Author: شعیب نظامی

  • تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری

    تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری

    نئے مالی سال میں سرکاری کارپوریشنز اور نیم سرکاری اداروں میں تنخواہیں بڑھانےکا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

    وزارت خزانہ نے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں تنخواہیں 20 سے 25 فیصد بڑھانے کی منظوری دیدی جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں گریڈ 1 سے 16 تک 25 فیصد تنخواہ بڑھے گی۔

    سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں گریڈ 17 سے 22 تک 20 فیصد تنخواہ بڑھے گی۔ تنخواہوں میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی 2024 سے ہو گا۔

    کتنی تنخواہ پر کتنا ٹیکس دینا ہو گا؟

    ایف بی آر نے تنخواہ داروں کا ٹیکس کارڈ جاری کر دیا۔ مالی سال 2024-25 پر ٹیکس کارڈ کا اطلاق ہو گا۔ سالانہ 6 لاکھ روپے تنخواہ کمانے والے کو انکم ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے۔

    ایف بی آر کے مطابق کم آمدنی والے افراد پر ٹیکس کا بوجھ کرنے کے لئے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ ماہانہ 50 ہزار روپے تک تنخواہ کمانے والے کو کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کرنا ہوگا۔

    سالانہ 6 لاکھ سے زائد تنخواہ کمانے والے پر انکم ٹیکس عائد ہو گا۔ سالانہ 6 لاکھ سے زائد سے 12 لاکھ تک تنخواہ دار کو 5 فیصد انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا جب کہ 10 لاکھ سالانہ تنخواہ کمانے والوں کو 20 ہزار روپے انکم ٹیکس سالانہ ادا کرنا ہو گا۔

    10 لاکھ سالانہ تنخواہ پر چھ لاکھ پر انکم ٹیکس کی چھوٹ ہو گی اور 10 لاکھ سالانہ تنخواہ دار کو 4 لاکھ پر سالانہ 20 ہزار روپے انکم ٹیکس دینا ہو گا۔

    سالانہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ تنخواہ دار پر فکسڈ ٹیکس 30 ہزار روپے سالانہ عائد کیا گیا ہے۔ فکسڈ ٹیکس کے ساتھ 12 لاکھ سے زائد آمدنی پر 15 فیصد اضافی انکم ٹیکس بھی دینا ہوگا۔

    15 لاکھ سالانہ تنخواہ دار 30 ہزار فکسڈ ٹیکس کے ساتھ 3 لاکھ پر 15 فیصد ٹیکس بھی دے گا۔ سالانہ 22 لاکھ سے 32 لاکھ تنخواہ دار پر 1 لاکھ 80 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

    22 لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی پر 1 لاکھ 80 ہزار روپے کے ساتھ 25 فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ سالانہ 22 لاکھ روپے سے زائد تنخواہ پر 32 لاکھ کی حد تک 25 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔

    سالانہ 25 لاکھ تنخواہ پر 1 لاکھ 80 ہزار فکسڈ ٹیکس کے ساتھ 3 لاکھ روپے پر 25 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ سالانہ 32 لاکھ سے 41 لاکھ روپے تنخواہ پر 4 لاکھ 30 ہزار فکسڈ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ سالانہ 32 لاکھ سے زائد تنخواہ پر اضافی 30 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔

    سالانہ 35 لاکھ کمانے والے کو 4 لاکھ 30 ہزار کے ساتھ 3 لاکھ پر 30 فیصد ٹیکس دینا ہوگا جب کہ سالانہ 41 لاکھ سے زائد تنخواہ دار پر 7 لاکھ فکسڈ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ سالانہ 41 لاکھ سے زائد تنخواہ پر 35 فیصد ٹیکس الگ دینا ہوگا۔

    اگر سالانہ 50 لاکھ تنخواہ ہے تو 9 لاکھ اضافی پر 35 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ سالانہ 50 لاکھ تنخواہ دار کو 10 لاکھ 50 ہزار روپے کا ٹیکس دینا ہوگا۔

