Author: ریحان خان

  • "عید تو بچوں کی ہوتی ہے….” کچھ یادیں، کچھ باتیں

    "عید تو بچوں کی ہوتی ہے….” کچھ یادیں، کچھ باتیں

    بچپن میں جب یہ سنتے تھے کہ "عید تو بچوں کی ہوتی ہے” تو حیران ہوتے تھے کہ جب بچوں کی عید ہوتی ہے تو بڑے کیوں مناتے ہیں؟ نئے کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟ اور نماز عید کیوں پڑھنے جاتے ہیں؟ لیکن جب بڑے ہوئے تو اس جملے کے مفہوم سے آشنا ہوئے۔ یقین آگیا کہ "عید تو بچوں کی ہوتی ہے اور اب ہم بھی اپنے بچوں کو یہی کہتے ہیں کہ اصل عید تو بچو تمہاری ہے۔

    آج ہم اپنے بچپن کی عیدوں سے متعلق اپنی یادیں تازہ کریں گے، بقول شاعر

    میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
    آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے

    تو جناب ہمارے بچپن کی عید میں بھی آج کی طرح نئے کپڑے، عیدی، نت نئے پکوان، سیر و تفریح سب کچھ ہوتا تھا مگر عید کے وہ دن ہماری آج کی عید سے خاصے مختلف تھے۔

    70 اور 80 کی دہائی میں جنم لینے اور بچپن کے خوبصورت دن گزارنے والوں کو یاد ہوگا کہ کیسے وہ عیدیں آج کی عید سے منفرد ہوتی تھیں۔ ہم جب بچے تھے تو آج کے بچوں ہی کی طرح بے تابی سے عید کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن انداز کچھ مختلف ہوتا تھا، روز امی سے پوچھنا کہ اب عید میں کتنے دن رہ گئے، کتنے روزے باقی رہ گئے؟ اس طرح کے کئی سوال تو ہم کرتے تھے لیکن ساتھ ساتھ عید کی تیاری کچھ اس انداز میں کرتے تھے جو آج شاید ہمارے لیے ممکن بھی نہیں۔

    مثلا آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دینے کے لیے روایتی عید کارڈز دینے کا رواج متروک ہی ہوچکا ہے۔ اب تو صرف ہاتھ میں پکڑے موبائل سے عید مبارک کا پیغام، کوئی ایموجی یا ڈیجیٹل کارڈ بھیج کر یہ روایت بالکل روکھے پھیکے انداز میں نبھائی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے بچپن میں رمضان کا آغاز ہوتے ہی ہم اپنے دوستوں اور کزنز وغیرہ کو عید پر دینے کیلیے عید کارڈز کی خریداری شروع کر دیا کرتے تھے اور اس کے لیے روزانہ دکانوں اور اس حوالے سے لگائے جانے والے خصوصی اسٹالز (جی ہاں اس دور میں عید کارڈز فروخت کرنے کے خصوصی اسٹالز لگائے جاتے تھے) کے روز چکر لگایا کرتے تھے۔ اس موقع پر کوشش ہوتی تھی کہ اچھے سے اچھے کارڈز کا انتخاب کریں۔ عموما اس وقت دور حاضر کے فلمی اداکار اور اداکاراؤں کے پوسٹ کارڈز پر مبنی عید کارڈز ہوا کرتے تھے جن کے ایک طرف تصویر اور دوسری جانب لکھنے کیلیے خالی جگہ ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف پھولوں اور تہنیتی پیغامات کے ساتھ کارڈز بھی ہوتے تھے، اس دور میں کارڈز پر مبارک باد کے ساتھ بچکانہ اشعار بھی لکھ کر اپنی بھرپور محبت کا اظہار کیا جاتا تھا جن میں سے یہ دو تو بہت مشہور زمانہ رہے ہیں۔

    گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی
    دوست سے دوستی توڑی نہیں جاتی

    عید آئی ہے بڑی دھوم دھام سے
    دوست اچھل پڑا سویوں کے نام سے

    لیکن آج کا بچہ تو روٹی کے بجائے پزا کا دلدادہ ہے، سویوں کے بجائے نوڈلز، اسپیگٹیز اور پاستا اس کے من کو بھاتے ہیں جو کہ ہمارے دور میں ندارد تھے۔

    خیر بات ہورہی تھی عید کارڈز کی تو اس دور میں محکمہ ڈاک کی جانب سے بھی عید کارڈز پوسٹ کرنے کیلیے مقررہ تاریخ کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا تھا کہ جس نے اپنے دوستوں رشتے داروں کو ملک یا بیرون ملک عید کارڈز بھیجنے ہیں وہ مقررہ تاریخ تک کارڈز محکمہ ڈاک کو دے دیں تاکہ بروقت پہنچ سکیں۔ اس کے بعد لوگ پوسٹ آفس کے باہر گھنٹوں لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر اپنے عزیز واقارب اور دوست واحباب کو کارڈز پوسٹ کیا کرتے تھے کیونکہ اس دور میں آج کی طرح کئی کئی کوریئر سروس موجود نہیں تھیں۔

    جیسے جیسے دن گزرتے جاتے تھے ہمارا عید کے انتظار کے حوالے سے جنون بڑھتا جاتا تھا جو کہ آج کی نسل میں عنقا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری عید کے انتظار کی سب سے بڑی وجہ نیا جوڑا، نیا جوتا اور اس کے بعد عیدی ملنا ہوتا تھا کیونکہ اس دور میں عموما تہوار یا کسی شادی بیاہ میں ہی نئے کپڑے بنائے جاتے تھے جبکہ آج اس کے برعکس ہوچکا ہے۔ اب تو جب دل چاہا نئے کپڑے بنالیے تو نئے کپڑوں کی وہ خوشی جو سال میں ایک بار ملنے پر ہمیں بچپن میں ہوتی تھی اور نئے کپڑے پہننے کا انتظار وصل یار کی طرح لگتا تھا، اس مزے سے آج کی نسل ناآشنا ہے۔

    چاند رات پر رات بھر جاگ کر انتظار کیا جاتا تھا کہ صبح عید ہے نئے کپڑے پہنیں گے، پھر سب سے عیدی ملے گی تو اپنی مرضی سے چیزیں کھائیں گے اور خوشی کے یہ چھوٹے چھوٹے پروگرام ہم کئی کئی روز تک دوستوں یا کزنز اور بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر بناتے تھے۔

