Author: ریحان خان

  • ’اسحٰق ڈار آئندہ ہفتے، نواز شریف عام انتخابات سے قبل پاکستان آئیں گے‘

    ’اسحٰق ڈار آئندہ ہفتے، نواز شریف عام انتخابات سے قبل پاکستان آئیں گے‘

    وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اسحٰق ڈار آئندہ ہفتے جب کہ نواز شریف عام انتخابات سے قبل پاکستان آئیں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق رانا ثنا اللہ نے یہ انکشاف لاہور میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران کیا، انہوں نے کہا کہ پارٹی نے درخواست کی تھی کہ اگلے الیکشن کی مہم میاں صاحب خود چلائیں اور نواز شریف نے آئندہ انتخابات کی مہم لیڈ کرنے کی پارٹی کی درخواست مان لی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل کر دیے تھے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے درخواست کی سماعت کی تھی، سابق اسحاق ڈار کے وکیل قاضی مصباح عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے اور استدعا کی اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے جائیں، وہ ایئر پورٹ پر اتر کر سیدھے عدالت پیش ہو جائیں گے۔

    اس سے دو روز اسحاق ڈار نے اشتہاری قرار دینے کیخلاف درخواست سپریم کورٹ سے واپس لے لی، جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے درخواست خارج کردی۔

    یہ بھی پڑھیں: اسحاق ڈار کے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل

    عدالت سے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل ہونے کے بعد پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے ردعمل دیتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا تھا کہ کل خبر آئی کہ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانے کا فیصلہ ہوگیا اور آج اسحاق ڈار کے وارنٹ گرفتاری معطل ہوگئے۔

  • یہ کتنی بطخیں ہیں؟ اب تک کی سب سے پرتجسس اور چلینجنگ تصویری پہیلی

    یہ کتنی بطخیں ہیں؟ اب تک کی سب سے پرتجسس اور چلینجنگ تصویری پہیلی

    سوشل میڈیا پر نت نئی پہیلیاں آتی رہتی ہیں آج ہم بھی آپ کے لیے ایک نئی ذہن الجھاتی لیکن پرتجسس پہیلی لائے ہیں تو دیکھ کر بتائیں تصویر میں کتنی بطخیں ہیں۔

    پہیلیاں بوجھنا صدیوں پرانی روایت ہے، بدلتے دور کے ساتھ اس روایت نے بھی جدت کو روپ دھار لیا ہے اور لوگوں سے پزل یعنی پہیلیاں نت نئے انداز میں بوجھی جاتی ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ چند سیکنڈز میں ہی اس کا جواب ڈھونڈ لیتے ہیں تو کبھی پہیلی بوجھتے بوجھتے ذہن الجھنے لگتا ہے لیکن جواب نہیں ملتا تو آج ایسی ہی ایک دماغی پزل ہم آپ کے لیے لائے ہیں، پرتجسس پہیلیوں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں بظاہر نظر آتا کچھ ہے اور حقیقت کچھ اور ہوتی ہے، تو پہلے زیر نظر تصویر دیکھیں اور بتائیں کہ اس میں کتنی بطخیں ہیں؟

    اگر آپ کا جواب ہے کہ تصویر میں 9 بطخیں ہیں تو آپ اس کا صحیح جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں، اب  تو آپ کو تجسس ہوگیا نا کہ اگر تصویر میں 9 بطخیں نہیں ہیں تو کتنی بطخیں ہیں؟ تب ہی تو آغاز میں کہا تھا کہ یہ دماغ الجھانے والی لیکن پرتجسس پہیلی ہے۔

    دوبارہ دیکھیں اور اپنی دماغی صلاحیتوں کو پروان چڑھائیں، کیا اب بھی نہیں جان سکے کہ تصویر میں کتنی بطخیں ہیں تو چلیں ہم بتا دیتے ہیں اسکرول کریں۔

    یہاں ہر تصویر میں بطخوں کی گنتی ہے۔

    1-1 بطخ
    2-2 بطخ
    3-2 بطخیں
    4-2 بطخیں
    5-2 بطخیں
    6-2 بطخ
    7-3 بطخ
    8-1 بطخ
    9-1 بطخ

    مجموعی تعداد = 16 بطخیں۔

    جی ہاں تصویر میں حقیقت میں 16 بطخیں موجود ہیں۔ کیا آپ کا ذہن ابھی بھی الجھا ہوا ہے کہ جب 9 بطخیں نظر آ رہی ہیں تو 16 کیسے ہوگئیں؟ اگر ایسا ہے ایک بار پھر نیچے جاکر تصویر دیکھیں جس کے بعد ہم آپ کا یہ ابہام بھی دور کرتے ہیں۔

    اب تصویر میں ہر بطخ کے ساتھ جو ہندسہ لکھا ہے ان تصاویر کے باہمی فرق کو غور سے دیکھیں تو آپ کا یہ تجسس ختم ہوجائے گا اور حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ تصویر میں حقیقت میں 16 بطخیں ہی موجود ہیں۔

  • پاکستان کو سیلابی  پانی میں  ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان کو سیلابی پانی میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان میں تاریخ کے تباہ کن سیلاب کے بعد ایک بار پھر ڈیموں کی تعمیر بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ مقتدر اور بااختیار حلقوں کی جانب سے بھی کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔

    حالیہ سیلاب کو اس لحاظ سے تاریخ کا تباہ کن سیلاب کہا جارہا ہے کہ یہ دریائی سیلاب نہیں جو گلیشیئر پگھلنے سے ملک کے طول وعرض میں تباہی پھیلاتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں بالخصوص زیریں اور وسطی علاقوں میں غیر معمولی طوفانی بارشیں ہوئیں اور ایک بڑا حصّہ سیلاب کی زد میں‌ آگیا۔ ان غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں ملک کا 70 فیصد حصّہ زیر آب آگیا ہے، ہزاروں افراد اس سیلاب کی نذر ہوگئے، لاکھوں مویشی پانی میں بہہ گئے، لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اور فصلیں تباہ اور گھر برباد ہوگئے ہیں‌ جس سے لوگ متاثر جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جب کہ سیلاب کے بعد اب وہاں پھوٹنے والے وبائی امراض ان غریبوں کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے امتحان بن کر آئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی دنیا بھر سے امداد کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہر چند سال بعد سیلاب اور تباہی کے بعد اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ملک و قوم کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ڈیمز کیوں نہیں بنائے جا رہے ہیں؟

