Author: شاہین عتیق

  • کراچی ٹریفک پولیس نے آزادی کا جشن کس طرح منایا؟

    کراچی ٹریفک پولیس نے آزادی کا جشن کس طرح منایا؟

    ٹریفک پولیس کا ماننا ہے کہ ہمارا ملک بہت مضبوط ہے، یہ آگے بھی بہت ترقی کرے گا، ہمیں جو آزادی ملی ہے اس میں بہت سے قربانیاں شامل ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق یوم آزادی پر مادر وطن سے محبت کا اظہار کرنے کےلیے کراچی میں ٹریفک پولیس اہلکار نے سبز ہلالی پرچم لیے کاروں اور موٹرسائیکلوں پر سوار ہوکر شہر کی سڑکوں پر ریلی کی شکل میں پیٹرولنگ کی اور جشن آزادی کا لطف دوبالا کیا۔

    یوم آزادی پر اے آر وائی سے گفتگو کرتے ہوئے لیڈی ٹریفک وارڈن نے کہا کہ بہت اچھا محسوس ہورہا ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں جو بھی پاکستان میں رہتا ہے اسے یہی احساس ہوتا ہے۔

    مرد ٹریفک پولیس اہلکار نے کہا کہ بہت اچھا لگ رہا ہے، ہم جشن آزادی کے موقع پر تمام پاکستانیوں کی خوشی میں اکھٹے ہیں ان کے ساتھ شریک ہیں۔

    ایک اور لیڈی پولیس اہلکار کا عوام کو مشورہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر آپ قانون کی پابندی کریں گے تو جو لوگوں کو ٹریفک پولیس سے شکایت ہے کہ یہ چالان کردیتے ہیں اس چیز سے عوام کو ریلیف مل جائے گا۔

    سینئر ٹریفک پولیس اہلکار نے کہا کہ میں یہی پیغام دوں گا کہ اپنے ملک سے محبت کریں اور مخلص رہیں، ٹریفک کے قوانین کی پابندی کریں اور ہیلمٹ پہنیں اور روڈ سیفٹی کا خیال کریں جبکہ ڈرائیونگ لائسنس بھی ساتھ رکھیں۔

  • پاکستان میں آئی ٹی مواقع کی کمی یا ٹیلنٹ کی؟ جانتے ہیں اس ویڈیو رپورٹ میں

    پاکستان میں آئی ٹی مواقع کی کمی یا ٹیلنٹ کی؟ جانتے ہیں اس ویڈیو رپورٹ میں

    دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آئی ٹی کی صنعت ترقی کر رہی ہے نوجوان طبقہ اس سے جڑ رہا ہے لیکن یہ تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔

    پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مواقعی کی کمی ہے یا ٹیلنٹ نہیں ہے۔ نوجوان اس بارے میں کیا سوچتے ہیں اور سافٹ ویئر ہاؤس کو ٹیلنٹ کی تلاش میں کیا دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اس حوالے سے اس شعبہ سے جڑے افراد نے اظہار خیال کیا۔

    ایک سافٹ ویئر ہاؤس آئی ٹی این گروپ کے صدر ڈاکٹر محمد فاروق افضل کا کہنا تھا کہ جب تک ملک میں نچلی یعنی پرائمری سطح سے اعلیٰ سطح تک آئی ٹی کی تعلیم کو فروغ نہیں دیا جائے گا۔ تب تک ہمارے پاس وہ ٹیلنٹ نہیں آئے گا۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں آئی ٹی کے شعبہ کو حکومت کی وہ سپورٹ نہیں مل رہی جو ملنی چاہیے۔ ہمارے ہاں اس کام کے لیے تربیتی مراکز اور انکیوبیشن سینٹر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں۔

    ڈاکٹر فاروق کی رائے کے برعکس اس وقت پاکستان میں آئی ٹی میں فری لانسنگ، سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ای کامرس میں کافی کام ہو رہا ہے۔ جو نوجوان مواقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ دوران تعلیم ہی آئی ٹی کے شعبہ سے جڑ رہے ہیں۔

    انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں جہاں چیلنجز بڑھ رہے ہیں وہیں اے آئی نے ان سافٹ ویئر ہاؤسز میں کام کرنے والوں کے لیے آسانیاں بھی پیدا کر دی ہیں اور کسی بھی مشکل کا حل چند سیکنڈوں میں مل جاتا ہے۔