    ادھر چاند نظر آیا ادھر اُدھم مچ گئی، گھر میں امی اور دیگر بڑی خواتین صبح کے لیے شیر خرما اور دیگر پکوانوں کی تیاری میں جُت جاتیں اور ہم للچائی نظروں سے ہینگر میں ٹنگے استری شدہ نئے کپڑوں کو دیکھ کر جاگتی آنکھوں سے خود کو صبح اس نئے لباس میں دیکھ رہے ہوتے تھے۔ اس وقت صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوتا تھا جو آج کے برعکس اس وقت پورا ماہ رمضان مذہبی لبادہ اوڑھے رکھتا تھا اور ایک ماہ تک گانے اور موسیقی پر پابندی ہوتی تھی لیکن چاند نظر آتے ہی اس پر بھی عید کے رنگ چڑھ جاتے تھے۔ خاص طور پر فریدہ خانم کا مشہور گانا "میں نے پیروں میں پائل تو باندھے نہیں” اور روشانے ظفر کا نغمہ ” فلک پہ کیسا یہ چاند نکلا” ہر عید کی چاند رات کو کئی سالوں تک اتنی مستقل مزاجی سے نشر کیا جاتا رہا ہے کہ بچوں بڑوں کو ان گیتوں کے بول تک ازبر ہوگئے تھے۔

    صبح عید ہوگی کا انتظار کرتے کرتے امی کی پیار بھری سرزنش کے ساتھ سوجاتے تھے۔ صبح نماز عید کے لیے خاندان کے سب بڑے مرد اکٹھا ہوکر عید گاہ نماز کے لیے جاتے تھے اگر لوگ علیحدہ علیحدہ گھروں میں بھی رہتے تھے تو نماز عید کے لیے کسی ایک گھر میں اکٹھا ہوجاتے تھے اور وہیں سے عید گاہ کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی بغل میں چادریں، جائے نماز اور کپڑے کے تھیلے دبائے عیدگاہ کی طرف گامزن ہوتے تھے۔ اس وقت کم سن بچوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ بڑے جب نماز پڑھیں تو وہ کپڑے کے تھیلوں میں گھر والوں کی جوتیاں جمع کرکے ان کی نگرانی کریں تاکہ وہ چوری نہ ہوسکیں۔

    ادھر نماز عید ہوئی لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے اور گھر واپسی ہوئی ادھر ہمیں اپنی عیدی کی فکر ہوئی۔ گھر آتے ہی ابو اور گھر کے بڑوں سے عیدی کا تقاضا شروع ہوجاتا تھا۔ اس وقت عیدی کیا ہوتی تھی آج کے بچے جان لیں تو حیران رہ جائیں۔ ایک روپیہ، دو روپے، پانچ روپے حد ہے 10 روپے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ 50 یا 100 روپے ملے ہوں۔ اگر کسی کو 100 یا 50 روپے عیدی ملتی تو سمجھ لو پورے محلے میں اس کی شان بڑھ جاتی تھی۔ عیدی ملتے ہی ہم سب گھر سے رفوچکر اور عیدی خرچ کرنے کی فکر۔

    آج کے دور میں جب بچے کولڈ ڈرنک، آئسکریم کے رسیا ہیں اور آئے روز اپنے والدین سے اپنی فرمائشیں پوری کراتے ہیں لیکن ہمارے دور میں ہم میں سے اکثریت ان چیزوں کیلیے عید کا انتظار کرتی تھی کہ عید ہی ایسا موقع ہوتا تھا جب ہم اپنی پسند یعنی کولڈ ڈرنک اور آئسکریم سے بھرپور لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس دور میں بچوں کی عیدی میں ملنے والے پیسوں سے سے بڑی عیاشی کولڈ ڈرنک، آئسکریم یا میٹھا پان ہوتا تھا یا پھر گھر کے قریب لگنے والے بچوں کیلیے شغل میلے جن میں مختلف اقسام کے دیسی جھولے، رِنگ پھینک کر انعام جیتنے والی لاٹری یا اس جیسے ہی دیگر کھیل کود۔

    عید کا سارا دن اسی ادھم چوکڑی میں گزر جاتا تھا اور رات ہوتے ہی تھکن کے مارے خوشی سے سرشار ہم نیند کی وادیوں میں گم ہوجاتے تھے۔

    ایسی ہوتی تھی ہماری تصنع و بناوٹ سے دور سادگی کے رنگوں سے لبریز خوشیوں بھری عید جس کا ذکر کرکے ہم بھی اپنے بچپن کی عیدوں میں کھوگئے اور یہ سوچنے لگے کہ کاش یہ بچپن دوبارہ واپس آجائے لیکن پھر یہ سوچ کر ہنس دیے کہ کبھی گزرا وقت بھی واپس آتا ہے اور دوبارہ اپنے مشینی دور میں واپس آگئے تاکہ اپنے بچوں کے لیے حقیقی معنوں میں عید کا اہتمام کرسکیں۔

  • سیاسی اختلاف ضرور کریں، مگر دوستیاں، رشتے داریاں داؤ پر نہ لگائیں

    سیاسی اختلاف ضرور کریں، مگر دوستیاں، رشتے داریاں داؤ پر نہ لگائیں

    چند سال قبل پڑوسی ملک کے ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈراما "تُو تو مَیں میں” نشر ہوتا تھا جو ساس بہو کے روایتی جھگڑوں پر مبنی مزاحیہ کہانی تھی۔ ان دنوں ہمارا معاشرہ اسی ڈرامے کی جھلکیاں‌ پیش کررہا ہے جس کی اصل وجہ ہے سیاست اور ہمارے ‘پیارے’ سیاستدان۔

    احمد اور مسعود بچپن کے دوست ہیں۔ احمد کی سیاسی وابستگی پی ٹی آئی اور مسعود کی وابستگی ن لیگ سے ہے۔ انہوں نے واٹس ایپ پر اپنے دوستوں کا ایک گروپ بنایا ہوا ہے جس میں یہ اپنے اسکول اور کالج کے دوستوں سے رابطے میں رہتے اور پرانے دن اور باتوں کو شیئر کرتے رہتے ہیں۔ دو ہفتے قبل عمران خان کی حکومت گئی تو سوشل میڈیا پر جیسے طوفان آگیا۔ ہر سیاسی جماعت کا سپورٹر اپنے اپنے سیاستدانوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بولنے لگا اور اس رجحان کا اثر اس گروپ پر بھی پڑا۔ اور جہاں دوست ایک دوسرے سے حال چال پوچھا کرتے تھے، اب وہاں سیاسی بحث زور و شور سے ہونے لگی اور آہستہ آہستہ یہ حد سے بڑھنے لگی۔ ہر شخص اپنے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو ہی اس ملک کا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے لگا۔ یہ اگر یہیں تک رہتا تو پھر بھی صحیح تھا، لیکن بات آگے بڑھی اور لوگ سیاستدانوں کی حمایت کرتے کرتے دانستہ اور نادانستہ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے لگے اور یہ مخالفت اتنی بڑھی کہ معمولی تبدیلی کے ساتھ اس ساری صورت حال میں‌ یہ شعر پڑھا جاسکتا ہے:
    اختلاف جب حد سے بڑھا سارے آداب مٹ گئے
    آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے

    گویا پرانی دوستی یاری بھی اس تُو تو مَیں میں کی زد میں آنے لگی اور تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد ختم ہونے کی نوبت آگئی۔ یہ تمثیل ہمارے زمینی حقائق کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