    حالیہ سیلاب کے بعد صدر مملکت عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ڈیم کی تعمیر سے متعلق بیانات میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔

    صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کیلیے ڈیم وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، صوبوں میں اعتماد فروغ دے کر کالا باغ ڈیم کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقے دادو کے دورے کے موقع پر کہا کہ سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان میں مزید بڑے ڈیمز بنانا پڑیں گے اور پانی سے بجلی بھی بنائی جاسکے گی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ ڈی آئی خان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چھوٹے ڈیموں کی فوری تعمیر کی ضرورت پر زور دیا۔ صرف حکام نہیں بلکہ اب ملک کے مختلف حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دینے لگی ہے کہ ڈیم وقت کی ضرورت ہیں اور اگر ہم نے ڈیم بنا لیے ہوتے تو شاید اتنی تباہی نہ ہوئی ہوتی۔

    یوں تو پاکستان میں اس وقت 150 ڈیم اور دیگر آبی ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس دنیا کے دو بڑے ڈیم، تربیلا اور میرانی ہیں۔ ہری پور ضلع میں تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ پر بنایا گیا تربیلا ڈیم حجم کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور مٹی سے بنا ہوا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ بلوچستان میں دریائے دشت پر قائم میرانی ڈیم سیلاب سے بچاؤ کے لیے حجم کی بنیاد پر سب سے بڑا ڈیم ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مشہور ڈیموں میں منگلا، راول ڈیم، وارسک ڈیم، نیلم جہلم ڈیم، حب ڈیم، نمل ڈیم، گومل زام ڈیم اور زیرِ تعمیر دیامر بھاشا ڈیم شامل ہیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں مہمند ڈیم سمیت 10 دیگر چھوٹے آبی ذخائر کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تھا جن کی تکمیل 2028 تک متوقع ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق 22 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ آبی ذخائر ناکافی ثابت ہوں گے۔

    اس کے برعکس ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت پر نظر ڈالیں تو وہاں 5 ہزار سے زائد ڈیمز موجود ہیں جب کہ مزید کئی تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ بھارت کے دریائے چناب پر منصوبوں بہلگہار، دولہستی، سلال، پاکل دول، کیرتھاری، برساسر، سوالکوٹ، رتلے، کروار، جیپسا ملا کر 17 پروجیکٹ ہیں، جس میں دریائے جہلم پر کشن گنگا قابل ذکر ہے۔ دریائے سندھ سمیت مغربی دریاؤں پر بھارت کے ہائیڈرو پاور کے 155 کے قریب چھوٹے اور بڑے منصوبے ہیں۔ بھارت ان منصوبوں کی وجہ سے چناب کا پانی روک سکتا ہے اور جب چاہے چھوڑ سکتا ہے اور یہ پانی سیلاب کی صورت میں ہر چند سال بعد پاکستان میں داخل ہو کر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

    پاکستان میں جب بھی نئے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے ذہنوں میں کالا باغ ڈیم کا ہی نام آتا ہے، جو کہ اپنی تعمیر کے آغاز سے قبل ہی متنازع ہو کر اب تک صرف فائلوں کی زینت بنا رہا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اس ڈیم پر کیا تنازعات ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کالا باغ ڈیم منصوبہ ہے کیا؟

    مجوزہ کالا باغ ڈیم میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر بننا ہے۔ ’’کالا باغ‘‘ میانوالی سے 20 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قصبے میں قیام پاکستان سے قبل کیلوں کے بہت سارے باغات تھے جو دور سے سیاہ رنگ کے بادل لگتے تھے اور اپنے اس پیش منظر کے باعث ہی اس جگہ کا نام کالا باغ پڑ گیا۔ اس مقام پر دریائے سندھ ایک قدرتی ڈیم کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف پہاڑیوں کا سلسلہ ہے اور دریا کے آگے صرف ایک دروازہ لگا کر اسے ڈیم کی شکل دی جاسکتی ہے۔

    اس ڈیم کے لیے پہلا سروے برطانوی حکومت نے 1873 میں کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948 میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کیا گیا جسے جناح بیراج کہا جاتا ہے ایوب دور میں دیگر آبی منصوبے تعمیر کیے گئے لیکن کالا باغ کا منصوبہ کاغذات کی حد تک رہا جس پر جنرل ضیا الحق کے دور میں کام شروع ہوا لیکن وہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچا۔

    سابق صدر ضیا الحق کے دور حکومت میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے 1983 میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق ڈیم کی اونچائی 925 فٹ، پانی کی اسٹوریج 6.13 ملین ایکڑ فٹ ہوگی، 50 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا اور سستی ترین 5 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ لگ سکتا تھا۔ اسی دور حکومت میں کالا باغ کے منصوبے کی تعمیر کیلیے دفاتر تعمیر کیے گئے، روڈ بنائے اور مشینری لگائی گئی۔ لیکن پھر کئی دہائیاں گزر گئیں اور یہ سب کچھ اب تباہ ہوچکا ہے۔

    اب آتے ہیں کالا باغ ڈیم منصوبے پر تنازع اور اس کے بعد اب تک اس کی تعمیر نہ ہونے کے موضوع پر۔ جب کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا تو برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی جس نے سیٹلائٹ ایمیجنگ کے لیے علاقے میں عمارتوں کی چھتوں پر نشانات لگائے تاکہ ریسرچ اسٹڈی مکمل کرکے تعمیر شروع کی جاسکے، جس کے بعد نوشہرہ ڈوبنے کی جھوٹی افواہ اڑائی گئی۔ یوں پاکستان دشمنوں کو یہ جھوٹا پروپیگنڈہ مفت میں مل گیا اور اسی کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا گیا، تب سے یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں کہ کالا باغ ڈیم بنا تو صوبے کے شہر نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، مردان اور پبی ڈوب جائیں گے، اس کے ساتھ ہی سندھ نے کہنا شروع کردیا کہ اس ڈیم کے بننے سے سندھ بنجر ہو جائے گا۔

    ضیا دور میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) نے اعتراض اٹھایا کہ اس ڈیزائن سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، اعتراض دور کرنے کیلیے ڈیم کی اونچائی کم کر کے 925 سے 915 فٹ کردی گئی، اس صوبے کی بات مانی گئی تو سندھ نے اعتراض کر دیا کہ پنجاب سندھ کو پانی کا حصہ نہیں دے گا۔ اس اعتراض کو دور کرنے کیلیے صوبوں کو پانی کی تقسیم کے قابل عمل معاہدے پر راضی کیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ سے پنجاب 37 فیصد، سندھ 33، کے پی کے 14 اور بلوچستان 12 فیصد پانی لیں گے۔

