Author: ریحان خان

  • ایم کیو ایم کی پھر قلابازی، کیا حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے؟

    ایم کیو ایم کی پھر قلابازی، کیا حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے؟

    بالآخر وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔

    جب سے عدم اعتماد کی بازگشت شروع ہوئی، ہر روز آج نہیں کل اور کل نہیں پرسوں کہہ کر ٹالنے والی ایم کیو ایم نے تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں بحث سے ایک روز قبل حکومت کو الوداع کہنے اور اپوزیشن سے دوستی کا باضابطہ اعلان کر دیا۔

    گو کہ اس اعلان سے ایک دو روز قبل ہی ایم کیو ایم کی ہوائیں اپوزیشن رخ پر چلنا شروع ہوگئی تھیں جس کا عندیہ دونوں طرف کے لوگ دے رہے تھے، وفاقی وزیر امین الحق نے کہا تھا حکومت کا رہنا یا جانا ہمارے ہاتھ میں ہے جب کہ اپوزیشن کے بیانیے تو لڈی ڈالنے کے مترادف ہی تھے، تاہم اس حتمی اعلان کے ساتھ ہی حکومت کو دھچکا لگا۔ نمبر گیم کی بات کی جائے تو عدم اعتماد کی جیت میں تو اپوزیشن مطلوبہ نمبر گیم سے بھی آگے نکلتی نظر آرہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم نے بھی وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے جب کہ اپوزیشن لیڈر اور ن لیگ کے قائد شہباز شریف بھی یہی بات کہتے نظر آتے۔

    ایم کیو ایم کا متحدہ اپوزیشن سے 27 نکات پر مبنی معاہدہ ہوا ہے جس میں شہری سندھ سے متعلق تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم کا ان نکات پر مبنی پہلی بار معاہدہ ہے؟ کیا یہ ن لیگ سے پہلی بار معاہدہ ہے؟ کیا پی پی پی سے ایم کیو ایم کا پہلی بار معاہدہ ہے؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ ایم کیو ایم ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے 1988 سے 2013 کے دوران تین تین بار معاہدے کرکے وفاق اور صوبائی حکومتوں میں شامل ہوتی رہی ہے اور تقریباْ ہر بار ہی کچھ وقت بعد اپنے کیمپ بدلتی رہی ہے۔
    17 اگست 1987 کو صدر جنرل ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو جب بہت طویل مارشل لا کے بعد ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم کو پہلی بار پارلیمانی طاقت تسلیم کیا گیا۔ اور کراچی و حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں سے قومی اسمبلی کی 13 اور سندھ اسمبلی کی 25 نشستیں جیت کر ملک کی ’تیسری بڑی سیاسی جماعت‘ بن کر اُبھری۔ ان انتخابات میں ملک بھر میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم سے شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا اور یوں ایم کیو ایم بھی پہلی بار کسی سیاسی اتحاد کا حصہ بنی۔

    ایم کیو ایم نے 1988 میں پی پی پی سے شہری سندھ کے مسائل پر مبنی مطالبات پر معاہدہ کیا لیکن صرف دو سال سے بھی کم عرصے میں یہ حکومت ختم کردی گئی جب کہ اس دوران بھی ایم کیو ایم، پی پی پی کے رویے سے شاکی رہی اور پی پی پی پر معاہدوں سے انحراف کا الزام عائد کرتے ہوئے اس وقت کی اپوزیشن اسلامی جمہوری اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں 6 اگست 1990 کو صدر غلام اسحٰق خان کی جانب سے پی پی حکومت کو امن و امان کی خراب صورت حال اور دیگر الزامات پر برطرف کردیا گیا۔ قبل از وقت حکومت ختم کیے جانے کے نتیجے میں 24 اکتوبر 1990 کو پھر عام انتخابات ہوئے جس میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت بنی اور نواز شریف نے پہلی بار اسلام آباد میں اقتدار سنبھالا اور اسلامی جمہوری اتحاد تحلیل ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کا وجود عمل میں آیا۔ ان انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 15 اور سندھ اسمبلی کی 28 نشستیں حاصل کیں اور 1990 میں نواز شریف کی حکومت میں شامل ہوگئی لیکن پھر 19 جون 1992 کو کراچی آپریشن کلین اپ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے نواز شریف کو الوداع کہہ دیا۔

    18 اپریل 1993 کو وزیراعظم سے اختلافات پر صدر غلام اسحٰق خان نے پھر 58 ٹو بی ترمیم کا حق استعمال کرتے ہوئے نواز حکومت سے جان چھڑائی۔ گو کہ 26 مئی 1993 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت بحال کر دیا لیکن مگر 18 جولائی 1993 کو صدر اسحٰق اور وزیراعظم شریف دونوں ہی کو مستعٰفی ہونا پڑا۔

    دو حکومتیں قبل از وقت ختم ہونے کے بعد ضیا دور کے بعد کی جمہوریت کے پانچویں سال میں 6 اکتوبر 1993 کو تیسرے عام انتخابات ہوئے لیکن ایم کیو ایم نے کراچی میں جاری آپریشن کے باعث قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں سندھ کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

    1988 سے تاحال یہ پہلا دور تھا جب ایم کیو ایم کسی وفاقی یا صوبائی حکومت کا حصہ نہیں بنی۔ پی پی کے اس دور حکومت میں کراچی میں ماورائے عدالت اور پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کا سلسلہ اپنے عروج پر رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بھائی اور ایم پی اے میر مرتضی بھٹّو 20 ستمبر 1996 کو پولیس سے ایک مدبھیڑ میں جان کی بازی ہار گئے۔ ان حالات میں خود پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ اور بینظیر کے قریبی ساتھی صدر فاروق احمد خان لغاری نے پانچ نومبر 1996 کو بینظیر بھٹّو کی حکومت کو لاقانونیت اور بدعنوانی کے الزامات میں برطرف کر دیا اور قومی و صوبائی اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی۔

    90 کی دہائی کے تیسرے عام انتخابات 3 فروری 1997 کو ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 12 نشستیں حاصل کیں جب کہ نواز شریف کی مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوئی۔ 1997 میں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ایم کیو ایم ایک بار پھر اتحادی بن کر نواز شریف کی حکومت میں شامل ہو گئی۔ لیاقت جتوئی ایم کیو ایم کی مدد سے سندھ کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے تاہم یہ اتحاد صرف ڈیڑھ سال ہی قائم رہا اور 17 اکتوبر 1998 اس وقت کے گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا اور وزیراعظم کی جانب سے اپنی ہی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر اس قتل کا مبینہ الزام عائد کرنے پر ایم کیو ایم پھر حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔

    12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کے نواز شریف کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے 3 سال بعد 10 اکتوبر 2002 کو پھر انتخابات ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 19 اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس الیکشن کے نتیجے میں میر ظفر اللہ خان جمالی وزیر اعظم اور صوبہ سندھ میں پہلے علی محمد مہر اور پھر ارباب غلام رحیم وزیر اعلیٰ بنے۔ ایم کیو ایم وفاق اور صوبے میں ایک بار پھر حکومت میں شامل ہوئی اور دسمبر 2007 تک حکومت کی مدت مکمل ہونے تک اقتدار میں شریک رہی۔

    18 فروری 2008 کے انتخابات ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں حاصل کیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں حاصل کیں۔ سندھ میں پی پی پی نے حکومت بنائی۔ اور پھر ایم کیو ایم وفاق اور سندھ میں حکومت کا حصہ بنی لیکن 2013 کے عام انتخابات سے ڈیڑھ دو ماہ قبل ہی پی پی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔

    11 مئی 2013 میں انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی کل 25 اور سندھ اسمبلی کی 51 نشستیں حاصل کیں۔ وفاق میں حکومت ن لیگ کی بنی لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور ایم کیو ایم اس وقت کارکنوں کے ریفرنڈم کے فیصلے پر صوبائی حکومت میں شامل نہیں ہوئی لیکن تقریباْ ایک سال بعد ہی نہ جانے کیا ہوا کہ مئی 2014 میں اچانک ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوگئی اور فقط ساڑھے چار ماہ ہی میں اس حکومت سے بھی نکل آئی۔

    25 جولائی 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی پہلی بار اتنی نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی کہ ق لیگ، بی اے پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت بنائی، ایم کیو ایم نے اس الیکشن میں پہلی بار ہزیمت اٹھائی اور صرف قومی اسمبلی کی 7 نشستیں ہی حاصل کرسکی۔ تاہم ایم کیو ایم اس حکومت میں ہنستے کھیلتے شامل ہوئی اور شکوے شکایات کرتے چار سال گزارے۔ اب یہ اتحاد تقریباً 4 سال بعد 30 مارچ 2022 کو ٹوٹ گیا ہے اور ایم کیو ایم ایک بار پھر آزمودہ سیاسی کیمپوں میں جانے کا اعلان کرچکی ہے۔

    اب جب کہ ایم کیو ایم کی یہ سیاسی شراکت بھی قبل از وقت ہی ختم ہوگئی ہے، ایم کیو ایم کے ووٹرز اور سپورٹرز سوشل میڈیا پر یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ن لیگ اور پی پی پی ایم کیو ایم کے لیے اتنی قابل اعتماد ہوچکی ہیں کہ وہ کاغذی وعدوں اور عہد و پیماں پر اپنے پَر کھول کر ان کی جانب اڑان بھر چکی ہے۔ کیا اس سے شہری سندھ اور ایم کیو ایم کے ووٹرز کو کچھ فائدہ ہو گا اور کراچی کے دیرینہ مسائل حل ہوسکیں گے؟ ووٹروں اور سپورٹروں کی جانب سے یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ کیا یہ واقعی ملک اور قوم کے مفاد میں فیصلہ ہے یا پھر اس میں ذاتی مفادات شامل ہیں؟

    ایم کیو ایم کے اس فیصلے کے ثمرات اور مضمرات کا تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا لیکن وفاق سے خبریں ہیں کہ وزیراعظم نے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ آخری وقت تک لڑوں گا۔

    اسی سیاسی ہنگامے میں دھمکی آمیز خط کا بھی خوب چرچا ہورہا ہے۔ اب فیصلے کے چند دن رہ گئے ہیں۔ شکست کس کی اور جیت کس کی، جلد پتہ چل جائے گا۔

  • وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    یہ درست ہے کہ کسی بھی ملک میں مضبوط جمہوریت کے لیے مستعد اور فعال اپوزیشن ضروری ہوتی ہے جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہوئے اس پر عوامی فلاح و بہبود کے کاموں اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپوزیشن اور حکومت کا کردار کبھی دو انتہاؤں پر ہوتا ہے تو کبھی ایسا کہ لگتا ہی نہیں کہ ملک میں کسی اپوزیشن کا وجود ہے۔ یہاں 90 کی دہائی اگر سیاسی رسہ کشی میں گزری تو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ اپوزیشن کے بارے میں یہی تاثر قائم رہا کہ یہ فرینڈلی اپوزیشن ہے اور اس تاثر کو خود اپوزیشن نے اپنے اقدامات سے تقویت دی۔

    پاکستان میں‌ اپوزیشن کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ ایک خاص وقت پر اشارہ پاتے ہی سڑکوں پر نکل آتی ہے اور حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کو عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات سے جوڑتی ہے۔

    ہمارے بلاگ کے عنوان سے واضح ہے ہم اپوزیشن کی جانب سے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے نتائج پر نہیں بلکہ اس کی ٹائمنگ اور ان حالات پر بات کریں گے جن میں اپوزیشن جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے پر اتفاق کیا۔

    گزشتہ سال اپریل میں جب حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو حکومتی حلقوں نے سکون کا سانس لیا تھا وجہ صاف تھی کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا اور اپنی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ کئی بڑے جلسے بھی کیے تھے جس نے حکم راں جماعت کو دباؤ میں‌ لے لیا تھا، لیکن جب ذاتی مفاد کے لیے ایک بڑی ملکی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے دوسری بڑی پارٹی ن لیگ کو بائی پاس کر کے یوسف رضا گیلانی کو حکومت کی مدد سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوایا تو گویا پی ڈی ایم میں انتشار پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں پی پی پی اور اے این پی کو اس اتحاد سے نکلنا پڑا اور پی ڈی ایم عملاً ٹوٹ گئی۔ کیوں کہ پی ڈی ایم بنانے کے فیصلے میں بھی پی پی پی پیش پیش تھی اور 20 ستمبر 2020 کو بلاول بھٹو کی میزبانی میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں اس کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    بہرحال پی پی پی کے اس اتحاد سے علیحدہ ہونے کے بعد پی ڈی ایم میں شریک تمام جماعتیں جو پہلے حکومت کے خلاف صف آرا تھیں، ایسا لگنے لگا کہ ان کا ہدف اب حکومت نہیں رہی، خاص طور پر ن لیگ اور پی پی پی نے تو ایک دوسرے کو نشانے پر رکھ لیا اور وہ گولہ باری ہوئی کہ حکومتی ایوانوں میں تو شادیانے بج گئے۔ اس دوران کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے پی پی اور ن لیگ قیادت کے ساتھ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کے خلاف بیانات داغ دیتے لیکن مجموعی طور پر اپوزیشن آپس ہی میں گتھم گتھا نظر آئی جس کا حکومتی جماعت نے کئی بار فائدہ بھی اٹھایا۔