    ڈیجیٹل دنیا میں سوشل میڈیا اس لحاظ سے سب سے طاقتور میڈیا بن کر ابھرا ہے کہ یہاں ہر سچی، جھوٹی بات، تصدیق اور بلا تصدیق کوئی بھی خبر، تصویر، ویڈیو پھیلانے کی سب کو آزادی حاصل ہے۔ تو جب سے ہماری سیاست میں بھونچال آیا ہے اور عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں تب سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔ دونوں جماعتوں کے سپورٹر اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق دلائل دے کر ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کوشش میں کئی معقول ونامعقول حرکات بھی کی جارہی ہیں جس میں سیاستدانوں کی کردار کشی، دانستہ یا نادانستہ جھوٹ کو پھیلانے میں مدد دینے جیسے کام تو ہو رہے ہیں لیکن ان دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاست اور سیاستدانوں کی محبت میں برسوں سے دوستی کے رشتے میں بندھے دوست، خونی رشتوں والے ناتے جو پہلے سیاستدانوں کی محبت میں نوک جھونک تک ہی رہتے تھے اب سیاستدانوں کو چھوڑ کر باقاعدہ اور براہ راست ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں اور رکیک جملے بازیوں پر اتر آئے ہیں جو اب ایک انتہائی حساس معاملہ بنتا جارہا ہے کیونکہ یہ بلاوجہ کی بحث ان پیارے اور میٹھے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں کمزور کرسکتا ہے۔

    میرے ہم وطنو!
    براہِ مہربانی میرے اس طرز تخاطب کو کسی اور پیرائے میں نہ جوڑیں بلکہ سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا سیاست اور سیاستدانوں کے حوالے سے جتنا تناؤ ہم لے رہے ہیں اور اس فرسٹریشن میں خود ایک دوسرے کو ہی برا بھلا کہہ رہے ہیں کیا ہمارے "پیارے” سیاستدان بھی باہمی تناؤ کو اپنی ذات پر لاگو کرتے ہیں۔

    انداز بیاں گرچہ میرا شوخ نہیں ہے
    شاید کہ تیرے دل میں اترجائے میری بات

    بہت سے لوگ آگاہ ہونگے کہ پاکستان میں اقتدار کی بساط بچھانے کیلیے سیاستدان باہمی رشتے داریاں مضبوط کرتے آئے ہیں۔ آپس میں یہ کتنا ہی ایک دوسرے کو برا کہیں لیکن اپنی رشتے داریاں خراب نہیں کرتے، اگر ن لیگ کا قالین اٹھا کردیکھیں تو اس میں پی ٹی آئی، ق لیگ، پی ٹی آئی کے لوگ دکھائی دیں گے، اگر پی ٹی آئی کا قالین اٹھائیں تو اس میں دیگر جماعتیں نظر آئیں گی۔ زیادہ دور نہ جائیں پی ٹی آئی کے اسد عمر اور ن لیگ کے زبیر خان آپس میں سگے بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی پارٹیوں کے انتہائی وفادار ہیں جو مخالف جماعت کیخلاف کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے لیکن کبھی اپنے رشتے پر حرف نہیں آنے دیتے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں ہماری سیاسی تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔

    کیا اب عوام بھی سیاستدان بن گئی ہے جو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگی ہے؟ تو بہت ہوگیا ایک دوسرے کی کھینچا تانی، سیاست ہوتی رہی ہے، ہوتی رہے گی، سیاسی شور ایسے ہی مچتے رہیں گے لیکن اس شور میں اپنی اقدار، دوستیاں، محبت، رشتوں کو نہ گنوائیں کیونکہ یہ رشتے صرف قیمتی نہیں بلکہ بہت قیمتی ہیں۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے جس کے اختتام پر اللہ تعالیٰ ہمیں بے حد نوازتا ہے اور عید جیسا تہوار منانے کا موقع دیتا ہے جس میں گلے لگ کر ایک دوسرے سے کدورتیں دور کی جاسکتی ہیں تو اگر اس بلاوجہ بحث مباحثے میں اگر آپ کا کوئی پیارا آپ سے ناراض ہوگیا ہے تو آپ ہی پہل کرتے ہوئے اس کی ناراضگی ختم کریں۔ یقین کریں آپ کی یہ پہل تعلقات کی بحالی اور مضبوطی کے لیے ایک جادو کی جپھی کا کام دے گی۔ اس بلاگ کا اختتام اس نظم پر ککرتا ہوں:

    خوشحال سے تم بھی لگتے ہو
    یوں افسردہ تو ہم بھی نہیں
    پر جاننے والے جانتے ہیں
    خوش تم بھی نہیں خوش ہم بھی نہیں
    تم اپنی خودی کے پہرے میں
    اور دام غرور میں جکڑے ہوئے
    ہم اپنے زعم کے نرغے میں
    انا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے
    ایک مدت سے غلطاں پیچاں
    تم ربط وگریز کے دھاروں میں
    ہم اپنے آپ سے الجھے ہوئے
    پچھتاوے کے انگاروں میں
    خاموش سے تم ہم مہر بہ لب
    جگ بیت گئے ٹُک بات کیے
    سنو کھیل ادھورا چھوڑے ہیں
    بنا چال چلے بنا مات کیے
    جو بھاگتے بھاگتے تھک جائیں
    وہ سائے رُک بھی سکتے ہیں
    چلو توڑو قسم اقرار کریں
    ہم دونوں جُھک بھی سکتے ہیں

  • خاتون صحافی کی رپورٹنگ کا انوکھا انداز، دلچسپ ویڈیو وائرل

    خاتون صحافی کی رپورٹنگ کا انوکھا انداز، دلچسپ ویڈیو وائرل

    آپ نے فلموں میں خواتین کو رقص کرتے ضرور دیکھا ہوگا لیکن سوشل میڈیا پر ان دنوں ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں خاتون صحافی رقص کے انداز میں رپورٹنگ کررہی ہے۔

    یہ ویڈیو ہے ایک بھارتی نجی ٹی وی چینل کی خاتون صحافی کی جو روس یوکرین جنگ کے دوران روسی بحری جہاز کے تباہ ہونے کی خبر اپنے ناظرین کو اچھلتے کودتے اور رقص کے انداز میں دے رہی ہے اور لگ نہیں رہا کہ مذکورہ خاتون رپورٹ کسی سنجیدہ اور سنگین مسئلے کو رپورٹ کررہی ہے۔

     

    سماجی رابطوں کی سائٹ ٹویٹر پر خاتون صحافی کی یوکرین جنگ کے دوران روسی بحری جہاز کے تباہ ہوجانے کی خبر رقص اور اچھل کود کے دوران مزاحیہ انداز میں دینے کی ویڈیو تیزی سے مقبول ہورہی ہے جس پر صارفین ان کے انداز پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں جبکہ کچھ انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنارہے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں خاتون رپورٹر ہندی زبان میں یوکرین سے یہ خبر دے رہی ہیں کہ روس نے یوکرین کا دورہ کرنے والے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن پر پابندی عائد کردی ہے۔