    یہ دو بڑے اعتراضات دور کرنے کے بعد بھی بات آگے نہ بڑھی اور کالا باغ ڈیم منصوبہ وقت کے ساتھ ساتھ تیکنیکی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ قوم پرست جماعتوں نے قومی مفاد کی آڑ میں ذاتی سیاست چمکانے کے لیے اس کا نام استعمال کر کے یہ ڈیم نہیں بننے دیا اور جنرل ضیا بھی کالا باغ ڈیم بنانے کا خواب لیے دنیا سے چلے گئے۔ 1999 میں اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف نے کالا سمیت چھ بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ڈیم نہیں بنائیں گے تو مرجائیں گے لیکن طاقت ہونے کے باوجود وہ بھی اس خواب کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔

    دنیا بھر کے ماہرین یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ اس ڈیم سے نوشہرہ اور مردان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے سندھ کی زمینیں بھی متاثر نہیں ہوں گی۔ وہ یوں کہ کالا باغ ڈیم کا سب سے اونچا حصہ 915 فٹ ہے یعنی ڈیم مکمل بھر بھی جائے تو کسی شہر کو نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ڈیم سے نوشہرہ کا نچلا ترین حصہ 25 فٹ بلند، چار سدہ کا نچلا ترین حصہ 40 فٹ، پبی کا 45 فٹ، مردان کا 55 اور صوابی کا نچلا ترین حصہ 85 فٹ بلند ہے۔ جو کالا باغ ڈیم کی بلند ترین سطح سے کہیں زیادہ اونچے ہیں اور ان کے ڈوبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    ماہرین کے مطابق میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جب کہ نوشہرہ کی بلندی 889 فٹ بلند ہے، ڈیم کی تعمیر سے کل 27 ہزار 500 ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا، جس میں پنجاب کا کل رقبہ 24500 ایکڑ پنجاب جب کہ کے پی کے کا صرف 3 ہزار ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا یعنی یہ ڈیم بنا تو نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب سے ہی ہوگی۔

    اس وقت پاکستان کے تین بڑے ڈیمز تربیلا، منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ جب کہ کالا باغ تنہا چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرسکتا ہے، 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب، سالانہ 15 ارب ڈالر کی زرعی پیداوار ملے گی جب کہ زرعی اجناس میں ملک خود کفیل ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں درآمدات میں کمی اور برآمدات کے اضافے کے ساتھ ایک لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ ڈیم کے قریبی علاقوں میں درجۂ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔

    کے پی کے اور پنجاب کے جنوبی علاقے سندھ کے زیریں اور بلوچستان کے مشرقی حصے ڈیم کے پانی سے قابل کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔ کے پی کے، کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان کو مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی، سندھ کو اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملے گا، جس سے سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس بجھ سکتی ہے اور 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ بلوچستان کو اس سے 15 لاکھ ایکڑ پانی اضافی مل سکتا ہے، مشرقی بلوچستان کا سات لاکھ ایکڑ رقبہ اضافی سیراب ہوسکے گا۔

    پاکستان میں جو بھی حکومت آئی، اُس نے یہ کہا کہ کالا باغ ڈیم ضرور بننا چاہیے کیونکہ یہ قومی مفاد میں ہے، لیکن جیسے ہی اس منصوبے کی بازگشت شروع ہوتی ہے تو اس کے مخالف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر احتجاج، دھرنوں، دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور شاید ڈیم کے مخالف حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں کہ تمام حکومتوں نے اُن کے آگے سر جھکایا اور اس پر عمل درآمد سے باز رہیں۔ پاکستان کے تین صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔ بلوچستان کا براہ راست اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں مگر صوبے کا یہ موقف ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتے ہیں، اس لیے معاملے میں سندھ کے موقف کی تائید کریں گے۔

    سیاسی اور علاقائی مخالفتوں کے علاوہ اس منصوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وہ عالمی قانون برائے تقسیم آب ہے جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصے پر موجود فریق کا یہ قانونی اور قدرتی حق ہے کہ اس تک پانی کی ترسیل ممکن رہے اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصے پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں، البتہ اس قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتا تو بند کی تعمیر ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

    پانی کے ضیاع کے حوالے سے آبی ماہرین کہتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب میں پانی کا بہاؤ 100 ملین ایکڑ فٹ تھا جو 12 خالی ڈیموں کو بھرنے کے لیے کافی تھا، ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے گزر کر سمندر میں چلا جاتا ہے اس سے کالا باغ جیسے 6 ڈیم بھرے جاسکتے ہیں۔

    یہاں یہ سوچنے کی بات ضرور ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بنانے پر کچھ ملک گیر سیاسی جماعتیں اور کچھ قوم پرست یک زبان ہو کر اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ڈیم کو تین صوبوں کو بنجر بنانے کا منصوبہ قرار دے کر اسے متنازع بنا دیا جاتا ہے لیکن بھارت نے پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر 14 ڈیم بنائے اور مزید بنانے جا رہا ہے، جس پر یہ جماعتیں کوئی آواز بلند نہیں کرتیں، کیا وہاں سے ہنگامی صورت میں پانی پاکستان میں نہیں داخل ہوتا؟

    امریکا کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد 900 دن ہے۔ آسڑیلیا کی 600 دن اور بھارت کی 170 دن ہے جب کہ پاکستان کی صرف 30 دن کی ہے اور منگلا تربیلا بالترتیب اپنی 20 سے 35 فیصد پانی ذخیرہ کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ اس لیے کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ کیونکہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ’پانی کی شدید قلت‘ کا سامنا ہے جس کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

    پاکستان میں اس وقت ایک بڑا ڈیم دیامر بھاشا زیرتعمیر ہے دیگر چھوٹے ڈیموں‌ کے منصوبے بھی زیر غور یا ان پر کام شروع ہونا ہے لیکن اس سے ملک میں‌ پانی کی ضرورت پوری نہیں‌ ہوسکتی اور یہ آبی وسائل ناکافی ہیں۔ اس لیے اب ہمیں کالا باغ ڈیم کی طرف بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے قومی سطح‌ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان کی ترقی کی سوچ کے ساتھ اس حوالے سے آگے بڑھنا ہو گا اور جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلتا ہمیں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ تیز کرنا ہوگا۔

