Author: عثمان دانش

  • اولاد نے بزرگ والدین کو بے سہارا چھوڑ دیا، عدالت کا اہم فیصلہ

    اولاد نے بزرگ والدین کو بے سہارا چھوڑ دیا، عدالت کا اہم فیصلہ

    پشاور: ہائی کورٹ کے جج جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ والدین ایک کمرے میں 8 بچوں کو پال سکتے ہیں لیکن بڑے ہوکر وہی اولاد بوڑھے ماں باپ کو نہیں سنبھال سکتے، بیوی کا بھی حق ہے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی لیکن والدین کا حق سب سے پہلے نمبر پر اور سب سے زیادہ ہے۔

    پشاور ہائیکورٹ میں بوڑھے والدین کو بچوں کی طرف سے بے سہارا چھوڑے جانے کے ایک کیس میں عدالت نے برزگ والدین کے پانچ بیٹوں پر ہر مہینے 26 سے 28 تاریخ تک تین تین ہزار روپے والدین کو دینے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے متعلقہ ایس ایچ او کو تمام بیٹوں سے تین تین ہزار روپے لے کر ان کے والدین تک پہنچانے کی ہدایت کی، جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ایس ایچ او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھیں، ان کا جو بیٹا بیرون ملک مقیم ہے، ان کے گھر کا پتا کر کے ان کی بیوی کو اطلاع دیں، کہ اپنے شوہر کو آگاہ کرے کہ ہر مہینے تین ہزار روپے والدین کے لیے بھیجیں، اگر پیسے نہیں بھیجتے تو پھر ہم ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیں گے۔

    قبل ازیں، بوڑھے والدین کو بے سہارا چھوڑنے پر بیٹوں کے خلاف دائر کیس میں ایس ایچ او نے بیٹوں کو بغیر ہتھکڑیوں کے عدالت میں پیش کیا تو عدالت نے ایس ایچ او کی سرزنش کر دی، جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ان کی ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے، بغیر ہتھکڑی کیوں پیش کیا، ہتھکڑیوں میں ان کو لاتے تو ان کو کچھ احساس ہوتا۔

    جسٹس روح الامین نے والدین کو بے سہارا چھوڑنے والے بیٹوں سے استفسار کیا کہ آپ کی شادیاں کس نے کرائیں، کیا خود شادی کی یا والدین نے شادی کا خرچہ برداشت کیا، اس پر عدالت میں موجود تینوں بھائیوں سے جواب دیا کہ والدین نے ان کی شادیاں کی ہیں، جسٹس روح الامین نے کہا کہ آپ کے والدین عدالت میں کھڑے ہیں اور شکایت کر رہے ہیں کہ آپ لوگوں نے اس عمر میں ان کو بے سہارا چھوڑا ہے، آپ لوگوں کو کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ آپ تینوں نے داڑھی رکھی ہے اور ٹوپیاں پہنی ہیں، ایہ اچھی بات ہے نیکی کے کام کرنا چاہیے لیکن جب تک آپ والدین کی خدمت نہیں کریں گے اللہ آپ کو نہیں بخشے گا۔

    عدالت میں بے آسرا ماں نے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے پانچ بیٹے ہیں تین عدالت میں موجود ہیں، ایک بیرون ملک ہے، لیکن ہم اکیلے رہ رہے ہیں، ایک بیٹا ہے اس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں، گھر کا 6 ہزار ماہانہ کرایہ ہے اور اس کے علاوہ 2 ہزار بجلی کا بل بھی ہے، لیکن ان کے بچوں نے انھیں چھوڑ دیا ہے اور اب وہ خود کوئی کام بھی نہیں کرسکتی، شوہر بیمار ہے کل بھی اسپتال لے کر گئی لیکن علاج کے پیسے نہ ہونے پر واپس گھر آ گئے۔

    ماں نے بتایا کہ ایک کمرے میں نے 8 بچوں کو پالا تھا لیکن اب میرا کوئی آسرا نہیں ہے، بزرگ خاتون کی فریاد پر عدالت میں موجود زیادہ تر لوگ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے، اور آبدیدہ ہوگئے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ کتنی مشکل سے ان ماں پاب نے آپ کو بڑا کیا ہوگا آپ لوگ ان کا خیال نہیں رکھیں گے تو کون رکھے گا، بیوی کا بھی حق ہے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا بھی حق ہوتا ہے لیکن بزرگ والدین کی خدمت سب سے پہلے ہے، ابھی اس سے پہلے ایک کیس سن رہے تھے ہم، 4 بیٹوں نے والد پر جان قربان کر دی تھی، والدین کے قدموں تلے جنت کا کہا گیا ہے اور آپ لوگوں نے بزرگ والدین کو ایسے چھوڑ دیا ہے، ہم آپ کو ایک مہینے کے لیے ڈی آئی خان جیل بھیج دیں گے، رمضان کا مہینہ جیل میں بیوی بچوں سے دور گزاریں گے تو کچھ احساس ہوگا۔

