Author: ساغر صدیقی

  • میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست

    میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست
    سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست

    مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
    میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست

    ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو
    اتنا بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست

    دوچار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات
    دوچار دن کے پیار کا قائل نہیں ہُوں دوست

    جس کی جھلک سے ماند ہو اشکوں کی آبُرو
    اس موتیوں کے ہار کا قائل نہیں ہُوں دوست

    لایا ہُوں بے حساب گناہوں کی ایک فرد
    محبوب ہُوں شمار کا قائل نہیں ہُوں دوست

    ساغر بقدرِ ظرف لُٹاتا ہُوں نقدِ ہوش
    ساقی سے میں ادُھار کا قائل نہیں ہوں دوست

    *********

  • یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

    یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
    اِن میں کچُھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

    تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
    ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

    دُور تک کوئی سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو
    مرگِ اُمّید کے آثار نظر آتے ہیں

    میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ نہیں
    آپ پُھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

    کل جنہیں چُھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
    آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

    حشر میں کون گواہی مِری دے گا ساغر
    سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

    *********

  • ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں​

    ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں​
    میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں​

    ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو​
    ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں​

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے​
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں​

    میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے​
    میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں​

    کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں​
    کیسے تھرائی چراغوں کی ضیاءیاد نہیں​

    صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے​
    کب ہوا، کون ہوا، مجھ سے خفا یاد نہیں​

    آﺅ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں​
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں​

    **********

  • ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں

    ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
    مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں

    تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
    تصور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں

    قرار دین و دنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہیں
    سہارے دیکھ کر زلف پریشاں لڑکھڑاتے ہیں

    تری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
    بنام ہوش مدہوشی کے عنواں لڑکھڑاتے ہیں

    سنو! اے عشق میں توقیر ہستی ڈھونڈنے والو
    یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں

    تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
    تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں

    کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
    کہ جن کی جنبشِ ابرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں

    یقیناً حشر کی تقریب کے لمحات آ پہنچے
    قدم ساغر قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں​

    ***********

  • کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا

    کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا
    میں بھی ترے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا

    ہر چیز زمانے کی آئینہ دل ہوتی
    خاموش محبت کا اتنا تو صلہ ہوتا

    تم حالِ پریشاں کی پرسش کے لیے آتے
    صحرائے تمنا میں میلہ سا لگا ہوتا

    ہر گام پہ کام آتے زلفوں کے تری سائے
    یہ قافلۂ ہستی بے راہنما ہوتا

    احساس کی ڈالی پر اک پھول مہکتا ہے
    زلفوں کے لیے تم نے اک روز چنا ہوتا

    *********

  • تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا

    تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
    افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا

    جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
    وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا

    شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
    اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا

    یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
    اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا

    تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
    وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا

    افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
    اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے لیا

    بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
    ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا

    **********

  • اس درجہ عشق موجبِ رسوائی بن گیا

    اس درجہ عشق موجبِ رسوائی بن گیا
    میں آپ اپنے گھر کا تماشائی بن گیا

    دیر و حرم کی راہ سے دل بچ گیا مگر
    تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا

    بزم وفا میں آپ سے اک پل کا سامنا
    یاد آ گیا تو عہد شناسائی بن گیا

    بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
    آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

    دیکھی جو رقص کرتی ہوئی موج زندگی
    میرا خیال وقت کی شہنائی بن گیا

    **********