    اس خبر کو دنیا کے تمام ہی چھوٹے بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس نے رپورٹ کیا مگر کسی نے بھی اس معاملے کو ایسے رپورٹ نہیں کیا جیسے بھارت کی خاتون رپورٹر نے کیا۔ وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون سنجیدہ معاملے پر رقص کرتے ہوئے مزاحیہ انداز سے رپورٹ کررہی ہیں۔

     

    خاتون صحافی نے اس انداز سے پہلی بار رپورٹنگ نہیں کی ان کا ٹوئٹر پروفائل دیکھیں  تو کبھی وہ کسی تباہ شدہ جنگی ٹینک کے اوپر کھڑی نظر آرہی ہیں تو کبھی تباہ شدہ عمارتوں کے ہمراہ تصویر بنوارہی ہیں۔ خاتون رپورٹر کو اپنے منفرد انداز کے سبب سوشل میڈیا پر طنز و مزاح پر مبنی تبصروں کا  سامنا  کرنا پڑ رہا ہے جب کہ  کئی صارفین نے انہیں ڈانسنگ رپورٹر کے لقب سے بھی نوازا۔

     

    واضح رہے کہ گزشتہ دو ماہ سے جاری روس اور یوکرین کے مابین جنگ میں اب تک 46 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں اور ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔

  • عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہورہی تھی، لیکن پھر ۔۔۔؟

    عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہورہی تھی، لیکن پھر ۔۔۔؟

    پاکستان تحریک انصاف نے حکومت جانے کے بعد تین کامیاب عوامی جلسوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔

    پشاور اور کراچی کے بعد پی ٹی آئی کی سخت سیاسی حریف ن لیگ کے گڑھ لاہور میں ہونیوالے جلسے میں بھرپور پاور شو نے ایوان اقتدار میں تھرتھلی مچا دی ہے، کیونکہ یہ جلسے پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد کیے گئے ہیں اس لیے کوئی یہ شور بھی نہیں کرسکتا کہ اسکے لیے ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔

    ملک میں جب 2022 کا سورج طلوع ہوا تو غربت اور مہنگائی کے مارے عوام کیلیے امید کی کوئی نئی کرن اس نئے سال کے سورج میں نہیں تھی، عوام بدستور بدترین مہنگائی کا عذاب سہہ رہی تھی، اشیائے خورونوش غریب عوام کی دسترس سے دور ہوتی جارہی تھیں آئے دن بجلی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے پروں کو انرجی فراہم کرتا تھا، یہ حالات تھے کہ اس وقت کی عمران خان حکومت کے وزرا بھی بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہوچلے تھے اور کابینہ اجلاسوں میں برملا اس بات کا اظہار کیا جاتا تھا کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں کراس کرچکی ہے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو آئندہ الیکشن میں ان کا اپنے حلقوں میں عوام کے درمیان جانا مشکل ہوجائے گا اور پی ٹی آئی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

    اس وقت سیاسی منظر نامے پر آج کل کی طرح سیاسی ہلچل نہیں تھی۔ پی ڈی ایم گوکہ اپوزیشن کر رہی تھی اور اس نے مہنگائی کے بیانیے کو بھی اپنایا تھا لیکن عوام نے اس کے بیانیے کو مسترد تو نہیں کیا لیکن لبیک کہہ کر اپوزیشن کی صفوں میں بھی شامل نہیں ہوئی۔

    بڑھتی مہنگائی اور اس پر سابق وزیراعظم کے چند قریبی وزرا کے زخموں پر نمک چھڑکتے بیانات نے خاموش عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنا شروع کر دیا تھا اور عام محافل، پبلک ٹرانسپورٹ، بسوں، ٹرینوں، ہوٹلوں، دکانوں، بازاروں، دوست یاروں کی بیٹھکوں میں صرف ایک ہی مسئلہ مہنگائی زیر بحث ہوتا تھا اور لوگ ملبہ ڈال رہے تھے عمران خان کی نااہلی اور کابینہ پر۔

    ان بیٹھکوں اور غیر رسمی باتوں میں پریشان حال عوام پی ٹی آئی حکومت پر تبرا بھی بھیجتی رہی اور نالاں بھی رہی کہ عمران خان جو وعدے کرکے اقتدار میں آئے وہ پورے نہیں ہورہے بلکہ عوام جو پہلے ہی غربت ومہنگائی کے مارے تھے ان کو مزید مہنگائی کی دلدل میں اتار کر بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے۔

    یہ سب ایسے ہی چل رہا تھا اور شاید کچھ وقت تک چلتا رہتا اور آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی اس عوامی بے اعتنائی کا خمیازہ اس وقت کے حالات کے مطابق آئندہ الیکشن میں متوقع ناکامی کی صورت میں چکھ بھی لیتی لیکن پھر ایسا ہوا کہ اپوزیشن حلقوں میں یوٹرن خان کے نام سے مشہور عمران خان کی غیر مقبولیت کو یوٹرن مل گیا اور آج عمران خان صرف ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

    تحریک عدم اعتماد کے نام پر ماضی کی دشمن نما حریف سیاسی جماعتوں کا اکٹھ ہوا تو عوام نے یہ مناظر دیکھے کہ ماضی میں ایک دوسرے کیلیے گالیاں نکالنے والے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر کرپشن کا پیسہ نکالنے، ایک دوسرے کو کرپشن کا بادشاہ کہنے والے ایک دوسرے کو درویش صفت کہتے ہوئے آپس میں بغلگیر بھی ہوئے، جب ایک شخص کے خلاف تمام سیاسی دشمنوں کو اکٹھا ہوتے دیکھا تو عمران خان حکومت سے بیزار عوام کی سوچ میں بھی تبدیلی آنے لگی اور یہ تبدیلی کا ہی مظہر ہے کہ آج عمران خان ملک بھر میں بھرپور پاور شو کررہے ہیں۔

    پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے قبل از وقت خاتمے کی طویل تاریخ ہے لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ یہاں حکومت کے جانے پر مٹھائیاں بانٹی گئی ہیں اور اگر احتجاج بھی ہوا تو محدود پیمانے پر لیکن عمران حکومت کے خاتمے پر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں جہاں پاکستانی بستے ہیں وہاں عوام نکلی اور خوب نکلی۔

    عمران خان نے عوام کے جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے عوامی رابطہ مہم کا اعلان کیا اور ‘امپورٹڈ حکومت نامنظور’ کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے پہلے مرحلے میں پشاور، کراچی اور لاہور میں جلسوں کا اعلان کیا اور اس بلاگ کے لکھے جانے تک تینوں جلسے ہوچکے اور بھرپور انداز میں ہوئے۔ شاید عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کی توقعات سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں جس کا اظہار وہ اپنے بیانات میں بھی کر رہے ہیں۔

    پی ٹی آئی کے جلسوں کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی کیمپ میں سے کسی نے اب تک اسے حسب سابق جلسی یا ناکام جلسہ نہیں کہا بلکہ بیان آیا بھی ہے تو یہ کہ عمران خان عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