    عدالت میں موجود بزرگ والدین کے بڑے بیٹے نے والدین کو ساتھ لے جانے پر رضا مندی ظاہر کی تو عدالت نے ان کو والدین ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی، اور ہر مہینے تین تین ہزار روپے تمام بھائیوں سے والدین کو دینے کا حکم دے دیا۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے عدالت میں موجود ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مجاہد علی خان سے استفسار کیا کہ حکومت کا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جس سے ایسے لوگوں کی امداد ہو سکے، اے اے جی نے عدالت کو بتایا کہ احساس پروگرام اور بیت المال سے ہو سکتی ہے ان کی مدد، اس پر جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ احساس پروگرام تو ہے لیکن لوگوں میں احساس نہیں ہے۔

    جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ اے اے جی صاحب والدین کے تحفظ کے لیے آپ لوگوں نے جو آرڈیننس بنایا تھا کیا وہ صرف دکھانے کے لیے تھا، صوبائی حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ ایسے والدین کی مدد کی جا سکے، عدالت نے اے اے جی مجاہد علی خان کو برزگ والدین کو صحت کارڈ اور احساس پروگرام سے مدد فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔

  • آٹا، گھی اور تیل میں آئرن سمیت اہم وٹامنز کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے قانون منظور

    آٹا، گھی اور تیل میں آئرن سمیت اہم وٹامنز کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے قانون منظور

    پشاور: خیبر پختون خوا میں آٹا، گھی اور تیل میں آئرن اور فولک ایسڈ سمیت اہم وٹامنز کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے قانون منظور کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق عوام کو معیاری، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور صحت بخش خوراک فراہم کرنے کے لیے خیبر پختون خوا کی صوبائی کابینہ نے فوڈ فورٹیفکیشن ایکٹ 2021 کے مسودے کی منظوری دے دی۔

    ایکٹ کو جلد صوبائی اسمبلی سے بھی منظور کرایا جائے گا۔

    صوبائی وزیر برائے خوراک اور سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی عاطف خان نے بتایا کہ عوام کو محفوظ اور متوازن غذا کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

    انھوں نے کہا اس ایکٹ کا مقصد آٹے، گھی اور خوردنی تیل میں آئرن، فولک ایسڈ سمیت اہم وٹامنز کی فراہمی یقینی بنانا ہے، معیاری، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور کھانا صحت مند زندگی اور معاشرے کے لیے انتہائی اہم ہے، جس کے ملک کی معیشت کی ترقی پر براہ راست اثرات ہوتے ہیں۔

    صوبائی وزیر نے کہا کہ محکمہ خوراک کے افسران کو واضح ہدایات کی ہیں کہ ملاوٹ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی لائیں اور مرتکب افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائیاں کی جائیں، حکام خاص طور پر اسپتالوں، اسکولوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے احاطے میں کینٹینوں اور کھانے پینے کی دکانوں کا خصوصی طور پر انسپکشن کریں۔

    نیشنل پروگرام منیجر نیوٹریشن انٹرنیشنل ڈاکٹر عرفان اللہ نے بتایا کہ غذائی قلت ایک عالمی مسئلہ ہے، آئرن، آیوڈین، زنک، وٹامن اے اور ڈی، وٹامن بی 12، اور فولک ایسڈ ہماری غذا کے انتہائی اہم اجزا ہیں، جن کی کمی مختلف پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ نیوٹریشن انٹرنیشنل نے ملک میں لگ بھگ ایک ہزار فلور ملوں میں 2,333 مائیکرو فیڈرز لگائے ہیں، خوردنی تیل اور گھی میں وٹامن اے اور ڈی کو یقینی بنانے کے لیے نیوٹریشن انٹرنیشنل ملوں کو بھی سپورٹ کرتی ہے۔

  • خیبر پختونخوا: عدالت نے کرشنگ پلانٹس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا

    خیبر پختونخوا: عدالت نے کرشنگ پلانٹس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا

    پشاور: عدالت نے مردان میں کرشنگ پلانٹس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق کے پی کے شہر مردان کے مختلف علاقوں میں لگے کرشنگ پلانٹس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ضلعی انتظامیہ کو غیر قانونی طور پر لگائے گئے کرشنگ پلانٹس کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن کارخانوں سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں، جو ماحول کے لیے نقصان دہ ہیں، ان کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہاں پر دریاؤں کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے، مائننگ ڈیپارٹمنٹ نے غیر قانونی لیز دے کر بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔

    کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او مردان زاہد اللہ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید سکندر حیات شاہ اور درخواست گزار کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مردان میں کرشنگ پلانٹس گھروں کے قریب لگائے گئے ہیں۔ جن سے سانس کی مختلف بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے، اس پر چیف جسٹس قیصر رشید خان نے ریمارکس دیے کہ اگر اس حوالے سے کوئی غیر قانونی لیز جاری کی گئی ہے، تو اس کو ہم اسکریپ کر دیں گے، ہم نے پہلے بھی ایسے لیز اسکریپ کیے ہیں، آبادی کے قریب جو کرشنگ پلانٹس لگائے گئے ہیں ان کے خلاف انتظامیہ کارروائی تیز کرے۔

    ڈپٹی کمشنر مردان حبیب اللہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے ہیں، متعدد غیر قانونی کرشنگ پلانٹس کو سیل کیا گیا ہے، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مردان زاہد اللہ نے عدالت کو بتایا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ابھی تک 70 ایف آئی آر درج کیے جا چکے ہیں، 18 ایف آئی آر اس سال درج ہوئے ہیں، جب کہ 21 افراد کو گرفتار کیا گیا، پولیس فورس ہر وقت کسی بھی دوسرے ادارے کی مدد کے لیے تیار رہتی ہے۔

    کرشنگ پلانٹس مالکان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے کرشنگ پلانٹس کے لیے قانونی طور پر لیز لیا ہے، اور پلانٹ آبادی سے 700 میٹر دور ہے، لیکن پھر بھی ان کو بند کیا گیا ہے۔

    اس پر ڈپٹی کمشنر مردان نے عدالت کو بتایا کہ سارے امور کی نگرانی کی جا رہی ہے، جو لیز قانون کے مطابق اور آبادی سے مطلوبہ فاصلے پر ہے، ان کھول دیا جائے گا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کسی کا کاروبار بند کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی انسانی صحت کے ساتھ کھیلے اور ماحول کو خراب کرے۔

    عدالت نے ڈپٹی ڈائریکٹر انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی ممتاز علی کو متعلقہ علاقوں کا دورہ کرنے کا حکم دے دیا، اور کہا کہ وہ دیکھیں کہ کون سے علاقے میں ایس او پیز پر عمل نہیں ہو رہا، عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو سارے امور کی نگرانی سخت کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 17 مئی تک ملتوی کر دی۔

  • ٹک ٹاک صارفین کیلئے بڑی خبر آگئی

    ٹک ٹاک صارفین کیلئے بڑی خبر آگئی

    پشاور : پشاور ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد شیئر کرنے والوں کو بلاک کرنے کا حکم دے دیا اور کہا ٹک ٹاک ایک عالمی ایپ ہے دنیا سے کٹ بھی نہیں سکتے۔

    تفصیلات کے مطابق پشاورہائی کورٹ میں ٹک ٹاک کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، سماعت چیف جسٹس قیصررشیداورجسٹس عبدالشکور نے کی۔

    پی ٹی اے کے وکیل جہانزیب محسود اور درخواست گزار خاتون کیجانب سے نازش مظفرایڈووکیٹ پیش ہوئیں، سماعت میں پی ٹی اےوکیل نے بتایا کہ رپورٹ آج صبح جمع کی لیکن عدالت کونہیں پہنچی،پ ٹک ٹاک سے متعلق ایک طریقہ کار تیار کیا ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ غیر اخلاقی مواد شیئر کرنے والوں کو بلاک کیا جاتا ہے اور بعدمیں اکاؤنٹ بھی مستقل طور پر بلاک کردیا جاتا ہے لیکن اب پیکا آرڈیننس آیاہے،ایف آئی اے کوزیادہ اختیارہے۔

