کے لیے 186 رنز کا ہدف دیا ہے، پاکستان کو ٹورنامنٹ میں اپنی بقا کے لیے یہ میچ جیتنا لازمی ہے۔

  • عمران خان کا ٹوئٹر پر گوجرانوالہ کے عوام کو زبردست خراج تحسین

    عمران خان کا ٹوئٹر پر گوجرانوالہ کے عوام کو زبردست خراج تحسین

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ گوجرانوالہ میں لوگ انصاف کے حصول کے لیے نکلے ہیں۔

    پی ٹی آئی چیئرمین نے حقیقی آزادی مارچ کے حوالے سے گوجرانوالہ کے عوام کے جوش کو خروش پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

    عمران خان نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ گوجرانوالہ میں انصاف کے حصول کے لیے لوگ نکلے، وہاں عوام حقیقی آزادی مارچ میں چارج ہوکر نکلے۔

    سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ یہ یہ لوگ ہماری حقیقی آزادی کی جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہیں۔

     

    اس سے قبل ایک اور ٹوئٹ میں عمران خان نے کہا تھا کہ ہمارے حقیقی آزادی مارچ میں شرکت کے لیے گوجرانوالہ کے عوام غیر معمولی تعداد میں نکلے ہم نے آج تک اتنی بڑی تعداد میں عوام کو کسی مارچ میں شریک ہوتے نہیں دیکھا۔

    پی ٹی آئی چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے یہ مشاہدہ بھی کیا ہے کہ جوں جوں ہمارا مارچ اسلام آباد کی جانب بڑھ رہا ہے ہمارے لوگوں کے جوش و جذبے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

    عمران خان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹوئٹس کے ساتھ گوجرانوالہ میں لانگ مارچ کی ویڈیوز بھی پوسٹ کی ہیں۔

     

    واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا حقیقی آزادی مارچ آج چھٹے روز اپنی منزل کی جانب سفر کا آغاز کرے گا۔

    پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا آغاز لاہور لبرٹی چوک سے گزشتہ جمعے کو ہوا تھا گوجرانوالہ میں عوام کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے گوجرانوالہ میں حقیقی آزادی مارچ کا قیام بڑھا دیا تھا اور شرکا نے دو روز وہاں پہلوانوں کے شہر میں رُکے تھے۔
    اس دوران کئی مقامات پر شہریوں کے ساتھ پہلوانوں نے بھی عمران خان اور مارچ کے قائدین اور شرکا کا شاندار استقبال کیا تھا۔

  • پشاور زلمی چھوڑنے والے کامران اکمل کے پی ایس ایل میں بنائے گئے ریکارڈز

    پشاور زلمی چھوڑنے والے کامران اکمل کے پی ایس ایل میں بنائے گئے ریکارڈز

    پی ایس ایل کے آٹھویں سیزن سے قبل پشاور زلمی کو چھوڑنے والے کامران اکمل لیگ کے کامیاب اور ریکارڈ ساز بلے باز رہے ہیں۔

    کامران اکمل پی ایس ایل کے آغاز کے ساتھ ہی پشاور زلمی کے ساتھ رہے اور اب تک سات سیزن میں زلمی کی جانب سے 75 میچوں میں 1972 رنز بناکر وہ دوسرے کامیاب ترین بلے باز ہیں۔

    کامران اکمل نے پی ایس ایل کے سات سیزن میں پشاور زلمی کے ساتھ رہتے ہوئے 6 سیزن میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز کا اعزاز پایا، اس کے ساتھ ہی وہ ایک ٹورنامنٹ کے کامیاب ترین بیٹر اور ایک بار کامیاب ترین وکٹ کیپر بھی قرار پائے۔

    پی ایس ایل میں کامران اکمل نے تین سنچریاں اسکور کی ہیں اور یہ سنگ میل اب تک کوئی بیٹر عبور نہیں کرسکا ہے، انہیں تمام سیزن میں دوسرے سب سے زیادہ مین آف دی میچ ایوارڈ لینے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    سابق قومی بلے باز پی ایس ایل میں حریف بولرز کے سب سے زیادہ چھکے چھڑانے والے یعنی ان کی گیندوں پر سب سے زیادہ بار ہوا میں باؤنڈری پار پہنچانے اور چوکے مارنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔

     

    واضح رہے کہ کامران اکمل نے پی ایس ایل میں اپنی پہلی ٹیم پشاور زلمی کو چھوڑنے کا اعلان سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیا ہے۔