    ایف بی آر نے واضح کیا ہے کہ ملازمت دینے والا ہی تنخواہوں کی ادائیگی سے قبل اطلاق ٹیکس کٹوتی کرنے کا زمہ دار ہوگا، نئے ٹیکس کارڈ سے ٹیکس کی وصولی کے عمل کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ کم آمدنی والے افراد کو ریلیف ملے گا۔

  • پنشن قوانین اہم تبدیلیاں: سرکاری ملازمین  کے لئے بڑی خبر آگئی

    پنشن قوانین اہم تبدیلیاں: سرکاری ملازمین کے لئے بڑی خبر آگئی

    اسلام آباد : سرکاری ملازمین کے لئے بڑی خبر آگئی، پنشن قوانین میں اہم تبدیلیاں لاگو کر دی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ نے پنشن میں 3 ترامیم کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

    جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ فیملی پنشن 10 سال تک محدود کر دی گئی، پنشنر کی وفات کے بعد صرف اہل ورثا کو پنشن ٹرانسفر ہوسکے گی۔

    نوٹیفکیشن میں کہنا ہے کہ مرحوم پنشنر کی شریک حیات کی وفات کے بعد10 سال تک پنشن ملے گی اور مرحوم پنشنرکا بچہ اگر معذورہواتوتا حیات پنشن کا حقدار ہوگا۔

    وزارت خزانہ نے بتایا کہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، قبل از وقت ریٹائرمنٹ پرپنشن کی کٹوتی3 فیصد کی شرح سے ہوگی۔

    نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ 3فیصد کٹوتی 60 سال تک باقی رہ جانیوالی سروس دورانیے پر وصول کی جائے گی۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق سول آرم فورسزکی قبل از وقت ریٹائرمنٹ پرکٹوتی کی مجموعی شرح 20فیصدہوگی۔

    Currency Rates in Pakistan Today- پاکستان میں آج ڈالر کی قیمت 

  • بیرونی فنانسنگ گیپ  : پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف بورڈ اجلاس کے کیلنڈر میں شامل نہ ہوسکا

    بیرونی فنانسنگ گیپ : پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف بورڈ اجلاس کے کیلنڈر میں شامل نہ ہوسکا

    اسلام آباد : آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے 18 ستمبر تک کے کیلنڈر میں پاکستان کا ایجنڈا شامل نہیں، پاکستان کو ایکسٹرنل فناننسنگ گیپ کا سامنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف سے 7ارب ڈالر کے پروگرام کی حتمی منظوری کے معاملے پر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے ایک اور اجلاس کا کیلنڈرجاری کردیا، پاکستان اس بار بھی  کیلنڈرمیں شامل نہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے 18 ستمبر تک اجلاسوں کا کیلنڈر جاری کیا ، 18ستمبر کو بورڈ سرینام کے7ویں جائزےکی منظوری دے گا۔

    ذرائع نے بتایا کہ بورڈ کے9 اور 13 ستمبر کے اجلاسوں کا کیلنڈرپہلےجاری ہو چکا ہے،  بورڈ کے9 ستمبر اجلاس میں بھوٹان کاکیس اور 13ستمبر کے اجلاس میں ناروے کا کیس شامل ہیں۔

    پاکستان اورآئی ایم ایف کےدرمیان اسٹاف لیول معاہدہ 12جولائی کوہواتھا، ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کو تاحال بیرونی فنانسنگ گیپ کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، پاکستان کو  3سے5  ارب ڈالر کے ایکسٹرنل فناننسنگ گیپ کاسامنا ہے۔

    آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری ہونے کے بعد پاکستان کا ایجنڈاشامل ہونے کا امکان ہے۔

  • معیشت میں بہتری کیلیے احسن اقبال کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی پالیسی بورڈ تشکیل

    معیشت میں بہتری کیلیے احسن اقبال کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی پالیسی بورڈ تشکیل