    جس پر جسٹس قیصررشید نے کہا پیکا آرڈیننس زیادہ ترسیاسی پروپیگنڈے کی روک تھام کیلئے بنایاہے، ہماری اقدارکے مطابق کام ہونا چاہیے، غیراخلاقی موادشیئرکرنےکی اجازت نہیں دے سکتے۔

    جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیئے کہ ٹک ٹاک ایک عالمی ایپ ہے دنیا سے کٹ بھی نہیں سکتے، ٹک ٹاک کی فلٹریشن کی جائے،اقدار کیخلاف اقدامات روکے جائیں۔

    جسٹس عبدالشکور کا کہنا تھا کہ بچے خودکشیاں کررہے ہیں، جس پر وکیل پی ٹی اے نے جواب دیا کہ وہ پب جی گیم ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پب جی پر پابندی لگائی تھی لیکن بعد میں کھول دیا گیا۔

    عدالت نے حکم دیا کہ جو بھی غیراخلاقی موادشیئرکرتے ہیں ان کوبلاک کریں اور پی ٹی اے کو 31مئی تک رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    خیال رہے پشاور ہائی کورٹ میں ٹک ٹاک کیخلاف مقامی خاتون سارہ خان نے درخواست دائر کر رکھی ہے۔

  • صوبائی حکومت عاصمہ رانی کے قاتل کے خلاف ڈٹ گئی

    صوبائی حکومت عاصمہ رانی کے قاتل کے خلاف ڈٹ گئی

    پشاور: خیبر پختون خوا کی حکومت عاصمہ رانی کے قاتل کے خلاف ڈٹ گئی ہے، آج پشاور ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے مقتولہ کے خاندان کی مجرم کے ساتھ صلح کے خلاف اپیل پر دلائل دیے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں آج عاصمہ رانی قتل کیس میں مرکزی مجرم کے ساتھ صلح کے معاملے پر صوبائی حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، سماعت جسٹس روح الامین اور جسٹس شکیل احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔

    اے اے جی محمد نثار خان نے عدالت کو بتایا کہ میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی کو رشتے سے انکار پر گھر کے سامنے قتل کیا گیا، مجرم مجاہد آفریدی نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر طالبہ کو قتل کیا اور فرار ہو گئے، مقتولہ نے حالت نزع میں بھی مجرم مجاہد آفریدی کا نام لیا اور اس کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔

    اے اے جی محمد نثار نے بتایا مجرم مجاہد آفریدی شادی شدہ ہے اور وہ عاصمہ رانی سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن رشتے سے انکار پر مجرم نے میڈیکل کی طالبہ پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا، اس کیس کا ٹرائل چلا، جس میں مجرم مجاہد آفریدی کو سزائے موت اور ان کے ساتھیوں کو بری کیا گیا۔

    عاصمہ رانی کے والدین نے بیٹی کے قاتل کو معاف کردیا

    اے اے جی کے مطابق اب مقتولہ کے خاندان نے مجرم کے ساتھ راضی نامہ کر لیا ہے، مجرم بااثر ہے، اگر اس طرح قتل کر کے راضی نامے ہوتے رہے تو پھر ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا، بااثر لوگوں کو اگر اس طرح معاف کیا جاتا رہا تو فساد فی الارض پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگا، اس لیے صوبائی حکومت نے راضی نامے کو چیلنج کیا ہے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

    اے اے جی نے عدالت کو بتایا کہ مقتولہ کا خاندان صرف قصاص معاف کر سکتا ہے تعزیر کی سزا معاف نہیں کر سکتا، مجرم پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں، اس کیس میں سزا کا اختیار عدالت کے پاس ہے۔

    جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیے کہ قانون اس حوالے سے قرآن و سنت سے رہنمائی کی ہدایت کرتا ہے، اگر فساد فی الارض بھی ہے تو اس میں بھی قرآن و سنت کی رہنمائی لینی ہے۔

    اے اے جی نے کہا سپریم کورٹ نے بھی اس کیس میں نوٹس لیا تھا، طالبہ کو قتل کرنے کے بعد مجرم سعودی عرب فرار ہوگیا تھا، اور مجرم کو انٹرپول کے ذریعے سعودی عرب سے واپس لایا گیا۔

    عدالت نے اے اے جی کے دلائل سننے کے بعد سماعت 29 مارچ تک ملتوی کر دی۔ یاد رہے کہ عاصمہ رانی ایوب میڈیکل کلاج میں تھرڈ ایئر کی طالبہ تھی، کالج سے چھٹیوں پر وہ گھر گئی تو جنوری 2018 میں مجاہد آفریدی نے ان کو گھر کے سامنے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

