Author: ریحان خان

  • ارشد شریف: کس جرم کی پائی ہے سزا؟

    ارشد شریف: کس جرم کی پائی ہے سزا؟

    اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستان میں‌ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ارشد شریف ہم میں نہیں رہے۔

    وہ کینیا میں موجود تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب یہاں رات کی تاریکی چھٹ رہی تھی اور سویرا ہونے کو تھا۔ عوام کی اکثریت جو محوِ خواب تھی، جب اپنے موبائل فون کی گھنٹیوں اور میسج ٹونز پر بیدار ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کا محبوب اینکر پرسن انھیں‌ دائمی جدائی کا غم دے گیا ہے۔

    ارشد شریف ہر دل عزیز اینکر پرسن اور پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کا ایک بڑا نام تھا جن کی الم ناک موت پر ہر پاکستانی افسردہ و ملول ہے اور بالخصوص صحافتی حلقوں میں فضا سوگوار ہے۔ ارشد شریف ایک نڈر اور بے باک صحافی مشہور تھے جو نہ تو کبھی بکے اور نہ ہی کسی طاقت کے آگے سَر جھکایا۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر میں ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی دباؤ میں‌ آ کر حق و سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور شاید یہی ارشد شریف کا ‘جرم’ بھی تھا۔ پرچمِ حق و صداقت بلند رکھنے کی پاداش میں اپنے ہی وطن میں زمین ان پر تنگ کر دی گئی اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

    ارشد شریف کی موت کی خبر پر یقین نہیں آرہا۔ ہر بار ان کے نام کے ساتھ ان کا ہنستا مسکراتا، زندگی سے بھرپور چہرہ سامنے آجاتا ہے اور انہیں مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرزنے لگتا ہے، لیکن یہ حقیقت جھٹلائی بھی نہیں جاسکتی کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے۔ پاکستان یہ بے باک اور نڈر صحافی بوڑھی ماں کا واحد سہارا بھی تھا اور چار بچّوں کا باپ بھی جسے سچ عوام کے سامنے لانے پر دو درجن سے زائد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر یہ مقدمات کسی دورِ آمریت میں نہیں بلکہ جمہوری دور میں پی ڈی ایم کی حکومت میں بنائے گئے۔ اس پر بہی خواہوں نے ارشد شریف کو کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے جانے کا مشورہ دیا۔ (یہ وہ وقت تھا کہ جب عمران ریاض اسیری کا مزہ چکھ چکے تھے، صابر شاکر بھی ملک چھوڑ کر جا چکے تھے، سمیع ابراہیم، اوریا مقبول جان اور ایاز امیر بھی عتاب شکار تھے، صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے اور انھیں، ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے) ان حالات میں‌ ارشد شریف نے اپنا وطن چھوڑا تھا۔

    ذرایع ابلاغ کے مطابق ارشد شریف کینیا کے شہر نیروبی کے قریب کیجاڈو کے علاقے میں موجود تھے جہاں وہ گولی کا نشانہ بنے۔ اس وقت ارشد شریف کار میں اپنے ایک دوست کے فارم ہاؤس کی طرف جا رہے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد کینیا کے محکمۂ پولیس کا ایک بیان سامنے آیا جس میں ارشد شریف کہا گیا کہ پاکستانی صحافی کی موت پولیس کی گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ کینیا کی پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ایک بچّے کے اغوا کی اطلاع پر پولیس اہل کار گاڑیوں کی چیکنگ کررہے تھے اور سڑک بند تھی جہاں شناخت نہ ہونے اور غلط فہمی کے سبب یہ واقعہ پیش آیا۔

    پولیس کے اس موقف پر دنیا اور خود وہاں کا مقامی میڈیا بھی حیران ہے اور اس ‘غلط فہمی’ پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بچّے کے اغوا میں ملوث گاڑی اور ارشد شریف کی گاڑی کی نمبر پلیٹیں یکسر مختلف تھیں۔ پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟ بالفرض اس گاڑی میں بچّہ تھا بھی تو گاڑی نہ روکنے پر پولیس اس کے ٹائروں پر فائر کرتی اور پھر ملزمان پر قابو پاتی۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا اور پولیس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے کار سواروں کو کیوں‌ اپنی گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا؟ اسی طرح اگر عقب سے یا سامنے سے گولی چلی تو ارشد شریف کے سَر کے درمیانی حصّے پر گولی کا نشان کیوں؟ اس واقعے میں صرف ارشد شریف ہی کیوں نشانہ بنے، ان کے ساتھ بیٹھا ڈرائیور پولیس کی فائرنگ سے کیسے محفوظ رہا اور اب وہ کہاں ہے؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو اس افسوس ناک واقعے کی شفاف تحقیقات اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے آنے تک اٹھائے جاتے رہیں گے۔ دوسری طرف یہ بھی خدشہ ہے کہ ماضی کے کئی ایسے واقعات کی طرح ارشد شریف کی فائل کو بھی کچھ عرصہ بعد ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا۔

