Author: شاہد رند

  • صدر مملکت نے انوار الحق کاکڑ کے بطور نگراں وزیر اعظم تقرر کی سمری پر دستخط کر دیے

    صدر مملکت نے انوار الحق کاکڑ کے بطور نگراں وزیر اعظم تقرر کی سمری پر دستخط کر دیے

    اسلام آباد: صدر مملکت نے انوار الحق کاکڑ کے بطور نگراں وزیر اعظم تقرر کی سمری پر دستخط کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انوار الحق کاکڑ کے بطور نگراں وزیر اعظم تقرر کی سمری پر دستخط کر دیے، انوار الحق کاکڑ کو وزیر اعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا۔

    صدارتی ایوان سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی نے انوارالحق کاکڑ کی بطور نگران وزیر اعظم تعیناتی کی منظوری آئین کے آرٹیکل 224 ایک اے کے تحت دی ہے۔

    انوارالحق کاکڑ ملک کے آٹھویں نگران وزیر اعظم بن گئے ہیں، ان کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے، وہ 2018 میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے، اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز کے چیئرمین ہیں۔

    انوارالحق کاکڑ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، خزانہ، خارجہ امور، سینیٹ کی ہاؤس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کے بھی رکن ہیں، انھوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے پولیٹیکل سائنس اور سوشیالوجی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، وہ بلوچستان حکومت کے ترجمان بھی رہے ہیں۔

  • بڑی جماعتوں کے بعد مسلم لیگ ن کو چھوٹی جماعتوں نے بھی گھیر لیا

    بڑی جماعتوں کے بعد مسلم لیگ ن کو چھوٹی جماعتوں نے بھی گھیر لیا

    اسلام آباد: بڑی جماعتوں کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کو چھوٹی جماعتوں نے بھی گھیر لیا، متعدد اہم معاملات پر اب ن لیگ کو بڑی جماعتوں کے بعد چھوٹی جماعتوں کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ن لیگی حکومت کو تین صوبوں کے گورنرز اور چیئرمین نیب کی تقرری کا معاملہ درپیش ہے، جن پر پاکستان پیپلز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔

    اب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی ان چھوٹی جماعتوں نے بھی سر جوڑ لیے ہیں جنھیں قومی اسمبلی میں کوئی خاص قوت حاصل نہیں ہے، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ سمیت چند دیگر جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن سے رابطوں پر اتفاق کر لیا ہے۔

    ذرائع نیشنل پارٹی اور پی کے میپ کا کہنا ہے کہ وہ پی ڈی ایم میں سیاسی جدوجہد کے لیے اکھٹے ہوئے تھے، لیکن حکومت کی تبدیلی کے بعد بڑی جماعتوں کے اہداف بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ چھوٹی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کا اجلاس جلد بلائیں۔

    واضح رہے کہ حکومتی اتحاد کی جماعتیں آئندہ چند ہفتوں میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، تین صوبوں کے گورنر اور چیئرمین نیب کے عہدے ان اہداف میں شامل ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن سے اس سلسلے میں آئندہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں باضابطہ رابطے کیے جائیں گے، کچھ رابطے ہو بھی چکے ہیں جن میں مولانا نے انھیں اجلاسوں کے لیے گرین سگنل بھی دیے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا ان رابطوں کے ذریعے اپنی بارگیننگ پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

    یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن خیبر پختون خوا سے چیئرمین نیب کے لیے 2 نام دے چکے ہیں، بی اے پی بھی اس سلسلے میں دو نام دے چکی ہے، اس وقت ایک طرف حکومت کو معاشی اور بڑی جماعتوں کے بحران کا سامنا ہے، وہاں اب چھوٹے صوبوں سے چھوٹی جماعتوں کی صورت میں بھی نیا چیلنج سامنے آ رہا ہے، آنے والے دنوں میں امکان ہے کہ یہ جماعتیں مولانا کے پاس اکھٹی ہوں اور مولانا، آصف زرداری کی طرح حکومت کے ساتھ ‘دو اور لو’ کی بارگیننگ کریں۔