    اسلام آباد: وزارت منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات کی جانب سے ملکی معیشت میں بہتری اور ترقی کے عمل میں بہتری لانے کیلیے معاشی، صنعتی، تزویراتی، انتظامی اور سماجی ماہرین پر مشتمل پالیسی بورڈ تشکیل دے دیا گیا۔

    ترقی کے عمل کو جدت سے روشناس کرانے، معیشت میں بہتری لانے کیلیے تمام طبقہ ہائے زندگی کی شمولیت کو یقینی بنانے اور مختلف شعبوں سے ماہرین کی شمولیت کے نتیجے میں ترقیاتی عمل، مالیاتی امور میں شفافیت لانے کے حوالے سے اہم پیش رفت کے طور پر ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے منصوبہ بندی کمیشن میں ایک اعلیٰ سطحی پالیسی بورڈ تشکیل دے دیا۔ اس اقدام کا مقصد نجی شعبے اور کارپوریٹ رہنماؤں کی فعال شرکت کے ساتھ ملک کے اقتصادی منصوبہ بندی کے عمل میں شفافیت کو بڑھانا اور بہتری لانا ہے۔

    پالیسی بورڈ، جس کی سر براہی خود احسن اقبال کر رہے ہیں، مختلف شعبوں کے ماہرین اور تجربہ کار اراکین پر مشتمل ہے، جن میں سابق وفاقی وزراء، صنعت کے رہنما، تعلیمی ماہرین، اور بین الاقوامی پیشہ ور شامل ہیں۔ نمایاں اراکین میں مسٹر شاہد اشرف تارڑ، سابق نگران وفاقی وزیر؛ مسٹر مصدق ذوالقرنین، چیئرمین انٹرلوپ لمیٹڈ؛ ڈاکٹر رانا اقرار، وائس چانسلر یونیورسٹی آف ایگریکلچر، فیصل آباد؛ اور مسٹر نوید شیروانی، امریکہ سے آئی ٹی ماہر، شامل ہیں۔

    ترقیاتی پالیسیوں کی تشکیل اور عملدرآمد کے حوالے سے پالیسی بورڈ نہایت اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ بورڈ پالیسی سازی اور حکمت عملی کی ترقی پر مشورے فراہم کرے گا، درمیانی اور طویل مدتی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کیلیے پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر رہنمائی فراہم کرے گا۔

    اس کے علاوہ، بورڈ قومی اور بین الاقوامی اقتصادی مسائل پر روڈمیپ فراہم کرے گا، میکرو اکنامک اعشاریوں اور رجحانات کا جائزہ لے گا اور پالیسی فیصلوں کو جدت سے روشناس کرانے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے عالمی اقتصادی رجحانات کی روشنی میں مشاورت اور اپنی رائے پیش کرے گا۔ بورڈ قومی منصوبوں اور اقتصادی رپورٹس کا جائزہ لے گا تاکہ سفارشات پیش کی جا سکیں، سماجی و اقتصادی رجحانات کا جائزہ لے گا تاکہ شواہد پر مبنی پالیسی مشورے کی حمایت کی جا سکے، اور قومی جدت اور مسابقت کو بڑھانے کے لیے پالیسیوں پر مشورہ دے گا۔

    مزید برآں، بورڈ پائیدار ترقی کے اہداف کو قومی اقتصادی حکمت عملیوں میں ضم کرے گا، کلیدی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مکالمے کو فروغ دے گا، اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دے گا۔ یہ بڑی اقتصادی پالیسیوں کے اثرات کا جائزہ لے گا تاکہ ان کی تاثیر کا اندازہ لگایا جا سکے۔

    پالیسی بورڈ کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے، وفاقی وزیر احسن اقبال نے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اس اقدام کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ نجی شعبے کی شرکت منصوبہ بندی کمیشن کی کارکردگی کو نمایاں طور پر بہتر بنائے گی۔ بورڈ کے اراکین اسٹریٹجک فریم ورک تیار کرنے اور مختصر، درمیانی اور طویل مدتی منصوبے تیار کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