    اس وقت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے لیکن پاکستان اس کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ ماہرین ارضیات اور موسمیات اس حوالے سے پیشگوئی کرچکے ہیں کہ آنے والے برسوں میں مون سون مزید شدت اختیار کرے گا، دوسرے معنوں میں زیادہ تباہی لائے گا۔ اب یہ مسند اقتدار پر براجمان سیاست دانوں اور بااختیار افراد اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے ملک اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے آگے بڑھیں اور کالا باغ سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی جائے۔

    اگر اب بھی ذاتی خواہشات اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفاد میں فیصلے نہیں کیے تو ہمارا جو انجام ہو گا، اس سے خبردار کرنے کے لیے ہم شاعر مشرق علامہ اقبال یہ شعر (معمولی ردوبدل کے ساتھ) یہاں رقم کررہے ہیں…

    نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستانیو!
    تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

  • آئی فون 14 حادثے کی صورت مددگار ثابت ہوگا؟

    آئی فون 14 حادثے کی صورت مددگار ثابت ہوگا؟

    امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے آئی فون کے نئے ماڈل لانچ کر دیے ہیں، آئی فون 14 کی خاص بات یہ ہے کہ یہ حادثے کی صورت میں آپ کا ہنگامی سیٹلائیٹ سے رابطہ کرا دے گا۔

    امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے آئی فون کے نئے ماڈل لانچ کر دیے ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے فون کی قیمت کو کم رکھنے کی کوشش کی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق گزشتہ شب رواں سال کی سب سے بڑی لانچ میں ایپل کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز میں منعقدہ تقریب کے دوران نئے فون کے چار ورژن متعارف کروائے گئے ہیں جس میں آئی فون 14 دو سائز میں متعارف کروایا گیا ہے یعنی معمول کے آئی فون 14 اور بڑی سکرین یا ڈسپلے کے ساتھ آئی فون 14 پلس۔

    کمپنی نے اس بار اپنی مصنوعات کی توجہ نئی تکنیکی چیزوں کو مزید خوبصورت انداز میں پیش کرنے کے بجائے اس کے حفاظتی نظام کو بہتر بنانے پر مرکوز کی ہے۔ اور آئی فون 14 کی رونمائی کے دوران دکھایا گیا کہ نئے فون میں ایمرجنسی سیٹلائیٹ کنکٹیویٹی اور کار کریش ڈیٹیکشن ٹیکنالوجی بھی موجود ہے۔

    عالمی وبا کے بعد منعقد کی گئی یہ پہلی لانچنگ تقریب تھی جس میں عوام کو بھی شریک ہونے کی اجازت تھی، تقریب میں ایپل نے دی واچ الٹرا کی بھی رونمائی کی لیکن لوگوں کی توجہ کا مرکز نیکسٹ جنریشن کے آئی فون اور ایئر پاڈ ہی رہے۔

    تقریب میں دکھائی گئی پریزنٹیشن پہلے سے ریکارڈ شدہ تھی تاہم سٹیج پر ایپل کے سی ای او ٹم کک موجود تھے۔

    نئے آئی فون کی قیمت وہی رکھی گئی ہے جو گزشتہ برس آئی فون 13 کی تھی، تاہم رواں سال آئی فون نے اپنے سب سے کم قیمت ’آئی فون منی‘ کو لانچ نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ اب آئی فون 14 کی کم سے کم قیمت بھی گذشتہ برس کے ’آئی فون منی‘ کی قیمت سے سو ڈالر زیادہ ہو گی۔

    آئی فون 14 کی قیمت 799 ڈالر سے شروع ہو گی اور آئی فون 14 پلس کی قیمت 899 ڈالر ہو گی۔ علاوہ ازیں آئی فون پرو 999 ڈالر جبکہ آئی فون پرو میکس کی قیمت 1099 ڈالر ہوگی۔

  • قومی ٹی ٹوئنٹی کپ سیمی فائنل، سندھ کے انور علی نے سینٹرل پنجاب کے جبڑوں سے فتح چھین لی

    قومی ٹی ٹوئنٹی کپ سیمی فائنل، سندھ کے انور علی نے سینٹرل پنجاب کے جبڑوں سے فتح چھین لی

    قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں سندھ کے انور علی نے سینٹرل پنجاب کے منہ سے فتح چھین کر اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچا دیا۔

    ملتان میں کھیلے جا رہے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں سندھ کے انور علی نے اننگ کے 19 ویں اوور میں 24 رنز بٹور کر سینٹرل پنجاب کے جبڑوں سے فتح چھین کر اپنی ٹیم کو فائنل میں پہنچا دیا جہاں آج اس کا مقابلہ دفاعی چیمپئن خیبرپختونخوا سے ہوگا۔

    سندھ اور پنجاب کے مابین قومی ٹی ٹوئنٹی کپ کے دوسرے سنسنی خیز سیمی فائنل میں 180 رنز کے پہاڑ جیسے ہدف کے تعاقب میں 17 ویں اوور میں سندھ کی 5 ویں وکٹ 143 رنز کے مجموعی اسکور پر گری تو میچ کے مرد بحران انور علی آؤٹ ہوکر پویلین لوٹنے والے دانش عزیز کی جگہ کریز پر آئے۔

    میچ کے اٹھارویں اوور کے اختتام پر سندھ کا مجموعی اسکور 155 رنز تھا اور اسے جیت کے لیے 12 گیندوں پر 25 رنز درکار تھے، عمیر بن یوسف 33 گیندوں پر 44 رنز بناکر موجود تھے جب کہ انور علی 8 گیندوں پر 9 رنز بناکر 19 ویں اوور میں سینٹرل پنجاب کے فاسٹ بولر احمد دانیال کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے اور پھر وہ کچھ ہوا جو مخالف ٹیم اور گراؤنڈ میں موجود تماشائیوں کو حیران کرگیا۔

    احمد دانیال نے اننگ کے انیسویں اوور کی پہلی لو فل ٹاس گیند کرائی جس کو پلک جھپکتے میں انور علی نے باؤنڈری سے باہر کی راہ دکھا دی۔ انور علی نے بولر کی دوسری اور تیسری گیند پر دو بلند وبالا چھکے مار کر مخالف ٹیم کے چھکے چھڑا دیے، جس کے بعد مخالف ٹیم کی پریشانی جب کہ سندھ کے کیمپ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جب کہ تماشائیوں میں بھی سنسنی دوڑ گئی۔