    ایم کیوایم اور بی اے پی کے بعد ایک اوراتحادی جماعت ناراض ، حکومت سے علیحدگی پر غور

    دوسری طرف ذرائع نے کہا ہے کہ حکومت کی ایک اور اہم اتحادی جماعت ناراض ہو گئی ہے، عوامی نیشنل پارٹی نے وفاقی حکومت سےعلیحدگی پر غور شروع کر دیا ہے، اس حوالے سے ایمل ولی خان کی زیر صدارت اے این پی کی مرکزی قیادت کا اجلاس منعقد ہوا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں حکومتی اتحاد کے لیے کیے گئے وعدوں اور ان پر عمل درآمد سے متعلق تبادلہ خیال ہوا، اے این پی رہنماؤں نے حکومت سے علیحدگی کی تجویز دے دی، جس پر ایمل ولی خان نے حتمی فیصلوں کے لیے مرکزی قیادت کا اجلاس عید کے بعد طلب کر لیا۔

    اے این پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہ ہو سکا، پارٹی کو کسی بھی حکومتی فیصلوں پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا ہے۔

    اجلاس میں اے این پی رہنماؤں نے حکومت سے علیحدگی کا اختیار پارٹی سربراہ کو دے دیا۔

  • بلوچستان کا بجٹ 2 روز تاخیر کا شکار کیوں اور کیسے ہوا؟ سنسنی خیز اندرونی کہانی سامنے آ گئی

    بلوچستان کا بجٹ 2 روز تاخیر کا شکار کیوں اور کیسے ہوا؟ سنسنی خیز اندرونی کہانی سامنے آ گئی

    کوئٹہ: ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان کے بجٹ 2022-23 کی تیاری کے دوران بیوروکریسی نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی بجائے سیاسی جماعتوں کے احکامات مانے، جس کی وجہ سے صوبے کا بجٹ 2 روز تاخیر کا شکار ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان بجٹ 2022-23 دو روز تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سامنے آ گئی ہے، بیورو کریسی نے ایک ایسا قدم اٹھا لیا تھا جس نے عین موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کی مشکلات بڑھا دی تھیں۔

    بلوچستان بجٹ دو ہزار بائیس تئیس کی تیاری میں 2 سیکریٹریز کی سیاسی جماعتوں سے ملی بھگت سامنے آئی ہے، سیکریٹریز نے اہم مذہی سیاسی جماعت کے صوبائی سربراہ کی من مانیاں تسلیم کیں، اور پارٹی کو 40 ارب روپے کی اسکیمیں بجٹ کا حصہ بنانے میں مدد کی۔

    دوسری طرف وزیر اعلیٰ بجٹ میں موجود 40 ارب روپے کی اسکیموں سے لا علم تھے، سیکریٹریز کے اقدامات اس وقت وزیر اعلیٰ کے علم میں آئے جب بجٹ تیاری کے حتمی مرحلے میں داخل ہوا۔

    بجٹ دستاویز میں چالیس ارب روپے کی اسکیمیں شامل کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر بجٹ 2 روز تاخیر سے پیش ہوا، وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو اضافی چالیس ارب کی اسکیموں کو بجٹ دستاویزات کا حصہ بنانے پر مجبور ہو گئے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بیورو کریسی کے اس اقدام کے نتیجے میں بجٹ خسارے میں اضافہ ہو گیا ہے، بیورو کریسی نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو آخری لمحات تک لا علم رکھا، معاملہ کھلنے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو دونوں سیکریٹریز پر برہم تو ہو گئے، لیکن اس وقت وہ سیاسی مصلحت کا شکار ہو گئے۔

