Author: ریحان خان

  • پی ٹی آئی رہنما نے مفتاح اسماعیل کو ’’جیمز بانڈ‘‘ قرار دے دیا

    پی ٹی آئی رہنما نے مفتاح اسماعیل کو ’’جیمز بانڈ‘‘ قرار دے دیا

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزارت خزانہ کے سابق ترجمان مزمل اسلم نے وزیر خزانہ سے متعلق ایک معنی خیز ٹوئٹ کیا ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزارت خزانہ کے سابق ترجمان مزمل اسلم جو موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں اب وزیر خزانہ سے متعلق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر معنی خیز ٹوئٹ کیا ہے۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    مزمل اسلم نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ کوئی ذرا سمجھائے 45 فیصد مہنگائی کرکے کیا ملک بچانے کا بیان سمجھ آتا ہے؟

    پی ٹی آئی رہنما نے اپنے مختصر ٹوئٹ بیان کا اختتام اس جملے پر کیا ہے کہ ’’الٹا یہ کہنا چاہیے ہم نے ملک ڈبو دیا، مفتاح 007‘‘

     

    یاد رہے کہ 007 انگریزی جاسوسی فلموں کی مشہور سیریز جیمز بانڈ کا ٹریڈ مارک مانا جاتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: ’مفتاح اسماعیل کی ناکامی کی گواہی خود نواز شریف دے رہے ہیں‘

    واضح رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے بھی میڈیا سے گفتگو میں وزیر خزانہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ مفتاح اسماعیل اپنی ناکامی کا ملبہ پی ٹی آئی پر ڈال رہے ہیں جب کہ ان کی ناکامی کی گواہی تو خود ان کے قائد نواز شریف دے رہے ہیں۔

  • شہباز گل کو پمز اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا

    شہباز گل کو پمز اسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا

    پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو پمز اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا ہے اور میڈیکل بورڈ نے ان کی رپورٹ پولیس کے حوالے کردی ہے۔

    اے آر وائی کے مطابق پی ٹی آئی کے گرفتار رہنما شہباز گل کو پمز اسپتال اسلام آباد سے ڈسچارج کردیا گیا ہے اور پولیس نے ان کی میڈیکل رپورٹ پولیس کے حوالے کردی ہے۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز گل سینے میں درد کی شکایت کر رہے تھے تاہم میڈیکل بورڈ نے انہیں صحت مند قرار دیا ہے۔ پولیس کے حوالے کی گئی ان کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔

    واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما شہبازگل پر تشدد کے الزامات پر پولیس انکوائری مکمل کرلی گئی۔

    یہ بھی پڑھیں: شہباز گل پر تشدد کے الزامات، پولیس انکوائری مکمل

    انکوائری آئی جی اسلام آباد کی نگرانی میں کمیٹی نے مکمل کی، شہباز گل انکوائری کمیٹی کے سامنے چار تحریک انصاف رہنما پیش ہوئے۔

  • غیراخلاقی اور نامناسب زبان سے نازیبا اشاروں تک، پاکستانی سیاست کو "میثاق اخلاقیات” کی ضرورت

    غیراخلاقی اور نامناسب زبان سے نازیبا اشاروں تک، پاکستانی سیاست کو "میثاق اخلاقیات” کی ضرورت

    ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں سیاسی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے۔ سیاست میں اخلاقی گراوٹ تو پہلے بھی تھی، لیکن اب یہ معاملہ ناشائستہ زبان اور نامناسب بیانات تک محدود نہیں‌ رہا بلکہ بات نازیبا اشاروں تک جا پہنچی ہے۔

    سیاسی قیادت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے لیکن آج ہماری سیاست میں جو لب و لہجہ اختیار کیا جارہا ہے اور ہمارے سیاست دان جس قسم کی سطحی زبان استعمال کرنے لگے ہیں اس کی مذمت میں‌ شرم ناک کا لفظ برتنا بھی کم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تندوتیز لہجہ اختیار کرنے کے ساتھ بدزبانی اور بداخلاقی کو بھی سیاست میں نام بنانے اور توجہ حاصل کا ذریعہ تصور کیا جانے لگا ہے۔

    آج تمام مخالف جماعتیں عمران خان کو سیاست میں اخلاقی گراوٹ کا ذمے دار ٹھہراتی ہیں اور ان کا اشارہ چند سال قبل دھرنے میں کنٹینر سے بلند ہونے والے "اوئے” کی جانب ہوتا ہے، لیکن کیا ملک کی سیاسی اخلاقیات کی بربادی صرف اسی ایک لفظ "اوئے” سے شروع ہوتی ہے؟ اس کے لیے ہمیں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔

    قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ایک موقع پر ہنگامہ آرائی بڑھی اور کرسیاں چل گئیں۔ ڈپٹی اسپیکر زخمی ہوئے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسی ایک دو مثالوں سے قطع نظر اسمبلیوں میں طویل تقریروں، سرکاری دعوؤں، اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں، محرومیوں اور ناانصا فیوں کی شکایتوں کی بازگشت تو ضرور معمول تھی مگر گالم گلوچ کا اس کوچے سے گزر نہیں ہوتا تھا۔

    لیکن پھر 1965 کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہر سچے اور دردمند پاکستانی کو رلا دیا۔ اس صدارتی انتخاب میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مدمقابل آئیں تو سرکاری مشینری نے ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فاطمہ جناح کو نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی حمایت حاصل تھی جس کے رہنما سہروردی اور غفار خان کو پہلے ہی غدار کا لقب دیا جا چکا تھا، سو مادر ملت بھی غدار قرار پائیں۔ ایوب خان نے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ بھی لیا۔

    ایوب خان نے بعد ازاں اپنی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھا کہ ہم نے قائداعظم کی بہن ہونے کے ناطے فاطمہ جناح کا خیال رکھا ورنہ ہم بہت کچھ کہہ سکتے تھے۔

    اسی حوالے سے ڈاکٹر روبینہ سہگل کے ریسرچ پیپر ‘فیمین ازم اینڈ دا ووِمنز موومنٹ ان پاکستان’ اور اس وقت کے اخبارات کے مطابق جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ‘نسوانیت اور ممتا سے عاری’ خاتون قرار دیا تھا۔ یہ شاید وہ لمحہ تھا جب پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکلا لیکن پھر اس وقت ایوب کابینہ کے وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی کیا۔ ایوب خان کی صدارتی مہم کے دوران مادر ملت سے متعلق نامناسب الفاظ کہنے کے علاوہ پاکستان کے بڑے سیاسی لیڈروں اور اپنے مخالفین کے نام بگاڑنے میں پیش پیش رہے۔ یوں سیاست میں اخلاقی گراوٹ بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