    احسن اقبال نے نوٹ کیا کہ پالیسی بورڈ 5Es فریم ورک، 13ویں پانچ سالہ منصوبہ، اور وژن 2030 کے نفاذ کو یقینی بنائے گا۔ یہ فریم ورک برآمدات، ڈیجیٹل ترقی، ماحولیاتی پائیداری، توانائی، اور مساوات جیسے کلیدی شعبوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ پالیسی بورڈ کے اراکین کے تجربات اور سفارشات قومی بجٹ کی تشکیل میں بھی مددگار ثابت ہوں گی، جس سے عمل زیادہ شفاف اور قابل اعتماد ہو جائے گا۔

    وفاقی وزیر نے 2035 تک پاکستان کو ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت میں تبدیل کرنے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا، 5Es فریم ورک کے مؤثر نفاذ کے ذریعے۔ انہوں نے نجی تنظیموں، سول سوسائٹی، اور ماہرین سے اپیل کی کہ وہ قوم کو استحکام اور ترقی کی طرف لے جانے میں تعاون کریں۔

    پالیسی بورڈ کے اراکین نے نجی اور کارپوریٹ شعبوں کے ماہرین کی وفاقی وزارت منصوبہ بندی کے پالیسی بورڈ میں شمولیت کے عمل کو سراہا۔ اراکین نے حکومت کی جانب سے ملکی معیشت میں بہتری لانے کے اقدامات کی مکمل حمایت اور اپنے ہر ممکنہ تعاون کا اعادہ کیا۔

    ترجمان وزارت منصوبہ بندی کا کہنا ہے کہ پالیسی بورڈ کا قیام پاکستان کے اقتصادی منصوبہ بندی کے عمل میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ حکومت اور نجی شعبے کے ماہرین کی مشترکہ کوششوں سے، پاکستان پائیدار ترقی اور اقتصادی استحکام حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پروفیسر احسن اقبال کی قیادت میں منصوبہ بندی کی وزارت کا یہ اقدام قوم کے خوشحال مستقبل کے لیے حکومت کے عزم کا ثبوت ہے۔

  • حکومت اخراجات میں کمی کے لیے افسران کی بجائے چھوٹے ملازمین کو نکال رہی ہے، ڈاکٹر قیصر بنگالی مستعفی

    حکومت اخراجات میں کمی کے لیے افسران کی بجائے چھوٹے ملازمین کو نکال رہی ہے، ڈاکٹر قیصر بنگالی مستعفی

    اسلام آباد: ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی حکومتی کفایت شعاری کمیٹی سے مستعفی ہو گئے ہیں۔

    ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کفایت شعاری کمیٹی سے استعفا دے دیا، انھوں نے استعفا وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور سیکریٹری کابینہ کامران افضل کو بھجوا دیا ہے، وہ رائٹ سائزنگ کمیٹی اور اخراجات میں کمی کی کمیٹی کے رکن تھے۔

    ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے تینوں کمیٹیاں بڑی اہم ہیں، اخراجات میں کمی کے لیے تینوں کمیٹیوں نے تجاویز دی ہیں۔

    انھوں نے کہا 70 سرکاری اداروں اور 17 سرکاری کارپوریشنز کا جائزہ لیا گیا تھا، اخراجات میں کمی کے لیے سترہ ڈویژنز اور 50 سرکاری محکمے بند کرنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن حکومت تینوں کمیٹیوں کی تجاویز سے برخلاف اقدامات کر رہی ہے۔

    قیصر بنگالی کے مطابق اخراجات میں کمی کے لیے افسران کی بجائے چھوٹے ملازمین کو نکالا جا رہا ہے، محکموں سے 17 سے 22 گریٹ کے افسران کی نوکریوں کو بچایا جا رہا ہے، محکموں سے بڑے افسران کو ہٹایا جائے تو سالانہ 30 ارب کے اخراجات کم ہو سکتے ہیں۔

