Author: سردار ریاض الحق

  • ڈنکی: یورپ جانے کے لیے موت کی شاہراہ سے گزرنا پڑتا ہے

    ڈنکی: یورپ جانے کے لیے موت کی شاہراہ سے گزرنا پڑتا ہے

    پنجاب کے مرکزی اضلاع سیالکوٹ، گجرات، گوجرانولہ اور جہلم کے نوجوانوں میں آج کل پنجابی کا ایک جملہ ’بیچو مکان تے چلو یونان ‘(مکان فروخت کرو اور یونان چلو) ایک رائج الوقت محاورے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے‘ اس جملے کے اس قدر زبان زد عام ہونے سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ یورپ جانے کی خواہش ایک وبا کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے اور یہ نوجوان اپنی ہر چیز داؤپر لگا کر یورپ چلے جانا چاہتے ہیں۔

    اس معاملے کی وجوہات میں اگر جائیں تو اولاً بے روزگاری اور دوئم معاشرتی عدم توازن ، راتوں رات امیر بننے کا خواب نوجونوں کو اس مہم جوئی پر اکساتا ہے اور وہ کسی ایسے ایجنٹ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ‘ جو ان کو سمندر پار کی دنیا میں پہنچا دےیہ جانے بغیر کہ کیا وہ وہاں پہنچ بھی سکیں گے یا راستے میں ہی اپنی زندگی کی بازی ہار جائیں گے۔ ایجنٹ کے لئے بھی انہیں کوئی دفتر تلاش کرنا نہیں پڑتا بلکہ گلی کی نکڑ پر واقع چائے کے کھوکھے پر اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا دوست پہلی دفعہ یہ ملاقات کروا دیتا ہے اوراس کے بعد ایک ٹیلفون نمبر ان کے درمیان تمام رابطوں کا ذریعہ بنتا ہے۔

    نہ کسی پاسپورٹ کی ضرورت‘ نہ سفری دستاویزات کی ۔۔۔ بس ایک بیگ اور چند سو ڈالر لے کر یہ نوجوان گھر سے نکلتے ہیں ، اس کے بعد ان کو ہر ہدایت ایجنٹ کے موبائل سے ملتی ہے کہ اسے کہاں پہنچنا ہے؟۔بلوچستان میں داخل ہوتے ہی انسانوں کی اس کھیپ کو بھیڑ بکریوں کی طرح پچھلا ایجنٹ انہیں اگلے ایجنٹ کے حوالے کردیتا ہے۔ انسانی سمگلروں کا یہ ایک پورا مافیا ہے جس کا نیٹ ورک اس گلی کے نکر پر ملے ایجنٹ سے لے کرایران‘ ترکی اور یونان کی سرحدوں تک پھیلا ہوتا ہے۔وطن چھوڑنے والے دراصل ایک طرح ان کے یرغمالی ہوتے ہیں جن کے ایجنٹ بدلتے رہتے ہیں۔ ہر ایجینٹ کی اگلے ایجنٹ کے ساتھ ایک ڈیل ہوتی ہےجس کے تحت یہ ادلا بدلی ہوتی ہے۔

    خشکی کے راستے یورپ جانے والے یہ نوجوان پاکستان سے ایران ‘ اور پھر ایران سے ترکی اور پھر وہاں سے ترکی کا بارڈر کراس کرکے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔بظاہر ایک جملے میں لکھا جانے والا سفر بہت آسان لگتا ہےلیکن ان تمام داستانوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے‘ جس میں کسی کے فرار ہونے کے واقعے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ ان ناولوں ‘ کہانیوں اور آپ بیتیوں میں ان کے کرداروں نے کیسی کیسی مصیبتیں تکالیف برداشت کیں‘ کن مشکلات اور دکھ درد کا ان کو سامنا کرنا پڑا ، لیکن آپ یقین کریں کہ اس کے مقابلے میں اگر آپ ان تارکینِ وطن کی صعوبتیں اور تکالیف سنیں تو آپ کو لگے گا کہ وہ تمام کہانیاں ان واقعات کے سامنے بالکل ہیچ ہیں۔