    عمران خان اپنے جلسوں میں ایک ہی مطالبہ لے کر چلے ہیں کہ فوری طور پر نئے الیکشن کا اعلان کیا جائے اور لاہور میں انہوں نے عوام کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے کہ وہ اب اسلام آباد جانے کی کال دیں گے اگر ایسا ہوا تو کیا پھر 2014 کی تاریخ دہرائی جائیگی؟

    بہرحال عمران خان کے جلسوں کی کامیابی اور ملک و بیرون ملک پذیرائی دیکھ کر حکومت جو کہ خود بھی قبل از وقت الیکشن کی خواہاں ہے لیکن اس کیلیے پریشانی کا سبب اس وقت کسی بھی سیاسی لیڈر کے مقابلے میں عمران خان کی آسمان کو چھوتی مقبولیت ہے اور حکومتی حلقوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ موجودہ حالات میں اگر الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو شاید پی ٹی آئی پہلے سے زیادہ بھرپور طاقت کے ساتھ اقتدار میں آجائے اس لیے حکومت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وقت کے ساتھ عوامی جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے، اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ عوامی جذبات حقیقی ثابت ہوتے ہیں یا صابن کے جھاگ کی طرح وقتی اس کیلیے ہمیں اور آپ کو بھی انتظار کرنا ہوگا۔

  • ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    وزیراعظم بننے کے 9 روز بعد بالآخر شہباز شریف 34 رکنی کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے اور حلف اٹھانے والوں میں ایم کیو ایم کے بھی دو وفاقی وزیر شامل ہیں جب کہ سندھ میں گورنر کیلیے بھی ایم کیو ایم سے نام مانگے گئے ہیں۔

    ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی کابینہ میں حلف اٹھانے والوں میں سید امین الحق اور فیصل سبزواری شامل ہیں، امین الحق کو تو ان کی پرانی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی دی گئی ہے جب کہ اس بلاگ کے تحریر کیے جانے تک فیصل سبزواری کو وزارت بحری امور دیے جانے کا امکان ہے جب کہ شنید ہے کہ گورنر کیلیے ایم کیو ایم کی جانب سے عامر خان، نسرین جلیل اور سابق وفاقی وزیر فروغ نسیم کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔

    متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھی اور اُس حکومت میں بھی اس کے دو وفاقی وزیر شامل تھے لیکن عدم اعتماد کے گرما گرم ماحول میں ایم کیو ایم نے اپنی سوچ بدلی اور پونے چار سال بعد اس کو خیال آگیا کہ پی ٹی آئی سے اس نے جو معاہدہ کیا تھا اس میں سے ایک پر بھی عملدرآمد نہ ہوا اور اس کے بعد کئی روز تک مشاورت در مشاورت کے بعد عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز قبل وہ اس وقت کی متحدہ اپوزیشن میں شامل ہوگئی۔

    جس وقت ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیا تو اپنے فیصلے کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کا مطمح نظر حکومت، وزارتیں اور گورنر شپ نہیں بلکہ سندھ کے شہری مسائل بالخصوص بلدیاتی اختیارات، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی، بند دفاتر کی واپسی جیسے اہم مسائل کا حل شامل ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد بار ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونگے اور ان کا موجودہ اتحاد صرف معاہدے کے نکات پر عملدرآمد تک محدود ہے۔

    اس دوران ایم کیو ایم کے کنوینر سمیت دیگر رہنماؤں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان لفظی گولہ باری بھی جاری رہی اور سابقہ حلیف ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی کرتے رہے تاہم اب جب کہ ایم کیو ایم باقاعدہ وفاقی حکومت میں شامل ہوگئی ہے اور جلد ہی گورنر سندھ بھی ایم کیو ایم کا ہوگا اور امکان ہے کہ سندھ کابینہ میں بھی ایم کیو ایم کو حصہ دیا جائیگا، اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر حیران و پریشان ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پہلی یا دوسری بار کسی حکومت کا حصہ بنی ہو، ایم کیو ایم کی پارلیمانی تاریخ کے 34 سالہ ادوار کا جائزہ لیں تو یہ 1993 سے 1996 کا دور بغیر حکومت کے ایم کیو ایم نے گزارا جب کہ اس کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا اس کے علاوہ ایم کیو ایم تقریبا 30 سال تک ہر حکومت کا کسی نہ کسی صورت میں حصہ رہی ہے، ایم کیو ایم کے پاس گزشتہ دور حکومت میں بھی دو وزارتیں تھیں، جب کہ ملک کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک گورنر رہنے کا اعزاز متحدہ کے نامزد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے پاس رہا ہے جو کہ ایک دہائی سے زیادہ وقت تک مسلسل گورنر سندھ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

    اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر پہلے سابق حکومت سے باہر نکلنے اور اب پھر ایک نئی حکومت میں شامل ہونے کے فیصلے پر حیران ہے کہ ایم کیو ایم اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہونے کے باوجود اب تک اپنے مسائل حل نہیں کراسکی تو اب اس نئی حکومت کا حصہ بن کر اپنے کون سے حقوق حاصل کرلے گی جس سے شہری سندھ کا بھلا یا عوام کا فائدہ ہوگا؟

    نہ نہ کرتے پیار تم ہی سے کر بیٹھے
    کرنا تھا انکار مگر اقرار تم سے کر بیٹھے

    اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے عام ووٹر سمیت شہریوں کی جانب سے ایم کیو ایم کے پی ٹی آئی سے کیے گئے تین بنیادی مطالبات سے متعلق سوال بھی کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم لاپتہ کارکنان کی عدم بازیابی، بند دفاتر واپس نہ دیے جانے اور مقدمات ختم کیے جانے جیسے مطالبات پورے نہ ہونے کا جواز بنا کر پی ٹی آئی حکومت سے علیحدہ ہوئی جب کہ یہ ایشوز پی ٹی آئی دور حکومت کے دوران رونما نہیں ہوئے بلکہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومتوں کے ادوار میں ہوئے جن کی وہ آج پھر ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے جب کہ یہ بات ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی قوتوں کو معلوم ہے کہ ایم کیو ایم کے مذکورہ بنیادی مطالبات کسی سیاسی حکومت یا جماعت کے حل کرنے کے بس کی بات نہیں ہے۔

  • کیا اتحادی ہی موجودہ حکومت کی ناکامی کا سبب بنیں‌ گے؟

    کیا اتحادی ہی موجودہ حکومت کی ناکامی کا سبب بنیں‌ گے؟

    پاکستان میں نئی حکومت کو آٹھ روز گزر چکے ہیں۔ وقت کی گردش نے اپوزیشن کو ایوان اقتدار میں لا بٹھایا اور حکمرانوں کو سڑکوں پر نکال دیا ہے۔

    شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد حسب روایت اپنے امور کی انجام دہی میں پھرتیاں دکھانی شروع کردی ہیں لیکن آٹھ روز گزر جانے کے باوجود اس اتحادی حکومت میں‌ وفاقی کابینہ تشکیل نہ دیے جانا ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے۔