    اب تو لگتا ہے کہ شعلہ بیاں ہونے کے ساتھ ساتھ بداخلاقی بھی ایک سیاست دان کی خوبی گنی جاتی ہے جس پر ملک کا سنجیدہ اور باشعور طبقہ گومگو کی کیفیت میں ہے کہ جو لوگ ملک اور قوم کی ترجمانی کے دعوے دار ہیں کیا وہ اس طرح کا لب و لہجہ اختیار کرسکتے ہیں؟

    اس وقت کے اخبارات کا مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو نے مخالف لیڈروں کو مضحکہ خیز نام دیے۔ انہوں‌ نے کسی کو ’اِچھرہ کا پوپ‘ کہا تو کسی کو ’چوہا‘ اور’ڈبل بیرل خان‘۔ 1977 کی پیپلز پارٹی اور پی این اے کی انتخابی مہم اخلاقی گراوٹ کی طرف ایک اور قدم ثابت ہوئی۔ کراچی میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو جب کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تو پی پی پی کی طرف سے اصغر خان کو ’آلو‘ قرار دیا گیا۔ پی این اے نے ’گنجے کے سر پر ہَل چلے گا‘ کا نعرہ لگایا۔ واضح رہے کہ اس وقت "ہل” پی این اے کا انتخابی نشان تھا۔ لیکن یہ یکطرفہ نہیں تھا بلکہ پیپلز پارٹی مخالفین کی جانب سے بھی بھٹو اور ان کی فیملی کیلیے نامناسب زبان اور غیر اخلاقی نعرے بلند کیے گئے۔

    سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ اس وقت بھی نکلا جب ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد لگ بھگ 10 سال تک پی پی پی اور ن لیگ میں اقتدار کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ جب بینظیر بھٹو پہلی بار 1988 میں ملک کی وزیراعظم بنیں اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون حکمراں ہونے کا اعزاز حاصل کیا تو ان کی اور ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کی تصاویر میں جعلسازی کے ذریعے اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک سمیت کیا کیا نام نہیں دیے گئے جس نے قوم کو ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ہونے والی مہم کی یاد دلا دی۔

    شیخ رشید جو آج عمران خان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں 90 کی دہائی میں یہ نواز شریف کے قریب ترین رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے اس دور میں اسمبلی فلور پر بینظیر بھٹو کے بارے میں انتہائی عامیانہ الفاظ کہہ کر ان کی کردار کشی کی کوشش کی۔ آج یہی شیخ رشید بی بی شہید کے صاحبزادے بلاول بھٹو کو مضحکہ خیز نام سے پکارتے ہوئے جملے بازی کے ساتھ اپنے سابق قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے بارے میں بھی کچھ کہنے سے نہیں چوکتے۔

    90 کی دہائی میں مولانا فضل الرحمٰن نے بینظیر بھٹو کے عورت ہونے کو جواز بناکر ان کے اقتدار کو غیر اسلامی قرار دیا تھا اور جب انہیں بینظیر کے اگلے دور میں اقتدار میں شریک کیا گیا تو ان کی مخالف ن لیگ کی صفوں سے انہیں ڈیزل کہا جانے لگا۔

    1999 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے اور دونوں بڑی جماعتوں کے سیاسی میدان سے باہر ہونے پر ان دونوں جماعتوں کو کچھ عقل آئی اور سیاسی اختلافات بھلا کر 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تاہم اقتدار کی ہوس میں اس میثاق کی ساری شقوں کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور اس میثاق کے کچھ عرصے بعد سے گزشتہ سال تک دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان ایسی ٹھنی کہ الامان الحفیظ، ملک کا سب سے بڑا ڈاکو، زرداری سب سے بڑی بیماری، لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا، پیٹ پھاڑ کر لوٹی رقم نکالیں گے، جیسے اعلانات سرعام کیے گئے۔

    جب مشرف دور میں نجی ٹی وی چینلز کا دور آیا اور ٹاک شوز کا عروج ہوا تو پھر تو گویا سیاست نہیں خرافات رہ گئیں یاد ہوگا کہ ایک نجی ٹی وی کے مقبول ٹاک شو کے دوران اس وقت ق لیگ کابینہ کی وزیر کشمالہ طارق اور پی پی میں نئی نئی شامل فردوس عاشق اعوان کا ٹاکرا ہوا تو بات نیوز روم سے نکل کر بیڈروم تک جاپہنچی۔

    عمران خان نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو اور شیخ رشید کی توہین یہ کہہ کر کی کہ میں تو اسے اپنا چپڑاسی بھی نہ بناؤں۔ فردوس عاشق اعوان نے مریم نواز کے لیے مسلسل ’راجکماری‘ اور ن لیگ کے خواتین کے لیے’ کنیزیں ‘کے القاب ایسے مختص کیے کہ آج پی ٹی آئی کے دیگر رہنما اس کا ورد کرتے نظر آتے ہیں۔

    اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے نواز شریف کو بھگوڑا، حمزہ شہباز کے لیے کُکڑی، شہباز شریف کو شوباز شریف اور مریم نواز کیلیے جھوٹوں کی نانی و دیگر نام اور القاب دیے گئے ہیں‌ تو خاموش ن لیگ بھی نہیں رہی اور وہاں سے عمران خان کے لیے فتنہ خان، یوٹرن خان سمیت دیگر تضحیک آمیز نام سامنے آئے۔ فضل الرحمٰن نے یہودیوں کا ایجنٹ کہہ ڈالا بعد میں ان کی اپنی پارٹی کے منحرف رہنما نے بتایا کہ مولانا نے کہا تھا کہ ان کا یہ بیان سیاسی تھا۔

    یہ تو سیاسی میدان میں سوقیانہ پن اور زبان و بیان کے برتنے میں پستی اور بداخلاقی کی چند مثالیں ہیں اگر اس قسم کی غیر اخلاقی زبان اور تضحیک آمیز بیانات کی تفصیل میں‌ جائیں‌ تو ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ الغرض ہمارے بعض غیر ذمے دار سیاستدانوں نے اپنی قابلِ اعتراض زبان سے معاشرے میں سیاسی کلچر کو جو پراگندہ کیا ہے اس کے برے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس سے معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص نئی نسل متاثر ہورہی ہے جس کا اندازہ آج مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سپورٹرز کے مابین ہونے والی چپقلش سے کیا جاسکتا ہے۔

    نجی چینلوں کے بعد اب سیاسی اخلاقیات کے زوال کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا بن چکا ہے جس میں سیاستدانوں کے بارے میں انتہائی غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی اکثر بڑی جماعتوں نے خود اپنے ایسے سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں جن کا مقصد مخالفین کی کردار کشی کرنا ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی اخلاقیات کے زوال کے اس رجحان کے آگے بند کس طرح سے باندھا جائے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی مل کر اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ سیاسی کلچر کی بربادی کا نقصان صرف ان کی حریف جماعت کو نہیں بلکہ ان کی اپنی جماعت کو بھی پہنچ رہا ہے۔ اس سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سول سوسائٹی بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

    یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ” ریاستیں شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بلکہ انسان کے کردار سے بنتی ہیں۔” افلاطون کے اس قول کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ہر زمانے میں سیاست اور ریاست سے اخلاق و کردار کے تعلق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

    ریاستیں جمہوریت سے مضبوط ہوتی ہیں اور جمہوریت میں سیاسی اختلافات ہوتے ہیں کہ یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن غیرذمہ داری اور بداخلاقی اس حسن کو گہنا دیتی ہے۔ قوم سیاستدانوں کی زبان سے عرصہ دراز سے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت سنتی آرہی ہے لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ اب سیاسی جماعتیں ملک کے سیاسی ماحول کو مزید پراگندہ ہونے سے بچانے کیلیے غیر مشروط طور پر آگے آئیں اور اخلاص کے ساتھ آپس میں ایک "میثاق اخلاقیات” پر دستخط کریں۔ سب سے پہلے پارٹی سربراہ خود کو اس کا پابند کرے اور پھر جو بھی اس کے خلاف جائے تو اس کی درپردہ پشت پناہی کے بجائے ایسے اقدام کیے جائیں جس سے ہمارے بارے میں ایک باوقار جمہوری ملک اور قوم کا تاثر دنیا کو جائے۔

    escort
    ataşehir escort
    kadıköy escort
    göztepe escort
    şerifali escort
    göztepe escort
    kartal escort
    maltepe escort
    pendik eskort
    anadolu yakası escort

  • پی ٹی آئی کا کل کراچی میں ہونیوالےجلسے کا مقام تبدیل

    پی ٹی آئی کا کل کراچی میں ہونیوالےجلسے کا مقام تبدیل

    پی ٹی آئی نے کراچی میں مسلسل ہونے والی بارشوں کے سبب جلسہ گاہ میں پانی بھر جانے کے باعث اپنے کل ہونے والے جلسے کا مقام تبدیل کردیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے شہر قائد میں مسلسل بارشوں کے باعث کل جناح گراؤنڈ میں ہونے والے جلسے کا مقام تبدیل کردیا ہے اب یہ جلسہ شاہراہ قائدین پر ہوگا جس سے پارٹی چیئرمین عمران خان خطاب کریں گے۔

    اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

    کراچی میں مسلسل بارشوں کے باعث جناح گراؤنڈ میں نہ صرف پانی اور کیچڑ جمع ہوچکا ہے بلکہ مزید بارشوں کی پیشگوئی کے باعث وہاں جلسے کا انعقاد ممکن نہیں رہا ہے۔

    اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ جلسہ جناح گراؤنڈ میں ہونا تھا تاہم مسلسل بارشوں کے باعث وہاں پانی بھر چکا ہے اس لیے جلسے کا مقام تبدیل کیا گیا ہے اور اب یہ جلسہ شاہراہ قائدین پر ہوگا۔ آج وہاں جاکر جلسے کے انتظامات کا جائزہ لیں گے۔

    خرم شیر زمان نے کہا کہ 21 اگست کو این اے 245 میں ہونے والے ضمنی الیکشن اور 28 اگست کو بلدیاتی الیکشن کی مہم کے سلسلے میں سربراہ تحریک انصاف عمران خان کراچی آرہے ہیں وہ کل جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔

    انہوں نے بتایا کہ حیدرآباد میں پی ٹی آئی کا جلسہ ملتوی کردیا گیا ہے کیونکہ بارشوں کے باعث شہر حیدرآباد مکمل طور پر بند ہے۔

    واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے آئندہ ماہ قومی اسمبلی کے 9 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی مہم چلانے کا خود فیصلہ کرتے ہوئے کراچی سمیت ملک بھر میں جلسے کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: عمران خان کا کراچی میں بڑے جلسے اور9 نشستوں پر انتخابی مہم خود چلانے کا فیصلہ

    کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 245 پر اتوار 21 اگست کو ضمنی الیکشن بھی ہونا ہے یہ نشست پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کے انتقال کے باعث خالی ہوئی تھی۔

  • 75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 واں جشنِ آزادی منانے کے لیے پاکستانی قوم جوش و جذبے سے سرشار ہے۔ گھروں، سڑکوں، گلیوں میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آگئی ہے اور یہ اہتمام کیوں نہ ہو کہ آزادی کا جشن منانا کسی بھی قوم کے زندہ ہونے کی علامت ہوتا ہے۔

    آزادی کسی قوم کا وہ سرمایۂ افتخار ہوتا ہے جو اس قوم کی زندگی اور اس کے تاب ناک مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، جب کہ غلامی ایک مرض اور غیروں پر بھروسا کرنا وہ عادت ہے جو دلوں کو جوش و جذبے سے محروم اور جذبہ و امنگ سے یکسر خالی کردیتی ہے۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اسی غلامی کو آزادی میں بدلنے کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا تھا:

    دلِ مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
    کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ

    14 اگست 1947 اور رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی اور آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کا نام ابھرا۔ آزادی کی یہ نعمت ہمیں قائداعظم کی قیادت اور ان کے رفقا کی شبانہ روز جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے طفیل نصیب ہوئی تھی۔ دو قومی نظریے اور ایک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا وطن جب معرضِ وجود میں آیا تو اس کے پاس مسائل زیادہ اور وسائل انتہائی کم تھے۔ لیکن مخلص قیادت نے اس وقت کے ایک ناتواں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا اور چند سال میں اسے دنیا کے ایک ایسے ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا جہاں تیزی سے صنعتی ترقی ہورہی تھی۔

    دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، دنیا کا سب سے بڑا ڈیم، اسٹیل مل، معروف فضائی کمپنی پی آئی اے اور پاکستان کا شہر کراچی بھی کبھی دنیا میں اپنی مصروف بندرگاہ کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستانی قیادت اگر امریکا جاتی تو وہاں کے حکم راں اور اعلیٰ عہدے دار خود ان کا استقبال کرتے تھے۔ یہ بات شاید کئی قارئین کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث ہو کہ پاکستان جرمنی سمیت متعدد ملکوں کو قرضے دیتا تھا، لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا اور پاکستان نے ابتدائی دو عشروں میں جو ترقی کی تھی وہ اس طرح ترقیٔ معکوس ثابت ہوئی کہ قرض دینے والا یہ ملک آج خود قرضوں کے جال میں جکڑ چکا ہے اور ہمارے حکم راں کاسۂ گدائی پھیلائے ہوئے ہیں۔ ہم سے کئی برس بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک آج صنعت و حرفت میں ہم سے آگے ہیں اور اپنی معیشت کا عروج دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ دنیا میں مشہور ہونے والی اسٹیل مل معیار اور صنعت گری کے اعتبار سے ختم ہوچکی ہے۔ پی آئی اے تباہ حال ادارہ بن چکا ہے۔ سب سے بڑے نہری نظام اور دنیا کے سب سے بڑے ڈیم والا ملک پانی کی قلت کے مسئلے کا سامنا کررہا ہے اور زرعی زمینیں بھی پانی سے محروم ہیں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کو پہلے دہشت گردی کے عفریت نے تاریکیوں میں دھکیلا اور اب حکم رانوں کی ریشہ دوانیوں اور غفلت نے عروسُ البلاد کو کھنڈر بنا دیا ہے۔