  • الزامات ثابت ہونے پر سینیئر سول جج نوکری سے برخاست

    الزامات ثابت ہونے پر سینیئر سول جج نوکری سے برخاست

    پشاور: سنیئر سول جج تیمرگرہ محمد جمشید کنڈی کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزامات ثابت ہونے پر انھیں نوکری سے جبری طور پر برخاست کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے ڈسپلن اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں سینئر سول جج محمد جمشید کنڈی کو نوکری سے جبری ریٹائر کر دیا۔

    پشاور ہائیکورٹ نے سنیئر سول جج کی جبری رخصت کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا، نوٹیفکیشن کے مطابق محمد جمشید کنڈی کے خلاف دوران سروس مس کنڈکٹ کے الزامات لگے تھے، جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے ملوث جوڈیشل افسر کے خلاف انضباطی کارروائی کا آغاز کیا۔

    تحقیقات کے لیے انکوائری افسر کی جانب سے ملزم کو حتمی شوکاز نوٹس جاری کیا گیا، جس کا انھوں نے جواب دیا، اس کے بعد وہ نجی سماعت کے لیے بھی پیش ہوئے اور 14 فروری کو ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق انکوائری افسر نے انکوائری مکمل کر کے رپورٹ دی کہ مذکورہ جوڈیشل افسر مجرم پائے گئے ہیں، جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے جوڈیشل افسر کو خیبر پختون خوا گورنمنٹ سرونٹس رولز 2011 کے تحت نوکری سے جبری طور پر برخاست کر دیا۔

    جنسی زیادتی کا کیس

    سنیئر سول جج پر ایک خاتون عظمیٰ شہزادی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا کیس تھا، جمشید کنڈی سینئر سول جج تیمرگرہ تھے، ان پر خاتون نے الزام لگایا تھا کہ جج نے انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔

    جے آئی ٹی رپورٹ میں جج جمشید کنڈی کو کلیئر کیا گیا تھا، اس کے بعد ان کی درخواست پر خاتون کے خلاف کارروائی کا بھی آغاز کیا گیا تھا۔ تاہم جب ہائیکورٹ کی جانب سے انکوائری مکمل ہو گئی تو مذکورہ جج کو قواعد کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا گیا۔

    خاتون سے زیادتی کے الزام میں سینئرسول جج گرفتار

    نومبر 2021 میں خیبر پختون خوا کے ضلع دیر کے علاقے بلامبٹ میں خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کے الزام میں جمشید کنڈی کو پولیس نے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے انھیں معطل کر دیا۔

    خاتون جن کا تعلق چترال سے ہے اور پشاور میں رہائش پذیر ہے، نے ملزم پر الزام لگایا ہے کہ ان کی بہن کو نوکری دلانے کا جھانسا دے کر ملزم نے انھیں زیادتی کا نشانہ بنایا۔ خاتون نے سول جج کے خلاف تھانہ بلامبٹ (دیر پائین) میں ایف آئی آر درج کر وایا۔

    ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے متاثرہ خاتون کو ان کی بہن کو نوکری دلانے کے لیے 15 لاکھ روپے طلب کیے، نقد رقم نہ ہونے پر خاتون نے ملزم کو اپنے زیورات جن کی مالیت 15 لاکھ روپے بنتی ہے، دیے۔

    خیبرپختون خواہ کے سینئر جج پر زیادتی کا الزام غلط ثابت، تحقیقات میں‌ ہوشربا انکشاف

    لیکن بعد میں خاتون کو بتایا گیا کہ اب نوکری ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے، ایف آئی آر میں خاتون نے کہا کہ ملزم نے رابطہ کیا کہ آپ میرے ساتھ لوئر دیر بلامبٹ جاؤ تاکہ میں آپ کو رقم واپس کروں، صبح سرکاری نمبر پلیٹ گاڑی میں ان کے ساتھ بغرض رقم واپس لینے گئی، تو سرکاری کالونی کے بنگلے میں چائے پلانے کے بعد مجھ سے جنسی خواہش پوری کرنے کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ اس کے بعد ان کو رقم واپس کر دیں گے، انکار پر ملزم نے زبردستی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا، اور زیورات کی رقم بھی واپس نہ کی۔