    تاہم، اب وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بجٹ منظوری کے بعد بیوروکریسی میں اہم تبادلوں اور تقرریوں کا فیصلہ کر لیا ہے، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ و ترقیات اور سیکریٹری خزانہ قدوس بزنجو کے ریڈار پر آ گئے ہیں۔

  • رکن بلوچستان اسمبلی ظہور بلیدی کی حکومتی کیمپ میں واپسی

    رکن بلوچستان اسمبلی ظہور بلیدی کی حکومتی کیمپ میں واپسی

    کوئٹہ: رکن بلوچستان اسمبلی ظہور بلیدی حکومتی کیمپ میں واپس آ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق چند ہفتوں قبل قدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے محرکین میں صف اول میں شامل ظہور بلیدی حکومتی کیمپ میں واپس آ گئے ہیں۔

    ظہور بلیدی کی واپسی کے لیے سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اہم کردار ادا کیا، وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو اور ظہور بلیدی کی ملاقات گزشتہ رات سردار عبدالرحمٰن کھیتران کے گھر کروائی گئی۔

    یاد رہے کہ ظہور بلیدی نے تحریک عدم اعتماد کے وقت قدوس بزنجو حکومت پر شدید بے ضابطگیوں اور بد عنوانی کے الزامات عائد کیے تھے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ظہور بلیدی نے گزشتہ رات وزیر اعلیٰ سے بجٹ سمیت اہم امور پر گفتگو بھی کی۔

    ظہور بلیدی نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ قدوس بزنجو کو باچا خان ، سردار عطاء اللہ مینگل اور صمد خان اچکزئی کے سیاسی وارثین کی حمایت حاصل ہے، ہم تو پھر ایک پارٹی کے ہیں۔

    انھوں نے تصدیق کی کہ قدوس بزنجو سے ملاقات سردار عبدالرحمٰن کے گھر ہوئی تھی، انھوں نے وضاحت کی کہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ سے ایم پی اے بنا ہوں، کسی کیمپ کے پلیٹ فارم سے نہیں۔

  • پی ٹی آئی استعفوں کا معاملہ ، حکومتی اتحاد نے حکمت عملی مرتب کرلی

    پی ٹی آئی استعفوں کا معاملہ ، حکومتی اتحاد نے حکمت عملی مرتب کرلی

    اسلام آباد : پی ٹی آئی استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے معاملے پر حکومتی اتحاد میں اتفاق ہوگیا ، 6 جون سے استعفوں کے معاملے پر باقاعدہ کارروائی کے آغاز کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی استعفوں کے معاملے پر حکومتی اتحاد نے حکمت عملی مرتب کرلی اور پی ٹی آئی استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے معاملے پر حکومتی اتحاد میں اتفاق ہوگیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ 6 جون سے استعفوں کے معاملے پر باقاعدہ کارروائی کے آغاز کا امکان ہے ، حکومتی اتحاد کی 25 سے 30 اراکین کو استعفیٰ دینے سے روکنے پر قائل کرنے کی کوشش ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ 3 اراکین شاہ محمود قریشی، فوادچوہدری اور شیریں مزاری نے اسمبلی میں استعفوں کاا علان کیا ، تینوں اراکین تصدیق کیلئے آئیں یا نہ آئیں استعفے منظور ہوسکتے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق مزید اراکین کی تقاریر کا ریکارڈ اسمبلی اسٹاف چیک کررہا ہے، مزید 3 سے 4 اراکین کے اسمبلی خطاب کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ جن اراکین کے خطاب کا ریکارڈ چیک کیا جارہا ہے ، ان میں اسد قیصر، قاسم سوری اوراسدعمر شامل ہیں۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ پہلے مرحلے میں 3 سے 6 یا 10 اراکین کے استعفے الیکشن کمیشن کو بھیجے جانے کا امکان ہے۔