    قصہ مختصر اپریل میں پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد حکومتی حلقوں میں بے چینی ختم ہوگئی اور ملکی فضا میں جو سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی وہ صرف اپوزیشن کیمپ تک ہی محدود رہی۔

    اپوزیشن کی باہمی ’’تُو تُو مَیں میں‘‘ جاری تھی کہ اسی دوران 16 ستمبر 2021 کو عمران خان اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ملاقات ہوتی ہے۔ روسی صدر کی طرف سے دعوت کو عمران خان قبول کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دورہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے بہت اہم ہے۔ وزیرِاعظم کسی بھی صورت اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ہیں۔ یہ تاریخی دورہ فروری 2022 کے اواخر میں طے پاتا ہے اور دونوں طرف گرم جوشی نظر آتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے دورے کا وقت قریب آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست میں اچانک بھونچال آگیا ہے، ایک دوسرے کی مخالفت میں‌ آگے سے آگے بڑھ جانے والی پارٹیاں توقع کے بَرخلاف ایک دوسرے کے لیے محبت سے بانہیں پھیلا لیتی ہیں اور ایک دوسرے کے ہاں سیاسی آنیاں جانیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی ماحول میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیتے ہیں اور اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھرپور رابطوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

    بلاول بھٹو کے اس اعلان کے بعد پی پی پی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری جو کہ کافی عرصہ سے صاحب فراش ہونے کے ساتھ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں اچانک تندرست ہوکر سیاسی میدان میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے مفاہمتی بلے سے ایک اور اننگ کھیلنے کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جس بات پر پی ڈی ایم میں پہلی دراڑ پڑی تھی یعنی گزشتہ سال پی پی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی تجویز کو ن لیگ نے سختی سے رد کردیا تھا اب چند ملاقاتوں کے بعد ن لیگ پی پی کے اس فارمولے پر من وعن راضی ہوجاتی ہے اور پہلے اس تجویز کے شدید مخالف نواز شریف اس کی منظوری بھی دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ تماشا پوری قوم گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے دیکھ رہی ہے۔

    متحدہ اپوزیشن کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے اور عین دورہ روس سے چند روز قبل یہ سرگرمیاں اتنی عروج پر پہنچتی ہیں کہ عوام بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیا ہوگیا کہ چند ماہ قبل ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے والے اب ایک دوسرے کے دست و بازو بن رہے ہیں۔ وہ تماشا لگتا ہے کہ کبھی اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے دورہ روس کے دوران تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بات کی جاتی ہے تو مارچ کے آخری ہفتے میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا اعلان ہوتا ہے۔ یہاں بتاتے چلیں کہ 22 اور 23 مارچ تک اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونا ہے۔

    اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف اپنی تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے نمبرز پورے ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ بہرحال عمران خان دورہ روس مکمل کرکے آجاتے ہیں اس کے بعد تو گویا سیاسی پیالی میں وہ طوفان برپا ہونا شروع ہوتا ہے کہ عوام کو لگتا ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اب گئی کہ تب گئی۔ اس بلاگ کی اشاعت تک اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی نے جمعہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ 25 مارچ ویسے ہی عمران خان کے لیے تاریخی دن ہے کہ 30 سال قبل اسی روز پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بنا تھا اور اس وقت کے کپتان عمران خان نے عالمی کرکٹ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھی۔ اس بار 25 مارچ کو عمران خان کے ہاتھوں میں کیا آتا ہے یہ تو آنے والا 25 مارچ ہی بتائے گا۔

    جیسا کہ ہم نے بلاگ کے آغاز میں تحریک عدم اعتماد کی ٹائمنگ پر بات کی تھی تو ذہن کے دریچے کھولنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کچھ اوراق کھنگالنے پڑیں گے۔

    قیام پاکستان کے تقریباً پونے دو سال بعد 8 جون 1949 کو ایران میں پاکستانی اور روسی سفارتکاروں کے ذریعے پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو روسی صدر جوزف اسٹالن کی جانب سے دورہ روس کی دعوت دی جاتی ہے جس کے بعد سفارتی ایوانوں میں جیسے بھونچال آجاتا ہے۔

    اس حوالے سے عائشہ جلال اپنی کتاب ”پاکستان اسٹیٹ آف مارشل رول” میں لکھتی ہیں کہ امریکا کی حمایت یافتہ مضبوط لابی جس کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد کر رہے تھے وزیراعظم کو دورہ ماسکو سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کو یہ دھمکی بھی دی کہ حکومت کرو یا گھر جاؤ۔ اسی طرح ایک اور مصنف اختر بلوچ نے اس سلسلے میں ایک غیرمعمولی انکشاف کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر لارڈ گریفٹی سمتھ نے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو دھمکی دی تھی کہ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اگر ماسکو گئے تو پاکستان برطانیہ اور امریکا سے دشمنی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

    اسی انداز فکر کی تائید ایک ممتاز اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی اس خبر سے بھی ہوتی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس کی خبر شہ سرخی میں شائع ہوئی اور خبر میں بتایا گیا کہ پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان دولت مشترکہ ممالک میں سے روس کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہ مملکت ہوں گے لیکن فیوڈلز پہ مشتمل امریکی نواز وزرا ڈر گئے اور دورہ کینسل ہو گیا۔ دورے کی تنسیخ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن موڑ تھا۔