    اس مرحلے مییں گیندیں اور مطلوبہ رنز برابر یعنی 9 گیندوں پر 9 رنز درکار تھے، چوتھی گیند انور علی نے ایک رنز لیا، اوور کی پانچویں گیند پر عمیر نے سنگل رن لے کر اسٹرائیک دوبارہ انور علی کے حوالے کی، اوور کی آخری گیند کو انور علی نے ایک بار پھر فضا میں اچھال دیا اور چھکے کے ساتھ دونوں ٹیموں کا اسکور برابر ہوگیا۔

     

    آخری اوور کی دوسری گیند پر عمیر نے چھکا جڑ کر ٹیم کو حتمی فتح سے ہمکنار کیا۔ انور علی نے ناقابل شکست رہتے ہوئے 13 گیندوں پر جارحانہ 32 رنز بنائے اور میچ کے ہیرو قرار پائے، جب کہ عمیر یوسف نے 36 گیندوں پر نصف سنچری بناکر ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

    اس سے قبل سینٹرل پنجاب نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 179 رنز اسکور کیے تھے، اوپنر فیضان خان نے 31 گیندوں کا سامنا کرکے نصف سنچری اسکور کی جب کہ تجربہ کار بلے باز شعیب ملک 10 گیندوں پر صرف 9 رنز بناسکے۔

    سندھ کی جانب سے زاہد محمود نے بہترین بولنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کوٹے کے 4 اوورز میں 20 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

    قومی ٹی ٹوئنٹی کا فائنل آج شام ملتان میں دفاعی چیمپئن خیبر پختونخوا اور سندھ کے درمیان کھیلا جائیگا۔

  • ’عمران خان نے سیلاب متاثرین کیلیے ایک بار پھر 5 ارب روپے جمع کرلیے‘

    ’عمران خان نے سیلاب متاثرین کیلیے ایک بار پھر 5 ارب روپے جمع کرلیے‘

    سابق گورنر سندھ اور پی ٹی آئی رہنما عمران اسماعیل نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان نے سیلاب متاثرین کے لیے ایک بار پھر 5 ارب روپے جمع کرلیے ہیں۔

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق گورنر سندھ نے پارٹی سربراہ کی سیلاب متاثرین کے لیے گزشتہ روز ہونے والی ٹیلی تھون سے متعلق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اظہار خیال کیا ہے۔

    سابق گورنر نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ عمران خان نے سیلاب متاثرین کیلئے ایک بار پھر5 ارب جمع کرلیے، ٹی وی چینلز کا بلیک آؤٹ کرنا شرمناک عمل ہے۔

    عمران اسماعیل نے مزید کہا کہ سیلاب زدگان کی مدد پر بھی امپورٹڈ حکومت اور سہولت کار خوف کا شکار ہیں، لیکن عمران خان کا راستہ روکنے والے ہرجگہ ناکام ہونگے۔

     

    سابق گورنر سندھ نے اپنے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ مجرموں پر مشتمل امپورٹڈ حکومت نے گزشتہ شب سیلاب متاثرین کیلیے عطیات جمع کرنے کے حوالے سے منعقدہ ٹیلی تھون کی نشریات رکوا کر نئی سطح تک گراوٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پہلے انہوں نے چینلز پر ٹیلی تھون نہ دکھانے کے حوالے سے دباؤ ڈالا اور اس کے باوجود جب انہوں نے نشریات جاری رکھیں تو۔۔۔۔

     

    واضح رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے گزشتہ روز ایک بار پھر سیلاب متاثرین کے لیے انٹرنیشنل ٹیلی تھون کی جس میں اوورسیز پاکستانیوں نے دل کھول کر امداد دی ہے۔

    اےآروائی نیوز پر عمران خان کی سیلاب متاثرین کیلئے انٹرنیشنل ٹیلی تھون براہ راست نشر کی جارہی تھی کہ پیمرا کی جانب سے اےآروائی نیوز کو کیبل پر بند کر دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: ٹیلی تھون، اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے لاکھوں ڈالر جمع

    یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ عمران خان کی براہ راست گفتگو نشر کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ اس سے قبل بھی عمران خان کا لائیو خطاب نشر کرنے والے ٹی وی چینلز کو بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

  • سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے، نصف سے زائد ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے، ایک ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہارچکے ہیں۔ لاکھوں گھر پانی میں بہہ گئے ہیں اور دوسری عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ لوگوں کی جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی ہے۔ ملک بھر میں‌ لاکھوں خاندان کھلے آسمان تلے آگئے ہیں۔ یہ المیہ اتنا بڑا ہے کہ نہ تو کوئی قلم اسے پوری طرح ضبطِ تحریر میں لاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی کیمرہ اس کی مکمل عکس بندی کرسکتا ہے۔

    وزارت ماحولیات تبدیلی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب سے ملکی معیشت کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 10 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ملک کا 70 فیصد حصہ زیر آب ہے اور پاکستان کے جنوبی حصوں میں کئی مقامات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اموات کی تعداد 1500 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ جب کہ 3 ہزار سے زائد زخمی رپورٹ ہوئے ہیں۔ دریاؤں میں اب تک اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ 10 لاکھ سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی متاثر ہے۔ متاثرہ علاقوں میں 5 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ 243 پل تباہ ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہوا ہے، سندھ کا 90 فیصد اور ملک کی کل فصلوں کا 45 فیصد حصہ زیر آب ہے۔

    یہ تو سرکاری رپورٹ ہے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق سیلاب سے جانی نقصان مذکورہ اعداد وشمار سے کئی گنا زیادہ ہوسکتا ہے اور اس کا اصل اندازہ سیلاب اترنے کے بعد ہی ہوسکے گا کیونکہ اب تک 100 فیصد سیلاب متاثرہ علاقہ رپورٹ نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے عالمی، ملکی اور عوامی سطح پر امدادی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ اس دوران بعض صاحب اقتدار لوگوں کی جانب سے اسے عذاب الہٰی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جس پر سوال اٹھ رہا ہے کہ ہر چند سال بعد یہ عذاب الہٰی صرف غریب عوام پر ہی کیوں ٹوٹتا ہے؟

    ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ملک کو سیلابی پانی نے گھیرا ہو۔ اس سے قبل بھی کئی بار سیلاب آئے اور تباہی کی ایک داستان رقم کرکے چلے گئے۔ اس وقت بھی مسندِ اقتدار پر براجمان افراد نے پھرتیاں دکھائیں، امدادی سرگرمیاں ہوئیں، بین الاقوامی امداد آئی، پھر وقت گزرا اور سب لوگ حسب روایت بھول بھال کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں مصروف ہوگئے لیکن یہاں جن کی ذمے داری تھی یعنی صاحبان اقتدار، انہوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل میں ایسی آفات سے نمٹنے کیلیے کوئی جامع منصوبہ بندی کی۔

    مون سون کے آغاز سے کئی ماہ قبل ہی محکمہ موسمیات نے فروری، مارچ میں حکومت سمیت ریلیف کے تمام اداروں کو آگاہ کردیا تھا کہ اس بار ملک میں مون سون نہ صرف طویل ہوگا، بلکہ معمول سے کئی گنا زائد اور شدید طوفانی بارشیں ہوسکتی ہیں، جس سے شہری و دیہی علاقے سیلاب کی زد میں آسکتے ہیں اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پیشگوئی کے بعد حکومت اور اس سے جڑے ادارے حرکت میں آجاتے اور پیشگی اقدامات شروع کردیتے تو شاید تباہی آج اپنی انتہا پر نہ ہوتی اور آسمان سے برستا جل اس ملک کے غریبوں کے لیے شاید فرشتہ اجل ثابت نہ ہوتا، لیکن اس وقت تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کرسی، سیاست، اکھاڑ پچھاڑ تھی تو اس جانب کیا توجہ دی جاتی۔

    جون میں برساتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو جولائی تک ملک کے بیشتر حصوں میں پھیل گیا طوفان اور سیلاب نے سب سے پہلے صوبہ بلوچستان کو اپنا ہدف بنایا جہاں ہر چیز خس وخاک کی طرح اس سیلابی ریلے میں بہہ گئی، لیکن یہ ہماری روایتی بے حسی کہہ لیں جب بلوچستان ڈوب رہا تھا، لاشیں کیچڑ میں لت پت مل رہی تھیں، ماؤں کے سامنے ان کے بچے سیلابی ریلوں میں بہہ کر جارہے تھے اور وہ اپنے جگر گوشوں کو بچانے کیلیے کچھ بھی نہیں کر پارہے تھے، اس وقت بھی ہمارا معاشرہ روایتی بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہا تھا جب کہ میڈیا بھی سیاسی رنگینیوں کی داستانیں سناتے ہوئے تھک نہیں رہا تھا، سیلاب کی تباہی پر حکومت وقت کی نظر اس وقت پہنچی جب پانی اپنی راہ بدل کر سندھ اور جنوبی پنجاب میں داخل ہورہا تھا اس کے بعد جب پانی خیبر پختونخوا میں بپھرا تو انسانی جانوں کے ساتھ وادی سوات کا سارا حسن بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔

    یہ تباہی اتنی بڑی تھی کہ صدر مملکت، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو عالمی برادری سے امداد کی اپیل کرنی پڑی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی اقوام عالم سے پاکستان کی امداد کی اپیل کرچکے۔ چین، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای، ایران، امریکا، کینیڈا، قطر سمیت دیگر ممالک نے انسانی بنیادوں پر مدد شروع کر بھی دی اس کے ساتھ حکومت سمیت پاک فوج، رینجرز، دیگر اداروں نجی سطح پر بھی امداد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، سابق وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی تھون کرکے دنیا بھر سے ساڑھے پانچ ارب سے زائد رقم جمع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دعوت اسلامی، جے ڈی آئی، الخدمت فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، تحریک لبیک پاکستان سمیت دیگر سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور لوگ انفرادی سطح پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ آج ملک میں جو تباہی پھیلی ہے یہ یقیناً قدرتی آفت تو ہے لیکن کیا حکومت جس کی بنیادی ذمے داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے، کیا وہ اس آفت سے نمٹنے کیلیے پیشگی اقدامات نہیں کرسکتی تھی؟ کہ اگر اس سے مکمل بچا نہ جاسکتا تھا تو نقصان کا حجم کم تو کیا جاسکتا تھا یا کم از کم ایسے اقدامات کیے جاسکتے تھے کہ جس سے انسانی جانوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

    یوں تو چاروں صوبے ہی کسی نہ کسی طرح سیلاب سے متاثر ہیں لیکن سندھ اور بلوچستان میں جو المیے جنم لے رہے ہیں اس سے ہر حساس دل تڑپ رہا ہے، یہ دور سوشل میڈیا کا ہے جہاں کوئی بات چھپ نہیں پاتی ہے، ملکی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایسے ایسے المناک مناظر سامنے آرہے ہیں جسے دیکھنے والی ہر انسانی آنکھ نم ہورہی ہے۔ الہٰی یہ کیسی تباہی ہے کہ جنازے تو ہیں لیکن انہیں دفنانے کیلیے خشک زمین میسر نہیں، لیکن ان حالات میں جب کروڑوں لوگ بے کس و بے بس بنے ہوئے ہیں اس ملک میں ضمیر فروشوں کی بھی کمی نہیں ہے، اول تو اشیائے ضرورت دستیاب نہیں ہیں اگر ہیں تو ان کی قیمتیں اتنی بلند کردی ہیں کہ آسمان بھی اس کے آگے نیچا دکھائی دینے لگا ہے، صرف اسی پر بس نہیں ضمیر فروش ملنے والی امداد پر بھی قابض ہورہے ہیں جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں وائرل ہوکر اس ملک کا مذاق بنوا رہی ہیں۔

    اس وقت سیلاب متاثرہ لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بھوک اور پیاس، کپڑے، سر چھپانے کیلیے عارضی پناہ گاہیں ہیں کئی رپورٹس کے مطابق بعض جگہوں پر تو سیلاب متاثرین بے لباس بیٹھے ہیں، اس سے زیادہ حیوانیت کہاں ملے گی کہ جب ہر طرف قیامت صغریٰ کا منظر تھا وہاں انسانیت کے دعویدار حیوان نما انسان بنت حوا کی روٹی کے بدلے عزت اتار رہے ہیں سانگھڑ میں ایک خاتون کو راشن دینے کے نام پر دو دن تک اس کی عصمت دری کی گئی میڈیا میں خبر آنے پر ملزمان پکڑے گئے لیکن کیا اس قیامت خیز منظر نامے میں ایسا انسانیت سوز واقعہ ہونا چاہیے تھا؟ وزرا، سیاستدانوں اور وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کیلیے عارضی بند بناکر پانی کا رخ غریبوں کی بستیوں کی جانب موڑ دیا جس نے تباہی میں مزید اضافہ کیا۔