    ارشد شریف نے 22 فروری 1973 کو کراچی میں پاک بحریہ کے کمانڈر محمد شریف کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1993 میں اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں فری لانس صحافی کی حیثیت سے کیا۔ ارشد شریف نے یوں تو صحافت کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا، لیکن تحقیقاتی رپورٹنگ ان کا خاصہ تھا۔ ارشد شریف نے کئی سیاست دانوں کی کرپشن کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ انھوں نے ملک اور بیرونِ ملک پاکستان کے بڑے صحافتی اداروں کے لیے خدمات انجام دیں۔ اے آر وائی نیوز پر ان کا ٹاک شو ’’پاور پلے‘‘ کے نام سے نشر ہوتا تھا اور یہ ایک مقبولِ‌ عام پروگرام تھا۔ اس پر ارشد شریف نے 2016 میں بہترین تحقیقاتی صحافت کے زمرے میں ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ 2019 میں حکومتِ پاکستان نے ارشد شریف کو ان کی صحافتی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا تھا۔

    ارشد شریف پاکستان چھوڑ کر متحدہ عرب امارات گئے تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا کر وہاں کی حکومت نے انھیں 48 گھنٹوں میں ملک سے چلے جانے کو کہا تھا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بالخصوص یہ خبریں گردش میں رہیں کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے یو اے ای پر ارشد شریف کی ملک بدری کے لیے دباؤ ڈالا گیا، اور یہ صحافی کسی خطرے کو بھانپ کر پاکستان واپس آنے کے لیے تیّار نہیں‌ تھے۔ انھوں نے فوری طور پر کینیا جانے کا فیصلہ کیا جہاں پاکستانیوں کو ایئرپورٹ آمد پر ویزے کے حصول کی سہولت موجود تھی۔ لیکن وہ نہیں‌ جانتے تھے کہ اس ملک کا ایک دور دراز علاقہ ان کا مقتل ثابت ہو گا۔

    ارشد شریف کی اس ناگہانی موت نے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں‌ موجود دانش وروں، صحافیوں‌ اور عام لوگوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ امریکا نے بھی کھل کر اس واقعے کی مذمت کی، جب کہ حکومتِ پاکستان نے مکمل تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کا اعلان کر دیا جو تحقیقات کے لیے کینیا جائے گی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، صحافتی تنظمیں بھی سراپا احتجاج ہیں اور پی ایف یو جے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کی شفاف تحقیقات کروائے اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے۔

    ایک طرف پاکستانی عوام بالخصوص ارشد شریف کے مداح اور صحافی برادری غم زدہ اور صدمے میں‌ تھی، لندن میں موجود ن لیگ کی قیادت نے دیوالی کا کیک کاٹ رہی تھی جس پر سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کی جارہی تھی کہ مریم نواز کا ایک ٹوئٹ سامنے آگیا جس میں‌ انھوں نے ارشد شریف کی میّت کے تابوت کی تصویر کے ساتھ طنزیہ جملہ لکھا تھا۔ اس ٹوئٹ پر مریم نواز کو عوامی غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں نے انھیں بے حس اور سنگ دل قرار دیا جب کہ صحافیوں نے ان کی اس ٹوئٹ کو غیرانسانی رویہ کی عکاس قرار دیا جس کے بعد مریم نواز کو نہ صرف ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی بلکہ انھوں نے عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس پر معذرت بھی کی۔ لوگوں کا کہنا تھاکہ ایک جانب مریم کے چچا اور وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا تعزیت اور اس واقعے کی تحقیقات کرانے کے بیانات دے رہے تھے اور دوسری طرف لندن میں موجود مریم نواز یہ ٹوئٹ کررہی تھیں جو بدترین تھا۔ یہ سب ایسے وقت ہوا جب ارشد شریف کے اہل خانہ نے مرحوم کا آخری دیدار بھی نہیں کیا تھا اور میّت کی وطن واپسی کے منتظر تھے۔

    ارشد شریف کی میّت وطن واپس آئی تو اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر اسپتال منتقل کیا گیا۔ ورثا کی درخواست پر پمز اسپتال میں ان کا دوبارہ پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ارشد شریف کی رہائش گاہ پر اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔

    اقوام متحدہ نے بھی ارشد شریف کیس میں‌ مکمل تفتیش اور ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنا باقی ہے اور پاکستان سے تحقیقاتی ٹیم کینیا روانہ ہو رہی ہے، لیکن کیا یہ ٹیم حقائق ہمارے سامنے رکھ سکے گی اور عوام یہ جان سکیں‌ گے کہ حق اور سچ کے لیے آواز بلند کرنے اور اس راستے میں ڈٹ جانے والا یہ صحافی وطن چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوا اور اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟

  • ’اسحاق ڈار 600 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کیلیے تیار‘

    ’اسحاق ڈار 600 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کیلیے تیار‘

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ماہر معاشیات مزمل اسلم نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار 600 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کیلیے تیار ہیں۔

    وزارت خزانہ کے سابق ترجمان مزمل اسلم نے متوقع نئے منی بجٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر اظہار خیال کیا ہے۔

    مزمل اسلم نے اپنے ٹوئٹ میں انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ تجربہ کار اسحاق ڈار 600 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کیلیے تیار ہیں۔

    پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ اسحاق ڈار پانچواں منی بجٹ جلد پیش کریں گے، عوام کو چاہیے کہ وہ سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔

     

  • افتخار احمد کی دھواں دھار نصف سنچری، بلند وبالا چھکوں نے شائقین کا جوش بڑھا دیا

    افتخار احمد کی دھواں دھار نصف سنچری، بلند وبالا چھکوں نے شائقین کا جوش بڑھا دیا

    پاکستان کے مڈل آرڈر بلے باز افتخار احمد نے اوپنرز کے جلد آؤٹ ہونے کے بعد دھواں دھار بیٹنگ کی اور نصف سنچری بنا کر آؤٹ ہوئے۔

    میلبرن میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سپر 12 مرحلے کے اہم میچ میں بھارت کے خلاف پاکستانی ان فارم دونوں اوپنرز جلد پویلین لوٹ گئے، کپتان بابراعظم کو کھاتہ کھولنے کا موقع نہ ملا جب کہ محمد رضوان 4 رنز بنا پائے۔

    15 رنز پر دو اہم ترین وکٹیں گنوانے کے بعد پاکستانی ٹیم دباؤ میں آگئی اس موقع پر شان مسعود اور افتخار احمد نے محتاط انداز میں اننگ کو آگے بڑھایا اور 10 اوورز تک قومی ٹیم کے اسکور بورڈ پر صرف 60 رنز ہی درج تھے جس کے بعد افتخار احمد نے ہاتھ کھولے اور چار بلند و بالا چھکے مار کر گراؤنڈ میں موجود پاکستانی شائقین کے جوش میں اضافہ کیا۔

    افتخار احمد 34 گیندوں پر 51 رنز بنا کر محمد شامی کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے، اس وقت ٹیم کو مجموعی اسکور 91 رنز تھا، شان مسعود اور افتخار احمد کے درمیان 76 رنز کی پارٹنر شپ ہوئی۔افتخار احمد کی اننگ میں چار چھکے اور دو چوکے شامل تھے۔

  • ن لیگ اور پی پی فارن فنڈنگ کی سماعت مقرر کرنے کا فیصلہ

    ن لیگ اور پی پی فارن فنڈنگ کی سماعت مقرر کرنے کا فیصلہ

    الیکشن کمیشن نے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کے فارن فنڈنگ کیس کی سماعت مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کو الیکشن کمیشن کے ذرائع کے بتایا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے فارن فنڈنگ کیسز کی سماعت آئندہ ہفتے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔

    ذرائع کے مطابق اس حوالے سے چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجا نے دونوں جماعتوں کے فارن فنڈنگ کیسز سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف متعدد بار ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے فارن فنڈنگ کیسز کے حوالے سے جلد فیصلہ سنانے کے مطالبات کرچکی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ن لیگ اور پی پی کی فارن فنڈنگ کیسز کا فیصلہ جاری کرنے کا مطالبہ

    اگست میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد پارٹی رہنماؤں نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے فارن فنڈنگ کیسز کے فیصلے جلد سنانے کا مطالبہ دہرایا تھا۔

  • پی ٹی آئی رہنما وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے تضادات سامنے لے آئے

    پی ٹی آئی رہنما وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے تضادات سامنے لے آئے

    ماہر معاشیات اور پی ٹی آئی رہنما مزمل اسلم وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیانات میں تضادات کو سامنے لے آئے ہیں۔

    مزمل اسلم نے اس حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اظہار خیال کیا ہے۔

    مزمل اسلم نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ دلچسپ وقت ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے دنیا سے مدد کی درخواست کی ہے جب کہ اب وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہہ رہے ہیں کہ ہم امداد نہیں لیں گے۔

