Author: شعیب نظامی

  • آئی ایم ایف کا  9 ویں اور 10 ویں جائزے کو یکجا کرنے کا عندیہ

    آئی ایم ایف کا 9 ویں اور 10 ویں جائزے کو یکجا کرنے کا عندیہ

    اسلام آباد : آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ 9ویں اور 10ویں جائزے کو یکجا کرنے کا عندیہ دے دیا تاہم پاکستان پہلے نویں جائزے کو اکیلا مکمل کرنے کا خواہش مند ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات ہوئے، ورچوئل مذاکرات میں وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث معاشی ٹیم کے ہمراہ شریک ہوئیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو مذاکرات آگے بڑھانے کیلئے راضی کر لیا اور آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے کرنے کی درخواست کردی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے آئی ایم ایف نے 9ویں اور 10ویں جائزے کو یکجا کرنے کا عندیہ دے دیا ہے جبکہ پاکستان پہلے نویں جائزے کو اکیلا مکمل کرنے کا خواہش مند ہے۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ ورچوئل مذاکرات میں آئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ نمبرز پر بھی بات چیت کی گئی تاہم دونوں فریقین کے درمیان کوئی بڑی پیشرفت نہ ہو سکی۔

  • بجٹ سے قبل آئی ایم ایف نے پاکستان کے سامنے نئے مطالبات رکھ دیئے

    بجٹ سے قبل آئی ایم ایف نے پاکستان کے سامنے نئے مطالبات رکھ دیئے

    اسلام آباد : بجٹ سے قبل آئی ایم ایف کے نئے مطالبات سامنے آگئے، آئی ایم ایف نے وفاقی اور صوبائی اخراجات میں کمی سمیت ٹیکس آمدن کا ہدف 10 ہزار ارب روپے سے زائد مقرر کرنے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق بجٹ سے قبل پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان رابطہ ہوا ، جس میں آئی ایم ایف نےوفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات میں کمی کا مطالبہ کردیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے بجٹ میں ٹیکس آمدن کا ہدف 10 ہزار ارب روپے سے زائد مقرر کرنے کا بھی مطالبہ کردیا۔

    ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا محصولات کا ہدف بڑھانے کا مطالبہ سامنے آگیا، آئی ایم ایف ذرائع نے کہا ہے کہ
    ایف بی آر محصولات کو 10 ہزار ارب روپے تک لے جائے اور انکم ٹیکس وصولی بڑھانے کیلئے مزید اقدامات کیے جائیں۔

    پاکستانی وفد نے ایف بی آر محصولات ہدف 9200 ارب روپے مختص کرنے کی یقین دہانی کرائی، جس پر آئی ایم ایف نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات میں بڑی کمی کا مطالبہ کردیا۔

    آئی ایم ایف کا بجٹ میں اخراجات اور سبسڈی محدود کرنے کا بھی دباؤ ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے تمام اقدامات سے آگاہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔

    آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ نئے قرض کے حجم اور ان کے واپسی کے طریقے کار کے بارے میں بھی بتایا جائے۔

    ذرائع نے بتایا کہ ایف بی آر کا مشکل معاشی صورتحال میں محصولات میں بڑے اضافے پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے۔

  • آئندہ بجٹ میں بچوں کے ڈبے والے دودھ سمیت روزمرہ استعمال کی اشیاء پر کتنا ٹیکس لگے گا؟

    آئندہ بجٹ میں بچوں کے ڈبے والے دودھ سمیت روزمرہ استعمال کی اشیاء پر کتنا ٹیکس لگے گا؟

    اسلام آباد : آئندہ بجٹ میں امپورٹڈ دودھ ، ڈبوں میں بند گوشت، مچھلی اور مرغی پر سیلز ٹیکس بارہ فیصد سے بڑھا کر اٹھارہ فیصد کرنے کی تجویز دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بچوں کے امپورٹڈ دودھ پر سیلزٹیکس بڑھانے کی تجویز سامنے آگئی، ذرائع نے کہا ہے کہ امپورٹڈ ڈبے میں بند دودھ پر سیلز ٹیکس 12 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کا امکان ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈبے میں بند گوشت اور مچھلی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد کرنے کی تیاریاں جاری ہے ، ڈبے میں بند مرغی اوراس سے بنائی دیگر اشیا پر بھی سیلز ٹیکس 18 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ فروری کے منی بجٹ میں اضافی سیلز ٹیکس کی شرح وفاقی بجٹ میں بھی برقراررکھنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

    سیلز ٹیکس کے نائنتھ شیڈول کی کیٹیگری ای اور ایف پر سیلز ٹیکس 18 فیصد برقرار رکھنےکی تیاری ہے اور روزمرہ استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رکھے جانے کا امکان ہے۔

    فروری 2023 میں روزمرہ استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس شرح 17 سے بڑھا کر18 فیصد کی گئی تھی، ذرائع کے مطابق چائے، چینی، جام اور جیلی ، صابن،سرف اور برتن دھونے کے لیکوڈ پر سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد پر برقرار رکھنے جانے کا امکان ہے۔

    اس کے علاوہ ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش اور ماؤتھ فریشنر ، ڈبے میں بند مصالحہ جات، گوشت گلانے کے پاؤڈر ، چائے کی پتی اور ڈبے میں بند سبز قہوہ پر بھی سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رہے گا۔

  • وفاقی حکومت نے 1100 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کر دیا

    وفاقی حکومت نے 1100 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کر دیا

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے 1100 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کی دستاویز اے آر وائی نیوز نے حاصل کر لی ہے، وفاقی حکومت نے 1100 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کر دیا ہے۔

    مجوزہ بجٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ انفرا اسٹرکچر کی بحالی کو بجٹ میں اولین ترجیح دی گئی ہے، جس کے لیے 359 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے، توانائی کے 101 پراجیکٹس کے لیے 102 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے۔

    جامشورو میں 600 میگاواٹ کے 2 کول پاور پراجیکٹس کے لیے 12 ارب روپے، سکھی کناری پاور پراجیکٹ کے لیے 12.5 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

    ٹرانسپورٹ سیکٹر کے لیے 156.4 ارب کا ترقیاتی بجٹ، پانی کے 82 منصوبوں کے لیے 167 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ، صحت کی 38 اسکیموں کے لیے 20 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ، ایچ ای سی کے 152 پراجیکٹس کے لیے 45 ارب کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے، ایچ ای سی کے لیے 42 ارب کے 138 جاری اور 2.6 ارب کے 14 نئے پراجیکٹس بجٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔

    وزارت تعلیم و تربیت کا ترقیاتی بجٹ 6.2 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، ریلویز کے 33 پراجیکٹس کے لیے 32 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے، ریلوے بوگیاں خریدنے کے لیے 15 ارب کا پراجیکٹ بجٹ میں شامل ہے۔

    دستاویز کے مطابق آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے لیے 54.4 ارب روپے، سابق فاٹا اور ضم شدہ اضلاع کے لیے 55 ارب روپے، وزارت سائنس کے 41 پراجیکٹس کے لیے 5.5 ارب روپے، خوراک و زراعت کے 23 منصوبوں کے لیے 9.2 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے۔

    ایوی ایشن کے لیے 2.3 ارب کی جاری اور 2.4 ارب روپے کی نئی اسکیمیں بجٹ میں شامل کی گئی ہیں، کابینہ ڈویژن کے تحت اراکین پارلیمنٹ کی 90 ارب کی نئی اسکیمیں بجٹ میں شامل کر دی گئی ہیں، مواصلات کے لیے 98 ارب مالیت کے 77 منصوبے ترقیاتی بجٹ میں شامل ہیں۔

    وزارت ہاؤسنگ کے 90 جاری پراجیکٹس کے لیے 131 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ، آئی ٹی سیکٹر کے 31 پراجیکٹس کے لیے 6 ارب روپے، وزارت بین الصوبائی رابطہ کے لیے 1.9 ارب روپے، وزارت داخلہ کے 32 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 8 ارب روپے، وزارت میری ٹائم کے 8 پراجیکٹس کے لیے 2.3 ارب روپے، این ایچ اے کے لیے 68 ارب کے جاری اور 19 ارب کے نئے منصوبے ترقیاتی بجٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔

    دستاویز کے مطابق این ایچ اے کے 10 ارب کے پراجیکٹ بلٹ آپریٹ اور ٹرانسفر طریقہ کار کے تحت تعمیر ہوں گے، حیدرآباد سکھر موٹر وے 150 ارب کی لاگت سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

    پنجاب میں 6.3 ارب روپے کے 16 منصوبے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں شامل کیے گئے ہیں، سندھ میں 4 ارب روپے کے 7 منصوبے، خیبر پختونخوا میں 2.6 ارب روپے کے 8 منصوبے، بلوچستان میں7.5 ارب روپے کے 27 منصوبے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔

    پاکستان اٹامک انرجی کے 17 پراجیکٹس کے لیے 26 ارب روپے، اسپارکو کے 6 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 7 ارب روپے، وزارت منصوبہ بندی کے 23 منصوبوں کے لیے 33.8 ارب روپے، اور ریونیو ڈویژن کے 16 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 3.2 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے۔

  • نئے بجٹ میں انفراسٹرکچر کے منصوبے ترجیح ہونگے

    نئے بجٹ میں انفراسٹرکچر کے منصوبے ترجیح ہونگے

    وفاقی حکومت کی آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے حکمت عملی اے آر وائی نیوز  نے حاصل کرلی نئے بجٹ میں انفراسٹرکچر کے منصوبے ترجیح ہوں گے۔

    وفاقی حکومت آئندہ ہفتے اگلے مالی سال 2023-24 کا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ حکومت کی آئندہ مالی سال کے بجٹ کی حکمت عملی کیا ہے اس کی تفصیلات اے آر وائی نیوز نے حاصل کرلی ہیں۔

    مجموعی وفاقی ترقیاتی بجٹ 900 ارب تک جانے کا امکان ہے جس میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 700 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے جب کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مزید 200 ارب کے منصوبے شامل ہونگے

    نئے بجٹ میں انفراسٹرکچر کے منصوبے ترجیح ہونگے اور اس مد میں 359 ارب سے زیادہ رکھنے کی تجویز ہے۔

    دستاویز کے مطابق ٹرانسپورٹ سیکٹر کے لیے 156.4 ارب کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے جب کہ توانائی سیکٹر کے لیے 80.3 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ پانی منصوبوں کے لیے 90 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ جب کہ ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے 32.9 ارب کا ترقیاتی بجٹ ہوگا۔

    اس بجٹ میں صحت، تعلیم، ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیموں کیلیے 179 ارب کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے جب کہ ایچ ای سی کے منصوبوں کیلیے 44 ارب کا ترقیاتی بجٹ ہوگا۔

    دستاویز کے مطابق بجٹ میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلیے 54.4 ارب جب کہ سابق فاٹا اور ضم شدہ اضلاع کیلیے 55 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے۔

    اس کے علاوہ ریلویز کے لیے 32 ارب روپے، سائنس، آئی ٹی کے لیے 25.6 ارب، خوراک و زراعت کے لیے 9.2 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے۔

  • پاکستان کا موجودہ آئی ایم ایف پروگرام میں توسیع نہ کرانے فیصلہ، نئے قرض معاہدے کیلئے تیاریاں

    پاکستان کا موجودہ آئی ایم ایف پروگرام میں توسیع نہ کرانے فیصلہ، نئے قرض معاہدے کیلئے تیاریاں

    اسلام آباد : حکومت نے موجودہ آئی ایم ایف پروگرام میں توسیع نہ کرانے فیصلہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ نیا قرض معاہدہ کرنے کی تیاریاں شروع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق نگراں حکومت کے ذریعے نیاپروگرام لینے کی تیاریاں شروع کردی گئیں ، حکومت آئی ایم ایف پروگرام میں توسیع نہیں کرائے گی ، موجودہ قرض پروگرام 30 جون کوختم ہوگا۔

    وزارت خزانہ نے اگست میں آئی ایم ایف کے ساتھ نیا قرض معاہدہ کرنےکیلئےتیاریاں شروع کر دیں، معاون خصوصی طارق باجوہ اور سیکرٹری خزانہ نئےپروگرام سےمتعلق ورکنگ کر رہے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کودسمبر تک مزید 9 سے 11 ارب ڈالر کی غیر ملکی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ آئندہ بجٹ میں مجموعی طور 22 سے 24 ارب ڈالر ادائیگیاں کرناہوں گی۔

    ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ نہ کیا تواکتوبرتک ڈیفالٹ کاسنگین خطرہ ہوگا۔

    وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ نیا قرض معاہدہ موجودہ پروگرام سے زیادہ سخت ہو گا اور آئی ایم ایف سےنیا بیل آؤٹ پروگرام3 سال سے زائد کا ہو گا۔

  • موجودہ مالی سال 2023 پاکستان کی معیشت کیلئے بدترین سال رہا

    اسلام آباد : رواں مالی سال ٹیکس کی شرح بڑھنے سے مشروبات، سیمنٹ اور سگریٹ انڈسٹری تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق موجودہ مالی سال 2023 پاکستان کی معیشت کیلئے بدترین سال رہا، بجٹ کے بعد دو منی بجٹ اگست 2022 اور فروری 2023 میں لائے گئے۔

    رواں مالی سال ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی، جس سے ہزاروں غیر ضروری اور لگژری آئٹمرز پر ٹیکس اور ڈیوٹی بھی اضافہ ہوگا۔۔ مشروبات، سیمنٹ اور سگریٹ انڈسٹری تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی

    جس ے باعث ٹیکس اور ڈیوٹی بڑھنے سے مشروبات، سیمنٹ اور سگریٹ انڈسٹری سمیت کئی شعبے تباہی کے دھانے کو پہنچ گئے۔

    مشروبات انڈسٹری صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ریلیف کی شدید ضرورت ہے اور ٹیکسوں کی شرح کم ہونے سے زیادہ ٹیکس جمع ہوگا، اگر انڈسٹری پوری ہی بند ہوگئی تو پھر ٹیکس کس سے لیں گے۔

    صنعت کار اور کاروباری طبقہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں اس وقت ٹیکسوں کی شرح ظالمانہ ہے، آئندہ بجٹ میں اگر ٹیکسوں میں ریلیف نہ ملا تو صنعت جو اس وقت منفی 8 فیصد کی شرح نمو پر ہے مزید تباہی کی طرف چلی جائے گی۔

  • رواں مالی سال بیش تر معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا رہا

    رواں مالی سال بیش تر معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا رہا

    اسلام آباد: رواں مالی سال بیش تر معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رواں مالی سال بیشتر معاشی اہداف کے حصول میں ناکامی کا سامنا رہا، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کردہ دستاویز کے مطابق معاشی ترقی کا ہدف 5 فی صد تھا جو محض 0.3 فی صد رہا۔

    صنعتی ترقی کا ہدف 5.9 تھا لیکن 2.9 فی صد رہام زراعت کی ترقی کا ہدف تین 3.9 تھا جو 1.55 فی صد رہا، خدمات شعبے کی ترقی کا ہدف 5.1 فی صد تھا لیکن وہ 0.8 فیصد رہا۔

    بڑی صنعتوں میں معاشی ترقی کا ہدف 7.4 فیصد تھا جو منفی 7.9 فی صد رہا، جنگلات کی ترقی کا ہدف 4.5 فی صد تھا لیکن 3.9 فیصد رہا۔

    نیشنل اکاؤنٹس کے مطابق لائیو اسٹاک کی شرح نمو 3.7 فی صد رہی، ماہی گیری کی شرح نمو 1.4 فی صد رہی، معدنیات کے شعبے کی ترقی کی شرح منفی 4.4 فی صد رہی، مینوفیکچرنگ کی گروتھ منفی 3.9 فی صد رہی، بجلی کی پیدوار میں 6 فی صد اضافہ ہوا، تعمیرات کے شعبے کی گروتھ منفی 5.5 فی صد رہی۔

  • بجٹ میں ٹیکس ریلیف کے امکانات کم، سپر ٹیکس ختم نہ کرنے کا فیصلہ

    بجٹ میں ٹیکس ریلیف کے امکانات کم، سپر ٹیکس ختم نہ کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ٹیکس ریلیف کے امکانات کم ہوں گے، حکومت نے ایوان صنعت و تجارت کو ٹیکسز میں چھوٹ دینے سے انکار کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع نے کہا ہے کہ بجٹ میں ٹیکس چھوٹ مرحلہ وار ختم کیا جا رہا ہے، اس لیے ٹیکس رعایتیں مزید کم ہوں گی، بجٹ میں سپر ٹیکس برقرار رکھنے کے لیے ایف بی آر بہ ضد ہے۔

    ایف بی آر ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو سپر ٹیکس ختم نہ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے اس لیے آئندہ بجٹ میں 15 کروڑ سے زائد آمدن والوں پر سپر ٹیکس ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    سالانہ 15 کروڑ آمدن پر 1 فی صد سپر ٹیکس، سالانہ 20 کروڑ آمدن پر 2 فی صد سپر ٹیکس، سالانہ 25 کروڑ آمدن پر 3 فی صد سپر ٹیکس، سالانہ 30 کروڑ آمدن پر 5 فی صد سپر ٹیکس اور سالانہ 30 کروڑ سے زائد آمدن پر 10 فی صد سپر ٹیکس لاگو رہنے کا امکان ہے۔

    آٹو موبائل، مشروبات، کیمیکل، فرٹیلائزر، اسٹیل اور سیمنٹ سیکٹر پر سپر ٹیکس ہوگا، پٹرولیم سیکٹر کی 30 کروڑ سے زائد آمدن پر، فارماسوٹیکل، شوگر اور ٹیکسٹائل سیکٹر، اور بینکنگ سیکٹر پر 10 فی صد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔

  • پی ڈی ایم حکومت پی ٹی آئی دور کے آئی ایم ایف قرض پروگرام سے جان چھڑانے لگی

    پی ڈی ایم حکومت پی ٹی آئی دور کے آئی ایم ایف قرض پروگرام سے جان چھڑانے لگی

    اسلام آباد : حکومت پاکستان موجودہ قرض پروگرام سے جان چھڑانے میں دلچسپی لینے لگی، آئی ایم ایف کا موجودہ قرض پروگرام تیس جون دو ہزار تیئس کو ختم ہوجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت پاکستان نے جون کے بعد نیا قرض پروگرام نئی شرائط کے ساتھ لینے پر غور شروع کردیا ، آئی ایم ایف کا موجودہ قرض پروگرام 30 جون 2023 کو ختم ہوجائے گا۔

    وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی بحالی تاخیرکا شکار ہے، جس کے باعث حکومت نے فنڈنگ کے متبادل پر غور شروع کردیا ہے، جس کے بعد موجودہ قرض پروگرام ادھورا ختم ہونے کے امکانات بڑھ گئے۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان موجودہ قرض پروگرام سے جان چھڑانے میں دلچسپی لینے لگی ہے اور عمران خان کے دور حکومت کے قرض پروگرام سے چھٹکارے کیلئے متبادل ذرائع پر غور کررہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان دوست ملکوں سے مزید فنڈنگ کا انتظام کرنے پر غور کرنے لگی، سابقہ حکومت کے قرض پروگرام پر عمل درآمد کے لیے سخت شرائط مانی گئیں۔

    فروری میں منی بجٹ سے 170 ارب روپے کےمزید ٹیکسز لگائے گئے، ڈالر کے ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق لانے کی حکمت عملی سے ڈالر کا ریٹ بڑھا۔

    اس کے علاوہ ایکسپورٹ سیکٹر کے لیے بجلی اور گیس کے رعایتی نرخ ختم کیے گئے، بجلی اور گیس کے صارفین کے لیے ریٹ میں 32 سے 40 فیصد تک اضافہ کیا گیا تاہم موجودہ قرض پروگرام کا اسٹاف لیول معاہدہ 9 فروری سے تاخیر کا شکار ہے۔