    قیامِ پاکستان کے ابتدائی چند سال کے بعد جو بھی حکم راں رہے ہیں ان میں سے چند کو چھوڑ کر یا تو سب کوتاہ نظر رہے یا پھر ان کی ترجیح ملک سے زیادہ ذاتی مفاد رہا ہے۔ ہمارے اکثر حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلیے کبھی مذہب تو کبھی لسانیت اور صوبائیت کا سہارا لیا۔ ہماری خارجہ پالیسی یہ رہی کہ جس کسی کے پاس اقتدار رہا وہ سات سمندر پار امریکا سے دوستی میں تو ہر حد تک گیا لیکن ہمسایہ ممالک (ماسوائے چین) کے ساتھ تعلقات کو کوئی اہمیت نہ دی۔

    حکومتوں نے ملکی وسائل اور افرادی قوت پر انحصار کرتے ہوئے زراعت و صنعت کو فروغ دینے کے بجائے بیرونی قرضوں کا طوق اس قوم کے گلے میں ڈالا۔ قومی صنعت کو فروغ دینے کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تحفظ فراہم کیا اور ہر موقع پر بااختیار و برسر اقتدار طبقے نے اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو بھینٹ چڑھا دیا۔ جاگیردار طبقے نے جان بوجھ کر تعلیم کو نظر انداز کیا تاکہ عام آدمی باشعور ہو کر ان کے اقتدار کیلیے خطرہ نہ بن سکے۔ یکساں تعلیمی نظام کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی آبیاری کرنے کے بجائے تعلیم کو کمرشلائز کر کے طبقاتی تقسیم کو عروج دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کو وراثت میں ڈھال کر جمہوریت کے نام پر خاندانی ڈکٹیٹر شپ قائم کی گئی اور اسی سیاست کے بل بوتے پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔

    ایک کلمے کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کو مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر بار بار خون میں نہلایا گیا۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستانی صرف دو مواقع پر ایک قوم نظر آتے ہیں، ایک 14 اگست اور دوسرا کرکٹ میچ۔ وہ بھی بالخصوص بھارت سے مقابلے میں ورنہ اس کے علاوہ کہیں سندھی ہے تو کوئی پنجابی، کہیں پختون ہے، کوئی بلوچی، مہاجر اور کوئی سرائیکی ہے، اگر نہیں ہے تو پاکستانی نہیں ہے۔

    75 برس کے اس سفر میں ہم اپنا ایک بازو گنوا چکے جو اب دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے موجود ہے جب کہ باقی ماندہ پاکستان ہماری اپنی کوتاہیوں، ریشہ دوانیوں، رنجشوں، لسانی نفرت اور مذہبی بنیاد پر تفریق سے نڈھال اور ناتواں ہو چکا ہے جس کی ذمے داری یوں تو من حیث القوم سب پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک پر حکومت اور قوم کی قیادت کی لیکن ہمیں ایک ایسا پاکستان نہیں دے سکے جو دنیا میں ایک باوقار، حقیقی معنوں میں خود مختار اور معاشی طور پر مستحکم ہوتا۔

    یوں تو ہم کہنے کو آزاد قوم ہیں لیکن نہ ہماری معیشت آزاد ہے اور نہ ہی ہماری پالیسیوں میں کوئی تسلسل۔ اب ہماری معاشی پالیسی ہمارے قرض خواہ ادارے ہمیں بنا کر دیتے ہیں جن پر من و عن عمل کرنا حکمران وقت کی مجبوری ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی صنعت و حرفت، تعلیم و صحت، فن و ثقافت کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کی کارکردگی کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔

    کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
    ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
    دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی

    پچھتر سال کا وطن عزیز سوال کررہا ہے کہ جس مقصد کیلیے کرہ ارض پر یہ زمین کا ٹکڑا پاکستان کے نام سے حاصل کیا گیا تھا کیا وہ مقصد پورا ہوگیا۔ اس بار قوم یہ جشن آزادی عدم اعتماد کی فضا میں پرانا پاکستان اور نیا پاکستان کے نعروں کی بازگشت میں منا رہی ہے۔ ملی نغموں کی گونج اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار تو ہر طرف ہے، لیکن کیا صرف سال میں ایک ہی دن جھنڈے لہرانے، جھنڈیاں لگانے، قومی اور ملی نغمے گانے، ریلیاں نکالنے اور حب الوطنی پر مبنی تقاریر کرنا ہی ایک زندہ قوم کی نشانی ہوتی ہے؟

    وقت آگیا ہے کہ اب ہمیں جشن آزادی منانے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہ رک کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوگا اور قیام پاکستان سے اب تک ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ 75 سال کے آزادی کے اس سفر میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں باوقار انداز سے اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ اپنے قومی و ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بیرونی قرضوں سے کس طرح نجات ممکن ہے؟ کس طرح چھوٹی چھوٹی اکائیوں کی تقسیم کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر قوم بناسکتے ہیں؟

    آج ملک کے مقتدر اور بااختیار افراد سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور بحیثیت قوم سب کو سوچنا ہوگا کہ آج تک ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ خطہ ارضی حاصل کیا تھا۔

    صرف آزادی کا جشن منا لینے سے وطن کی محبّت کا حق ادا نہیں ہوتا، ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ یہ مُلک جتنی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد نصیب ہوا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور اس سے محبّت کریں۔ قوم، بالخصوص نوجوان نسل میں جبّ الوطنی کو فروغ دینے کے لیے حکومت وقت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور جس کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر انہیں درست سمت اور سازگار ماحول دیا جائے تو وہ اسے مضبوط اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔ قومیتوں، فرقوں کی تقسیم سے نکال کر ایک قوم کی لڑی میں پرویا جائے تو یہ قوت بن کر اغیار کے سامنے سرنگوں مملکت کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکتے ہیں اور پاکستان دنیا کے نقشے پر حقیقی معنوں میں سیاسی اور معاشی لحاظ سے ایک خودمختار ملک کے طور پر جگمگا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے صرف اور صرف اخلاص کے ساتھ جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔

    احمد ندیم قاسمی کے ایک دعائیہ کلام کے ساتھ اپنے اس بلاگ کا اختتام کرتا ہوں:

    خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
    وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
    یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
    یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
    یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
    اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
    گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
    کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
    خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
    اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
    ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
    کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
    خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
    حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

  • کاروں کے شوقین افراد کے لیے انوکھا ہوٹل، ویڈیو دیکھیں

    کاروں کے شوقین افراد کے لیے انوکھا ہوٹل، ویڈیو دیکھیں

    جرمنی میں بنایا گیا ہے ایک ایسا منفرد ہوٹل جو کاروں کے دلدادہ افراد کے لیے کسی خواب کی تعبیر سے کم نہیں ہے۔

    ہر شخص کا کچھ نا کچھ شوق ہوتا ہے اور کاروں کے شوقین افراد کی اس دنیا میں کمی نہیں ہے۔ کاروں کے ایسے ہی شوقین افراد کے لیے جرمنی میں بنایا گیا ہے ایک ایسا ہوٹل جہاں نرم اور آرام دہ بستر سے لے کر ریسٹورینٹ تک ہر چیز میں کار کا استعمال کیا گیا ہے۔

    بوبلنگ جرمنی میں بنایا گیا V-8 نامی یہ چار منزلہ ہوٹل کاروں کے دلدادہ افراد کے لیے کسی خواب کی تعبیر سے کم نہیں ہے جس کے ہر کمرے میں بیڈ سے لے کر صوفے، الماری اور دیگر سامان تک سب میں کار کا استعمال کیا گیا ہے جس کو دیکھ کر کمرے میں داخل ہونے والا ہر شخص حیران رہ جاتا ہے

     

    ہوٹل کے کمروں کو انفرادیت دینے کے لیے ہر بیڈ کو الگ الگ ڈیزائن کیا گیا ہے کسی بیڈ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کار واش کیلیے کھڑی ہے تو کہیں بیڈ گیس اسٹیشن پر کھڑی کار دکھائی دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کمرے میں آنے والے کو ڈرائیو ان سینما اور ورکشاپ بھی ملتی ہے۔

     

    ہوٹل کے اندر قدم رکھیں تو گراؤنڈ فلور پر کھڑی جدید اور قدیم مہنگی ترین خوبصورت اور نادر گاڑیاں کھڑی نظر آئیں گی۔ اس منفرد ہوٹل کا چوتھی منزل اسپیشل وی 12 مرسڈیز سوٹس کے نام سے ہے جہاں قیام کرنے والے افراد کو ملتا ہے وہاں اپنا سوانا اور دلفریب نظارہ دیکھنے کیلیے چھت پر بنی بالکنی جس پر کھڑے ہوکر اردگرد کے ساتھ ہوٹل کے اطراف میں کھڑی منفرد گاڑیوں کو دیکھ کر محظوظ ہوا جاسکتا ہے۔

  • شاہین آفریدی کی اپنے "سسر” کے ساتھ جم میں ورزش

    شاہین آفریدی کی اپنے "سسر” کے ساتھ جم میں ورزش

    قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ باؤلر شاہین شاہ آفریدی نے اپنے سسر شاہد آفریدی کے ساتھ جم میں ورک آؤٹ کیا اور اس تجربے کو ناقابل فراموش قرار دے دیا۔

    دنیا بھر میں اپنی تیز بولنگ سے دھاک بٹھانے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز بولر شاہین شاہ آفریدی نے اپنے سسر سابق کپتان شاہد آفریدی کے ساتھ جم میں ورزش کی اور اس ورک آؤٹ کو ناقابل فراموش قرار دیدیا۔

    شاہین شاہ آفریدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے ہونے والے سسر شاہد آفریدی کے ہمراہ ایک تصویر شیئر کی اور اس تصویر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ ‘ ورک آؤٹ کرنے کا اصل مزا تب شروع ہوتا ہے جب آپ لالہ کے ساتھ جم جائیں۔’

     

    یاد رہے کہ شاہین شاہ آفریدی کا رشتہ کرکٹ کی دنیا میں اپنی بیٹنگ سے اچھے اچھے بولر کے چھکے چھڑا دینے والے لیجنڈری آل راؤنڈر شاہد آفریدی کی صاحبزادی سے طے ہوا ہے جس کی دونوں خاندانوں کی جانب سے تصدیق بھی کی جاچکی ہے۔

    واضح رہے کہ شاہین شاہ آفریدی کھیل کے میدان میں اپنے ہونے والے سسر شاہد آفریدی کی 10 نمبر والی شرٹ استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ ان کی شاہد آفریدی سے محبت ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: شاہین نے آفریدی کا جرسی نمبر کیوں لیا؟ جانئے دلچسپ کہانی

    فاسٹ بولر شاہین آفریدی نے اپنے 10 نمبر کے ٹی شرٹ کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلے شرٹ کا نمبر 40 تھا لیکن میں چاہتا تھا کہ 10 نمبر مجھے ملے کیوں کہ لالہ (شاہد آفریدی) یہ نمبر استعمال کرتے ہیں اور وہ بچپن سے میرے فیورٹ ہیں میری خواہش تھی کہ مجھے 10 نمبر ملے اور آفریدی نام اس پر لکھا ہو۔

  • کیا آصف زرداری کی ایک تیر سے دو شکار کی کوشش ناکام ہوگئی؟

    کیا آصف زرداری کی ایک تیر سے دو شکار کی کوشش ناکام ہوگئی؟

    پاکستان مسلم لیگ (ن) نے صوبۂ پنجاب اور اپنے سیاسی گڑھ لاہور میں ضمنی الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کیا اور پھر تختِ پنجاب بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ موجودہ سیاسی صورتِ حال میں‌ تو وفاق میں بھی حکم رانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

    انتخابی نتائج اور شکست کے بعد مسلم لیگ ن کی صفوں‌ میں اختلافات اور انتشار واضح ہوتا جارہا ہے۔ سربراہ عوامی لیگ شیخ رشید کے دعوؤں کے مطابق تو ن لیگ میں سے شین اور میم نہیں‌ نکل سکیں، لیکن ایسے ہی حالات رہے تو کہیں مسلم لیگ ن بھی لندن اور پاکستان کے نام سے دو گروہوں‌ میں نہ تقسیم ہوجائے جس طرح متحدہ قومی موومنٹ کو آج ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے ناموں سے شناخت کیا جاتا ہے۔

    ن لیگ جو ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہے اور مخلتف ادوار میں وفاق اور صوبۂ پنجاب کی حکم راں رہی ہے، آج سیاسی میدان میں اس حال کو کیسے پہنچی؟ اس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں بعض سیاسی کمزریوں اور تنظیمی معاملات میں کوتاہیوں کے علاوہ لالچ اور بے صبری جیسے عناصر کو بھی نظرانداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ بعض سنجیدہ اور باشعور حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ کہا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری نے ن لیگ کو حکومت کا لالچ دے کر وہاں پہنچا دیا ہے جہاں اسے صرف اور صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    شکار کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ سیاست وہ میدان ہے جس میں شکار ایک لیکن شکاری بہت سے ہوتے ہیں، لیکن یہاں وہی کام یاب ہوتا ہے جو انتہائی زیرک ہو اور اسے شکار کو پھنسانے کے لیے بہترین چارہ استعمال کرنا بخوبی آتا ہو۔

    پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ‌ کے منصب کے لیے سیاسی کھینچا تانی اور حکومت کی تبدیلی کے بعد اب ملک میں سیاسی ماحول خاصا گرم ہوچکا ہے اور تلخی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت ساڑھے تین ماہ میں ہی اس دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی۔ دورِ عمران سے شریف تک پہنچنے میں ملک میں کیا کچھ ہوا یہ سب نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ تحریک عدم اعتماد عمران خان حکومت کے خاتمے کی بڑی وجہ بنی اور سیاسی مبصرین کے مطابق اس تحریک کی سرخیل ایک ہی جماعت پیپلز پارٹی تھی اور اس کے پیچھے صرف سابق صدر آصف علی زرداری کی ذہانت کار فرما تھی۔

    ایک وقت تھا جب آصف علی زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے اور بینظیر بھٹو شہید کے شوہر کی حیثیت سے سیاست کے میدان میں اترے تھے، لیکن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد "ایک زرداری سب پر بھاری” کے مقبول نعرے نے ان کا یہ منفی تأثر زائل کر دیا۔ اس کے بعد وہ اپنے سیاسی رابطوں‌ اور فیصلوں کی وجہ سے سیاست کے میدان میں مفاہمت کے بادشاہ مشہور ہوئے اور ان کی یہ شہرت تاحال برقرار ہے۔

    صوبۂ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسی لیے اسے سیاست میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبران کی کل تعداد کا 50 فیصد سے زائد صوبہ پنجاب سے منتخب ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہاں سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت وفاق میں اقتدار میں آئی ہے۔ یوں مرکز میں‌ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کا پنجاب میں‌ انتخابی فتح حاصل کرنا لازمی ہے۔

    ماضی میں پنجاب سے پیپلز پارٹی بھی اکثریت حاصل کرتی رہی ہے۔ یہیں پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی تھی اور 1972، 1988، 1993 کے انتخابات میں پنجاب کا میدان مارنے پر ہی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا تھا۔ لیکن پھر اس جماعت کی سیاست نظریات سے نکل کر مفادات کے گرد طواف کرنے لگی اور جب نظریاتی کارکن بددل ہوکر پارٹی سے دور ہوگئے تو پیپلز پارٹی کی پنجاب پر گرفت بھی کمزور ہوگئی۔ سیاسی میدان میں اس کا بڑا فائدہ ن لیگ نے اٹھایا اور پھر گزشتہ انتخابات کے نتائج دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پی پی پی کے خلا کو بالخصوص جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی نے پُر کیا ہے۔

    1972، 1988، 1993 اور 2008 میں وفاق پر حکومت کرنے والی جماعت کا حال یہ ہوا ہے کہ 1996 کے انتخابات میں پی پی پی ملک بھر میں قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستیں ہی حاصل کرسکی تھی۔ اس میں پی پی پی کو پنجاب سے ایک بھی قومی اسمبلی کی نشست پر فتح نہیں ملی تھی۔ 2002 کے الیکشن میں اس کے حصے میں 16 نشستیں آئی تھیں۔ 2008 کے الیکشن میں پی پی پی نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 45 نشستوں پر کام یابی حاصل کی تھی لیکن یہ الیکشن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے فوری بعد ہوئے تھے اور عمومی رائے یہ ہے کہ اس وقت پی پی پی کو ہمدردی کا ووٹ پڑا تھا۔ 2013 کے الیکشن میں پی پی پی پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں سے صرف 3 پر ہی کام یابی حاصل کر پائی۔ 2018 کے انتخابات میں بھی یہاں سے بھٹو کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد صرف 6 رہی۔

    اب اگر ان نتائج پر کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ مقتدر حلقوں کے آشیر باد کے بغیر کوئی اقتدار میں نہیں آتا اور پی پی پی کو جان بوجھ کر ان الیکشن میں کمزور کیا گیا تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک کے غیر جانب دار حلقے 1970 کے الیکشن کے علاوہ تمام الیکشن کو کم یا زیادہ جھرلو ہی کہتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا اعداد وشمار جھرلو الیکشن کا نتیجہ ہیں تو جن ادوار میں پی پی پی اقتدار میں رہی وہ اقتدار بھی تو انہی جھرلو انتخابات کی مرہون منت ہیں۔

    پیپلز پارٹی صدر مملکت، وزارت عظمیٰ سے لے کر اقتدار اعلیٰ کے تمام عہدوں کا لطف اٹھا چکی ہے۔ مگر اقتدار نشہ ایسا ہے کہ جس کے منہ کو لگ جائے، وہ اس کے سرور میں رہنا پسند کرتا ہے۔ بات وہیں آجاتی ہے کہ اقتدار کی مسند تک پہنچنا ہے تو پنجاب کو فتح کرنا ہے، لیکن پنجاب پر اس وقت پی ٹی آئی اور ن لیگ کا غلبہ ہے۔ یہاں فی الحال پی پی پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی، لیکن آصف علی زرداری نے اپنے سیاسی تدبّر اور قیاس آرائیوں کے مطابق "آشیر باد” سے ایک ایسا "کھیل رچایا” جس میں ان کی کام یابی کے امکانات کئی گنا بڑھ سکتے تھے۔