    ماہر معاشیات نے مزید کہا کہ شہباز شریف پیرس کلب کے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کا کہہ رہے ہیں جب کہ وزیر خزانہ نے کہا ہم نہیں کریں گے۔

    پی ٹی آئی رہنما نے یہ بھی کہا کہ شہباز حکومت نے روسی تیل کی درآمد کو مسترد کر دیا ہے جب کہ وزیر خزانہ نے کہا ہم روس سے تیل لیں گے۔

    انہوں نے سوال پوچھتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کنفیوژ ہے یا انکار؟

     

  • ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    وزارتِ داخلہ کی ضمنی الیکشن اور سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کر دی ہے اور اب قومی اسمبلی کی 8 اور پنجاب اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی الیکشن اتوار 16 اکتوبر اور کراچی کے بلدیاتی الیکشن اتوار 23 اکتوبر کو مقررہ شیڈول کے تحت ہی منعقد ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ساتھ ہی ایک سوال نے بھی جنم لے لیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان جو قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہیں وہ یہ تمام نشستیں جیت کر اپنا ہی ایک ریکارڈ توڑ دیں گے اور نئی تاریخ رقم کرکے اپنے مخالفین کو بھی سرپرائز دے سکیں گے؟ یہ تاریخ رقم کرنا اس لیے ہو گا کہ اب تک کسی بھی سیاسی رہنما نے اب تک 7 نشستوں پر بیک وقت انتخاب نہیں لڑا ہے، اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور پھر عمران خان بیک وقت 5 حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 4 نشستوں کے فاتح اور ایک پر شکست کھائی تھی جب کہ عمران خان نے 2018 میں سیاست کے بڑے بڑے برج گراتے ہوئے تمام 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Imran Khan (@imrankhan.pti)

    ان انتخابات میں عمران خان نے این اے 53 اسلام آباد سے ن لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، بنّوں 35 جے یو آئی ف کے اکرم درانی، این اے 243 سے ایم کیو ایم پاکستان کے علی رضا عابدی، ن لیگ کے مضبوط ترین گڑھ لاہور کی نشست این اے 131 سے موجودہ وفاقی وزیر سعد رفیق کو شکست دینے کے ساتھ میانوالی سے بھی قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔

    ملک میں بیک وقت اتنی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر غالباً پہلی بار ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات کا ڈھول اس وقت بجا جب موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی میں سے منتخب کردہ 11 ممبران کے استعفے منظور کیے تھے جن میں دو مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین کے استعفے بھی شامل تھے۔ استعفوں کی منظوری کے بعد 9 خالی نشستوں پر ستمبر میں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ تاہم ملک میں سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے 16 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔

    جن اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں این اے-22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے- 24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے- 31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے- 45 کرم ون سے فخر زمان خان، این اے-108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے-237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے-239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے-246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد شامل تھے۔ ان کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کیے گئے تھے۔

    9 حلقوں پر ضمنی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی کرائے، کچھ حلقوں میں اعتراضات کے بعد تمام حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے تاہم ان 9 انتخابی حلقوں میں سے دو حلقوں کراچی لیاری سے این اے 246 اور این اے 45 کرم ون کی نشستوں پر ضمنی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ این اے 246 لیاری کراچی سے منتخب عبدالشکور شاد کی جانب سے اپنے استعفے کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 246 لیاری کراچی کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا جب کہ این اے 45 کرم میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے باعث وہاں بھی پولنگ نہیں ہو رہی جس کے باعث اب ان سات حلقوں میں پولنگ ہوگی جہاں عمران خان کا براہ راست اپنے مخالفین سے ٹکراؤ ہو گا۔

    اس کے علاوہ حلقہ این اے 157 ملتان فور وہ حلقہ ہے جہاں شاہ محمود کے بیٹے شاہ زین نے پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کی امیدوار اور شاہ محمود کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کا پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسی گیلانی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے جب کہ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں پی پی 139 شیخوپورہ فائیو، پی پی 209 خانیوال سیون اور پی پی 241 بہاولنگر فائیو میں بھی اسی روز پولنگ ہوگی۔
    تاہم اتوار کو مجموعی طور پر ان 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں سب کی توجہ قومی اسمبلی کی ان سات نشستوں پر ہے جہاں عمران خان نے خود میدان میں اتر کر مخالفین کو بڑا چیلنج دیا ہے۔ خان صاحب اس فیصلے سے قوم سمیت اپنے تمام حریفوں کو یہ تاثر دینے میں تو کامیاب رہے ہیں کہ وہ کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وکٹ گنوانے کی پروا نہیں کرتے اس کے ساتھ ہی قوم کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ عمران خان اکیلے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کے مدمقابل ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ معرکہ سر کر سکیں گے؟ کہیں یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی جوا تو ثابت نہیں ہوگا؟ یہ سوالات اس لیے کہ یہ الیکشن ایسے موقع پر ہونے جا رہے ہیں کہ جب عمران خان کو تواتر کے ساتھ اپنی متنازع اور مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