  • حمایت کے حصول کے لیے سرگرم جام کمال کی محنت رائیگاں، عدم اعتماد غیر مؤثر

    حمایت کے حصول کے لیے سرگرم جام کمال کی محنت رائیگاں، عدم اعتماد غیر مؤثر

    کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر مؤثر ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق مطلوبہ اکثریت نہ ہونے پر وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش نہ ہوسکی، تحریک کے لیے 13 اراکین کی حمایت درکار تھی، تاہم 11 لوگوں نے قرارداد کی حمایت کی، مطلوبہ حمایت نہ ملنے پر عدم اعتماد کی تحریک غیر موثر ہوگئی۔

    جام کمال اور سردار یار محمد رند نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا تھا مطلوبہ تعداد حاصل نہیں، خالد مگسی کو کہا ہے وفاقی حکومت سے پوچھیں وہ کیوں چپ تھے، پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نوٹسز بھیجے جائیں گے۔

    قائم مقام اسپیکر نے رولنگ دی کہ مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے پر بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہو سکتی۔ تحریک غیر مؤثر ہونے پر بلوچستان اسمبلی میں اجلاس بدنظمی کا شکار ہو گیا، سردار یار محمد رند اور اسد بلوچ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، مہمانوں کی گیلری سے بھی آوازیں کسی گئیں۔

    خیال رہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال پی ڈی ایم رہنماؤں کو ان کا وعدہ یاد دلانے کے لیے کئی دن سے سرگرم تھے، اس سلسلے میں انھوں نے ذاتی سطح پر وزیر اعظم شہباز شریف، آصف علی زرداری، اور مولانا فضل الرحمان سے بالواسطہ طور پر رابطے بھی کیے۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے صدر جام کمال نے آج یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ اگر پی ڈی ایم جماعتوں نے بلوچستان حکومت کی تبدیلی میں بی اے پی کا ساتھ نہ دیا تو وہ دوستوں کے ساتھ بیٹھیں گے، انھوں نے کہا ‘ہمیں بھی پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔’

    خیال رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاق میں شہباز حکومت کی اتحادی ہے، اس کے 4 ووٹ ہیں، جب کہ شہباز حکومت صرف 2 ووٹوں کی برتری پر کھڑی ہے، اگر بی اے پی اپنی حمایت واپس لیتی ہے تو موجودہ حکومت ختم ہو سکتی ہے۔

    جام کمال نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے کچھ ایم این ایز نے یہ تجویز دی ہے کہ اگر حکومت ہماری تحریک میں ساتھ نہیں دیتی، جب کہ یہ تحریک ایک حقیقی سبب رکھتی ہے، تو ہمیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے، کیوں کہ ہم بلوچستان میں تبدیلی کے نکتے پر وفاق کی طرف گئے تھے۔

    انھوں نے کہا بی اے پی کے بیانیے پر یہاں بلوچستان میں دوست پچھلے دو تین دن سے بہت سختی سے بات کر رہے ہیں، بی اے پی کے سینیٹرز، ہمارے ایم پی ایز، اور چند ایم این ایز نے اس پر بات کی ہے، اس لیے پی ڈی ایم کی جماعتوں سے کہوں گا کہ اس بات کو سنجیدگی سے لیں، ہم سے تو عمران خان سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے کہا کہ یہ صوبائی حکومت کوئی ٹھیک حکومت نہیں ہے، بلوچستان کے مفاد کے خلاف ہے، میرا وزارت اعلیٰ کے منصب میں کوئی دل چسپی نہیں، بات بلوچستان کے مفاد کی ہے۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آج جام کمال نے کہا تھا کہ بی اے پی اراکین کے مابین وفاقی حکومت چھوڑنے پر بات ہوئی ہے، پی ڈی ایم کی جماعتوں نے مرکز میں حکومت کی تبدیلی پر بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی پر مثبت اشارے دیے تھے، اور ہم نے مرکز میں عدم اعتماد کی حمایت پر یہ بات رکھی تھی، اس لیے ہم امید کرتے ہیں وفاقی حکومت میں موجود جماعتیں یقین دہانی پر پورا اتریں گی۔