    یہ تارکین وطن اپنی جان کی بازی لگا کر یونان پہنچتے ہیں‘ حالات کس قدر خوفناک ہوں گے خود ان کو بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ وادی مرگ کا یہ سفر بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ سےنکلتے ہی شروع ہوجاتا ہے جہاں سے ان کی واپسی کا راستہ تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی واپس آنا چاہئے تو یہ ایجنٹ اس کو جان سے مار دیتے ہیں‘ ان ایجنٹوں کو واپس جانے والوں سے دو خطرے ہوتے ہیں ‘ ایک تو یہ کہ واپس جانے والاپنجاب والے ایجنٹ کو پکڑوا نہ دے ‘ دوسرا جو پوری رقم انہوں نے ایڈوانس میں لی ہوتی ہے ‘ وہ واپس نہ کرنی پڑ جائے چناچہ وہ ایسے افراد کو باقی لوگوں کے سامنے کسی پہاڑ سےدھکا دے دیتے ہیں یا گولی مار دیتے ہیں کہ دوسرے اس سے عبرت پکڑیں اور واپس جانے کا خیال دل سے نکال دیں۔

    ان ایجنٹوں کےعلاوہ علیحدگی پسند تنظیموں اور فرقہ پرست دہشت گرد وں کی جانب سے دوسرے فرقے کے لوگوں کو ڈھونڈ کر مار دینے کا خطرہ علیحدہ اپنی جگہ موجود ہوتا ہے ‘ علاوہ ازیں پنجاب سے جانے والوں کو قطعی وہاں کے جغرافیائی حالات کا علم نہیں ہوتا لہذا میدانوں کے رہنے والے یہ نوجوان جب خطرناک پہاڑی سلسلوں‘ صحراؤں ‘ ندی نالوں اور جنگلوں میں میلوں پیدل چلتے ہیں تو ان میں کئی کسی حادثہ کا شکار ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں اور جو زخمی ہوجائے ‘ اسے بھی یہ ایجنٹ خود مار دیتے ہیں کیونکہ وہ اس سفر کے دشوار گزار راستوں کو عبور کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ پیچھے ان کو چھوڑا نہیں جاسکتا اور یہ ایجنٹ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا کام ایک انسانی کھیپ کو ایران کی سرحد پر پہنچانا اور پھر دوسری آنے والی کھیپ کے درمیان وقفہ قائم رکھنا ہے۔

    اس سفر میں یہ تارکین وطن ہر جانب دم موت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں ‘ ابھی حال میں ہی تربت سے ملنے والی پندرہ لاشوں کی خبر تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ کیسے ان کو ایک علیحدگی پسند تنظیم کے لوگوں نےگولیوں سے بھون ڈالا ان میں سے بچ جانے والے ایک سترہ سالہ لڑکے نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے ایجنٹوں سے یونان جانے کے ایک لاکھ پینتس ہزار طے کئے تھے گویا وہ اپنی جان کا سودا ایک لاکھ پینتس ہزار میں کررہاتھا۔

    یہ ایجنٹ جانے والے نوجوانوں کے ساتھ سودا طے کرتے ہوئے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ وہ کتنا افورڈ کرسکتا ہے اور اسی حساب سےپیسے طے کرتے ہیں‘ عام طور پر سوالاکھ سے لے کر ساڑے تین لاکھ تک میں سودا طے پاتا ہے‘ کچھ پیسے پہلے لے لیتے ہیں۔۔ بقایا یونان پہنچ پر کمائی کرکے دینے کے وعدہ پر لے جاتے ہیں۔لیکن کمائی کرکے پیسے واپس کرنے والی بات بالکل جھوٹ ہوتی ہے اس سے پہلے ہی یہ ایجنٹ مختلف بہانوں سے اصل کا تین گنا وصول کر لیتے ہیں ۔

