Author: شعیب نظامی

  • ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے اطلاق میں ناکامی،  تحقیقاتی کمیٹی قائم

    ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے اطلاق میں ناکامی، تحقیقاتی کمیٹی قائم

    اسلام آباد : ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے غیر فعال ہونے پر 5رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ، کمیٹی ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے مکمل اطلاق میں ناکامی کی وجوہات تلاش کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے غیر فعال ہونے پر پانج رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔

    ذرائع ایف بی ار نے بتایا کہ کمیٹی سابق سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ کی زیر سربراہی قائم کی گئی ہے ، کمیٹی کے دیگر ممبران میں سی ای او پاکستان سنگل ونڈ، سی ای او نیشنل آئی ٹی بورڈ، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت قانون اور ممبر ٹیکنالوجی سی ڈی اے شامل ہیں۔

    تحقیقاتی کمیٹی ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے مکمل اطلاق میں ناکامی کی وجوہات تلاش کرے گی۔

    آئی ایم ایف نے شکایت کی تھی کہ ایف بی آر گزشتہ دو سالوں میں چار شعبوں میں ٹریک اینڈ ٹریس نظام کا اطلاق نہیں کر سکا۔

    آئی ایم ایف نے حکومت کو بڑی ٹیکس چوری روکنے کیلئے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے مکمل اطلاق کا مطالبہ کیا ہے۔

    ایف بی آر گزشتہ دو سالوں میں سگریٹ، سیمنٹ ، شوگر اور کھاد کے شعبوں نظام کا اطلاق نہیں کر سکا، کمیٹی نظام کی ناکامی میں ایف بی آر افسران کے کردار کا بھی جائزہ لے گی۔

    کمیٹی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کیلئے الیکٹرانک سسٹم کی بجائے سٹیمپ سسٹم اور ونڈر کو استعداد پر بھی تحقیقات کرے گی۔

  • ملکی معیشت کے لئے اچھی خبر!  پی آئی اے کے تمام خسارے، واجبات اور قرضے ختم

    ملکی معیشت کے لئے اچھی خبر! پی آئی اے کے تمام خسارے، واجبات اور قرضے ختم

    اسلام آباد : پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے تمام خسارے، واجبات اور قرضے ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کرکے بیلنس شیٹ کلیئر کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ملکی معیشت کے لئے اچھی خبر آگئی ، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن پی آئی اے کے تمام خسارے، واجبات اور قرضے ختم ہوگئے اور بیلنس شیٹ کلیئر کردی گئی۔

    نجکاری حکام نے بتایا کہ پی آئی اے کے تمام خسارے، واجبات اور قرضے ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کردیے ہیں اور پاکستان اسٹاک ایکس چینج کو پی آئی اے کی کلیئر بیلنس شیٹ سے آگاہ کردیا گیا ہے۔

    پی آئی اے ایوی ایشن کےبڑے سرمایہ کاروں کیلئےپرکشش موقع ہے، پی آئی اے کے پاس ہر ہفتے 20 ملکوں کی 170 فلائٹس کے قیمتی روٹس ہیں۔

    پی آئی اے سعودی عرب تک ڈیڑھ لاکھ مسافر کی سفری سہولت دیتا ہے،نجکاری کے بعد پی آئی اے یورپ کے روٹس کھولے جاسکیں گے۔

    پی آئی اے کے پاس ایئر سروس ایگری منٹ کے تحت اہم ترین روٹس ہیں،ایئرسروس ایگری منٹ کے تحت پی آئی اے کے پاس 97 ملکوں میں سفر کے معاہدے ہیں۔

    گذشتہ روز پی آئی اے کی نجکاری کےلیے اظہاردلچسپی کی بولیاں طلب کی گئیں تھیں اور پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کو ایئرلائن کا قرض 830 ارب روپے ٹرانسفر کردیا ہے، پی آئی اےکارپوریشن لمیٹڈکےذمے202 ارب روپے کا قرض ہوگا۔

    بینکوں سے آپریشنز کیلئے ایک سوسڑسٹھ ارب روپے اورملازمین کےپینتیس ارب روپےکا قرض ادا کرنا ہوگا۔