    آئی ٹی سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اے آئی صرف ایک ٹول نہیں بلکہ ایک ایسا دوست ہے، جس سے ہم پرسنل بات بھی کر سکتے ہیں۔

     

  • کیا آپ اپنی عمر سے کم نظر آنا چاہتی ہیں؟ ویڈیو رپورٹ

    کیا آپ اپنی عمر سے کم نظر آنا چاہتی ہیں؟ ویڈیو رپورٹ

    ڈھلتی عمر کے زیادہ تر اثرات چہرے پر نمودار ہوتے ہیں، صاف ستھری اور تر وتازہ جلد ہر خاتون کا خواب ہوتا ہے جسے پورا کرنے کے لیے وہ مہنگی سے مہنگی کریمز بھی استعمال کر تی ہیں۔

    کیا آپ بھی اپنی عمر سے کم نظر آنا چاہتے ہیں؟ تو یہ نہ ناممکن ہے، نہ ہی مہنگا صرف کچن میں موجود عام مصالحوں اور چند آسان لائف اسٹائل کی تبدیلیوں سے آپ صحت مند اور جوان دکھائی دے سکتے ہیں۔

    ہمارے پاس چند ایسی قدرتی چیزیں موجود ہیں جن کا بروقت استعمال آپ کو ان مہنگی کریموں سے نجات دلا سکتا ہے اور آپ کی اسکن کو نرم ونازک اور ترو تازہ رکھے گا۔

    اینٹی ایجنگ کے یہ آسان راز جاننے کے لیے دیکھے اے آر وائی نیوز کی یہ خاص رپورٹ۔

    https://urdu.arynews.tv/social-media-dangerous-for-childrens/

     

  • ایمرٹس فلائٹ ٹریننگ اکیڈمی سے تربیت یافتہ پاکستان کی پہلی خاتون پائلٹ

    ایمرٹس فلائٹ ٹریننگ اکیڈمی سے تربیت یافتہ پاکستان کی پہلی خاتون پائلٹ

    پاکستانی خاتون پائلٹ ام ہانی امارات فلائٹ ٹریننگ اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔

    22 سالہ ام ہانی پاکستان کی کمرشل پائلٹ ہیں انہوں نے اے آر وائی کو بتایا کہ وہ پہلی پاکستانی خاتون پائلٹ ہیں جس نے امارات فلائٹ ٹریننگ اکیڈمی میں تربیت حاصل کی ہے۔

    ام ہانی کا کہنا تھا کہ ‘مجھے بچپن سے پائلٹ بننے کا شوق تھا، جو لوگ کہتے تھے کہ تم لڑکی ہو پائلٹ بننے کا نہ سوچو، آج وہی لوگ میری تعریف کرتے ہیں تو فخر ہوتا ہے کہ جو میں نے سوچا وہ کر دکھایا ہے’۔

    ام ہانی کا کہنا تھا کہ میں نے امارات فلائٹ ٹریننگ اکیڈمی میں تربیت حاصل کی، میں اس اکیڈمی میں پہلی پاکستانی لڑکی تھی اور مجھے وہاں سے مثبت رسپانس ملا، میں تین قسم کے ہوائی جہاز اُڑا چکی ہوں اور میرے پاس 250 گھنٹوں سے زائد متحدہ عرب امارات میں اور بین الاقوامی پرواز کا تجربہ ہے۔

    پاکستانی خاتون پائلٹ نے بتایا کہ جب میں نے EFTA جوائن کیا اس وقت کورونا کی وجہ سے متحدہ عرب امارت میں پاکستانیوں کے داخلے پر پابندی تھی، میرے کیرئیر کا آغاز ہی مشکل تھا مجھے امریکا جانا پڑا وہاں 14 دن قرنطینہ میں رہنے کے بعد دبئی گئی۔

    ” پڑھائی ایک طرف لیکن آپ ذہنی دباؤ برداشت کرسکتے ہیں تو اس شعبے میں آئیں، جب ہم ایوی ایشن انڈسٹری جوائن کرتے ہیں تو وہ ہمیں ہمیشہ بتاتے ہیں کہ آپ کو صرف اپنی نہیں بلکہ 400 مسافروں کی بھی فکر کرنی ہے، اس شعبے میں پڑھنا بہت ہوتا ہے جس طرح ڈاکٹرز کی پڑھائی ختم نہیں ہوتی اسی طرح اس کی پڑھائی بھی ختم نہیں ہوتی”