    حکومت اور سیاستدانوں کی بے حسی کے کیا کہنے کہ جب سیلاب بلوچستان میں پوری طرح تباہی پھیلا رہا تھا اور وہاں موت رقصاں تھی تو یہاں ہمارے عوام کے ہمدرد حکمراں جشن آزادی کے نام پر ناچ گانا دیکھنے میں مصروف تھے۔ صرف اسی پر بس نہیں کیا، جیسے جیسے سیلاب کا دائرہ کار اور تباہی بڑھتی گئی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی بھی بڑھتی گئی۔ لوگ ڈوب اور ایک ایک روٹی کو ترس رہے تھے، ایسے وقت میں ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف 25 رکنی وفد کے ساتھ 65 ویں کامن ویلتھ کانفرنس میں شرکت کیلیے کینیڈا گئے، لیکن میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس میں سے نصف اراکین نے تو یہ کانفرنس اٹینڈ ہی نہیں کی بلکہ فیملی کے ساتھ سیر سپاٹے اور لگژری زندگی کے مزے لیتے رہے۔ خود راجا پرویز اشرف کے وفد کے ہمراہ اور نیاگرا فال کے نظارے دیکھنے اور پرتعیش ہوٹلوں میں لذیذ کھانے کھانے کی تصاویر میڈیا کی زینت بنی رہیں۔ اسی دوران وزیراعظم دورہ قطر پر تشریف لے گئے 40 رکنی وفد کے ہمراہ یہ دورہ تین روزہ تھا جس پر عوام کا ہی پیسہ خرچ ہوا اگر ایسے وقت میں یہ دورہ ضروری بھی تھا تو مختصر وفد کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔ عوام پر موت کے سائے بڑھتے جا رہے تھے اور مولانا فضل الرحمٰن لاؤ لشکر کے ہمراہ ترکیہ کے نجی دورے پر تھے جس کا مقصد تو صوفی بزرگ شیخ محمود آفندی کے انتقال پر تعزیت کرنا تھا لیکن ان کی وہاں ایک فیری میں تفریح کی تصویریں میڈیا پر چلیں تو پتہ چلا کہ وہ وہاں تفریح کرکے سیلاب متاثرین کا غموں کا مداوا کر رہے ہیں۔

    صرف یہ نہیں بلکہ جو سیاسی رہنما سیلاب زدہ علاقوں میں گئے بھی تو وہاں اپنے طرز عمل سے ان کی اشک شوئی کے بجائے زخموں پر نمک ہی چھڑکا، پی پی کے ایک صوبائی وزیر منظور وسان جو خواب دیکھنے کے ماہر ہیں انہوں نے جاگتی آنکھوں سیلاب زدہ علاقے کو اٹلی کے شہر وینس سے تعبیر کر ڈالا، ایک ایم این اے امیر علی شاہ شاہانہ انداز میں پلنگ پر بیٹھے اور منرل واٹر سے جوتے دھوتے نظر آئے، آصف زرداری کے بہنوئی اور فریال تالپور کے شوہر نے تو سیلاب متاثرین میں 50 پچاس روپے تقسیم کرکے اس کی ویڈیو بھی بنوائی۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ حکمراں طبقے نے بجائے اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے کے اسے عذاب الہٰی سے تعبیر کیا اور سندھ کے کئی وزرا کی جانب سے اسے عوام کے گناہوں کا ثمر قرار دیا گیا۔

    شاید حکمرانوں اور سیاستدانوں کے یہی حاکمانہ ذہنیت کے طرز عمل تھے کہ گزشتہ 5 دہائیوں کے مسلسل جیے بھٹو کا نعرہ لگانے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور گزشتہ 14 سال سے سندھ کے اقتدار پر مسلسل براجمان پی پی پی کے کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں نے ان کی آنکھیں کھول دیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کے سیلاب زردگان نے متاثرہ علاقوں میں آنے والے حکمرانوں کا گھیراؤ شروع کردیا پھر چاہے وزیراعظم شہباز شریف ہوں، یا وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہوں یا قائم مقام گورنر سراج درانی یا پھر سندھ کے دیگر وزرا، غریبوں نے انہیں آئینہ دکھانا شروع کیا تو لاڑکانہ، دادو، سکھر، خیرپور، ٹھٹھہ، نوشہروفیروز سمیت تمام سیلاب متاثرہ علاقوں میں ان ہی حکمرانوں کو زمین پر اترنا دشوار ہوگیا لیکن ستم یہ ہوا کہ وڈیرانہ سوچ کے حامل حکمرانوں نے بجائے ان نازک حالات میں ان کی داد رسی کرنے کے اپنی بے کسی کا اظہار کرنے پر ان کے خلاف ہی مقدمات درج کرا دیے اور سکھر میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کے بعد 100 سے زائد نامعلوم سیلاب متاثرین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

    سیلاب متاثرین کے مصائب اور ان کی مشکلات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی امداد کے اعلانات ہی کافی نہیں‌حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے رویے اور طرز عمل سے بھی خود کو مصیبت کی اس گھڑی میں عوام کا حقیقی ہمدرد اور خیر خواہ ثابت کرنا ہو گا۔

    bostancı escort bayan
    ümraniye escort bayan
    ümraniye escort
    anadolu yakası escort bayan
    göztepe escort bayan
    şerifali escort
    maltepe escort
    maltepe escort bayan
    tuzla escort
    kurtköy escort
    kurtköy escort bayan

  • ’ یہ ہے وہ ڈیم جس کا وعدہ عمران خان نے کیا تھا ‘

    ’ یہ ہے وہ ڈیم جس کا وعدہ عمران خان نے کیا تھا ‘

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے صوابی میں زیر تعمیر بادہ ڈیم سے متعلق ٹوئٹ کیا ہے۔

    پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ ہے وہ ڈیم جس کا وعدہ عمران خان نے کیا تھا۔