    کامران اکمل نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ الوداع کہنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، زلمی کے ساتھ گزارے سات سال بہترین رہے، اونچ نیچ اور مشکل وقت میں سپورٹ کرنے پر زلمی فیملی کا شکریہ۔

    اس سے قبل گزشتہ روز اے آر وائی پر کرکٹ کے پرستاروں اور دیوانوں کے پسندیدہ شو ’’ ہر لمحہ پرجوش‘‘ میں بھی کامران اکمل کے پشاور زلمی کو چھوڑنے کا چرچا رہا۔

    کامران اکمل نے بتایا کہ وہ پی ایس ایل کے اگلے سیزن میں کسی اور ٹیم کھلایا تو وہ اس ٹیم کی جانب سے سے کھیلیں گے۔

    پروگرام میں شریک سابق قومی کپتان یونس خان نے کہا کہ رابطے ہونے چاہئیں، تنویر احمد نے کہا کہ کامران اکمل پی ایس ایل سیزن 8 میں اگر کسی اور ٹیم کی جانب سے کھیلنا چاہتے ہیں تو ضرور کھیلیں۔

  • ٹی 20 ورلڈ کپ، جنوبی افریقہ نے بنگلہ دیش کو با آسانی شکست دے دی

    ٹی 20 ورلڈ کپ، جنوبی افریقہ نے بنگلہ دیش کو با آسانی شکست دے دی

    ٹی 20 ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ نے بنگلہ دیش کو 104 کے بھاری مارجن سے ہرا دیا، بنگلہ دیش کی پوری ٹیم 101 رنز پر ہی ڈھیر ہوگئی۔

    سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے جا رہے میچ میں جنوبی افریقہ کی جانب سے دیے گئے 206 رنز کے پہاڑ جیسے ہدف کے تعاقب میں بنگلہ دیش کی ٹیم ابتدا ہی میں لڑکھڑا گئی اور 66 کے مجموعے پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی۔ کوئی بھی بلے باز جنوبی افریقی بولرز کا مقابلہ نہ کرسکا۔

    بنگلہ دیش کی جانب سے لٹن داس 34 رنز بنا کر نمایاں رہے، سومیہ سرکار نے 15، مہدی حسن نے 11 اور تسکین احمد نے 10 رنز بنائے، ان کے علاوہ کوئی بھی بلے باز ڈبل فیگر میں داخل نہ ہوسکا۔

    بنگلہ ٹیم مقررہ 20 اوورز بھی پورے نہ کھیل سکی اور 16 اعشاریہ 3 اوورز میں آؤٹ ہوگئی۔

    جنوبی افریقہ کی جانب سے انریچ نارٹج نے صرف 10 رنز دے کر چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، کیگسو ربادا نے 24 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کا شکار کیا، روسو کو ان کی شاندار بلے بازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

    اس سے قبل جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ 20 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 205 رنز بنائے، جنوبی افریقی بیٹنگ کی خاص بات رلی روسو اور کوئنٹن ڈی کوک کی جارحانہ بلے بازی تھی، دونوں کے درمیان 163 رنز کی قیمتی پارٹنر شپ قائم ہوئی، دونوں بلے بازوں نے بنگلہ بولروں پر حاوی ہوتے ہوئے گراؤنڈ کے چاروں طرف کھل کر شاٹ کھیلے۔

    رلی روسو نے 8 بلند وبالا چھکوں اور 7 چوکوں کی مدد سے صرف 56 گیندوں پر 109 رنز بنائے، وکٹ کیپر بلے باز کوئنٹن ڈی کاک 38 گیندوں پر 63 رنز بنائے۔

    بنگلہ دیش کی جانب سے جنوبی افریقی بلے بازوں کا لاٹھی چارج روکنے کیلیے 7 بولروں کا استعمال کیا، شکیب الحسن نے دو، تسکین احمد، حسن محمود، عاطف حسین نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ بنگلہ دیش کی جانب سب سے مہنگے بولر تسکین احمد رہے جنہوں نے اپنے کوٹے کے چار اوورز میں 46 رنز کی مار برداشت کی۔

    اس جیت کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے گروپ ٹو میں جنوبی افریقہ 3 پوائنٹ کے ساتھ پہلے نمبر پر آگیا ہے، بھارت دو پوائنٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

    آج بقیہ دو میچز بھی اسی گروپ کے ہیں نتائج کے بعد گروپ پوزیشن میں تبدیلی کا امکان ہے۔