    پولیس کے مطابق متاثرہ خاتون کا ابتدائی میڈیکل ٹیسٹ ہوا، جس میں ریپ ثابت ہوا، جس پر ملزم کو 25 نومبر 2021 کو حراست میں لے لیا گیا۔

    ملزم جج رہا

    بعد ازاں دسمبر 2021 میں جنسی ہراسانی کے اس کیس میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر دیر کی نگرانی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے تحقیقات مکمل کی، جس میں انکشاف ہوا کہ سینئر سول جج پر ریپ کا الزام لگانے والی خاتون کے خلاف پنجاب میں 8 ایف آئی آرز درج ہیں۔

    دوسری جانب متعلقہ جج کی ضمانت درخواست منظور ہونے پر انھیں رہا کر دیا گیا۔

    انویسٹی گیشن رپورٹ کے مطابق سی ڈی آر سے معلوم ہوا کہ 9 نومبر سے 25 نومبر کے درمیان خاتون نے ایمرجنسی نمبر پر 15 سے 20 کالیں کیں، جن میں دو کالیں تیمرگرہ کیے گئے، جب کہ سی ڈی آر سے متعلقہ جج کی خاتون سے رابطہ بھی ثابت ہوا۔

    دوران تحقیقات معلوم ہوا کہ مدعیہ نے ابتدا میں اپنا نام دعا دختر اختر حسین سکنہ نشتر آباد پشاور بتایا، تاہم شناختی کارڈ سے معلوم ہوا کہ ان کی رہائش سندھ کے علاقے خیرپور کٹھیرا گمبٹ کی ہے، خاتون نے اپنا نام اور رہائش مختلف بتائے، بعد میں ان کی شناخت عظمیٰ شہزادی کے نام سے ہوئی۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ خاتون سے متعلق ایس پی پنجاب سے رابطہ کیاگیا، جب کہ سی پی او لاہور نے 8 ایف آئی آرز کا ریکارڈ بھیجا، جو خاتون کا کریمینل ریکارڈ تھا۔

    ایف ایس ایل رپورٹ سے بھی زیادتی کے شواہد نہیں ملے، رپورٹ کے مطابق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد سنیئر سول جج محمد جمشید کنڈی کے خلاف کیس ختم کر دیا گیا، تاہم عدالت نے ان کے خلاف مس کنڈکٹ کے حوالے سے انکوائری کا حکم دیا۔

  • مارخور کے سینگوں سے قیتمی انگوٹھیاں بنانے کا انکشاف

    مارخور کے سینگوں سے قیتمی انگوٹھیاں بنانے کا انکشاف

    چترال: مار خور کا شکار کرنے والے قانون کی گرفت میں آ گئے، چترال میں مار خوروں کا غیر قانونی شکار کرنے والے گروہ کو محکمہ وائلڈ لائف نے دھر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ وائلڈ لائف نے چترال میں مار خور کا غیر قانونی شکار کرنے والے 2 ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹ کر 2 لاکھ 50 ہزار جرمانہ کر دیا ہے۔

    محکمہ جنگلات اور وائلڈ لائف کے ترجمان لطیف الرحمٰن نے بتایا کہ دونوں ملزمان کا تعلق لوئر چترال سے ہے، شکاریوں کے قبضے سے مار خور کو مارنے کا سامان بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔

    لطیف الرحمٰن کے مطابق شکار کرنے والے افراد اونچے پہاڑوں میں عمر رسیدہ مار خور کا شکار کرنا چاہتے تھے، وہ شکار کا انتظار کر رہے تھے کہ عین وقت پر محکمہ وائلڈ لائف کے اہل کاروں نے ان کو گرفتار کر لیا۔

    رپورٹ کے مطابق شکاری مار خور کو مارنے کے بعد اس کے سینگ اور کھال مہنگے داموں فروخت کرتے تھے، ترجمان وائلڈ لائف نے بتایا کہ شکاریوں کے ساتھ مارخور کو پکڑنے والے آلات بھی موجود تھے، جو وائلڈ لائف نے اپنے تحویل میں لے لیے۔

    انھوں نے بتایا کہ مار خور کے سینگوں سے قیمتی انگوٹھی بنائی جاتی ہے، شکاری زیادہ عمر کے مارخور کا شکار کرتے ہیں، بڑے مار خوروں کے سینگ زیادہ بڑے ہوتے ہیں، شکاری ان کے شکار کے لیے اونچے پہاڑوں پر جاتے ہیں۔