    انھوں نے کہا حکومت تجاویز کے برخلاف گریڈ ایک سے 16 کے ملازمین کو فارغ کر رہی ہے، معیشت تباہی کی طرف جا رہی ہے، اور قرضوں کی وجہ سے وینٹی لیٹر پر ہے۔ ڈاکٹر قیصر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور دیگر ادارے قرضے دینے کو تیار نہیں ہیں، ملک میں گھریلو بجٹ تباہ ہو گیا ہے، لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔

  • منی بجٹ کے خطرات منڈلانے لگے

    منی بجٹ کے خطرات منڈلانے لگے

    اسلام آباد : فیڈرل بورڈ اف ریونیو ( ایف بی آر ) اگست کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہے،  جولائی تا اگست 1464 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا، جبکہ 1554 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف تھا۔

    تفصیلات کے مطابق منی بجٹ کے خطرات منڈلانے لگے، فیڈرل بورڈ اف ریونیو کو محصولات میں کمی کا خدشہ ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر کو 2654ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنا ہے، جولائی تا اگست 1464 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا، جولائی تا اگست 1554 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف تھا تاہم جولائی تا اگست ٹیکس ہدف 90 ارب روپے کم ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ ستمبر 2024 میں 1190 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرنا ہوگا، جولائی تا ستمبر ٹیکس جمع کرنے کا ہدف حاصل نہ ہوا تو آئی ایم ایف منی بجٹ کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

    حکام ایف بی آر نے کہا کہ جولائی تا اگست مسلسل مظاہرے ہونے سے معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچا، آئے روز سڑکوں کی بندش اور ہڑتالوں نے ٹیکس ہدف کا حصول متاثر کیا۔

    نئے مالی سال میں چیئرمین  کی تبدیلی نے بھی ٹیکس ہدف کے حصول کو متاثر کیا تاہم ستمبر میں ٹیکس اہداف کے حصول کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں گی، جولائی تا اگست ٹیکس جمع کرنے شرح 27 فیصد ہے جو بہت خوش آئند ہے۔

  • وزیر اعظم نے رائٹ سائزنگ کے لیے 23 اہداف مقرر کر دیے

    وزیر اعظم نے رائٹ سائزنگ کے لیے 23 اہداف مقرر کر دیے

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے رائٹ سائزنگ کے لیے 23 اہداف مقرر کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم پاکستان نے رائٹ سائزنگ کے لیے اہداف مقرر کرتے ہوئے اسے مرحلہ وار تکمیل تک پہنچانے کی ہدایات جاری کر دیں، ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے رائٹ سائزنگ کے لیے ایک ہفتے سے 3 ماہ تک کے اہداف دیے ہیں۔

    وزیر اعظم نے ملک میں ڈیجیٹل اتھارٹی بنانے کی ہدایت کی ہے، ڈیجیٹل اتھارٹی بنانے کے لیے مسودہ قانون ایک ہفتے میں تیار کیا جائے گا۔ آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان میں صحت ڈائریکٹوریٹ وہاں کی حکومت کے حوالے کیا جائے گا۔

    دستاویز کے مطابق یونیورسل سروسز فنڈ بحال کر کے بہتری کی تجاویز طلب کی گئی ہیں، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ پروگرام کی کارکردگی کا جائزہ 3 ماہ میں تیار کیا جائے گا، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کی کارکردگی رپورٹ وزیر اعظم کو بھیجی جائے گی، وزارت تجارت، سرمایہ کاری بورڈ کو وزارت صنعت و پیداوار میں ضم کرنے پر مشاورت کی جائے گی، اور تجاویز 2 ماہ میں پیش کی جائیں گی۔