    پیپلز پارٹی کو اس کے لیے بیک وقت دو محاذ سر کرنے تھے۔ یعنی پنجاب سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کا صفایا۔ پی ٹی آئی کو اقتدار سے ہٹانا اور پھر ن لیگ کو وقتی طور پر اقتدار میں لانا اسی کھیل کا حصہ تھا۔ یہ تو واضح ہے کہ صرف پی ٹی آئی کے اقتدار کا خاتمہ پی پی پی کی منزل نہیں تھی کیونکہ اس کا متبادل پنجاب میں ن لیگ اور اس کا ووٹ بینک تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں‌ ہو گا کہ پی پی پی کی قیادت کی خواہش رہی کہ اس بھاری ووٹ بینک کو اگر ختم نہیں تو اس حد تک کم کردیا جائے کہ پی پی پی کا راستہ صاف ہوسکے۔ دوسری طرف گزشتہ حکومت کو درپیش سخت معاشی چیلنجز کا سامنا تھا جب کہ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، بیروزگاری عوام کو مارے ڈال رہی تھی۔ یہ وہ حالات تھے جس میں حکومت کی تبدیلی آسان تو تھی لیکن متبادل حکومت کے لیے ملک چلانا آسان ہرگز نہ تھا۔ آصف علی زرداری جانتے تھے کہ ان حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آکر حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا، بلکہ بدترین معاشی حالات اور بڑھتی مہنگائی سے اس کی سیاسی مقبولیت ختم نہیں‌ تو اس کا گراف تیزی سے نیچے ضرور جاسکتا ہے۔ یہ وقت سیاسی چال چلنے کے لیے انتہائی مناسب تھا۔

    واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پہلے ن لیگ کی مدد سے عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور پھر اسمبلی کی باقی مدت کی تکمیل تک پی پی پی نے اتحادی رہتےہوئے اقتدار نواز لیگ کے حوالے کر دیا تاکہ ڈیڑھ سال میں عوام پہلے سے زیادہ مصیبت جھیل کر ن لیگ سے بھی متنفر ہوجائیں جس کے بعد اگلے عام انتخابات میں پی پی پی کو میدان صاف ملے۔

    وزارت عظمیٰ کی کرسی ہر سیاست دان کی معراج ہوتی ہے اور جب یہ یوں تھال میں رکھ کر پیش کی جائے تو کون اس پر براجمان ہونے سے انکار کرے۔ اب ن لیگ اسے نومبر میں کسی اہم تعیناتی کا خوف کہیں یا کچھ اور بہرحال اس معاشی بحران میں حکومتی ڈھول انہوں نے اپنی بھرپور رضامندی سے گلے میں ڈالا ہے اور ایک طرف جب ن لیگ کو مہنگائی اور مسائل پر عوام کے شدید غم و غصے کا سامنا ہے، وہاں مخالف سیاسی جماعتوں کے کیمپ میں شادیانے بج رہے ہیں۔

    اقتدار میں آنے کے بعد کئی بار ن لیگ کی صفوں‌ میں سے ہی فوری انتخابات کرانے کی آوازیں اٹھیں بلکہ لندن سے بھی جلد از جلد نئے الیکشن کی طرف جانے کا پیغام آیا۔ شہباز حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ شاید ن لیگ کے لیے زیادہ نقصان دہ نہیں ثابت ہوتا لیکن حکومت کو مدت پوری کرنے پر قائل کرلیا گیا جس کا نتیجہ آج ساڑھے تین ماہ میں ہی سب کے سامنے ہے۔

    آج مسلم لیگ ن کے جو حالات ہیں ان میں‌ بظاہر پی پی پی کا راستہ صاف ہوتا نظر آتا ہے، لیکن اس کھیل میں سب کچھ ن لیگ کی مخالف جماعت کی مرضی کے مطابق نہ ہوسکا۔ اس صورت حال میں پی پی پی کی قیادت کو تشویش بھی ہوگی۔ جب عمران خان کی حکومت کو گرایا گیا تو پی پی پی کی قیادت کیا خود عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ گمان نہیں ہوگا کہ وہ ملک کی سیاسی تاریخ میں اقتدار کھونے کے بعد مقبولیت کی معراج پر پہنچ جائیں گے۔

    اقتدار کے ایوانوں کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ پی پی پی کی قیادت چاہتی تھی کہ ن لیگ کی مشکلات بڑھنے کے بعد اگلے الیکشن میں ق لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے اپنے اقتدار کو یقینی بنایا جائے اور بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرایا جائے۔ لیکن سیاست میں‌ جہاں‌ بروقت فیصلے کام یابی کے امکانات روشن کرتے ہیں‌، وہیں یہ قسمت کا بھی کھیل ہے۔

    عمران خان اس معاملے میں قسمت کے دھنی نکلے ہیں اور ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت نے سیاست کے میدان میں‌ فتح کے کسی بھی منصوبے کو فی الحال تو دفن کر دیا ہے۔ اگر ان حالات میں الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی کے بیانیے کی جیت کے امکانات روشن ہیں اور مخالفین کا ہر خواب چکنا چور ہوتا نظر آتا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے اور سیاست میں‌ بالخصوص پاکستانی سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔

  • عدالت کا حلیم عادل شیخ کو رہا کرنے کا حکم

    عدالت کا حلیم عادل شیخ کو رہا کرنے کا حکم

    صوبائی اینٹی کرپشن کورٹ میں حلیم عادل شیخ کے خلاف کیس میں عدالت نے پی ٹی آئی رہنما کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق صوبائی اینٹی کرپشن کورٹ میں دائر کیس میں گرفتار پی ٹی آئی رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کو عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

    عدالت نےحلیم عادل شیخ کو 50 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا بھی حکم دیا ہے۔

    واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کو اینٹی کرپشن پولیس نے کل جامشورو میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اینٹی کرپشن کورٹ میں پیشی کے لیے گئے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ گرفتار

    حلیم عادل زمینوں کی خوردبردکیس میں بیان دینے اینٹی کرپشن کورٹ آئے تھے تاہم مذکورہ کیس میں حلیم عادل شیخ عبوری کو ضمانت پر رہائی حاصل ہے۔

  • سندھ میں بلدیاتی وضمنی انتخابات کا التوا، وجہ متوقع بارشیں یا ؟

    سندھ میں بلدیاتی وضمنی انتخابات کا التوا، وجہ متوقع بارشیں یا ؟

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے اتوار 22 جولائی کو کراچی، حیدر آباد اور ٹھٹھہ میں پولنگ جب کہ کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست 245 پر ضمنی انتخاب بھی 26 جولائی کو ہونا تھا جو اچانک ملتوی کر دیا گیا۔

    بلدیاتی الیکشن سے صرف تین روز قبل جب تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مصروف تھیں، رات گئے اچانک میڈیا پر بلدیاتی اور ضمنی الیکشن ملتوی کیے جانے کی خبر نشر ہوئی اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ شیڈول کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ اس نئے شیڈول کے مطابق اب این اے 245 پر ضمنی الیکشن 21 اگست جب کہ بلدیاتی الیکشن 28 اگست کو ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان انتخابات کے اچانک التوا کی وجہ متوقع بارشیں بتائی ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر دو بڑی جماعتوں پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی نے اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اچانک التوا کی وجہ خراب موسم ہے یا پھر کچھ اور؟