    ہم نے اپنے گزشتہ بلاگ میں کہا تھا کہ ساجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تو یہی ہوتا دیکھا ہے لیکن ہانڈی میں ایک ہفتے کے دوران ہی ابال آنے لگے گا، اس کا اندازہ نہیں‌ تھا۔

    ملک میں چند روز ہی سیاسی سکون رہا اور اب حکومتی کیمپ سے بے چینی ظاہر ہونے لگی ہے۔ شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں میں اختلافات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کی سرخیل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پارٹی کے بعض دیگر رہنما کابینہ میں شمولیت کے سرے سے مخالف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پی پی صرف آئینی عہدوں تک محدود رہے اور اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں‌ جو مستقبل میں حکومت کو پیش آسکتی ہیں‌۔ پی پی پی اس حکومت کی ناکامی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کو ہرگز ہرگز تیار نہیں ہے اور پارٹی کے سینیئر رہنما بھی اس معاملے پر آصف زرداری کے ہمنوا ہیں۔ اس حوالے سے پی پی پی اور ن لیگ میں اختلافات بھی سامنے آگئے ہیں۔ پہلے پی پی نے وفاقی کابینہ میں شمولیت کو پنجاب میں آئندہ عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے مشروط کیا اور جب اس حوالے سے دونوں میں معاملات طے پائے تو پھر اہم وزارتوں پر اختلافات ظاہر ہوگئے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ پی پی پی نے صدر، چیئرمین سینیٹ کے ساتھ چاروں صوبوں کی گورنر شپ مانگ لی ہے جب کہ کے پی کے اور بلوچستان میں دیگر اتحادی جماعتیں اپنے اپنے گورنرز کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ آصف علی زرداری ایک بار پھر صدر مملکت کا منصب سنبھالنے کیلیے تیار ہیں۔

    ادھر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو صدر بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں، کی جماعت جے یو آئی ف بھی وفاقی کابینہ میں شمولیت میں دلچسپی نہیں رکھتی جب کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے صدر پاکستان بننے کا خواب ممکنہ طور پر پورا نہ ہونے کے سبب فوری نئے عام انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا اپنے مطالبے کی حمایت میں کہنا ہے کہ اقتدار کو غیر ضروری طور پر طول دینا ہمارا منشا نہیں، ہمیں فوری طور پر الیکشن چاہییں، قوم کو امانت واپس کرنا ہماری ذمے داری ہے۔

    ن لیگ نے ایک بار پھر سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا کے مصداق چیئرمین سینیٹ کیلیے اسحاق ڈار کے نام کا اعلان کردیا ہے جو کہ ابھی تک ملک واپس بھی نہیں آسکے ہیں، ن لیگ کے اس اقدام نے پی پی کو مزید مشتعل کردیا ہے اور بلاول بھٹو جو کہ پی پی کے راضی ہونے پر ممکنہ طور پر وزیر خارجہ بننے جارہے تھے نے لندن کیلیے اڑان بھر لی ہے۔ دوسری طرف پی پی نے اس صورتحال میں آئندہ عام انتخابات کیلیے پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں سے درخواستیں بھی طلب کرلی ہیں۔

    شہباز حکومت کی ایک اور اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی وزارتیں لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ پہلے ایم کیو ایم کی جانب سے موقف آیا تھا کہ ہمارے لیے معاہدے کے نکات زیادہ اہم ہیں اور اس پر عملدرآمد دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ وزارتوں سے زیادہ اہم ہے۔ اب حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد ایک نیا موقف سامنے آیا ہے کہ ایم کیو ایم کے کنوینر نے کہا کہ یہ خاندانی سیاست ہے جمہوریت نہیں۔ تو اس موقف پر سوال تو بنتا ہے کہ کیا ن لیگ اور پی پی پی دونوں میں موروثی سیاست نہیں؟ 1990 سے ن لیگ اور 1970 سے پی پی پی کی سیاست خاندانی موروثیت کے گرد ہی تو گھوم رہی ہے۔ تو کیا معاہدہ کرتے وقت ایم کیو ایم دونوں جماعتوں کی یہ تاریخ بھول گئی تھی۔

    موجودہ سیاسی صورتحال سے لگتا تو یہ ہے کہ مفاہمت کے بادشاہ جن کیلیے ایک جملہ بہت مشہور ہے کہ ‘ایک زرداری سب پہ بھاری’ نے گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستانی سیاست میں فیصلے کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی میدان میں سب پر بھاری ہیں۔

    عدم اعتماد پیش کرتے وقت ہی ماہرین معاشیات سمیت سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں جو بھی حکومت آئے گی اس کیلیے ملک چلانا آسان کام نہیں ہوگا اور جلد یا بدیر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن جہاندیدہ آصف علی زرداری نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا لالچ دے کر اس پر رام کیا اور اب خود کو ممکنہ طور پر چند ماہ یا چند ہفتوں کی حکومت میں کابینہ سے الگ تھلگ رکھ کر صرف آئینی عہدوں صدر، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر، صوبوں کے گورنرز تک ہی محدود رہنا چاہتی ہے۔ قیاس آرائیاں یہ کی جارہی ہیں کہ آصف زرداری ن لیگ کو موجودہ حکومت میں ناکام ثابت کرکے پنجاب میں اپنا راستہ صاف کرنے کے خواہشمند ہیں اور ممکنہ طور پر وہ آئندہ انتخابات میں ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے پنجاب میں الیکشن میں جانا چاہتے ہیں جب کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ن لیگ نے بھی اب آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ صرف پی پی ہی نہیں جے یو آئی اور ایم کیو ایم بھی اس معاملے میں ایک ہی پیج پر نظر آتی ہیں۔

    اس صورتحال میں ن لیگ ایک نئی مشکل میں پھنستی نظر آرہی ہے کیونکہ اگر وہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کی ناکامی پر واویلا کرنے کے بعد اب اقتدار میں ہونے کے باوجود عوام کو مشکلات سے نہیں نکال پاتی تو آئندہ الیکشن کیلیے اس کے پاس کیا نعرہ یا جواز ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ چہرے پر ناکامی کی کالک ملنے کے بجائے جلد الیکشن کی طرف جایا جائے تاکہ ملک میں بھی سیاسی استحکام آسکے۔ ان حالات میں اگر ن لیگ اقتدار میں رہتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن نہیں بلکہ اس کی اتحادی جماعتیں ہی آئندہ الیکشن میں کامیابی کیلیے حکومت کیلیے مشکلات کھڑا کردیں اور ن لیگ پر یہ شعر صادق آئے:

    دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

  • ‘پہلی تقریر میں ہی شوبازیاں دکھا کر اگلے دن یوٹرن لے لیا گیا’

    ‘پہلی تقریر میں ہی شوبازیاں دکھا کر اگلے دن یوٹرن لے لیا گیا’

    وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار وزیراعظم شہباز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلی تقریر میں ہی شوبازیاں دکھا کر اگلے دن یوٹرن لے لیا گیا۔

    وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اعلان کردہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کے اعلان کو واپس لیے جانے کے فیصلے پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں عثمان بزدار نے وزیراعظم شہباز شریف کا نام لیے بغیر کہا کہ پہلی تقریر میں ہی شوبازیاں دکھا کر اگلے دن یوٹرن لے لیا گیا۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ بھی کہنا تھا کہ پچھلےسال پی ٹی آئی حکومت نے تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ کیا، 10 فیصد بنیادی تنخواہ میں اضافے کے ساتھ 25 فیصدالاؤنس شامل تھے جبکہ اس سال وفاق میں مزید 15 فیصد اضافے کا نوٹیفکیشن ہوچکا تھا۔

    عثمان بزدار نے اپنے ٹوئٹ میں ن لیگی رہنما مفتاح اسماعیل کی جانب سے کیا گیا ٹوئٹ بھی شامل کیا ہے جس میں ن لیگی رہنما نے کہا تھا کہ کوئی یو ٹرن نہیں ہے۔

    مفتاح اسماعیل نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لینے کے فیصلے کی وضاحت دیتے ہوئے لکھا تھا کہ فیڈرل گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہیں چند ماہ قبل ہی بڑھائی گئی تھیں، اس لیے فیڈرل گورنمنٹ کی تنخواہیں دوبارہ نہیں بڑھا رہے۔

  • وزیراعلیٰ کا انتخاب، پرویز الہٰی کے ارکان اسمبلی سے رابطے

    وزیراعلیٰ کا انتخاب، پرویز الہٰی کے ارکان اسمبلی سے رابطے

    پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلیے سیاسی جوڑ توڑ تیز ہوگیا ہے اور چوہدری پرویز الٰہی کے ارکان اسمبلی سے رابطے جاری ہیں۔

    ذرائع نے اے آر وائی نیوز کو بتایا ہے کہ پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے سلسلے میں اسپیکر پنجاب اسمبلی ہونے کے ساتھ وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی آج ڈی جی خان، بہاولپور اور ساہیوال سے منتخب ارکان پنجاب اسمبلی سے ملاقات کریں گے۔

    ذرائع کے مطابق ارکان صوبائی اسمبلی کے اعزاز میں افطار ڈنر بھی دیا جائیگا اس موقع پر ہونے والے اجلاس میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لئے حکمت عملی پر مشاورت ہوگی۔

    وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے سابق وزرا، ارکان اسمبلی کو مختلف ٹاسک سونپے جائیں گے اور سابق صوبائی وزرا پر مشتمل کمیٹی کو ناراض ارکان سے رابطوں کی ہدایت بھی کی جائیگی۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے ملاقات کے دوران چوہدری پرویز الہٰی نے دعویٰ کیا تھا کہ ہمارے ممبران پورے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہمارے ممبران کی تعداد اللہ کے فضل سے پوری ہے، پرویز الٰہی

    ان کا کہنا تھا کہ ناراض اراکین سمیت سب سے رابطے میں ہیں اور جلد سب متحد ہوجائیں گے۔

  • پرانا پاکستان، نیا وزیراعظم اور ساجھے کی ہانڈی

    پرانا پاکستان، نیا وزیراعظم اور ساجھے کی ہانڈی

    قوم کو مبارک ہو بالآخر ہم تقریباً پونے چار سال تک نئے پاکستان میں مٹر گشت کرنے کے بعد واپس پرانے پاکستان میں آگئے ہیں۔

    پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ملک کے 23 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا اور یوں پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوگیا کہ شیروانی ٹنگی ہی رہے گی، کام نہیں آئے گی۔

    شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے ساتھ ہی پاکستان میں سیاسی انتشار اور افراتفری بھی ختم ہوگئی ہے اور مارچ کے مہینے کے آغاز سے عدم اعتماد کے حوالے سے جو سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی، وہ عدم اعتماد کی کام یابی اور شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد کم از کم پارلیمنٹ کی حد تک تو سکون ہوگیا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے استعفوں کے بعد ایوان میں اپوزیشن ہی نہیں رہی ہے۔

    صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اچانک اپنی ‘بیماری’ کا ٹوئٹر کے ذریعے اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹروں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا ہے، اس لیے وہ نومنتخب وزیرِ اعظم سے حلف نہیں لے سکے اور ان کی جگہ سینیٹ کے چیئرمین نے شہباز شریف سے حلف لیا۔ صدر مملکت کا اچانک بیمار ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، خاص طور پر اس تناظر میں جب پی ٹی آئی کے تمام اراکینِ قومی اسمبلی کے بعد دو صوبوں کے گورنروں نے یہ کہہ کر اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا کہ وہ کسی کرپٹ وزیراعظم کے ماتحت کام نہیں کرسکتے۔

    ادھر شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں مزدور کی کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے کرنے، اور یکم اپریل سے ایک لاکھ تک تنخواہ پانے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد جب کہ پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سرکاری اداروں میں ہفتہ وار دو تعطیلات بھی ختم کر دی ہیں۔

    اپنے اس خطاب میں انہوں نے عوامی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے حسب روایت سابق حکومت کی نااہلیوں کا پردہ بھی چاک کیا اور کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ ہونے جارہا ہے، 60 لاکھ لوگ بیروزگار اور 2 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلے جاچکے ہیں، تین سال میں ریکارڈ 20 ہزار ارب روپے کے قرض لیے گئے لیکن کام کچھ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ صوبوں کے ساتھ مل کر مہنگائی کم کریں گے، معیشت کو دوبارہ چلانے کی کوشش کریں گے۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے ایک اہم اعلان یہ بھی کیا کہ مبینہ دھمکی آمیز خط پارلیمنٹ میں لایا جائے گا اور اگر خط میں بیرونی سازش کا رتی برابر شبہ ہوا تو وزارت عظمیٰ چھوڑ کر گھر چلا جاؤں گا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران عالمی برادری امریکا، بھارت، برطانیہ، ایران سمیت تمام ممالک سے اچھے روابط رکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔

    اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے جو اعلانات کیے ہیں، ان پر کس حد تک اور کب تک عمل درآمد میں کام یاب ہوتے ہیں۔ تاہم انہیں ملک کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے ساتھ جو سب سے اہم مسئلہ درپیش ہوگا وہ اس ساجھے کی ہنڈیا کو جوڑے رکھنا ہوگا کیونکہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا کہ ایسی کوئی حکومت تشکیل پائی ہو، حال ہی میں سابق ہونے والی پی ٹی آئی سمیت ن لیگ اور پی پی پی دونوں کو ساجھے کی ہانڈی والی حکومتوں کا تجربہ ہے اور اس کے نتائج سے بھی آگاہ ہوں گے، کیونکہ اس سے قبل جتنی بھی ایوان اقتدار کے چولھے پر جتنی بھی ایسی ہانڈیاں چڑھائی گئیں وہ بیچ چوراہے پر ہی پھوٹی ہیں اور عوام نے یہ منظر بارہا دیکھا ہے کہ باہم شیر و شکر رہنے والوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں تک بھی پہنچے ہیں۔