    ایک ماہ میں سمیڈا کو وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے ماتحت کرنے کی تجویز دی گئی ہے، وزارت صنعت و پیداوار کی 5 ذیلی کمپنیوں کی نج کاری پہلے مرحلے میں ہوگی، تجاویز 2 ہفتے میں تیار ہوں گی، پاکستان انجینئرنگ کمپنی، ری پبلک موٹرز کی نج کاری کی تجاویز 2 ہفتے میں پیش کی جائیں گی، اسٹیٹ انجینئرنگ کارپوریشن کی نج کاری کی تجاویز 2 ہفتے میں پیش کی جائیں گی، انجینئرنگ ڈیولمپنٹ بورڈ کی کارکردگی کی رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کی جائے گی۔

    نیشنل فرٹیلائزیشن کارپوریشن کو ختم کرنے کے لیے تجاویز ایک ماہ میں پیش کی جائیں گی، یوٹیلیٹی اسٹورز ختم کرنے کے لیے تجاویز 2 ہفتوں میں تیار کی جائیں گی، یوٹیلیٹی اسٹورز کی سبسڈی کو مستحقین کے کیش ٹرانسفر میں منتقل کر دیا جائے گا، پاکستان جم اینڈ جیولری کی رائٹ سائزنگ کی تجاویز تیار کی جائیں گی۔

    ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو ڈریپ ایکٹ 2012 کے تحت خود مختار کیا جائے گا، ادویات کی قیمتوں کے تعین میں ڈرگ ریگولیٹری کے اختیارات کو ڈریپ ایکٹ کے تحت الگ کیا جائے گا، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پمز کو ڈی واول کرنے کی تجاویز 1 ماہ میں پیش کی جائیں گی، فیڈرل گورنمنٹ سروسز اسپتال پولی کلینک کو ڈی واول کرنے کی تجویز ایک ماہ میں پیش کی جائے گی، نیشنل ری ہیبلیٹیشن انسٹیٹیوٹ آف میڈیسن کو ڈی واول کرنے کی تجویز 1 ماہ میں پیش ہوگی۔

    رائٹ سائزنگ کے دوسرے مرحلے میں 5 وزارتوں کے لیے تجاویز تیار کی جائیں گی۔

  • 5000، 1000 ،500 ، 100 اور 50 کے کرنسی  نوٹوں کے حوالے سے اہم خبر

    5000، 1000 ،500 ، 100 اور 50 کے کرنسی نوٹوں کے حوالے سے اہم خبر

    کراچی : 5000، 1000،500 ، 100 اور 50 کے کرنسی نوٹوں کے حوالے سے اہم خبر آگئی تاہم نئے کرنسی نوٹ کب تک جاری کیے جائیں گے؟

    تفصیلات کے مطابق دسمبر 2025 تک ملک میں موجودہ تمام کرنسی نوٹوں کو ختم کر کے نئے نوٹ جاری کیے جائیں گے۔

    ذرائع نے بتایا کہ ملک میں اس وقت تقریبا ساڑھے 9 ہزار ارب کے کرنسی نوٹ مارکیٹ میں زیر استعمال ہیں۔

    دستاویز میں بتایا گیا کہ ملک میں 5000 روپے کے تقریبا 99 کروڑ نوٹ مارکیٹ میں زیر استعمال ہیں، دستاویز مارکیٹ میں 1000 روپے والے 3 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ سے زائد نوٹ زیرگردش ہیں۔

    دستاویز میں کہا گیا کہ مارکیٹ میں 500 والے نوٹوں کی تعداد 1 ارب 63 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ہے جبکہ 100 روپے تقریبا 1 ارب 48 کروڑ 60 لاکھ نوٹ زیر استعمال ہیں۔

    دستاویز کے مطابق 50 روپے والوں نوٹوں کی تعداد 1 ارب 79 کروڑ 80 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ مارکیٹ میں 20 روپے والے نوٹ کی تعداد 71 کروڑ 60 لاکھ زیر گردش ہے۔

    اس کے علاوہ 10 روپے والے 5 ارب 66 کروڑ 20 لاکھ نوٹ، 75 روپے والے بھی تقریبا 16 کروڑ 60 لاکھ نوٹ اور 5 ہزار والے نوٹوں کی مالیت 49 کھرب 50 ارب روپے ہے۔