    پاکستانی خارجہ پالیسی پر ابتدائی کتابوں میں سے ایک ’’پاکستانز فارن پالیسی‘‘ کے مصنف مشتاق احمد لکھتے ہیں وزیراعظم کا ماسکو نہ جانا ایک بھیانک غلطی تھی کیونکہ اس دورے کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف ایک متوازن خارجہ پالیسی پر کاربند ہونے کا موقع ملتا بلکہ عالمی قوتوں کی طرف سے پذیرائی اور حمایت بھی ملتی۔

    دونوں ادوار میں دورۂ روس کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہم نے قارئین کے سامنے رکھ دی ہے۔ آپ اس کا موازنہ کرتے ہوئے سوچیے کہ جو کچھ آج کل وطن عزیز پاکستان میں ہورہا ہے کہیں یہ سب کسی کے اشارے پر تو نہیں‌ ہو رہا؟؟؟

  • وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    یہ درست ہے کہ کسی بھی ملک میں مضبوط جمہوریت کے لیے مستعد اور فعال اپوزیشن ضروری ہوتی ہے جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہوئے اس پر عوامی فلاح و بہبود کے کاموں اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپوزیشن اور حکومت کا کردار کبھی دو انتہاؤں پر ہوتا ہے تو کبھی ایسا کہ لگتا ہی نہیں کہ ملک میں کسی اپوزیشن کا وجود ہے۔ یہاں 90 کی دہائی اگر سیاسی رسہ کشی میں گزری تو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ اپوزیشن کے بارے میں یہی تاثر قائم رہا کہ یہ فرینڈلی اپوزیشن ہے اور اس تاثر کو خود اپوزیشن نے اپنے اقدامات سے تقویت دی۔

    پاکستان میں‌ اپوزیشن کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ ایک خاص وقت پر اشارہ پاتے ہی سڑکوں پر نکل آتی ہے اور حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کو عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات سے جوڑتی ہے۔

    ہمارے بلاگ کے عنوان سے واضح ہے ہم اپوزیشن کی جانب سے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے نتائج پر نہیں بلکہ اس کی ٹائمنگ اور ان حالات پر بات کریں گے جن میں اپوزیشن جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے پر اتفاق کیا۔

    گزشتہ سال اپریل میں جب حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو حکومتی حلقوں نے سکون کا سانس لیا تھا وجہ صاف تھی کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا اور اپنی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ کئی بڑے جلسے بھی کیے تھے جس نے حکم راں جماعت کو دباؤ میں‌ لے لیا تھا، لیکن جب ذاتی مفاد کے لیے ایک بڑی ملکی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے دوسری بڑی پارٹی ن لیگ کو بائی پاس کر کے یوسف رضا گیلانی کو حکومت کی مدد سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوایا تو گویا پی ڈی ایم میں انتشار پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں پی پی پی اور اے این پی کو اس اتحاد سے نکلنا پڑا اور پی ڈی ایم عملاً ٹوٹ گئی۔ کیوں کہ پی ڈی ایم بنانے کے فیصلے میں بھی پی پی پی پیش پیش تھی اور 20 ستمبر 2020 کو بلاول بھٹو کی میزبانی میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں اس کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    بہرحال پی پی پی کے اس اتحاد سے علیحدہ ہونے کے بعد پی ڈی ایم میں شریک تمام جماعتیں جو پہلے حکومت کے خلاف صف آرا تھیں، ایسا لگنے لگا کہ ان کا ہدف اب حکومت نہیں رہی، خاص طور پر ن لیگ اور پی پی پی نے تو ایک دوسرے کو نشانے پر رکھ لیا اور وہ گولہ باری ہوئی کہ حکومتی ایوانوں میں تو شادیانے بج گئے۔ اس دوران کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے پی پی اور ن لیگ قیادت کے ساتھ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کے خلاف بیانات داغ دیتے لیکن مجموعی طور پر اپوزیشن آپس ہی میں گتھم گتھا نظر آئی جس کا حکومتی جماعت نے کئی بار فائدہ بھی اٹھایا۔

    قصہ مختصر اپریل میں پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد حکومتی حلقوں میں بے چینی ختم ہوگئی اور ملکی فضا میں جو سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی وہ صرف اپوزیشن کیمپ تک ہی محدود رہی۔

    اپوزیشن کی باہمی ’’تُو تُو مَیں میں‘‘ جاری تھی کہ اسی دوران 16 ستمبر 2021 کو عمران خان اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ملاقات ہوتی ہے۔ روسی صدر کی طرف سے دعوت کو عمران خان قبول کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دورہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے بہت اہم ہے۔ وزیرِاعظم کسی بھی صورت اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ہیں۔ یہ تاریخی دورہ فروری 2022 کے اواخر میں طے پاتا ہے اور دونوں طرف گرم جوشی نظر آتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے دورے کا وقت قریب آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست میں اچانک بھونچال آگیا ہے، ایک دوسرے کی مخالفت میں‌ آگے سے آگے بڑھ جانے والی پارٹیاں توقع کے بَرخلاف ایک دوسرے کے لیے محبت سے بانہیں پھیلا لیتی ہیں اور ایک دوسرے کے ہاں سیاسی آنیاں جانیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی ماحول میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیتے ہیں اور اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھرپور رابطوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

    بلاول بھٹو کے اس اعلان کے بعد پی پی پی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری جو کہ کافی عرصہ سے صاحب فراش ہونے کے ساتھ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں اچانک تندرست ہوکر سیاسی میدان میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے مفاہمتی بلے سے ایک اور اننگ کھیلنے کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جس بات پر پی ڈی ایم میں پہلی دراڑ پڑی تھی یعنی گزشتہ سال پی پی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی تجویز کو ن لیگ نے سختی سے رد کردیا تھا اب چند ملاقاتوں کے بعد ن لیگ پی پی کے اس فارمولے پر من وعن راضی ہوجاتی ہے اور پہلے اس تجویز کے شدید مخالف نواز شریف اس کی منظوری بھی دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ تماشا پوری قوم گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے دیکھ رہی ہے۔

    متحدہ اپوزیشن کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے اور عین دورہ روس سے چند روز قبل یہ سرگرمیاں اتنی عروج پر پہنچتی ہیں کہ عوام بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیا ہوگیا کہ چند ماہ قبل ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے والے اب ایک دوسرے کے دست و بازو بن رہے ہیں۔ وہ تماشا لگتا ہے کہ کبھی اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے دورہ روس کے دوران تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بات کی جاتی ہے تو مارچ کے آخری ہفتے میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا اعلان ہوتا ہے۔ یہاں بتاتے چلیں کہ 22 اور 23 مارچ تک اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونا ہے۔

    اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف اپنی تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے نمبرز پورے ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ بہرحال عمران خان دورہ روس مکمل کرکے آجاتے ہیں اس کے بعد تو گویا سیاسی پیالی میں وہ طوفان برپا ہونا شروع ہوتا ہے کہ عوام کو لگتا ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اب گئی کہ تب گئی۔ اس بلاگ کی اشاعت تک اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی نے جمعہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ 25 مارچ ویسے ہی عمران خان کے لیے تاریخی دن ہے کہ 30 سال قبل اسی روز پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بنا تھا اور اس وقت کے کپتان عمران خان نے عالمی کرکٹ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھی۔ اس بار 25 مارچ کو عمران خان کے ہاتھوں میں کیا آتا ہے یہ تو آنے والا 25 مارچ ہی بتائے گا۔

    جیسا کہ ہم نے بلاگ کے آغاز میں تحریک عدم اعتماد کی ٹائمنگ پر بات کی تھی تو ذہن کے دریچے کھولنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کچھ اوراق کھنگالنے پڑیں گے۔

    قیام پاکستان کے تقریباً پونے دو سال بعد 8 جون 1949 کو ایران میں پاکستانی اور روسی سفارتکاروں کے ذریعے پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو روسی صدر جوزف اسٹالن کی جانب سے دورہ روس کی دعوت دی جاتی ہے جس کے بعد سفارتی ایوانوں میں جیسے بھونچال آجاتا ہے۔

    اس حوالے سے عائشہ جلال اپنی کتاب ”پاکستان اسٹیٹ آف مارشل رول” میں لکھتی ہیں کہ امریکا کی حمایت یافتہ مضبوط لابی جس کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد کر رہے تھے وزیراعظم کو دورہ ماسکو سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کو یہ دھمکی بھی دی کہ حکومت کرو یا گھر جاؤ۔ اسی طرح ایک اور مصنف اختر بلوچ نے اس سلسلے میں ایک غیرمعمولی انکشاف کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر لارڈ گریفٹی سمتھ نے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو دھمکی دی تھی کہ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اگر ماسکو گئے تو پاکستان برطانیہ اور امریکا سے دشمنی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

    اسی انداز فکر کی تائید ایک ممتاز اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی اس خبر سے بھی ہوتی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس کی خبر شہ سرخی میں شائع ہوئی اور خبر میں بتایا گیا کہ پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان دولت مشترکہ ممالک میں سے روس کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہ مملکت ہوں گے لیکن فیوڈلز پہ مشتمل امریکی نواز وزرا ڈر گئے اور دورہ کینسل ہو گیا۔ دورے کی تنسیخ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن موڑ تھا۔

    پاکستانی خارجہ پالیسی پر ابتدائی کتابوں میں سے ایک ’’پاکستانز فارن پالیسی‘‘ کے مصنف مشتاق احمد لکھتے ہیں وزیراعظم کا ماسکو نہ جانا ایک بھیانک غلطی تھی کیونکہ اس دورے کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف ایک متوازن خارجہ پالیسی پر کاربند ہونے کا موقع ملتا بلکہ عالمی قوتوں کی طرف سے پذیرائی اور حمایت بھی ملتی۔

    دونوں ادوار میں دورۂ روس کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہم نے قارئین کے سامنے رکھ دی ہے۔ آپ اس کا موازنہ کرتے ہوئے سوچیے کہ جو کچھ آج کل وطن عزیز پاکستان میں ہورہا ہے کہیں یہ سب کسی کے اشارے پر تو نہیں‌ ہو رہا؟؟؟

    یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور رائے پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

  • سیاسی پنچھیوں کی پرانے آشیانوں کی طرف اڑان!

    سیاسی پنچھیوں کی پرانے آشیانوں کی طرف اڑان!

    نظامِ قدرت ہے یا پرندوں کی فطرت کہ صبح ہوتے ہی رزق کی تلاش میں اپنے گھونسلے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس دوران یہ پنچھی کبھی اس ڈالی تو کبھی اُس ڈالی چہچہاتے پھرتے ہیں لیکن جیسے ہی شام ڈھلنے لگتی ہے تو اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب اڑان بھر لیتے ہیں۔
    کچھ ایسا ہی آج کل ملکِ خداداد پاکستان کی سیاست میں ہورہا ہے۔ گو کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، لیکن اکیسویں صدی میں جوان ہونے والی نسل کے لیے یہ ضرور نیا کھیل ہے جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

    پاکستان کے سیاسی افق پر شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں اور جیسے جیسے یہ سائے بڑھ رہے ہیں پنچھیوں نے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ ملک میں ایک طرف تو اپوزیشن نے سیاسی ماحول گرم کر رکھا ہے، اور دوسری جانب حکومتی صفوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوچکی ہیں۔

    وفاقی دارُالحکومت سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہر کوئی ہر پل کسی نئی خبر کی امید لگائے بیٹھا ہے۔

    بلاول نےعوامی لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی طرف موڑا تو سیاسی ہوائیں تیز تر ہوگئیں گو کہ پی ڈی ایم نامی اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد گزشتہ دو سال سے حکومت کے خلاف متحرک رہا، لیکن کس طرح، اس سے سب اچھی طرح واقف ہیں۔

    اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک میں تیزی اس وقت آئی جب پی پی کی تحریکِ عدم اعتماد کی تجویز پر ن لیگ کے سربراہ نواز شریف نے ہامی بھری۔ گو کہ شہباز پہلے ہی اس فارمولے سے راضی تھے لیکن بڑے بھائی کی رضامندی نے گھڑی کی سوئی کو روکا ہوا تھا، لیکن گرین سگنل ملتے ہی اپوزیشن کے دَم میں دَم آیا۔ اور اب متحدہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں تحریکِ عدم اعتماد بھی جمع کراچکی ہے جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہی اپنے پَر پھیلانا شروع کر دیے ہیں۔ اس تحریکِ عدم اعتماد پر ہزیمت کون اٹھاتا ہے، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن کہا جارہا ہے کہ شیروانیاں سلوانے کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔

    سیاست امکانات کا نام ہے جس میں بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا جاتا۔ ملک ان دنوں جس سیاسی صورت حال سے دوچار ہے اور جس طرح سیاست دانوں کی ایک دوسرے کے ہاں آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں، کچھ بعید نہیں کہ آنے والے چند روز اس حوالے سے دھماکا خیز ثابت ہوں اور آج کے اتحادی کل کے مخالف بن جائیں۔

    پنچھیوں کی اڑان میں یہاں سب سے پہلے بات کریں اب سے کچھ وقت پہلے تک وزیراعظم عمران خان کے ترجمان ندیم افضل چن کی۔ چند ماہ قبل تک وہ وزیراعظم کے ترجمان اور رفیقِ خاص تھے۔ ہر دوسرے دن کسی ٹی وی شو میں وزیراعظم اور حکومت کا دفاع کرتے نظر آتے تھے لیکن پھر کیا ہوا کہ انہوں نے اپنے پرانے سیاسی آشیانے کی جانب اڑان بھرنے کے لیے پہلے تو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، پھر بلاول بھٹو کی لاہور آمد پر دوبارہ پی پی پی میں شمولیت کا اعلان یہ کہہ کر کیا کہ وہ پہلے پی ٹی آئی کو عوامی جماعت سمجھتے تھے۔

    بلاول نے بھی ندیم افضل کو یہ کہہ کر خوش آمدید کہا کہ پیپلز پارٹی تو آپ کا پرانا گھر ہے، ندیم افضل چن جو پی ٹی آئی میں آنے سے قبل پی پی پنجاب کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز تھے، نے 19 اپریل 2018 میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ تقریباْ چار سال بعد وہ پی ٹی آئی کی شاخ سے اڑ کر پرانے گھونسلے میں جا بیٹھے ہیں۔

    ان کی پی ٹی آئی میں آمد اور روانگی کا وقت دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کی آنکھیں 2018 میں چڑھتے سورج کی چکا چوند سے خیرہ ہوگئی تھیں اور 2022 میں بظاہر ڈوبتے سورج نے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔

    پی ٹی آئی کے اب تک بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند جو اپنی پارٹی سے ناراض ہیں، نے رواں ماہ کے آغاز میں بلوچستان کی وزارتِ تعلیم سے استعفیٰ دیا اور پھر ان کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران یار محمد رند سابق صدر آصف علی زرداری اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرچکے ہیں اور دونوں ملاقاتوں میں ہی تحریک عدم اعتماد پر گفتگو کی گئی ہے لیکن ان کا اب تک تو یہی کہنا ہے کہ عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا فیصلہ وقت آنے پر کریں گے۔

    یہاں اگر کراچی سے منتخب پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عامر لیاقت حسین کا ذکر نہ کیا جائے تو کہانی ادھوری رہے گی کہ انہوں نے بھی حال ہی میں بانی ایم کیو ایم کو برطانوی کیس سے بریت پر نہ صرف مبارکباد دی بلکہ ایک تقریب میں انتہائی ڈھٹائی سے کہہ بھی دیا کہ عمران خان میری پارٹی کے سربراہ ہیں لیکن میرے اصل قائد تو بانیٔ متحدہ ہی ہیں۔ ان کا یہ بیان ان کی اگلی منزل کا صاف پتہ دے رہا ہے۔

    صرف یہی نہیں بلکہ فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے 8 اراکین قومی اسمبلی نے بھی ن لیگ کے گھونسلے میں اڑان بھرنے کی تیاریاں کر لی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سے بغاوت کرنے والوں میں نصر اللہ گھمن، عاصم نذیر، نواب شیر وسان، راجا ریاض، ریاض فتیانہ، خرم شہزاد، غلام بی بی بھروانہ اور غلام محمد لالی شامل ہیں۔ گو کہ ان میں سے کئی نے اس خبر کی تردید کی ہے لیکن معاملہ وہی ہے کہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔‘‘

    حکومتی پارٹی میں بغاوت میں سب سے بڑا معاملہ جہانگیر ترین گروپ کا ہے جو پہلے ہی دو درجن سے زائد اراکین قومی وصوبائی اسمبلی پر مشتمل ہے لیکن اس کو مزید تقویت گزشتہ دنوں عمران خان کے ایک اور قریبی ساتھی علیم خان نے ترین گروپ میں شمولیت اختیار کر کے دے دی ہے۔ اس گروپ کے اراکین مسلسل اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں میں ہیں جب کہ گروپ سربراہ جہانگیر ترین اور علیم خان لندن میں ہیں، جن کی تحریک عدم اعتماد سے قبل آمد متوقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق علیم خان نے لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے ’’چوری چھپے‘‘ ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کو چوری چھپے اس لیے کہا گیا ہے کیوں‌ کہ علیم خان کو نواز شریف کی رہائش گاہ میں عقبی دروازے سے لے جایا گیا۔ اس اہم ملاقات سمیت ملک میں ہونے والی ملاقاتوں کی تصدیق بھی ن لیگ کے ایک راہ نما کرچکے ہیں۔

    اس تمام تر صورت حال کے باوجود وزیراعظم عمران خان کا لب و لہجہ مسلسل اپوزیشن کے لیے سخت ہے اور ان کی زبان انگارے برسا رہی ہے۔ انہوں نے متحدہ اپوزیشن کو تین چوہوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کو ہی پتہ ہے کہ عمران خان کی نظر میں یہ تین چوہے کون ہیں جس سے لگتا ہے کہ عمران خان تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے حوالے سے پرامید ہیں۔ کیونکہ کئی اپوزیشن اراکین کی بھی حکومت سے آن ملنے کی اطلاعات ہیں۔ اور ان کے وزرا بھی جوش و خروش سے مسلسل یہ بیان دے رہے ہیں کہ اپوزیشن کے سارے دعوے ڈرامے ہیں۔ ان کے پاس عدم اعتماد کے لیے نمبر گیم پورے نہیں ہیں اور ہم انہیں آخر وقت میں سرپرائز دیں گے۔

    موجودہ حالات میں حکومت کے لیے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے تو وہ اپوزیشن نہیں بلکہ ناراض پی ٹی آئی اراکین کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتیں جن میں ق لیگ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے ہیں۔ ان جماعتوں کی قیادت سے وزیراعظم گزشتہ چند دنوں میں ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن کہا جارہا ہے کہ اتحادیوں نے انہیں کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے جو حکومت پر لٹکتی تلوار کے مترادف ہے۔