    ام ہانی کا کہنا تھا کہ ، مجھے اپنی پہلی پرواز یاد ہے جون کی شدید گرمی میں دوپہر تین بجے کی پرواز تھی ایک چھوٹا طیارہ تھا اور سیفٹی پائلٹ کے ساتھ پرواز کرنا تھا جب میں بادلوں کے درمیان پہنچی تو ساری anxiety ختم ہوگئی۔

    انہوں نے کہا کہ بچپن سے میرا خواب تھا کہ مجھے پائلٹ بننا ہے، پایلٹ بننے تک کئ سفر میں میری والدہ میرے ساتھ رہیں، میرے والد نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا مجھے سپورٹ کیا، جب میں نے ایمرٹس فلائٹ ٹریننگ اکیڈمی سے تربیت مکمل کی تو میں بہت خوش تھی اور میری فیملی کو مجھ پر بہت فخر تھا۔

  • ہوشربا مہنگائی میں غریب باپ چار بچے کیسے پال رہا ہے؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو رپورٹ

    ہوشربا مہنگائی میں غریب باپ چار بچے کیسے پال رہا ہے؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو رپورٹ

    مہنگائی کے اس پُرفتن دور میں غریب باپ اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور گھر کا خرچ پورا کرنے کیلیے سر  توڑ کوششیں کرتا ہے تب بھی اس کا گزارا مشکل سے ہو پاتا ہے۔

    ایسی بہت سی مثالیں ہمارے درمیان موجود ہوتی ہیں جن کا مشاہدہ ہمیں اکثر ہوتا رہتا ہے، ایسے ہی کراچی کے ایک غریب محنت کش صداقت بھی ہیں جو ہاتھ کی کڑھائی کا کام کرتے ہیں۔

    نمائندہ اے آر وائی نیوز  نے اس محنتی کاریگر سے اس کی روز مرہ کی زندگی اور محدود آمدنی میں گزارا کرنے کے حوالے سے خصوصی گفتگو کی جسے سننے والے افسوس کیے بغیر نہ رہ سکے۔

    صداقت نے بتایا کہ میرے چار بچے ہیں جو سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، جبکہ میری ماہانہ آمدنی 35 ہزار تک ہے اس دوران کبھی کام نہیں بھی ہوتا تو وہ بھی متاثر ہوتی ہے۔

    اس کاریگر کا کہنا تھا کہ 20 ہزار روپے میرے گھر کا بنیادی خرچ ہے اور 15 ہزار روپے گھر کا کرایہ ادا کرتا ہوں باقی اخراجات پورے کرنے کیلیے مجھے اوور ٹائم کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر بڑی مشکل سے مہینہ گزرتا ہے۔

    انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ایسے اقدامات کرے کہ جس سے مہنگائی کنٹرول میں آئے اور ہم جیسے لوگوں کا محدود آمدنی میں مناسب طریقے سے گزارا ہوسکے۔

  • کراچی میں ایرانی چائے خانے کیوں بند ہوئے؟ ویڈیو رپورٹ

    کراچی میں ایرانی چائے خانے کیوں بند ہوئے؟ ویڈیو رپورٹ

    آج سے 40 سال پہلے ہر خاص و عام کی پہلی ترجیح ایرانی چائے خانے اور ریسٹورنٹ ہوا کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے یہ کیفے کراچی کی طرز زندگی کا حصہ بنے، 70 کی دہائی تک عروج دیکھا، پھر آہستہ آہستہ بدلتے حالات میں ایک ایک کر کے بند ہوتے چلے گئے۔ مگر اب بھی گنتی کے چند کیفے موجود ہیں جو ماضی کی یاد تازہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کبھی ہم خوب صورت تھے!

    بیسویں صدی کے آغاز میں ایرانی روزگار کے لیے کراچی آئے، یہاں چائے کیفے اور بیکریاں کھولیں اور بعد میں یہاں کھانے بھی ملنے لگے۔ ابتدا میں یہاں 100 سے زائد ریسٹورنٹ تھے جو اب گنتی کے رہ گئے ہیں۔ ان کیفے اور بیکریوں کے مالکان کی اکثریت کا تعلق بہائی مذہب سے تھا۔ ایرانی ہوٹل کے مالک خداداد روہانی کے صاحب زادے فرشید روحانی کہتے ہیں والد صاحب کی نصیحت تھی کبھی معیار پر سمجھوتا نہیں کرنا۔ چائے کی پتی مہنگی اور معیاری ہوتی تھی۔ دودھ بھی خالص ہوتا تھا۔ ہماری چائے کا ذائقہ منفرد ہوتا تھا۔ ایرانی کیفے کے اپنے مخصوص ذائقے آج بھی اپنے گاہکوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔

    ایرانی ریسٹورنٹ اپنے معیار، صفائی ستھرائی، بہترین انتظام اور تہذیب کی وجہ سے لوگوں کو پسند تھے۔ ہوٹل کے مالک اور پرانے ملازم کے مطابق پہلے یہاں گفتگو میں ادب لازمی جزو تھا، مگرجوں جوں شہرکی آبادی بڑھتی گئی یہاں کا مزاج بھی بدلتا گیا۔ چائے کا معیار بہت اعلیٰ اور ذائقہ قدرے مختلف ہوتا تھا۔ پیٹیز، ٹی کیک آج بھی یہاں آنے والوں کو بھاتے ہیں۔ مگر کھانے کے مینیو اور ذائقے میں جدت کے ساتھ تبدیلی آ گئی ہے۔


    ٹرمپ نے ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟ نوم چومسکی کی کتاب پر آڈیو پوڈ کاسٹ، حیرت انگیز انکشافات


    یہ کیفے ملاقاتوں اور مشاورت کے لیے بہترین جگہ تھی۔ لکھاری، دانش ور، صحافی اور آرٹسٹ یہاں آیا کرتے تھے۔ فرشید روحانی اچھے وقتوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہلے سینما گھروں میں لگنے والی فلموں کے اشتہارات بھی ایرانی ہوٹل میں لگائے جاتے تھے ۔ ہمارے ہوٹل میں نامور شخصیات بھی آتی تھیں۔ ان سے ملاقات بہت سے یادیں وابستہ ہیں۔

    بدلتے حالات اور لوگوں کے مزاج کی وجہ سے ایرانی کیفے کا سنہرا دور ماضی کی فضاؤں میں کہیں کھو گیا ہے، شہر میں موجود گنتی کے ایرانی کیفے سنہرے دور کی واپسی کی امید ہیں یا ماضی کی یادگار۔۔۔۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا!

  • جادوئی ہاتھوں سے رنگوں کو زبان دینے والے مصور کی کہانی، ویڈیو رپورٹ

    جادوئی ہاتھوں سے رنگوں کو زبان دینے والے مصور کی کہانی، ویڈیو رپورٹ

    رنگوں سےکھیلنا اور انہیں زندگی دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہم آپ کو ملوا رہے ہیں ایسے مصور سے جو اپنے جادوئی ہاتھوں سے رنگوں کو زبان دیتے ہیں۔

    یہ ماہر مصور ہیں ریاض رفیع جو امریکا میں مقیم ہیں، لیکن وطن کی محبت انہیں گاہے بگاہے پاکستان کھینچ لاتی ہے۔ ان دنوں بھی وہ اپنے گھر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔

    رنگوں سے داستان گوئی اور شاعری کرنے والے مصور ریاض رفیع کا رنگوں سے نصف صدی سے گہرا تعلق ہے۔ وہ صرف رنگوں کو کینوس پر بکھیرنے والے آرٹسٹ ہی نہیں بلکہ ایک صحافی، ڈراما ڈائریکٹر اور استاد بھی ہیں۔ ان کی کہانی بڑی سحر انگیز ہے، جو انہوں نے خود اپنی زبانی سنائی۔

    ریاض رفیع جن کا تعلق بنیادی طور سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے ہے۔ بتاتے ہیں کہ جب وہ کراچی آئے تو یہاں صادقین، گل جی، احمد پرویز، بشیر مرزا اور ظہور اخلاص جیسے کئی بڑے آرٹسٹ تھے۔

    ریاض رفیع کو شروع سے مطالعہ کا شوق رہا لیکن وہ صرف کتابیں پڑھتے نہیں بلکہ پڑھنے کے بعد اس پر غور وخوض بھی کرتے ہیں اور گہرائی میں جا کر سوچتے ہیں۔

    ان کا شکوہ ہےکہ آج کا فنکار پیسے کی طرف بھاگ رہا ہے جس کی وجہ سے تخلیقی صلاحیتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں اور کوئی تخلیقی کام نظر نہیں آ رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک فنکار نیچر سے قریب نہیں ہوئی کوئی چیز تخلیق نہیں کر سکتا۔