    یہاں ان نوجوانوں کے گھر والوں کا رد عمل بھی زیر بحث نہ لایا جائے تو موضوع مکمل نہ ہوگا‘ ان نوجوانوں کے پچانوے فیصد خاندانوں کے افراد کی ناصرف اس میں رضامندی شامل ہوتی ہےبلکہ خاندان کا ہر فرد اپنی اپنی بساط کے مطابق جتنی بھی مالی مدد ہوسکےوہ کرتا ہے ۔ پونڈ اور ڈالر کا خمار کچھ ایسا چڑھتا ہےکہ اگر کسی کو ان خطرات کا علم بھی ہو تو وہ چُپ سادھے رہتا ہے کہ کہیں لڑکا ڈر کر اپنا ارادہ ملتوی ہی نہ کردے۔

    موت اور زندگی کےاس کھیل میں ان تارکینِ وطن کے سامنے تین ملکوں کی بارڈر سیکورٹی فورسز ہوتی ہیں جن کو چکما دے کر انہیں ایران‘ ترکی اور پھر یونان مین داخل ہونا ہوتا ہے۔ یہ فورسز کوئی عام لوگ نہیں بلکہ تربیت یافتہ فوجی ہوتے ہیں جن کا روزانہ ان جیسےتارکین وطن سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ‘ ان نوجوانوں میں سے بہت سارے بارڈر کو کراس کرتے ہوئے ان فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ایران اور ترکی میں غیر قانونی طور سفر کرتے ہوئےان افراد کا واسطہ ایسے قبائل سے بھی پڑتا ہےجو کہ ذرا سی بات پر ان کو مار ڈالتے ہیں۔ ان میں قابل ذکر ترکی‘ ایران اور عراق میںموجو کرد قبائل ہیں جو کہ خود علیحدگی چاہتے ہیں۔ یہ کسی اجنبی کو اپنے علاقے میں برداشت نہیں کرتے۔ اور ان تارکین وطن کو ان کے علاقوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے‘ ایران اور ترکی کے اندر یہ لوگ کس طرح اپنا سفر جاری رکھتے ہیں کس طرح انہیں کسی جانوروں کی مانند گاڑیوں میں ٹھونس کر کنٹینروں میں بند کرکےلے جایا جاتا ہےاور کس طرح تہہ خانوں میں کئی کئی دن بند رکھا جاتا ہے‘ ان میں سے جو پکڑے جاتے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوتا یہ ایک علیحدہ داستان ہےجس کی تفصیل میں جائیں تو ایک کتاب بھی لکھنا کم پڑسکتا ہے۔

    مختصراً یہ کہ یہ لوگ محض چند مقامات پر خطروں کے مسافر نہیں ہوتے بلکہ وادیٔ موت کےچوبیس گھنٹوں کے راہی ہوتے ہیں۔ بلوچستان ‘ ایران اور ترکی کے سفر کے دوران جو لوگ مرجاتے ہیں ان کو کفن تو کیا قبر بھی نصیب نہیں ہوتی۔ انسانی جانوں کی جو بے توقیری ان ایجنٹوں کے ہاتھوں ہوتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔لیکن ترکی اور یونان کی سرحد پر ایسے قبرستان ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں ان تارکین وطن کی قبریں ہیں۔ لیکن ان بے نام قبروں پر کوئی کتبہ نہیں۔ حسب نسب اوروالدین کا پتہ نہیں۔وہ مسلم ‘ عیسائی‘ ہندو ہیں یا سکھ‘ کوئی تمیز نہیں ۔بس جس کی لاش ملی اسے دفن کردیا گیا نہ ان کی نماز جنازہ کسی نے پڑھائی نہ کسی چرچ میں آخری رسوم ہوئیں اور نہ مرنے والے کی آتما کی مکتی کے لئے کسی پنڈت نےگیتا کا پاٹھ کیا۔خدا ہی جانتا ہے کہ ماں باپ اور بھائی بہن کیسے گمنام لاوارث مرنے کے لئے اپنے جگر گوشوں کو اس سفر پر بھیج دیتے ہیں۔

  • پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کی داستان

    پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کی داستان

    انتہائی مفلس اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح بی ایس سی اور بی ایڈ کرکے وزیرآباد کےقریب علاقہ نظام آباد کے گورنمنٹ ہائی سکول میں سائنس کا استاد بھرتی ہو گیا۔ 2004ء میں اس نے نوکری چھوڑ دی اور دبئی چلا گیا،وہ چھ ماہ دوبئی رہا پھر واپس آیا اور ایک ایسا کام شروع کیا کہ جس نے اسے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی مشہور کردیا۔اس نے اپنے ایک جاننے والے شخص سے جو کہ ماربل کا کام کرتا تھا، کچھ رقم مانگی اور یہ رقم پندرہ دن میں دوگنی کر کے اُسے واپس کردی ۔

    محلے کے مزید دو لوگ اس کے اگلے گاہک بنے‘یہ بھی پندرہ دنوں میں دوگنی رقم کے مالک ہو گئے‘یہ دو گاہک اس کے پاس پندرہ گاہک لے آئے،اور پھریہ پندرہ گاہک مہینے میں ڈیڑھ سو گاہک ہو گئے۔ پھر تولوگوں کی لائن لگ گئی محلہ سے شروع اس کام کی بھنک جس جس کے کان میں پہنچی لالچ اور طمع اسے اس شخص کے پاس لے آئی اور رقم دو گنا کروانے کا یہ لالچ وزیرآباد‘ سیالکوٹ گجرات اور گوجرانوالہ تک پھیل گیا.اور چند ہزار روپے تنخواہ لینے والا معمولی سکول ماسٹر چند ماہ کے اندر ارب پتی ہو گیا۔اس کا یہ کاروبار 18 ماہ جاری رہا۔اس شخص نے ان 18 مہینوں میں 48 ہزار لوگوں سے سات ارب روپے جمع کر لئے،جب کاروبار پھیل گیا تو اس نے اپنے رشتے داروں کو بھی شامل کر لیا۔

    یہ رشتے دار پورے گوجرانوالہ ڈویژن سے رقم جمع کرتے تھے, پانچ فیصد اپنے پاس رکھتے تھے اور باقی رقم اسے دے دیتے.وہ شروع میں پندرہ دنوں میں رقم ڈبل کرتا تھا.یہ مدت بعدازاں ایک مہینہ ہوئی.پھر دو مہینے.اور آخر میں 70 دن ہو گئی.یہ سلسلہ چلتا رہا،درصل وہ شخص’پونزی سکیم‘چلا رہا تھا۔پونزی مالیاتی فراڈ کی ایک قسم ہوتی ہے جس میں رقم دینے والا گاہکوں کو ان کی اصل رقم سے منافع لوٹاتا رہتا ہے۔شروع کے گاہکوں کو دوگنی رقم مل جاتی ہےلیکن آخری گاہک سارے سرمائےسے محروم ہو جاتے ہیں۔اس کا نام سید سبط الحسن تھا لیکن وہ ڈبل شاہ کے نام سے مشہور ہوا اور ہمیشہ کیلئے پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کے طور پر اپنا نام رقم کرگیا اس نے صرف ڈیڑھ سال میں تین اضلاع سے سات ارب روپے جمع کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔آپ اب اس شخص کی چالاکی ملاحظہ کیجئے،یہ 2007ءمیں نیب کے شکنجے میں آ گیا۔نیب نے اس کی جائیداد‘ زمینیں‘ اکاؤنٹس اور سیف پکڑ لئے‘یہ رقم تین ارب روپے بنی،اور اس نے یہ تین ارب روپےچپ چاپ اور بخوشی نیب کے حوالے کر دیئے۔