    مذکورہ جماعتوں کی اپوزیشن راہ نماؤں شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان ملاقاتوں کے بعد ان اتحادی جماعتوں کا رویہ کچھ کچھ بدلا بدلا سا محسوس ہورہا ہے۔ بالخصوص ق لیگ اور ایم کیو ایم نے اس حوالے سے پارٹی میں مشاورت شروع کردی ہے کہ مزید حکومت میں رہا جائے یا نہیں یا عدم اعتماد میں کس کا ساتھ دیا جائے۔

    تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد اپوزیشن کی سرگرمیاں مزید تیز ہوگئی ہیں، پی پی کا عوامی مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے، گزشتہ روز جے یو آئی کی ذیلی تنظیم حرکت الانصار کے رضاکار پارلیمنٹ لاجز میں داخل ہوگئے تھے جن کے خلاف وفاقی پولیس کو آپریشن کرنا پڑا تھا اور فضل الرحمٰن نے پہلے خود گرفتاری دینے کا اعلان پھر اپنے کارکنوں کو ملک بھر میں احتجاج کرتے ہوئے شاہراہیں بند کرنے حکم دیا تھا جس سے فضل الرحمٰن کے جارحانہ رویے کا اظہار ہوتا ہے لیکن ایسے وقت میں جب 22 مارچ کو اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس ہونا ہے، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان یہ کھینچا تانی کسی ایسے ناخوش گوار واقعے کا سبب بھی بن سکتی ہیں جس پر کل کا مؤرخ آج کے سیاستدان چاہے وہ حکومتی ہوں یا اپوزیشن سے ان کا تعلق ہو، انہی کو موردِ الزام ٹھہرائے گا۔

    ملکی حالات یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر معاملے حل نکالیں، اس سے قبل کہ دیر ہوجائے یا کہنا پڑے، ’’اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘

  • آسٹریلوی وزیراعظم کی اپنے شہریوں سے یوکرین چھوڑنے کی اپیل

    آسٹریلوی وزیراعظم کی اپنے شہریوں سے یوکرین چھوڑنے کی اپیل

    اسکاٹ موریسن نے روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی کے پیش نظر اپنے ملک کے شہریوں سے یوکرین چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔

    اسکاٹ موریسن نے ایک غیر ملکی نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم یوکرین میں رہنے والے آسٹریلوی شہریوں کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن ان کے لیے ہمارا مشورہ واضح ہے کہ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے اور آپ کی حفاظت کے لیے آپ کو یوکرین چھوڑنے کی ضرورت ہے انہوں نے روس اور یوکرین سرحد پر صورتحال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا۔

    آسٹریلوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم امن کے خواہاں ہیں لیکن تنازعہ کی صورت میں ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ آسٹریلیائی باشندوں کے پاس یوکرین سے خود کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا اختیار ہو، ہم کئی ہفتوں سے یہ کہہ رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں مغرب اور یوکرین نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ حملے کے ارادے سے یوکرین کی سرحد کے ساتھ اپنی فوجیں جمع کررہا ہے۔ ماسکو نے اس پر مسلسل کہا ہے کہا ہے کہ اس کا مقصد کسی کو ڈرانا نہیں ہے اور اس نے روسی سرحد کے قریب ناٹو کی فوجی سرگرمیوں کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جو اس کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

  • بلدیاتی قانون، پی ایس پی اور سندھ حکومت کے درمیان مذاکرات شروع

    بلدیاتی قانون، پی ایس پی اور سندھ حکومت کے درمیان مذاکرات شروع

    بلدیاتی قانون کےخلاف پی ایس پی نےفوارہ چوک پر گزشتہ کئی گھنٹوں سے دھرنا دیا ہوا ہے جس سے مذاکرات کے لیے سندھ حکومت کا وفد رات گئے دھرنے میں پہنچ گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پی پی کے وفد میں کی قیادت صوبائی وزیر بلدیات ناصرحسین شاہ کررہے ہیں جب کہ وفد میں  وقارمہدی اور دیگر شامل ہیں۔

    وفد نے پی ایس پی کی قیادت سے مذاکرات شروع کردیے ہیں اور امکان ہے کہ جلد ہی اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوجائے۔

    اس سے قبل اتوار کی شام چیئرمین پی ایس پی نے بلدیاتی قانون کے خلاف کراچی میں گورنر ہاؤس کے قریب فوارہ چوک پر ہونے والے احتجاجی جلسے کو دھرنے میں تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک وزیراعلیٰ سندھ ہماری نہیں سنیں گے ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔

    انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہمارے آنے سے پہلے ہی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی تھی انہیں ہماری باتیں ماننا ہوں گی۔

    مزید پڑھیں: مصطفیٰ کمال نے ریڈ زون میں دھرنا دے دیا

  • امریکی صدر کی سنگین غلطی؟ یوکرین نے نشاندہی کردی

    امریکی صدر کی سنگین غلطی؟ یوکرین نے نشاندہی کردی

    امریکی صدر جوبائیڈن کی حالیہ سخت بیان بازی نے یوکرین کو پریشان کردیا ہے اور یوکرین کے صدر نے اسے بائیڈن کی سنگین غلطی قرار دیا ہے۔

    یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنیسکی نے کہا ہے کہ مغربی میڈیا تاثر دے رہا ہے کہ ٹینک موجود ہیں، ہم حالت جنگ میں ہیں، ہماری فوج سڑکوں پر اتر آئی ہے تو ایسی کوئی بات نہیں، صدر جوبائیڈن اس حوالے سے سخت بیانات دے کر غلطی کررہے ہیں۔

    یوکرینی صدر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے  مغرب سے اپیل کی کہ وہ روس کے ساتھ کشیدگی کے معاملے پر خوف وہراس پیدا نہ کریں کیونکہ اس نے یوکرین کی پہلے سے کمزور معیشت میں غیرملکی سرمایہ کاری کو مزید نقصان پہنچایا ہے، ہمیں اس خوف وہراس کی ضرورت نہیں کیونکہ یوکرین کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

    وولودیمیر زیلنیسکی نے مزید کہا کہ مغرب اور میڈیا جس طرح روس کے ساتھ ہماری کشیدگی کو اچھال رہا ہے اس کی یوکرین کے عوام کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی، اس حوالے سے صدر بائیڈن کے بیانات انتہائی غلط ہیں۔