    گو کہ اس وقت عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے نشانے پر ہیں، کئی مقدمات قائم جب کہ مزید بننے جا رہے ہیں، عدالتوں کے چکر بھی لگ رہے ہیں، خاص طور پر مبینہ آڈیو لیکس کے بعد مخالفین کے زبانی حملوں اور عملی اقدامات میں بھی تیزی آچکی ہے لیکن زمینی حقائق اور حالات کو دیکھا جائے تو ہر گزرتا دن یہ باور کراتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی ان کے مخالفین کی سب سے بڑی پریشانی ہے کہ جہاں حکمراں اتحاد بالخصوص ن لیگ کی قیادت اور رہنماؤں کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا ہے، وہ جہاں جاتے ہیں چور، چور کی صدائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر ن لیگی رہنما عوامی مقامات پر جانے سے گریز کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب مخالفین کے الزامات، مقدمات در مقدمات اور مبینہ آڈیو لیکس کے باوجود عمران خان کے جلسے اسی زور وشور سے بدستور جاری ہیں اور وہاں عوام پہلے کی طرح پرجوش انداز میں بڑی تعداد میں پہنچ رہی ہے، ایسے میں ایک جانب پی ٹی آئی کا مجوزہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اس سے قبل ضمنی الیکشن حکمرانوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ تاہم ایسے موقع پر پی ٹی آئی کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس کے مدمقابل وہ سیاسی قوتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاسی افق پر چھائی رہی ہیں اور انہیں سیاست کے تمام گُر آتے ہیں۔

    یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے تو ان 11 حلقوں میں وہ کیا خاص بات تھی کہ پہلے مرحلے میں ان کے استعفے منظور کرنے کا انتخاب کیا گیا؟ اگر 2018 کے انتخابی نتائج سامنے رکھے جائیں تو سب پر واضح ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ان حلقوں سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو باقاعدہ ہوم ورک کر کے ڈی سیٹ کیا ہے۔

    2018 کے عام انتخابات کے نتائج پر نظر دوڑائی جائے تو ضمنی الیکشن کا معرکہ لڑنے والے مذکورہ سات حلقوں میں سے 5 حلقے ایسے ہیں جہاں ہار جیت کا مارجن صرف چند سو سے زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار کے لگ بھگ رہا۔ اگر ان نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو عمران خان کیلیے 7 نشستیں جیتنا تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا کیونکہ 2018 میں ان کے مخالفین کے ووٹ منقسم تھے لیکن اس الیکشن میں تمام مخالف 12 یا 13 جماعتوں کا ووٹ اکٹھا ہے اور ہر حلقے میں عمران خان کا مقابلہ بھی پی ڈی ایم کے ایک ہی مشترکہ امیدوار سے ہوگا۔

    اگر عمران خان ان میں سے کچھ حلقے ہار جاتے ہیں تو حکومت اسے اپنی جیت قرار دے گی کیونکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد حکومتی اتحاد اس موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تاثر ختم کیا جائے اور اگر ان کے من پسند نتائج آئے تو حکومتی اتحاد کیلیے کو عوام کو متوجہ کرنے کے لیے ایک خوش کُن اور حوصلہ افزا بیانیہ مل سکتا ہے۔

    اگر عمران خان نے سات نشستیں جیت لیں تو پھر حکومتی اتحاد جس میں پہلے ہی دراڑیں‌ پڑی ہوئی ہیں، مزید دفاعی پوزیشن پر چلا جائے گا۔ اگر بھرپور جیت کے ساتھ ہی عمران خان نے اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا تو پھر ایک نیا سیاسی میدان سجے گا۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جہاں ضمنی الیکشن عمران خان اور حکومتی اتحاد کے لیے بڑا معرکہ ثابت ہوں گے وہیں ان کے نتائج کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے سیاسی صف بندیاں کہیں دور شروع بھی ہوچکی ہیں۔

  • ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    وزارتِ داخلہ کی ضمنی الیکشن اور سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کر دی ہے اور اب قومی اسمبلی کی 8 اور پنجاب اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی الیکشن اتوار 16 اکتوبر اور کراچی کے بلدیاتی الیکشن اتوار 23 اکتوبر کو مقررہ شیڈول کے تحت ہی منعقد ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ساتھ ہی ایک سوال نے بھی جنم لے لیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان جو قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہیں وہ یہ تمام نشستیں جیت کر اپنا ہی ایک ریکارڈ توڑ دیں گے اور نئی تاریخ رقم کرکے اپنے مخالفین کو بھی سرپرائز دے سکیں گے؟ یہ تاریخ رقم کرنا اس لیے ہو گا کہ اب تک کسی بھی سیاسی رہنما نے اب تک 7 نشستوں پر بیک وقت انتخاب نہیں لڑا ہے، اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور پھر عمران خان بیک وقت 5 حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 4 نشستوں کے فاتح اور ایک پر شکست کھائی تھی جب کہ عمران خان نے 2018 میں سیاست کے بڑے بڑے برج گراتے ہوئے تمام 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

    ان انتخابات میں عمران خان نے این اے 53 اسلام آباد سے ن لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، بنّوں 35 جے یو آئی ف کے اکرم درانی، این اے 243 سے ایم کیو ایم پاکستان کے علی رضا عابدی، ن لیگ کے مضبوط ترین گڑھ لاہور کی نشست این اے 131 سے موجودہ وفاقی وزیر سعد رفیق کو شکست دینے کے ساتھ میانوالی سے بھی قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔

    ملک میں بیک وقت اتنی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر غالباً پہلی بار ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات کا ڈھول اس وقت بجا جب موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی میں سے منتخب کردہ 11 ممبران کے استعفے منظور کیے تھے جن میں دو مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین کے استعفے بھی شامل تھے۔ استعفوں کی منظوری کے بعد 9 خالی نشستوں پر ستمبر میں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ تاہم ملک میں سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے 16 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔

    جن اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں این اے-22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے- 24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے- 31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے- 45 کرم ون سے فخر زمان خان، این اے-108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے-237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے-239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے-246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد شامل تھے۔ ان کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کیے گئے تھے۔

    9 حلقوں پر ضمنی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی کرائے، کچھ حلقوں میں اعتراضات کے بعد تمام حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے تاہم ان 9 انتخابی حلقوں میں سے دو حلقوں کراچی لیاری سے این اے 246 اور این اے 45 کرم ون کی نشستوں پر ضمنی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ این اے 246 لیاری کراچی سے منتخب عبدالشکور شاد کی جانب سے اپنے استعفے کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 246 لیاری کراچی کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا جب کہ این اے 45 کرم میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے باعث وہاں بھی پولنگ نہیں ہو رہی جس کے باعث اب ان سات حلقوں میں پولنگ ہوگی جہاں عمران خان کا براہ راست اپنے مخالفین سے ٹکراؤ ہو گا۔

    اس کے علاوہ حلقہ این اے 157 ملتان فور وہ حلقہ ہے جہاں شاہ محمود کے بیٹے شاہ زین نے پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کی امیدوار اور شاہ محمود کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کا پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسی گیلانی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے جب کہ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں پی پی 139 شیخوپورہ فائیو، پی پی 209 خانیوال سیون اور پی پی 241 بہاولنگر فائیو میں بھی اسی روز پولنگ ہوگی۔

    تاہم اتوار کو مجموعی طور پر ان 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں سب کی توجہ قومی اسمبلی کی ان سات نشستوں پر ہے جہاں عمران خان نے خود میدان میں اتر کر مخالفین کو بڑا چیلنج دیا ہے۔ خان صاحب اس فیصلے سے قوم سمیت اپنے تمام حریفوں کو یہ تاثر دینے میں تو کامیاب رہے ہیں کہ وہ کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وکٹ گنوانے کی پروا نہیں کرتے اس کے ساتھ ہی قوم کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ عمران خان اکیلے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کے مدمقابل ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ معرکہ سر کر سکیں گے؟ کہیں یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی جوا تو ثابت نہیں ہوگا؟ یہ سوالات اس لیے کہ یہ الیکشن ایسے موقع پر ہونے جا رہے ہیں کہ جب عمران خان کو تواتر کے ساتھ اپنی متنازع اور مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