    خیال رہے کہ جام کمال نے آج ٹویٹر پر بھی پی ڈی ایم کو یاد دہانی کرائی تھی، اور ذاتی سطح پر بالواسطہ طور پر پی ڈی ایم کی قیادت کو پیغام بھیجا، ان کا کہنا تھا کہ آج کے بعد براہ راست رابطے بھی کیے جائیں گے۔

    میڈیا سے گفتگو میں جام کمال کا کہنا تھا کہ عمران خان سے ہمارے ذاتی تعلقات خراب نہیں، عمران خان کے دور میں ایک حکومت گئی اور ایک آئی، پی ٹی آئی نہیں چاہتی کہ عبدالقدوس صاحب کی حکومت جائے، سوال یہ ہے کہ ان کا اختلاف کس بات پر ہے، یہاں اقتدار کا لالچ نہیں ہے، ہمارے نمبرز پہلے دن سے پورے نہیں ہیں، ہمارا مؤقف ہے کہ بلوچستان کی بہتری کے لیے تبدیلی لائیں۔

    قبل ازیں، بلوچستان اسمبلی کا اجلاس آج 4 گھنٹے تاخیر کا شکار ہوا، بعد ازاں، جب تحریک پیش کرنے کا موقع آیا تو بی اے پی اراکین کی تعداد پورا نہ کر سکی، تحریک کے لیے 13 اراکین کی حمایت درکار تھی، تاہم 11 لوگوں نے قرارداد کی حمایت کی، جس پر تحریک پیش نہ ہو سکی۔

  • شہباز حکومت کے لیے مشکل، بی اے پی کا حمایت واپس لینے پر غور

    شہباز حکومت کے لیے مشکل، بی اے پی کا حمایت واپس لینے پر غور

    کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپنی حمایت واپس لینے پر غور شروع کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہر پل ایک ڈرامائی موڑ لے رہی ہے، بی اے پی نے وفاقی حکومت سے حمایت واپس لینے پر غور شروع کر دیا ہے، جس سے شہباز حکومت کے لیے مشکل پیدا ہو گئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ رات گئے جام کمال گروپ کے بی اے پی کے ارکان پارلیمنٹ نے ایک اہم میٹنگ کی، جس میں ارکان نے یہ تجویز دی کہ پی ڈی ایم کی جن جماعتوں نے عمران خان کی تبدیلی کے وقت انھیں بلوچستان میں عدم اعتماد اور تبدیلی کے حوالے سے جو یقین دہانیاں کرائی تھیں، اگر وہ اس پر عمل درآمد نہیں کرتی ہیں تو پھر بی اے پی وفاقی حکومت سے حمایت واپس لینے پر غور کرے۔

    بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی جانب سے صدر بی اے پی جام کمال کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ اگر پی ڈی ایم ساتھ نہیں دیتی تو وفاقی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

    اس وقت بی اے پی نے شہباز حکومت کو قومی اسمبلی میں 4 ووٹ دیے ہیں، جب کہ وفاقی حکومت کو ایوان میں صرف 2 ووٹ کی برتری حاصل ہے، ایسے میں اگر بی اے پی اپنی حمایت واپس لیتی ہے تو دو ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی وفاقی حکومت ختم ہو جائے گی۔

    انتہائی قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں اراکین نے جام کمال کو حمایت واپس لینے کی تجویز دی، جس کے بعد جام کمال نے گزشتہ رات ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے پی ڈی ایم پر زور دیا کہ وہ کیے گئے وعدوں کو پورا کریں۔

    اگرچہ بی اے پی نے فی الوقت واضح الفاظ میں وفاقی حکومت چھوڑنے کی بات نہیں کی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات اس آپشن پر بہت سنجیدگی کے ساتھ غور ہوا ہے، اور بی اے پی صدر نے قومی اسمبلی میں موجود پارلیمانی جماعت سے مشاورت شروع کر دی ہے۔