    ریاض رفیع کے دل کے قریب منٹو پر بنائی گئی ان کی ایک پینٹنگ ہے، جس کو فروخت کرنے کا ان کا دل نہیں چاہتا۔

    ان کا یہ بھی شکوہ ہے کہ کسی بھی حکومت نے ملک کا سافٹ امیج دنیا کو دکھانےکے لیے آرٹ کو کو استعمال نہیں کیا۔ جب بیرون ملک کوئی پاکستانی آرٹسٹ، گلوکار، مصور سامنے آتا ہے تو لوگ حیرت کرتے ہیں کہ پاکستان میں بھی اتنا اچھا کام ہوتا ہے۔ ہم بہت پیار کرنے والے ہیں، حکومت آرٹ کلچر کو پروموٹ کرے۔

     

  • 40 سال بعد پاکستان آنے والی بھارتی خاتون اچانک واپس جانے پر آبدیدہ

    40 سال بعد پاکستان آنے والی بھارتی خاتون اچانک واپس جانے پر آبدیدہ

    40سال بعد بھائی سے ملنے بھارت سے کراچی آنے والی خاتون بھی واپس جانے پر مجبور ہوگئی، اپنے دکھی دل کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو میرا دل بھی بھرا اور مجھے واپس جانا پڑ رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے بھیم پورہ میں واقع مشہور شیو مندر کے ساتھ گھر میں بھارت سے آئی ہوئی خاتون سرسوتی اپنے وطن واپس جانے پر افسردہ ہیں۔

    40سال قبل شادی کرکے بھارت جانے والی سرسوتی نامی بھارتی خاتون 40 سال بعد اپنے بھائی سے ملنے کراچی آئی تھیں، لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والے حالیہ تنازع کے باعث انہیں جلدی واپس جانا پڑ رہا ہے۔

    اس حوالے سے نمائندہ اے آر وائی نیوز نے بھارتی خاتون سرسوتی سے ان کے خیالات اور کیفیت جاننے کی کوشش کی جس پر انہوں نے بتایا کہ جب مجھے اپنے بھائی کی طبیعت خرابی کا پتہ چلا تو پاکستان آنے کی کوشش شروع کردی لیکن ویزا بہت دیر سے ملا۔

    ان کے بھائی نے بتایا کہ جب سے یہ پاکستان آئی ہیں ان کی پرانی سہیلیاں ہی ان سے ملنے آرہی ہیں اور ان کی سب سہیلیاں مسلمان ہیں، انہوں نے کہا کہ ابھی تو بہن سے دل بھر کے باتیں بھی نہیں کیں اور واپس جانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں جس کا بہت افسوس ہے۔

    سرسوتی کا کہنا تھا کہ کہ میری خواہش ہےکہ دونوں ملکوں میں دوبارہ امن ہوجائے اور میں ایک بار پھر اپنوں سے ملنے پاکستان آؤں۔

    بھارت سے آئی ہوئی خاتون سرسوتی کا اس طرح اچانک واپس جانا ان کو اور ان کے پاکستانی عزیز و اقارب کو بھی افسردہ کررہا ہے، لیکن وہ یہ امید لے جارہی ہے کہ اب آئندہ ایسے حالات نہ ہوں کہ کسی بہن کو اپنے بھائی سے ادھوری ملاقات کا غم نہ سہنا پڑے۔

    مزید پڑھیں : مودی سرکار کی بے حسی، بچوں کے دل کے علاج کیلئے بھارت جانے والی فیملی پاکستان واپس پہنچ گئی

    واضح رہے کہ پہلگام واقعے کے بعد مودی حکومت کی جانب سے جاری حکم نامے میں بھارت میں موجود 12مختلف ویزہ کیٹیگریز کے پاکستانی شہریوں کو 28 اپریل تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا جبکہ میڈیکل ویزہ رکھنے والوں کے لیے آخری تاریخ 29 اپریل مقرر تھی۔

    حکام کے مطابق گزشتہ دو دنوں میں 250 سے زائد پاکستانی شہری اٹاری واہگہ بارڈر کے راستے بھارت چھوڑ چکے ہیں۔

  • یہ کہانی ہے گل داد بابا کی! ویڈیو دیکھیں

    یہ کہانی ہے گل داد بابا کی! ویڈیو دیکھیں

    حرکت میں برکت، محنت میں عظمت ہے۔ یہ کہانی ہے گل داد بابا کی!