    گو کہ اس وقت عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے نشانے پر ہیں، کئی مقدمات قائم جب کہ مزید بننے جا رہے ہیں، عدالتوں کے چکر بھی لگ رہے ہیں، خاص طور پر مبینہ آڈیو لیکس کے بعد مخالفین کے زبانی حملوں اور عملی اقدامات میں بھی تیزی آچکی ہے لیکن زمینی حقائق اور حالات کو دیکھا جائے تو ہر گزرتا دن یہ باور کراتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی ان کے مخالفین کی سب سے بڑی پریشانی ہے کہ جہاں حکمراں اتحاد بالخصوص ن لیگ کی قیادت اور رہنماؤں کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا ہے، وہ جہاں جاتے ہیں چور، چور کی صدائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر ن لیگی رہنما عوامی مقامات پر جانے سے گریز کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب مخالفین کے الزامات، مقدمات در مقدمات اور مبینہ آڈیو لیکس کے باوجود عمران خان کے جلسے اسی زور وشور سے بدستور جاری ہیں اور وہاں عوام پہلے کی طرح پرجوش انداز میں بڑی تعداد میں پہنچ رہی ہے، ایسے میں ایک جانب پی ٹی آئی کا مجوزہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اس سے قبل ضمنی الیکشن حکمرانوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ تاہم ایسے موقع پر پی ٹی آئی کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس کے مدمقابل وہ سیاسی قوتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاسی افق پر چھائی رہی ہیں اور انہیں سیاست کے تمام گُر آتے ہیں۔

    یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے تو ان 11 حلقوں میں وہ کیا خاص بات تھی کہ پہلے مرحلے میں ان کے استعفے منظور کرنے کا انتخاب کیا گیا؟ اگر 2018 کے انتخابی نتائج سامنے رکھے جائیں تو سب پر واضح ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ان حلقوں سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو باقاعدہ ہوم ورک کر کے ڈی سیٹ کیا ہے۔

    2018 کے عام انتخابات کے نتائج پر نظر دوڑائی جائے تو ضمنی الیکشن کے لیے مذکورہ سات حلقوں میں سے 5 حلقے ایسے تھے جہاں ہار جیت کا مارجن صرف چند سو سے زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار کے لگ بھگ رہا۔ اگر ان نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو عمران خان کیلیے 7 نشستیں جیتنا تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا کیونکہ 2018 میں ان کے مخالفین کے ووٹ منقسم تھے لیکن اس الیکشن میں تمام مخالف 12 یا 13 جماعتوں کا ووٹ اکٹھا ہے اور ہر حلقے میں عمران خان کا مقابلہ بھی پی ڈی ایم کے ایک ہی مشترکہ امیدوار سے ہوگا۔

    اگر عمران خان ان میں سے کچھ حلقے ہار جاتے ہیں تو حکومت اسے اپنی جیت قرار دے گی کیونکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد حکومتی اتحاد اس موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تاثر ختم کیا جائے اور اگر ان کے من پسند نتائج آئے تو حکومتی اتحاد کیلیے کو عوام کو متوجہ کرنے کے لیے ایک خوش کُن اور حوصلہ افزا بیانیہ مل سکتا ہے۔

    اگر عمران خان نے سات نشستیں جیت لیں تو پھر حکومتی اتحاد جس میں پہلے ہی دراڑیں‌ پڑی ہوئی ہیں، مزید دفاعی پوزیشن پر چلا جائے گا۔ اگر بھرپور جیت کے ساتھ ہی عمران خان نے اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا تو پھر ایک نیا سیاسی میدان سجے گا۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جہاں ضمنی الیکشن عمران خان اور حکومتی اتحاد کے لیے بڑا معرکہ ثابت ہوں گے وہیں ان کے نتائج کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے سیاسی صف بندیاں کہیں دور شروع بھی ہوچکی ہیں۔

  • نیوزی لینڈ کا فائنل میں پاکستان کو جیت کیلیے 164 رنز کا ہدف

    نیوزی لینڈ کا فائنل میں پاکستان کو جیت کیلیے 164 رنز کا ہدف

    کرائسٹ چرچ میں کھیلے جا رہے سہ فریقی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے فائنل میں میزبان نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 164 جیت کے لیے رنز کا ہدف دیا ہے۔

    پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے نیوزی لینڈ کو بیٹنگ کی دعوت دی، میزبان ٹیم 7 وکٹوں کے نقصان پر 163 رنز بنائے، کپتان کین ولیمسن 59 رنز بنا کر نمایاں رہے

    نیوزی لینڈ کی دونوں اوپنرز 41 کے مجموعی اسکور پویلین لوٹ چکے تھے تاہم کیوی بلے بازوں نے جارحانہ بیٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا، اوپنر فن ایلن 12 کے انفرادی اسکور پر محمد نواز اور ڈیون کانوے 14 کے انفرادی اسکور پر محمد حارث کا شکار بنے۔

    کپتان کین ولیمسن اور گلین فلپس کے درمیان 50 رنز کی پارٹنر شپ ہوئی، ٹیم کا مجموعہ 97 رنز پر پہنچا تو گلین فلپس 29 رنز بنا کر اپنے کپتان کا ساتھ چھوڑ گئے، انہیں شان مسعود نے محمد نواز کی گیند پر کیچ کیا۔