    ڈبل شاہ کا کیس چلا اسے یکم جولائی 2012ءکو 14 سال قید کی سزا ہو ئی جیل کا دن 12 گھنٹے کا ہوتا ہے چنانچہ ڈبل شاہ کے 14 سال عملاً 7 سال تھے۔عدالتیں پولیس حراست‘ حوالات اور مقدمے کے دوران گرفتاری کو بھی سزا سمجھتی ہیں۔ڈبل شاہ13 اپریل 2007ءکو گرفتار ہوا تھا‘وہ عدالت کے فیصلے تک پانچ سال قید کاٹ چکا تھا‘یہ پانچ سال بھی اس کی مجموعی سزا سے نفی ہو گئے‘پیچھے رہ گئے دو سال‘ ڈبل شاہ نے محسوس کیاچار ارب روپے کے عوض دو سال قید مہنگا سودا نہیں،چنانچہ اس نے بارگین کی بجائے سزا قبول کر لی۔جیل میں اچھے چال چلن‘ عید‘ شب برات اور خون دینے کی وجہ سے بھی قیدیوں کو سزا میں چھوٹ مل جاتی ہے۔ڈبل شاہ کو یہ چھوٹ بھی مل گئی.چنانچہ وہ عدالتی فیصلے کے 2ماہ بعدجیل سے رہا ہوگیا۔ڈبل شاہ 15مئی 2014ءکوکوٹ لکھپت جیل سے رہا ہوا،تو ساتھیوں نے گیٹ پر اس کا استقبال کیا۔یہ لوگ اسے جلوس کی شکل میں وزیر آباد لے آئے۔وزیر آباد میں ڈبل شاہ کی آمد پر آتش بازی کا مظاہرہ ہوا۔پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کو ہار پہنائے گئے۔اس پر پھولوں کی منوں پتیاں برسائی گئیں،اور اسے مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے مبارک باد پیش کی گئی۔ حیرت یہ ہے کہ وزیرآباد میں آج تک کبھی کسی سیاسی مذہبی اور کھلاڑی کو اتنی پزیرائی نہیں ملی تھی جتنی اس شخص کو ملی ،آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں ہمارا معاشرہ اندر سے کتنا کھوکھلا ہے ہماری اقتدار جو کسی دور میں ایک رشوت لینے والے شخص کو بھی دھتکار دیتی تھیں ایک ایسے شخص کے رہا ہونے کا خیر مقدم کررہی تھیں

    جس کا کیا ہوا کام نہ قانونی تھا نہ اخلاقی اور نہ ہی مذہب ہی اس کی اجازت دیتا تھا وہ سرے عام لوگوں کو لوٹ رہا تھا اور ہر شخص یہ بھی جانتا تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ گیم ختم ہوجانی ہے لیکن ہر کوئی یہی چاہ رہا تھا کہ ڈبل شاہ اپنا کاروبار دوبارہ سے شروع کردے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعداس نے قانونی طورپر اب کسی کو کچھ ادا نہ کرنا تھا،اور نہ ہی پولیس اور نیب اسے تنگ کر سکتی تھی۔یہ چار ارب روپے اب اس کے تھے۔یہ اس رقم کا بلا شرکت غیرے مالک تھاایک سابق سکول ٹیچر کےلئے چار ارب روپے کی رقم قارون کے خزانے سے کم نہیں تھی.وہ وزیرآباد سے لاہور شفٹ ہوا،اور دنیا بھر کی سہولیات کے ساتھ شاندار زندگی گزارنے لگا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈبل شاہ کے آگے پوری ضلعی انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نیب اور احتساب کے ادارے بے بس کیوں ہوگئے تھے وہ کیوں اس سرعام یوں عوام کو لوٹتا رہا اس کئی وجوہات تھیں جن مین ایک تو یہ کہ بڑے بڑے بیورو کریٹس یہاں تک کہ پولیس کے اعلی افسران بھی اس کے کلائنٹ تھے جو انہیں پیسے ڈبل کرکے دے رہا تھا گجرات کی ایک سیاسی فیملی بھی اس کے پیچھے تھی جس کے ایک فرد کو مبینہ طورڈبل شاہ ماہانہ علیحدہ دیتا تھا اورکوئی چانس نہیں تھا کہ کوئی اس پر ہاتھ ڈالے۔ لیکن آپ کےعلم میں ہوگا کہ یہ سیاسی حلقہ وزیرآباد کے ایک مشہورمسلم لیگی خاندان کا ہےاور یہ ان کی آبائی سیٹ سمجھی جاتی ہے ڈبل شاہ تحصیل میں اس قدر اپنا اثر ورسوخ بنا چکا تھا کہ گاؤں کے گاؤں اس کے گرویدہ ہوچکے تھے اور اس کیلئے لڑنے مرنے کو تیار تھے اودھر کچھ لوگوں نے اسے سیاست میں حصہ لینے کا مشورہ دینا شروع کردیا ، تاہم جیل کے چکر کے سبب وہ سلسلہ دراز نہ ہوسکا۔