    واضح رہے کہ محکمہ وائلڈ لائف نے مار خور کے شکار پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اور کسی کو بھی مارخور کی شکار کی اجازت نہیں ہے، نیز مارخوروں کی نسل کی بقا اور غیر قانونی شکار ختم کرنے کے لیے سرکاری سطح پر مار خور کی ٹرافی ہنٹنگ کی جاتی ہے، جس میں کروڑوں روپے کے عوض شکاری ایک مارخور کا شکار کرتا ہے۔

  • گلیات فیسٹول: سانحہ مری کے خوف میں مبتلا فیملیز کا اعتماد بحال ہو گیا

    گلیات فیسٹول: سانحہ مری کے خوف میں مبتلا فیملیز کا اعتماد بحال ہو گیا

    خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقام گلیات میں 3 روزہ فیسٹول تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ختم ہوگیا، تاہم گلیات فیسٹول نے سانحہ مری کے خوف میں مبتلا فیملیز کا اعتماد بحال کر دیا ہے۔

    محکمہ سیاحت و ثقافت خیبر پختون خوا اور گلیات ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اسنو فیسٹول کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں ملک بھر سے سیاح شریک ہوئے، سیاح قدرت کے حسین نظاروں کے ساتھ برف سے ڈھکے میدان میں رسہ کشی، تیر اندازی، اسکی اور دیگر گیمز سے بھرپور طور سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

    فوٹو کریڈٹ: شہریار انجم

    ملک بھر سے آئے سیاحوں نے فیسٹول کو خوب سراہا، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی سیاح انوشہ آصف نے بتایا کہ وہ اس سے پہلے بھی گلیات کئی بار آ چکی ہیں، لیکن اس بار یہاں برف باری معمول سے کچھ زیادہ ہے۔

    فوٹو کریڈٹ: شہریار انجم

    انوشہ نے انکشاف کیا کہ سانحہ مری میں ان کی فیملی بھی پھنس گئی تھی، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ بہ حفاظت گھر پہنچے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سیر و تفریح کو خیر باد کہہ دیں، سیر و تفریح صحت مند زندگی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

    گلیات کے برفیلے پہاڑوں میں فیسٹول سے لطف اندوز ہونے کے لیے انوشہ کی پوری فیملی آئی ہوئی تھی، انھوں نے کہا ہم نے خوب انجوائے کیا، معمول سے زیادہ برف باری کی وجہ سے مری میں تشویش ناک صورت حال پیدا ہوگئی تھی، حکومت کو چاہیے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات کرے۔

    اسلام آباد سے آئے ایک اور خاتون سیاح سحر آصف نے بتایا کہ گلیات بہت خوب صورت مقام ہے، سانحہ مری کے بعد برف والے علاقوں کی سیر پر جانے سے ہمارا دل گھبرا رہا تھا، لیکن یہاں آ کر اب بہت اچھا لگ رہا ہے، راستے کھلے ہیں اور برف پر کھیل کے مقابلے بھی خوب انجوائے کیے۔

    فوٹو کریڈٹ: شہریار انجم

    گلیات ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احسن حمید نے بتایا کہ سانحہ مری کے بعد یہ پہلا فیسٹول ہے، یہ ہر سال منعقد کیا جاتا ہے لیکن اس بار اس کے انعقاد کا مقصد سیاحوں کا اعتماد بحال کرنا تھا۔

    سیکریٹری ٹورزم عامر ترین نے بتایا کہ سانحہ مری افسوس ناک تھا، شدید برف باری کی وجہ سے راستے بند ہوگئے تھے، گلیات میں مری سے زیادہ برف باری ہوئی تھی لیکن انتظامیہ نے بر وقت ریسکیو آپریشن شروع کیا، جس کی وجہ سے گلیات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

    تین روزہ گلیات سنو فیسٹول شروع (شاندار تصاویر دیکھیں)

    عامر ترین نے بتایا کہ سنو فیسٹول سے سیاحوں کو اعتماد بحال ہوگا، مستقبل میں ناخوش گوار واقعات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، گلیات میں برف ہٹانے کے لیے استعمال ہونے والی مشینری میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

    واضح رہے کہ خیبر پختون خوا کے صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی بھی اسنو فیسٹول میں شریک تھے، صوبائی وزیر نے سیاحوں کے ساتھ گیمز میں بھی حصہ لیا، اور نشانہ بازی میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا، انھوں نے کہا کہ ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن میں سیاحت کے بہت امکانات موجود ہیں، اللہ تعالی نے ان علاقوں کو بہت خوب صورت بنایا ہے، اور دنیا بھر کے لوگ پاکستان کے سیاحتی مقامات کو دیکھنا چاہتے ہیں۔