    انہوں نے مزید کہا ہے کہ صوابی میرے حلقے میں زیر تعمیر بادہ ڈیم کی تکمیل سے تقریباً 3 ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوگی اور اسی ڈیم سے علاقہ گدون کے کچھ علاقوں کو پینے کا پانی بھی فراہم کیا جائے گا۔

    اسد قیصر کا کہنا تھا کہ اسی ڈیم نے اس علاقے کو سیلاب کی زیادہ تباہ کاریوں سے بچایا۔

  • ننھی پری بھوک مٹانے کیلیے خالی پتیلی سے نوالے بناتی رہی! رُلا دینے والی ویڈیو

    ننھی پری بھوک مٹانے کیلیے خالی پتیلی سے نوالے بناتی رہی! رُلا دینے والی ویڈیو

    سیلاب نے ملک میں ایسی تباہی پھیلائی ہے کہ ہر چیز برباد نظر آرہی ہے ان سنگین لمحات میں کئی ایسے منظر بھی سامنے آرہے ہیں جو دیکھنے والوں کر رلا دیتے ہیں۔

    پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب سے گزر رہا ہے، نصف سے زائد ملک ڈوبا ہوا ہے اور کروڑوں افراد متاثر ہیں جو جان سے گئے وہ تو ایک الگ المیہ ہے لیکن جو زندہ ہیں ان پر زندگی کتنی کٹھن ہوگئی ہے اس کو دیکھ اور سن کر دل لرزنے لگتا ہے۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    سیلاب زدہ علاقوں سے دل دہلانے اور آنکھیں نم کردینے والی ویڈیوز مسلسل سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں ایسی ہی ایک سیلاب متاثرہ علاقے سے یہ ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں کھانے کو ترسی بچی ایک خالی پتیلی میں ہاتھوں سے نوالے بنا کر کھا رہی ہے جب کہ اس کے ہاتھ میں نہ روٹی ہے نہ پتیلی میں کچھ ہے، نہ جانے یہ بچی کب سے بھوکی ہے اور شاید اس کا یہ عمل لاشعوری طور پر بھوک مٹانے کی ایک کوشش ہے۔

     

    جو بھی ہے بہرحال یہ تصویر انسانیت کا درد رکھنے والے افراد کیلیے کسی المیے سے کم نہیں جو دیکھتا ہے اس کی آنکھیں بچی سمیت سیلاب میں گھرے دیگر افراد کی بے بسی پر نم ہوجاتی ہیں جب کہ یہ تصویر حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ بھی ہے اور سوال کرتی ہے کہ کیا ہر چند سال بعد سیلاب میں ڈوب کر مرنا، یا پھر بھوک سے جیتے جی مرنا کیا صرف ہم غریبوں کا ہی مقدر ہے؟ حکمراں طبقہ اگر اسے عذاب الہٰی قرار دیتا ہے تو یہ عذاب صرف ہم غریبوں پر ہی کیوں ٹوٹتا ہے؟

  • نسیم شاہ نے ڈیبیو میچ کے پہلے اوور میں ہی ماہرین کرکٹ کو حیران کردیا

    نسیم شاہ نے ڈیبیو میچ کے پہلے اوور میں ہی ماہرین کرکٹ کو حیران کردیا

    یو اے ای میں کھیلے جا رہے ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میں ڈیبیو کرنے پاکستان کے فاسٹ بولر نسیم شاہ نے اپنے پہلے ہی اوور میں ماہرین اور شائقین کو حیران کردیا۔

    گزشتہ روز یو اے ای میں ایشیا کپ کا سب سے ہائی پاور میچ پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلا گیا جو اگرچہ ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھارت نے جیت لیا لیکن اس میں پہلی بار ٹی ٹوئنٹی کے انٹرنیشنل میں میدان میں اترنے والے پاکستان کے فاسٹ بولر نے اپنی تیز رفتار بولنگ سے صرف ماہرین ہی نہیں شائقین کرکٹ کو بھی حیران کردیا اور پہلے اوور کی تمام گیندیں 140 کلومیٹر سے زائد رفتار سے پھینک کر بھارتی بلے بازوں کو پریشان کیا۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    نسیم شاہ نے اپنے پہلے اوور کی گیند 143.6 کی رفتار سے پھینک کر پہلے سامنے موجود بلے باز کو پریشان کیا۔ دوسری گیند بھی 141.6 کی رفتار سے پھینکی اور تیسری گیند 142.6 کی اسپیڈ سے ڈالی تھی۔ اوور کی چوتھی گیند گزشتہ بالوں سے مزید تیز کراتے ہوئے 144.5 کی رفتار سے کرائی پانچویں بال 138.7 چھٹی بال 140.8 اور ساتویں گیند 141.2 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کرائی۔ یاد رہے کہ اس اوور میں نسیم شاہ نے ایک وائیڈ بال بھی کی تھی جس کی وجہ سے یہ اوور سات گیندوں کا شمار کیا گیا۔

    نوآموز بولر نسیم شاہ نے اپنے پہلے میچ میں کوٹے کے چار اوور کرائے اور 27 رنز دے کر دو قیمتی وکٹیں حاصل کیں۔ بولر کی پہلی وکٹ کے ایل راہول کی تھی جنہیں اپنا کھاتہ کھولنے کا موقع بھی نہ مل سکا جب کہ دوسری وکٹ سوریا کمار یادیو کو بولڈ کرکے حاصل کی۔

    نسیم شاہ کے اس پہلے میچ کے بہترین اعداد وشمار پر ماہرین کرکٹ تو حیران ہوئے ہی شائقین کرکٹ بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے اور اس پاکستان سمیت بھارتی کرکٹ شائقین بھی شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز ایشیا کپ میں بھارت نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو 6 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ پاکستان پہلے کھیلتے ہوئے 147 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی تھی، بھارت نے  مطلوبہ 148 رنز کا ہدف میچ کے آخری اوور میں حاصل کیا۔اس ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم کو اسٹار بولر شاہین آفریدی کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔

    میچ کے بعد پاکستانی کپتان بابراعظم بھی نسیم شاہ کی بولنگ کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے، ان کا کہنا تھا کہ میچ میں دھانی، نسیم شاہ اور دوسروں نے زبردست بولنگ کی، خاص کر نوجوان بولر نسیم شاہ نے شاندار بولنگ کی وہ پرُجوش نوجوان ہے اور شاہین آفریدی کی غیرموجودگی میں پورے جوش اور جذبے کے ساتھ بولنگ کی۔