    کیوی ٹیم کا مجموعہ 134 پر پہنچا تو خطرناک بنتے کپتان کین ولیمسن کو قومی ٹیم کے نائب کپتان شاداب خان نے شان مسعود کے ہاتھوں کیچ کراکے پویلین کی راہ دکھائی، انہوں نے 38 گیندوں پر 59 رنز بنائے، مارک چیمپن 25 رنز بنا کر نسیم شاہ کا شکار بنے، جیمز نشام کو محمد رضوان نے رن آؤٹ کیا، اش سودھی کا وکٹوں کے پیچھے محمد رضوان نے حارث روؤف کی گیند پر کیچ تھاما۔

    پاکستان کی جانب سے حارث روؤف نے 22 اور نسیم شاہ نے 38 رنز دے کر دو دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، شاداب خان اور محمد نواز نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

    آج کے میچ میں قومی ٹیم میں ایک تبدیلی کی گئی ہے، محمد حسنین کی جگہ حارث رؤف کو شامل کیا گیا ہے۔

  • ویمنز ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ، سری لنکا نے پاکستان کو شکست دیدی

    ویمنز ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ، سری لنکا نے پاکستان کو شکست دیدی

    بنگلہ دیش میں کھیلے جا رہے ویمنز ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ میں سری لنکا نے پاکستان کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک رنز سے شکست دے دی۔

    سری لنکا کے 122 رنز کے جواب میں پاکستانی ٹیم مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 121 رنز بناسکی، آخری بال پر جیت کے لیے دو رنز درکار تھے تاہم اس موقع پر ندا ڈار دلہاری اور وکٹ کپیر سنجیونی کے گٹھ جوڑ کا شکار ہوکر رن آؤٹ ہوگئیں یوں پاکستانی ٹیم کی کشتی کنارے کے قریب آکر ڈوب گئی۔

    پاکستان کی جانب سے کپتان بسمہ معروف 42 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہیں، ندا ڈار نے 26 اور اوپنر منیبہ علی نے 18 رنز بنائے، سری لنکا کی جانب سے انوکا رانا ویرا نے دو جب کہ سگندیکا کماری اور کویشا دلہاری نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

    سری لنکا کی انوکا رانا ویرا کو میچ کی بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

    اس سے قبل سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 122 رنز بنائے، ہرشیتا سمارا 35 اور انوشکا سنجیونی 26 رنز بنا کر نمایاں رہیں، پاکستان کی جانب سے نشرح سندھو نے تین وکٹیں حاصل کیں، سعدیہ اقبال، ندا ڈار اور ایمن انور نے ایک ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

  • محمد رضوان اب بھی سب سے آگے

    محمد رضوان اب بھی سب سے آگے

    آئی سی سی نے ٹی ٹوئنٹی کی نئی رینکنگ جاری کردی ہے، پاکستانی وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان کی پہلی پوزیشن برقرار ہے۔

    آئی سی سی کی جانب سے جاری کردہ تازہ ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پاکستان کے وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان نے اپنی برتری برقرار رکھی ہے اور سہ فریقی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے آخری دو میچز میں بڑے اسکور میں ناکامی کے باوجود وہ 853 پوائنٹ کے ساتھ پہلی پوزیشن پر ہیں۔

    بھارت کے سوریا کمار اس فہرست میں دوسرے نمبر پر موجود ہیں اور ان کے پوائنٹس کی تعداد 838 ہے، قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم 808 پوائنٹ کے ساتھ اس فہرست میں تیسرے نمبر پر موجود ہیں۔

    جنوبی افریقہ کے ایڈم میکرم، نیوزی لینڈ کے ڈیوڈ کانوے چوتھی اور پانچویں پوزیشن سنبھالے ہوئے ہیں۔

    ٹی ٹوئنٹی کے بولروں اور آل راؤنڈرز کی ٹاپ ٹین فہرست میں کوئی پاکستانی کھلاڑی موجود نہیں ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: محمد رضوان نے قوم کا سر فخر سے بلند کردیا

    بولرز کی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں آسٹریلیا کے جوش ہیزل ووڈ پہلے، افغانستان کے راشد خان دوسرے اور سری لنکن گیند باز ونندو ہاسارنگا تیسرے نمبر پر ہیں۔

    آل راؤنڈرز کی جاری کردہ نئی فہرست میں افغانستان کے محمد نبی پہلی، بنگلہ دیش کے شکیب الحسن دوسری اور انگلینڈ کے معین علی تیسری پوزیشن پر براجمان ہیں۔