    دستاویز میں بتایا گیا مارکیٹ میں زیرگردش 1 ہزار کے نوٹوں کی مالیت 31 کھرب 92 ارب سے زائد، 500 روپے والے نوٹوں کی مالیت 8 کھرب 19 ارب 50 کروڑ روپے،، 100 روپے والے نوٹوں کی مالیت 1 کھرب 48 ارب 60 کروڑ روپے لگائی گئی ہے۔

    مارکیٹ میں 50 روپے والے نوٹوں کی مالیت 89 ارب 90 کروڑ روپے ، 20 روپے کے نوٹوں کی مارکیٹ میں مالیت 14 ارب 32 کروڑ روپے تک ہو سکتی ہے۔

    10 روپے والے نوٹوں کی 56 ارب 62 کروڑ کی کرنسی مارکیٹ میں موجود ہے جبکہ 5000 سے 10 روپے تک کے زیر گردش کرنسی نوٹوں کی تعداد 15 ارب 64 کروڑ 90 لاکھ ہے۔

  • 10 روپے سے 5 ہزار روپے تک تمام کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ

    10 روپے سے 5 ہزار روپے تک تمام کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ 10 روپے سے لے کر 5 ہزار روپے تک کے تمام کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ دسمبر تک تمام کرنسی نئے ڈیزائن کے مطابق متعارف کروائی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ کاغذ کی کرنسی کے بجائے ایک نوٹ پلاسٹک کا بھی متعارف کروایا جائے گا، نئے ڈیزائن کی کرنسی متعارف کروانے کے لیے وفاقی کابینہ سے جلد منظوری لی جائے گی۔

    کمیٹی رکن محسن عزیز نے اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے 5 ہزار کا نوٹ بند کرنے کی تجویز دی جس پر گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ 5 ہزار کا نوٹ بند نہیں کیا جائے گا اور نہ ایسی تجاویز ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کرنسی کی لائف کاغذ کی کرنسی سے بہتر ہوئی تو مستقل میں یہی استعمال ہوگی، نئے کرنسی نوٹوں میں تمام نئے فیچرز متعارف کروائے جائیں گے، پلاسٹک کرنسی کے لیے پولی مر کا پلاسٹک استعمال کیا جائے گا۔

  • 3 ہزار سے زائد ایف بی آر نوٹسز کی میعاد گزرنے کے باوجود 80 ارب کی ریکوری نہیں ہو سکی

    3 ہزار سے زائد ایف بی آر نوٹسز کی میعاد گزرنے کے باوجود 80 ارب کی ریکوری نہیں ہو سکی

    اسلام آباد: ایف بی آر ریکوریز میں ناکام ہو گیا ہے، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں ناقص کارکردگی کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔

    آڈٹ رپورٹ کے مطابق 3 ہزار سے زائد ایف بی آر نوٹسز کی میعاد گزرنے کے باوجود 80 ارب روپے کی ریکوری نہیں ہو سکی، 1173 ٹیکس دہندگان کی آمدنی پر درست حساب نہ ہونے سے 104 ارب کا نقصان ہوا۔

    ایف بی آر کے پاس متعدد نان ریکوریز کی وصولی کے لیے حتمی ڈیڈ لائن نہیں ہے، 519 ٹیکس دہندگان نے سروسز کی فراہمی، سپلائی اور کنٹریکٹس پر 41 ارب ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں دیا۔

    آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی چوری پر ایف بی آر کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس ریفنڈ میں فراڈ پر اقدامات نہیں کیے جا رہے۔

    رپورٹ کے مطابق 2604 ٹیکس دہندگان پر لیٹ پیمنٹ ڈیفالٹ سرچارج نہ لگنے سے 11 ارب ریکور نہیں ہوئے، ریٹیلرز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کی جانب سے انکم ٹیکس ادا نہ کرنے سے 9 ارب کا نقصان ہوا۔

    آڈیٹر جنرل کی جانب سے گزشتہ برسوں کے دوران بھی نان ریکوریز کی نشان دہی کی گئی تھی۔