    یاد رہے حکومت نے نئے آئی ایم ایف پروگرام سے قبل پی آئی اے کی نجکاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم نجکاری آئی ایم ایف ٹرم اینڈ کنڈیشن کے مطابق ہوگی۔

    دوسری جانب قومی ایئرلائن پی آئی اے قرض ری پروفائلنگ کیلئے کمرشل بینکوں سے ٹرم شیٹ طے پا گئی ہے، کمرشل بینکوں کی جانب سےرواں ہفتےاین او سی اوراثاثےواپس منتقل ہو جائیں گے۔

    ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹرم شیٹ سائن ہونے سے بینکوں کو دس برسوں تک تقریبا بارہ فیصد شرح سود پرقرض ملے گا، ابتدائی طورپر پی آئی اے کے اکاون فیصد حصص فروخت کیے جائیں گے اور انچاس فیصد شئیرز حکومت ملکیت میں ہی رہیں گے۔

  • ایف بی آر نے رواں مالی سال کے 9 ماہ کا ٹیکس ہدف حاصل کر لیا

    ایف بی آر نے رواں مالی سال کے 9 ماہ کا ٹیکس ہدف حاصل کر لیا

    اسلام آباد: ایف بی آر نے رواں مالی سال کے 9 ماہ کا ٹیکس ہدف حاصل کر لیا، ادارے نے کہا ہے کہ رواں مالی سال جولائی تا مارچ 6710 ارب ٹیکس حاصل کیا گیا۔

    ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال ٹیکس محصولات کا ہدف 6707 ارب روپے تھا، ایف بی آر نے ہدف سے 3 ارب روپے زائد ٹیکس اکھٹا کیا، جب کہ جولائی تا مارچ ایف بی آر نے 369 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے۔

    ایف بی آر نے ماہ مارچ کا 879 ارب روپے کا ٹیکس ہدف بھی حاصل کر لیا ہے۔ ترجمان ایف بی آر آفاق قریشی نے اے آر وائی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا رواں مالی سال جولائی تا مارچ ٹیکس آمدن کا ہدف حاصل کر لیا گیا، جولائی تا مارچ گزشتہ سال کی نسبت ٹیکس جمع کرنے میں 30 فی صد اضافہ ہوا۔

    واضح رہے کہ ایف بی آر نے یقینی بنایا ہے کہ منتخب ٹیکس دفاتر اور بینکوں کی برانچیں ہفتے اور اتوار کو بھی کھلی رہیں تاکہ ٹیکس جمع کرنا یقینی بنایا جا سکے۔

    ایف بی آر کی جانب سے تاجر دوست اسکیم بھی جاری کی گئی ہے، جو میٹرو پولیٹن شہروں کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ کے علاوہ اسلام آباد میں بھی نافذ ہوگی اور اس کے تحت ٹیکس کلیکشن یکم جولائی 2024 سے شروع کی جائے گی۔

  • ایف بی آر کو مارچ 2024 میں ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا

    ایف بی آر کو مارچ 2024 میں ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا

    اسلام آباد : فیڈرل بورڈ اف ریونیو کو مارچ 2024 میں ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں 44ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے، ایف بی ار نے 29 مارچ تک 835 ارب ٹیکس جمع کیا۔

    تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ اف ریونیو (ایف بی آر) کو مارچ 2024 میں ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں مشکلات ہیں، ذرائع نے بتایا ایف بی آر کو ماہانہ بنیادوں پر چوالیس ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔

    ایف بی آر نے انتیس مارچ تک آٹھ سو پینتیس ارب روپے ٹیکس جمع کیا، مارچ میں آٹھ سو اناسی ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔

    ایف بی آر کا ابتدائی نو ماہ میں ٹیکس ہدف چھ ہزار سات سو سات ارب روپے ہے جبکہ ایف بی آر اب تک چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ ارب روپے ٹیکس جمع کرسکا۔

    ایف بی آر نے حکومت کی ڈیوٹی ٹیکسز جمع کرنے کیلئے ہفتہ اور اتوار کو بینک کھلے رکھنے کی ہدایت کی ہے۔

  • پیٹرول کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوسکتا ہے؟ بڑی خبر سامنے آگئی

    پیٹرول کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوسکتا ہے؟ بڑی خبر سامنے آگئی

    نمائندہ اے آر وائی شعیب نظامی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کاربن ٹیکس عائد کئے جانے کی تجویز پر عملدرآمد سے پیٹرول کی قیمت میں 20 سے 30 روپے کا اضافہ متوقع ہے تاہم فوری طور پر جنرل سیلز ٹیکس عائد کرکے پیٹرول کی قیمت کو 300 سے اوپر لے جایا جاسکتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام خبر کی میزبان مہر بخاری نے کہا کہ ایک طرف پاکستان اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلندیوں کو چھور رہی ہیں ، یہ سنگ میل پی آئی اے کی تیز ترین نجکاری اور بینکوں کی سرمایہ کاری اور آئی ایم ایف سے معاملات کی بہتری پر عبور کیا گیا، سرمایہ کاروں کے لیے ایک اچھی خبر ہے تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ صنعتی ٹیرف میں کمی کے لئے کپیسیٹی چارجز کم کئے جائیں۔

    آئی ایم ایف کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک کی ضروریات کے لیے پہلے نئی پاور پلانٹس کو چلایا جائے اور مکمل پیداواری صلاحیت پیدا کی جائے کیونکہ اس سے کپیسیٹی چارجز میں 18 فیصد کمی آسکتی ہے، اس وقت نئے پاور پلانٹس سے پوری بجلی نہ خریدنے کے نتیجے میں سالانہ 2000 ارب روپے کا بوجھ عوام پر براہ راست آتا ہے۔

    آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے آئندہ بجٹ میں جنرل سیلز ٹیکس کو 18 فیصد کرنے کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن ٹیکس عائد کردیا جائے، اگر ایسا کیا گیا تو نہ صرف مدنی تیل کی طلب میں کمی آئے گی بلکہ ٹیکس میں صوبائی شیئر سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔

    مہتام حیدر کی خبر کے مطابق حکومت نے 20 سے 30 فیصد کاربن ٹیکس کا متبادل آئندہ بجٹ میں لگانے کا اختیار لینے کا فیصلہ کرلیا ہے، پیٹرولیم مصنوعات پر اس وقت پیٹرولیم ڈولپمنٹ لیوی کی مد میں 60 روپے فی لیٹر وصول کیا جاتا ہے اگر یہ تجویز منظور کرلی گئی تو فی لیٹر 20 سے 30 روپے کاربن لیوی عائد کی جائے گی۔

    آئی ایم ایف کی شرائط کے حوالے سے نمائندہ اے آر وائی شعیب نظامی نے پروگرام خبر میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اصل مسئلہ  حکومت کے پاس فنڈ نہ ہونے کا ہے اور اگر جنرل سیلز ٹیکس لگاتے ہیں تو وہ این ایف سی کا حصہ بن جاتا ہے اور اگر حکومت پی ڈی ایم لگاتی ہے تو وہ این ایف سی کا حصہ نہیں ہوتا اور تمام پیسے وفاق کے پاس آتے ہیں۔

    شعیب نظامی نے بتایا کہ اس وقت پیٹرول اور ڈیزل پر لیوی فی لیٹر 60 روپے عائد ہے، جو وفاقی حکومت وصول کررہی ہیں، اب کاربن ٹیکس کی تجویز بھی سامنے آئی ہیں، اگر پیٹرول پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوتا ہے تو اس کا 57.5 فیصد صوبوں کو چلا جائے گا۔

    نمائندہ اے آر وائی کا کہنا تھا کہ وفاق کے ریونیو بڑھانے کے لیے کاربن ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے اور اگر کاربن ٹیکس عائد ہوتا ہے تو تمام فنڈز وفاق کو ملیں گے اور وفاق اپنا خسارہ کسی حد تک کم کرسکے گا۔

    شعیب نظامی نے کہا کہ اگر حکومت کاربن ٹیکس لگاتی ہیں تو پیٹرول کی قیمت میں 20 سے 30 روپے کا اضافہ متوقع ہے لیکن اس کے لیے قانون سازی کرنا پڑے گی یا فوری طور پر جنرل سیلز ٹیکس عائد کرکے پیٹرول کی قیمت کو 300 سے اوپر لے جایا جاسکتا ہے، جو مہنگائی کا نیا طوفان لائے گا۔

  • چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

    چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

    عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی آئی ایم ایف ممبرز ممالک کے معاہدوں پر بات نہیں کرتا۔

    اے آر وائی نیوز کو عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات میں آئی ایم ایف کی چین پاک معاہدوں کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ وہ ممبرز ممالک کے معاہدوں پر بات نہیں کرتا۔

    ذرائع آئی ایم ایف کے مطابق سیاسی جماعتوں کے ساتھ گزشتہ سال جولائی میں میٹنگز ہوئیں تھیں۔ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ 9 ماہ کیلیے تھا اور پھر انتخابات ہونے تھے اور یہ معاہدہ آئندہ ماہ اپریل میں ختم ہو جائے گا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان سے نئے پروگرام کے حوالے آئی ایم ایف حکام بات چیت کریں گے۔ دسمبر میں آئی ایم ایف کی جانب سے ممبر ممالک کے ایس ڈی آر کوٹے میں اضافہ کیا گیا، تاہم نئے قرض پروگرام میں پاکستان کو کتنا فنڈ ملے گا اس کے لیے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

    آئی ایم ایف ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کو ترقیاتی بجٹ کو فریز کرنے کا مشورہ خساروں کو کم کرنے کے لیے دیا گیا۔ اگر گردشی قرضے پر قابو نہ پایا گیا تو پھر پاکستان کو نرخوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ معاہدے میں آئی ایم ایف تجاویز پر پاکستان نے بہتر عملدرآمد کیا۔ پاکستان کی اقتصادی پیشرفت حوصلہ افزا ہے مگر معیشت کو چیلنج اب بھی درپیش ہیں، پاکستان کو دیر پا شرح نمو کےلئےسیاسی مشکلات سے نمٹنا ہوگا۔

    آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقدامات معاشی اہداف کے ساتھ کرنا ہوں گے، ٹیکس محصولات، بنیاد کو وسیع اور توانائی شعبے میں بر وقت ایڈجسٹمنٹ ضروری ہیں، بجلی شعبے میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

    آئی ایم ایف کی یہ بھی تجویز ہے کہ توانائی شعبوں میں قیمتوں میں طریقہ کار کے تحت اضافہ کرنا ہوگا تاکہ مہنگائی میں اضافہ نہ ہو، مانیٹری پالیسی میں قرضوں پر شرح سود کی 20 لائن کے بارے میں محتاط ہونا ہوگا، ٹیکس تناسب میں اضافہ لازم ہے کہ یہ ہدف آئی ایم ایف کیساتھ بات چیت میں اہم نقطہ ہوگا۔

    ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کو قرضے کی واپسی کی سہولت درکار ہے یا اس کے بغیر معاملات بہتر ہو سکتے ہیں۔ قرض کی رقم اور آئی ایم ایف پالیسی پیکیج کے ذریعے معیشت پائیدار ہوگی تاہم مالیاتی اداروں، دوست ممالک سے مالیاتی تعاون کا انحصار پاکستان پر ہے۔

  • پی آئی اے کی نجکاری سے قبل حکومت کا بڑا فیصلہ

    پی آئی اے کی نجکاری سے قبل حکومت کا بڑا فیصلہ

    اسلام آباد : حکومت نے نجکاری سے قبل پی آئی اے کو دو کمپنیوں کی صورت میں تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا، وفاقی حکومت پی آئی اے کے تمام قرضے کلیئر کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری سے قبل بڑا فیصلہ کرلیا ، پی آئی اے کی 2کمپنیاں بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کو دو حصوں میں کرنے کے بعد پی آئی اے ہوا بازی اور ہولڈنگ کمپنیاں بنائی جائیں گی۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نجکاری سے قبل پی آئی اے تمام قرضے کلیئر کرے گی اور پی آئی اے کی مقامی قرضہ جات ہولڈنگ کمپنی میں منتقل کیے جائیں گے۔

    ذرائع کے مطابق پی آئی اے کی غیر ملکی قرضوں کے لیے وفاقی حکومت متحرک ہوگئی، پی آئی اے کے 88 ملین ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے لئے حکومت نے نئی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔

    ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی حکومت غیر ملکی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کرنا نہیں چاہتی بلکہ 10سال کے لیے نئے شرح سود پر سیٹلمنٹ کی کوششیں کرے گی۔

  • بھٹہ مزدور کے بچوں کے نصیب میں خاک کیوں ہے؟ دل دہلا دینے والی رپورٹ

    بھٹہ مزدور کے بچوں کے نصیب میں خاک کیوں ہے؟ دل دہلا دینے والی رپورٹ

    انسانوں کے بارے میں مشہور کہاوت ہے کہ مر کر خاک ہو جانا ہے، لیکن پاکستان میں لاکھوں مزدور جو بھٹوں پر کام کرتے ہیں وہ جیتے جی خاک ہو گئے ہیں، ان کا اوڑھنا بچھونا، کام کرنا سب خاک ہے۔ بھٹے پر کام کرنے والا خاندان مل کر پورے دن میں 1200 سے 1500 اینٹ ہی بنا پاتا ہے اور اس کے لیے انھیں 1200 سے 1500 روپے یعنی ایک روپیہ فی اینٹ ملتا ہے۔ اس رقم میں سے 50 فی صد قرضے کی رقم کٹ جاتی ہے اور پورے خاندان کی روز کی آمدن 500 سے 600 روپے تک ہی ہوتی ہے۔

    بھٹہ مزدور نسل در نسل مقروض کیوں؟

    اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول سے کچھ میل دور فتح جنگ روڈ پر قائم ایک بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں نے بتایا کہ ان کا قرضہ 20 سال میں بھی ختم نہیں ہوا۔ بھٹے پر کام کرنے والے ایک مزدور غلام شبیر نے 20 سال پہلے 2 لاکھ روپے قرضہ لیا تھا، ڈیڑھ لاکھ واپس کیا، اب اس کی بیٹی 18 سال کی ہے اور عید کے بعد اس کی شادی کے لیے قرضہ لینا ہے۔

    جب اس سے پوچھا گیا کہ 20 سال میں قرضہ واپس کیوں نہیں کر سکے تو اس کا جواب تھا کہ جو کمایا جب بیمار ہوئے تو سب خرچ کرنا پڑا۔ پاکستان میں اینٹوں کے بھٹے شہروں سے دور بنائے جاتے ہیں، اس لیے صحت کی سہولیات ان سے کوسوں دور ہیں۔ نامساعد حالات کی وجہ سے علاج معالجہ بھی نہیں کرا سکتے، جب تک بیماری بگڑ کر خطرناک نہ بن جائے علاج کے لیے گھریلو ٹوٹکے آزماتے رہتے ہیں، پھر پتا چلتا ہے کہ بیماری موت کا سبب بن گئی تو پھر کفن دفن یا میت اپنے آبائی علاقے میں پہنچانے پر پھر قرضہ لیتے ہیں۔

    یہ کہانی اینٹوں کے بھٹہ پر کام کرنے والے ہر دوسرے خاندان کی ہے۔ فیاض نے بتایا کہ 20 سال میں 2 لاکھ روپے کا قرض اس لیے ختم نہیں ہوا، کیوں کہ اس کے والد بھٹہ پر مزدوری کے دوران مٹی سانس کے ساتھ پھیپھڑوں میں جمنے، بھٹے کی چمنی سے نکلنے والے آلودہ دھوئیں اور غیر معیاری پانی پینے کی وجہ سے دمہ کے مریض بن گئے تھے۔ بھٹہ پر مزدوری بہت کم تھی، اس لیے مرض پلتا رہا اور بگڑتا رہا، مزدوری کم تھی اور قرضہ اتارنا ہوتا تھا، اس لیے وہ علاج معالجے پر خرچ نہیں کر سکتے تھے۔

    فیاض کا کہنا تھا کہ بھٹے پر مزوری کے دوران بیمار ہونے والے جب تک موت کے قریب نہیں پہنچتے علاج نہیں کراتے، جب موت کے قریب پہنچتے ہیں تو قرضہ لے کر علاج کراتے ہیں، اسی لیے ہر مزدور علاج معالجے، یا کسی اپنے پیارے کے فوت ہو جانے کی صورت میں کفن دفن کی وجہ سے مقروض در مقروض ہوتا رہتا ہے۔

    بھٹہ مزدور مرد اور خواتین اور ان کے بچے بیمار کیوں رہتے ہیں؟

    بھٹے پر کام کرنے والی خواتین کے لیے طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ خواتین زچگی کے دوران بھی اینٹیں بناتی ہیں۔ اس لیے ہر خاتون کے ایک سے دو بچے پیدائش کے وقت مر جاتے ہیں اور وہ اسے اپنا نصیب سمجھ کر پھر کام پر لگ جاتی ہیں۔ بھٹے پر کام کرنے والی ایک خاتون کے بچے 18 اور 16 سال کے ہو گئے ہیں اور اس کے ساتھ بھٹے پر کام کراتے ہیں، اسے یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ حاملہ ماں کا ہر مہینے چیک اپ کرایا جاتا ہے، تاہم اس نے زچگی کے دوران کسی ڈاکٹر کو چیک اپ نہیں کرایا۔

    بھٹہ مزدوروں نے بتایا کہ یہاں پینے کے لیے صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے، کبھی کوئی فلٹریشن پلانٹ تک نہیں لگایا گیا۔ آلودہ پانی پینے سے بچے، بزرگ اور خواتین بار بار بیمار ہوتی ہیں اور ان کے بچے غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے ہدف میں عالمی سطح پر 2030 تک حاملہ ماؤں کی شرح اموات ہر ایک لاکھ میں 70 خواتین تک مقرر کیا گیا ہے، ان حالات میں پاکستان کے لیے یہ ہدف حاصل کرنا اور بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔

    چائلڈ اسٹنٹنگ، بھٹہ مزدوروں کی آئندہ نسل بھی غذائی قلت کا شکار

    عالمی بینک نے اکتوبر 2023 میں جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں 40 فی صد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جب کہ سندھ میں بچوں کو پلائے جانے والے 50 فی صد پانی میں بیکٹریا شامل ہوتے ہیں۔ عالمی بینک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5 سال سے کم عمر بیش تر بچوں کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں، پاکستان میں 5 سال سے کم عمر بیش تر بچوں کے لیے بیت الخلا کی سہولت نہیں، پاکستان میں 5 سے کم عمر بیش تر بچوں کے ساتھ مویشی بھی پلتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق پیدائش کے بعد پہلے 1000 دن بچے کی ذہنی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے، پیدائش کے بعد پہلے ایک ہزار دنوں میں بچے کا 80 فی صد ذہن بنتا ہے، پاکستان میں 5 سال سے کم بچوں کی اموات میں 45 فی صد وجہ خوراک کی کمی ہے۔ خوراک کی کمی کا شکار بچے مٹی کھانے کی عادت کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ ایسی مٹی بھی کھا جاتے ہیں جس میں مویشیوں کا فضلہ شامل ہوتا ہے۔ اینٹوں کے بھٹے پر اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہوئے یہ بچے بھی اسی لیے غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس کھانے کے لیے ضرورت کے مطابق خوراک نہیں ہوتی، اور پینے کے لیے صاف پانی نہیں ہے۔

    بھٹہ مزدوروں کی حالت زار میں بہتری کے لیے اقدامات

    اسلام آباد بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے صدر چودھری غضنفر نے بتایا کہ بھٹہ مزدوروں کے لیے چائلڈ لیبر کی کوئی پابندی نہیں ہے، یہ والدین خود اپنے بچوں کو اپنے ساتھ بھٹے پر لے کر آتے ہیں اور انھیں اپنے ساتھ ہاتھ بٹانے پر لگاتے ہیں۔ بھٹے پر کام کرنے کے لیے خاندان کے مرد اور عورت دونوں کو کام کرنا پڑتا ہے، اس لیے اگر وہ بچوں کو اپنے ساتھ نہ لائیں تو ان کے پیچھے گھر پر بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

    چوہدری غضنفر نے بتایا کہ اسلام آباد کی بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن ڈاکٹروں کی کسی بھی تنظیم کی جانب سے میڈیکل کیمپ لگانے کی کوششوں کا خیر مقدم کرے گی، اسی طرح اگر کوئی فلاحی ادارہ بھٹہ مزدوروں کی کالونی میں پانی کا فلٹریشن پلانٹ لگائے گا تو وہ اس کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔

    اسلام آباد کے معروف چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر جنید جہانگیر عباسی کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش سے لے کر پہلے 5 سال اس کی صحت، نشوونما اور صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے بہت اہم ہیں، ایسے میں مزدور اپنے بچوں کو زبردستی کام پر لگا دیں یا انھیں کام کرنے پر زیادہ روٹی کا لالچ دیں، یا ہاتھ نہ بٹانے پر انھیں تشدد کا نشانہ بنائیں تو یہ بچے تشدد پسند ہو جاتے ہیں اور بڑے ہو کر وہ اپنی محرومیوں کا انتقام معاشرے سے اسٹریٹ کرائمز کی شکل میں لیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بھٹہ مزدور، بھٹہ مالکان، میڈیا اور متعلقہ ادارے بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں کے بچوں کی جسمانی صحت بہتر بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔

    پاکستان اقوام متحدہ کے تمام کے تمام 17 ایس ڈی جیز کے اہداف پاکستان کی آئندہ نسلوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اس میں بچوں کو غذائی قلت سے بچانا، تعلیم کے مواقع دینا، صحت عامہ، پولیو اور دیگر ضروری ویکسینیشن فراہم کرنا، ماحولیاتی آلودگی سے بچانا، پینے کا صاف پانی فراہم کرنا اور سب سے اہم یہ کہ ان کے احساسات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

    اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے اہداف

    اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے اہداف کے حصول میں ایس ڈی پی آئی کا فریم ورک اور پاکستان میں منتخب نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے توقعات کیا ہیں؟ پاکستان اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اہداف پر ایک فریم ورک پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ یہ ایس ڈی جیز اہداف اور اس کا فریم ورک پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق ہیں۔ ان ایس ڈی جیز کے اہداف میں باقاعدہ ایک فریم ورک پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے، جس میں ایس ڈی جی 8، ایس ڈی جی 12 اور ایس ڈی جی 13 وہ اہداف ہیں جن میں مزدوروں کے لیے کام کرنے کا ماحول بہتر ہونا ضروری ہے۔

    یعنی انھیں پینے کا صاف پانی ملے

    واش رومز کی سہولت ہو

    ماحولیاتی آلودگی نہ ہو

    انھیں صحت اور ان کے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولت میسر ہو

    مزدوروں کے لیے اس فریم ورک میں لیبر قوانین پر عمل درآمد، ان کی رجسٹریشن، ان کے لیے ای او بی آئی میں رجسٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔

    تحقیقاتی ادارے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) نے اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور اانٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشنز پر عمل درآمد کے لیے ‘Socially and Environmentally Compliant Brick Kiln Framework’ (SECBKF)

    کے نام سے سماجی اور ماحولیات کے مطابق بھٹہ مزدورں کے لیے فریم ورک متعارف کرایا ہے۔ اس میں بھٹہ مالکان اور مزدورں کے درمیان ڈائیلاگ اور مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنے کی فضا پیدا کی جائے گی۔ فریم ورک کے تحت بھٹہ مزدوروں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ اسٹریٹجی طے کی جائے گی تاکہ بھٹہ مزدوروں پر بھی لیبر لاز کا ا طلاق کرتے ہوئے پاکستان مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کیے گیے معاہدوں اور وعدوں پر عمل درآمد کرا سکے۔

    سیاسی جماعتوں نے کیا وعدہ کیا؟

    موجودہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور پاکستان پیپلز پارٹی تینوں جماعتوں نے اپنے منشور میں آئی ایل او کے لیبر قوانین پر عمل درآمد کے فریم ورک پر عمل درآمد کا وعدہ کیا ہے۔ جس میں ان کے لیے مزدور کارڈ اور صحت کارڈ بنا کر دیے جائیں گے۔ اس فریم ورک میں انھیں ای او بی آئی میں رجسٹرڈ کیا جائے گا، ان کے لیے پنشن کی کوئی اسکیم لائی جائے گی، ایس ڈی جیز کے متعلقہ اہداف حاصل کیے جائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تینوں جماعتوں میں کون سب سے پہلے عمل درآمد کرتا ہے۔

  • رواں مالی سال کے  8 ماہ میں پاکستان نے کتنے ارب کا  بیرونی قرض حاصل کیا؟

    رواں مالی سال کے 8 ماہ میں پاکستان نے کتنے ارب کا بیرونی قرض حاصل کیا؟

    اسلام آباد: رواں مالی سال کے آٹھ ماہ میں پاکستان نے 6 ارب سڑسٹھ کروڑ اسی لاکھ ڈالر بیرونی قرض حاصل کیا۔

    تفصیلات کے مطابق اقتصادی امور ڈویژن نے رواں مالی سال کے 8ماہ میں بیرونی قرض کی تفصیلات جاری کردیں ، جس میں بتایا گیا کہ رواں مالی سال 6 ارب 67کروڑ 80 لاکھ ڈالر بیرونی قرض حاصل ہوا۔

    اقتصادی امور ڈویژن کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال 17 ارب 38 کروڑ ڈالر سے زائدبیرونی قرضوں کاتخمینہ لگایا، پاکستان کو بجٹ تخمینے سے کم قرض اب تک موصول ہوا ہے۔

    اقتصادی امور ڈویژن نے بتایا کہ جولائی تافروری84کروڑ80لاکھ ڈالر دو طرفہ قرض موصول ہوا، جس میں سعودی عرب نے59 کروڑ 51 لاکھ ڈالرتیل کی سہولت کیلئے فراہم کئے۔

    اس کے علاوہ چین نے پاکستان کو 6 کروڑ 73 لاکھ ڈالر سے زائد کا قرض دیا، نیا پاکستان سرٹیفکیٹ سے68 کروڑ 68 لاکھ ڈالر سے زائد حاصل کئے اور 2 ارب ڈالر ٹائم ڈیپازٹ کے تحت پاکستان کو موصول ہوئے۔

  • حکومت نے آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کے لیے ابتدائی پلان بنا لیا

    حکومت نے آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کے لیے ابتدائی پلان بنا لیا

    اسلام آباد: وزارت خزانہ کے ذرائع نے کہا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کے لیے ابتدائی پلان بنا لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی آخری قسط کی وصولی کے لیے پاکستان اور آئی ایم ایف میں اسٹاف لیول معاہدے کے بعد اب حکومت نے نئے قرض پروگرام کے لیے ابتدائی پلان بنا لیا ہے۔

    وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے قرض پروگرام کے حجم اور دورانیے کو تاحال حتمی شکل نہیں دی گئی، یہ نیا قرض پروگرام 3 سال یا اس سے زائد عرصے کے لیے ہو سکتا ہے، اس کا ممکنہ حجم 6 سے 8 ارب ڈالرز کا ہوگا۔

    ذرائع کے مطابق ایف بی آر میں اصلاحات کی جائیں گی، ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے گا، تقریباً 31 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے پلان بنا لیا گیا ہے، ریئل اسٹیٹ، زرعی شعبے سے ٹیکس وصولی ترجیحات میں شامل ہوگی، جو شعبے ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق 15 سے 20 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر کام ہو رہا ہے، ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو بڑھانے پر کام کیا جائے گا، ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے بھی ٹیکس نیٹ بڑھانے پر کام کیا جائے گا، حکومت گیس شعبے میں اصلاحات اور سستی توانائی پلان پر بھی کام کر رہی ہے، اس سلسلے میں مقامی وسائل پر انحصار حکومت کی ترجیح ہے۔

    حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ درآمد پر انحصار کم اور مقامی وسائل سے پیداوار بڑھانا حکومت کی ترجیح ہے، مقامی آئل ریفائنریز سے پیداوار بڑھانے کے پلان پر کام ہو رہا ہے، جس کی اپ گریڈیشن سے ساڑھے 6 ارب ڈالرز سرمایہ کاری متوقع ہے، بجلی کی تقسیم اور ترسیل کا نظام بھی بہتر بنایا جائے گا، اور توانائی شعبے کے سرکلر ڈیٹ میں اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