    جام کمال نے ٹویٹ کیا کہ آج ہم عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر رہے ہیں، ہم پی ڈی ایم پارٹیوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ عمران خان کے دور میں مسلط کی گئی اور اب بھی شہباز شریف کے دور سے لطف اندوز ہونے والی بلوچستان کی بدعنوان اور بے ایمان حکومت کو ہٹانے کے اپنے وعدے کو پورا کریں گی۔

    واضح رہے کہ بلوچستان صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا اجلاس آج 10 بجے ہوگا، جام کمال، سردار یار محمد رند اور اصغر اچکزئی سمیت 14 اراکین اس تحریک کے محرک ہیں، تحریک پر دستخط کرنے والے پی ٹی آئی رکن مبین خلجی نے رات گئے تحریک سے لا تعلقی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جام کمال اور ان کے گروپ کو تحریک پیش کرنے کے لیے 14 اراکین اسمبلی کی حاضری یقینی بنانا ہوگی۔

  • عدم اعتماد کے بعد بلوچستان حکومت کو پہلا دھچکا

    عدم اعتماد کے بعد بلوچستان حکومت کو پہلا دھچکا

    کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد ان کی حکومت کو پہلا دھچکا لگ گیا۔

    بلوچستان میں سیاسی بحران آگیا۔ صوبائی وزیر نوابزادہ طارق مگسی نے صوبائی کابینہ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    ذرائع کا بتانا ہے کہ نوابزادہ طارق مگسی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر دستخط کیے، کابینہ کا حصہ نہیں رہ سکتا، کل دوپہر قائم مقام گورنر کو استعفیٰ پیش کیا جائے گا۔

    ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ طارق مگسی نے قائم مقام گورنر جان جمالی کو اپنے مستعفی ہونے سے متعلق آگاہ کر دیا ہے۔

    خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی گئی ہے جس پر 14 اراکین کے دستخط موجود ہیں۔

    وزیر اعلیٰ کیخلاف تحریک عدم اعتماد سابق وزیر اعلیٰ جام کمال، سردار یار محمد رند اور ظہور بلیدی نے جمع کرائی ہے۔

    ذرائع کے مطابق عدم اعتماد جمع کرانے سے قبل بی اے پی، اے این پی اور پی ٹی آئی اراکین میں مکمل مشاورت کی گئی، سردار یار محمد رند، جام کمال اور اصغر اچکزئی دو روز تک اس حوالے سے مشاورت میں مصروف رہے اور مطلوبہ اراکین کی تعداد پوری ہونے کے بعد یہ قرار داد جمع کرائی گئی ہے۔

    عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ 6، 7ماہ سے سیاسی معاملات پر تحفظات تھے، کارکردگی اچھی نہیں تھی اس کے باوجود اچھے کی امید رکھی لیکن بلوچستان میں بہتری نظرنہیں آرہی تھی، کئی بار کہا کہ بلوچستان کے ساتھ ظلم کو نظرانداز نہیں کرسکتے، عوام میں تاثر جارہا تھا کہ ظلم میں ہم بھی شریک ہیں جبکہ ایسا نہیں تھا۔

  • وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم جمع کرادی گئی

    وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم جمع کرادی گئی

    وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ہے جس پر 14 اراکین کے دستخط موجود ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی گئی ہے، جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد پر 14 اراکین کے دستخط موجود ہیں جو سابق وزیراعلیٰ جام کمال، سردار یار محمد رند اور ظہور بلیدی نے جمع کرائی ہے۔

    اس حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے کہ عدم اعتماد جمع کرانے سے قبل بی اے پی، اے این پی اور پی ٹی آئی اراکین میں مکمل مشاورت کی گئی، سردار یار محمد رند، جام کمال اور اصغر اچکزئی دو روز تک اس حوالے سے مشاورت میں مصروف رہے اور مطلوبہ اراکین کی تعداد پوری ہونے کے بعد یہ قرار داد جمع کرائی گئی ہے۔

    عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ 6، 7ماہ سے سیاسی معاملات پر تحفظات تھے، کارکردگی اچھی نہیں تھی اس کے باوجود اچھے کی امید رکھی لیکن بلوچستان میں بہتری نظرنہیں آرہی تھی، کئی بار کہا کہ بلوچستان کے ساتھ ظلم کو نظرانداز نہیں کرسکتے، عوام میں تاثر جارہا تھا کہ ظلم میں ہم بھی شریک ہیں جبکہ ایسا نہیں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ وفاق میں تحریک عدم اعتماد چلی تو وہاں بھی ون پوائنٹ ایجنڈا رکھا اور ہمارا ایجنڈا تھا کہ بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کیلئے ہمارا ساتھ دینا ہے، وفاق نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور تحریک سے متعلق مؤقف رکھا، بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی کے علاوہ ہمارا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔

    جام کمال نے مزید کہا کہ اپوزیشن رہنماؤں کے دستخط بھی تحریک عدم اعتماد پر موجود ہیں، 14ارکان کے دستخط ہیں، ہماراہم خیال گروپ ہے اور ہم مستقبل کے فیصلے مشترکہ کرینگے، آئندہ وزیراعلیٰ کون ہوگا دوستوں کیساتھ مشاورت کےبعد فیصلہ ہوگا۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی اے پی کا موجودہ گروپ ہی وفاق میں عدم اعتماد تحریک پر آگے تھا اور ہمارے گروپ کو ہی وفاق کی سطح پر یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں، یہ تو نہیں ہوسکتا کہ بلوچستان یا پاکستان نقصان میں جارہا ہے تو خاموش رہیں، ہم کہتےہیں5 سال مدت پوری ہونی چاہیے چاہے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کوئی بھی ہو۔

  • ‘کوشش ہوگی چیئرمین سینیٹ کیلیے بلوچستان سے نیا نام لائیں’

    ‘کوشش ہوگی چیئرمین سینیٹ کیلیے بلوچستان سے نیا نام لائیں’

    بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر وسابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا ہے کہ حکومتی اتحاد اگر چیئرمین سینیٹ بدلنے کا کہے گا تو بات ہوگی، ہماری کوشش ہوگی صادق سنجرانی کی جگہ بلوچستان سے نیا نام لائیں۔

    بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے ماضی کے اقدامات پر اکثریت انکے خلاف ہے، حکومتی اتحاد اگر چیئرمین سینیٹ بدلنے کا کہے گا تو بات ہوگی، ہماری کوشش ہوگی صادق سنجرانی کی جگہ بلوچستان سے نیا نام لائیں۔

    جام کمال نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف سے مشروط اتحاد تھا لیکن ن لیگ کے ساتھ اتحاد مشروط نہیں ہے بلکہ ن لیگ سے اتحاد کا فیصلہ اراکین اسمبلی کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے مشروط اتحاد کے تحت تحریک انصاف نے بلوچستان میں ہماری مدد کی اور ہم نے وفاق میں ان کی مدد کی، لیکن ہمارے اراکین قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کے رویے پر تحفظات ہوگئے تھے، بلوچستان کی عدم اعتماد تحریک میں پی ٹی آئی کے کردار پر تحفظات تھے۔

    بلوچستان میں حکومت یا چیئرمین سینیٹ تبدیلی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا، وہ قدوس بزنجو کی حکومت کو گناہ کہتے ہیں، قدوس بزنجو چیزوں کو ٹھیک نہیں کرپائے تو لائحہ عمل بنائیں گے، امید ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی سے ساتھ دے گی جبکہ جے یو آئی ف سمیت دیگر سیاسی قیادت سے بھی ہم رابطوں میں ہیں۔