    ایک دلچسپ بات آپ سے شیئر کرتا چلوں کیونکہ میرا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اس لئے میں اس کے کئی متاثرین کو بھی جانتا ہوں جن کے لاکھوں ڈوب گئے اور کئی ایسے بھی ہیں جو اس کی وجہ سے آج کروڑوں پتی ہیں ہمارے لوگ لالچی اور منافق ہیں اُس دور میں ضلع گوجرانوالہ کی ہر محفل میں ڈبل شاہ زیر بحث ضرور ہوتا تھا اور ان میں اگرکوئی بڑے احترام سے اسے شاہ صاحب کہہ کر پکارتا تو یہ اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی تھی ان صاحب نے پیسے دوگنے کرانے کیلئے دیئے ہوئے ہیں اورجو شخص ڈبل شاہ کہتا بس سمجھ جاتے کہ موصوف ابھی تک بچے ہوئے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھاگ جانے کیلئے تیار تھا لیکن الیکشن میں حصہ لینے اور ایم این اے بننے کے چکر میں نہ بھاگا اور نیب کے ہتھے چڑھ گیا۔

    عین ممکن ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ممبر پارلیمنٹ بن کروہ خود بااثرہوجائے گا اور پھر کوئی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا ان سیاسی اور انتظامی افسران کی بلیک میلنگ سے بھی بچ جائے گا لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

    آئیں! ذرا اب اس وقت وزیرآباد کے مالیاتی اداروں میں کیا ہورہا تھا اس کا بھی ذکر کرتے جائیں کہتے ہیں کہ وزیرآباد کے اس وقت کے جتنے بینک تھے ان کے پاس سوائے بل جمع کرنے کےاور کوئی کام باقی نہ رہا فیکڑی مالکان سے لے کر معمولی دوکاندارتک بینک میں پیسے رکھنے کی بجائے ڈبل شاہ کے پاس جمع کرانے کو ترجیح دیتے، یہاں تک کہ بینک مینجر بھی اپنے پیسے نکال کر اسے دے رہے تھے بینکوں کے مینجروں کو ان کے ہیڈ آفس سے شوکاز نوٹس جاری ہورہے تھے کہ ان کی برانچوں میں کوئی پیسہ کیوں نہیں آرہا، نیز یہ کہ کئی بینک تو اس پے بھی غور کررہے تھے کہ جب تک یہ مسئلہ ہے اپنی برانچوں کو عارضی طور پر بند کردیا جائے۔

    اب ذرا پراپرٹی کی طرف آتے ہیں تو اس پینزی گیم نے لوگوں کو اپنی املاک سے بھی محروم کردیا گوجرانوالہ کی تاریخ میں اتنی سستی جائدادیں کبھی نہیں ہوئی ہوں گی جتنی ان دنوں میں ہوگئی تھیں ۔لوگ جائیدادیں اونے پونے بیچ کر ڈبل شاہ کو پیسے دے رہے تھے گوجرانوالہ میں کئی پرائیویٹ رہائشی سکیمیں صرف اسی وجہ سے فلاپ ہورہی تھیں لوگ اپنے پلاٹ بیچ رہے تھے اور خریدنے والا کوئی نہ تھا وزیر آباد اور اس کے گرد نواح میں پراپرٹی کا اس سے بھی برا حال تھا ۔دکانیں مکان پلاٹوں کی قیمتیں آدھی سے بھی کم رہ گئیں تھیں لیکن ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ جب اس بات کا چرچا دوسرے علاقوں تک پہنچا تو سمجھ دار پراپرٹی اینوسٹر جو کہ جانتے تھے کہ اس ڈرامہ کا فلاپ سین ہو ہی جانا ہے وہ وزیرآباد آکر جائیدادیں خرید کرنے لگے۔

    وزیر آباد کے دیہاتوں میں اس سے بھی برا حال تھا کہ لوگوں نے زیور, مویشی گاڑیاں ٹریکٹر غرض جو چیز ہاتھ لگی بیچ ڈالی اور ڈبل شاہ کے پاس جمع کروادی رقم کی بھی کوئی حد نہ تھی پانچ ہزار سے لیکر پچاس لاکھ تک جو جتنا کرسکتا تھا لے آیا۔ جس کی جتنی بساط تھی اس نے اسی حساب سے پیسے جمع کروادئے ۔اس کے دفتر میں بیٹھے اس کے کارندے ہر آنے والے سے پیسے لیتے گنتی کرتے اور ایک سادہ کاغذ پر رسید لکھ کر دے دیتے، اسی دور میں وہاں کے ایک ایم پی اے نے اس کےساتھ عجیب ڈرامہ کیا اس نے کوئی پچیس لاکھ کے قریب پیسے ڈبل شاہ کو دئے اور اپنے دو گارڈ اس کے پاس چھوڑ دیے اس وقت وہ رقم دوگنی کرنے میں ایک ماہ لگاتا تھا یہ گارڈ اس عرصہ میں اس کے ساتھ رہے اور انہوں نے ایک منٹ کیلئے بھی ڈبل شاہ کو آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا اور ہر وقت پیچھے ان ایم پی اے صاحب کو بھی اطلاع کرتے رہے یہاں تک ایک ماہ بعد رقم ڈبل کرواکر وہ ایم پی اے اپنے پچاس لاکھ کے ساتھ اپنے گارڈوں کو بھی واپس لے گے پیسے دوبارہ جمع کروانے کے متعلق اسے پتہ تھا کہ اب یہ گیم زیادہ دن نہیں چلے گی۔

    ایک اور صاحب تو اس سے بھی بڑا ہاتھ ڈبل شاہ کے ساتھ کرگیا یہ بھی ایک سیاسی پارٹی کے عہدےدارتھےایک دن ایک بوڑھا شخص ڈبل شاہ کے پاس آیا اور اسے پرچی دکھائی جس کے تحت اُسے اب ڈبل شاہ نے بیس لاکھ کی رقم ادا کرنی تھی لیکن اس کے کارندوں نے اس پرچی کو جعلی قرار دے دیا جس پر وہ بوڑھا شخص اس سیاسی شخصیت کو اپنے ساتھ لے کر ڈبل شاہ کے پاس آیا اُس سیاسی شخصیت نے ڈبل شاہ کو کہا کہ تم اس غریب کے ساتھ زیادتی کررہے ہو جس پر ڈبل شاہ نے کہا کہ اگر یہ سچا ہے تو آپ اس کی قسم دے دیں میں پیسے دے دوں گا ، ڈبل شاہ کا خیال تھا کہ وہ کبھی اس کی قسم نہیں دے گا لیکن وہ اس وقت حیران رہ گیا جب اس اچھے کھاتے پیتے معزز گھرانہ کے فرد نے اس بوڑھے شخص کی قسم دے دی مجبوراً ڈبل شاہ کو رقم دینی پڑی بعد ازاں پتہ چلا کہ یہ نوسربازی اُس سیاسی شخصیت کےاپنے ذہن کی پیدوار تھی اس نے اس غریب بابا جی کو بھی ایک یا دولاکھ دئے اور خود مفت میں اٹھارہ لاکھ کا چونا ڈبل شاہ کو لگا گیا لیکن ڈبل شاہ بہت بڑا فراڈیا چور نوسرباز تھا اس لئے اسے ان بیس لاکھ سے کیا فرق پڑنے والا تھا۔

    بہت کم لوگ ایسے تھے جو اپنے پیسے جمع کرواتے اور مقررہ قوت پر واپس لے لیتےزیادہ تر مقررہ وقت پر اپنی رقم واپس لینے کی بجائے ڈبل کئی گئی رقم واپس اس کے پاس جمع کرواجاتے جبکہ کچھ ایسے بھی تھے جو اصل رقم واپس لے جاتے اور دوگنی ہوئی رقم دوبارہ سے جمع کرواجاتے یعنی یہ سمجھ لیں کہ اسی فیصد لوگ پیسہ واپس ہی نہیں لے رہے تھے بلکہ دوبارہ سے ڈبل کرنے کیلئے جمع کروا دیتے تھے۔