    زیادہ دور نہ جائیں چند ہفتے پہلے ہی آج کی حکومت میں شامل کچھ جماعتیں سابق حکومت کی اتحادی تھیں، مفاہمت کے بادشاہ کہلائے جانے والے آصف علی زرداری نے اس سے قبل بھی پی پی پی اور ن لیگ کو اکٹھا کیا تھا اور 2008 میں بننے والی پی پی کی وفاقی حکومت میں ن لیگ بھی شامل تھی لیکن یہ لڑکپن کا عشق ثابت ہوا اور چند ماہ بعد ہی دونوں جماعتوں میں سیاسی طلاق ہوگئی جس کے بعد وہ ایک دوسرے کو چور لٹیرا کہنے کے ساتھ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے بیانات دیتے رہے۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں تو شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ کالا کوٹ پہن کر اپنی دانست میں پی پی پی حکومت ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ تک جاپہنچے تھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ سیاسی اتحاد کتنے عرصے تک قائم رہتا ہے۔

    اسی حکومت میں شامل ایم کیو ایم کا 34 سالہ پارلیمانی ماضی تو سب سے سامنے ہے جو 1988 سے لے کر اب تک کے عرصے میں‌ صرف 1993 سے 1996 تک حکومت سے باہر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ رہی ہے اور مشرف کے دور کی حکومت کو چھوڑ کر ہر حکومت کو خدا حافظ کہتی آئی ہے۔ رہی اے این پی، بی اے پی و دیگر جماعتیں تو پاکستانی سیاسی روایت کے مطابق جس کے جب تک مفادات ہوں گے وہ تب تک ہی ساتھ ہوگا۔

    شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اب وفاقی کابینہ کی تشکیل اہم مرحلہ ہے، جس کے لیے وزیراعظم کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں جاری ہیں، اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن پی پی پی کو اسپیکر شپ اور وزارت خارجہ کی پیشکش کرچکی ہے، تاہم پی پی وفاقی وزارتیں لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ اس کی دلچسپی آئینی عہدوں میں ہے اور وہ صدر مملکت کے ساتھ اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے لینے کی خواہاں ہے۔

    ابتدائی اطلاعات کے مطابق کابینہ کی تشکیل کے لیے جو فارمولا طے کیا گیا ہے اس میں مسلم لیگ ن کے 12، پیپلز پارٹی کے 7 وزرا ہوں گے جب کہ جے یو آئی کے 4، ایم کیو ایم کے 2 ، بی این پی مینگل، اے این پی، جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کو ایک ایک وزارت دی جائے گی۔

    شہباز شریف نے پی پی پی، جے یو آئی (ف) کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ، اے این پی، بی اے پی و دیگر جماعتوں کی مدد سے وزارت عظمیٰ کا تاج تو سر پر سجا لیا ہے مگر یہ ساجھے کی ہانڈی ہے اور اس میں ابھی سے ابال آنا شروع ہو گیا ہے۔

    اس کی ابتدا تو وزیراعظم شہباز شریف کی اسمبلی میں تقریر کے بعد ہی ہوگئی جب ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے نومنتخب وزیراعظم کے خطاب میں متحدہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا ذکر نہ کرنے کا شکوہ کیا اور کہا کہ ایم کیو ایم کے اپوزیشن کا ساتھ دینے کے باعث ہی شہباز شریف کو وزیراعظم کا منصب ملا ہے۔ انہیں اپنے خطاب میں ایم کیو ایم سے ہونے والے معاہدے کا ذکر کرنا چاہیے تھا جس کے بعد اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اتحادیوں میں سب سے پہلے ایم کیو ایم سے ملاقات کی اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    میر تقی میر کی غزل کا ایک شعر ہے:

    ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
    آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

    تو ابھی ابتدائے عشق ہے، منزل دور اور راستہ کٹھن ہے۔

    روٹھنے، منانے کا رواج تو ہماری سیاسی ڈکشنری میں بہت ملے گا۔ مرحوم رحمٰن ملک اس حوالے سے کافی تجربہ کار تھے اور جب بھی اتحادی ادھر ادھر ہوتے تو یہ حرکت میں آجاتے اور انہیں کسی طرح رام کر لیا کرتے تھے۔ کیا شہباز شریف کے پاس کوئی مرحوم رحمٰن ملک جیسا باکمال ہوگا جو روٹھوں کو منانے کا تجربہ رکھتا ہو۔

    یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ شہباز شریف نے جو دعوے اور وعدے کر کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے ان وعدوں کو وہ کیسے پورا کریں گے اور ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کو کیسے خوش رکھیں گے لیکن عوام فکر مند ضرور ہیں کیونکہ وہ 70 سال سے اپنے حکمرانوں سے صرف دعوے، وعدے اور سابق حکمرانوں کی برائیاں ہی سنتے آرہے ہیں اور اگر اب بھی ایسا ہی ہوا تو انہیں بڑی مایوسی ہوگی۔ شہباز شریف جنہیں سیاست کے ساتھ انتظامی عہدے پر کام کرنے کا طویل تجربہ ہے اور پنجاب بالخصوص لاہور اس کی ایک روشن مثال بھی ہے تو عوام کی ان سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس تجربے کو بروئے کار لا کر ان کے دکھوں کا مداوا کریں۔

  • بغاوت ختم کرنے میں بھی 30 سیکنڈ لگیں گے، بلاول بھٹو

    بغاوت ختم کرنے میں بھی 30 سیکنڈ لگیں گے، بلاول بھٹو

    پاکستان پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بغاوت کرنے میں 30 سیکنڈ لگتے ہیں تو اسے ختم کرنے میں بھی 30 سیکنڈ لگیں گے۔

    چیئرمین پی پی پی نے موجودہ سیاسی صورتحال پر عوامی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔

    بلاول بھٹو نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا ہے کہ بغاوت کرنے میں 30 سیکنڈ لگتے ہیں تو اسے ختم کرنے میں بھی 30 سیکنڈ لگیں گے، انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے برابر ہے۔

     

    بلاول بھٹو نے مزید لکھا ہے کہ گزشتہ ہفتےاسلام آباد میں آئین شکنی کی گئی، انتخاب کےدن ڈپٹی اسپیکرپرپنجاب اسمبلی کے دروازے بند کردیے گئے اور عوامی ایوان کے گرد خاردار تار لگا دیے گئے ہیں۔

    بعد ازاں بلاول بھٹو نے ایک اور ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ عمران خان کا کوئی بھی اقدام اب ان کو بچا نہیں پائے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی حکومت گئی ، سلیکٹڈ راج ختم، لوگ دیکھ رہے ہیں تاریخ میں لکھا جائے گا کہ کیسےغیر جمہوری طریقے سے عمران خان کولایا گیا اور جاتے جاتے انہوں نے آئین کو آگ لگا دی۔