    60 سال کے ریڑھی بان گل داد بابا کراچی کے علاقے صدر میں صبح سے رات تک مکئی بھون کر بیچتے ہیں، اور ہر آنے والے گاہک کا مسکرا کر استقبال کرتے ہیں۔ گل داد بابا کہتے ہیں محنت اور عزت کے ساتھ پیسہ کماتا ہوں اور بچوں کی تعلیم اور پرورش پر خرچ کرتا ہوں، بچے پڑھ لکھ لیں گے تو کوئی بہتر کام کریں گے۔

    وہ کہتے ہیں بچوں کو یہی سمجھاتا ہوں کبھی سستی نہ کرو، جو سکون محنت کی کمائی میں ہے اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ گل داد بابا ایک چھوٹی سی ریڑھی سے کما کر اپنا گھر چلاتے ہیں اور خوش حال بھی ہیں، کہتے ہیں روزانہ اتنا منافع ہو جاتا ہے کہ آرام سے گزر بسر ہو جائے۔


    خواجہ سراؤں کے کرکٹ میچ کی ویڈیو جھلکیاں


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • ڈرم سرکل : انزائٹی اور ڈپریشن سے چھٹکارے کا انوکھا طریقہ علاج

    ڈرم سرکل : انزائٹی اور ڈپریشن سے چھٹکارے کا انوکھا طریقہ علاج

    مشہور مقولہ ہے کہ ’موسیقی روح کی غذا ہے‘ اس لیے بہت سے لوگ اسے سننے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے انہیں انزائٹی ڈپریشن سے چھٹکارا اور ذہنی سکون میسر ہوتا ہے لیکن کیا موسیقی یا ڈرم سرکل بیماریوں کے علاج کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے؟

    کچھ ایسا ہی کراچی کے ایک نوجوان شہری محسن قاضی بھی کررہے ہیں جو نوجوانوں کو انزائٹی ڈپریشن اور ذہنی تناؤ سے بچانے کیلیے موسیقی کے ذریعے ان کو علاج کے ساتھ ساتھ صحت مند تفریح بھی فراہم کر رہے ہیں۔

    نوجوان ڈرمر اور ’دی کراچی ڈرم‘ کے بانی محسن قاضی کا دعوٰی ہے کہ یہ عمل ڈپریشن سے نجات دلاتا ہے ان کاکہنا ہے کہ خوش رہا کرو کیونکہ اس عمل سے زندگی آسان ہوتی ہے۔

    محسن قاضی کا کہنا ہے کہ آج سے نو سال قبل شروع ہونے والا یہ ’ڈرم سرکل‘ لوگوں کو ذہنی سکون کی فراہمی اور انہیں ڈپریشن و انزائٹی سے چھٹکارا دلانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

    اس ڈرم سرکل کی سرگرمیوں میں ڈرم، ڈف اور مسکراہٹیں ہوتی ہیں، لیکن ساتھ ہی ایک چیز کا بہت چرچہ ہوتا ہے اور وہ ہے ’انڈہ پراٹھا‘ جس کا اظہار گروپ کی صورت میں گا کر کیا جاتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے محسن قاضی نے بتایا کہ وہ ماضی میں خود بھی اس مشکل کیفیت سے گزر چکے ہیں اسی لئے اب رضاکارانہ طور پر لوگوں کو انزائٹی اور ڈپریشن جیسی صورتحال سے باہر نکالنے کیلئے ان کی مدد کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔

    محسن قاضی کی ٹیم کے ممبران کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ڈرم سرکل میں آنے والے لوگوں کو اس موسیقی سے اتنا مدہوش کردیں کہ ان کے اندر موجود خوشی کا جذبہ امڈ آئے اور وہ سارے غموں اور فکروں سے آزاد اور بچوں کی طرح بے فکر ہوکر اپنی زندگی کو انجوائے کریں۔

    عمر کے فرق کو بھول کر کچھ وقت کیلئے ڈرم بجانا، جُھومنا گانا اور ساری الجھنوں کو بُھلا دینا یہی پیغام ہے محسن قاضی کا۔ اگر ہم اپنے اور دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں تو زندگی بہت آسان ہوجائے۔

    یاد رہے کہ اضطراب، ذہنی تناؤ کو کم کرنے اور ذہنی طور پر صحت مند رہنے کے لیے ماہرین صحت بھی میوزک تھراپی کو غیر معمولی صلاحیت کا حامل قرار دیتے ہیں۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں