Author: تقدیس احمد

  • ڈالرز میں آمدنی، چوکیدار کی قسمت بدل گئی، ویڈیو دیکھیں

    ڈالرز میں آمدنی، چوکیدار کی قسمت بدل گئی، ویڈیو دیکھیں

    انٹرنیٹ پر آج کل جزو وقتی کام کرکے لوگ عام نوکریوں کی نسبت کہیں زیادہ آمدنی حاصل کررہے ہیں اور یہ ذریعہ آمدن لوگوں میں خاصا مقبول بھی ہو رہا ہے، ایک ایسے ہی چوکیدار  نے سب کو حیران کر ڈالا۔

    لاہور کے ایک سرکاری کالج میں سیکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے والے نذیر احمد نے اپنے شوق اور لگن کی بدولت تھوڑی سی محنت سے نہ صرف امریکی ڈالر کمائے بلکہ ایک نئی مثال بھی قائم کی۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نذیر احمد نے بتایا کہ میں چوکیدار کی نوکری کے ساتھ گزشتہ 6 سال سے فری لانسنگ کا کام بھی کرتا ہوں، اس سے قبل ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں چوکیدار کی ملازمت کے دوران وہاں کے لڑکوں سے کمپیوٹر چلانا سیکھا۔

    انہوں نے بتایا کہ میں نے اس وقت ایک لیپ ٹاپ لیا تھا جس کے بعد اب چھٹی کے بعد آن لائن فوٹو شاپ کا کام کرتا ہوں۔

    فری لانسنگ

    چوکیدار نذیر احمد نے نوجوانوں کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ جب میں کم تعلیم یافتہ ہوکر ملک میں ڈالر لاسکتا ہوں تو وہ لڑکے جو تعلیم یافتہ ہیں بیرون ملک جانے کے بجائے یہاں بیٹھ کر بھی اچھی آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔

  • پلاسٹک بیگز سے اینٹیں بنانے کا جدید اور حیرت انگیز کارنامہ

    پلاسٹک بیگز سے اینٹیں بنانے کا جدید اور حیرت انگیز کارنامہ

    لاہور : پاکستان سمیت دنیا بھر میں صدیوں سے اینٹیں روایتی بھٹوں پر مٹی، پانی اور آگ کے امتزاج سے تیار کی جاتی رہی ہیں لیکن آب اینٹیں پلاسٹک کی مدد سے تیار کی جارہی ہیں۔

    اینٹیں بنانے کا پرانا طریقہ کار نہ صرف ماحول پر منفی اثر ڈالتا ہے بلکہ توانائی اور وسائل کے کے بڑے اخراجات کا سبب بھی ہے۔

    ٹیکنالوجی کے اس دور میں اب اینٹیں بھی ایک نئے اور ماحول دوست طریقے سے بن رہی ہیں یعنی پاکستان میں پلاسٹک سے اینٹیں تیار کرنے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کی بنی اینٹوں ایکو برکس ٹائلز سے بلند و بالا گھر تیار کیے جائیں گے اور مہنگے سیمنٹ کی تیار اینٹوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔

    اس حوالے سے کمپنی کے سی ای او گلفام عابد نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پلاسٹک ایک عالمی مسئلہ ہے جو بہت سی مشکلات کا باعث بنتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 500 ٹن پلاسٹک صرف لاہور میں ڈاؤن سائٹ پر ضائع ہوتا ہے۔

    اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا آئیڈیا تھا کہ شہر کی تمام پلاسٹک کو اکٹھا کرکے اسے کام میں لایا جائے، جس پر ریسرچ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ پلاسٹک کو ایکو برکس میں تبدیل کریں گے۔

    ریت، بجری، سمینٹ اور پلاسٹک کے اشتراک سے اینٹوں ایکو برکس ٹائلز تیار کیے جاتے ہیں، اور اس میں دو اقسام کی پلاسٹک کو استعمال کیا جاتا ہے ایک شاپنگ بیگس اور دوسرا بچوں کے چپس کے پیکٹ کی پلاسٹک شامل ہیں۔

    ان تمام اجزاء کو ایک مخصوص طریقے سے ملاکر مکسچر بنایا جاتا ہے جس کے بعد یہ پلاسٹک کی اینٹیں تیار ہوتی ہیں۔

  • لاہور اورنج لائن میٹرو کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور کون ہیں؟ ویڈیو رپورٹ‌

    لاہور اورنج لائن میٹرو کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور کون ہیں؟ ویڈیو رپورٹ‌

    پاکستان کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور کا اعزاز حاصل کرنے والی ندا صالح جنہوں نے اس شعبے میں بھی مردوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ملک کا نام روشن کیا۔

    لاہور اورنج لائن ٹرین کو متعارف ہوئے تقریباً 5 سال ہونے کو ہیں اور اس کے افتتاح سے لے کر آج تک کروڑوں مسافروں نے اس ٹرین سے استفادہ کرتے ہوئے پُرسکون سفر کیا۔

    وطن عزیز میں مختلف شعبہ جات میں خواتین کیلیے ایک محفوظ اور معاون ماحول فراہم کرکے ان میں نہ صرف اعتماد پیدا کیا جارہا ہے بلکہ خواتین کے لیے روزگار کے نئے دروازے بھی کھولے جارہے ہیں۔

    ان میں ایک شعبہ ٹرین ڈرائیونگ کا بھی ہے جس میں لاہور کی ہونہار بیٹی ندا صالح نے اپنی ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شعبے میں نہ صرف قدم رکھا بلکہ اس میں شاندار کامیابی بھی حاصل کی۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ندا صالح نے اپنی جدوجہد اور کامیابی کے بارے میں بتایا، ان کا کہنا تھا کہ میں نے ٹرانسپورٹیشن انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ مجھے بچپن سے ہی ٹرین چلانے کا شوق تھا، تو تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے اورنج لائن میں بحیثیت انجینئر اپلائی کیا تھا۔ ان دنوں ٹرین ڈرائیوروں کا ایک بیج تیار ہورہا تھا تو میں اپنے چائینیز منجمنٹ سے کہا کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کیلیے یہ شعبہ ہونا چاہیے جس پر انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی۔

    ند اصالح نے بتایا کہ جب میں نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ میں ٹرین ڈرائیور بننا چاہتی ہوں پہلے تو انہوں نے اس پر اعتراض کیا لیکن بعد میں میری ضد اور دلچسپی کو دیکھنے ہوئے رضامندی کا اظہار کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ٹرین چلانا آسان نہیں تو کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے یہ ایک مکمل ذمہ داری کا کام ہے، سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے میں تمام سروسنگ اور مینٹیننس چیک کرکے مطمئن ہونے کے بعد تمام تر ایس او پیز کے ساتھ ٹرین کو آپریٹ کرتی ہوں۔

    واضح رہے کہ اورنج لائن ٹرین علی ٹاؤن سے ڈیرہ گجراں تک 26 اسٹیشن سے ہر پانچ منٹ بعد روزانہ صبح 6 بجے سے رات 10 بجے تک سفر کرتی ہے۔

  • پاکستان کا پہلا تتلی گھر (دلچسپ اور معلوماتی ویڈیو رپورٹ)

    پاکستان کا پہلا تتلی گھر (دلچسپ اور معلوماتی ویڈیو رپورٹ)

    فضا میں اؑڑتی اور پھولوں پر منڈلاتی رنگ برنگی تتلیاں تو آپ نے دیکھی ہوں گی لیکن آج ہم آپ کو پاکستان کا پہلا تتلی گھر دکھا رہے ہیں۔

    یہ تتلی گھر لاہور میں بنایا گیا ہے جو اب تک پاکستان کا واحد تتلی گھر ہے، بلکہ جس وقت یہ بنایا گیا تھا تو اس وقت خطے کے کسی ملک میں تتلی گھر نہیں تھا۔

    اس تتلی گھر میں ماہر حیاتیات سمیت تربیت یافتہ اسٹاف موجود ہے جو تتلیوں کی افزائش نسل، اقسام اور ان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

    سینئر ماہر حیاتیات نازنین سحر نے اس حوالے سے دلچسپ معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ ہر تتلی کا ایک الگ پودا ہوتا ہے جو اس کی نسل اور مزاج سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ تتلیاں اسی پودے کے پھول پر بیٹھ کر انڈے دیتی ہیں، ورنہ نہیں دیتیں۔ اس لیے اس کی شناخت کرنا کہ کس پودے پر وہ انڈے دے گی یہ بھی بہت چیلنجنگ ٹاسک ہوتا ہے۔

    نازنین سحر نے بتایا کہ انڈے سیکنڈ فیز میں لاروا میں تبدیل ہوتے ہیں، تو انہیں لیب لے جایا جاتا ہے، جہاں ان کی فیڈنگ کرائی جاتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں پیوپا بن کر لگ بھگ وہ تتلی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور آخری مرحلے میں وہ مکمل تتلی بن جاتے ہیں۔

    ماہر حیاتیات نے بتایا کہ انڈوں سے تتلی بننے کا تک عمل 35 سے 40 دن پر مشتمل ہوتا ہے۔ تاہم ایک تتلی کی زندگی انتہائی مختصر ہوتی ہے جو عام طور پر 7 سے 8 دن یا زیادہ سے زیادہ 15 دن ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ لوگ یہاں تفریح کے لیے آتے ہیں تو تتلی گھر دیکھ کر حیران اور خوش ہوتے ہیں۔ بالخصوص بچوں کے لیے یہ انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ ہم یہاں آنے والوں کو تتلیوں کے بارے میں مکمل معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔

    ماہر حیاتیات کا کہنا تھا کہ تتلی اگرچہ ایک کیڑا ہے، لیکن آلودگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

  • پی آئی اے جہاز کی لاہور شہر کے درمیان لینڈنگ، ایسا کیوں ہوا؟ حیران کن ویڈیو رپورٹ

    پی آئی اے جہاز کی لاہور شہر کے درمیان لینڈنگ، ایسا کیوں ہوا؟ حیران کن ویڈیو رپورٹ

    لوگوں نے جہاز کو آسمان پر اڑتے دیکھا ہوگا یا ایئرپورٹ پر کھڑے ہوئے مگر لاہور شہر کے بیچوں بیچ پی آئی اے کا جہاز حیران کن منظر پیش کرتا ہے۔

    لاہور کے مرکزی علاقے میں صرف پی آئی اے کا طیارہ ہی کھڑا نہیں بلکہ بہت سارے لوگ جن میں بچے اور بڑے سب شامل ہیں۔ جوش وخروش سے سیڑھیاں چڑھتے جہاز کے اندر جا رہے ہیں۔

    اس حوالے سے لاہور کے ایک پرانے شہری نے جہاز کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کا یہ طیارہ 70 سال پرانا ہے اور تقریباً 40 سال سے تو لاہور میں اسی مقام پر کھڑا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 1987 میں یہ جہاز کراچی سے لاہور لایا گیا تھا۔ دو سال تک ایئرپورٹ پر کھڑا رہنے کے بعد اس کو یہاں منتقل کر دیا گیا۔

    ایک نوجوان جس شہر کے بیچوں بیچ جہاز دیکھ کر حیران رہ گیا وہ تجسس میں یہاں آیا اور اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے پہلے یہی سنا تھا کہ لاہور میں ایک ہی علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ ہے، لیکن جب یہاں سے گزرے تو پتہ چلا کہ یہاں بھی ایک ایئرپورٹ ہے تو دیکھنے کے لیے آ گئے۔

    ایک اور شہری جو اپنے بچوں کے ساتھ یہاں تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ اپنے والد کے ساتھ یہاں آتے تھے اور اب وہ اپنے بچوں کو یہاں ساتھ لاتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہاں کھڑا پی آئی اے کا یہ جہاز ان افراد کے لیے جنہوں نے کبھی جہاز میں سفر نہیں کیا یا سوار نہیں ہوئے۔ تجربہ حاصل کرنے کے لیے اچھی چیز ہے۔

    بچے جہاز میں آکر خوش ہیں لیکن سب سے زیادہ خوشی ان بچوں کو ہو رہی ہے۔ جنہیں کھڑی کے ساتھ والی سیٹ ملی ہے، لیکن جہاز کی اس کھڑی سے ان بچوں کو بادلوں کے بجائے لاہور کی سڑکیں ہی نظر آتی ہیں۔

    جہاز میں آنے والے تمام بڑے ہوں یا بچے جہاز کی سیٹوں پر بیٹھ کر خود کو مسافر تصور کرتے ہیں۔ خوب انجوائے کرتے ہیں اور جہاز میں سفر کا تصور کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