  • تین روزہ گلیات سنو فیسٹول شروع (شاندار تصاویر دیکھیں)

    تین روزہ گلیات سنو فیسٹول شروع (شاندار تصاویر دیکھیں)

    نتھیاگلی: گلیات میں دلوں کو لبھانے والا فیسٹول شروع ہو گیا، معاون خصوصی اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے تین روزہ گلیات اسنو فیسٹول کا افتتاح کیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق تین روزہ گلیات سنو فیسٹول میں مختلف گیمز کھیلے جا رہے ہیں، جن میں زپ لائن، آرچری، سنو ٹیوب اور دیگر مقابلے شامل ہیں، سنو فیسٹول میں شرکت کے لیے سیاحوں کی بڑی تعداد گلیات پہنچ گئی ہے۔

    فوٹو کریڈٹ: طارق اللہ

    گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احسن حمید کا کہنا ہے کہ گلیات کے تمام راستے کھلے ہیں، سیاح بلاخوف و خطر گلیات آ سکتے ہیں اور فیسٹول سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

    فوٹو کریڈٹ: طارق اللہ

    انھوں نے کہا شدید برف باری کے بعد کچھ دنوں کے لیے گلیات میں سیاحوں کے داخلے پر پابندی تھی، اب حالات بہتر ہوگئے ہیں، ہم ملک بھر سے سیاحوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

    معاون خصوصی بیرسٹر محمد علی سیف نے افتتاح کے موقع پر کہا ہماری حکومت سیاحت کے فروغ کے لیے مسلسل کوشاں ہے، بڑی مشکلات کے بعد ملک میں امن و امان بحال ہوگیا ہے، ٹیررازم سے ٹورزم کی طرف سفر جاری ہے۔

    فوٹو کریڈٹ: طارق اللہ

    انھوں نے کہا ایسے علاقے ہیں جہاں ابھی تک لوگ نہیں گئے، اُن سیاحتی مقامات کو بھی عوام کے لیے کھولیں گے، سانحہ مری ایک افسوس ناک واقعہ تھا، عوام یہاں آئیں اور موسم کے ساتھ یہاں کے قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوں۔

  • جہیز: اپر چترال کے عوام کا بڑا فیصلہ

    جہیز: اپر چترال کے عوام کا بڑا فیصلہ

    چترال: اپر چترال کے عوام نے جہیز سے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا ہے، لڑکی کے گھر والوں سے جہیز مانگنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اپر چترال کے گاؤں لاسپور کے رہائشیوں نے شادی میں جہیز سے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔ علاقے کے بزرگوں نے ایک جرگہ منعقد کر کے جہیز کے غیر ضروری رواج کو ختم کرنے پر اتفاق کیا، اور ایک متفقہ قرار داد پیش کر کے اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

    علاقے کے بزرگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ شادی میں دلہن کے گھر والوں سے کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا، اور لڑکے کے گھر والے بھی غیر ضروری اخراجات کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔

    قرارداد میں کہا گیا کہ مہنگائی سے لوگ پہلے ہی سے پریشان ہیں، شای بیاہ کے دعوت میں کھانوں پر کم سے کم خرچہ کیا جائے گا، فضول خرچی سے گریز کیا جائے گا، اور جو لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ کرے گا اس سے سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا۔

    لاسپور سے تعلق رکھنے والے سید صاحب جان نے بتایا کہ جہیز اور غیر ضروری اخراجات کی وجہ سے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے پریشان رہتے ہیں، بہت سے ایسی لڑکیاں ہیں جن کی رخصتی جہیز کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پاتیں۔

    انھوں نے کہا جب کسی کی بیٹی کا رشتہ طے ہو جاتا ہے تو پھر لڑکے کے گھر والے اتنے ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ لڑکی کے گھر والوں کو وہ پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا، لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنا غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہے۔

    صاحب جان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ نہیں کرے گا، ہم نے اس فرسودہ روایت کو اب ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو بھی لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ کرے گا، اور جو اس قرار داد کی خلاف ورزی کرے گا، اس سے ہم بائیکاٹ کریں گے۔

    علاقہ مکینوں نے ضلعی انتظامیہ سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے تعاون کرے۔