    آئیں !ایک اور دلچسپی کی بات بھی بتاتا چلوں ان دنوں میں ایک افواہ پھیلی کہ موبائل کے اندر ایک ایسا وائرس آیا ہوا ہے کہ جب کوئی موبائل سننے کیلئے ان کرتا ہے تو اس کا دل بھی بند ہوجاتا ہے اور موت واقع ہوجاتی ہے یہ افواہ تو خیر پورے ملک میں تھی لیکن اس قسم کا اگر کوئی واقع ہوا تھا تو اس کا تعلق ڈبل شاہ سے تھا ہوا یوں تھا کہ جب ڈبل شاہ پکڑا گیا تو جن لوگوں نے پیسے اس کے پاس جمع کروائے تھے ان میں سے کچھ لوگوں کو جب یہ خبر موبائل پر بتائی جاتی تو وہ ہارٹ اٹیک کا شکار ہوگئے ان میں ایسے بھی ہوں گے جن کے اپنے قریبی رشتے داروں کو بھی پتہ نہیں ہوگا کہ اس نے پیسہ دیئے ہوئے تھے لہذا انہوں نے اوپر نیچے ہوئی اموات کو وائرس یا کچھ نے تو جنوں کی کارستانی بھی بتایا۔ اگر آپ اس دور کے اخبارات دیکھیں تو آپ کو ایسی کئی خبریں ملے گئیں کہ کوئی موبائل سنتے سنتے اللہ کو پیارا ہوگیا۔

    جن دنوں میں ڈبل شاہ کا یہ کام عروج پر تھا تو اس کے ڈیرہ پر عجیب منظر ہوتا تھا پیسے جمع کروانے والوں لینے والوں یا اپنا کھاتہ دیکھنے والوں کی لائنیں لگی ہوتی تھیں اس کے بے شمار کارندے بیٹھے نوٹ گن رہے ہوتے پرچیاں لکھنے والے اور چیک کرکے ڈبل شاہ سے سائن کروانے والے علیحدہ تھے ارد گرد بوریوں تھیلوں الماریوں ٹیچی کیسوں میں پیسے سرے عام کھلے پڑے ہوتے تھے شروع میں تو وہ اکیلا ہی تھا لیکن جیسے جیسے پیسے آنے شروع ہوئے اس نے ملازم اور گارڈ بھی رکھ لئے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کسی نے اسے لوٹنے کی کوشش نہیں کی۔ رقم جمع کروانے والے اور نکلوانے والے کو بھی کوئی پرٹوکول نہیں دیا جاتا تھا بس اس سے پرچی لی جاتی اور رقم ادا کردی جاتی یا پیسے گن کر پرچی گاہک کے حوالے کردی جاتی۔ چائے تو دور کی بات کسی کو پانی بھی نہیں پوچھا جاتا تھا۔

    لیکن اب اللہ کا نظام بھی ملاحظہ کیجئےسید سبط الحسن شاہ عرف ڈبل شاہ کو رہائی کے 16 ماہ بعداکتوبر 2015ءمیں لاہور میں ہارٹ اٹیک ہوا۔ اسے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی  لے جایا گیا‘ اس کی طبیعت تھوڑی سی بحال ہوئی‘یہ گھر آیا،لیکن پھر یہ شخص اکتوبر 2015ءکو انتقال کر گیا۔یہ شخص چار ارب روپے کا مالک ہونے کے باوجود دنیا سے چپ چاپ رخصت ہو گیا۔ آخر میں ایک اور دلچسپ بات آپ کو بتاتا چلوں کہ کسی صحافی نے امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کیا تھا کہ فرض کریں کہ آپ اپنی تمام دولت دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو آپ کون سا کاروبار کرنا چاہئے گے تو دنیا کے اس طاقت ور انسان نے جواب دیا کہ وہ پونزی کا کروبار کرنا پسند کرے گا۔