    اس وقت یوکرین کی سرحد پر لگ بھگ ایک لاکھ روسی افواج تعینات ہے لیکن زیلینیسکی کا کہنا تھا کہ انہیں اس سے کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آرہا کیونکہ گزشتہ موسم بہار میں بھی روسی فوج اسی طرح موجود تھی۔

    واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے روس یوکرین تنازعے پر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ روس اگلے ماہ پڑوسی ملک پر حملہ کرسکتا ہے جب کہ روسی وزیر خارجہ نے خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماسکو کوئی جنگ نہیں چاہتا۔

    اس سے قبل امریکہ یوکرین تنازع کے حوالے سے روس کو متنبہ کرچکا ہے ۔

    مزید پڑھیں: یوکرین تنازعہ : امریکہ کی روس کو ایک اور دھمکی

  • پی ڈی ایم لانگ مارچ کی تاریخ تبدیل نہ کرنے پر متفق

    پی ڈی ایم لانگ مارچ کی تاریخ تبدیل نہ کرنے پر متفق

    پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے لانگ مارچ طے شدہ تاریخ پر کرنے کا فیصلہ کیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کی زیرصدارت پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا۔

    ذرائع کے مطابق اجلاس میں شامل تمام جماعتوں نے لانگ مارچ کے حوالے سے تاریخ  تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا گیا کہ لانگ مارچ ہر حال میں 23 مارچ کو ہی ہوگا۔

    ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں لانگ مارچ کے اسلام آباد میں قیام کو خفیہ رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

    علاوہ ازیں سابق وزیراعظم نواز شریف اور پی ڈی ایم سربراہ فضل الرحمٰن کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں حکومت کے خلاف تحریک تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق دونوں رہنماؤں نے موجودہ ملکی صورتحال اور پی ڈی ایم تحریک پر مشاورت کی اور مولانا نے نواز شریف کو پی ڈی ایم سربراہی اجلاس کے ایجنڈے پربھی اعتماد میں لیا۔

    ذرائع نے بتایا  کہ اس موقع پر لانگ مارچ کے علاوہ ان ہاؤس تبدیلی سمیت مختلف امور بھی زیر غور آئے۔

    مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت مکمل طورپرناکام ہوچکی ہے اور اب عوام کو حکمرانوں سے نجات دلانے کا وقت آچکا ہے۔

  • تنگ پہاڑی راستے پرکار کا یوٹرن، ڈرائیور کی مہارت یا نظروں کا دھوکا؟ ویڈیو وائرل

    تنگ پہاڑی راستے پرکار کا یوٹرن، ڈرائیور کی مہارت یا نظروں کا دھوکا؟ ویڈیو وائرل

    سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک تنگ پہاڑی راستے پر ڈرائیور نے خطرناک لیکن کامیاب یوٹرن لیا، جس نے دیکھنے والوں کے اوسان خطا کردیے۔

    ڈیجیٹل دنیا میں آپ آئے روز خطرناک اسٹنٹ پر مبنی ویڈیوز دیکھتے رہتے ہوں گے ایسی ہی ایک ویڈیو ان دنوں سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کررہی ہے جس کی خطرناکی دیکھنے والوں کا خون خشک کردینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک نیلے رنگ کی کار تنگ پہاڑی راستے پر موجود ہے اور آہستہ آہستہ اپنا رخ موڑ رہی ہے، دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ اس یوٹرن کے دوران کئی بار کار کا ایک پہیہ بالکل چٹانی راستے کے کنارے پر آجاتا ہے اور دیکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ کار سیکڑوں فٹ گہرائی میں اب گری کہ کب گری لیکن ڈرائیور سست رفتاری لیکن انتہائی مہارت کے ساتھ کار کو بحفاظت مکمل طور پر موڑ لیتا ہے۔

    گزشتہ روز ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی ہوئی ہے اور اب تک اٹھارہ لاکھ سے زائد افراد اس ویڈیو کو دیکھ کر ڈرائیوروں کی مہارت کو داد دے چکے ہیں۔

    اس ویڈیو کو پہلی بار گزشتہ سال دسمبر میں ڈرائیونگ اسکل نامی یوٹیوب چینل نے شیئر کیا تھا ویڈیو سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کار چلانے والا کوئی شوقیہ نہیں بلکہ ایک ماہر ڈرائیور تھا جو انتہائی تنگ پہاڑی سڑک پر یوٹرن لینے کا مظاہرہ کررہا تھا۔

    اگر اس ویڈیو کو دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ڈرائیور کبھی بھی چٹان کے کنارے پر نہیں تھا، اس کے نیچے ایک اور سڑک تھی جسے کیمرے کے زاویے نے احتیاط سے چھپایا تھا۔

  • پانی سے بجلی بنانے والا جنریٹر تیار!

    پانی سے بجلی بنانے والا جنریٹر تیار!

    جاپانی شہری نے بجلی کی کمی دور کرنے کے لیے ایک ایسا چھوٹا جنریٹر تیار کیا ہے جس سے نہ صرف گھر بلکہ محلے بھر کے لیے پانی سے بجلی بنائی جاسکتی ہے۔

    دنیا بالخصوص ہمارا ملک توانائی کے بحران سے دوچار ہے خاص طور پر بجلی کی قلت نے تو ہر شہری کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے، ایسے میں اگر آپ کو ایسا جادوئی آلہ مل جائے جو کہ آپ کی پریشانی بغیر کسی خاص مشقت کے حل کردے تو اس سے بہتر کیا ہوسکتا ہے۔

    تو جان لیں کہ جاپان میں ایک شہری نے ایسا چھوٹا جنریٹر تیار کیا ہے جو دیکھنے میں تو شاید آپ کو واٹر پیوریفیکشین پلانٹ کا حصہ لگے لیکن اپنی نوعیت کا یہ جنریٹر اب آپ کو گھر میں ہی پانی سے بجلی بناکر دے سکتا ہے۔

    اس جنریٹر کا وزن تو صرف 18کلو گرام ہے لیکن اس سے نہ صرف آپ اپنے گھر بلکہ محلے بھر کے لیے بجلی بناسکتے ہیں۔

    لیکن یہ جنریٹر مارکیٹ میں فروخت کے لیے کب آئے گا اور پاکستان میں کب دستیاب ہوگا اس بارے میں تاحال کچھ واضح نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس ایجاد سے وہ علاقے جو بجلی جیسی نعمت سے محروم ہیں وہاں امید کی کرن ضرور جاگی ہوگی۔