    اگر متوقع بارشیں ہی اس کی اہم اور واحد وجہ ہیں تو محکمہ موسمیات سمیت دیگر ادارے تو رواں سال کے آغاز سے ہی کئی بار یاد دہانی کراچکے کہ اس سال ملک بھر بالخصوص زیریں سندھ میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ تو جب یہ پیشگوئی کئی ماہ پہلے ہی ہوچکی تھی تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ مون سون کے اس موسم میں انتخابات شیڈول کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پہلے الیکشن شیڈول کا اعلان کر کے کروڑوں روپے انتظامات پر خرچ کیے گئے اور اب صرف 3 روز قبل یہ کہہ کر ملتوی کر دیے گئے کہ بارشوں کا طوفانی اسپیل آ رہا ہے اس لیے الیکشن ممکن نہیں ہوسکیں گے۔ اس اچانک التوا سے ہی ایک رپورٹ کے مطابق قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوگا اور دوبارہ الیکشن کے انتظامات کے لیے الیکشن کمیشن کو تقریباً 20 کروڑ روپے اضافی خرچ کرنا پڑیں گے۔ اس موقع پر سوال تو یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان کے بدترین معاشی حالات میں الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ درست ہے؟

    متنازع ماحول میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن (متنازع اس لیے کہ حلقہ بندیوں کے معاملے پر ایم کیو ایم کا ایک کیس سپریم کورٹ میں ہے اور اس کا موقف ہے کہ حلقہ بندیاں درست کیے بغیر بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جائیں، تاہم اس درخواست کے باوجود ایم کیو ایم انتخابی میدان میں موجود ہے) ان حالات میں ہو رہے تھے کہ جب شہر قائد حالیہ برساتوں کے بعد تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بارشوں کے ایک ہی اسپیل نے عروس البلاد کہلانے والے شہر کی رونقیں ایسی اجاڑیں کہ سڑکیں جو پہلے ہی خستہ حال تھیں اب کھنڈر کا نمونہ پیش کررہی ہیں۔ نکاسی آب کے ناقص نظام نے اس برسات میں قیمتی جانوں سمیت شہریوں کی قیمتی املاک بھی تباہ کیں۔

    جب ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسی بدترین حالات سے گزرے بلکہ گزر رہے ہوں۔ سڑکیں کھنڈر، گلیوں شاہراہوں پر کھڑا پانی لیکن نلکے خالی، صفائی کا ایسا نظام کہ جہاں جاؤ خوشبو کے جھونکے پاؤ۔ ان حالات میں "سندھ ہمارا ہے” کی دعوے دار پی پی پی جس کے پاس بلاشرکت غیرے 14 سال سے سندھ کی حکمرانی ہے اور "کراچی ہمارا ہے” کی دعوے دار ایم کیو ایم جن کے وسیم اختر گزشتہ میئر کراچی تھے کیسے عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے کہ نہ سندھ ہمارا ہے کہ دعویداروں نے کبھی اس شہر کے حالات سدھارنے پر اخلاص سے توجہ دی اور نہ ہی شہر پر اپنا حق جتانے والی جماعت ایم کیو ایم اصل معنوں میں اس شہر کے باسیوں کی پُرسان حال بنی۔

    اب اگر کوئی یہ کہے کہ گزشتہ میئر کراچی ایم کیو ایم کا تھا لیکن بااختیار نہ بلدیاتی نظام تھا اور نہ ہی میئر تو یہ بات تو 100 فیصد درست ہے۔ حقیقت ہے کہ اس معاملے پر چند ماہ قبل تک ایم کیو ایم بڑی شدومد کے ساتھ احتجاج بھی کرتی رہی اور سندھ حکومت پر الزامات بھی عائد کرتی رہی، لیکن پھر اچانک اسی سندھ حکومت کی اتحادی بن گئی جس نے اس کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا کہ جو جماعت چند روز تک جس کے خلاف احتجاج پر تھی وہ اچانک ہم نوالہ اور ہم پیالہ کیسے ہوگئی؟ یہ مفادات کا ہی کھیل تھا کہ چند ماہ قبل باہم دست و گریباں سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے گلے مل گئیں۔

    یہ تو تھی سندھ اور کراچی پر حق جتانے والی دو بڑی جماعتوں کی کارکردگی لیکن الیکشن ملتوی ہونے کی اصل وجہ صرف یہ نہیں تھی بلکہ حال ہی میں پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کی عبرت ناک شکست اور سب کی مشترکہ حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف کی شاندار فتح بھی اور کرتا دھرتاؤں کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ جھاڑو یہاں سندھ میں بھی نہ پھر جائے۔ اس خدشے کا سب سے بڑا سبب گزشتہ ماہ کراچی کے حلقے این اے 240 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کا نتیجہ بھی ہے جو موجودہ سیاسی صورتحال کو زیادہ واضح کرتا ہے۔ وہاں گو کہ ایم کیو ایم کے امیدوار نے فتح حاصل کی لیکن یہ فتح انتہائی کم مارجن کے ساتھ تھی اور ایم کیو ایم کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس کے قطعی شایان شان نہیں تھی۔ یہاں دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت تحریک لبیک کا امیدوار ایم کیو ایم کے فاتح امیدوار سے 60 سے 65 ووٹوں سے ہی پیچھے رہا۔ یہ فرق بھی دیکھ لیں کہ یہاں ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی میدان میں نہیں تھی اور یہاں ووٹرز ٹرن آؤٹ 15 فیصد کے لگ بھگ تھا جب کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ عام انتخابات کے مساوی 50 فیصد کے قریب رہا۔

    انتخابات ملتوی ہونے کے بعد جہاں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی و دیگر جماعتیں الیکشن کمیشن کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی ہیں تو وہیں دوسری جانب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چاہے وہ سب کے سامنے کچھ بھی کہیں لیکن دونوں اس التوا پر خوش ہیں۔

    اب محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بارشیں اس شدت سے برستی بھی ہیں یا نہیں لیکن الیکشن تو ملتوی کردیے گئے ہیں۔ کراچی میں سالوں بعد جو انتخابی ماحول گرم ہوا تھا، وہ ٹھنڈا ہونے کے بعد شہر کی سیاسی فضا میں گھٹن اور حبس بڑھ گیا ہے۔ ملک کو 65 فیصد سے زائد ٹیکس دینے والے شہر کراچی اور اس کے شہری اب حقیقی مسیحائی چاہتے ہیں اب تک اس شہر کو کئی میئر اور مقامی نمائندے مل چکے ہیں جو اس شہر کے بیٹے ہونے کے دعویدار تو تھے، لیکن تعصب اور جانبداری کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں وہ اس شہر اور یہاں کے باسیوں کو کچھ نہیں دے سکے۔