Author: شکیب جلالی

  • مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا

    مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا
    میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا

    ٹھہرو ٹھہرو مرے اصنام خیالی ٹھہرو
    میرا دل گوشہ تنہائی میں گھبرائے گا

    لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو
    زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا

    عزم پختہ ہی سہی ترک وفا کا لیکن
    منتظر ہوں کوئی آ کر مجھے سمجھائے گا

    آنکھ جھپکے نہ کہیں راہ اندھیری ہی سہی
    آگے چل کر وہ کسی موڑ پہ مل جائے گا

    دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
    جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا

    *********

  • کیا کہیئے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی

    کیا کہیئے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
    اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی

    شاید ہی کوئی آ سکے اس موڑ سے آگے
    اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی

    وہ گل نہ رہے نکہت گل خاک ملے گی
    یہ سوچ کے گلشن میں صبا تک نہیں آتی

    اس شور تلاطم میں کوئی کس کو پکارے
    کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی

    خوددار ہوں کیوں آؤں در اہل کرم پر
    کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی

    اس دشت میں قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
    پیڑوں سے جہاں چھن کے ضیا تک نہیں آتی

    یا جاتے ہوئے مجھ سے لپٹ جاتی تھیں شاخیں
    یا میرے بلانے سے صبا تک نہیں آتی

    کیا خشک ہوا روشنیوں کا وہ سمندر
    اب کوئی کرن آبلہ پا تک نہیں آتی

    چھپ چھپ کے سدا جھانکتی ہیں خلوت گل میں
    مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی

    یہ کون بتائے عدم آباد ہے کیسا
    ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا تک نہیں آتی

    بہتر ہے پلٹ جاؤ سیہ خانہ غم سے
    اس سرد گپھا میں تو ہوا تک نہیں آتی

    ***********

  • ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر

    ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
    بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر

    آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
    تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

    پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ
    دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر

    یارو میں اس نظر کی بلندی کو کیا کروں
    سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر

    کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے
    کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر

    جل تھل ہوئی تمام زمیں آس پاس کی
    پانی کی بوند بھی نہ گری سائبان پر

    ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
    چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکاں پر

    سایہ نہیں تھا نیند کا آنکھوں میں دور تک
    بکھرے تھے روشنی کے نگیں آسمان پر

    حق بات آ کے رک سی گئی تھی کبھی شکیبؔ
    چھالے پڑے ہوئے ہیں ابھی تک زبان پر

    **********

  • ساتھی

    میں اس کو پانا بھی چاہوں
    تو یہ میرے لیے نا ممکن ہے
    وہ آگے آگے تیز خرام
    میں اس کے پیچھے پیچھے
    افتاں خیزاں
    آوازیں دیتا
    شور مچاتا
    کب سے رواں ہوں
    برگ خزاں ہوں
    جب میں اکتا کر رک جاؤں گا
    وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر
    مجھ سے آنکھیں چار کرے گا
    پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا
    پھر میں
    منہ توڑ کے
    تیزی سے گھر کی جانب لوٹوں گا
    اپنے نقش قدم روندوں گا
    اب وہ دل تھام کے
    میرے پیچھے لپکتا آئے گا
    ندی نالے
    پتھر پربت پھاند آ جائے گا
    میں آگے آگے
    وہ پیچھے پیچھے
    دونوں کی رفتار ہے اک جیسی
    پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے
    وہ مجھ کو یا میں اس کو پا لوں
    *********

  • گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا

    گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
    ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

    ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی
    فسانہ جگر لخت لخت ایسا تھا

    ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
    چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا

    یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
    کوئی نہ سہہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا

    کہاں کی سیر نہ کی توسنِ تخیل پر
    ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا

    ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ
    کوئی نہ جان سکا ساز و رخت ایسا تھا

    *********